باب:۱

572 14 2
                                    

~گلی گلی میرے ذرے بکھر گۓ تھے ظفر
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا

فون کے مسلسل بجنے سے اس کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا - ہاتھ بڑھاکر ناگواری سے فون کو دیکھا جس پر آمورے کا نام جگمگا رہا تھا - اس سے پہلے کے وہ اٹھاتی فون بند ہو چکا تھا - اس نے بیڈ کی دوسری طرف دیکھا جہاں وہ پر سکون نیند سو رہے تھے - نیند میں بھی ماتھے پر سلوٹیں برقرار تھیں - گہرا سانس لے کے اٹھی ، بالوں کو جوڑے میں قید کیا اور اپنے کمرے سے منسلک بالکنی کی طرف بڑھ گئی - پردے برابر کئے اور فریش ہونے چلی گئی- اس کے جاتے ہی انھوں نے آنکھیں کھولیں اور خالی نظروں سے اس جگہ کو دیکھا جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ لیٹی تھی - وہ اٹھ کے بیٹھ گئے اور اپنا فون آتھایا جہاں مورے کی کال آ رہی تھی -
"السلامُ علیکم مورے! کیسی ہیں آپ ؟ "
"میں بلکل ٹھیک تم سناؤ کیسے ہو اور گل کیسی ہے ؟" مورے نے محبت سے پُر لہجے میں پوچھا -
" میں بلکل ٹھیک ہوں الحمداللہ - آپ بتائیں حویلی میں سب ٹھیک ہیں ؟" اس نے ان کی بات یکسر نظر انداز کیا -
"میں نے  گُل کا بھی پوچھا ہے  خان وہ کیسی ہے ؟ فون بھی نہیں اٹھا رہی میرا۔" اب کی بار قدرے خفگی سے پوچھا گیا - اتنے میں ہی وہ باہر آئ - بلیک ٹراوزر کے ساتھ سادی کالے رنگ کی کرتی میں دھلے ہوۓ چہرے کے ساتھ وہ اس حسین صبح کا حصّہ لگ رہی تھی- انھوں ایک نگا ڈال کر نظروں کا زاویہ بدل دیا - اب وہ اپنے بال سلجھا کر انکی طرف متوجہ ہوئ -"اچھا آپ چکر لگائیے گا پھر بات ہوتی ہے ۔اللہ حافظ ! " اس سے پہلے کہ مورے کے ساتھ پھر سے بحث شروع ہوتی ابھوں نے فون رکھ دیا -
"آپ کا ناشتہ یہیں لے آوں کے باہر جا کر کریں گے ؟" وہ سنجیگی سے ان کے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی -
"مجھے تمہارہ کوئ احسان نہیں چاہیے- اسد ۰۰۰اسد !" وہ ناگواری سےبول کر آخر میں اسد کو آواز دینے لگے جو ان کا کُک تھا - اسنے خاموشی سے انے جوتے بیڈ کے پاس رکھے اور ویل چئیر کو بیڈ کے پاس لائ - انکا ایک بازو اپنے کندھے پر ڈالا اور اٹھنے میں مدد دینے لگی - اسکی قربت سے بمشکل نظریں چراتے وہ ویل چیئر پر بیٹھے - ان کو بٹھا کر اسنے کالے رنگ کا ڈپٹہ نماز کے سٹائل میں لیا اور چیئر گسیٹ کر ڈئینگ روم میں لائ -
"اخبار کون دے گا ؟اب ہر چیز مانگو تم سے ؟" اسکو کچن کی طرف جاتا دیکھ وہ برہم ہوۓ- "لا رہی ہوں - مجھے آپکی ہر ضرورت کا احساس ہوتا ہے ۔" عام سے لہجے میں کہتے ہوۓ انکو اخبار دی -
"تم کہنا چاہتی ہو کہ مجھے تمہاری ضرورتوں کا احساس نہیں ہے ؟ آخر آ گئی تنگ مجھ سے۔ ؟" ان کے طنزیہ لہجے پر اس نے زخمی نظروں سے انھیں دیکھا اس طنز کے پیچھے چھپے درد سے اسے بھی تکلیف ہوئ تھی وہ نظریں چُرا گئے- " آپ جانتے ہیں میں آپ سے کبھی بھی تنگ نہیں آ سکتی !" شکستہ لہجے میں کہتے ہوۓ وہ کچن کی طرف بڑھ گئی- ان کی آنکھوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا -
_____________________
" وارِن مجھے تو ڈر ہی لگ رہا ہے ۔ تم آرام سے گائیڈ کے ساتھ چلو اور کہیں ادھر اُدھر ہوئ تو دیکھنا !" امل نے دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا جو کہیں جانے کے پر تول رہی تھی -
"آپ لوگوں کے پاس آپکے میپس موجود ہیں - میں آپ لوگوں کو سب جگہ دیکھاؤں گا - یہ آپ پر منحصر ہے اگر آپ لوگ خود سے پھرنا چاہتے ہیں تو یو آر فری ٹو ڈو سو ! لیکن یاد رکھیئے گا شام سات بجے یعنی ٹھیک پانچ گھنٹے بعد بس یہاں سے روانہ ہو جاۓ گی اور کسی کا ویٹ نہیں کیا جاۓ گا ۔"
اپنی بات   کہہ کر گائیڈ اب باقی لوگوں کی طرف متوجہ ہو گیا - وہ لوگ ٹورٹس ایجنسی کے ساتھ چترال نیشنل پاک آۓ تھے - کچھ لوگ گائیڈ کے ساتھ نکل گئے اور کچھ ٹولیوں کی صورت میں اِدھر اُدھر نکل گئے - امل کے لاکھ منا کرنے پر بھی وارِن ضد کر کے اپنے ساتھ لے گئی -
"اَمل !" اپنے نام کی پکار پر امل پلٹی تو وارن کو بھی رُکنا پڑا -
"ارے منیب بھائ آپ یہاں کیسے !" اپنے کزن کو دیکھ کر امل حیران ہوئ تو وارن نے بھی سلام کیا -
" ہم تو ایسے ہی وکیشنز پر آۓ تھے - میٹ مائ فرینڈ دارب اور دارب یہ ہے میری کزن امل اور انکی دوست وارن ! منیب نے ان تعارف کروایا تو دارب نے سر کے اشارے سے سلام کیا -
" تو لیڈیز کیا خیال ہے پھر ایک ساتھ چلتے ہیں تم لوگ اکیلی کہاں جاؤ گی !" منیب نے خوشدلی سے کہا -
" جی جی منیب بھائ ہم آپکے ساتھ ہی چلتے ہیں " وارن کو منہ کھولتا دیکھ امل نے زور سے اسکا ہاتھ دُبایا اور مسکراتے ہوۓ پیشکش قبول کی - دارب نے دلچسپی سے اسے دیکھا جو امل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی - اس نے بلیک جینز کے اوپر گٹنوں تک آتی کُرتی پہن رکھی تھی - اس کے ساتھ لونگ شوز اور بلیک جیکٹ پہن رکھی تھی - سر پر اڑھا جامنی رنگ کا سکارف اسے کافی دلکش بنا رہا تھا -
منیب یہاں کافی دفعہ آ چکا تھا اس لیے اسے ہر ایک جگہ کا پتا تھا - سب نے اپنے اپنے بستے اٹھاۓ اور ہائکنگ کے لیے چل پڑے -
"کیا تکلیف ہے !" امل نے شرگوشی نما آواز میں اسے کہا جس نے اسے چٹکی کاٹی تھی - منیب اور دارب باتیں کرتے انکے پیچھے ہی آرہے تھے انکو متوجہ نہ دیکھ کر وارن نے اسے چھیڑا -
" کیا ضرورت تھی انکے ساتھ چلنے کی - عجیب ہو تم بھی - سارا مزا کِرکرا کردیا - " وہ برے برے منہ بناتی ہوئ بول رہی تھی -
"آہستہ بولو - اور جو مزا تم نے کرنا تھا نا اچھی طرح پتا ہے مجھے آج اس جنگل کے جانوروں کا کھانا تو بن ہی جاتے ہم ۔" امل نے احتیاط سے اگے بڑہتے ہوۓ کہا -
وہ لوگ جب تھک گئے تو دارب اور منیب نے مناسب جگہ دیکھ کر ٹینٹ لگایا - فروزن فوڈ سب کے پاس تھا - ٹینٹ کے آگے ہی کچھ لکڑیاں جمع کر کہ آگ جلائ -
" اچھا تو ذرا تفصیلی تعارف ہو جاۓ - تو مس وارِن آپ آج کل کیا کر رہی ہیں ؟" جب سب اکافی پی رہے تھی تو منیب نے بات شروع کی -
"میرا تو بزنس کا لاسٹ سمیسٹر ہے -!" اسنے قدرے سنجیدہ انداز میں کہا - اسکا موڈ اب تک اف تھا اور دارب یہ بخوبی سمجھ رہا تھا -
"یہ تو میرے ساتھ ہی پڑھتی ہے - اور دارِب بھائ آپ کیا کرتے ہیں۔" وارن کی بد اخلاقی کا اثر زائل کرنے کے لیے امل دارب سے مخاطب ہوئ - اسی طرح باتوں کا سلسلہ چلتا رہا مگر دارب نے وارن کو مخاطب نہ کیا پر وہ اسکی جائزہ لیتی نظروں سے چڑ ضرور رہی تھی - منیب اور لکڑیاں لینے گیا تو نارن نے زبردستی مسکراتے ہوۓ دارب کو مخاطب کیا
"آپ  کی کیا مصروفیات ہے سواۓ لڑکیوں کو تاڑنے کے ؟" - وہ خاصی منہ پھٹ ثابت ہوئ تھی -
"ہا ہا ! آپ پلیز مائنڈ مت کیجئے گا -  اس کی عادت ہے مذاق کرنے کی ۔" امل نے مصنوعی ہنسی ہنستے اس کو گھورا -
"میں بلکل سنجیدہ ہوں !" وارن نے اسے گھورا کیوں دارب کی مسکراہٹ اسے مزید کوفت میں مبتلا کر رہی تھی -
" میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے - میں دیکھتی ہوں منیب بھائ کہاں گئے ہیں ۔" امل نے بات بدلے اور وہاں چل دی جہاں منیب گیا تھا - اس کے جاتے ہی وارن بھی اٹھ گئ -
"کہاں جا رہی ہیں ۔" اس کو مخالف سمت جاتا دیکھ کر وہ بے اختیار پوچھ گیا -
" آپ سے مطلب ؟ او اچھا آپ اکیلے ڈر رہے ہوں گے - فکر نہ کرے وہ دونوں آ تے ہوں گے " یہ کہہ کر وہ پھر چل دی -
"بات سنیں - ان کو آنے دیں پھر اکٹھے چلتے ہیں " اب اٹھ کر اسکے سامنے آگیا تھا -
"آپ کو کیا مسلہ ہیں میں جہاں بھی جاؤں - آ جاؤں گی ابھی " وہ ناگواری سے بولی اور بغیر اسکی سنے چل دی -
عجیب سر پھری لڑکی ہے - دارب نے اپنا بیگ اٹھایا اور فاصلہ رکھ کے اس کے پیچھے چل دیا -

شبِ ہجر ڈھل جاۓ ✅ Where stories live. Discover now