باب8

143 13 2
                                    

ارتضی  تیزی سے پارکنگ ایریا سے اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا مشال اور عمر کو پیچھے آتا دیکھ کے ایک پل کے لیے رُکا۔
"تم لوگ میرے پیچھے کیوں آ رہے ہو " ارتضی نے غصے سے بھری نگاہوں  سے عمر کو مخاطب کیا۔
"کیا مطلب ہے تمہارا تم نے اپنی حالت دیکھی ہے اور یہ اتنی جلدی میں کہاں جا رہے ہو"عمر تنک کے بولا۔اُسے اس کی فکر تھی۔
"اس شخص کے پاس" ارتضی نے نفرت سے بتایا۔
"نہیں تم ابھی بہت غصے میں ہو اور خالہ کی طبیت بھی ٹھیک نہیں تم کہیں نہیں جاو گے "عمر اس کے قریب بڑھتا ہوا اسے سمجھانے لگا۔
"تم جانتے ہو ناں کے میں تمہارے کہنے پہ نہیں رکنے والا"ارتضی نے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔
"ہاں ،میں جانتا ہو مگر خالہ کی حالت کا کچھ خیال کرو وہ تم دونوں کی درمیان پِس کے رہ گئی ہے تم دونوں ہی ایک جیسے ہو جاو گے تو وہ خود کو کیسے سنمبھال پائیں گی "۔ عمر اسے سمجھا رہا تھا وہ جانتا تھا کہ ارتضی سوائے اس کے کسی اور کی بات نہیں مانے گا۔
"غصہ تھوک دو چلو میرے ساتھ"مزید سمجھاتے ہوئے اس نے ارتضی کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
"نہیں، میں جانتا ہو وہ اِس وقت اٗس عورت کے پاس ہی ہوں گے تم مجھے جانے دو میں آج انہیں ہر گز معاف نہیں کروں گا۔" ارتضی بضد تھا ایک طوفان اس کے اندر مچا ہوا تھا۔
"کیا ،کیا مطلب ہے تمہارا تم اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے ارتضی کہ وہ تمہارا باپ ہے"عمر نے بھی غصے سے جواب دیا۔
"ہاں،یہی بات مجھے ہمیشہ نہیں روک سکتی ،میں کیا کروں مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا عمر میں اس بار انہیں معاف نہیں کر سکتا، میں نے اپنا ہر پیارا ان کی لاپرواہی اور خود غرضی کی وجہ سے کھو دیا ہے۔"وہ بات کرتے کرتے اپنا اختیار کھو چکا تھا آنکھوں سے آنسووں کی چند بوندے نکل گئی ۔ اس نے ایک زور دار ہاتھ گاڑی پہ دے مارا ۔
"ہاں مگر ابھی اس سب کا وقت نہیں ہے خالہ کسی قسم کا مزید سٹریس برداشت نہیں کر پائیں گی۔" عمر نے سمجھانے کی کوشش جاری رکھی۔ مشال کا حوصلہ ارتضی کی آنکھوں سے نکلتے آنسووں نے پل بھر میں پست کر دیا تھا جس شخص کو وہ ہمیشہ خود غرض سمجھتی آئی تھی اس کی ماں سے محبت دیکھ کے اسے حیرت ہوئی۔عمر کے سمجھانے پہ ارتضی نے فلحال عدنان صاحب کے پاس جانے کا فیصلہ ترک کر دیا مگر وہ یہاں بھی نہیں رُکنا چاہتا تھا اسی لیے گاڑی میں بیٹھ کے زن سے گاڑی بھگا لے گیا ۔عمر اور مشال اسکی بے بسی کو دیکھتے ہوئے وہی کے وہی کھڑے رہ گئے مشال کو بھی ٹھیس لگی تھی اسکو تکلیف میں دیکھ کے دل میں ٹیس اٹھی جسے وہ چھپاتے ہوئے مڑ گئی اور واپس آئی سی یو کی طرف چلی گئی جبکہ ارتضی گاڑی چلاتا چلاتا ناجانے شہر سے کتنا دور نکل آیا تھا۔
*۔۔۔۔۔۔*
سفر شروع ہو گیا تھا سب لوگ اپنی منزل کی طرف روانہ تھے کسی خاص جگہ کا انتخاب بھی نہیں ہوا تھا بس وقت جہاں جانے کی اجازت دے گا اتنا ہی گھومیں  گے۔منظر کچھ یوں تھا کہ عالی کی گاڑی میں عالی، آیان اور نحل کے علاوہ سامان سے بھری ہوئی تھی سب لوگ خوشی خوشی سفر کر رہے تھے۔ نحل نے اپنا سر گاڑی کی ونڈو سے ٹکایا ہوا تھا ناجانے باہر دیکھتے دیکھتے اس کی کب آنکھ لگی اسے اندازہ ہی نہیں ہوا عالی نے باہر دیکھتے دیکھتے ایک نظر نحل پہ ڈالنے کے لیے گردن کا رخ موڑا تو نحل کا سر جھول رہا تھا جسے عالی نے بڑے احتیاط سے سیٹ کی بیک کے ساتھ لگایا اور اسے بڑے غور سے دیکھنے لگا گویا اس کے نقوش حفظ کر رہا ہو۔آیان جو عالی کو دیکھ رہا تھا اس کے یوں دیکھنے پہ مسکرا اٹھا اور کہنے لگا۔
"بھائی نظر نہ لگا دیجئے گا"اس نے شرارت سے کہا تو عالی نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا جو مسکراتا ہوا سامنے دیکھ رہا تھا۔
"نہیں محبت کرنے والوں کی نظر نہیں لگتی"۔وہ پھر سے نحل کی جانب دیکھنے لگا۔
"ارے عالی بھائی محبت کرنے والوں کی ہی تو نظر لگتی ہے"آیان نے اسے یقین دلانا چاہا۔
"اچھا تمہیں بڑا پتہ ہے"۔اب وہ اسکی جانب متوجہ ہو گیا تھا۔اپنی ازلی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے وہ بولا۔
"جی میں نے اسی فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ہے"۔وہ کونسا کسی سے کم تھا۔
"ہاہاہاہا اچھاچپ رہو اگر یہ شیر کی نانی جاگ گئی تو میرے ساتھ ساتھ تمہاری بھی کلاس لگے گی۔"عالی نے اسے ڈرانا چاہا۔
"ہاہاہاہا صیح کہہ رہے ہیں بھائی آپ" عالی پھر سے باہر کی طرف متوجہ ہو گیا۔ہزارہ موٹروے سے انہیں تقریبا آٹھ سے نو گھنٹے لگے تھے رستے میں وہ ایک خوبصورت آب شار کیوائی کے پاس رکے جہاں سب نے دل کھول کے تصاویر بنائی۔صبح کے تقریبا نو بج رہے تھے سورج ہر طرف اپنی کِرنوں کا جال بچھا چکا تھا۔ صبح کا دلکش موسم ہر طرف پھیلی ہریالی سب کو تروتازگی بخش رہی تھی تاحدِ نظر ہر طرف سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا تھا اور  قدرت کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ اپنی کشش سے انسان کو اپنا اسیر بنا دیتی ہے سب نے رات بس یوں ہی گرتے پڑتے گزاری تھی ان وسیع پہاڑوں کے بیچ میں یہ آب شار الگ ہی خوبصورتی سے سجی بہہ رہی تھی۔ آب شار کے پاس ہی ناشتہ کرنے کی جگہ کا انتظام تھا جہاں سب لوگ چارپائیوں پہ بیٹھ کے ناشتہ کر رہے تھے نیچے ٹھنڈے پانی کی آبشار بہہ رہی تھی عاشی اس ٹھنڈے پانی میں مسلسل ہاتھ چلا رہی تھی۔ جس میں سے پانی کی چند بوندے عاشی نے سامنے بیٹھے باسط کی طرف اچھالی جو آدھ کھلی آنکھوں کو ابھی تک مسل رہا تھا ایک جھٹکے سے ہوش میں آیا۔
" یار عاشی یہ کیا بد تمیزی ہے ایک تو صبح صبح اٹھا دیا اففف" ۔ وہ ابھی تک نیند میں تھا۔
"پارٹنر کیا ہو گیا تم یہاں سونے تھوڑی آئے ہو۔ قدرت کے مناظر دیکھوں آنکھیں کھولوں یہ دیکھوں تمہارے سامنے اللہ کے شاہکاروں میں سے ایک خوبصورت شاہکار بیٹھا ہے" یہ بات اس نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا جس پہ سب لوگ جی کھول کے ہنسے۔
"واہ بھئی واہ اپنے منہ میاں مٹھوں"باسط نے ہنستے ہوئے کہا۔وہ اب مکمل طور پر جاگ چکا تھا۔
"نہیں میں واقعی تعاریف کی حقدار ہوں"دور سے آتے آیان نے جو ناشتے کا آرڈر دینے گیا تھا ان کی طرف آتے ہوئے جواب دیا۔
"ہاں ویسے تم کافی غلط فہمی کا شکار ہو عاشی" ۔اس نے اسے سچ بتانا چاہا۔
"کیا مطلب ہے تمہارا لنگور"۔وہ اسکی بات پہ واقعی چڑ گئی۔
"وہی جو تمہیں سمجھ میں نہیں آیا" اس نے آنکھ دباتے ہوئے عاشی کو جواب دیا۔
"اچھھا بس اب تم دونوں یہاں شروع مت ہو جانا" نحل ان دونوں کو چپ کروانے کے لیے گویا ہوئی۔
"ہننننہہہ گدھا"عاشی نے اسکے مخصوص خطاب سے نوازا۔
"عاشیییی" نحل کے کہنے پہ عاشی منہ بسور کے بیٹھ گئیجبکہ فاطمہ اور دعا مسلسل تصویریں بنانے میں مگن تھی۔
*۔۔۔۔۔۔۔*

غمِ طویل دمِ مُختَصَر په غالب هے (مکمل)Where stories live. Discover now