آخری باب (ب)

187 12 5
                                    

نحل اور عالی قدم سے قدم ملائے لان میں شام کے وقت واک کر رہے تھے جب عالی نے اسے پکارا۔
"نحل"
"جی"وہ زمین کی جانب دیکھتی ہوئی بولی
"ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں"اس نے اسکی جانب متوجہ ہو کر کہا۔
"جی پوچھے"نحل مسکرائی
"مجھ سے محبت کی کوئی خاص وجہ ہے کیا"وہ سنجیدہ تھا
"آپ سے محبت کا سب سے بڑا جواز آپ کا محرم ہونا تھا، عالی میں چاہ کر بھی اس محبت نامی احساس کو اپنے اندر اٹھنے سے روک نہیں پائی"وہ سنجیدہ سی کہہ رہی تھی اور عالی اسکے جواب پہ مسکرا رہا تھا۔وہ ایسی ہی تھی ہر بات کا اس کے پاس الگ ہی جواب ہوتا تھا وہ عام منچلی لڑکیوں جیسی بلکل نہیں تھی وہ واقعی اپنے وضع کی اکیلی لڑکی تھی اسی لیے تو عالی شاہ کو اس سے عشق تھا۔
"اور آپ کی محبت کی خاص وجہ "اس نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
"محبت نہیں عشق عالی شاہ عشق کرتا ہے نحل رضوی سے" عالی نے اسکے الفاظ کی تصیح کی تھی۔
"وفاداراور نیک بیوی کی خواہش تو ہر مرد کرتا ہے تم سے عشق تو مجھے بچپن سے تھا بس اس کا ادراک دیر سے ہوا تھا تمہارے بغیر ایک لمحہ بھی قیامت سے کم نہیں گزرا"۔ وہ جذب سے کہہ رہا تھا جس پہ نحل نے آنکھیں گھما کر اسکی جانب دیکھا اور مسکرائی وہ ہمیشہ اسے لاجواب کر دیتا تھا نحل اسکے جواب کو محسوس کر رہی تھی ایسا لگ رہا تھا وہ محض الفاظ نہیں احساس ہے کیا وہ واقعی اسے بچپن سے چاہتا تھا۔پھر سر جھٹک کے بولی۔
"بہت ڈرامیٹک انسان ہے عالی آپ "عالی اسکے جواب پہ گنگ سا اسے دیکھ رہا تھا جو اسکی جذبات کو ڈرامیٹک کہہ رہی تھی۔ پھر چڑ کر بولا
"یار تم میری سچی فیلنگز کو ڈرامیٹک کہہ رہی ہو بلکہ مجھے تو اس بات کا افسوس ہے کہ تمہاری وجہ سے میں نے کبھی کسی کو ایسی نظر سے نہیں دیکھا تم نے موقع ہی نہیں دیا" وہ بیچاری سی شکل بنائے افسوس کے ساتھ بولا جو اب اپنی جون میں لوٹ آیا تھا۔
"میری وجہ سے "نحل نے اپنی آنکھیں گول کرتے ہوئے حیرت سے کہا۔
"ہاں تمہاری وجہ سے" وہ ہنوز اسی طرح سنجیدہ تھا۔
"توبہ ہے عالی وہ جو اس دن فرح(عالی کی خالہ کی بیٹی ) سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے تھے وہ کیا تھا"اس نے میدان میں اترتے ہوئے سوال کیا۔
"کس دن" عالی حیران ہوا
"ایان کے نکاح والے دن" نحل تنک کے بولی غصہ ہیزل آنکھوں میں در آیا تھا
" اچھا وہ ہاہاہاہاہاہاہا "عالی اسکی بات پہ زووں سے ہنسنے لگا اور ہنستا ہی چلا گیا پھر پاس پڑے بینچ پہ بیٹھ گیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ نحل کب کی بات کر رہی ہے۔ایان کے نکاح کے دن وہ اس سے ناراض تھی مگر پھر بھی وہ جانتی تھی کہ اس نے فرح سے بات کی تھی اسے مزہ آیا تھا وہ جان کے اب اسے ستانے لگا۔
"تم کیا سمجھی تھی میں اس سے کیا باتیں کر رہا ہوں " عالی نے ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے دوبارہ اسکے مقابل کھڑا ہو کر تجسس سے پوچھا۔
"ککچھ نہیں ،مجھے کیا جو مرضی باتیں کریں" وہ منہ بسورے بولی۔
"اچھا تو تم مجھے اجازت دے رہی ہو "اس نے شرارت سے کہا۔
"کیا مطلب کیسی اجازت"وہ اسکی طرف نا سمجھی سے دیکھتے ہوئے بولی۔
"یہی کے میں فرح سے جو مرضی باتیں کروں "اس نے آنکھ دبا کر کہا۔
"خبردار عالی جو آپ نے اسے بلایا تو، میں آپ کی جان لے لوں گی "وہ اسکو وارن کرتی ہوئی بولی
"اہنہنہ "عالی نے سر نفی میں ہلایا تو نحل فورا بولی
"بہت برے ہے عالی آپ " کہتے ہی دونوں ہاتھوں سے اسکے سینے پہ مکوں کی برسات شروع کردی وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے کھڑا مسکرانے لگا
"اچھا اچھا بات سنو "
"کیا ہے" وہ نڑوٹھے پن سے بولی
"وہ نا مجھے فرح بہت اچھی لگتی ہے "اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
"کیا " اس نے حیرت سے آنکھیں پیھلائی جیسے اسکی بات پہ یقین نہ آیا ہو۔
"ہاں سچی " وہ مصنوعی معصومیت سے بولا۔
"کیوں اس میں ایسا کیا ہے" نحل نے دکھ سے پوچھا
"کیونکہ وہ میری بہن ہے" اس کے جواب پہ نحل دوبارہ اسکے سینے پہ مکوں کی برسات شروع کرنے والی تھی کی عالی بول اٹھا۔
"ارے ارے بس یار درد ہو رہا ہے " وہ فورا رکی جو اس کے ہاتھ تھامے کھڑا مسکرا رہا تھا اسلم صاحب کی آواز پہ چونکا
"کیوں تنگ کر رہے ہو میری بچی کو"وہ کرسیوں کی جانب بڑھتے ہوئے بولے یقینا وہ مغرب کی نماز پڑھ کے گھر لوٹے تھے۔
"دادوں میں کچھ نہیں کہہ رہا یہ آپکی نوابزادی ہی ہر وقت مجھ پہ شک کرتی رہتی ہے" وہ مسکراتے ہوئے اسکی شکایت کر رہا تھا
"توبہ نانا جان جھوٹ بول رہے ہیں یہ ہمیشہ مجھے تنگ کرتے ہیں" وہ اسے منہ چڑھاتے ہوئے مڑ گئی جانتی تھی اب اس کی شامت آنے والی ہے خود لان سے اندر کچن کی جانب چل دی۔جبکہ اسلم صاحب انکی شکایتیں سن کر مسکرا دیئے۔عالی وہی انکے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا۔

غمِ طویل دمِ مُختَصَر په غالب هے (مکمل)Where stories live. Discover now