اُس نے اللّٰہ سے بہت دعائیں کیں۔بہت گِڑگڑائی بہت روئی۔اتنا روئی کہ آنسو خشک ہوگئے۔آنکھوں میں جلن ہونے لگی مگر لب پر صرف ایک دعا تھی۔
"یااللّٰہ اُسے لوٹا دے۔میں کبھی اُس سے نہیں ملوں گی۔کبھی کوئی بات نہیں کرو گی۔اُس کی زندگی سے بہت دور چلی جاؤں گی۔مگر پلیز اُسے کچھ نا ہو۔"
رُو رُو کر ہچکی بندھی تو سیدھا سجدے میں گِری۔اور پھر جو آنکھیں خشک تھیں نا وہ پھر سے بہنے لگیں۔نجانے کب تک یونہی سجدے میں اپنے رب سے اُسے مانگتی رہی۔
کہ اچانک اُس کا بھائی بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا۔
"تاشہ اللّٰہ نے تمہاری سُن لی ہے۔اُسے ہوش آگیا ہے۔چلو اُس نے ہوش میں آتے ہی تم سے ملنے کی ضِد کی ہے۔کہہ رہا ہے سب سے پہلے ملوں گا تو صرف اپنی زرتاشہ سے ملوں گا۔ورنہ کسی سے نہیں ملوں گا۔"وہ کہتا ہی واپس چلا گیا۔
اور زرتاشہ کو ایسے لگا جیسے کسی نے اُسے زندگی کی نئی ڈور تھما دی ہو۔ہاں اُسے نئی زندگی ہی تو ملی تھی کیونکہ وہ اُس کی زندگی اُس کی کُل کائنات جو تھا۔زرتاشہ نے بےاختیار اللّٰہ کا شکر ادا کیا۔جائےنماز کو اُٹھ کر تہہ لگایا اور پھر جگہ پر رکھ کر اپنے کمرے میں موجود کھڑکی میں آکر کھڑی ہوئی۔پچھلی ساری یادیں اُس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی۔
"جبران تمہیں چاند کیوں نہیں پسند۔"دونوں چھت پر کھڑے تھے جب زری نے جبران سے پوچھا۔
"کیونکہ میرے پاس میرا چاند ہے۔"جبران مسکرا کر بولا۔
"اچھا کہاں ہے تمہارا چاند۔"زرتاشہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔
"وہ سامنے والی کی کھڑکی پر"جبران قہقہ لگاتا سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔جبکہ بات سمجھ آنے پر زرتاشہ غصے سے اُس کی طرف بڑھی۔ہوا کے جھونکے نے اُسے یادوں سے باہر نکالا۔
حامد خان اور پلوشہ خان دونوں بہن بھائی تھے۔دونوں شادی شدہ تھے۔حامد خان اور عروہ خان کی ایک بیٹی زرتاشہ تھی۔اور بیٹا اسفند تھا۔جبکہ پلوشہ خان اور سرمد خان کی ایک شادی شدہ بیٹی ثانیہ اور ایک بیٹا جبران خان تھا۔ثانیہ کی شادی سرمد خان کے دوست کے بیٹے سے ہوئی تھی جس کا نام ضیاء خان تھا۔جبران اور زرتاشہ کا نکاح بھی ثانیہ کی شادی پر ہوا تھا جو ایک ماہ پہلے ہوئی تھی۔جبران نکاح کے فوراً بعد اپنے کام میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے وہ لاہور چلا گیا اور اب ایک ماہ بعد واپس آ رہا تھا مگر بدقسمتی سے اُس کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔جس کی ذمہ دار زرتاشہ خود کو سمجھ رہی تھی۔کیونکہ وہ سمجھ رہی تھی کہ اُس کے نکاح ہونے کے بعد سے سب ہورہا تھا۔وہ خود کو منحوس سمجھ رہی تھی۔
کاریڈور میں چلتے چلتے اُسے اپنے قدم بھاری محسوس ہوئے۔دل تیزی سے ڈھرک رہا تھا۔مخصوص کمرے کے باہر پہنچ کر زرتاشہ نے ایک گہری سانس لی۔اور اندر کی طرف بڑھی۔دروازہ کھولتے ہی جو منظر دیکھنے کو ملا وہ دل دہلا دینے کیلئے کافی تھا۔جبران پٹیوں اور بہت سی مشینوں میں جکڑا بےسُدھ پڑا تھا۔زرتاشہ بامشکل اندر کی طرف بڑھی۔جب پلوشہ بیگم روتی ہوئی اُس کے پاس آئی۔
"زرتاشہ میرا جبران اپاہج ہوگیا ہے۔وہ اب کبھی نہیں چل سکے گا۔"زرتاشہ کو لگا وہ ابھی گھر جائے گی۔بےیقینی سے وہ پلوشہ بیگم کو دیکھنے لگی۔ابھی تو جبران نے اپنے خواب پورے کرنے تھے۔اُسے پوری دنیا زرتاشہ کے ساتھ گھومنی تھی۔اور یہ کیا ہوگیا۔
"کیا مطلب جبران اپاہج ہو گیا ہے۔میری بیٹی کا کیا ہوگا اب۔"عروہ بیگم کڑے تیوروں سے پلوشہ بیگم کو گھورنے لگی۔
"میں جبران سے شادی ہر حال میں کروں گی امّی۔"پہلی بار زرتاشہ اپنی ماں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُونچی آواز میں بولی۔کیونکہ وہ جبران کو اِس وقت اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
"کیوں تم کیا اُس کی آیا لگی ہو جو اُس کی خدمت کیلئے اُس شادی کرو گی؟"پلوشہ بیگم نے اپنے بہن جیسی بھابھی کو دیکھا جو زہر اُگل رہی تھی۔
"وہ میرا شوہر ہے امی اور میں اپنے شوہر کو مصیبت میں اکیلا چھوڑ کر نہیں بھاگو گی۔میں اب جبران کے ساتھ ہی رہوں گی۔"زرتاشہ تحکمیہ انداز میں بولی۔
"رہو جو مرضی کرو۔ایک اپاہج کے ساتھ رہ کر اپنی زندگی برباد کرو۔بعد میں ہمارے پاس نا آنا روتے ہوئے۔چلیں خان صاحب۔"عروہ بیگم حامد خان اور اسفند کو لیتی وہاں سے چلی گئی۔زرتاشہ نے دُھندلی نظروں سے اُنہیں دیکھا۔
"پُھوپھو آپ گھر جائیں یہاں اب میں آگئی ہوں۔میں جبران کا خیال رکھو گی۔آپ فکر نا کریں۔"زرتاشہ خود پر قابو پاکر بولی۔
"جیتی رہو میری جان۔میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولو گی۔"پلوشہ بیگم بھی اپنے شوہر کے ساتھ گھر چلی گئی۔
زرتاشہ جبران کے قریب کرسی پر اُس ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔یادوں کا ایک اور سیلاب اُس کے گِرد منڈلانے لگا۔
YOU ARE READING
اُدھورے تم بِن (افسانہ)
Non-Fictionیہ میرا پہلا افسانہ ہے۔بہت دل سے لکھا ہے۔اُمید ہے سب کو پسند آئے گا۔ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جس کی زندگی کو ایک پیاری سی لڑکی نے مکمل بنا دیا۔تھام کے ایک دوسرے کا ہاتھ نامکمل زندگی کو بھی مکمل بنا دیا۔ایک ایسے کپل کے نام جو ایک دوسرے کے بغیر بلکل...