قسط نمبر 1

502 15 8
                                    

ہمسر کے ہمراہ

اسے میں اس سے چُرا لوں، اسے خبر بھی نہ ہو
کہ بحرِ اشک بھی گزرے اور آنکھ تر بھی نہ ہو
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میرا ہمراہی
سفر بھی ساتھ کرے اور ہمسفر بھی نہ ہو

زندگی کی حقیقت کوئی اگر اس سے پوچھتا تو وہ صاف کہتی "دھوکا" ہے. اس کے مطابق زندگی کی یہ تعریف ایک دم ٹھیک تھی کیونکہ یہ اس کے خیال کے مطابق فٹ بیٹھتی تھی.
اس کے پہلو میں بیٹھا شخص ناپسندیدہ نہ سہی تو پسندیدہ بھی نہ تھا لیکن ہال میں موجود کوئی بھی لڑکی ایسی نہ تھی جس نے اس کے ساتھ بیٹھے شخص کی تعریف نہ کی ہو.
وہ شخص تھا ہی تعریف کے قابل... سفید رنگ کے شلوار قمیض میں موجود وہ کسی ریاست کے شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا.
بھوری رنگت، سرمئی آنکھیں، ماتھے پر بل وہ تقریبا سادہ حولیے میں تھا۔
اس نے ایک نگاہ بھی ساتھ بیٹھی نازک صفت پر نہ ڈالی تھی.
اب اس کی آنکھوں میں پہلے کی طرح حیرت نہیں تھی۔ کیونکہ حیرتوں کے پہاڑ ایک ماہ قبل ہی اس پر ٹوٹنا شروع ہو گئے تھے.
اس کی ماں نے فاطق مراد (اس کی ماں کی نظروں میں سب سے ناپسندیدہ شخص) کو اس کے لیے پسند کیا تھا، نا صرف پسند کیا بلکہ آج نکاح بھی پڑھوا دیا تھا اور یوں وہ "حدیقہ بتول" سے "حدیقہ فاطق مراد" بن گئی.

_________________________

"حدیقہ.... حدیقہ اٹھو، نیچے پھوپھو آئی ہے اور ڈیڈی ممی جھگڑا کر رہے ہیں اگر تم ڈیڈی کے پاس چلی جاؤ گی تو وہ ممی پر چیخنا چلانا بند کر دیں گے."
اس نے اپنی سنہری آنکھوں کو ملتے اپنی بڑی بہن کی بات سنے اسے یوں دیکھا تھا جیسے کہہ رہی ہو آج سکول سے چھٹی ہے اور میں اپنے وقت پر اٹھوں گی.
وہ ردا کو دیکھنے کے بعد پھر سے لیٹ گئی.
ردا اپنی بہن کی نیند سے محبت کی کہانی کو بہت اچھے سے جانتی تھی لیکن وہ اپنے والدین کو یوں لڑتے جھگڑتے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی.

"بتول بیگم آپ شاید بھول رہی ہیں کہ وہ بہن ہے میری اور وہ اب یہیں اسی گھر میں رہے گی." اختر صاحب کو اپنی محبوب بیوی کی بات بالکل پسند نہ آئی تھی.
خدا نے انہیں بے شمار دولت عطا کی۔ ماں باپ کے گزر جانے کے بعد اپنی بہن کو وہ محبت، پیار اور توجہ نہ دے سکے جو ماں باپ سے ملتا کیونکہ وہ اپنے والد کے بزنس کو سنبھالنے میں اس قدر مصروف ہوئے کہ انہیں خود کا بھی ہوش نہ رہا لیکن انہوں نے اپنی بہن کی ہر ضرورت پوری کی.
عورت کو محبت گھر سے نہ ملے تو وہ باہر کی محبت کی طرف خود بخود مائل ہو جاتی ہے.
مومنہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا انہیں اپنی یونیورسٹی لائف میں مراد سے محبت ہوگئی تھی اور اس محبت میں زیادہ تر حصہ مراد کا تھا۔ جو کہ ایک غریب طبقہ سے تعلق رکھتے.
مومنہ کی دوست آسیہ نے اسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ کچھ نہ سمجھ سکی.
مومنہ کی شادی اختر اپنے طبقے کے لوگوں میں کرنا چاہتے تھے مگر بہن کی خواہش کو مدنظر رکھتے انھوں نے مومنہ کی شادی مراد سے کر دی.
ساس نے شروع شروع میں خوب آؤ بھگت کی مگر جب مومنہ نے ان کے کہنے پر اپنے بھائی سے مزید پیسے لینے پر انکار کرنا شروع کیا تو ان کی ساس نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیے.
مراد جنھیں یہ لگتا تھا کہ شادی کے بعد زندگی سہل ہوجائے گی وہ اب ساس بہو کے جھگڑوں سے تنگ آ گئے تھے.
خدا نے مومنہ کو بہت ہی پیارا بیٹا عطا کیا جس کا نام انہوں نے "فاطق مراد" رکھا وہ اپنے ماں باپ کو روز لڑتا جھگڑتا دیکھتا بڑا ہوا.
وہ ابھی نائنتھ گریٹ میں تھا جب ایک دن اس کے باپ نے دادی کے کمرے میں قدم رکھا جہاں وہ بنا بات کے ٹسوے بھائے جارہی تھیں اور فاطق بھی ان کے قریب کھڑا تھا.
مراد کمرے سے نکلے اپنے کمرے میں داخل ہوا جہاں مومنہ جائے نماز بچھائے اپنے رب سے دعائیں کر رہی تھی.
"تم جیسی عورتوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں جنہیں نہ گھر گھرستی سنبھالنی آتی ہے اور نہ ہی اپنے شوہر کو خوش رکھنا آتا ہے."
کتنی مشکلوں سے اس نے تمام حالات ٹھیک کیے تھے. اپنے بھائی کو کہہ کر مراد کو ان کے آفس میں اچھی نوکری دلوائی تھی۔
لیکن ان کا ماننا تھا کہ جب سے مراد ایک حسینہ کے جال میں پھنسے تھے حالات نے انہیں پھر وہیں روز کے لڑائی جھگڑوں میں لا کھڑا کیا تھا.
روز بنا بات کے لڑائی جھگڑے... ان سے انہیں زندگی عذاب کی مانند لگتی تھی مگر اپنے بیٹے کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھی ان کا واحد سہارا ان کا بیٹا ہی تھا.
وہ جاۓنماز طے کیے ان کے پاس آئی تھی.
"کیا کچھ ہوا ہے؟ آپ پریشان لگ رہے ہیں." انہوں نے بڑے تحمل سے بات کرنی چاہی تھی.
"تمہارے اور تمہارے بھائی کے ہوتے سب ٹھیک کیسے ہوسکتا ہے؟ جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو، زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے. تمہارے ہوتے نہ گھر میں سکون ہے اور نہ باہر... جو باہر سکون تھا وہ تمہارا بھائی برباد کرنے پر تلا ہے."
مراد جس عورت کے چکر میں پھنسے تھے وہ اور کوئی نہیں اختر کی سیکٹری تھی جسے آج اختر صاحب نے فائر کر دیا تھا اسی بات پر انہیں غصہ تھا۔ جو وہ مومنہ پر برس پڑے اور اس لڑائی کا احترام یہ ہوا کہ مراد نے کھڑے کھڑے مومنہ کو طلاق دے دی.
یہ سب ناممکنات میں سے تھا۔ وہ یقین نہیں کر پاری تھی کہ چاہنے والا شوہر انہیں یوں اپنی زندگی سے بے دخل بھی کر سکتا ہے۔
مومنہ بیگم اس کے بیچھے چھپی کہانی سے لاعلم تھی۔

ہمسفر کے ہمراہ Where stories live. Discover now