قسط نمبر 3

168 10 1
                                    

چھٹی کے وقت وہ احمد کے گروپ کے ساتھ ہی نکلی تھی۔
مگر پھر دل میں نا جانے کیا سمائی کہ انہیں خداحافظ بولے وہ وہیں بیٹھ گئی۔
سب جانتے تھے کہ اس کو لینے اس کا کزن آتا ہے، اسی لیے کسی نے اسے خود سے آفر نہ کی۔
ایوننگ سٹارٹ ہوئے کافی وقت ہوگیا مگر وہ پتہ نہیں کن سوچوں میں گم تھی۔
دل کر رہا تھا کہ کہیں دور چلی جائے۔ جہاں۔۔۔ جہاں صرف لہروں کا شور سنائی دے۔
بتول بیگم کی کتنی کالز آگئی تھیں اسے۔۔۔ لیکن کل والی حرکت کے بعد اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ ان سے بات کرے۔ اسی لیے اس نے کال کا جواب نہ دیا اور یوں ہی گھنٹوں بیت گئے اسے بینچ پر بیٹھے۔
ایوننگ کے بچوں کا رش کم ہوتے دیکھ اسے احساس ہوا تھا کہ وہیں بیٹھی دوپہر سے شام کر گئی ہے اور اب تو پیٹ میں چوہے الگ سے ناچ ناچ کر بتا رہے تھے کہ بی بی کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرو۔
وہ اٹھنے کو تھی جب سامنے دو لڑکوں کو دیکھے رک گئی۔
بینچ کونے میں تھا اور اب رات ہونے کی وجہ سے وہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا۔
اتنی حسین شے ہم سے چھپی کیسے رہ سکتی ہے۔۔۔؟ پہلے والا عجیب گندی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
بھائی اس بات کو چھوڑ اس پر دھیان دے کہ وہ ہمارے انتظار میں ہے۔۔۔ دوسرے نے اس سے بڑھ کر خباثت دکھانی چاہیی تھی۔
وہ خوف کے مارے اٹھنے کو تھی جب کوئی اس کے ساتھ بیٹھے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ گیا۔
حدیقہ نے دیکھا تو دھنگ رہ گئی۔
وہ شخص کیسے جان لیتا تھا کہ اب اس کی اینٹری لازم ہے؟ اس نے ایک مسکان اسے دیکھ اچھالی تھی۔ جس کا مقصد ان دونوں لڑکوں کو یہ دیکھانا تھا کہ بھائی ہاؤس فل ہے۔
اور پھر وہ دونوں وہاں سے بنا کچھ مزید کہے نو دو گیارہ ہو گئے۔
وہ چاہتا تو ان دونوں کی ہڈیاں توڑے انھیں بہت اچھے سے سبق سکھا بھی سکتا تھا مگر وہ یونیورسٹی میں اس کا تماشہ نہیں لگوانا چاہتا تھا۔ جس نے مزید دو سال اور یہاں گزارنے تھے۔
اس کے ہاتھ نکالنے پر وہ خود بھی اس سے تھوڑا فاصلے پر ہوا تھا۔
تم احمد کے ساتھ آنے والی تھی، کہاں ہے وہ اور اب تک یہاں کیا کر رہی ہو۔۔؟ وہ غصے سے بولا تھا کیونکہ وہ ہی جانتا تھا کہ اس نے کیا ڈراما کیے اختر صاحب کو مطمئن کیا تھا۔
مگر اس کے برعکس اس کا جواب سنے فاطق کو اس کی طبیعت خراب ہونے کا گمان ہوا تھا۔
مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ کیا ہم پہلے کہیں کھانا کھا سکتے ہیں؟ کھانے کے دوران ہی آپ کے تمام سوالوں کے جوابات دے دوں گی۔
اس کے اس قدر معصومیت سے کہنے پر فاطق مراد کو اس کی ماننی پڑی۔۔۔ وہ مزید اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ صحیح سلامت اس کے پاس موجود ہے۔

_______________________

آج ردا کی رسمِ حنا تھی اور لان کو بہت خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا۔
وہ لان کی سجاوٹ کرواتے ہوئے اس قدر خوش تھا کہ لفظوں میں بیاں نہ کر سکے ۔۔۔ وہ اس خوشی کے بارے میں اختر صاحب اور باقی سب گھر والوں کو ردا باجی کی شادی کے بعد بتانا چاہتا تھا۔
مہمان آنا شروع ہوئے تو اس نے اپنے حلیے پر نظر ڈالی۔
جو ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھا، وہ تبدیل کرنے کے ارادے سے پلٹا ہی تھا جب سامنے حدیقہ کو دیکھے ایک قدم مزید آگے نہ بڑھا سکا۔
وہ خوبصورت چار پانچ رنگوں کے ملے جلے کنٹراس کا لہنگا کرتی پہنے اور دوپٹے کو ایک طرف کاندھے پرلٹکائے۔۔۔ ایک پل کے لئے اس کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی۔
"کیا آج میں اچھی ۔۔۔" اس کی بات ٹوکتے وہ بول پڑا ۔
کوئی کام تھا؟ وہ واپس اپنی ٹون میں آتا ہوا بولا۔
کیا ایک دوست اپنے دوسرے دوست کو صرف کام کے وقت ہی یاد کر سکتا ہے؟ اس کے اس قدر معصومیت سے پوچھنے پر فاطق مراد کو چند پل تو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے مگر پھر دماغ کی حس لفظ "دوست" پر آرکی۔
دوست۔۔۔؟
ابھی کچھ دن پہلے تو ہم پھر سے دوست بنے ہیں۔۔۔ یاد کریں جب آپ نے ہمیں پاپا کی ڈانٹ سے بچایا اور یہ ڈریس بھی تو دلوایا تھا۔
وہ اپنا لہنگا ہاتھوں سے پکڑے، اسے تھوڑا اٹھاتے ہوئے بولی۔

ہمسفر کے ہمراہ Where stories live. Discover now