Episode 5

161 13 5
                                    

   اللہ ھو اکبر..... اللہ ھو اکبر
 (اللہ بہت بڑا ہے.. اللہ بہت بڑا ہے)
پورا کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا  صرف لیمپ کی مدہم روشنی تھی جو اسکے چہرے پر پڑ رہی تھی کہ اتنے میں مسجد سے آنے والی مؤذن کی صدا نے اسے گہری نیند سے بیدار کیا .اس نے اپنے بال سمیٹے اور وضو کرنے کی غرض سے اٹھ گئی  ۔کچھ ہی دیر بعد  وہ واشروم سے باہر آئی اور ٹیبل پر سے جائے نماز اٹھا کر کے نماز کی نیت باندھی.... سلام پھیر کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ بےساختہ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔
وہ دعا کرنے کے بعد اٹھی اور قرآن کھول کر بیڈ پر بیٹھ گئی کہ اچانک سے اسکی نظر ایک آیت پر پڑھی.....
ترجمہ :
"تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا اور نہ بیزار ہوا ہے..."
ایک بار پھر سے اسکی آنکھیں بھیگ گئیں اور آنسوؤں سے اسکا چہرہ بھیگ گیا۔ کیا نہیں تھا ان آنسوؤں میں۔۔
 تشکر
عقیدت
محبت۔
 اس نے آنکھوں کو زور سے بند کر لیا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ ہر جگہ اس کا ساتھ ہونے لے لیے شکر ادا کیا ۔ اس نے نرمی سے آنکھیں کھولی پھر محبت پاش نظروں سے قرآن کی طرف دیکھا اور پھر سورت مکمل کر کے قرآن مجید الماری میں رکھ دیا اور بابا جان اور ماما کے لیے چائے بنانے کے لیے باورچی خانے میں چلی گئی.... 
"بابا جان میں اندر آجاؤں؟" کمرے کا دروازہ کھول کر چائے کا ٹرے ہاتھ میں لیے وہ معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے بولی....
"بیٹا آپ کمرے میں آ چکی ہیں اب اجازت کیوں مانگ رہی ہیں..." صفدر صاحب اس کی شرارت خوب سمجھتے تھے اسی لیے ہلکا سا طنز کرنا نہ بھولے.... 
" اوووو میں نے تو غور ہی نہیں کیا میں تو اندر بھی آگئی..." اپنی چوری پکڑتے دیکھ کر ابیہا ایسے ہوئی جیسے اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں....
" ہاہاہاہاہاہاہا"
"  بیٹا آپ کب چھوڑیں گی یہ بچوں والی حرکتیں..." صفدر صاحب اسکی باتوں پر ہنسنے لگے جبکہ زرین بیگم نے اسکو گھورتے ہوئے کہا....
" ماما آپ نے لوگوں کی ماؤں کو دیکھا ہے انکے بچوں کے قد اگر اونٹ جتنے ہی کیوں نہ ہو جائیں پھربھی انکے لیے بچے ہی رہتے ہیں وہ اور ایک آپ ہیں....اللہ کا شکر ادا کریں نفل پڑھا کریں کے اتنی پیاری اور شریف بیٹی اللہ میاں نے آپکو دی..." ابیہا بھرپور انداز میں ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی....
" نوٹنکی کرنا بند کریں بیا...شرارتی نہ ہو تو " زرین بیگم مسکراتے ہوئے گویا ہوئی....
" اللہ میاں میں اور نوٹنکی توبہ توبہ... میں تو اتنی شریف اور سیدھی سادی سی ہوں کیوں بابا " وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے صفدر صاحب کی جانب مڑی۔۔
"ہاں ہاں ہماری بیٹی بہت سیدھی ہے زرین بیگم... " وہ ابیہا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے...
"جی بالکل جلیبی کی طرح سیدھی ہے آپکی لاڈلی۔۔" "وہ اپنا چائے کا کپ ختم کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں....
" بابا جان میں پارک جارہی ہوں واک کے لیے آپ بھی آئیں نا ویسے بھی اتنے دن ہو گئے آپ کے ساتھ گئے ہوئے"ابیہا نے صفدر صاحب کو آفر دی۔
" نہیں آج نہیں بیٹا کل سے انشاءاللہ...." انہوں نے دامن بچایا۔
"اولڈ مین۔۔میں دیکھ رہی ہوں آپ سستی کرنے لگے ہیں۔"ابیہا نے آبرو اچکاتے کہا۔
"بس بیٹا۔۔بوڑھا ہو رہا ہوں" صفدر صاحب نے اسکی طرف دیکھتے کہا۔
"نا بھئی نا میرے بابا جان اور اولڈمین نوو وےے۔۔کل سے آپکی ٹریننگ شروع کرتی ہوں میں ۔۔آج میں چلی جاتی ہوں.."
وہ یہ کہتے ہوئے اٹھی اور قریبی پارک کا رخ کیا....
فجر کے بعد کا وقت تھا اندھیرا اب ختم  ہونے کو تھا اور سورج ہر سو اپنی روشنی بکھرنے کو بےتاب تھا۔ درختوں کی سر سبز ڈالیوں پر بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ نے ماحول میں عجیب سا سکون پھیلا رکھا تھا۔ ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔۔
 ابیہا بلیو رنگ کی قمیز کے ساتھ سفید رنگ کا ٹراوزر پہنے  شانوں پر سفید ہی رنگ کی شال پھیلائے ٹریک ایریا پر چلتے کافی تروتازہ نظر آ رہی تھی۔ وہ تھوڑے آگے چل کر رک گئی کیونکہ اس کو تھوڑے ہی دور ایک عمر رسیدہ شخص  ٹریک سوٹ پہنے بینچ پر اکیلا بیٹھا دیکھائی دیا اس کو اکیلا بیٹھا دیکھ کر ابیہا کا دل کیا کہ ان کے پاس جا کر بیٹھ جائے پھر اپنی دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ ان کی طرف  بڑھی.....
"السلام وعلیکم انکل..." انکے پاس پہنچ کر ابیہا نے سلام کیا جس پر اس نے پہلے تو سر اٹھا کر اس کی طرف تعجب سے دیکھا اور پھر سرکے اشارے سے ہی اسکے سلام کا جواب بھی دے دیا..... "کیسے ہیں آپ انکل..." وہ بلاوجہ ان سے فری ہونے لگی ایسی ہی تھی وہ۔احساس کرنے والی بھی تھی لیکن جو اسکے ساتھ ضد لگاتا اسے وہ دن میں چاند ستارے بھی دکھا دیتی تھی۔لیکن انکل چونکہ دیکھنے میں کافی حد تک شریف اور صوبر نظر آتے تھے اس لیے  ابیہا ان سے باتیں کرنے لگی ....
" میں ٹھیک تم کیسی ہو بیٹی" انکل نے نہایت ہی شفقت سے جواب دیا....
"جی میں بھی ٹھیک..... آپکو پہلے دیکھا نہیں یہاں انکل کیا نئے آئے ہیں آپ؟؟" ابیہا انکا انٹرویو ایسے لینے لگی کے جیسے بس ابھی ہی انکو جاب دے دے گی.....
"مجھے تقریباً ایک ہفتہ ہوگیا ہے یہاں شفٹ ہوئے ، اب گھر میں بیٹھ بیٹھ کر جب زیادہ بور ہو گیا تو اپنے بیٹے سے کہا کے مجھے کہیں باہر لے جائے تو وہ ادھر ہی لے آیا.... " انہوں نے ابیہا کو تفصیل دی....
"اوو۔۔ تو آپ اگراپنے بیٹے کے ساتھ آئیں ہیں تو ادھر اکیلے کیوں بیٹھے ہیں؟"ابیہا کے سوال پر انکل کے چہرے کے تاثرات بدلے...
"میرے بیٹے نے ہی مجھے یہاں بٹھایا ہے اس کا کہنا ہے کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اب اس کو میری کمپنی پسند نہیں... "انکل کے لہجہے میں کافی دکھ تھا ان کی یہ بات سن کر ابیہا کو ان کے بیٹے پر کافی غصہ آیا لیکن وہ برداشت کر گئی۔
 "تم آج کل کے بچوں کو ہم بوڑھوں کے ساتھ چلنے میں بھی مسئلہ ہے، چلنے پر تو کیا ساتھ رکھنے پر بھی مسئلہ ہوتا ہے.. "
" ایسی بات نہیں ہے ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہوتا." ابیہا نے ان کی بات کاٹی..." اگر ایک جیسے نہ ہوتے تو ہر ملک میں اولڈ ہومز نہ بنے ہوتے بیٹا.... "یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور پارک کے گیٹ کی طرف  بڑھ گئے اور پیچھے ابیہا کے چہرے کا رنگ اس بزرگ کی باتوں کی وجہ سے سفید پڑھنے لگا کچھ دیر تک تو وہ یونہی ساکت بینچ پر بیٹھی رہی پھر اچانک اٹھ کر گھر کی جانب چل دی....
********************************************
سیاہ رنگ کی بی ایم ڈبلیو یونی کے گیٹ سے اندر داخل ہوتی دکھائی دی اور عائث تمام تر وجاہت سمیت گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ایک ادا کے ساتھ  بالوں میں ہاتھ مارتے ہوئے اپنی آنکھوں پر سے  سن گلاسزز اتاری.....بلیو رنگ کی جینز کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ کے اوپر لیمن کلر کی شرٹ پہنے وہ یونی کی بہت سی لڑکیوں کے دلوں کے تار ہلاتا چہرے پہ ایک پراصرار مسکراہٹ لیے چل رہا تھا ۔جیسے ہی وہ تھوڑا آگے پہنچا یونی کے کافی سارے لڑکوں کا ایک گروپ اسے نظر آیا جس میں کم سے کم دس پندرہ لڑکے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں اسکے باوجود بھی وہ اعتماد سے چلتا ان کے قریب رکا.... "ہاں بھائی تم نئے آئے ہو نا.." ان میں سے ایک لڑکے نے عائث سے پوچھا.... "ہاں میں نیا سٹوڈنٹ ہوں... لیکن تم لوگ جو کچھ بھی کرنے والے ہو وہ کسی بھی قیمت پر میں ہونے نہیں دوں گا تم جانتے بھی ہو میں کون ہوں...." عائث نے بھرم دکھاتے انھیں کسی بھی قسم کی کروائی کرنے سے روکنا چاہا۔ 
" اوو۔۔۔کون ہو بھئی تم ہمیں بھی تو پتا چلے۔۔ "ایک لڑکے نے اونچی آواز میں کہا جس کو سن کر باقی تمام لڑکے ہنسنے لگے۔
" ہونہہ.... تم جانتے بھی ہو میں عائث حمدانی ہوں اس یونی کے مشہور و معروف سٹوڈنٹ بدر عبید حمدانی کا چھوٹا بھائی... " عائث نے  طنزاً مسکراتے کہا جس پر سب نے پہلے حیرانی کے تاثرات دیئے اور پھر ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگے۔
"ریگنگ تو ہو گی بھئی۔۔چاہے بدر حمدانی کا بھائی ہی کیوں نا ہو۔" یہ آواز ان لڑکوں کے پیچھے سے آئی تھی جس پر سب لڑکے سائیڈ پر ہوئے تھے۔
پیچھے سے شان سے قدم آگے بڑھاتے بدر اور منان کو دیکھ کر عائث کو چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا لگا ۔"ہاں تو کیا مطلب اگر تم بدر کے بھائی ہو تو ہم تمہاری ریگنگ نہیں کر سکتے..." عائث کے بالکل سامنے آتے منان نے کہتے اسکے کندھے سے ڈسٹ جھاڑی اور اسکے قریب ہوتے آنکھ ماری۔
"ریگنگ ڈیپارٹمنٹ ایم۔زی کا ہے میری جان ۔۔یہاں سب ایک برابر ہیں ۔۔"منان گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بیٹھ گیا جہاں بدر پہلے ہی بیٹھ چکا تھا۔ وہ وہی دونوں  تھے جن کی نام کا سہارا لے کر وہ ان لڑکوں کی ریگنگ سے بچنا چاہتا تھا اور یہاں تو بازی الٹی پڑ گئی۔انھیں اپنی گاڑی پر بیٹھے دیکھ عائث کے چہرے پر غصے کے تاثرات نمودار ہوئے۔ بدر نے  گلاسزز تھوڑی نیچے کر کے عائث کو آنکھ مار کر جلا دینے والی مسکراہٹ اچھالی ۔
"ہاں بلکل تم میرے بھائی ہو تو کیا مطلب میں تمہیں معاف کردوں گا ہرگز نہیں میں نے تو تمہیں پہلے ہی سمجھایا تھا کہ بچ کر رہنا۔تم نے بات ہوا میں اڑائی تھی، اب دیکھو تمھارے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں۔۔" بدر ہاتھ کھڑے کرتا چیونگم چباتا بولا۔
 "یہ لو بھائیوں اس کی گاڑی کی چابی..." بدر نے چابی لڑکوں کی طرف اچھالی جس کو ان میں سے ایک نے کیچ کر لیا۔۔
"دیکھ میری جان ۔۔۔تو میرا بھائی ہے اس لیئے میں بھائی چارے کے طور پر براہ راست تیری ریگنگ نہیں کروں گا۔۔ہمارے شاگرد یہ عظیم کام سر انجام دیں گے۔۔"بدر نے عائث کے کندھے پر ہمدردی سے ہاتھ رکھتے کہا جسے عائث نے فوراً  جھٹکا۔
"اب تو اگر کھاتا بچپن میں بادام تو تیری یاداشت ہوتی تیز اور تو چابیاں ساتھ لے کر نکلتا اپنی اس گاڑی سے۔۔مگر ہائے افسوس اب بھگت ۔۔" بدر نے اسکی یاداشت پر طنز کرتے کہا جبکہ عائث کو تو تب سے چپ ہی لگی تھی جب سے ان دونوں کا اس سب میں شامل ہونے کا پتا چلا تھا۔
"ابے بادام سے تو شاید نظر تیز ہوتی ہے وہ آنکھ سا ہوتا ہے نا۔۔۔اور اخروٹ سے دماغ تیز ہوتا ہے کیونکہ وہ دکھنے میں دماغ جیسا ہوتا ہے۔۔"منان نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔ بدر نے اسکی معلومات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔
"بھائی  its not fair" عائث نے بدر کی طرف شکوہ کناں نظروں سے دیکھا۔
"چلو بھئی اب یہ گاڑی چاہیئے تو ذرہ یہ دوپٹہ پکڑو اور میں ناگن ناگن گانا شروع کرو ساتھ ساتھ ڈانس بھی کرنا۔۔ہم مفت شو ملاحظہ کریں گے۔۔" ایک لڑکے نے اسکی طرف دوپٹہ بڑھاتے اسکو ٹاسک دیا۔
عائث نے بدر کی طرف دیکھا اور پھر اپنی گاڑی کی طرف۔وہ گاڑی جسکا وہ خود سے زیادہ خیال رکھتا تھا۔۔حمدانی صاحب کی منتیں کر کر کے اس نے  یہ لی تھی۔
"چلو بھئی اتنا وقت نہیں ہے ورنہ اس گاڑی کو ذرا سی بھی خراش برداشت تو کر نہیں پاؤگے۔۔" گروپ میں سے ایک اور لڑکے نے کہا۔ وہ مرتا کیا نا کرتا دوپٹہ لیا۔اور جو انہوں نے کہا وہ کر دکھایا۔۔اس کے ڈانس پر تو سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
"گاڑی کی چابی؟" عائث نے تلخ لہجے میں ان لڑکوں سے چابی مانگی۔ مگر بات یہاں تو تھوڑی ختم ہوتی ہے۔۔۔
"اچھا بھائیوں اب ہماری باری۔۔۔" منان گاڑی کے بونٹ سے اتر کر آگے آیا۔اسے عائث کی شکل دیکھ کر ہنسی آئی مگر ابھی اتنے جلدی وہ کہاں کسی کو چھوڑتا تھا۔
"دیکھ اب یہ ہے تیری ویڈیو جس میں ایک ناگن ۔۔او سوری ناگ۔۔نظر آ ہی رہا ہو گا تمھیں۔۔" منان نے عائث کو اسکی ڈانس کی ویڈیو دکھائی جو ابھی اس نے بنائی تھی۔ اسے دیکھ کر تو عائث کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
"اب تمھیں کرنا یہ ہے کہ ہم ہیں کھاتے پیتے لوگ تو کافی عرصے سے بیچارے کینٹین والے کے پیسے دینے ہیں تو وہ تم دے دو تو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلنے سے رک جائے گی۔۔" منان نے اسے دھمکی بھی دی ۔۔عائث بیچارہ تو پچھتا رہا تھا اس وقت پر جب اس نے یہاں ایڈمیشن لیا۔
"صرف دس ہزار بل آیا ہے۔۔۔" بدر نے بھی لقمہ دیا۔اسکو ترس تو آ رہا تھا عائث کی حالت پر وہ چپ رہا۔
"دس ہزااررر؟؟"عائث نے پھٹی پھٹی نظروں سے مناں اور بدر کی طرف دیکھا اور دونوں نے شانے اچکا دیئے۔
"وقت کم مقابلہ سخت۔۔"منان نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے بولا اور ایک نظر موبائل میں چلتی ویڈیو پر ڈالی۔
"ٹھیک ہے مگر اسکے بعد گاڑی کی چابی میرے پاس اور یہ ویڈیو ڈیلیٹ ہونی چاہیئے۔۔۔" عائث نے اپنے آپکو مستقبل میں انکے شر سے بچانے کے لیئے شرط رکھی۔
"تم شرط رکھنے کی پوزیشن میں تو نہیں مگر اپنا بھائی ہے تو کیا یاد کرے گا کر دیں گے ڈیلیٹ۔۔چل اب بل دےے۔۔" منان نے کہا اور بدر نے دل میں اسکو سراہا۔۔۔ایسے ہی تو MZ ریگنگ کا بادشاہ نہیں تھا۔وہ جانتا تھا عائث کی کمزوری اسکی گاڑی ہے اور وہ کس حد تک کنجوس ہے۔
عائث نے پیسے نکال کر دیئے اور اپنے ویران والٹ کی طرف دیکھا جو اب خالی پڑا تھا۔ایک ہاتھ سے چابی لی اور دوسرے ہاتھ سے پیسے دیئے۔۔ساتھ ہی منان سے ویڈیو بھی ڈیلیٹ کروائی ۔
اپنی گاڑی کی چابی تھامتے اسکو کچھ سکون حاصل ہوا۔بدر کار کے بونٹ سے اترا جو اس سب میں صرف تماشائی کا کردار ہی نبھا رہا تھا اور آگے بڑھا ،اسکے ساتھ ہی منان بھی آگے بڑھا اور دونوں نے اپنے بازو پھیلائے اور کہا۔
"Welcome to the University bro.."
عائث نے انکی طرف دیکھا اور ہنس دیا۔انکے گلے لگا۔پتا تھا انہوں نے کچھ انوکھا ہی کرنا ہے مگر اتنا انوکھا۔۔۔لڑکوں کا گروپ جا چکا تھا مگر عائث نے ان سب کے چہرے یاد کر لیئے تھے۔بدر کا بھائی تھا کیسے معاف کرتا۔
"چل اب جا کلاس میں ۔۔کسی اور کے ہاتھ نا چڑھ جائیو۔۔۔اپنے بھائی کا نام لے لینا بس۔۔" بدر نے اسے جانے کا کہا تو اسکی بات پر منان ہنسا اور عائث عجیب نظروں سے اسے دیکھتے چل دیا۔ اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے اور اسکی حالت یاد کرتے بدر اور منان نے دیوانوں کی طرح  اونچے اونچے قہقہے لگائے ۔
********************************************
آج سنڈے تھا اور صبح سے دانین اور ابیہا کا مشاورتی اجلاس جاری تھا۔
"یارر۔۔بیا اب تم بتاؤ کیا کروں۔۔"  دانین نے منہ بناتے ابیہا سے کہا جو سکائپ پر ویڈیو کال پر اسکی بات سن کر بھری بیٹھی تھی۔ دانین نے اسے ارہاب کے ساتھ مال والی ملاقات کا بتایا تو ابیہا نے اسکی عقل پر ماتم کیا۔
"دانین ۔۔میری جان۔۔تم کب یہ بے وقوفیاں کرنا چھوڑو گی۔۔ارہاب بھائی اتنے اچھے ہیں نا جانے تھیں ان میں کیا برا لگتا ہے؟" ابیہا کی بات سنتے ہی دانین تو حیرانی سے سکرین میں اسکا منہ تک رہی تھی جس نے ایک ملا قات میں بیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
"اوہ۔۔۔تو  اب بِگ برادر کے سامنے تمھیں میں غلط لگنے لگی ہوں۔۔شاباش بیٹا بدل لو پارٹی۔۔دوست دوست نا رہا۔۔اے اللہ یہ سننے سے پہلے کال بند کیوں نا ہو گئی۔۔"دانین نے اپنے کھلے بالوں کو جھٹکتے ماتھے پر ہاتھ کی مٹھی بنا کر رکھتے بھرپور ایکٹنگ کی۔
"ڈراما کوئین۔۔اس بار غلطی تمھاری ہے۔"ابیہا نے آنکھیں دکھاتے ہوئےکہا جس پر دانین نے آنکھیں پٹپٹائیں۔
"وہ چنگیز خان کا سوتیلا بھائی کیوں بنا پھرتا ہے پھر۔۔جب دیکھو غصہ اسکی ناک پر دھرا ہوتا ہے ۔۔الفاظ اسکے پتھر برساتے ہیں۔۔چال سے اسکی غرور جھلکتا ہے۔۔آنکھیں۔۔آنکھوں سے تو مانو زندہ نگلنے کا ارادہ ہوتا ہے اسکا۔۔" دانین ذہن میں اسکا سراپا لہراتے ہوئے کھوئی کھوئی سی بولی ۔وہ ہوش میں تب آئی جب ابیہا کا قہقہہ اسے سنائی دیا۔
"اہمم خیر ہے دانین صاحبہ ۔۔آپ کے مشاہدے کی داد دینی پڑے گی۔۔" ابیہا معنی خیز انداز میں مسکرائی۔
"تف ہے تم پر۔۔۔وہی بچا ہے نا جیسے اسے دیکھوں گی۔۔میرے لیئے میرے ناول کے ہیروز ہی کافی ہیں ۔۔"دانین نے منہ کے زاویے بگاڑ کر کہا اور آخر میں لہجے میں محبت سموئے دل پھینک عاشقوں کی طرح بولی۔
"ہمیں تو دال میں کچھ کچھ کالا پیلا لگ رہا ہے۔" ابیہا نے مسکراہٹ دباتےہوئے دانین کو زچ کرنا چاہا۔
دانین بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے بولی۔
"آپ اپنا چیک اپ کروائیں ۔۔یقیناً کوئی نا کوئی خرابی ہے جو آپ خیالی پلاؤ کے بجائے دال پکا رہی ہیں۔۔"دانین نے بالوں کی لٹ کو چہرے پر سے ہٹا کر ہنستے ہوئے کہا۔
"چیک اپ کی ضرورت تمھیں ہے۔۔کل ذرہ دل کے ڈاکٹر کے پاس نا چلیں۔۔"ابیہا آج بھرپور موڈ میں تھی ۔کبھی کبھی موقع ملتا تھا دانین کی کھنچائی کرنے  کا۔۔۔
"اچھا تم کہتی ہو تو میں دل،گردے،جگر سب چیک کروا لوں گی لیکن ۔۔"وہ منہ بناتے ہوئے بول رہی تھی۔
"اب مسئلے کا حل بتاؤ۔۔" دانین  بولی تو ابیہا نے جھٹ سے حل پیش کیا۔
"Three Magical Words"
ابیہا کی بات سنتے ہی دانین منہ کھولے اسے دیکھتی رہی اور جیسے ہی ہوش میں آئی تو ساتھ پڑا کشن اٹھا کر مارنے لگی تو یاد آیا ابیہا اس کے سامنے نہیں ،سامنے تو سکرین تھی تو دانین ذرا ٹھنڈی پڑی۔صوفے پر دراز ابیہا دانین کی حالت سے محظوظ ہو رہی تھی اور دانین اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"استغفراللہ ۔۔بے شرم ۔۔۔تم ہوتی نا اگر میرے سامنے بیا تو قتل ہو جانا تھا تمھارا۔۔" دانین لال چہرہ لیئے آنکھوں میں ڈھیروں غصہ لیئے بولی۔
اصل غصہ تو اس بات کا تھا جسے دیکھو ان دونوں کا نام ساتھ جوڑنے پر تلا تھا۔پہلے مال میں وہ کپل،پھر وہ عورت اور اب ابیہا۔اسنے سوچ کر جھرجھری لی۔ایسا کبھی ہونا ہی نہیں تھا۔
"ارےےے۔۔۔جانم میں نے نا تو قبول ہے بولنے کا کہا اور نا ہی اظہارِ محبت کا کہا ہے ۔۔میرا مطلب تھا سوری بولنا۔۔" ابیہا نے ہنستے ہوئے کہا جو ہنسی اس وقت دانین کو زہر لگی۔
"اور ویسے بھی میرے بھائی کے ساتھ کوئی خوبصورت دوشیزہ ہی جچے گی۔۔"ابیہا نے تھوڑی تلے ہاتھ رکھتے ہوئےکہا۔وہ صرف دانین کو تنگ کر رہی تھی۔
"اس سڑیل انسان کو مل ہی نا جائے کوئی خوبصورت لڑکی۔۔جیسے مزاج ہیں وہ ساری عمر کنوارہ ہی رہے گا۔۔"دانین نے بھی اثر لیئے بغیر کہا۔
ایک ڈھیٹ تھی تو دوسری اس سے بڑی ڈھیٹ تھی۔
"یہی جو تمھاری اکڑ ہے نا ۔۔۔یہ اکڑ تم سے غلط کام کرواتی ہے۔۔کل جب ارہاب بھائی سے ملو تو اسے گھر چھوڑ کر جانا۔۔"ابیہا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"ہاں جی تمھارے بِگ برادر کی شان میں مجھ نا چیز سے گستاخی نا ہو جائے۔۔"دانین نے بیزاری سے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔
پھر ابیہا نے اسے خوب نصیحتیں کر کے کال بند کی تو دانین نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی اور سوچنے لگی۔۔
"ہممم۔۔۔تو مسٹر میر ارہاب زمان کس نے سوچا تھا کہ میں تم سے معافی مانگوں گی۔۔مگر میں بھی دانین حسن نیازی ہوں اپنی غلطی تو مان لیتی ہوں مگر دوسروں کی غلطی بھی ان سے منوا کر ہی رہتی ہوں۔" یہ سوچتے ہی دانین ہنسی اور اٹھ کر کچن کی جانب قدم بڑھا دیئے کیونکہ اسکا بھوک کا کیڑا جاگ چکا تھا۔
********************************************
صبح صبح کا وقت تھا وہ معمول کے مطابق اپنے ٹائم پر جم میں موجود تھا جو اسکے گھر کے نیچے والے پورشن میں اس نے خاص اپنے لیئے بنوائی تھی۔وہاں سب کا آنا منع تھا سوائے انکےجو اسکی اجازت لینا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔دوست بھی بھلا کوئی کام کرنے کے لیئے اجازت لیتے ہیں؟
وہ بلیک سلیولیس شرٹ اور ٹراؤزر میں ٹریڈمیل پر دوڑ رہا تھا۔اسکے کسرتی جسم پر پسینے کے قطرے واضح تھے۔اسکے ذہن میں مختلف سوچیں گردش کر رہی تھیں کہ اچانک اسے پہلے یونیورسٹی والی اور پھر مال والی دانین سے ملاقات یاد آئی جس پر اس کے چہرے کے تاثرات مزید سخت ہو گئے۔اس نے سپیڈ بڑھا دی اتنی کہ اسکا سانس پھولنے لگا۔بار بار دانین کا خیال اسکے ذہن میں آ رہا تھا اور وہ اس کی وجہ سے ڈسٹرب تھا کہ وہ کیوں اسے بار بار یاد آ رہی تھی۔تنگ آ کر وہ پاس پڑے صوفے پر آ کر بیٹھ گیا اور پسینہ صاف کرنے لگا۔وہ لڑکی، اسکی باتیں،اسکی آواز،اسکا بولنا اسکو زہر لگتا تھا۔پہلی نظر میں ہی وہ اسے اچھی نہیں لگی تھی۔
اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور نا چاہتے ہوئے بھی دانین کے بارے میں سوچنے لگا اور خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔
"عجیب لڑکی تھی۔۔بدتمیزی میں اسکا کوئی ثانی نہیں۔۔مقابل کو دیکھے بغیر بے لگام گھوڑے کی طرح بولنا شروع کرتی ہے اور رکنے کا نام نہیں لیتی۔ڈرامے بازی میں اس سے آگے تو کوئی نا جا سکے۔۔سوچ سمجھ کر بولنا تو آتا نہیں ہے۔۔چلتا پھرتا ریڈیو تھی۔۔"ارہاب نے کہتے سر جھٹکا۔
"اففف۔۔۔یہ لڑکی۔۔خود بھی پاگل ہے مجھے بھی کر دے گی۔"اس نے غصے  میں زور سے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا جو زخمی ہوا مگر اسے کہاں پرواہ تھی۔وہ بس اپنے اندر کی فرسٹریشن نکال رہا تھا۔جب ہاتھ میں درد کا احساس ہوا تو ہاتھ پر خون کی بوندیں نظر آئیں۔
"What the hell..."
اسنے تولیا پھینکتے ہوئے کہا اپنے ہاتھ کی پٹی کرنے لگا۔اپنے ہاتھ کی پٹی کرتے ہوئے وہ پورا ارادہ کر چکا تھا کہ اب وہ اس لڑکی سے دور رہے گا۔
********************************************
وہ اسفند منان اور بدر کو ڈھونڈنے نکلا تھا جو دونوں نا جانے کہاں غائب تھے ۔ارہاب ان تینوں کا کینٹین میں انتظار کر رہا تھا۔اپنی چائے لیئے وہ ٹیبل پر آ کر بیٹھا ہئ تھا کہ اس نے کسی اور کو بھی بیٹھتے دیکھا ۔اس نے نظریں اٹھائیں تو سامنے اس کو پا کر آنکھوں میں بیزاریت اور ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔دانین اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ چکی تھی مگر پھر بھی اس نے مسکراتے ہوئے بات کا آغاز کرنا چاہا۔کینٹین میں اس وقت زیادہ سٹوڈنٹس موجود نہیں تھے۔دانین بات شروع کرنے کے لیئے الفاظ کا جوڑ توڑ کر رہی تھی اسکی انا جو آڑے آ رہی تھی اس چنگیز خان سے معافی مانگنے میں۔۔ ادھر ارہاب کی چائے اسکے انتظار میں تھی۔
اسکو اپنے سامنے بیٹھے دیکھ  کر ارہاب کا پارہ ہائی ہوا ۔وہ جتنا اس سے دور رہنا چاہتا تھا وہ ہر بار سامنے آ جاتی تھی۔
"میں وہ۔۔۔" دانین نے ہاتھوں کو آپس میں ملاتے بات کا آغاز کیا ہی تھا کہ ارہاب غصے میں اٹھا ۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔" اسکے جھٹکے سے اٹھنے سے ٹیبل پر پڑی چائے الٹی اور دانین کے ہاتھ پر جا گری ابھی اسے وہ کچھ اور بھی سناتا مگر یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ دونوں کو سمجھنے کا موقع نا ملا۔ دانین نے بدک کر ہاتھ پیچھے کیا۔اس کا پورا ہاتھ سرخ ہو چکا تھا اور نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے۔وہ لوگوں کے سامنے رونے والوں میں سے نہیں تھی۔
ارہاب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر وہ بےحس بنا رہا۔دانین نے تڑپ کر ارہاب کی طرف دیکھا تو وہ نظرین پھیر گیا۔سوری تک نا کہا۔
دانین اسکی بے حسی اور بداخلاقی پر اپنا سرخ ہاتھ لیئے اپنا بیگ اٹھائے چل دی۔مگر جاتے جاتے اسے ایک جملہ بول گئی تھی۔
"تم ایک بے حس اور خودپسند انسان ہو۔۔"
دانین کو پہلے ہی وہ پسند نہیں تھا اور اب تو اور بھی اس سے متنفر ہو چکی تھی۔
اسکو جاتے دیکھ کر ارہاب نے بھی زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا اور صبح کے زخم کو اور خراب کر چکا تھا۔دانین کا کہا جملہ اسے اضطراب میں مبتلا کر چکا تھا۔اچھا خاصا موڈ اسکا برباد ہو چکا تھا۔
دانین کلاسز لینے کے بجائے سیدھا گھر چلی گئی تھی اور جاتے جاتے ابیہا کو ایک ضروری کام کا کہہ کر گھر جانے کا میسج بھی کر دیا تھا۔
********************************************
یونیورسٹی میں آج آخری پیپر تھا۔اس دوران پورا ماحول بدلا ہوا تھا ۔کچھ سٹوڈنٹس کتابوں میں سر دیئے بیٹھے رٹے مارتے نظر آرہے تھے۔کچھ بے فکرے سٹوڈنٹس مٹرگشتی کرتے بے
  فکر قہقہے لگاتے نظر آرہے تھے تھے۔وہ چاروں لائبریری میں کتابوں میں سر دیئے بیٹھی تھیں۔اچانک ٹیبل پر نحل اور ابیہا کو چھپکلی نظر آئی تو دونوں کے منہ سے اکٹھے چیخ نکلی اور اپنی کرسیوں سے کھڑی ہو گئیں۔ سب سٹوڈنٹس اور لائبریرین نے بھی انہیں گھور کر دیکھا۔مگر دونوں کو کہاں پرواہ تھی انہیں تو بس چھپکلی نظر آرہی تھی۔
"آآآ۔۔۔اللہ  جی بچاؤ چھپکلی۔۔۔"دونوں کے منہ سے اکٹھے نکلا۔ دانین نے دیکھا تو دونوں کی بہادری کو سراہا اور چھپکلی اٹھا کر انکو لہراتے دیکھائی۔
"نقلی ہے جانم ۔۔۔ہوش میں آجاؤ۔۔" دانین اور ریحام دونوں انکی حالت سے محظوظ ہو رہی تھیں۔ نحل اور ابیہا نے دیکھا تو سب سے سوری کرتے ڈرتے ڈرتے اپنی جگہ پر آ بیٹھیں۔
"کس کی حرکت ہے یہ؟"ابیہا دبے لہجے میں غرائی ۔۔یہی تو اسکی کمزوری تھی اور نحل تو ان چیزوں سے ویسے ہی خوف کھاتی تھی۔
ابیہا کا کہنا تھا کہ شیطان نمودار ہو گیا اور آکر دانین کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
"ہائے گرلز۔۔۔کیسا لگا میرا مذاق؟"منان نے ہنستے ہوئے آنکھ ماری۔ جو حرکت کسی اور کو بری لگے نا لگے نحل کو بہت بری لگی تھی۔
"تمھارے جیسا بالکل بکواس۔۔"ابیہا نے سر جھٹکتے کتاب کی طرف دیکھتے کہا۔
"مطلب آگ تو لگی ہے۔۔" منان نے دانت نکالتے دانین کو کہنی مارتے کہا ۔اشارہ نحل اور ابیہا کے لال چہروں پر تھا جو غصے سے تمتما رہے تھے۔
"لگی ہو آگ تو اسکو بجھانا ہوتا ہے"
دانین نے صورتحال بھانپتے شعر پڑھا۔
"جلیں جو زخم تو مرہم لگانا ہوتا ہے"
اپنے پر بات آتے ابیہا نے دانین کے ہاتھ پر طنز کرتے شعر مکمل کیا۔
"آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے زمانہ لگتا ہے"
ریحام نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
"لگا کے آگ سینے میں چلے ہو تم کہاں
ابھی تو راکھ اڑنے دو تماشہ اور بھی ہو گا"
منان نے بھی کسی کو مخاطب کرتے شعر پڑھا۔
"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پر دوہری نقاب رکھتے ہیں"
نحل نے بھی منان کو جواب اسی کے انداز میں دیا تھا۔
"ارے یار ۔۔۔یہاں تو سارے شاعر بیٹھے ہیں۔۔ویسے بھی مجھے شاعری سے عشق ہے۔۔لیکن یہاں میں ایک بات کرنے آیا تھا۔۔" منان نے سیٹی بجاتے، ٹیبل بجا کر ان چاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
"کیا تم لوگوں کو پتا ہے کہ یونیورسٹی کا ٹرپ جا رہا ہے؟کہو تو تم لوگوں کو بھی ساتھ لے جانے کا انتظام کروا دوں۔۔ویسے بھی میرے لیئے کوئی کام مشکل نہیں۔۔"منان نے شوخی مارتے ہوئے کہا۔
"زیادہ شوخے نا بنو ۔۔۔ہمیں پتا ہے۔۔" ابیہا منان کو کہتی کتاب کی طرف متوجہ ہو گئی جبکہ نحل اور ریحام تو پہلے ہی کتاب میں گھس گئیں تھیں۔
"اور تمھاری مدد کی ضرورت نہیں ہمارا بیج بھی جا رہا ہے اس لیئے پتلی گلی سے نکلو۔۔پڑھنے دو ہمیں۔۔" دانین نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا اور اسے جانے کو کہا جس پر منان نے برا سا منہ بنایا ۔
"کتابی کیڑے۔۔۔گرلز تم لوگوں کو اسکا حساب ٹرپ پر دینا ہو گا۔ہونہہ۔۔" منان کی بڑبڑاہٹ سب نے سن لی تھی مگر پرواہ کسے تھی وہ بھی پڑھنے میں مصروف ہو گئیں۔
********************************************
Sorry guys episode thori late hugai but i hope k apko pasnd ai hugi epi apna Review sgare krna mat bhooliye ga👀
Insta idz
@its_hifsa_writes
@itx._sarah_writes_

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Nov 11, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

یار دیوانےWhere stories live. Discover now