یہ آرزو تھی از مریم راشد

187 16 8
                                    

وہ مسکرا رہی تھی تو اس کا دل بھی مسکرا رہا تھا۔وہ ہنس رہی تھی تو سیروں خون اس کا بھی بڑھ رہا تھا۔اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کیسا تھا کیسا نہیں؟فرق پڑتا تھا تو اس بات سے کہ محبوب کیسا ہے؟کیا وہ ٹھیک ہے؟کیا وہ خوش ہے؟
وہ خوش ہے تو اس کی خوشی میں خوش ہونا پڑتا ہے۔پھر بے شک دل ضدی بچہ بن کر زمین پر بیٹھ کر دھرنا دے یا تکلیف کے سبب پھٹنے کے در پر آجائے۔مسکرانا فرض ہوتا ہے۔کیوں کہ وہ خوش ہے تو بس تم پر لازم ہے خوش رہو۔
شادیانے بج رہے تھے۔گیت گائے جا رہے تھے۔اس کی سہلیاں اسے چھیڑ رہی تھیں اور وہ انکی باتوں پر ہنس رہی تھی پھر شرما رہی تھی۔پیلے مایوں کے جوڑے میں وہ گیندے کا پھول لگ رہی تھی۔تازہ دم سی۔وہ بھی دنیا مافیا سے بے خبر اسے دیکھ رہا تھا۔دل کی جو بھی حالت تھی وہ ایک طرف تھی مگر اسے خوش ہو کر دکھانا فرض تھا۔کہیں وہ اداس نہ ہو جائے۔وہ تو نئے سفر پر جا رہی تھی۔اسے اداس کرنا تو گناہ تھا پھر خواہ اپنے دل کو کچل لو۔تین ماہ ہی گزرے تھے جب وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔وہ مسکراہٹ اسے آج بھی یاد تھی۔کیا ادا ہوتی ہے محبوب کی؟زخمی کرتا ہے تو بھی ہتھیاروں سے لیس ہو کر۔
"وہ کہتا ہے کہ وہ رشتہ بھیجے گا۔"
دھک سے اس کا دل خالی ہوا۔یہ مسکراہٹ،یہ لہجہ یہ تو اور ہی پیام دے رہا تھا۔
"ککک ۔۔۔کون؟" اس نے کس ضبط سے بات مکمل کی وہ جانتا تھا یا اس کا خدا۔
"احمد کہہ رہے تھے وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔وہ مجھ سے رضامندی مانگ رہے تھے اور میں نے ۔۔۔"
وہ رکی اور اسے دیکھا جس کا چہرہ پیلا پڑ رہا تھا مگر وہ مسکرا رہا تھا۔
"ہاں بولو پھر کیا ہوا؟"
دل نے تمنا کی کہ اپنے بوئے بیچ کا پھل چکھو۔
"میں نے ہاں کر دی۔اللّه نے میری خواہش پوری کر دی۔"
وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی دعاوں کا،اس کی وفاؤں اور اس کی محبت کا کیا؟جہاں دل لگایا وہاں سے وفا کیا؟نظرِ کرم بھی نہیں ملی۔وہ پوچھنا چاہتا تھا صباء میرے دل کا کیا؟میری وفاؤں کا کیا؟مگر ہمیشہ کی طرح لب سی لئے اور بمشکل مسکراتا رہا۔وہ اسے مزید بتا رہی تھی مگر وہ چپ تھا۔ایک طرف دوست اور دوسری طرف محبت۔محبت بھی وہ جو کوئی آرزو پوری نہیں کر سکتی تھی۔ایک آرزو تھی کہ وہ بھی اس سے محبت کرتی مگر وہ آرزو ،آرزو ہی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل کے کنارے پر سمندر کی موجیں کروٹ بدل رہی تھیں۔ڈھلتے سورج کی ہمنوائی میں چلتی ہوا کے سبب اس کی قمیض پھڑپھڑا رہی تھی۔ماتھے پر گرے بال بکھرے ہوئے تھے۔آنکھوں میں گہرا حزن و ملال تھا۔سرخ ڈوروں والی آنکھیں رتجگے کی گواہی دے رہی تھیں۔دریا کنارے کھڑا وہ مسافر کسی اور دیس کا باسی معلوم ہو رہا تھا جو شاید سمندر کو اپنا دکھ سنانے آیا تھا۔
کئی بار جی چاہتا ہے کہ دل بے آرزو ہی رہتا۔پلکوں کی دہلیز پر نم رہتی۔کچھ خود کو درد دے کر درد کا حق ہم بھی ادا کر لیتے۔کسی کا کھو جانا عذاب بھی ہے امتحان بھی۔درد میں سکوں بھی ہے،درد میں عذاب بھی ہے۔جسے چاہ لو اس سے کئی بار ملتا ہے تو کیا؟ظالم انداز،ظالم الفاظ اور سنگدل لہجہ۔انسان جیسے اس لمحے پتھروں کی پلکوں پر کھڑا ہوتا ہے۔دل کو یا خود کو سزا دینے کا جی چاہتا ہے۔آخر کیوں دل اسی دیس میں لگ جاتا ہے جہاں کے باسی ستمگر ہوتے ہیں؟ سوالی بہت ہیں پر جواب دینے والا کوئی نہیں!شاید ازلوں سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ دل وہیں جا لگتے ہیں جہاں ظالم بستے ہوں۔
سر پٹخ پٹخ کر انسان لہو لہان ہو جاتا ہے اس لمحے دل بس ایک تسبیح کر رہا ہوتا ہے۔
یہ آرزو تھی کہ بے آرزو رہتے!

۔.......end.......

📌how was the story
📌I choosed to write on A Sad topic.Did it go well?
Do let me know
Follow me on InStagram
@ writer_maryamrashid a user

Short StoriesWhere stories live. Discover now