باب'6'

184 13 2
                                    

نحل نے کالج سے چھٹیاں لیں تھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنی کھڑکی سے لان کو تک رہی تھی ۔نحل اس دن کے بعد ضرورت سے زیادہ خاموش ہو گئی وہ ارتضی کی وجہ سے خود کو عالی کی نظر میں کمتر محسوس کر رہی تھی۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
ارتضی کی کیفیت کسی بکھرے ہوئے دیوانے سے کم نہیں تھی وہ جو محبت کا دعوے دار تھا وہ اس کی محبت کو نفرت کے الزام سے داغ گئی ۔ وہ بیٹھا کسی مرائی نقطے کو تک رہا تھا اس کے بال بکھرے ہوئے تھے سرخ آنکھیں اس کے اجڑے ہوئے دل کا پتہ دے رہی تھی۔
ا

یک ضعیف شخص جو ان کی غیر موجودگی میں اس فارم ہاوس کی حفاظت کرتا تھا گھر میں داخل ہوا وہ لاونج میں صوفے پہ بیٹھا ان کی موجودگی کو پا کر ان کی طرف متوجہ ہوا ۔
"ارتضی بیٹا آپ کیا کھائیں گے میں آپ کے لیے کچھ کھانے کا سامان لایا ہوں"۔وہ نہایت شفقت سے گویا ہوئے۔
"نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا کچھ کھانے کا مصطفی انکل"اس نے صاف انکار کی۔
اچھا ایک بات بتائیں آپ جب سے آئے ہیں بہت پریشان ہیں خیریت ہے" انہوں نے اس کی غیر ہوتی حالت دیکھتے ہوئے کہا
"نہیں انکل میرے اندر ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے محبت کی جنگ ۔ آپ جانتے ہیں محبت میں ہار جانے کی تکلیف کیا ہوتی ہے دھتکارے جانے کی اذیت جھیل رہا ہوں میں"اس کی آواز کسی کھائی سے آتی سنائی دی ۔
"ارتضی اس جنگ میں جیت صرف اپنے نفس پہ قابو پا کر اورسکون صرف اس ذات کی طرف لوٹ جانے میں ہے جس نے ہمیں اپنے لیے خلق کیا ہے" وہ اپنی بات کا اختتام کر چکے تو ارتضی نے انہیں حیرت سے دیکھا
"مگر میں اس کے بغیر جی نہیں سکتا انکل"وہ اب آنکھوں میں آنسوں لیے کسی معصوم بچے کی طرح وضاحت پیش کر رہا تھا
"ارتضی انسان صرف اپنے اصل کے بغیر نہیں جی سکتا اور ہمارا اصل وہ ہے۔اس کی طرف لوٹ آو گے تو اس جہانِ فانی میں کسی دوسرے سے دل ہی نہیں لگے گا"۔انہوں نے شہادت کی انگلی اٹھا کے آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا
"وہ ہمارا خالق ہے اور بے شک وہی دلوں کو قرار دینے والا ہے اس سے دل لگاو۔ وہ ٹوٹے دلوں کو جوڑنا جانتا ہے اس کو ڈھونڈو اس کی تلاش ہماری آخرت کا وسیلہ ہے "وہ اسے پیار سے سمجھا رہے تھے اس نے اپنا بچپن ان کے ہاتھوں میں گزارا تھا گرمیوں کی ہر چھٹیوں میں وہ یہاں آیا کرتا تھا وہ انہیں ہمیشہ اپنے باپ جیسی عزت دیتا تھا اور وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتے تھے۔
"میں کیسے ڈھونڈو اسے(اللہ کو) ؟ میں نے کبھی اسے یاد نہیں کیا،کیا وہ مجھے معاف کر دے گا انکل" وہ اب خدا کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
"ہاں وہ اپنے ہر بندے سے محبت کرتا ہے ارتضی ایک وہ ہی تو ہے جو انسان کو معاف کر دیتا ہے یہ دنیا معاف نہیں کرتی ۔ تم ایک بار اس سے سکونِ قلب مانگ کر تو دیکھو عشق مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر طے کرنا جتنا مشکل ہے اتنا ہی پُر سکون بھی اس میں پہلے پہلے پاوں میں لغزش ضرور آتی ہے مگر جب انسان دل سے ٹھان لیتا ہے تو اس میں سرور ملتا ہے عشقِ حقیقی انسان کو اس کے اصل سے ملواتا ہے ارتضی وہ دلوں کو پلٹنے والا ہے۔جس کے قبضہ قدرت میں ہر زی نفس کی جان ہے "۔وہ تحمل سے اسے سمجھا رہے تھے۔
ان کی باتیں ارتضی کے دل پہ اثر کر رہی تھی وہ اب خدا کو ڈھونڈنے کا سوچ رہا تھا معافی کی طلب ہو رہی تھی وہ صرف اب دلی سکون کا خواہشمند تھا اور شاید یہی وہ جگہ تھی جہاں اسے سکون نصیب ہو سکتا تھا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
عالی آفس میں کام کر رہا تھا مگر دماغ کہیں اور ہی اٹکا ہوا تھا وہ الفاظ اس کے کانوں میں بازگشت کر رہے تھے ارتضی کس طرح اس سے اپنی محبت کی بھیک مانگ رہا تھا کیا وہ واقعی ہی اس سے اتنی محبت کرتا تھا اس نے ان کی باتیں سنی تھی اور اب وہ خود کو ان میں الجھا کہ رہ گیا تھا مگر نحل نحل کا دل تو ہر قسم کے احساس سے خالی تھا اگر وہ ارتضی سے نفرت کرتی تھی تو اس نے عالی سے بھی محبت کا دعوی نہیں کیا تھا ۔اس کہ دل میں کوئی بھی نہیں تھا وہ کیسی عجیب سی کہانی تھی جسے وہ جتنا جاننے کی کوشش کرتا تھا اتنا ہی الجھ کر رہ جاتا تھا۔فقت دو دن، دو دن بعد وہ اسکی زندگی میں شامل ہونے والی تھی ایک سکون اترتا محسوس ہو رہا تھا۔  اس نے اس سے بے غرض محبت کی تھی بغیر اس خواہش کے کہ اس کے بدلے اسے بھی چاہا جائے عشق میں سودا نہیں ہوتا محبوب ہی سب کچھ ہوتا ہے وہ جیسا چاہے جو چاہے وہی کرنا پڑتا ہے۔وہ اپنی سوچوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے آفس کے کام کو مکمل کرنے لگا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
نحل اپنے کمرے میں تھی اور باقی سب شاپنگ کے لیے مال گئے ہوئے تھے گھر میں صرف نحل اور سکینہ تھیں سکینہ گھر میں کام کاج کر رہی تھی اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنی سوچوں سے لڑ رہی تھی۔دل برا ہوا تو کمرے سے نکل کے لاونج میں آ گئی جہاں سکینہ ڈسٹنگ کر رہی تھی
"اسلام و علیکم بی بی جی آپ کھانا کھائے گی "وہ نحل کو دیکھتے ہی اس سے پوچھنے لگی
"نہیں، یہ سب لوگ کہاں گئے ہیں ؟"۔وہ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی
"بی بی جی سب لوگ شاپنگ پہ گئے ہیں "اس نے جواب دیا
"اچھا آپ ایسا کرے مجھے ایک کپ چائے بنا دے " اس نے چائے کا کہا اور خود میگزین کھول کے بیٹھ گئی سکینہ ڈسٹنگ چھوڑ کہ کچن میں چائے بنانے چلی گئی تو نحل نے میگزین ایک طرف رکھی اور ٹی وی  کا ریموٹ پکڑ کے ٹی وی آن کیا اور چینل سفرنگ کرنے لگی پھر ایک ٹالک شو لگا کے بیٹھ گئی اس کا دل آج اپنے گھر میں بھی نہیں لگ رہا تھا عجیب سی بے چینی لاحق تھی ۔جتنے میں سکینہ چائے بنا کہ لائی وہ ٹی وی بھی بند کر چکی تھی ۔سکینہ نے چائے لا کر اس کے سامنے رکھی اور خود دوبارہ ڈسٹنگ کرنے لگی ۔نحل چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے رہی تھی اور وہ مسلسل نحل سے باتیں کر رہی تھی مگر نحل کو اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ چپ چاپ اسے کچن سمیٹنے کا کہہ کے دوبارہ کمرے کی طرف چلی گئی۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔*
سب لوگ مہندی کی تیاری کرنے میں مصروف تھے آیان،فاطمہ اور باقی بچوں  کی ضد پہ مہندی کا فنکشن گھر پہ کرنے کی اجازت ملی تھی شاہ ہاوس کا لان بتیوں سے سجا ہوا دنیا کا الگ ہی کونہ معلوم ہو رہا تھا ایان باسط صارم اور فاطمہ نے مل کے اس کی ڈیکوریشن والوں کے ساتھ مل ڈیکوریشن کی تھی۔سب لوگ یہاں سے وہاں گھوم رہے تھے شاہ ہاوس خوشیاں سمیٹے مسکرا رہا تھا ۔نحل اور عاشی کو بیوٹیشن گھر میں تیار کرنے آئی تھیں۔وہ دونوں کمرے میں تیار ہو رہی تھی کہ فاطمہ کمرے کا دروازہ واہ کرتی ہوئی آ کر بیڈ پہ ڈھے گئی
" افففف یار عاشی جتنا کام میں نے تمہاری مہندی پہ کیا ہے نہ اگر تمہیں کرنا پڑتا تو تم اب تک ختم کر دیتی مجھے "
"کیوں کیا ہو گیا "عاشی شیشے کے سامنے پڑے گجرے اٹھا کے پہننے لگی ۔
"اس آیان کے بچے نے مجھے اتنا تنگ کیا ہے یار گدھا نہ ہو تو "۔وہ اب آیان کی اس حرکت پہ کڑھتی ہوئی بولی اس نے ہاتھ میں پکڑی پیلے پھولوں کی لڑی کو اپنے ہاتھ سے مکمل طور پہ اونچا کیا ہوا تھا اور فاطمہ بیچاری اس کے ہاتھ سے لینے کے چکر میں بے حال ہو گئی ۔ اس نے اسے ٹڈی ٹڈی کہہ کے اتنا ستایا کہ وہ سارا کام چھوڑ چھاڑ کے اوپر آ گئی ۔
"اچھا یار آہستہ اگر آپی نے سن لیا تو شامت آ جائے گی ہماری ان کا پسندیدہ بھائی ہے وہ لنگور "۔ عاشی نے سرگوشی کی وہ بیڈ کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی جبکہ بیوٹیشن کمرے میں کھڑی نحل کا انتظار کر رہی تھی جو ڈریس پہننے کے لیے باتھ روم میں گئی ہوئی تھی۔فاطمہ ایک دم اٹھ کے سیدھی  ہوئی عاشی کو دیکھنے لگی وہ تھکن میں اس کی تیاری دیکھنا تو بھول ہی گئی تھی جو تیار کھڑی اس کے پاس موجود بیڈ پہ بیٹھنے کی کوشش میں تھی یوں فاطمہ کو اٹھتا دیکھ کے عاشی اس کو حیرت سے دیکھنے لگی جو اسے آنکھیں پھاڑپھاڑ کے دیکھ رہی تھی۔
" کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو "۔کیا مطلب یار میری اتنی پیاری بہن بلکل گڑیا جیسی لگ رہی ہے اور میں دیکھوں بھی نہ "
"اوہ مائی گاڈ عاشی تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو" اس نے ہلکی چیخ مارتے ہوئے کہا تو عاشی جی جان سے ہنسی۔فاطمہ خوشی میں اس کے گلے لگ گئی ۔
"یار عاشی اتنا ہیوی لہنگا ہے تم کمفرٹیبل تو ہو نہ "۔اس نے پریشانی سے پوچھا ۔
"ہاں میں تو بلکل کمفرٹیبل ہوں" ۔عاشی نے آرام سے جواب دیا تو فاطمہ بھی پرسکون ہوئی ۔
"اچھا یار عاشی ایک بار گھوم کے دیکھا دو پلیز میں وڈیو بناو گی" فاطمہ نے خواہشانہ انداز میں کہا تو عاشی اسے نہ نہیں کہہ پائی جبکہ لہنگا واقعی بہت ہیوی معلوم ہوا تھا۔عاشی بلکل مست ملنگ ہو کر ایک لمحے کے لیے دونوں ہاتھوں میں لہنگا لیے گھومی تو فاطمہ نے اس لمحے کو اپنے موبائل میں قید کر لیا ۔وہ اب سلومو بنا رہی تھی اور عاشی خود کو ہواوں میں اُڑتا محسوس کر رہی تھی ۔بیوٹیشن اور ورکرز اسے ستائیشی نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ کمرے میں سے آتی نحل کو دیکھ کہ عاشی اس کی طرف بڑھ گئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اس کی ایک انگلی اپنے ہاتھ میں تھامے اسے بھی گھمانے لگی۔
فاطمہ نے بنا کہے اس لمحے کو اپنے کیمرے میں قید کر لیا ۔وہ وڈیوں بناتے ہی نحل کی طرف بڑھ گئی اور پرجوش انداز میں اس کے دونوں بازوں ہاتھوں میں لیے اس کی تعاریف کرنے لگی ۔
"ماشااللہ میری تو دونوں بہنیں جنت کی حوریں لگ رہی ہے۔ "اس نے کہتے ہوئے نحل کے گال کا بوسہ لیا اور دوڑتی ہوئی دروازے کی جانب گئی
" یار میں اب تیار ہو جاو ورنہ بہت لیٹ ہو جاوں گی "وہ کہتے ہی کمرے سے نکل گئی کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا اور تیاری زیادہ وہ دوڑتے ہوئے دعا کے کمرے میں چلی گئی ۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
آیان اور باسط لان کو فائینل ٹچ دیتے ہی تیار ہونے کے لیے کمروں میں چلے گئے۔ابان صاحب اور اسلم صاحب کے چند ایک دوست کو انہوں نے انوائیٹ کیا تھا۔ عاشی کی یونی کی ایک دوست بھی آنے والی تھی وہ لیٹ نہ ہو جائے اس غرض سے اس نے اسے فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ تیار ہو رہی ہے اور تقریبا آدھے گھنٹے میں آ جائے گی۔ مہندی کی رسم شروع ہونے میں دو گھنٹے تھے گھر سب لوگ موجود تھے سوائے اس کے جس کی اپنی شادی تھی۔
ناجانے کتنی کالز کے بعد عالی نے عالیہ بیگم کی کال اٹھائی اور اب وہ اس پہ مکمل طور پہ برہم تھی۔
"عالی یہ کیا بدتمیزی ہے میں کب سے تمہیں کالز کر رہی ہوں سب لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور تم آج بھی آفس میں ہو آدھے گھنٹے میں گھر پہنچو" وہ اسے تنبیہہ کرتی ہوئی بولی۔
"امی"ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے
"مجھے کوئی بہانہ نہیں چاہیے "عالیہ بیگم غصے سے گویا ہوئی۔
"جی " وہ فون بند کرتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اسے مہندی کا پتہ تھا مگر وہ ایک دن میں سارا کام وائینڈ آپ نہیں کر سکتا تھا اس لیے وہ آج بھی آفس آیا تھا۔اس نے آفس سے گاڑی نکالی تو اسے ایک دن پہلے گزرا ہوا لمحہ یاد آیا جہاں صبین بیگم نحل کے تایا کو شادی کا کارڈ دینے کا کہہ رہی تھی ۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیا ارتضی بھی آئے گا اور اگر وہ اسے نظر آئے گا تو وہ یقینا اپنا اختیار کھو بیٹھے گا۔ بس اسی سوچ میں وہ گھر پہنچ گیا۔ وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو پورا شاہ ہاوس روشنی میں ڈوبا ہوا تھا وہ اس تیاری کو دیکھے مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔ لان کسی چاند کی مانند چمک رہا تھا ۔اس کے بیچ میں دو عدد دو سیٹر جھولے پڑے تھے سارے لان کو پیلے اور لال پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔وہ محویت سے لان کو تک رہا تھا کہ صارم کی آواز پہ چونکا۔
"یار عالییی بھائی آپ آ گئے تھینک گاڈ ورنہ تائی اماں اور تایا ابو آپ کو چھوڑنے والے نہیں تھے اور اب پلیز دھیان سے کمرے میں جائیے گا "وہ کانوں سے تو صارم کی بات سن رہا تھا مگر نظریں ابھی بھی لان پہ مرکوز تھی صارم نے اسے لان کی طرف متوجہ دیکھ کے اس سے سوال کیا ۔
"اچھھا لگ رہا ہے نہ بھائی ؟"
"ہاں بہت خوبصورت "عالی کہتے ہوئے مسکرایا۔ اس کو مسکراتا پا کر صارم نے اسے کہنی ماری تاکہ وہ اب اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔
"اچھا تو نظر مت لگائیے گا اب جائیں اور جا کے تیار ہو جائیں"
"ہہممم "عالی جواب دیتے ہی پلٹ کر گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا ۔صارم کسی کام سے باہر چلا گیا تھا ۔سب تیار ہو گئے تو باسط اور عالی کو ڈوپٹے کے نیچے لاتے ہوئے آیان اور صارم ناچ رہے تھے اور حسن بھی سب سے آگے بھنگڑا ڈالتا ہوا شیروانی میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔عالی آف وائیٹ شیروانی میں کسی سلطنت کا بادشاہ  لگ رہا تھا جبکہ باسط بھی مہندی رنگ کی شیروانی میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ان کے اس انداز پہ سب ہنس رہے تھے ہر طرف خوشی کا سما  پھیلا ہوا تھا مسکراہٹوں نے شاہ ہاوس کے گرد ڈیرے ڈالے تھے اسلم صاحب اور ابان صاحب نے بڑھ کر ان کو پیار دیا اور ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی۔اسی طرح ناچتے ناچتے وہ لوگ جھولوں تک پہنچے اور ان کو بیٹھانے کے بعد جا کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
اب باری لڑکیوں کی تھی۔ لان کا راستہ خالی ہوا تو لڑکیوں کی آمد آمد تھی نحل اور عاشی کو ڈولی نما پہیے دار گاڑی میں بیٹھایا ہوا تھا اور فاطمہ اور عاشی اس کو سامنے سے پکڑے ہوئی تھی جبکہ مشال ربعیہ اور روشنی نے اس کو پیچھے سے پکڑ رکھا تھا۔سب مسکراتے ہوئے لان کو عبور کرتے ہوئے جھولوں سے کچھ فاصلے پہ رک گئی نحل کو روشنی اور ربیعہ نے اور عاشی کو فاطمہ مشال اور دعا نے پکڑا رکھا تھا وہ اب ان کے پاس لا کر بیٹھا دی گئی۔ ان کی انٹری پہ ہر طرف شور تھا سب لوگ خوشی سے چلا رہے تھے۔ سب بڑے رسم کرنے میں مصروف ہو گئے ۔ فضہ صاحبہ اکیلی مہندی پہ تشریف لائی تھی ناجانے کتنی کالز کے باوجود ارتضی نے ان کی کوئی کال بھی اٹینڈ نہیں کی۔
جب سب رسم کر چکے تو آیان باسط اور صارم سمیت سب نے بھنگڑا ڈالا۔ انہوں نے بھرپور انجوائے کیا سب لڑکیاں اور روشنی بیگم بھی اب دھمال ڈال رہی تھی ۔سب لوگ اس پرمسرت لمحے میں کھو گئے۔عالی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر تھا کہ نحل اس کہ پہلو میں بیٹھی تھی۔اس کی نظریں نحل کے چہرے کا طواف کر رہی تھی وہ مہندی رنگ کے لہنگے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی عالی تو دنیا سے بے خبر سا اس میں محو تھا ۔جبکہ باسط عاشی کو مسلسل تنگ کر رہا تھا اور وہ اسے گھوریوں سے نواز رہی تھی۔کھانا کھانے کے بعد رات کے آثار زیادہ گہرے ہوئے تو فنکشن ختم کرنے کا کہہ کر اسلم صاحب اپنے کمرے میں چلے گئے اور باقی سب بھی اب اسی تیاری میں تھے جبکے باسط عاشی کو اس کے ساتھ رکنے کا کہہ رہا تھا ۔عاشی اسے ہٹاتی سائیڈ سے نکل گئی اور اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ نحل جس سے اٹھنا مشکل ہو رہا تھا وہ اپنے ہیلز والے پاوں لہنگے سے باہر کرتی ہوئی اب لہنگے کو پکڑے اٹھ رہی تھی کہ عالی نے اپنا ہاتھ بڑھا کہ اس کے سامنے کیا تو نحل نے نظر اس پہ ڈالی اور اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پہ پھر خود ہی کھڑی ہو گئی جیسے ظاہر کروا رہی ہو کہ اسے اس کی ضرورت نہیں عالی بھی کھسیانا ہو کر پرے ہٹ گیا۔ فاطمہ ایک کونے میں کھڑی مسکرا رہی تھی آیان جو دھمال ڈال ڈال کہ تھک گیا تو سانس لینے کو کھڑا ہوا اسکو مسکراتا دیکھ کہ اس کے سر پہ آ پہنچا ۔ اس نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے فون کھینچا اور ہاتھ میں لیے کھڑا ہو گیا تو فاطمہ چیختی ہوئی اس سے اپنا فون چھیننے لگی وہ فاطمہ کا فون ہاتھ میں لہراتے اسے تنگ کرنے لگا ۔فاطمہ فون تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے منہ پھلائے کھڑی تھی ۔ اس کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے آیان ایک پل کے لیے کھو گیا ۔وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔اس نے ڈارک گرین فراک پہن رکھی تھی اوراب وہ اس پہ برس رہی تھی مگر وہ تو اس کی باتوں کو سن ہی نہیں رہا تھا وہ تو اس کی آنکھوں میں کہیں کھویا ہوا تھا ۔ہاتھ اس کا ابھی ہوا میں محلول ہی تھا کہ اس کی زوردار ہیل آیان کے پاوں پہ ماری تو ہوش کی دنیا میں لوٹا
" آہہہہہہ"اسکے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی اب وہ اپنا پاؤں پکڑے کھڑا تھا۔
"اب آیا مزہ جاہل انسان نہ ہو تو گدھا"۔وہ ابھی بھی اسے القابات سے نواز رہی تھی۔
"کتنی بری ہو تم فاطمہ" وہ اب رو دینے کو تھا ۔
" ہاں بلکل دو میرا فون "وہ اپنا فون چھینتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی ۔ سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔
کچھ دیر والا شور اب گم ہو گیا اب ہر طرف خاموشی کا راج تھا ۔ارتضی کو فضہ بیگم نے بہت کہا مگر وہ پھر بھی مہندی پہ نہیں آیا تو وہ واپسی پہ مشال کہ ساتھ گھر آ گئی مشال عاشی کی یونی کی بیسٹ فرینڈ تھی ۔اس لیے وہ اس کے بہت کہنے پہ آگئی تھی مگر یہاں آنے پہ اسے علم ہوا کہ وہ فضہ صاحبہ کے بھتیجیاں ہیں اور ان کا اس سے اس قدر گہرا رشتہ ہے وہ صرف ارتضی کے اس رویے پہ افسوس ہی کر پائی تھی ۔وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کے اس کا محبوب جس کے عشق میں مبتلا ہے وہ اور کوئی نہیں نحل تھی جسے وہ اپنی بڑی بہن کہا کرتی تھی ۔ ارتضی فارم ہاوس سے تو واپس آ گیا تھا پر  شاید وہ حال میں موجود نہیں تھا  ماضی کے لمحوں میں ہی کہیں کھویا ہوا تھا۔وہ سارا سارا دن آفس میں گزار دیتا اور رات کے پہر گھر آ کر ناجانے کس وقت صبح نکل جاتا کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی۔ آج وہ گھر جلدی آ گیا تو  ٹیرس پہ کھڑا لمبے لمبے سگریٹ کے کش بھرنے لگا کے دروازہ کُھلنے کی آواز پہ نظروں کا رخ پھیر کر پورچ میں موجود گاڑی کو دیکھنے لگا جہاں فضہ بیگم مشال کے ساتھ کھڑی تھی مشال نے اپنے پہ کسی کی نظریں محسوس کرتے ہوئے اس جانب دیکھا تو وہ شخص شانے بے نیازی سے نظریں پھیر گیا۔مشال بھی اسے اِگنور کرتی گاڑی میں بیٹھ کے وہاں سے نکل گئی۔ارتضی سگریٹ پھینک کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
*۔۔۔۔۔*
نحل نے کپڑے چینج کیے اور بستر پہ لیٹ گئی۔ عاشی بھی کپڑے چینج کر چکی تھی ۔وہ دونوں بستر پہ لیٹی ایک دوسرے سے باتیں کرتی کرتی سو گئی۔
*۔۔۔۔۔۔۔*۔
نحل ہال کے کمرے میں شیشے کے سامنے سجی سنوری بیٹھی تھی کچھ لمحے سِرکنے کے بعد دعا اور فاطمہ اسے لینے کے لیے آئی تو اس نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا جو اسے دیکھتے ہی خوشی سے اچھلنے لگی ۔فاطمہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
"ماشااللہ آپی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں" وہ کہتی ہوئی اس کی طرف بڑھ رہی تھی مگر نحل ابھی اپنی نتھلی سے الجھ رہی تھی
" یار فاتی اسے نکال دو مجھے اس سے الجھن ہو رہی ہے "
"نہیں آپی یہ نہیں اترے گی اسے انہوں نے بہت مشکل سے سیٹ کیا ہے" وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
"آپی آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں "دعا اپنی چمکتی آنکھیں اس کے سامنے کیے بولی تو نحل اس کی سچی تعاریف پہ اس کو پیار کیے بنا نہ رہ سکی نحل نے اس کا گال تھپ تھپایا اور شکریہ کہا۔ ابھی وہ اس میں مصروف تھی کہ پیچھے سے صبین بیگم بولتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔جہاں وہ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ "چلو بیٹا جلدی کرو آپ دونوں عاشی کو لے کے آو وہ بھی آ گئی ہے پالر سے" ۔
"جی  خالہ میں جا رہی ہوں" فاطمہ دعا کے ہمراہ اسے لینے چل دی۔فاطمہ جلدی جلدی میں سامنے سے آتے شخص میں جا لگی ۔ اس نے خود کو سنمبھالتے ہی سر اٹھا کہ دیکھا تو سامنے پینٹ کوٹ میں کھڑے آیان کو دیکھ کے ایک لمحے کو اسے چپ لگ گئی وہ واقعی ہینڈسم لگ رہا تھا مگر پھر نظر انداز کر کے جانے لگی تو آیان نے اسے روکا
"ہیلو میڈم یہ معافی کون مانگے گا" اس کی بات پہ فاطمہ اسے ہونکوں کی طرح منہ اٹھائے دیکھنے لگی۔
"کیا مطلب ہے آیان اس فضول گوئی کا میں جان بوجھ کے تھوڑی تمہارے میں لگی ہوں وہ تو مجھے جلدی "اس نے اس کی بات بیچ میں کاٹی
"بس بس جانتا ہوں میں جہاں کوئی ہینڈسم لڑکا دیکھا وہی ٹکراؤ شروع" اس کی بات پہ فاطمہ کو غصہ تو بہت آیا مگر پھر سر جھٹکتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔ اسے ابھی جلدی تھی ورنہ وہ آیان کو ضرور حقیقت سے روشناس کراتی وہ اس کی پشت کو تکتا ہوا مسکرایا دور سے آتے صارم نے آ کر اس کے کندھے پہ مکا جھڑا ۔
"کیا کر رہا ہے تو یہاں تایا ابو گھنٹے سے تجھے بلا رہے ہیں عالی بھائی اور باسط تیرا پوچھ رہے ہیں نکاح ہو گیا ہے اور تو ادھر گھوم رہا ہے۔"
"اوہ ہو یار چل چل جلدی کر چلیں وہ لوگ میرا کباڑا کر دیں گے "آیان جلدی سے واپس ہو لیا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔*
مشال جلدی جلدی میں گاڑی کی چابی اپنے پرس میں ڈالتی ہال کی طرف بڑھ رہی تھی کہ سامنے آتے شخص میں جا  لگی تو اس نے سر اٹھائے بغیر ہی سوری کہا سامنے کھڑے شخص نے حیرت سے اس سے سوال کیا ۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو "اس نے آواز سنتے ہی سامنے دیکھا وہ اور کوئی نہیں واقعی ہی ارتضی تھا۔وہ فضہ صاحبہ کو چھوڑنے آیا تھا ان کی بے حد اسرار پہ مگر پھر جب اس سے برداشت کرنا مشکل ہو گیا تو وہ اٹھ کے چل دیا۔
"آپ ؟میں اپنی دوست کی شادی میں آئی ہوں "
" ہممم "وہ جواب دیتا آگے بڑھنے لگا تو اپنی بے وقوفی میں مشال اس سے وہ سوال کر گئی جو اس کی روح تک سلگا گیا
"آپ نہیں جائیں گے "اس کے الفاظ پہ ارتضی کچھ کہے بغیر ہی بڑھ گیا۔مشال کھڑی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔
" آخر کیوں ہے یہ شخص اتنا سڑا ہوا " وہ سوچ رہی تھی کہ پیچھے سے فاطمہ اور دعا آ پہنچی۔
"مشی آپ آ گئی "۔عاشی اسے مشی کہا کرتی تھی اسی لیے سب اسے مشی کہہ کے پکار رہے تھے۔
"ہہ ہاں میں آ گئی عاشی کہاں ہے "اس نے حال میں واپس لوٹتے ہی الٹا اس سے سوال کیا ۔
" ہم اسے ہی لینے آئے، لو وہ آ گئی اس کی گاڑی۔ آ جائے آپ بھی "ابھی اس کی منہ میں ہی بات تھی کہ عاشی کی گاڑی بھی پہنچ گئی وہ سب اسے لینے چلی گئی عاشی نے بھی ارتضی کو جاتے دیکھ لیا تھا۔اسے دکھ ہوا تھا کہ آخر ایسی بھی کیا خود غرضی کہ وہ کچھ دیر رکے بغیر ہی چلیں گئے۔
*۔۔۔۔۔۔*
نحل اور عاشی دونوں ہال پہنچ گئی تو نکاح کی رسم کے لیے اسلم صاحب ابان صاحب اور اکمل صاحب کے ساتھ قاضی کمرے میں آئے جہاں صبین بیگم اور فاطمہ بیگم پہلے سے موجود تھی ۔نکاح شروع ہوتے ہی نحل کو اپنا دل پسلیوں میں سے باہر آتا محسوس ہو رہا تھا اور عاشی کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہیں تھی۔ فرق اتنا تھا عاشی خوش تھی اور نحل سہمی ہوئی ۔دستخط کرتے ہی نحل عاشی سے لپٹ گئی جس نے اس کا ہاتھ تھام رکھا اچانک ہی عاشی نے نحل کو ٹہوکا مارا اور کہنے لگی ۔
"افففف آپی یار آج سینٹی ہونے کی ضرورت نہیں خوشی خوشی جائیں گے ہم"۔ پاس کھڑی صبین بیگم اس کی بات سنتے ہی روتی ہوئی ہنس پڑی ۔
"ہاں بلکل "عاشی کے قریب کھڑی فائیقہ بیگم بھی نم آنکھوں سے مسکرائی تو ماحول کا سکتہ ٹوٹا۔ اسلم اور ابان سمیت سب مرد باہر جا چکے تھے ۔روشنی فاطمہ اور دعا سب ان دونوں کو لینے کی غرض سے اندر داخل ہوئی ۔
"جلدی کرو عاشی دلہے میاں آ پہنچے تمہارے " وہ یہ کہتی عاشی کی طرف بڑھی ۔دوسری جانب روشنی بیگم اور فائیقہ نحل کو اٹھنے میں مدد کر رہی تھی ۔ دونوں کو ہال میں لایا جا رہا تھا سارے ہال کی لائیٹس آف تھی سپورٹ لائیٹ ان دونوں پہ مرکوز تھی ۔
ماہ رو ماہ رو
مہجبین مہجبین
آفرین آفرین
آفرین آفرین
حسن جاناں کی تعاریف
ممکن نہیں ۔
وہ جو کچھ دیر پہلے ارتضی کو دیکھ کر ضبط کی انتہا پہ تھا نحل کو دیکھتے ہی ایک لمحے کے لیے عالی دنیا سے بیگانہ ہو گیا اسے نظر آ رہی تھی تو محض نحل وہ سرخ جوڑے میں ملبوس کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔وہ تھی ہی پری عالی شاہ کے دل پہ راج کرنے والی اکلوتی پری۔
*۔۔۔۔۔۔۔*
باسط کے تو دانت ہی اندر نہیں جا رہے تھے عاشی کا اٹھتا ہر قدم اسے اپنے دل پہ رکھتا محسوس ہو رہا تھا ۔اس کو مسلسل دانت نکالتا دیکھ آیان نے اسے ٹہوکا مارا تو وہ ہوش میں آیا۔
"یار دانت تو اندر کر لے مانا میری بہنیں بہت خوبصورت ہیں" ۔
"ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں"۔ باسط نے اس کی تعید کی تو آیان ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔
"یار تو تو واقعی عاشی کے پیار میں گوڈے گوڈے ڈوب گیا ہے "اس نے اسے طنز کیا ۔
"اڑا لے مذاق سالے تیری باری آ لینے دے پھر دیکھی "۔باسط نہ اس کے پیٹ میں کہنی مارتے ہوئے کہا۔
"ہمممم پہلے تو خود تو بھگت لے اسے پھر میری بھی شامت لانے کا سوچ لینا "آیان نے عاشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
"یار اسے بھگتنے کو تو میں عمر بھر کے لیے تیار ہوں" ۔وہ اب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہا تھا جو محض کچھ فاصلے پہ تھی ۔ مزید کچھ پل کے توقف کے بعد نحل کو عالی نے ہاتھ بڑھا کے سٹیج پہ چڑھنے میں مدد دی اور باسط بھی ہاتھ پیش کیے کھڑا تھا جسے مسکراتے ہوئے عاشی نے تھام لیا وہ لوگ بیٹھ چکے تو سارے ہال کی لاٹس آن ہو گئی نہ چاہتے ہوئے بھی عالی اس کے چہرے سے بمشکل نظریں  ہٹائے اب سامنے نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ دودھ پلائی کی رسم فاطمہ دعا اور مشی نے کی تو عالی نے شرافت سے ان کی من چاہی رقم ان کے ہاتھ میں تھما دی مگر باسط اور آیان نے فاطمہ کو خوب ستایا تھا ۔آیان فاطمہ کو چِڑانے کے لیے مسلسل باسط کو کہہ رہا تھا۔
"یار باسط ایسے دودھ سے تو تُو پیاسا ہی اچھا ہے"وہ فاطمہ کو چڑانے میں کامیاب ہو گیا تھا جو اس کی بات پہ اسے گھور رہی تھی۔
"ہاں سہی کہہ رہا ہے تو یار "باسط نے اسکا ساتھ دیا تو فاطمہ مزید چڑ گئی ۔
"تم اپنے کام سے کام رکھو آپ بس پندرہ ہزار دے اور پھر ارام سے جا سکتے ہیں باسط بھائی پھر لے جائیے گا میری بہن کو"
"یار تم کتنی تیز ہو پارٹی بدل لی تم نے تو "اس نے حیرت سے کہا
"جی بس ایسا ہی سمجھیں"وہ تنک کے بولی
"جلدی کرو بچوں کافی دیر ہو گئی ہے"ابان صاحب اب انہیں وقت کا احساس دلا رہے تھے ۔باسط نے آخری حل پیش کرتے ہوئے دس ہزار کا کہا تو فاطمہ بھی مان گئی۔
ساری رسموں کے بعد جیسے ہی رُخستی کا وقت ہوا تو آنسووں کا ریلہ صبین بیگم کی آنکھوں سے بہہ نکلا وہ دونوں ان کی زندگی کا خاصا تھی۔نحل بوجھل دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی اپنے ہاتھوں کو تک رہی تھی جبکہ عاشی دعا اور فاطمہ ایک ساتھ گاڑی میں گھر گئی تھی سب لوگ اسلم صاحب کے گھر موجود تھے ۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔*
نحل کو عالی کے کمرے میں لا کے بیٹھایا گیا کمرے گلاب کی پتیوں اور بکے سے سجایا گیا تھا کمرے کی نفاست سے عالی کی شخصیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ عالی جو ضبط کے آخری مراحل طے کر رہا تھا ارتضی اس کو بے چین کر گیا مگر وہ خود کونسا سکون کی بستی میں قیام پذیر تھا دونوں کا کرب ایک سا ہی تھا مگر فرق اتنا تھا کسی کو ساتھ بخشا گیا تھا اور کسی سے روح گردانی کی گئی تھی وہ خود سے جنگ لڑتے لڑتے ہار گیا تو اٹھتا ہوا کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔*
ارتضی جس وقت سے وہاں سے لوٹا تھا صرف در در کی خاک چھان رہا تھا۔ وہ بے مقصد سڑکوں پہ گھومتا رہا تھک ہار کے گھر کا رخ کیا اور گاڑی پورچ میں کھڑی کیے وہ اندر لاونج میں بڑھ گیا۔ اس کی تکلیف کا اندازہ اس کے حال سے کیا جاسکتا تھا کوئی شخص بھی اس کی حالت دیکھ کے بتا سکتا تھا کہ اس کے دل کی دنیا اُجڑی ہے اور اب وہ بے ٹھکانا سا در بدر بھٹکتا پیھر رہا ہے اور یہ اندازہ تو مشال بھی کر چکی تھی ۔وہ دھیمی چال چلتے ہوئے آ کر صوفے پہ بیٹھ گیا آج اس کو دیکھ کے کوئی بھی اس کی ہار تسلیم کر سکتا تھا تو پھر مشی کو کیسے پتہ نہ چلتا۔
"ارتضی "
"ارتضی آپ ٹھیک ہے نا" اس نے اسے پکارا  تو وہ اپنی ہی رو میں بولتا چلا گیا
"حیرت ہے مجھے تمہارے سوال پہ کیسے پوچھ رہی ہو کیا تمہیں ایک ہارا ہوا شخص نظر نہیں آ رہا بتاو۔ جس سے محبت ہو اسے کسی اور شخص کے ساتھ رخصت ہوتا دیکھ کے کیا تم خوشی سے شادیانے بجاو گی نہیں نہ پر تمہیں کیا پتہ تم نے تو کبھی کسی سے محبت ہی نہیں کی تم اس کرب کا اندازہ کیسے کر سکتی ہو جانتی ہو جب برسوں آنکھوں میں پالے ہوئے خواب ٹوٹتے ہیں ناں تو ان کی کرچیاں آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل کو بھی زخمی کر جاتی ہیں"

غمِ طویل دمِ مُختَصَر په غالب هے (مکمل)Where stories live. Discover now