باب چہارم
آگ،آنسو اور وار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدم آگے چلنے سے انکاری تھے اور وہ بے جان سی ہو کر دروازے پر ڈھے گئ
امی۔۔۔آواز شکستہ اور دکھوں سے لبریز تھی
اتنی مدھم گویا کسی کھای سے آی ہو
ابیر اسے زبردستی اٹھا کہ ماں کی معیت کہ قریب لائ
وہ چیخ نہیں رہی تھی
نا ہی بین کر رہی تھی
بس آنسووں کا سیلاب بہاے اپنی ماں کو بلا رہی تھی
درد اس کہ دل میں محسوس ہو رہا تھا اور وہ تر چہرہ لیے اپنی ماں کہ چہرے کو دیکھتی رہی ،،جیسے ہر نقش تا قیامت حفظ کرنا چاہتی ہو
وہاں بیٹھی عورتیں اسے بار بار اپنے ساتھ لگاتی مگر وہ نا انکی سنتی نا ان کہ پاس بیٹھتی بس خاموش نظروں سے ماں کو دیکھے گئ
آنسو خشک تھے
دل اداس تھا
پھر ایک دم اٹھ کہ باہر بھاگی
"تقی " سوحا دروازے پہ کھڑی تھی طہٰ اور علی بھی اسکہ ساتھ آے دور وہ کسی آدمی کہ ساتھ غنی انکل کو بھی کھڑا دیکھ رہی تھی
وہ ایک خاندان کی طرح اس کہ ساتھ تھے۔۔اس کہ دکھ میں شریک مگر۔۔۔۔
"تقی ابو" بس اتنا کہا اور آنکھیں پھر برسنے لگیں
"انکو یہاں لانا خطرے سے خالی نہیں۔۔اور انکو یہاں لانے کا بہت لمبا مرحلہ ہے اور اس طرح تم ۔۔۔ان کی نظروں میں آو گی جن سے تم نے انتقام لینا ہے"
"مگر تقی ابا ایک آخری دفع تو انہیں دیکھ لیں۔۔۔بھاڑ میں گئیں ساری مصلحتیں"
"سوحا بیٹے سمجھو وہ باہر نہیں آسکتے یہ مشکل ہے" غنی انکل نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا
سارے میں جیسے ایک دم دکھ ہی دکھ بھر گیا تھا
اس کا دل ایک بار پھر رونے لگا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کو گۓ آج دوسرا دن تھا ،،اکیڈمی بھی بند تھی کیونکہ اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز ٹرپ پر تھے
ابھی بھی وہ لاونج میں صوفے پہ بیٹھی تھی،،سر گھٹنوں میں دیے لمبے بال کھلے کمر پہ گرے تھے آنکھیں اور ناک رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں
"سوحا"تقی آہستہ سے اسکے سامنے والے صوفے پہ آبیٹھا
"کیسی ہو
"مجھے خوشیاں راس ہی نہیں ہیں " سر اٹھایا تو چہرہ آنسووں سے تر تھا"مجھے بھی امی کہ ساتھ ہی چلے جانا چاہیے تھا"
"نہیں سوحا ایسے نہیں کہتے" وہ سامنے کہ صوفے سے اٹھ کہ اس کہ سامنے نیچے آ بیٹھا
"کیوں نا سوچوں تقی ،،کیوں نا سوچوں ؟ گیلی سانس اندر کھینچ کہ بال کان کہ پیچھے اڑسے "کیا میرے کوی خواب نہیں ،،میرا زندگی پہ کوی حق نہیں ہے؟ میں کیا سوچ رہی تھی کہ ایک وقت تو ایسا آے گا جب سب کچھ ٹھیک ہوگا،،میں امی اور ابو اکٹھے ایک ساتھ رہیں گے' کبھی تو یہ آزمائش ختم ہوگی ،،کبھی تو مجھے بھی خوش ہونے کا حق ہوگا کبھی تو" وہ جیسے سارے شکوے کر کر کہ تھک گئ تھی ،،،ایک دم پیچھے صوفے کی پشت سے ٹیک لگایا
"مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں کچھ بھی برداشت نہیں کر پاوں گی ۔۔بس میرا دل پھٹ جاے گا ،،میں کچھ بھی برداشت نہیں کر سکتی" سوحا کہ ہر الفاظ دکھ سے لبریز تھے۔۔۔اس کا لہجہ ،،اس کی آنکھیں جیسے اب کچھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں
تقی اس کہ دونوں ہاتھ پکڑے نیچے بیٹھا اسے سن رہا تھا،،شاید اسکا دکھ کم کرنے کی کوشش۔
"پتہ نے تقی، سب سے دکھ والی بات کیا ہے؟" آنکھ سے آنسو گر کہ تقی کہ گھٹنے پہ گرا
"آخری وقت میں امی ابو کہ ساتھ نہیں تھیں اور نا ہی ابو نے انکو آخری بار دیکھا"
"ہاں یہ دکھ میں سمجھ سکتا ہوں میری امی بھی آخری وقت میں یہاں نہیں تھیں ابو کہ پاس" پہلی بار وہ کچھ بولا
دروازہ ایک دم کھلا تھا اور طہٰ اندر آیا ،،سوحا اور تقی کو یوں بیٹھے دیکھ کر وہ اندر تک جل بھن گیا تھا
"پہلے میں سوچتی تھی کہ بدلے میں کچھ نہیں رکھا مگر اب میں یہ سوچ رہی ہوں کہ میں بشیر خان کا گھر اپنے ہاتھ سے جلاوں گی"
"ٹھیک ہے نا ؟ تم ساتھ دو گے نا میرا؟" ہاتھ تقی کہ ہاتھ سے چھڑا کہ بال پیچھے کیے پھر دوبارہ ہاتھ اس کہ ہاتھ میں دے دیا ،،تقی اس حرکت پہ خفیف سا ہنسا پھر سر ہلا کہ کہنے لگا
"بلکل میں علی اور ابیر ہم سب تمہارے ساتھ ہیں"
"مجھے تو سب نے منظرِ عام سے ہٹا دیا ہے" طہٰ کب سے خاموش کھڑا تھا تقی کہ جواب پہ بول پڑا
" تقی نے سوحا کا ہاتھ چھوڑا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔طہٰ کو مکمل طور پہ اگنور کر کہ اندر غنی انکل کہ پاس چلا گیا
"نہیں طہٰ بھای ہم نے آپ کو نہیں نکالا کہیں سے بھی ،،آپ خود ہم سے دور چلے گۓ ہیں " سوحا نے ہاتھوں کی انگلیاں چٹختے ہوے کہا
"اور تم مجھے بتاے بغیر مری بھی چلی گئیں ،،،ٹھیک ہے اب بھی یہ کہہ رہی ہو کہ میں خود دور ہو گیا ہوں" طہٰ نے بغور دیکھتے ہوے کہا
"طہٰ بھای اس وقت آپ کا یہ سوال مجھے کچھ مناسب نہیں لگ رہا "
"میرے دکھ آپ کہ اس دکھ سے زیادہ ہیں۔۔۔نہیں؟" زخمی نظروں سے سوال کیا
"میں اپنے اور تمہارے زخم جلد بھر جانے کی دعا کروں گا" طنز سے کہہ کہ وہ بھی اندر چلا گیا غنی انکل کہ پاس
اس کہ جانے کہ کچھ لمحوں بعد ہی تقی باہر آیا تھا
"ہمارے پلان شروع ہونے کہ اصول جانتی ہو ناں؟" انداز مسکراتا ہوا تھا وہ بھی مسکرا دی "ہاں جانتی ہوں " مسکرا کہ سر جھٹکا "تین دن بعد ہم ایکشن کریں گے ۔۔اور ان تین دنوں میں ورک کرنا ہے "
"گڈ اور مجھے یقین ہے اس بار تم بلکل منع نہیں کرو گی؟"
"نہیں " وہ پچھلی دفع والی بات یاد کر کہ ہنس دی اور طہٰ باہر آیا
وہ اسے ہنستا دیکھ چکا تھا
(تقی کی تو ساری باتیں مناسب لگتی ہیں۔۔۔ ہوں) سر جھٹکتا باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوحا ،تقی، علی اور ابیر ثناء کی بوتیک میں بنے ویل فرنیچرڈ روم میں بیٹھے تھے ثناء وارڈروب گھسیٹ کہ اندر لا رہی تھی
تقی اور علی لیپ ٹاپ کھول کہ بیٹھے تھے ابیر اور سوحا سائڈ پہ بیٹھیں سنیکس منہ میں ڈال رہی تھیں
"یہ لو س
YOU ARE READING
آتشِ جنون
RomanceA story of love And a story of revenge Read that and support ,,as I need it Lots of love بنتِ بابر