Episode 1
سورج کی کرنیں قسر نعمانی کو اپنی آغوش میں لے رہی تھیں اور وہ بہت مزے سے اپنے بستر پر نیم دراز تھی اور خوابوں کے زیر اثر تھی کہ اچانک۔۔،اس کا دروازہ دھڑام سے کھلا اور کسی نے اس کی رضائی اتنی زور سے کھیچی کہ وہ ہر بڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔، کیا مصیبت ہے کون آگیا اتنی صبح صب، اور جیسے ہی اس نے ایک آنکھ کھول کر اپنے سامنے دیکھا تو باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے اس کے سامنے عائشہ نمعانی یعنی کہ اس کی والدہ کھڑی تھیں اور اسے ایسےدیکھ رہی تھیں جیسے ابھی کھا جائے گی۔۔۔۔،ماما کیا ہو گیا کوئی مر تو نہیں گیا۔۔۔، ہاں مر نہیں گیا لیکن مرنے والا ہے ۔۔؛کون ماما۔۔؟ تم اور وہ بھی میرے ہاتھوں سے وقت دیکھا ہے کیا ہو رہا ہے۔؟دوپہر کےدو بج رہے ہیں۔۔؛ اور تم بول رہی ہو صبح صبح؛عجیب لڑکی ہو۔۔ لوگوں کی بیٹیاں صبح فجر کے وقت اٹھ کر نماز پڑھتی ہیں اور پھر سب کے لئے ناشتہ بناتی ہیں،پورا گھر سنبھالا ہوتا ہے انہوں نے اور ایک میری بیٹی ہے جسے کھانے اور سونے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔۔۔،ممانی جان غلط بیانی نہ کریں میری پیاری سی کزن کے بارے میں وہ بیچاری فون بھی تو استعمال کرتی ہے آپ وہ کیسے بھول سکتی ہیں۔۔؟ دروازے پر کھڑے علی نے جلتے پر نمک چھڑکا اور اریبہ بس سے دیکھ کر رہ گئی۔۔،تم چپ کر جا ورنہ میرے ہاتھوں سے قتل ہو جاؤ گے جب دیکھو محلے کی انٹی بنے پھرتے ہو جہاں جھگڑا دیکھا نہیں وہ اپنی رائے دے کر مزید آگ لگا دیتے ہو۔۔،خبردار جو پھر تم نے مجھے محلے کی آنٹی بولا ہے تو چڑیل۔۔!! تم ہو تو میں کہوں گی نہ اور ۔۔۔۔۔۔،،اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی عائشہ نعمانی نے اس کی پیٹھ پر ایک زور دار تھپڑ مارا تو وہ تڑپ سی گئی تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے دو سال بڑے کزن سے ایسے بات کرتے ہوئے۔۔؟؟ تمہاری پوپھو کا بیٹا ہے کچھ شرم کر لو۔۔، ہوں پھپھو کا بیٹا کم اور جن کا بیٹا زیادہ لگتا ہے۔۔، وہ ہلکے سے بڑبڑائی کیونکہ اگر اب کچھ کہتی تو پکا اماں سے چھتر پڑنے تھے تو وہ چپ چاپ اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی اور وہ مزے سے تماشہ دیکھ کر واپس پلٹ گیا۔۔۔
قسر نعمانی میں نعمان صاحب اور انکی زوجہ فاطمہ نعمانی رہتی تھیں جن کی تین اولادیں تھیں سب سے پہلے حافظ نعمانی ان سے چھوٹے قدیر نعمانی اور سب سے چھوٹی ارفع نعمانی تینوں بچوں کی شادی ہو چکی تھی۔۔،سب سے پہلی اولاد یعنی کہ حافظ نعمانی کی ارینج میرج ہوئی تھی اور ان کی زوجہ کا نام راضیہ نمعانی تھا،دوسرے بیٹے قدیر نعمانی کی شادی ان کی کزن سے ہوئی تھی جن کا نام عائشہ نعمانی تھا،سب سے چھوٹی عارفع نمعانی کی شادی بھی خاندان سے باہر ہوئی تھی اور ان کے شوہر کا نام عارف تھا۔۔،حافظ صاحب کی ایک اولاد ہے شفق،قدیر صاحب کے دو بچے ہیں بڑاحمزہ اور چھوٹی اریبہ ۔۔۔،حمزہ آفس میں اپنے چاچو اور بابا کے ساتھ کام کرتا ہے جبکہ اریبہ یونی کے دوسرے سال میں ہے۔۔،عارفہ کے بھی دو بچے ہیں بڑی علینا اور چھوٹا علی،علینا ماسٹرز کر رہی ہے جبکہ علی یونی کے آخری سال میں ہے ۔۔،اسکے بعد عریبہ تھی وہ ایک آزاد خیال قسم کی لڑکی تھی(bold) ۔۔، علی اور عریبہ دونوں بہترین دوست تھے (best friends).. عریبہ سادہ سی لڑکی تھی لیکن اسکی سادگی ہی اسکی خوبصورتی تھی جو بہت کم لوگ پہچان پاتے تھے ہان لیکن وہ شرارتی بھی تھی۔۔۔۔۔نعمان صاحب اور انکی زوجہ کا کار حادثہ میں انتقال ہو گیا تھا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے لیکن انکو اپنی جائیداد کے بٹوارہ کا موقع نہیں ملا لیکن پھر بھی دونوں بھائی بہت پیار اور سکون سے ایک ساتھ رہتے تھے وہ خوشحال گھرانہ تھا....
وہ فریش ہو کر جب نیچے آئی تو سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے وہ سب سے پہلے ارفع سے ملی۔۔۔، کیسی ہیں پھوپھو آپ۔۔؟؟ میں ٹھیک الحمدللہ تم سناؤ میری جان کیسی ہو؟ پڑھائی کیسی جا رہی ہے ۔۔؟؟ اچھی جارہی پوپھو بس اسکے بعد یونی کے دو سال رہتے ہیں۔۔۔۔۔اور آپ کیسے ہیں پوپھا اسنے۔۔، وہ عارفہ کے ساتھ بیٹھ کر ہی عارف کی خیریت پوچھ رہی تھی میں ٹھیک ہوں بیٹا الحمدللہ ۔۔۔!! اور یہ شفق کہاں ہے بھابھی۔۔؟؟ انہوں نے اسے خیریت بتاتے ساتھ ہی شفق کا پوچھا۔۔، وہ تو سبح ہی کالج چلی گئ تھی بس آتی ہوگی۔۔۔، اوہ اچھا!! بیٹا آپ کیوں نہیں گئیں یونی انہوں نے اریبہ سے پوچھا ۔۔،وہ آج میری کوئی کلاس نہیں تھی اس لیے۔۔، اچھا اچھا!! اور پھر وہ سب باتوں میں لگ گئے تو وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی تھوڑی دیر گزری تھی کہ علی بھی اس کے پیچھے آ گیا اور کھٹکھٹانے کے ساتھ ہی اندر چلا گیا۔۔،کیسی ہو میری پیاری کزن۔۔؟؟ مجھ سے بات نہیں کرو میں ناراض ہوں تم سے اریبہ نے بچوں کی طرح منہ پھلا کر کہا۔۔۔،ارے ارے میری پیاری کزن مجھ سے ناراض کیوں ہے۔۔؟؟صبح جو کیا بھول گئے ۔۔؟؟اچھا سوری یار مذاق کر رہا تھا۔۔۔، تمہارے مذاق کے چکر میں ماما سے اچھی خاصی ڈانٹ سنی ہے۔۔، وہ اس کی شکل دیکھ کر بہت مشکل سے اپنا قہقہ ضبط کر رہا تھا کیونکہ اگر اب اس کے سامنے ہستا تو پھر وہ اس سے کبھی بات نہیں کرتی۔۔، اچھا چلو میں تمہاری پسندیدہ آئس کریم کھلانے چلتا ہوں۔۔، وائس کریم کا نام سن کر ساری ناراضگی بھلائے اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔۔۔!! اچھا تیار ہو جاؤ پھر چلتے ہیں۔۔۔ہاں ٹھیک ہے اور علینہ آپی کو بھی لیتے آنا حمزہ بھائی تو آفس میں ہوں گے اس وقت۔۔، تمہارے کہنے کے باوجود بھی میں لیکر آتی وہ منہ بنا کر بولی تو وہ ہنس کر نیچے چلا گیا۔۔۔،وہ جیسے نیچے اترا سامنے سے شفق کو آتا دیکھا کالج کی یونیفارم میں اور دوپٹہ گلے میں ڈالے سامنے سے آ رہی تھی۔۔، کیسی ہو شفق میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں میں بھی ٹھیک۔۔، اچھا اور سنؤ وہ جانے کے لیے پلٹ رہی تھی کہ اس نے اسے پکارلیا جی بولیں۔۔؟؟ میں علینہ پی اور عریبہ آئس کریم کھانے جا رہے ہیں۔۔، تم بھی چلو گی۔۔؟؟ ہمم اچھا آپ رکیں میں کپڑے بدل کر آتی ہوں پھر چلتے ہیں۔۔۔،ہاں ٹھیک ہے میں گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کررہا ہوں۔۔، جی ٹھیک ہے ۔۔،وہ گاڑی میں بیٹھا تھا جیسے ہی اریبہ نے گاڑی کے فرینڈ سیٹ کا دروازہ کھولا، تو علی بول بیٹھا تم پیچھے بیٹھ جاؤ کیونکہ شفق بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ وہ بھی جانتی تھی کہ علی شفق سے محبت کرتا ہے اس لیے چپ چاپ پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گئی لیکن اس کا موڈ آف ہو گیا تھا اور علی سمجھ بھی گیا تھا لیکن سامنے سے آتی شفق کو دیکھ کر چپ ہوگیا جسنےچست پینٹ پر چھوٹی سی شرٹ پہنے گلے میں دوپٹے کے نام پر چھوٹا سا اسکارف ڈالے اور منہ پر بھر کر میک اپ کیےء آکر گاڑی میں بیٹھی اور علینہ نے اریبہ کی طرح اچھے سے چادر لی تھی۔۔،شفق کو دیکھ کر علی کو غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کر گیا۔۔۔،پورے راستے علی، علینہ اور شفق کچھ نہ کچھ بات کر لیتے لیکن وہ کھڑکی سے باہر پتہ نہیں کیا دیکھنے میں مگن تھی علینہ نے اسے ایک دو مرتبہ مخاطب بھی کیا تھا لیکن وہ ایک دو الفاظ کا جواب دے کر دوبارہ سے باہر دیکھنے لگ جاتی علی سمجھ گیا تھا کہ وہ اداس ہو گئی ہے لیکن ابھی کچھ نہ کہنا ہی بہتر سمجھا۔۔،اس نے بے دلی سے آئسکریم کھائی اور گھر پہنچ کر اس نے کا شکریہ ادا کیااور علینہ کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلی گئی علی اس کے پیچھے جانا چاہ رہا تھا لیکن شفق کہ یہ کہنے پر کہ اسے کچھ کتابیں لے نے جانا ہے تو وہ اسکے ساتھ چلاگیا۔۔۔۔۔۔
شام کی چائے کے وقت سب ساتھ بیٹھے تھے اور چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔۔۔یہ بچے کہاں ہیں عائشہ۔۔؟حافظ صاحب نے پوچھا۔۔!!بھائی صاحب وہ سب تو علی کے ساتھ باہر گھومنے گئے ہیں ۔۔!! اوہ اچھا اچھا اور حمزہ وه کہاں ہے ؟؟ انہوں نے اب کی بار حمزہ کا پوچھا ۔۔،کیا بتاؤں بھائی صاحب کام سے فرصت کہاں ہے اُسے جب دیکھو صرف کام میں لگا رہتا ہے نہ کھانے پر دہان دیتا ہے نہ ہمارے ساتھ زیادہ وقت گزرتا ہے میں تو رنگ آگئی ہوں۔۔ہد ہے۔۔،اچھا چلو آج آتا ہے نہ تو پوچھتا ہوں اسے قدير تم بولتے کیوں نہ اسے۔۔اب کی بار وہ قدر کی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔بھائی صاحب بول چکا ہوں میری نہیں سنتا اب آپ ہی بولیں اسے ۔۔ہمم آج آئے تو پوچھتا ہوں اسے ۔۔!! واه ماشااللہ آج تو سب ساتھ بیٹھے ہیں اور تو اور میری پیاری سی پوپھو بھی ائی ہیں ۔۔پوپھو کے بچے پوپھا نظر نہیں آرہے ہیں ادھر بھی نظر کرم فرما لیں ۔۔۔ہاہاہا پوپھا آپ کو جلن ہورہی ہے۔۔؟؟ اُسے نے شوخ انداز میں پوچھا ۔۔۔رہنے دو یار تم تو بس بھول گئے ہو مجھے ۔۔۔ارے یار میں آپکو کیسے بھول سکتا ہوں ۔۔۔!! اُسے مسکرا کر کہا ۔۔،کیسے ہیں آپ؟؟ میں ٹھیک الحمدُللہ ۔۔۔ماشااللہ ۔۔!! حمزہ ۔۔!! جی تایا ابّو ؟؟ مجھے تمہاری شکائتیں مل رہی ہیں ۔۔۔، میری ؟؟ اُسے نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔،جی بلکل آپکی ۔۔، کونسی ۔۔؟ کے آپ ہمیشہ کام میں لگے رہتے ہیں نہ ہی کھانا وقت پر کھاتے ہیں نہ ہی کسی کے ساتھ زیادہ وقت گزاری کرتے ہیں ۔۔۔اور یہ شکایت آپکو امی نے لگائی ہوگی یقیناً اُسنے مسکرا کر کہا ۔۔،ہاہاہا جی بلکل اور اب دوبارہ نہیں انی چاہئے سمجھ آگئی ؟؟ اُنہونے تمبهی لہجے میں اُسے باور کیا ۔۔۔،جی تایا ابّو اب نہیں آئےگی انشا اللہ۔۔۔، اچھا میں ذرا فریش ہوکر آتا ہوں آپ لوگ باتیں کریں۔۔۔اور پھر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
رات کو جب علی فارغ ہوکر گھر لوٹا تو وہ سیدھا اریبہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا کے اب اُسے منانا تھا ۔۔۔کمرے کے دروازے پر پہنچ کر کھٹکھٹاتے ساتھ ہی اندر گھس گیا وہ اپنے بستر پر کسی کتاب کی ورد گردانی کررہی تھی ۔۔،وہ اُسکے ساتھ جا کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔،اریبہ ۔۔اُسنے اُسے بلایا ۔۔ہاں بولو ۔۔،کیا تم مجھ سے ناراض ہو ۔۔۔؟؟ نہیں تو اُسنے بہت مشکل سے اپنے انسوں پر ضبط کرتے ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ لا کر اُسے جواب دیا ۔۔،تمہیں ایسا کیوں لگا آخر۔۔؟؟ تم بنا کچھ بولے وہاں سے چلی ائی نہ اِسلئے ۔۔،اچھا آپ نے کھانا کھایا ۔۔؟؟ نہیں ابھی تک تو ۔۔ایک منٹ تم نے کیا کہا ابھی۔۔؟؟ کیا کہا۔۔؟ "آپ" تم مجھے آپ کب سے کہنے لگی ؟؟ بکواس نہیں کرو زیادہ عزت راس نہیں ہے تو بتادو ایسے ہی منہ سے نکل گیا ۔۔جبکہ وہ خود حیران تھی کے اسے آپ کیسے کہدیا ۔۔چلو اب نیچے کھانا کھانے بولتے ساتھ ہی وہ اٹھ کر نیچے کی جانب چلی گئی اور وہ اُسکے پشت کو جاتا دیکھتا رہا جو دروازے کے بند ہونے پر غائب ہوگئی ۔۔۔
نیچے آکر اُسنے کھانا لگایا تب تک وہ بھی نیچے آگیا ۔۔آؤ علی بیٹھو اور کھانا کھاؤ اریبہ نے اُسے بولا ۔۔۔یار اریبہ شفق کو بھی بلاؤ اُس نے بھی کھانا نہیں کھایا۔۔، علی نے اُسکے چہرے کو دیکھ کر کہا ۔۔،وہ جو کب سے اپنے انسوں پر قابو کر کے بیٹھی تھی اب اُسکے چہرے پر رواں ہوگئے ۔۔،علی اُسے دیکھ کر پریشان ہوگیا اور دو منٹ میں اُسکی جانب لپکا۔۔۔، کیا ہوا اریبہ کیوں رورہی ہو۔۔؟؟ مجھے بتاؤ ہم مل کر ٹھیک کرلینگے سب پر بتاؤ تو رو کیوں رہی ہو۔۔۔ ؟؟اریبہ نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنی سے دور کیا اور اُس پر بھڑک اٹھی ۔۔،کیا بتاؤں ہاں کیا بتاؤں علی تم ۔۔تم بدل گئے ہو ۔۔۔اُسنے اٹک اٹک کر کہا ۔۔۔کون میں بدل گیا ہوں؟؟ اُس نے حیرت سے اپنی جانب اشارہ کیا ۔۔۔،ہاں تم بدل گئے ہو ۔۔یار علی ہم پہلے پورا وقت ایک ساتھ گزرتے تھے لیکن اب تم شفق کے ساتھ پورا وقت گزارتے ہو ۔۔، پہلے ہم ہر بات ایک دوسرے کو بتاتے تھے لیکن اب تم شفق کے ساتھ لگے ہوتے ہو ۔۔تم بدل گئے ہو ۔۔،اُسکی اتنی شکایات سن کر تو وہ پہلے اُسے حیرت سے دیکھ رہا تھا پھر اچانک پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہسنے لگا ۔۔۔اور اریبہ اُسے دیکھ رہی تھی ک بھلا کونسا لطیفہ سنایا ہے میں نے کے یہ ایسے ہنس رہا ہے۔۔، یار اریبہ تم اس بات پر کب سے ناراض تھی؟؟ اُسنے ہنستے ہوئے اسے پوچھا ۔۔۔،ہاں اسی بات پر ناراض تھی میں اُسنے سر جھکا لیا ۔۔،اور وہاں سے جانے کیلئے مڑی کہ اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔اریبہ میری بات سنو تم میرے لئے سب سے ۔۔۔،چٹاخ کہ اسی پل ایک زور دار ٹھپر کی آواز پورے سحن میں گونجی۔۔۔، سامنے شفق کھڑی تھی اور تھپڑ کھانے والی اریبہ تھی ۔۔۔،اریبہ میں تمہیں پہلی اور آخری بار بتا رہی ہوں کے علی صرف میرا ہے ایسے دور رہو ۔۔۔،تم ہم دونوں کے بیچ میں آرہی ہو نکل جاؤ ہماری زندگی سے دفاع ہوجائو ۔۔۔اور اریبہ وہاں سے چپ چاپ سائڈ سے نکل کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی۔۔۔، علی یہ دیکھ کر طیش میں آگیا اور شفق کے برابر میں کھڑے ہوکر اُسے اتنی ہی زور سے جیتنی زور سے اُسنے اریبہ کو تھپڑ میرا تھا علی نے اُسے تھپڑ مارا ۔۔اُسے لگا ہی نہیں کہ سامنے کھڑی شخصیت سے وہ محبت کرتا ہے اُسے یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ کبھی اُس نے اُسے چاہا ہے ۔۔۔شفق میں تمہیں یہ پہلی اور آخری بار بتا رہا ہوں (اُسنے بھی اُسی کے انداز میں اُسے جما جما کر ہر لفظ کہا) میں تم سے کبھی محبت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کبھی کرونگا یہ فالتو کا فتور اپنے دماغ سے نکال دو اور اب میری نظروں کے سامنے نہیں آنا۔۔۔وہ اپنی بات مکمل کرکے وہاں سے چلا گیا اور وہ گال پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں میں نفرت لیکر اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔علی اب تک تم نے صرف میری محبت دیکھی ہے اب تُم میری نفرت دیکھو گے ایسا برباد كرونگی کے زندگی بھر تم یاد کروگے ۔۔وہ اُسسے دل میں مخاطب تھی۔۔۔!!
YOU ARE READING
Ishq hai tmse
Romancethis story is about two czns who fall in love areeba and Ali if you like the stories in which you get fun+drama+romance+army you definitely like this insha'ALLAH