رات کا پہلا پہر تھا اور گلیاں سنسان پڑی تھیں۔ ایسے میں تین نوجوان ، فل کالے کپڑوں میں ایک مکان کے گرد دکھائی دیے۔ ایک دوسرے مکان کی چھت پر ایک لڑکی بیٹھی شاید پہرہ دے رہی تھی۔
اس مکان میں بہت سے مسلح افراد موجود تھے۔ اور نہ صرف یہ بلکہ وہ چوکنے نظر آرہے تھے۔
دوسری طرف ایک نوجوان بولا۔
" آہ باس ، اس اصغر کی تو میں ناں۔۔۔۔ اس نے جو تفصیلی جائزہ لیا وہ کمال کا تھا مطلب سیریسلی ہم اس ٹریپ میں آگھسے ہیں!.." وہ سرگوشی میں بولا ۔
" اگر ادھر نہیں گھسیں گے تو دشمن کو کیسے مطمئن کریں گے جناب۔۔۔ جانسن صاحب۔۔۔ " اس کے کان میں ڈیوائس گونجی۔
" مطلب کہ میں بیٹ (bait) ہوں۔۔۔ واؤ۔۔۔ اس سے بہترین کام کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ایک تو بیٹ اوپر سے خالی پیٹ "جانی نے پھر کہا۔ وہ اس وقت دیوار سے نیچے دبے پیر کودا تھا۔ اس کی تقلید اصغر نے بھی کی۔
"خدایا، اصغر تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔۔۔کئ لوگوں کو تمھیں گونگا سمجھنے کی غلط فہمی ہو چکی ہے۔" جانی کب چپ ہو نے والی شے تھا۔" جانی کام پر دھیان دو۔۔۔ یہ گھر جاکر جتنا بھونکنا ہو بھونک لینا۔۔۔ " پھر آواز آئی۔ جانی نے سر ہلایا۔ اور اس کے بعد وہاں ایک مدھم سی کڑک کی آواز گونجی۔
" لوجی۔۔۔ اصغر نے کسی کو اگلے جہان پہنچا دیا۔۔۔" جانی پھر ہنس پڑا۔
اس نے بھی کسی کو دبوچ لیا تھا۔ وہ آدمی اس کے مضبوط ہاتھوں میں مچلنے لگا۔ اور پھر اس کا وہی انجام ہوا۔ جانی نے اس کو آرام سے ایک طرف ڈال دیا۔
" اب میں اس مکان کے اندر جارہا ہوں۔۔۔
ہوسکا تو پھر ملیں گے۔۔۔" جانی نے کہا اور وہ دروازے پر کھڑے آدمی سے الجھ پڑا۔
" حوصلہ جانسن۔۔۔ تم بلی کی طرح نو زندگیاں لے کر پیدا ہوے ہو۔۔۔ اتنی جلدی نہیں مروگے۔ "سائرہ ہنس کر بولی تھی۔ اس بات پر اصغر بھی مسکرا پڑا تھا۔دروازے پر اس آدمی کا کام تمام کرکے وہ اندر داخل ہوگیا اور اصغر نے اس کی تقلید کی۔ اصغر کے ساتھ ایک اور آدمی بھی بلکہ وہ انہی کے ساتھ اندر گھسا تھا۔
اندر ان کا مقابلہ کئی لوگوں سے تھا اور وہ مسلح تھے۔ وہ سب ان کی جانب گنز کئے کھڑے تھے۔
جیری وہاں نمودار ہوا۔ اس نے تالی بجائی۔
" واہ آج آخری کوشش کا بھی دی اینڈ ہورہا ہے ۔۔۔ اب تم سب مرنے کے لیے تیار رہو!" وہ شاطرانہ ہنسا۔
" کون مرے گا یہ تو ابھی پتا چلے گا جب تمھارے اس اڈے کا راز فاش ہوگا کہ تم نے ادھر غیر قانونی ڈرگ چھپا رکھی ہے۔ " جانسن نے اسے کہا۔ وہ ہنسنے لگا۔" چلو اب تو مرنے والے ہو بتا ہی دیتا ہوں۔۔۔ اس مکان میں ایسا کچھ نہیں رکھا گیا۔ یہ ایک گھات ہے۔۔۔ "جیری نے کہا تھا۔
" تو ڈرگ کہاں گئی؟.. ادھر تو ڈرگ چھپائی گئی تھی ناں!" جانسن نے حیرت کا مظاہرہ کیا۔
" وہ تو اب تک اس شہر سے باہر جاچکی ہوگی۔۔۔" وہ بتلاتے ہوئے طنزیہ مسکرایا ۔
" اوہ گاڈ۔۔۔ اب تو ہم مارے گئے۔۔۔ اب صرف موت ہے ، ہاے ابھی تو میں نے دنیا کا کچھ نہیں دیکھا، ہاتھ بھی پیلے نہ ہوئے۔۔۔۔ ہاے۔۔۔۔ " جانی نے عورتوں کی طرح بین شروع کردیا۔
" اب اس سے فائدہ؟!" جیری نے اس کے بین سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
" چلو اب یہ چہرے کے ماسک کو اتار دو ، اس کی ضرورت نہیں رہی۔۔۔" جانی نے اداسی سے کہا تھا۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جیری یہ دیکھ کر کہ دو آدمی وہی ہیں لیکن تیسرا حیدر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، اس کا دم نکلتے نکلتے بچا۔
" اوہ۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ کون ہے!..اور تمھارا سربراہ کہاں ہے!"۔۔۔ جیری چیخا۔
" یہ اپنا بھائی عامر ہے ۔ یہ صرف شکل سے معصوم ہے وگرنہ یہ بڑا ٹیلینٹڈ
ہے۔۔۔ کیوں عامر بھائی۔" جانی نے کہا۔
" جی باس۔۔۔" وہ بولا۔
" ہائے کسی نے مجھے بھی باس کہا۔۔۔ وگرنہ میں ہی کہتا کہتا تھک جاتا ہوں۔" جانی نے کہا ہی کہ جیری پھٹ پڑا۔
" ان کو ختم کردو!!.." اور بس۔
وہاں جنگ چھڑ گئی۔ گولیوں کا طوفان امڈ آیا ۔
اصغر، جانی اور عامر ، یہ تینوں ان سب کو مارنے پر تل گئے۔ جیری باہر بھاگا۔ اسے اپنے مال کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ وہ فون پر فون ملانے لگا۔ کئی بار کال نہ گئی لیکن پھر کسی نے اٹھا لی۔
" ہاں۔۔۔ کدھر مرگئے تھے۔۔۔ تم۔۔۔" اس نے آگے نہیں کہا کہ ایک رعبدار آواز آئی۔
YOU ARE READING
ایکشن بائ چانس Action By Chance
Actionاک ایسے لرزہ خیز کرداروں کی کہانی جس میں ایک نوجوان گروہ نے ایک کردار کی قیادت کا حلف اٹھایا اور پاک سر زمین کو ان کالے سانپوں سے بچانے میں لگ گئے جو اس پاک سر زمین کو میلی آنکھ سے دیکھنے کہ ہمت کرتے ہیں، اس کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے اور اس کو نق...