ولی کو اپنی موت نظر آنے لگی۔ اسے پتا تھا کہ اب اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔
حیدر اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔
"تمھارا نام؟"
اس نے تھوک نگلا۔ "ولی۔۔۔(Willey) "
"گڈ، کیا کرتے ہو؟"
" کچھ بھی نہیں۔۔۔"
اس کے بعد ایک تھپڑ گونجا۔
" کیا کرتے ہو!"
"ڈرگ سپلائی۔۔۔۔ کرتا ہوں مختلف کلبز میں۔۔۔"
" اوکے۔۔۔ آج سے نہیں کر سکو گے۔۔۔ تو یہ بتاؤ کہ تمھارا سربراہ کون ہے اور ادھر وہ ایک ادارہ کیوں قائم کرنا چاہتا ہے؟"
"مم۔۔میں نہیں جانتا!.." وہ بولا۔ ایک اور تھپڑ گونجا ۔
"ایسے الفاظ مثلا میں نہیں جانتا ، مجھے معلوم نہیں یا مجھے کچھ نہیں پتا وغیرہ صرف تمھاری زندگی کم کریں گے لہذا سیدھے سوال کا سیدھا جواب دینے میں تمھاری عافیت ہے ۔۔ اب بتاؤ ورنہ اگلی وارننگ نہیں, وار ہوگا۔۔۔ "
" ممم۔۔مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ لوگ اس ادارے کے ذریعے اپنی ڈرگ سپلائی کریں گے ۔۔۔ بس۔۔۔""اور اس ڈرگ کا نام فینٹم (phantom ) تو نہیں؟."
ولی کا رنگ متغیر ہوا مگر وہ بولا ۔
" اس کا نہیں معلوم " ۔
بس اس کے بعد اس کی چیخ گونجی تھی۔ چاقو اس کے بازو میں گھس چکا تھا۔
" ولی صاحب۔۔۔ آپ کو یہ کیسے نہیں پتا کہ آپ کونسی ڈرگ سپلائی کرتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ تمھارا سربراہ کون سی ڈرگ سپلائی کرے گا!... جھوٹ!... سراسر جھوٹ!۔۔۔۔ " وہ دھاڑا تھا ۔ چونکہ اس نے ولی کا رنگ غیر ہوتے دیکھ لیا تھا۔
"تو بس۔۔۔ اب اس کا نام بھی بک دو۔۔۔ "
" اس کا نن۔نامم۔۔۔۔نام۔۔۔" ولی درد کی شدت سے کانپ رہا تھا۔
" کیا اب وہ بھی نہیں جانتے؟.." اس نے چاقو اس کی آنکھ کی جانب کیا۔
" جانتا ہوں! ، جانتا ہوں!۔۔۔۔ اس کا نام سائمن ہے۔۔۔۔ " وہ ہار مان کر بولا ۔
" چلو پھر۔۔۔۔ تمھاری موت آسان کر دی میں نے کیوں کہ تم نے کم تپایا مجھے اس لیے۔۔۔۔ جانسن۔۔۔ " اس نے جانی کو پکارا ۔ جانی آگیا۔
اس نے حیدر کے اگلے لفظ سے پہلے ولی پر گن خالی کردی۔
حیدر اس کی کارروائی پر مسکرایا۔ اور وہ دونوں باہر آگئے۔
"ان کی لاشوں کو ٹھکانے لگاؤ لیکن ایسے کہ سائمن کو واضح پیغام مل جائے۔۔۔ اس ادارے کی بنیاد کے آس پاس کسی کوڑے دان میں پھینک کر آنا۔۔۔"
وہ ہدایت دے کر چلا گیا۔
.........................................."وہاٹ!۔۔۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟... میں نے اس کو منع بھی کیا تھا لیکن۔۔۔" کرنل ڈی سر پکڑ کر رہ گئے ۔
اسی لمحے وہ اندر داخل ہوا اور اس نے فون لے لیا۔ "جی جناب۔۔۔ میں ازخود بول رہا ہوں اور افسوس اس بات کا ہے کہ وہ جو دشمن کے طرف دار ہیں۔۔۔" حیدر کے یہ الفاظ ان کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی تھے۔
"اگر آپ ان کے اس فلاحی ادارے کی اصلیت جان لیں تو ابھی ان کو اکھاڑنے کا حکم صادر کر دیں۔۔۔ لیکن وہ کیا ہے ناں یہ پیٹ ہے ، یہ کیسے بھرے گا!... اس میں کچھ تو ڈالنا چاہیے ۔۔ ورنہ اس میں مروڑ اٹھیں گے۔۔۔ وہ الگ بات ہے کہ ڈایٹنگ سے کام چل جائے گا۔۔۔" وہ چپ نہ ہوا۔
کرنل نے اسے ٹوکا۔ " آج اس ادارے کی اصلیت کی رکاڈنگ آپ کو سناؤں گا اور پھر اگر کل کارروائی کا حکم نہ ملا تو میں اس عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا!" اس نے کال کاٹ دی۔
"کیا ہو گیا ہے تمھیں!... اتنے تلخ کب سے ہوگئے؟۔۔" کرنل سے رہا نہ گیا۔
" آپ جو بھی سمجھیں... لیکن ان کے مرے ہوئے ضمیر جگانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا"
" لیکن یہ استعفیٰ کیوں دوگے؟... تم نے ابھی شروعات ہی کی ہے۔۔۔۔ " وہ فکرمندی سے بولے۔
" استعفیٰ تو ان کو دینا پڑے گا جو اس ادارے کے حق میں ہیں جناب۔۔۔ میں کیوں دوں۔۔۔ اس ملک کو ان زہریلے سانپوں کے لیے کیوں چھوڑ دوں ۔۔۔ میں اتنا بےضمیر نہیں ہوا ۔۔ جس دن ہوگیا اس دن اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لوں گا۔۔۔ بس۔۔۔" اس نے کہا اور پھر وہ ان کو ولی اور مونا پر کی گئی کارروائی کی رکاڈنگ سنانے لگا۔
YOU ARE READING
ایکشن بائ چانس Action By Chance
Actionاک ایسے لرزہ خیز کرداروں کی کہانی جس میں ایک نوجوان گروہ نے ایک کردار کی قیادت کا حلف اٹھایا اور پاک سر زمین کو ان کالے سانپوں سے بچانے میں لگ گئے جو اس پاک سر زمین کو میلی آنکھ سے دیکھنے کہ ہمت کرتے ہیں، اس کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے اور اس کو نق...