قسط نمبر 4

199 12 1
                                    

احمد یہ تم کہاں لے آئے ہو؟ ہم ڈنر کے لئے کہہ کر آئے تھے۔
ردا کے جانے کے بعد اس کی اداسی کم کرنے کے لیے ہی فریدہ بیگم نے احمد سے اسے باہر کمانے کے لئے کہا تھا۔
پہلے تو وہ سرے سے انکاری تھی مگر احمد کے پرزور اصرار پر اسے اس کی بات ماننی پڑی۔
لیکن اسے کلب میں داخل ہوتے دیکھ، اس کا دماغ ماؤف ہوا تھا۔
یار اب تم بچی تو ہو نہیں کہ تمہیں یہ بتانا پڑے کہ یہ میوزک کلب ہے اور ویسے بھی میرا پلان بھی ڈنر کا ہی تھا مگر میرے کچھ دوست آئے ہیں باہر سے۔۔۔ سوچا ان سے ملاقات کر لوں۔ پھر تم جہاں کہو گی وہیں ڈنر کر لیں گے۔
اب اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اور اس کے ساتھ اندر چل دی۔
مگر اندر کا ماحول دیکھ اسے نوجوان نسل پر دکھ ہوا تھا جو بے ہنگم دھڑکتے میوزک پر ناچتے اپنا آپ بھلائے ایک دوسرے میں مگن تھے۔
میں گاڑی میں ہی تمہارا انتظار کر لیتی ہوں جب تک تم اپنے دوستوں سے مل لو۔ احمد نے اس کا ہاتھ پکڑے اسے روکا جو یہ کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی۔
کیا بیوقوفوں والی باتیں کر رہی ہو؟ کچھ دیر یہاں رکو گی تو مر نہیں جاؤ گی۔ میں بھی تو ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔ اور پلیز اب میرے دوستوں کے سامنے کوئی بیوقوفوں والی حرکت مت کرنا یار۔۔۔۔ وہ سامنے سے آتے اپنے دوستوں کو دیکھتا ہوا بولا۔
ان کی نظر بھی ان پر پڑ گئی تھی۔
جن میں ایک لڑکی اور دو لڑکے تھے لڑکی نے تقریبا ویسٹرن ڈریس زیبِ تن کر رکھا تھا۔ اور وہ لگ بھی باہر کی مخلوق رہے تھے۔
میل ملاپ کے بعد ان کا اشارہ حدیقہ کی طرف تھا۔
ایک نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا جب حدیقہ نے بنا ہاتھ ملائے انہیں خوشدلی سے گریٹ کیا۔
پیور ایشن بیوٹی ۔۔۔۔۔وہ اتنا کہے خاموش ہو گیا۔ جبکہ دوسرے کی نظر اس کے اوپر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی جسے حدیقہ واضح محسوس کر سکتی تھی۔
وہ باتوں میں اس قدر مصروف ہوئے کہ حدیقہ کا دل چاہا احمد کا سر پھاڑ دے۔
احمد اور اس کا ایک دوست اور وہ لڑکی ایک ساتھ ڈانس کرنے لگے ۔۔۔۔ احمد جانتا تھا کہ اسے سب اچھا نہیں لگے گا اسی لیے اسے آفر نہ کی۔۔۔۔ ان لوگوں کے لاکھ کہنے کے باوجود۔۔۔
لیکن اس کا دوسرا دوست اس کے پاس ہی کھڑا رہا جیسے وہ بہت اچھے دوست ہوں۔
"Have some drink"
اس کے پوچھنے پر وہ صرف نہ میں سر ہلا سکی۔
مگر اس کے ڈانس کے لئے بڑے ہاتھ کو دیکھے اس کا سر پھاڑ دینے کو دل کیا چونکہ وہ احمد کا دوست تھا اسی لیے کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔
اور نہ میں جواب دیے اس نے جوس کا آرڈر دیا۔
وہ بالکل آرڈر بار کے سامنے کھڑے تھے۔
حدیقہ کے انکار کے باوجود اس نے اس کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ لگائے زبردستی ڈانس کرنا چاہا تھا۔
حدیقہ نے اپنا زور لگائے اسے دور کیا تھا اور بھاگتی ہوئی کلب سے باہر نکل گئی۔
احمد ڈانس میں اس قدر مگن تھا کہ وہ یہ سب دیکھ ہی نہ سکا۔
باہر آتے ہی اس نے فون نکالے جس ہستی کو کال ملائی تھی وہ کوئی اور نہیں فاطق مراد تھا۔
اور دوسری جانب پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیا گیا تھا۔
آپ مجھے لینے آ سکتے ہیں؟ اس کی نم آواز سنے اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
کہاں ہو اس وقت۔۔۔ کچھ ہوا ہے؟ اس سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اس کا کسی مشکل میں ہونا فاطق کو بےچین کرجاتا تھا۔
اس کے سوال پر حدیقہ نے سامنے موجود ٹاور کا نام لیا تھا اور فون کاٹ دیا۔
احمد کو اپنے جانے کا میسج کیے، اپنے آپ کو گھسیٹتی ٹاور کے پاس آگئی۔
وہ اسے بے چین کیے فون کاٹ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے مقابل آدھے گھنٹے کا راستہ 20 منٹ میں طے کیا اس کے پاس تھا۔
اور وہ اسے سامنے ہی مال کے باہر دکھائی دے گئی تھی۔
حتی کہ اس کے چہرے پر موجود بےچینی صاف دیکھ سکتی تھی۔
وہ سامنے تھا جو ایک پکار پر اس کے ساتھ آ کھڑا ہوتا تھا۔ حدیقہ کو آج پہلی بار سامنے موجود شخص بہت اپنا لگا تھا۔
وہ بچپن والا فاطق مراد جو ہر پل اس کے آس پاس موجود ہوتا تھا۔
وہ اس کے پاس آتا کہ وہ خود دو قدم کا فاصلہ طے کیے اس کے چوڑے سینے سے آ لگی تھی۔
کوئی اور وقت ہوتا تو یہ اس کے لئے حیران کن بات ہوتی کہ حدیقہ بی بی فاطق مراد کے اتنا قریب موجود ہے۔
اس نے اسے خود سے دور کیا تھا۔
کچھ ہوا ہے؟ تم احمد کے ساتھ ڈنر پر آئی تھی تو وہ کہاں ہے اور تم یہاں اکیلی کیوں ہو؟
وہ اس کے چہرے کو تک رہی تھی جہاں اب بھی پریشانی کے اثرات موجود تھے۔
وہ احمد مجھے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔ یہاں سچ بول کر وہ خود کی کلاس نہیں لگوا سکتی تھی۔ اسی لیے جھوٹ بولا۔
فون ملاؤ اس گدھے کو بلکہ ایسا کرو اس کا نمبر مجھے دو۔۔۔ ایک دم سے اس کا رنگ اڑ گیا تھا۔
میں ۔۔۔ میں نے ہی اسے جانے کو کہا تھا دراصل اس کے دوست کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تو اسے احمد کی ضرورت تھی۔ اب کی بار وہ اپنی بات سے اسے مطمئن کر گئی تھی۔
چلو گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔ وہ دروازہ کھولے فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ خود ہی آ بیٹھی ورنہ یونی جاتے وقت وہ ایک ڈرائیور کی حیثیت اسے دیے خود پیچھے بیٹھنے کی کرتی تھی جو کہ فاطق کبھی ہونے نہیں دیتا تھا، اسے لیے اسے منہ کے زاویے بگاڑے آگے ہی بیٹھنا پڑتا تھا۔
اس کے ساتھ سفر کرتے ایک عجیب سے تحفظ اور مسرت کا احساس جاگ رہا تھا۔ جس سے وہ خود بھی انجان تھی جیسے کوئی ہم سفر اپنے ہمسفر کے ہمراہ سفر کر رہا ہو ۔
دل میں ایک عجیب سی خواہش جاگی تھی کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Apr 30, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

ہمسفر کے ہمراہ Where stories live. Discover now