دوسرا باب
"مجھے کالا بندھن کرنا ہی ھے مجھے اس سے بدلہ لینا ھے اور وہ میں لے کر ہی رہو گی " کمرے میں چلاتی آواز اسکے کانوں کا درد بنا ہوئی تھی۔
"میری جان مگر بدلے سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا اور ہمیں کالا جادو نہیں کرنا چاہئے کچھ غلط ہو گیا اور اگر جادو الٹا ہم دونوں پہ ہی اثر ہو گیا تو سوچو کیا ہوگا۔
"ماجد! مجھے کرنا ھے بس کہہ دیا" اتنا کہہ وہ کمرے سے نکل گئی۔"ماہی...ماہی رک جاؤ" وہ صوفے پہ بیٹھا اسے جاتے دیکھ چلانے لگا۔
بادل گرج رہے تھے اور بارش ہونے کو تھی۔ٹھنڈی یخ ہوائیں فضا میں تیر رہیں تھیں۔کالی رات اور کہیں دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں۔
ماجد افسردگی سے اٹھا اور کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔دوسری منزل پہ بنی کھڑکی باہر کا خوبصورت منزل دکھا رہی تھی۔بارش شروع ہو چکی تھی اور بادل گرج رہے تھے۔وہ بارش کی بوندیں سڑکوں اور درختوں پہ گرتے دیکھنے لگا۔
وہ غور سے گرتی بوندوں کو دیکھ رہا تھا۔جب اس کی آنکھوں کے سامنے روشنی کا دھماکہ ہوا۔
منظر بدلتا ھے...
بارش میں کھڑا ماجد کسی کا خون صاف کر رہا ھے۔سڑک پہ خون بارش کے باعث پھیلتا ہی جارہا ھے۔اچانک دروازے پہ دستک ہوئی۔
وہ واپس اپنے حال میں آ چکا تھا۔"کون ھے... اندر آ جاؤ" ماجد نے کھڑکی سے ہٹتے ہوئے کہا۔
"مالک ڈنر لگ گیا ھے نیچے سب آپ کا انتظار کررہے ھیں" ملازم نے ادب سے کہا اور واپس مڑ گیا۔
ماجد نے اپنا موبائل پکڑا اور نیچے کو چل دیا۔
ڈائننگ روم میں کرسیوں پہ گھر کے افراد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔حال بہت کشادہ تھا اور ہر طرف بہترین اور خوبصورت سجاوٹ ہو رکھی تھی۔کرسیوں پہ تقریباً دس فرد براجمان تھے۔"بیٹا... بیٹھو... اور کھانا کھا لو'' ایک بوڑھی عورت نے کانپتی آواز میں کہا تو ماجد کرسی پیچھے کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
خاموشی سے کھانا کھایا اور حال سے نکل گیا۔
پورچ سے کار نکالی۔بارش میں قدرے تیز ہو چکی تھی۔وہ کار چلاتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھا۔بارش ہمیشہ اسے اس منظر کی یاد دلاتی تھی۔اس نے کار کو سڑک کے ایک طرف لگا دیا۔اسے ہمیشہ خون... بارش سے پھیلتا ہوا خون نظر آتا۔یہ کبھی ہوا تو نہیں تھا شاید ہونے والا تھا۔یہ منظر پچھلے سال سے اس کی نیند کو اڑائے ہوئے تھا۔
"مجھے ماہی کو ہر صورت میں کالا بندھن کرنے سے روکنا ہوگا" اس نے اپنے آپ سے کہا اور کار کا رخ گھر کی اور کر لیا۔بارش رک چکی تھی۔وہ تیز رفتار سے کار چلاتا گھر واپس پہنچ گیا۔کار کو پورچ میں پارک کیا اور اندر داخل ہو گیا۔سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ماجد نے ایک پل کو انہیں دیکھا اور پھر سیڑھیوں کی طرف چل دیا۔اپنے کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور بیڈ پہ گرنے کے انداز میں لیٹ گیا۔موبائل کو جیب سے نکالا۔
"کالا بندھن انسان کو کمزور کر دیتا اور اس سے انسان کی موت بھی ہو سکتی ھے۔کالا بندھن میں بندھا انسان سخت اذیت میں رہتا ھے اور بندھن باندھنے والا اس سے کچھ بھی کروا سکتا ھے"ماجد نے گوگل سے لی انفارمیشن کو غور سے پڑھا اور موبائل کو بند کر دیا۔اس نے آنکھیں بند کی تو پھر سے وہ منظر نظر آنے لگا۔__________________
تیز بارش... خون... ماجد...
ماجد نے کپڑے سے خون کو صاف کرنے کوشیش کی لیکن خون بارش کی وجہ سے پھیلتا جا رہا تھا۔
"مجھے ماہی کی لاش کو ٹھکانے لگانا ہوگا اور یہ خون بھی صاف کرنا ہوگا۔
ماہی کی لاش سامنے تھی اور اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔رات کے تین بج رہے تھے اور گھڑی ٹِک ٹِک کرتی چل رہی تھی۔دروازہ کھلنے کی آواز سے ماجد نیند سے بیدار ہو گیا۔اندھیرے میں ڈوبا کمرہ... ماجد نے بیڈ والے لیمپ کو جلایا اور دروازے کو دیکھنے لگا۔دروازہ بند تھا جیسا کہ اس نے سونے سے پہلے بند کیا تھا۔ماہی آرام سے سو رہی تھی۔ماجد نے ایک پل کو اسے دیکھا اور پھر سے لیٹ گیا۔ابھی لیٹا ہی تھا کوئی چیز گرنے کی آواز آئی۔ماجد بیڈ سے اترا اور کمرے کی بتی جلا دی۔سارا کمرہ اپنی اصلی حالت میں تھا۔کوئی بھی چیز گری یا ٹوٹی نہیں تھی۔
"میرے پاس آؤ مجھے بات کرنی ھے" ماجد کو یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے کان میں بول رہا ھے مگر وہاں ماہی سو رہی تھی اور کمرے میں کوئی اور نہیں تھا۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ ایک سڑک کے کنارے پہ کھڑا تھا۔ماہی کی خون آلودہ لاش سے خون بہہ کر ساری سڑک پہ پھیل رہا تھا۔بارش کی وجہ سے یہ سب صاف کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔کسی نے دروازے پہ دستک دی وہ وہی لیٹا تھا اور ہاتھ میں موبائل تھام رکھا تھا۔
__________________
"ماہی ویسے تمہیں زینب سے بدلہ کیوں لینا ھے۔میں تو کہتا ہوں جو بھی بات ھے اسے بھول جاؤ اور زینب کے ساتھ دوستی کی ایک نئی شروعات کرو" ماجد اسے سمجھاتے ہوئے اس کے قریب ہوکے بیٹھ گیا۔
"بدلہ بھول جاؤ، یہ ہو نہیں سکتا۔میں بدلہ لے کر رہوں گی" اس نے زہرہ آلودہ لہجے میں کہا۔آنکھوں میں انگارے لوٹ رہے تھے اور لہجے میں زہر تھا۔
"اچھا یہ بتاؤ کرنا کیا ھے" ماجد نے ایک پل کو سوچا اور اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"سب سے پہلے ہمیں اس کی شکل و صورت رکھنے والا لکڑی کا ایک پتلا بنوانا ہو گا۔وہ ہم شہر سے بنوا لے گیں۔اس نے بعد ہمیں سیاہ کمرے کا انتظام کرنا ہوگا۔کالی ڈوری... موم بتیاں... پانی اور کالے جادو کی کتاب" اتنا کہہ کر وہ ماجد کو دیکھنے لگی۔وہ یہ سب ایک کتاب سے پڑھ رہی تھی۔جو کہ کمرے میں رکھے بک شیلف سے لی تھی۔
"ماہی کیا سچ میں کرنا چاہتی ہو" ماجد افسردہ لہجے میں پوچھ رہا تھا مگر ماہی کچھ نہ بولی اور اپنی جگہ پہ لیٹ گئ۔
"لائٹس بند کر دینا سونے سے پہلے" ماہی نے اتنا کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔
KAMU SEDANG MEMBACA
Sans Ruk Jaye by Zain Ali
Hororیہ کہانی ھے دو بھائیوں کی جو ان لوگوں کی مدد کرتے ھیں جن کی مدد عام لوگ نہیں کر پاتے