Episode 2

3 0 0
                                    

چند شناسا یادوں میں کچھ لمحے سوغات تھے
چند گزری برساتوں میں کچھ قطرے بہتا ساز تھے
کچھ آنکھوں کی حسرت تھی کچھ قدرت کے آرمان تھے
تیرے شہر کی گلی میں اب سارے کوچے ویران تھے

( زرگل )
*******************
آج سورج کراچی شہر پر اپنے مکمل جاہ و جلال سمیت اترا..اور سورج نے زرا سا جو جلال دکھایا تو لوگ فوراً ہی ٹھنڈی آغوشوں میں چھپ گئے .....ویسے تو کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے اور بہت فخر سے کہا جاتا ہے لیکن یہ روشنیاں بھی تب تک بھلی لگتی ہیں جب تک یہ آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں ...لیکن جیسے ہی یہ ہمارے جسم کو چبھنے لگیں ...یہ فوراً ہمارے لیے عزاب بن جاتی ہیں...ایسے میں وہ اس سب سے بےنیاز پارک سے واپسی پر اپنی منزل کی طرف رواں تھا....اور جب اسے سامنے ہی اپنی منزل نظر آئ تو اس کی رفتار میں تیزی آ گئ...
کراچی شہر کے ایک خوبصورت علاقے میں موجود یہ محل اپنی مکمل شان و شوکت کے ساتھ کھڑا تھا...اور اسکے شاندار گیٹ کے ساتھ لگی تختی پر لکھا" اعوان ہاؤس "..سورج کی روشنی میں مزید چمک اٹھا تھا...
دور سے ہی خان بابا نے اسے دیکھتے ہوئے گیٹ وا کیا تھا...بلیک سلیولیس شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں اسکی گندمی رنگت دھوپ کی وجہ سے لال ہو گئی تھی..بازؤں پے بہتے پسینے کے قطرے دھوپ میں چمک رہے تھے..اپنے رف سے حلیے میں بھی وہ لوگوں کو مبحوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا..خان بابا نے اسے دیکھتے ہوئے بے اختیار ہی ماشاللہ پڑھا اور وہ اپنی پھولی ہوئ سانسوں سمیت ان کے قریب آ رکا تھا...

"اسلام علیکم!خان بابا...کیسے ہیں آپ..؟"اسنے آنکھوں میں احترام لیے ان سے دریافت کیا تھا...

"وعلیکم اسلام... ہم تو بلکل فٹ فاٹ ہے..... تم کیسا ہے؟"خان بابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا اور ساتھ ہی اس کی خیریت بھی پوچھ لی....

"آپ کی نظروں کے سامنے ہوں بہت ہی ہینڈسم....."اس کے مسکرا کر جواب دینے پر خان بابا بھی ہنس پڑے...اور وہ انہیں خدا حافظ کہتا آگے بڑھ گیا....

"اسلام علیکم...."لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اسنے اونچی آواز میں سب کو مشترکہ سلام کیا...

کچن سے نکلتی سدرہ بیگم اور ڈائننگ ٹیبل کی سربراہی کرسی پر بیٹھے مسٹر اعوان نے مسکراتے ہوئے اسکے سلام کا جواب دیا...اور وہ آنکھوں میں محبت لیے سدرہ بیگم کے پاس آیا..اور اپنا سر انکے آگے جھکا لیا..انہوں نے پیار سے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسکی پیشانی کا بوسہ لیا...بلاشبہ وہ انکا فرمابردار اور کامیاب بیٹا تھا..
"شایان احمد اعوان"..وہ اسے دیکھے گئیں..

"بیٹے کو نھار لیا ہو تو تھوڑی توجہ شوہر پر بھی دے دیں..جو کب سے آپکی نظرِکرم کے انتظار میں بیٹھے ہیں..."پاس بیٹھے مسٹر اعوان کی ناراض سی آواز پر سدرہ بیگم نے چونک کر انہیں دیکھا جو معصوم سی شکل بنائے انہیں ہی دیکھ رہے تھے...

"آپ بھی نا کچھ بھی بولتے ہیں.."انہوں نے سرخ چہرہ لیے انہیں گھرکا اور اگلے ہی پل کچن کی طرف بڑھ گئ...

موم کی گڑیا از زرگلWhere stories live. Discover now