کہتے ہیں نا دوسروں کو رلانے والے پر بھی ایک رلانے والا ہوتا ہے تو یہ بھی وہی تھا۔منان ہمت کر کے پلٹا اور سامنے موجود شخصیت کو دیکھ کر وہ دل ہی دل میں اپنی نحل کے پاس موجودگی پر پچھتایا۔ اس نے اپنے چہرے پر زبرستی کی مسکراہٹ سجا کر سامنے کھڑی اس شخصیت کو دیکھا۔
"اوہ۔۔۔مسٹر منان ۔۔آپ یہاں خیریت؟" آواز پر نحل بھی پلٹی جو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اپنے پاؤں کا معائنہ کر رہی تھی۔
"جی۔مجھے ہمیشہ سے فلاحی کاموں کا شوق رہا ہے ،ان کو ایسے دیکھا تو انکی مدد کو چلا آیا ۔۔وہ الگ بات ہے ان محترمہ نے میری مدد لینے سے انکار کر دیا۔"منان شریف بننے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
"مسٹر منان زیدی۔۔۔محترمہ ہونگے آپ" نحل نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
نحل کو محترمہ ،مس جیسے لفظوں سے سخت چڑ تھی یہی وجہ تھی کہ وہ منان کو نا چاہتے ہوئے بھی ٹوک دیتی تھی۔
اور اس کے کہنے کی دیر تھی کہ پاس کھڑی وہ شخصیت ہنس دی۔
"یار تم نے تو ان کا جینڈر ہی مشکوک بنا دیا۔۔"نحل کی اس بات پر منان ہجل سا ہو گیا اور وہ شخصیت لگا تار ہنسے جا رہی تھی ۔منان نے اسے آنکھیں دکھائیں تو اسکی ہنسی کو بریک لگی۔
ایک پل کے لیئے منان اور اس شخصیت کی آنکھیں ملیں اور بس یہاں دونوں کی ایکٹنگ گئی بہاڑ میں اور وہ دونوں ہنس دیئے ۔نحل کو انکی دماغی حالت پر شک ہوا مگر یہاں بات صرف نحل کی نہیں تھی وہ دونوں جب بھی ساتھ ہوتے ہر کوئی انہیں پاگل خانے سے بھاگے ہوئے قیدی ہی سمجھتا تھا۔منان نے آگے بڑھ کر اس انسان کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس کی ناک پکڑ کر دبائی۔
"اوئے ۔۔۔یہ مت کیا کرو ہزار بار بولا ہے ۔۔"وہ پیچھے ہوتے ہوئے بولی اور ساتھ ہی منان کے بالوں کو بھی بگاڑا جس پر منان نے منہ بنایا۔
وہ دونوں جانتے تھے ایک دوسرے کو کیسے زچ کرنا ہے۔۔دونوں ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔
"آپ دونوں جانتے ہیں کیا ایک دوسرے کو؟؟"نحل جو کب سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی بول پڑی۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور منان بولا۔
"بالکل۔۔۔یہ میرے چھوٹی سی جان دانی ہے اور میں اسکی بڑی سی جانِ من منان ۔۔"منان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
دانی نے آگے بڑھ کر نحل کے آگے ہاتھ بڑھایا۔
"دو بھائیوں اور ایک بہن کی اکلوتی بہن ۔۔اور سب کی دلوں کی دھڑکن ،کسی کی دانی ،کسی کی آنی،کسی کی رانی۔۔۔۔بہت جانی پہچانی ۔۔ون اینڈ اونلی دانین حسن نیازی۔۔" اس نے اپنا تعارف کروایا ۔
"نحل ۔۔نحل مراد" نحل نے بھی اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اپنا نام بتایا جسے منان نے زیرِلب دہرایا تھا۔
"نحل۔۔یاررررر۔۔۔کتنی کیوٹ اور معصوم ہو تم۔۔" دانین نے اس کے گال پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔
"آؤ کینٹین چلتے ہیں۔۔آج کلاسز رہنے دو تم ۔۔"دانین نے اسے اپنے سہارے سے کھڑا کرتے اپنے ساتھ لے جانے لگی۔ پر جاتے جاتے زبانن نکال کر منان کو چڑانا نا بھولی۔
منان بالوں میں ہاتھ پھیرتا مڑا اور ایک گہری سانس خارج کی۔
اسے کیا پتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنے دل کی نفی کر رہا تھا ۔ منان زیدی تھا وہ ۔۔ آسانی سے وہ ہار نہیں مانتا تھا ۔
اب تو یہ وقت بتائے گا کہ قسمت اس کے آگے ہارتی ہے یا وہ قسمت کے فیصلے کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہے۔
************************************
کلاس میں سر شفاعت کا پریڈ چل رہا تھا ہر طرف خاموشی تھی کیونکہ سر شفاعت نے اس ہفتہ جتنا بھی پڑھایا تھا آج اس کا ٹیسٹ ہونا تھا اور ان کا ٹیسٹ بھی ماشاءاللہ ایسا ہوتا تھا کہ وہ بیچارے بچے جو کسی دوسرے کے سہارے آتے تھے خالی کاغذ ہی پکڑاتے تھے ۔۔۔ایک تو ٹیسٹ پتا نہیں کہاں سے دیتے تھے دوسرا ان کی کلاس میں چیٹنگ کا بھی سین آف ہوتا تھا۔۔
جہاں کچھ سٹوڈنٹس کتاب میں منہ دئیے بیٹھے تھے وہی بدر اور منان جیسے دو شیطان منہ پہ وہی شیطانی مسکراہٹ سجائے کتاب بند کیے بیٹھے تھے۔۔ یہ نہیں تھا کہ ان کو سب کچھ آتا تھا لیکن ان کے چہرے پہ پائی جانے والی مسکراہٹ یہ صاف ظاہر کر رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ہونے ہی والا تھا آخر کو وہ کرائم پاٹنر تھے جب وہ ساتھ ہوتے تو لوگ تو کیا شیطان بھی ان سے پناہ مانگتا تھا۔۔وہ تھے ہی کچھ ایسے اور ارہاب صاحب چہرے پہ پراعتمادی سجائے کتاب بند کیے سکون سے بیٹھے تھے شاید نہیں یقیناً اس کو سب کچھ آتا تھا اور اسفند کا کچھ معلوم نہ تھا جبکہ باقی سٹوڈنٹس اللہ ھو کا ورد کرنے میں مصروف تھے.....
"اوکے سٹوڈنٹس آئی ہوپ میں نے جو کام آپکو دیا تھا آپ نے کیا ہو گا۔۔کیوں منان؟؟"
سر شفاعت اپنی رعب دار آواز میں گویا ہوئے اور خاص طور پر منان کو مخاطب کیا۔۔
سر شفاعت کی منان سے ایک لگ ضد تھی اسی لیئے وہ سب سے پہلے منان سے پوچھتے تھے۔۔
منان جو دنیا و مافیا سے بیگانا ہینڈز فری کانوں میں لگائے نصرت فتح علی خان کی قوالی سن رہا تھا سر کی آواز نا سن سکا جس پر سر نے برہمی سے ساتھ بیٹھے بدر کو دیکھا۔۔
بدر نے منان کو ہلا کر سر کی طرف اشارہ کیا۔۔
منان نے ہینڈز فری اتار کر ادھر ادھر دیکھا اور اسکی نظر سر پر پڑی جو مسلسل کچھ بول رہے تھے اور وہ کھڑا ہو گیا۔
"مسٹر منان ۔۔کیا میری ان سب باتوں کا آپ پر کچھ اثر ہوا ہے یا سب سر کے اوپر سے گزر گیا۔۔"
"سر کے اوپر سے گزرنا دور کی بات میں ایسی باتوں کو اپنے آپ سے کئی میل کے فاصلے پر رکھتا ہوں۔۔
MZ hate the things that try to change him.. And Noone can be MZ...Its not difficult its impossible to be MZ "
یہ سب وہ دل میں ہی بولا اور سر کے سامنے خاموش رہا جس پر سر شفاعت طیش میں آ گئے اور ڈائس پر غصے سے ہاتھ مارتے ہوئے بولے۔
"میں یہاں کب سے بولے جا رہا ہوں اور منان صاحب کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔۔"
"سر آپ مجھ سے کچھ بول رہے ہیں؟؟"منان نے انکی مسلسل باتوں کا جواب دیا بھی تو کیا۔۔۔الٹا سوال کر ڈالا۔۔ہائے صدقے اس معصومیت کے۔۔۔۔
"تو کیا میں اتنی دیر سے جھک مار رہا تھا مسٹر منان؟؟"سر شفاعت اپنے غصے کو قابو کیئے بولے۔۔
"سر مجھے آپکی آواز نہیں آ رہی۔۔"منان سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔
"جسٹ شٹ اپ مسٹر منان۔۔۔آپ نے کلاس کو سمجھ کیا رکھا ہے ہاں۔۔بس بہت ہو گئی یہ ڈرامہ بازی۔۔" وہ بھی اسکے استاد تھے مگر مقابل بھی اپنی بات منوا کے چھوڑتا تھا۔
"سر میرا یقین کریں مجھے واقعی آپکی آواز نہیں آ رہی۔۔"منان اپنے لہجے میں بیچارگی سموئے بولا۔
بدر کافی دیر سے خاموش تھا تو اس نے بھی اس وقت گزاری مہم میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
"مان تو کہیں گونگا تو نہیں ہو گیا؟؟ہائے میرے دوست اب تجھ سے کون شادی کرے گی ۔۔اب تو کنوارہ ہی رہے گا اور ارہاب کے بچے تجھے دیکھ کر تیرا کتنا مزاق اڑایا کریں گے۔۔"بدر بھی بھرپور ڈرامےبازی کرتا ہوا بولا۔
"ابے گونگا نہیں ہوتا بہرا ہوتا ہے ۔۔مان بہرا ہو گیا ہے۔۔ہائے اب تو اسے ہماری گالیاں بھی سنائے نہیں دیں گی۔۔اب ہم کھل کے اس کی غیبت اس کی منہ پہ کیا کریں گے۔۔"اسفند جو ابھی ابھی کلاس کی دروازے پر نمودار ہوا تھا بولا۔
"غیبت پیٹھ پیچھے ہوتی ہے بھئی منہ پر نہیں۔۔"کلاس کا کوئی لڑکا بولا۔
"ہم پیٹھ پیچھے نا سہی کان کے پیچھے ضرور کریں گے ۔۔ہماری غیبت ہے بھئی ہماری مرضی منہ پہ کریں یا پیٹھ پیچھے۔۔"اب ارہاب بولا تھا جس پر ساری کلاس ہنسی تھی۔
وہ سب سر شفاعت کی موجودگی کو بھلائے مزے سے جملے کس رہے تھے اور سر شفاعت جو کہ ضبط کی حدوں کو چھو رہے تھے بالآخر اونچی آواز میں پوری کلاس خاص طور پر ان چاروں سے مخاطب ہوئے۔۔
"سائلنس کلاس۔۔اب اگر کسی کی آواز آئی تو اس سمسٹر بھول جائے وہ کہ میری کلاس میں بیٹھے گا۔۔اور آپ چاروں کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے گھر بتایا جائے،وارننگ لیٹرز دیئے جائیں؟؟اگر نہیں تو سدھر جائیں ۔۔دس از مائے لاسٹ وارننگ۔۔"انہوں نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔
"سر وارننگ لیٹرز کے بجائے اگر لو لیٹرز مل جائیں تو کیا ہی بات ہو۔۔" یہ مشورہ بدر کی طرف سے آیا تھا جس پر ساری کلاس دبی دبی ہنسی تھی۔
"اور سر بات ادھر سے ادھر کرنا محفل کے آداب کے خلاف ہے۔" اب کہ اسفند نے بھی سر کے غصے کو ہوا دی۔۔تیلی تو لگ چکی تھی۔۔ان سب کی باتیں تیل اور ہوا کا کام بھی کر رہی تھیں بس انتظار تھا آگ لگنے کا۔۔
"ارے سر مجھے کسی کی آواز نہیں آ رہی ۔۔کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔اب کیا مجھ معصوم،ہینڈسم،شریف انسان کو ساری زندگی تن تنہا اس دنیا میں گزارنی پڑے گی۔۔۔" منان نے اپنے آپ کو نظرانداز ہوتا دیکھ دہائی دی۔
"کاش کانوں کے ساتھ ساتھ تیری زبان پر بھی تالے لگ جاتے۔۔"ارہاب منان کو زچ کرنے کے لیئے بولا اور انہوں نے گفتگو کو امبا بھی تع کرنا تھا ۔
"سر میری ٹانگیں درد کر رہی ہیں۔۔اجازت دیں تو اندر آ جاؤں؟؟"اسفند نے سر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
"نہیں اتنی تکلیف کیوں کی آپ نے یہاں آنے کی، بتا دیتے ہم خود ہی آپ کی طرف چلے آتے۔۔"سر نے طنزاً کہا۔
"بس سر اب بزرگوں کا بھی تو لحاظ کرنا پڑتا ہے نا ۔۔اس عمر میں آپ اچھے تھوڑی نا لگتے لاٹھی پکڑے مجھے پڑھانے کے لیئے چلتے ہوئے آتے تو لوگ کتنی باتیں کرتے۔۔آخر استاد ہیں آپ میرے اتنا احسان تو کر ہی سکتا ہوں آپ پر۔۔"اسفند نے انکی عمر پر چوٹ کرتے ہوئے کہا گویا ان پر احسان کر رہا ہو۔۔
"خان تو تو چھا گیا میرے یار۔۔۔"منان نےدبی آواز میں کہتے ہوئے اسے تھمزاپ کا اشارہ کیا۔سب جانتے تھے سر شفاعت اپنی عمر کو لے کر بہت ٹچی تھے اور اسفند نے صحیح جگہ وار کیا تھا اب تو آگ ضرور لگنی تھی۔
"سر دیکھیں آپ اس کی باتوں میں مت آئیں آپ ابھی بھی جوان ہیں۔۔۔انسان کا دل جوان ہونا چاہیے بس۔۔"منان سر کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔
"آپ کو تو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا نا ۔۔"سر نے اسکی چوری پکڑتے ہوئے اسے گھورا۔۔
"آپ کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگایا ہو گا سر۔۔ایسی ہوائیاں آپ کے چہرے پر صرف اپنی عمر کی بات سن کر ہی اڑتی ہیں نا اس لیئے۔۔۔" اب کے جواب بدر کی طرف سے آیا تھا جس پر ارہاب کا بے ساختہ قہقہہ چھوٹا جسے اس نے با مشکل ضبط کیا مگر سر شفاعت اس کی ہنسی دیکھ چکے تھے۔
"ایسا کریں کہ آپ چاروں باہر جائیں اور باہر جا کراپنا چار رکنی اجلاس بٹھا کر یہ اندازے لگائیں کہ نیل آرم سٹرانگ چاند پر پہنچا تھا یا نہیں۔۔اور اگلا پورا ہفتہ یہی کیجیئے گا ۔۔اپنا ٹیلنٹ آزمائیں ۔۔تب تک کلاس میں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔"
سر نے غصے میں وہ پیغام سنایا جسے سننے کے لیئے وہ کب سے بے قرار تھے اور کلاس سے چل دیئے کیونکہ اس سب بحث میں پیریڈ ختم ہو چکا تھا۔۔
انہوں نے فاتحانہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور ہنستے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گئے۔
یوں تو وہ سر کو دو منٹ میں زچ کر کے کلاس سے باہر جا سکتے تھے پر انہیں بیچارے باقی سٹوڈنٹس پر رحم آ گیا اور منان کو تو ویسے ہی فلاحی کاموں کا کتنا شوق تھا اسی لیئے انہوں نے لمبی بحث چھیڑی تا کہ پیریڈ بھی گزر جائے اور ان کا کام بھی ہو جائے۔
************************** *********
منان، بدر اور اسفند کینٹین میں بیٹھے ہوئے تھے اسفند اپنی اسائنمنٹ بنانے میں مگن تھا منان دنیا و جہاں سے بےخبر موبائل استعمال کرنے میں جبکہ بدر صاحب سامنے بیٹھی لڑکی کو تاڑنے میں ایسے مصروف تھے کہ اس سے زیادہ اہم کام اس دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں اور وہ لڑکی بدر کو بدلے میں ایسی خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ بس ابھی ہی نظروں سے سالم نگل جائے گی بدر اس لڑکی کو مزید تاڑتا کہ اتنے میں موبائل فون استعمال کرتے منان کو ہاۓ ہاۓ کا دورہ پڑا......
"آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ... آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ"
اسائنمنٹ بناتا اسفند اور لڑکی کو تاڑتا بدر دونوں ہی اسکی طرف متوجہ ہوۓ......
"ابے اب کونسا دورہ پڑ گیا تجھے کیوں عورتوں کی طرح ہاۓ ہاۓ لگا رکھی ہے" اسفند جس کا دماغ پہلے ہی دوسری دفعہ اسائنمنٹ بنانے کی وجہ سے خراب ہو رہا تھا منہ بسور کے بولا ......
" آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ... آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ"
منان اسکی بات سننے کو روکا اور پھر سے اپنا ہاۓ ہاۓ شروع کر دیا بدر جو کب سے اس کی ہاۓ ہاۓ سن کر تھک چکا تھا غصہ آنے پر پاس پڑی اسفند کی ڈھائی کلو کی کتاب اٹھائی اور منان کے سر پہ دے ماری.....
"ہاۓ اللہ جی... کیا مسئلہ ہے تیرے ساتھ جو جم کے ہائے ہائے بھی نہیں کرنے دے رہا ... "
منان سر پکڑ کے دہائی دینے لگا....
"گدھے کب سے پوچھ رہے ہیں کیا ہوا ہے لیکن نہیں جی مجال ہے ایم۔زی اپنے منہ سے کچھ پھوٹے اس لیئے یہ ڈوز ضروری تھی ۔۔اب بول یا دوبارہ چابی دی جائے تب اپنے منہ سے کچھ بولے گا ...."
اسفند نے اس بک کی طرف اشارہ کیا جس سے بدر نے اسے دن میں تارے دکھائے تھے۔
"اچھا اچھا بتاتا ہوں.. "
" اب بول بھی دے نہیں تو میں نے ادھر بیٹھی خوبصورت لڑکیوں کا لحاظ بھی نہیں کروں گا.. "
بدر اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے ہوئے بولا
" یار وہ بات کچھ یوں ہے نا کہ میں ابھی ابھی ایک دل ہلا دینے والا شعر پڑا ہے اس لیے میرا دل ہل گیا ہے تو میں ہاۓ ہاۓ کر کے اسکو سنبھال رہا ہوں.... "
منان نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا....
" مجھے پتہ تھا اس نے کوئی چوس ہی مارنی ہے میں جا رہا ہوں یہاں سے تو بیٹھ کے سن اس کی مردہ شاعری... "
یہ کہتے ہوۓ اسفند نے اپنا سامان اٹھایا اور کینٹین سے نکل گیا ....
" ابے چھوڑ اسے تو مجھے وہ شعر سنا میں نے وہ جو سامنے لڑکی بیٹھی ہے نا اس پر لائن مارنی ہے... "
بدر نے سامنے بیٹھی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو کہ اپنے کام کرنے میں مصروف تھی۔
" اچھا اہم اہم عرض کیا ہے.. "
بدر نے ہاتھ اٹھا کر آگے پڑھنے کو کہا۔
"ابے تجھے ادبی محفل میں بیٹھنے کے آداب بھی نہیں معلوم گستاخ۔انسان ساتھ دینے کے لیئے اپنے دو روپے کے قیمتی الفاظ بھی پھوٹ دیتا ہے۔۔"
بدر کو سمجھ نا آیا کہ وہ تعریف کر رہا ہے یا بےعزتی ۔۔
"ہاں ہاں فرمائیے فرمائیے۔۔" بدر نے جوش سے کہا جس پر منان نے ایک مکا اس کی کمر میں مارا۔
"ایسے ہی ہوتے ہیں تجھ جیسے لوگ نا منہ تے نا متھا ٹڈا پہاڑوں لتھا۔۔"
"ابے ٹڈا نہیں جن۔۔جن ہوتا ہے۔۔جن پہاڑوں لتھا۔"بدر نے اسکی اصلاح کی۔
"ہاہاہاہا ۔۔۔تجھے صحیح پہچان ہے اپنی بھئی ۔۔صحیح بولا تو جن ہی ہے۔۔ہاہاہاہا"منان ہنستے ہوئے بولا۔ بدر اس کی بات پر غصے سے گھورنے لگا۔
"ابے اوو۔۔سیکنڈ ہینڈ شاعری کرنے والے مردہ شاعر زیدہ دانت مت کھولیو۔۔نہیں تو ساری شاعری کا بھوت یہ جن نکال دے گا۔۔چل اب جلدی بول۔۔"بدر بھی پھر کسی سے کم نہیں تھا۔
" عرض کیا ہے.."
"ارشاد ارشاد ۔۔مقرر۔۔"
اس دفعہ بدر نے صحیح سے بولا...
"جس طرف دیکھوں..."
منان نے ہاتھ اٹھا کر بدر کو ہاۓ ہاۓ کرنے کا اشارہ کیا....
" آۓ ہاۓ ہاۓ.. "
" جس طرف دیکھوں مقام ہو نظر آۓ... "
" آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ....."
بدر نے اس بار کھل کے چسکا لیا....
"جس طرف دیکھوں مقام ہو نظر آئے
کچھ نظر نہ آۓ جب تو نظر آۓ...... "
" آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ.. آۓ ہاۓ ہاۓ ہاۓ...."
اور اس بار منان اور بدر دونوں کا ہاۓ ایک ساتھ نکلا......
" آۓ ہاۓ.. کیا شعر سنایا ہے میرے یار واہ واہ واہ"
بدر نے منان کا کندھا تھپکتے ہوا کہا....
"یار بس تجھے پتہ تو ہے کہ تیرا بھائی کس قدر عاشق مزاج ہے...."
منان نے ایک ادا سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا.....
"اچھا بس دو تعریفیں کیا کردو توں تو پھیلنے ہی لگ جاتا ہے زیادہ اوور ہونے کی ضرورت نہیں ہے....."
یہ کہہ کہ بدر نے منان کے بالوں میں ہاتھ مار کے اسکے بال خراب کر دیے اور اٹھ کے سامنے بیٹھی لڑکی کی طرف چلا گیا اور منان بھی قدرے برے موڈ کے ساتھ اس کے ساتھ ہی اٹھا...
×××××××××××××××××××××××××××××××××××
"اسفند میرے یار مجھے بچا لے....."
اسفند بینچ پہ بیٹھے اسائمنٹ بنانے میں مگن تھا کہ اتنے میں کہیں دور سے اسے منان کی چیخنے کی آواز آئی اسفند نے فوراً سر اٹھا کہ دیکھا تو منظر کچھ یوں تھا کہ منان صاحب بھاگتے ہوۓ اسفند کے پاس آرہے تھے ۔
"اسفند میرے بھائی مجھے بچا لے نہیں تو آج اس نے مجھے مار دینا ہے"
پھولی ہوئی سانس کے ساتھ منان نے اسفند سے مدد مانگی...
"ابے پیچھے ہٹ سالے اور بتا کے ہوا کیا ہے کیوں انڈین فلموں کی ہیروئینوں کی طرح بھاگ رہا ہے کیا پھر سے کتا تو کوئی پیچھے نہیں لگ گیا تیرے۔"
اسفند منان کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے بولا۔
" ابے رک جا یار سانس تو لینے دے ایک ساتھ اتنے سوال پوچھ ڈالے... "
"اب بتا بھی دے میرے بھائی کے ہوا کیا ہے...."
اسفند نے تنگ آکر منان سے دوبارہ پوچھا
"یار دیکھ تو میرا بھائی ہے نہ تو تو مجھے اس سے بچا لے نہیں تو آج اس نے مجھے زندہ نہیں چھوڑنا....."
منان نے اسفند کی غیرت جگانے کی کوشش کی...
"کیا ہوا ہے کچھ بتا تو.. کون ہے وہ ماں کا لال جس نے اسفند یار خان کے بھائی جیسے دوست کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جلدی بتا میرے بھائی
میرے اندر پٹھانوں کا خون جوش مار رہا ہے میں اس کو ابھی دیکھ کے آتا ہوں... "
" ابے او او او او جون سينا کی سوتیلی اولاد..."
"کیا ہے؟؟؟ "
" پیچھے دیکھو پیچھے ارے پیچھے تو دیکھو... "
منان نے اسفند کو پیچھے موڑنے کا کہا
" ابے یار کیا ہے پیچھے.. آآآاآآآآ"
اسفند جھنجھلا کر پیچھے موڑا ہی تھا لیکن جو منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا اس کے بعد اسفند کی چیخ گراؤنڈ میں بیٹھے ہر سٹوڈنٹ نے سنی......
" ککککک کون ہو تم.... "
اسفند نے ہکلاتے ہوئے پوچھا.....
"ابے ڈر نہیں یہ اپنا بدر ہے.... "
" ہاہاہاہاہاہاہاہاہا بدر..... یہ تیرے نورانی منہ کو کیا ہو گیا ابھی تھوڑی دیر پہلے تو سہی تھا یہ پینٹ کس نے کردیا تیرے منہ پہ....."
"ہونا کیا ہے لڑکی پہ لائن مارنے گیا تھا الٹا اس نے اس کو دھو ڈالا..."
منان نے بامشکل اپنی ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے اسفند کو بتایا...
" بکواس نہ کر یہ سب تیرے اس منہوس شعر کی وجہ سے ہوا تھا... " بدر غصہ سے بولا
" ایک منٹ ایک منٹ کون سا شعر....منان میری جان تو مجھے تفصیل سے بتا کہ ہوا کیا تھا.... "
" میری جان ہوا کچھ یوں کہ جب تو ہمارے پاس سے اُٹھ کے گیا تو اس نے مجھے بولا کہ وہ شعر مجھے بتا کیوں کہ اس نے ایک لڑکی پہ لائن مارنی تھی تو میں نے اس کو سنا دیا اب یہ اس کہ پاس گیا اور جاتے ساتھ ہی ٹھرک ماری تو اس کو غصہ آیا اور اس نے اسکا سر ٹیبل پر پڑے کیک میں مار دیا اور ایسی بھگو بھگو کے باتیں ماریں نا ہاہاہاہاہا جس کا چلتا پھرتا ثبوت سامنے کھڑا وائٹ پینٹ ہوا منہ لیئے یہ عاشق ہے.....ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔"
منان پوری بات بتانے کے بعد اونچی آواز میں ہنسنے لگا.....
" ہاہاہاہاہاہا.... ہائے کاش میں بھی ادھر ہوتا اور تیری کُٹ لگتے دیکھتا کتنا مزہ آتا...."
"دیکھا مجھے معلوم تھا کہ توں کچھ ایسا ہی بولے گا اس لیے میں نے تیرے لیے ویڈیو بنا لی تھی...."
منان نے ایک ادا سے اپنے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اسفند سے کہا....
"ہائے میری جان اور انتظار کس بات کا ہے تجھے اب دیکھا بھی دے...... "
" اچھا یہ لے..."
منان نے ویڈیو چلاکر اپنا فون اس کو دیا....
" ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا..." وہ
ویڈیو دیکھنے کے بعد ان دونوں کہ قہقہے پورے گراؤنڈ میں سننے کو ملے....
بدر منہ دھو کے واپس آیا کیونکہ ابھی اس کو منان سے بدلا بھی تو لینا تھا آخر کو وہ بدر حمدانی تھا اسکا کسی کو معاف کردینا کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا اپنا بدلا لیے بغیر اس کو سکون کہاں ملتا تھا پوری یونیورسٹی کو معلوم تھا بدر حمدانی سے پنگا لینا اور مصیبت کو خود اپنے منہ سے دعوت دینا ایک ہی بات ہے اوپر سے اس کہ چہرے پر رہنے والی وہ شیطانی مسکراہٹ ہر کوئی دیکھتے ہی پہچان لیتا تھا کہ بندہ مشکوک ہے۔ یہی وجہ تھی شاید جو وہ ہر الٹے کام میں ہاتھ ڈالنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔۔ یونیورسٹی میں اگر کچھ بھی الٹا ہوتا تو سب کو معلوم ہوتا کہ اس سب کے پیچھے ایک ہی بندے کا ہاتھ ہو سکتا ہے اور وہ ہے بدر عبید حمدانی۔۔۔ لوگوں کو چونا لگانے میں اس کو زیادہ وقت نہ لگتا تھا۔۔ سٹوڈنٹس تو کیا ٹیچرز تک بدر حمدانی سے دور رہتے تھے وہ چیز ہی کچھ ایسی تھی۔۔
منہ دھو کر وہ آیا تو اسفند اور منان کی طرف چل دیا۔ تھوڑا قریب جا کر پتہ چلا کہ اب وہاں پہ دو نہیں تین لوگ مسلسل ہنسی جارہے ہیں۔۔
وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ارہاب بھی ان دونوں کے ساتھ بیٹھا ہنس رہا تھا۔۔۔
"بدر میرے یار۔۔تو بھی لڑکیوں سے مار کھاتا پھر رہا ہے۔۔"ارہاب نے بدر کو آتے دیکھا تو ہنستے ہوئے کہا۔
"بس غلطی ہو گئی مجھ سے جو اس دو نمبر شاعر کے شعر کا سہارا لیا ورنہ تو تو جانتا ہے میں کسی لڑکی سے فری نہیں ہوتا۔۔۔لڑکیاں ہی مجھ پر مر مٹ جاتی ہیں۔۔۔" بدر منان کو دیکھتے ہوئے بولا ۔
"لڑکیان اسکو دیکھ کے ہی مر جاتی ہیں تب ہی بیچارہ ابھی تک سنگل ہے ۔۔آگے کا سین چلتا ہی نہیں۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔" اسفند نے منان کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
"جلنے والوں کا منہ کالا۔۔"بدر نے اسفند کی کمر میں مکا مارتے ہوئے کہا۔
"ہاں ہم تو جلنے والے ہمارا منہ کالا اور پٹنے والوں کے منہ کا کیا ؟؟" منان نے قہقہہ لگاتے بدت کا دل جلایا۔
"ابے ہٹ ۔۔آج تو دن ہی برا ہے۔۔۔"یہ کہتے بدر وہاں سے اٹھ گیا اور وہ تینوں پیچھے ہستے رہے۔
لیکن بدر کے دماغ میں کیا چل رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔اس کا سمپل سا رول تھا۔۔"اپنا ٹائم آے گا"۔۔اب بدلہ تو وہ لیتا تھا مگر کیسے یہ وہ صحیح وقت آنے پر بتاتا تھا۔
××××××××××××××××××××××××××××××××××
کمرے میں دھواں ہی دھواں تھا۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی نے اپنے اندر کی آگ بھجانے کے لیئے سیگریٹ کا سہارا لیا ہو۔۔وہ زمین پر بیٹھے صوفے سے ٹیک لگائے سیگریٹ ہاتھ میں لیئے ایک بار پھر سے ماضی میں جا چکا تھا۔
"بھائی جان میں اندر آ رہا ہوں۔۔" عائن دروازے پر ناک کر کے اندر داخل ہو گیا۔ وہ یہی کرتا تھا ناک کر کے اجازت نہیں لیتا تھا بلکہ بتاتا تھا کہ وہ اندر آ رہا ہے۔
"آ جاؤ آ جاؤ ۔۔"عائن کو دیکھ کر اس کا موڈ فریش ہو جاتا تھا۔
"بھائی جان مجھے نا آپ کے ساتھ لڈو کھیلنی ہے۔۔"
"ابھی ۔۔۔" وہ منع کرنے لگا تھا مگر نا کر سکا ۔وہ عائن کو انکار کر ہی نہیں سکتا تھا۔ عائن میں جان بستی تھی اسکی۔
"اچھا چلو لیکن صرف ایک گیم۔۔" وہ اس کو اپنے پاس بٹھاتے بولا۔
"اوکے ڈن۔۔۔۔۔۔۔"عائن چھلانگ لگا کر اسکے پاس آ بیٹھا۔
"لیکن بھائی جان نو چیٹنگ اوکے؟؟"اس نے اپنے پھائی سے یقین دہانی چاہی جو اسکا آیڈئیل تھا۔
"دیکھتے ہیں۔۔"اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
"یا ہوووووو۔۔۔میں جیت گیا ۔۔۔" گیم ختم ہونے پر عائن بیڈ پر اچھلتے ہوئے بولا۔جب کی اس کا بھائی اسکی خوشی پر خوش تھا ۔۔کیا بتاتا کہ اسکو جتانے کے لیئے وہ ہار گیا تھا ۔
"چلیں بھائی جان میرا انعام نکالیں۔۔" عائن نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
"انعام کس خوشی میں؟"وہ بھی اسکو تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔
"میں نے ہزاروں نہیں کروڑوں لڑکیوں کے کرش کو ہرایا ہے بھئی انعام تو بنتا ہے۔۔"عائن بھی اسی کا بھائی تھا۔
"اوکے چیمپئین تمھارا ٹیبلٹ مل جائے گا تمھیں۔۔"اس نے عائن کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکے دل کی بات بولی۔
"بھائی جان یو آر گریٹ۔۔۔آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے ۔۔"عائن خوشی سے جھومتا ہوا بولا۔
"اپنے چیمپئین کی بات میں نہیں سمجھوں گا تو کون سمجھے گا۔۔یاد رکھنا تمھارا بھائی نا خود ہارے گا نا تمھیں کبھی ہارنے دے گا۔۔"اس نے عائن کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
ماضی سے وہ حال میں آچکا تھا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے گالوں پر بہہ گئے تھے۔
"تمھارا بھائی ہار گیا چیمپئین ۔۔"دنیا کے سامنے وہ مظبوط انسان تنہائی میں بکھر جاتا تھا۔
ماضی کی تکلیف دہ یادیں اسکو پل بھر میں کوئی اور انسان بنا دیتی تھیں جس سے دنیا نا واقف تھی۔
××××××××××××××××××××××××××××××××××
وہ تینوں آج مال آئیں تھیں نحل پیر کی موچ کی وجہ سے گھر پر ہی تھی ۔۔دانین ریحام اور ابیہا کو لیئے اپنے بھائی کی شادی کی ایڈوانس شاپنگ پر آئی تھی ۔کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ جو کام پہلے ہو سکتا ہے اسے پہلے ہی کر لینا چاہیئے ورنہ شادی کے ہنگاموں میں ہوش کہاں رہتا ہے اور پھر آخری دن بازار کے چکر۔۔۔
کافی چیزیں خرید چکی تھیں وہ کہ اچانک دانین کو یاد آیا۔
"اوہ بیا ۔۔میں بھائی کا گفٹ تو وہیں بھول آئی۔۔"دانین نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
"دانی۔۔۔تم بھی نا۔۔چلو چلتے ہیں۔۔"ابیہا نے افسوس سے سر ہلاتے کہا۔
"نہیں تم دونوں چلو فوڈکورٹ میں ابھی آئی لے کر۔۔"دانین نے کہا اور اس شاپ کی طرف چل دی۔
ابیہا اور ریحام فوڈ کورٹ کی طرف جا رہی تھیں کہ ریحام کی نظر ایک ڈریس پر پڑی اور وہ ابیہا کو لیئے اس دکان میں چل دی۔
ابیہا ریحام کے پیچھے ہی جانے لگی تھی کہ اسکی ٹکر اندر سے آتے کسی شخص سے ہوئی اور وہ چکرا کر رہ گئی۔
"آہ۔۔۔کس دیوار میں اپنا سر دے مارا میں نے۔۔"ابیہا بغیر اوپر دیکھے بولی جبکہ بدر جو اسفند کے ساتھ باہر کی جانب جا رہا تھا اس اچانک ٹکر سے بوکھلا گیا تھا۔
"سور۔۔۔۔"بدر کا سوری منہ میں ہی تھا کہ وہ کینٹین والی لڑکی کو دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہوا ۔
"تم۔۔۔"ابیہا نے اوپر دیکھا تو دونوں کے منہ سے بیک وقت تم نکلا کیونکہ دونوں ہی حیران تھے۔
"ٹھرکپن کی بھی حد ہوتی ہے ویسے۔۔ایک ڈوز کافی نہیں تھی تمھارے لیئے جو دوبارہ میرے پیچھے آگئے۔۔"ابیہا اپنی ناک رگڑتی سخت لہجے میں بولی۔
"او ہیلو۔۔۔کن ہواؤں میں ہو ۔۔۔۔دیکھ کر چلنا آتا نہیں تمھیں ۔۔لگتا ہےاپنی لاٹھی اور چشمہ گھر بھول گئی ہو۔۔۔یا صبح والا چانس مس کر کے افسوس ہو رہا ہے تمھیں۔۔"بدر سن گلاسز تھوڑا نیچے کرتے اس کے قریب ہو کر بولا۔
"ہونہہ۔۔۔مسٹر تم جیسا خود پسند انسان میرے معیار پر پورا اتر نہیں سکتا۔۔۔اب اتنا برا ٹیسٹ بھی نہیں ہے میرا ۔۔"ابیہا مغرور انداز میں بولی۔
"ٹیسٹ کی تو بات ہی مت کرو ۔۔۔لگتا ہے شیشہ نہیں دیکھا تم نے آج تک ۔۔۔اور تم جیسی پچھل پیری مجھے سوٹ نہیں کرتی آخر بدر حمدانی کا ایک کلاس ہے۔۔"بدر نے بھی حساب برابر کیا۔
"پچھل پیری۔۔۔۔تم تو جیسے شیکسپیئر کی اولاد ہو نا۔۔۔اور اگر میں اندھی ہوں تو کیا تم دیکھ کے نہیں چل سکتے تھے یا جان کر ٹکر ماری مجھے "ابیہا تو اس کے پچھل پیری بولنے پر پھٹ پڑی تھی اور اسکی کینٹین والی حرکت پر غصہ الگ۔
"ہاہاہاہا۔۔۔۔بیٹا ان کی شکلیں ہی کچھ اور ہوتی ہیں جن کو ٹکریں ماری جائیں اور میں کوئی ایسا ویسا نہیں جو راہ چلتی لڑکیوں کو ٹکریں ماروں۔۔"بدر نے سٹائل سے کہا ۔
"ہاں تبھی اس دن لائن مارنے پہنچ گئے تھے نا۔۔"ابیہا چیلنجنگ انداز میں بولی۔
"وہ تو میں چیک کر رہا تھا کہ تمھارا کیا ری ایکشن ہو گا اگر بدر حمدانی تمھیں لفٹ کروائے تو۔۔"بدر نے جو بات بولی وہ ابیہا کو آگ لگا گئی تھی۔ اس نے غلط بات غلط بندے کے سامنے بول دی تھی۔
ابیہا لڑکوں سے ہمیشہ دور رہتی تھی ۔ یا یوں کہا جائے کہ وہ بوائز الرجک تھی۔۔اسے یہ فضول کے افیئرز میں کبھی دلچسپی ہی نہیں تھی۔
"شٹ اپ۔۔مسٹر بدر حمدانی ۔۔۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی ۔۔تم نے مجھے ان لڑکیوں کی طرح سمجھ رکھا ہے جو تمھاری آفر پر خوش ہوتی ہیں۔۔مجھے تم جیسے لڑکوں میں کبھی انٹرسٹ نہیں رہا۔۔۔اب نکلو یہاں سے۔"ابیہا بدر کو انگلی اٹھا کر وارن مرتے ہوئے بولی۔
"تو پھر آپکو کن کن چیزوں میں انٹرسٹ ہے بتایئں نا" بدر کے اندر کے ٹھرکی نے انگڑائی لی اسی لیے پھر سے میٹھی ٹھرک مارنے کی کوشش کی۔ ابیہا اسکی بات پر مزید غصہ ہو گئی۔۔وہ اپنی بغیر سوچے بولے جانے والی عادت سے مجبور ۔۔۔مگر کون جانے کہ اسے یہ میٹھی ٹھرک کتنی مہنگی پڑنے والی ہے آگے جا کر۔۔
ابیہا دانین کی طرح گرم دماغ نہیں تھی مگر اس انسان کو دیکھ کر اس کا پارا ہائی ہو جاتا تھا۔مگر وہ جو بھی کرتی سوچ سمجھ کے کرتی تھی۔
"بات سنیں۔۔"ابیہا نے دکان میں موجود سیلزمین کو بلایا۔
"یہ کس طرح کے لوگوں کو آپ اندر گھسا دیتے ہیں جسے لڑکی سے بات کرنے کی تمیز نہیں الٹا لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں۔۔ٹھریں میں آپکی شکایت کرتی ہوں مینیجر سے۔۔۔"ابیہا نے سیلزمین کے پاس آنے پر غصے سے بدر کا حوالہ دیا جس پر سیلزمین بیچارگی سے اور بدر حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
"باہر نکالیں انکو ورنہ میں ابھی پولیس کو کال کرتی ہوں کہ یہ لڑکا بدتمیزی کر رہا ہے میرے ساتھ۔۔" ابیہا نے سیلزمین کو وہیں کھڑے دیکھا تو دوبارہ بولی۔
"خبردار جو ہاتھ لگایا ۔۔۔۔اور ہم جیسوں کو نکالنے سے بہتر ہے ان محترمہ کو افریقہ کے جنگلوں میں چھوڑ آئیں ۔۔ملک مزید تباہ ہونے سے بچ جائے گا۔۔" بدر سیلزمین کو روکتے باہر کی طرف بڑھ گیا مگر جاتے جاتے ابیہا کو تپانا نا بھولا۔
اسفند اور ریحام جو اس سارے ڈرامے میں خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے جس میں اسفند کی نظر تو بس ایک جگہ ٹک گئی تھی اور ریحام ابیہا کو غصے میں دیکھ کر چپ تھی۔ وہ پہلی بار ابیہا کو غصے میں دیکھ رہی تھی اس لیئے وہ اندازہ نا لگا پائی کہ کوئی ہے جو اسے کتنی فرصت سے دیکھ رہا ہے۔
بدر کے جانے کے بعد اسفند کو ہوش آیا تو وہ بھی اس کے پیچھے گیا اور ابیہا اور ریحام نے گہری سانس خارج کی اور پھر وہ بھی انکے پیچھے باہر نکلیں اور فوڈکورٹ کی طرف چل دیں۔
××××××××××××××××××××××××××××××××××××××
Han tu readers agai epi ab parh k bata dein k kesi lagi❤️ yh epi humny jaldi me likhi hy bcz humre novel k kuch characters mashallah se insta ki duniya py qadam rkh chuky hyn or un me se kuch k birthday tha jese arhab or kuch ka agy araha hy jese abiha or nahal tu yh srf jaldi hum ny un k lia di birthday gift k tor py rkh lun 3no😂😂❤️
Ok readers parh k zaroor bataye ga k kesi lagi epi koi galti hui hu tu batana or agli epi k lia 1 maa intazar krye ga km se km😂😂😂
Apna buht sara khayal rkheye ga in sha Allah phir milen gy ek achi si epi k sth duaon me yad rkheye ga Allah hafiz❤️

YOU ARE READING
یار دیوانے
Fantasyکہانی ہے دیوانوں کی۔۔انکی دوستی کی جو محبت، خلوص،احساس،پیار،ایثار سے جڑے ہیں۔۔دوستی ایک بے غرض رشتہ ہے۔۔نا لفظوں کا محتاج نا ملنے کا پابند ۔۔کیونکہ یہ رشتہ دل سے نہیں روح سے ہوتا ہے ۔۔داستان ہے مخلوق کی خالق سے رابطے کی درستگی کی۔۔داستان ہے اپنا آپ...