دیکھ میاں ایک تو توں مجھے اتنی دور لے کر آ گیا اور دوسری بات مجھے تم لوگ مشقوق لگ رہے ہو اس لیے اس نکاح کے میں زیادہ پیسے لوں گا ۔
مولوی پیسے جتنے لینے ہوں لے لیں مگر ابھی اپنی زبان بند رکھ یہ نہ ہو سر تجھے گولی سے اڑا دیں ۔
اشعر کا آدمی مولوی کو جنگل کے بیچ سے لیتا ہوا ٹھیکانے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
***********************************
عفیفہ ابھی بس دس منٹ میں نکاح شروع ہو جائے گا خبردار اگر تم نے انکار کرنے کا سوچا بھی تو ۔۔۔۔۔۔ اشعر اسے بتا نہیں دھمکا رہا تھا ۔
کیا کر لو ہاں مار دو گے مجھے مار دو ۔۔۔۔۔۔ یا اپنی اوقات دیکھا دو گے ہاں ۔۔۔۔۔ تو دیکھا دو ۔۔۔۔ تم جیسے شخص سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے ۔
نا نا میری بلبل ان میں سے کچھ نہیں کروں گا بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے تینوں بھائیوں ، تمہارے اس عاشق ، تمہاری ماں ، دادی اور باپ کے سر دھڑ سے جدا کر کے تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا اور اسے کوئی کھوکھلی دھمکی مت سمجھنا میں جو کہتا ہوں وہ کر بھی سکتا ہوں اور قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے میرے لیے ۔
وہ تمہارے بھی کچھ لگتے ہیں اشعر ۔ عفیفہ نے اسے بہت ساری پرانی باتیں یاد دلانا چاہی ۔
کوئی تعلق نہیں ہے میرا ان سے میرے لیے یہ سب اسی دن مر گئے تھے جس دن انہیں نے میرے اور میری محبت کے بیچ دیوار بننےکی کوشش کی تھی ۔
سر مولوی آ گیا ہے ۔ اتنے میں اسے باہر سے کسی کے پکارنے کی آواز آتی ہے ۔
اندر لے آؤ اسے اور ساتھ گواہ بھی لے آؤ ۔ اشعر کے یہ کہتے ہی مولوی اور دو گواہ جو اسی کے بندوں میں سے تھے اندر داخل ہوتے ہیں ۔
مولوی نے ایک نظر کرسی پر بیٹھی لڑکی پر ڈالی جو آنکھیں بند کیے رو رہی تھی ۔
شادی میں لڑکی کی رضہ مندی شامل نہیں ہے کیا ۔ مولوی نے لڑکی کی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
اے مولوی تجھے اس سے کیا تجھے پیسے سے مطلب ہے وہ تجھے مل جائیں گے ۔ اشعر نے غصے سے کہا ۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ نہ ہو کہ لڑکی انکار کر دے اور آپ لوگ مجھے پیسے ہی نہ دیں ۔ مولوی نے اپنی پریشانی بتائی ۔
فکر نہ کر نہیں کرتی انکار اب نکاح شروع کر ۔
مولوی عفیفہ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔
عفیفہ حیدر ولد حیدر سلیمان آپ کو اشعر رحمانی ولد فاروق سلیمان سے باعوذ دو لاکھ حق مہر یہ نکاح قبول ہے ۔
یااللّٰہ مدد ۔ عفیفہ نے دل میں اپنے رب کو یاد کیا ۔
مولوی نے دوبارہ دوہرایا ۔
یااللّٰہ مدد ۔ اس نے پھر سے اسی شدت سے خدا کو یاد کیا تھا ۔
مولوی نے دوبارہ دوہرایا ۔
عفیفہ کی خاموشی ویسی ہی برقرار تھی ۔
عفیفہ بولو قبول ہے ۔ اشعر نے الفاظ پر دباؤ دیتے ہوئے کہا ۔
عفیفہ بولو ورنہ تم جانتی ہو مجھے اچھی طرح ۔
عفیفہ نے مشکل سے لب کھولے اور وہ شاید بولنے ہی والی تھی ۔
اشعر میاں اب یہ نکاح نہیں ہو سکتا ۔
کیوں ابھی یہ ہاں بولے گی آپ دوبارہ پڑھائیں نکاح ۔ اشعر نے غصے میں کہا ۔
نہیں اب نہیں ہو سکتا یہ نکاح میں نہیں پڑھا سکتا ۔
مگر کیوں ۔
کیونکہ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا ۔ مولوی نے اپنی نکلی داڑھی اتارتے ہوئے کہا ۔
مولوی کی آواز پر عفیفہ نے مولوی کی طرف چہرا اٹھا کر دیکھا کیونکہ وہ اس بات کا مطلب بھی سمجھ گئی تھی اور مولوی کی آواز کو بھی پہچان گئی تھی جب اس نے اپنی اصل آواز میں بولا تھا ۔
ایان ۔ عفیفہ نے محبت سے اس کام نام لیا تھا اس کا یقین جیت گیا تھا خدا نے اس کی مدد کے لیے مسیحا بھیج دیا تھا ۔
اس سے پہلے اشعر کچھ کرتا پولیس اندر داخل ہو کر سب کو گرفتار کر چکی تھی یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ اشعر کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو گیا تھا کہ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا ۔
شکریہ انسپکٹر صاحب کہ آپ نے مجھے یہ سب کرنے کی اجازت دی ۔ ایان نے انسپکٹر کا شکریہ ادا کیا کیونکہ پہلے تو وہ اس سب کے لیے مان ہی نہیں رہے تھے ان کے نزدیک اس سب کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی وہ ایسے ہی اشعر کو گرفتار کر سکتے تھے مگر ایان کی ہی یہ ضد تھی کہ وہ اشعر کو اسی کے انداز میں مات دے گا ۔
عفیفہ ایان کے گلے لگے رو رہی تھی ۔
بہت شوق تھا نہ کھیل کھیلنے کا تو آج ہم نے تیرے ساتھ کھیل کھیل لیا تو بتا کیسا لگا ہمارا کھیل ۔ ایان نے اشعر کو اس کی شکست کی نوید سناتے ہوئے کہا ۔
تمہیں کیا لگتا ہے اشعر کو ہرانا آسان کام ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں اتنی سے جیت پر خوش ہو رہے ہو جیت کیا ہوتی ہے میں بتاؤ گا تمہیں ۔۔۔۔۔۔ وقت آنے پر ۔ اشعر پولیس کی گرفت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
لے جائیں انسپکٹر صاحب اسے ۔ ایان نے اشعر کو دور لے جانے کا اشارہ کیا ۔
ایان انبھاج ۔ عفیفہ نے روتے ہوئے سوال کیا تھا ۔
انبھاج ٹھیک ہے ۔
سچ ایان ۔ عفیفہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں سچ ہسپتال میں ہے ابھی ہوش نہیں آیا اسے مگر وہ ٹھیک ہے ڈاکٹرز کا کہنا تھا شام تک ہوش آ جائے شاید مگر ابھی تک تو نہیں آیا شاید رات تک آ جائے گا ۔
تم مجھے اس کے پاس لے چلو پلیز ۔
نہیں پہلے ہم تمہارے گھر جائیں گے اور پھر وہاں سے سب اکٹھے چلیں گے ہسپتال ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔
ٹھیک ہے ۔ عفیفہ نے ہامی بھر لی ۔
نوری بی بی کے نواسے کو بھی ڈھونڈ لیا گیا تھا اسے کافی لمبے عرصے سے عفیفہ کے ساتھ والے کمرے میں رکھا گیا تھا ۔
ڈری تو نہیں تھی تم ۔
نہیں ۔ عفیفہ نے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے کہا ۔
ڈرنا بھی مت آج کے بعد سب ڈر اپنے اندر سے نکال دو اب اشعر نام کے شخص سے ہمارا کوئی تعلق نہیں نہ تو ہم اشعر کو جانتے ہیں نہ اس سے جڑی کسی بات کو ۔

BẠN ĐANG ĐỌC
مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )
Tiểu Thuyết Chungانبھاج اور ضرار کی تکرار کی کہانی ۔ عفیفہ اور ایان کے اعتبار کی کہانی ۔ دادی اور ازلان کی نوک جھونک کی کہانی ۔ کہانی ہے ساتھ نبھانے والوں کی ہر قدم ساتھ کھڑے ہونے والوں کی وقت پر اعتبار کرنے والوں کی اور مصیبت میں ساتھ کھڑا رہنے والوں کی ۔ کہانی ہے...