Episode 4

151 12 11
                                    

"ہاں خوبصورت تو میں شروع سے تھا بلکہ ہوں کافی لوگ جیلس بھی ہوتے ہیں مگر مجھے کیا۔۔جلنے والوں کا کیا ہے ایک دن جل جل کے خود ہی خاک ہو جائیں گے۔۔"بدر اپنی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا جو اپنے کمرے کی جانب جاتے حمدانی صاحب نے بخوبی سنے تھے ۔۔وہ  کمرے میں جانے کے بجائے بدر کی طرف ہی آ گئے ۔
بدر جو لاؤنج میں صوفے سے ٹیک لگائے انسٹاگرام پر لائیو جا رہا تھا حمدانی صاحب کو آتے ہوئے نا دیکھ سکا کیونکہ اسکا رخ دوسری جانب تھا۔
"نہیں میں لڑکیوں پر فدا نہیں ہوتا لڑکیاں ہی مجھ پہ فلیٹ ہو جاتی ہیں۔۔" وہ کامنٹس پڑھتے ریپلائے کر رہا تھا اس بات سے انجان کے اس کے والد صاحب اس کی تمام گفتگو سن رہے ہیں۔
"اہممم۔۔۔"حمدانی صاحب نے اسے متوجہ کرنا چاہا مگر وہ اپنی دھن میں لگا رہا۔
"ارےے ہاں ۔۔میں نے سپورٹس کار کا کہہ دیا ہے ڈیڈ کو بس جلد ہی تیرے بھائی کے پاس ہو گی۔۔میری موم اسی عادت پر تو فدا ہوئیں تھیں ڈیڈ کی۔۔انکی سخاوت اور محبت ہائے صدقے۔۔۔بات میرے منہ سی نکلتی نہیں۔۔۔۔"وہ کچھ زیادہ ہی لمبی ہانک رہا تھا کہ اچانک سے کسی نے اسکا موبائل کھینچا اور اسکا ادھورا جملہ مکمل کیا۔
"کہ ڈیڈ کے ایکسپریشن دیکھ کر انکی بات وہیں منہ میں ہی پھس جاتی ہے۔۔یہ ملاحظہ کریں ناظرین ہمارے گریٹ ڈیڈ کے ایکسپریشنز۔۔"عائث نے دانت نکالتے کیمرے کا رخ حمدانی صاحب کی طرف کیا۔
بدر جو عائث کے موبائل چھیننے پر ہڑبڑایا تھا کہ حمدانی صاحب کو دیکھ کر کھسیانا ہنسا۔۔۔
"اللہ ایسی فرمانبردار اولاد کسی کو نا دے۔" حمدانی صاحب نے تاسف سے سر ہلایا۔
"وہ الگ بات ہے کہ اپنے زمانے میں ڈیڈ بھی کھلاڑی رہے ہونگے۔۔انہیں عملوں کے نتیجے میں ایسی فرمانبردار اولاد جو ملی ہے۔۔"بدر نے عائث سے موبائل چھینتے ہوئے کہا جس پر عائث کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔
"چلو پھر آج ہو جائے میچ ۔۔۔پتا لگ جائے گا کون کتنا بڑا کھلاڑی ہے۔۔"عائث نے کھڑے ہوتے ہوئے ان دونوں سے کہا۔۔
"چلو بھئی آ جاؤ میدان میں پھر۔۔"بدر بھی لائیو ختم کرتے فون بند کرتا اٹھا۔ حمدانی صاحب اور عائث نے بھی اسکی تقلید کی۔
"چلیں پھر آج دیکھ لیتے ہیں ۔۔کس میں کتنا ہے دم۔۔" عائث جو باسکٹ بال کا دیوانہ تھا فوراً سے تازہ دم ہو گیا۔
وہ تینوں باہر کی طرف چل دیئے جہاں عائث کی دیوانگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ حصہ باسکٹ بال کے لیئے مختص تھا ۔اس سے کچھ فاصلے پر ہی سوئمنگ پول تھا جہاں اس وقت پانی میں لان کی روشنیوں کا عکس نظر آ رہا تھا۔ سوئمنگ پول کے پاس ہی بیٹھنے کے لیئے صوفے رکھے گئے تھے۔
اس وقت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو ان سب کو سکو ن پہنچا رہی تھی۔
"اوکے ڈیڈ ۔۔پہلی ٹرائے آپ کی۔۔"عائث نے بال حمدانی صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے انہوں نے فوراً سے کیچ کیا تھا۔
"نائس۔۔" بدر نے انہیں سراہا۔
"بیٹا جی۔۔اپنے زمانے میں ہم بھی چیمپئین رہے ہیں۔۔ہلکا مت لینا اپنے باپ کو۔۔"حمدانی صاحب نے بال کو باسکٹ کی طرف اچھالتے کہا جو سیدھا باسکٹ میں سے ہو کر واپس ان کے ہاتھ میں تھا۔
"واؤ ڈیڈ ۔۔"عائث نے انکو مہارت سے بال اچھالتے اور کیچ کرتے دیکھا تو تعریف کی۔
"ابھی تم اپنے بھائی کو دیکھنا بنی۔۔"بدر نے فخر سے جتایا ۔۔عائث تو پہلے ہی باسکٹ بال چیمپیئن تھا ۔۔حمدانی صاحب بھی ماہر تھے تو وہ کیسے پیچھے رہتا۔
بدر نے بال اچھالا ۔۔سب کی نظریں بال پر تھیں جو کہ باسکٹ میں سے گزرنے کے بجائے سائیڈ سے لگ کر واپس آ گیا  جس کو دیکھتے حمدانی صاحب اور عائث دونوں ہنسنے لگے۔اور بدر نے برا منہ بنایا۔
"واہ بھائی کیا بات ہے۔۔آپ کو تو چیمپیئن ٹرافی ملنی چاہیئے۔۔" یہ کہتے عائث پھر سے ہنسا۔
"ہاں صحیح کہا۔۔جیت دلا کے آئے گا میرا بیٹا مقابل ٹیم کو۔۔"حمدانی صاحب نے بدر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔جبکہ انکے چہرے پر بھی شرارتی مسکراہٹ تھی اور عائث بھی مسکرا رہا تھا۔
"اچھا تو اسکا مطلب ہوا اصل کھلاڑی دا گریٹ عائث حمدانی ہی ہے ۔"بال کو بہت ٹیکنیک سے ہاتھوں میں کھلاتے اس نے بال ہوا میں اچھالا اور دونوں ہاتھوں سے اسکو باسکٹ کی جانب پھینکا جو کہ باسکٹ کے گرد چکر لگاتے لگاتے بالآخر باسکٹ سے نیچے آئی تھی جسے نیچے سے عائث نے سر سے ہٹ کیا جو دوبارہ باسکٹ سے ہوتے ہوئے اب اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔۔اسنے یہ سب اس مہارت سے کیا کہ بدر اور حمدانی صاحب کی آنکھوں میں اس کے لیئے ستائش اور داد تھی جسے وہ دیکھ چکا تھا۔اسنے سینے پر ہاتھ رکھتے داد وصول کی۔
"شکریہ لیڈیز اینڈ جینٹل مین۔۔" اس بات پر بدر اور حمدانی صاحب نے اسے گھورا ۔۔
"جینٹل مین تو میں ہوں تو کیا تم نے اپنے بھائی کو لیڈیز بولا؟"حمدانی صاحب نے اپنے چہرے پر امڈتی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا جس پر بدر کو صدمہ لگا۔
"بنی تو نے مجھے۔۔۔مجھے یہ بولا۔۔؟؟بدر نے اپنے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا۔آنکھوں میں واضح حیرانی تھی۔ویسے تو بدر معصوم نہیں تھا لیکن اس وقت وہ معصوم لگ رہا تھا۔
"بھائی یار۔۔
Slip of tongue۔۔۔"
عائث نے چہرے پر مسکینیت طاری کرتے بولا۔
"ایڈا تو معصوم۔۔تو رک جا پہلے تو تیری زبان پھسل رہی تھی اب تو پورا خود پھسلے گا۔۔"بدر نے عائث کی طرف قدم بڑھاتے دانت پیستے ہوئے بولا۔
بدر اسکی طرف قدم بڑھا رہا تھا اور عائث پیچھے کی جانب کہ اچانک عائث کا پاؤں گھاس پر سے  پھسلا اور وہ دھڑام سے سوئمنگ پول میں جا گرا۔
بدر اسکو دیکھتے ہنسا کیونکہ وہ دیکھ چکا تھا کہ اب وہاں سے ایک سٹیپ اوپر چڑھنا تھا اور اس جگہ تھوڑی پھسلن بھی تھی اسی لیئے وہ عائث کی طرف قدم  بڑھا رہا تھا۔ یہ سب دیکھتے حمدانی صاحب نے پیچھے سے آتے بدر کو بھی سوئمنگ پول میں دھکا دیا کیوں کے وہ اپنے ایک بیٹے کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھ رہ نا پائے تھے ۔بدر جو عائث پر کھڑا ہنس رہا تھا اب خود بھی اسی حالت میں تھا اور دونوں بھائی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہنس دیئے۔۔
حمدانی صاحب کے پیچھے کھڑی انکی زوجہ جو اسی وقت آئی تھیں جب انہوں نے بدر کو دھکا دیا تھا اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ نا انصافی ہوتے دیکھ ان کے اندر کی ممتا جاگی اور وہ جھٹ سے گئیں اور پانی کا پائپ لے آئیں ۔۔
بدر اور عائث اپنی مام کا ارادہ بھانپ گئے تھے اسی لیئے خاموش رہے۔۔حمدانی صاحب جو بدر اور عائث کی مشکوک ہنسی دیکھ چکے تھے۔۔آخر کرنل رہ چکے تھے۔۔وہ کچھ محسوس کرتے پیچھے مڑے مگر انہوں نے دیر کر دی اور جیسے ہی وہ پیچھے مڑے پانی کی تیز دھار نے انکو اوپر سے نیچے تک بھگو ڈالا۔
حمدانی صاحب تو حیران و پریشان تھے ۔۔بدر اور عائث نے تو اپنی ماں کے ہاتھوں باپ کی یہ حالت دیکھتے منہ پھاڑ قہقہے لگائے اور سعدیہ بیگم کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ تھی ۔۔
" آپ نے کیا سوچا حمدانی صاحب میرے بچوں کو بھگوئیں گے تو کیا آپ ایسے ہی سلامت رہیں گے۔۔"یہ کہتے سعدیہ بیگم نے قہقہہ لگایا اور بدر اور عائث نے بھی انکا ساتھ دیا جبکہ حمدانی صاحب نے اپنی زندگی کے اہم ترین لوگوں کے فضا میں گونجتے قہقہوں اور چہرے کی مسکان دیکھتے انکی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی۔
¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
" آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ہم. جس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں وہی ہمیں چھوڑ جاتا ہے کیوں... خدا تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے نا  ستر یعنی لاتعداد ماؤں سے زیادہ تو پھر جس سے ہم محبت کرتے ہیں جو ہمارے دل کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہ کیوں ان کو ہم سے دور کر دیتا ہے کیوں....."کمرے میں ہر. طرف اندھیرا تھا اور وہ بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پہ بیٹھا ڈائری میں کچھ لکھ رہا تھا ........تکلیف تھی کہ دن با دن حد سے  بڑھتی جا رہی تھی غم ہی کچھ ایسا تھا.... مگر پھر بھی اسنے خود ضبط کر رکھا تھا... یہ اسکا صبر اور ضبط ہی تو تھا جس کی وجہ سے آج بھی وہ دنیا کے سامنے ایک مضبوط انسان بنا کھڑا تھا.... اتنے سالوں میں ایک آنسو ہی تو تھے جو اس کے وفادار ٹھہرے تھے... آنسو ہی تو ہوتے ہیں جو ہمارے اندر اٹھنے والے طوفان اور دل اٹھنے والے درد کی شدت کو آنکھوں کے ذریعے کم کر دیتے ہیں....اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے لال ہو رہی تھی جو کہ صاف اس کے اندر کی تکلیف کا پتہ دے رہی تھیں.....اس نے سر بیڈ سے ٹکاتے آنکھیں میچیں.... درد تھا کہ دن با دن اندر ہی اندر مارتا جارہا تھا لیکن پھر بھی  اس نے کبھی کسی پہ ظاہر نہ ہونے دیا  تھا کہ ایک تکلیف ہے ایک درد ہے جو کے کسی زہر  کی مانند اسکے اندر پھیلتی جارہی ہے..... بتا بھی تو نہیں سکتا تھا کسی کو بھی کیوں کہ کبھی کبھی انسان کو اپنے لیے نہ سہی اپنے آپ سے محبت کرنے والوں کے لیے خوش رہنے کی ایکٹنگ کرنی پڑتی ہے ان کے لیے جو کہ آپکو خوش دیکھ کر خوش ہو جائیں انکے لیے خوش رہنے کا ناٹک کرنا پڑتا ہے ........ لیکن شاید وہ یہ بھول رہا تھا کہ لوگ ہماری زندگی میں آتے ہی جانے کے لئے ہیں ہم نہ تو جانے والے کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی اسکے لیے دنیا بھلا سکتے ہیں کسی کے جانے سے نا تو ہم مرتے ہیں اور نہ. ہی کائنات میں کسی چیز پہ کوئی اثر ہوتا ہے...... اللہ کے فیصلوں کے آگے نہ تو کسی کی چلی ہے اور نہ ہی کبھی چلے گی.... ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا رب کیسے اپنے بندے کو دکھی اور بےبس دیکھ سکتا ہے اللہ کی مدد ہم تک ضرور پہنچتی ہے دیر سے ہی سہی مگر اللہ اپنے بندے کو مایوس نہیں ہونے دیتا بندے کے مایوس ہونے سے پہلے ہی اللہ کی مدد اس تک پہنچ جاتی ہے.....
¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶  
"اففف۔۔۔تھک گئی میں۔" دانین صوفے پر گرتے ہوئے بولی۔ یونیورسٹی میں پڑھائی شروع ہو چکی تھی۔بس ہر وقت کلاسز،اسائنمنٹس،ٹیسٹ ۔۔کبھی کیا تو کبھی کیا۔۔۔ابھی وہ اسائنمنٹ سے فارغ ہو کر نیچے آئی تھی کیونکہ اسے عائشہ آپی کے آنے کی خبر ملی تو وہ جلدی سے کام ختم کر کے ان سے ملنے کے لیئے آ گئی۔۔
"کیا ہو گیا میری چندا؟؟ لگتا ہے کافی پڑھائی ہو رہی ہے۔۔" عائشہ نے پیار سے چائے کے سپ لیتے ہوئے دانین سے پوچھا۔
"بس عائش جانم کیا بتاؤں ۔۔آج کل ستارے زرا گردش میں ہیں۔۔ترس گئی ایک حسینہ آرام کے لیئے جس کا ایک زمانہ ہے دیوانہ۔۔"  وہ بھی دانین تھی۔۔بھرپور ڈرامہ بازی سے بولی۔
"اوہو۔۔۔تو چندا اتنا سٹریس تو نا لو۔۔اور دانین حسن نیازی کیا اتنے سے کام سے تھک جاتی ہے؟؟" وہ بھی اسکی ہی بہن تھی۔۔۔کیسے سمجھاتی اسے آسان الفاظ میں۔
یہ سنتے ہی دانین سیدھے ہو کر بیٹھ گئی۔۔اپنے نام کا بھرم بھی تو اسے رکھنا تھا۔یہ دیکھتے ہی عائشہ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔دانین بچپن سے ایسی تھی۔۔وہ کسی کے سامنے خود کو کمزور ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔
"اب اتنے بھی برے دن نہیں آئے ۔۔"دانین چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بولی ۔
"بس بنی بنائی چیزوں کو نگلنے میں شیر ہو تم۔۔۔یہ نہیں کہ کبھی غلطی سے کچن میں جھانک لو۔" عافیہ صاحبہ ملامتی نظروں سے دیکھتے ہوئے دانین سے بولیں جو عائشہ کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھے دونوں بہنوں کی گفتگو میں ایک سامع کا کردار ادا کر رہیں تھیں۔
"امی حضور۔۔اب تو آپ زیادتی کر رہی ہیں۔۔ابھی کل تو میں گئی تھی کچن میں چائے بنانے۔۔۔" دانین نے جھٹ سے اپنی صفائی دی۔
"ہاں اور ذرہ بہن کو یہ بھی بتانا کہ چائے بنانے کے بجائے مری ہوئی چھپکلی لے کر باہر نکلی تھی۔۔" عافیہ صاحبہ نے پوری بات عائشہ کو بتانی ضروری سمجھی۔ یہ سنتے ہی عائشہ ہنس پڑی۔۔روز کا قصہ تھا یہ تو ۔۔دانین جب بھی کچن میں جاتی کچھ پکانے کے بجائے مری ہوئی چھپکلی،کاکروچ ہی لے کر آتی۔۔۔ اور جب یہ سب نا ملتا تو میڈم خود کو کوئی نقصان پہنچا کے باہر آتی تھیں۔اس کے اندر نا جانے ایسا کیا تھا کہ ان چیزوں کو دیکھ کر اس کے اندر ایسا جنون سوار ہوتا تھا کہ پھر ان کو مار کر ہی دم لیتی تھی۔۔
"ارےے بھئی۔۔والدہ صاحبہ آپ کسی حال میں خوش نہیں۔۔پہلے یہ اعتراض تھا کہ کچن میں قدم نہیں رکھتی اب یہ شکوہ ہے کہ کچن سے بغیر کچھ پکائے نکل آتی ہوں۔۔آپ کے کچن کو کاکروچ سے اس بہادر نے ہی محفوظ رکھا ہے ورنہ آئے دن میرے ابا جان کا پیسہ آپ مورٹین خریدنے پر لگا رہی ہوتیں۔۔"دانین نے اپنی خدمات گنوائیں جیسے ان پر احسان کیا ہو۔
"میں آپکی زیادہ مشکور ہوتی اگر آپ پیسے بچانے کے بجائے کھانا بنانا سیکھ لیتیں۔۔"انہوں نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"امی یہ بابا کی لاڈلی نا صرف لوگوں کو تپانا اور ان کے دماغ پکانا  ہی سیکھ سکتی ہے ۔۔کھانا بنانا نہیں۔۔"عائشہ نے امی کو حقیقت بتائی جس پر دانین صوفے پر مزید چوڑی ہو کر بیٹھی۔
دانین کی نظر داخلی دروازے پر پڑی تو اسکی زبان کو کھجلی ہوئی۔۔
"ماں دا لاڈلا بگڑ گیا ۔۔"
دانین نے اپنی آواز کا جادو جگاتے دروازے سے اندر آتے اپنے بڑے بھائی پر طنز کیا جسے صرف ارشان ہی سمجھ سکا تھا۔
دانین کے گانے پر عائشہ اور عافیہ صاحبہ نے بھی دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے ارشان آ رہا تھا۔
وہ خوبصورت پرسنیلٹی کا مالک ، گندمی رنگت ، بڑی سیاہ آنکھوں سے ملتے کالے سیاہ بال جن کو جیل لگائے رکھتا تھا۔۔ایک شان سے چہرے پر مسکراہٹ سجائے چل رہا تھا۔۔وہ خوبصورت تھا لیکن اسکی مسکراہٹ اسکی شخصیت میں نکھار پیدا کر دیتی تھی۔
اسے دیکھتے وہاں موجود اس سے منسلک تینوں وجود نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری تھی۔
"آ گئے بیٹا۔۔کیسی رہی میٹنگ؟؟"اس کے بیٹھتے ہی عافیہ صاحبہ نے اس سے پوچھا۔
"ہاں بھائی بتائیں کیسی رہی آپکی خاص میٹنگ جس کے لیئے آپ اتنا سج دھج کے گئے تھے۔۔" دانین نے خاص پر زور دیتے ہوئے آنکھوں میں شرارت لیئے اپنے ہینڈسم بھائی سے پوچھا۔۔ہینڈسم ،چارمنگ۔۔یہ سب وہ اسکے پیٹھ پیچھے ہی کہتی تھی ۔۔ کیونکہ ان بھائیوں کی ذرہ تعریف کیا کر دو ہواؤں میں اڑنے لگ جاتے ہیں ۔۔
"بس یہ نہیں کہ بھائی باہر سے آیا ہے تھکا ہارا اسے پانی یا چائے کا پوچھ لوں۔۔آتے ہی سوال شروع۔" عافیہ صاحبہ نے پھر سے دانین پر طنز کیا۔
"بالکل۔۔بادشاہ سلامت کیا پیش کروں آپکی خدمت میں۔۔فرائے مینڈک لیں گے یا جلی  ہوئی چھپکلی۔۔۔یا آپ کہتے ہیں تو ساتھ میں کاکروچ کا جوس بنا دوں۔۔حکم کریں عالی جاہ۔۔کنیز حاضر ہے۔۔" دانین نے کمال کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا جس پر عائشہ اور ارشان سمیت عافیہ صاحبہ بھی ہنس دیں۔
"نہیں بس فریدہ بی سے کہہ کر کڑک چائے بنوا دو۔۔" ارشان ہنستے ہوئے بولا۔
"فریدہ بی۔۔ارشان حسن نیازی کے لیئے ایک جگ۔۔۔میرا مطلب ایک کپ کڑک سی چائے ۔۔۔اور ہاں چائے اتنی کڑک ہو کے موصوف کو جھٹکے تو ضرور لگیں بجلی کے تا کہ پیچھے سے میں بولوں ۔۔۔۔زور کا جھٹکا ہائے زوروں سے لگا۔۔ہائے لگا۔۔۔۔"دانین نے وہیں سے بیٹھے آواز لگائی۔اس کی بات پر فریدہ بی بھی باقی سب سمیت ہنس دیں ۔۔یہی تو تھی جو ہر جگہ رونق لگائے رکھتی تھی۔
"فریدہ بی زرا کم جھٹکے والی چائے دیجیئے گا ابھی تو کنوارہ ہوں میں۔۔شادی بھی ہونی ہے میری۔۔۔" ارشان نے پھر سے اپنی شادی کی دہائی دی۔
"بالکل غلط۔۔کنوارے نہیں آپ نکاح شدہ ہیں شان صاحب۔۔بھولیئے مت ورنہ ماہم ارشان نیازی نکو معلوم ہوا تو  اگلی منٹ ہی کال کر لینی ہے۔۔" دانین نے ارشان کی اصلاح کی اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس کو دیکھتی رہی جس کا مطلب صرف ارشان سمجھا تھا۔
اسی وقت ارشان کو ایک میسج موصول ہوا ۔اس نے کھول کر دیکھا تو گڑیا کی طرف سے میسج تھا۔
"معزز ارشان صاحب عرف شان بھائی میں نے آپ کے روم میں اپنا لیپ ٹاپ ڈراپ کر دیا ہے۔۔میں باہر جا رہی ہوں میرے آنے تک اسائنمنٹ بن جانی چاہیئے۔۔اور ہاں پیزا آرڈر کر دیجیئے گا یاد سے۔۔" دانین کا میسج پڑھتے وہ مسکرایا۔
دانین نے ارشان کے کہنے پر ماہم کو نکاح کے بعد پہلی دفعہ  اس سے ملنے کے لیئے راضی کیا تھا جس کے بدلے میں ارشان نے دانین کو اسائنمنٹ بنا کر دینے اور پیزا کھلانے کا وعدہ کیا تھا۔
"اچھا عائش جانم میں زرا شیری کے ساتھ واک پر جا رہی ہوں۔۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔" دانین عائشہ سے ملتی شہریار کی طرف بڑھی جو باہر گارڈن میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لے رہا تھا۔
"آجاؤ شیری۔۔۔چلیں۔۔"دانین نے اسکو گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر بلایا اور دونوں گھر کے ساتھ چند منٹ کی واک پر موجود پارک کی طرف چل دیئے ۔
یہ تھی حسن صاحب اور عافیہ صاحبہ کی ہیپی فیملی۔ارشان سب سے بڑا بیٹا تھا جس کا کچھ ہفتے پہلے ہی نکاح ہوا تھا اور ایک ماہ بعد شادی تھی۔اس کے بعد عائشہ تھی جس کی چند سال پہلے شادی ہوئی تھی اور دو جڑواں بیٹیوں کی ماں تھی۔اس کے بعد نمبر آتا ہے ہماری جانی پہچانی دانین حسن نیازی کا۔۔۔اور سب سے چھوٹا شہریار حسن نیازی جس میں دانین کی جان بستی تھی۔
¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
وہ سبز گھاس پر قدم قدم چلتی یونیورسٹی کہ خاموش گوشے کی طرف چل پڑی تھی۔دانین اور نحل کی کلاس تھی اور ابیہا کو ایڈمن میں کچھ کام تھا۔۔بچی وہ تو بور ہونے کے بجائے ریحام نے یونیورسٹی ایکسپلور کرنے کا سوچا۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ آنکھوں میں دلچسپی لیئے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے ،جامنی رنگ کی لانگ شرٹ اور ٹراؤزر پر حجاب لیئے معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی۔
چلتے چلتے وہ ٹھٹکی کیونکہ سامنے کچھ یونیورسٹی کے اوباش لڑکے کچھ مشکوک حرکتیں کر رہے تھے۔اس کے پیروں کو بریک لگی۔دل نے کچھ غلط ہونے کا سگنل دیا تھا ۔وہ لڑکے بھی اسے دیکھ چکے تھے اور کچھ ڈر بھی گئے تھے وہ ریحام کو دیکھ کر۔ ان میں سے ایک لڑکا آگے چلتا آیا اور ریحام کا بازو پکڑ کر کرخت آمیز لہجے میں پوچھا،
"لڑکی۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
ریحام نے اسکا ہاتھ دیکھا جس سے اس نا اسکا بازو پکڑ رکھا تھا۔اتنے میں باقی لڑکے بھی وہاں آگئے تھے۔
"ہاتھ چھوڑیں میرا پلیز۔۔"ریحام نے تحمل سے کہا۔
"ہاہاہاہا۔۔یہ تو معصوم چڑیا ہے۔۔سات پردوں میں چھپی۔۔ایسا کیا ہے جان جو یوں چھپائے رکھا ہے خود کو۔۔" ایک لڑکے نےآگے آتے اس کے حجاب پر طنز کرتے کہا۔اسکی بات پر ریحام نے ان سب کی جانب دیکھا جو کہ کل چار لڑکے تھے ۔اس نے گہرا سانس لیا۔اس لڑکے کی بات کا مطلب وہ بخوبی سمجھ چکی تھی۔
"اپنے وجود پر تمھارا یہ گندہ ہاتھ تو نا چاہتے ہوئے بھی برداشت کر لیا تھا مگر اپنےحجاب پر تمھاری گندی زبان سے نکلے گندے الفاظ برداشت نہیں کروں گی۔۔اور اپنی طرف بڑھتے ہر ہاتھ کو توڑنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔۔اس لیئے اپنی نظروں اور ہاتھوں کو حدود میں رکھنا اب۔"ریحام نے دور ہوتے سرد لہجے میں کہا۔
اسکی بات پر چند لمحے تو وہ لڑکے واقعی حیران تھے۔انکی اس حرکت پر وہ ڈری نہیں تھی بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکو انکی اوقات بتا دی تھی مگر وہ دوبارہ آگے بڑھے اور اب وہ ان سب کے درمیان میں تھی مگر اب بھی اسکے چہرے پر اطمینان تھا ۔۔ڈر یا خوف کا نام و نشان تک نا تھا۔
ان میں سے ایک نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا مگر اس سے پہلے کہ ریحام کچھ کرتی کسی نا اسکی طرف بڑھتے ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ سے روک لیا تھا۔
ریحام نے نظریں اٹھائیں تو سامنے اسفند کو پایا۔
"ہاتھ مت لگانا۔۔"اسفند نے اس لڑکے کے ہاتھ کو مروڑتے اسے ایک مکا مارتے زمین بوس کیا۔
اس سے پہلے وہ دوسرے کی طرف بڑھتا جو یقیناً اب اپنے ساتھی کا بدلہ ہی لینے والا تھا ریحام آگے آئی اور آنے والے کو ایک زوردار ٹانگ ماری جس سے وہ لڑکھڑایا مگر اگلے ہی پل ریحام نے اسکو سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر اسکی ناک پر مکا مارا اور ساتھ ہی ایک اور ٹانگ ماری جس سے وہ بھی سائیڈلائن لگا۔
اتنے میں اسفند نے تیسرے لڑکے کو بھی پہلے والے جیسی حالت میں کر دیا تھا۔ آخری کی طرف ریحام نے قدم بڑھایا اور اسے پہلے ایک تھپڑ سے نوازا اور پھر ایک زوردار ٹانگ اسکی گردن پر ماری جس سے وہ گرا اور اس کے گرتے ہی ریحام نے اسے ایک اپنی چھوٹی سی ہیل کی چھاپ بھی اسکے ہاتھ پر چھوڑی جس پر وہ چیختا رہ گیا۔
"یہ سب صرف اس لیئے تھا کہ ایک عورت کو کبھی کمزور مت سمجھنا۔۔خود کو اتنا مت گراؤ کہ کل کو اپنی عزتوں کی طرف بڑھتے ہاتھوں کو روکنے کی ہمت نا کر سکو۔۔۔اگر ایک عورت تمھارے لیئے قابلِ احترام نہیں تو سوال تمھاری مردانگی پر اٹھتا ہے کہ جو صنف تمھیں اس دنیا میں لائے اسی کو تم سے خطرہ ہو تو تف ہے تمھارے مرد ہونے پر۔۔" ریحام نے ان سب کو مخاطب کرتے سنجیدہ مگر بااعتماد لہجے میں کہا۔
"اور ہاں۔۔آج گھر جا کر خود سے منسلک عورتوں سے پوچھنا ضرور کہ تم پر کتنے جملے کسے گئے،کتنی غلیظ نظریں تمھاری جانب اٹھیں، کتنوں نے تمھارا راستہ روکا کیونکہ دوسروں کی عزتوں کو پامال کرنے والوں کی اپنی عزتیں بھی محفوظ نہیں رہتی۔۔" یہ کہتی وہ پلٹ گئی  اور اسفند نے مسکرا کر اسکی پشت کو دیکھا ۔اسکے دل کو بھلی لگی تھی اسکی بداعتمادی ۔وہ بھی اسکے پیچھی ہی چل دیا۔
"ریحام  بھی ذرہ آگے چل کر رکی اور اسفند کی جانب دیکھا جو اسکے پیچھے ہی آ رہا تھا۔
"شکریہ آپ کا۔۔۔"ریحام نے تشکر سے کہا۔
"میرا فرض تھا مگر آپکی جرأت نے حیران کر دیا۔۔"اسند اسکی بہادری کو سراہتے ہوئے کہا اور اسکے ساتھ چلنے لگا۔
"آپ مردوں نے شاید عورتوں کا تصور ہی ایک کمزور سا سہما ہوا وجود کیا ہے جوسب کچھ سہہ جائے مگر ایک عورت کی بات جب عزت پر آئے نا تو ہمت آسمان سے آتی ہے ۔۔ہو گا مرد کا درجہ اوپر مگر عزت کا حقدار صرف مرد نہیں ہے ۔۔۔عزت دونوں کی ہے جس کا خیال رکھنا سب پر عائد ہوتا ہے۔۔آج کا معاشرہ ایسا ہے کہ اپنی حفاظت اب اپنی ذمہداری ہے اس لیئے مجھے اپنا دفاع کرنا آتا ہے۔۔مگر آپ الگ ہیں کیونکہ آپکی نظروں میں عورت قابلِ عزت ہے۔۔"ریحام مے ہلکا سا مسکراتے جواب دیا۔
"بالکل میرے لیئے صرف گھر کی عورت ہی نہیں ہی ہر  عورت عزت کے قابل ہے کیونکہ مرد اور عورت دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔۔مگر آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ میں الگ ہوں جبکہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔"اسفند نے دھیمے لہجے میں استفسار کیا۔
"ضروری نہیں کہ کسی کو پہچاننے کے لیئے زندگی ساتھ گزاری جائے ایک لمحہ ،ایک عمل بھی کافی ہوتا ہے۔۔" ریحام نے چلتے چلتے جواب دیا جسے سن کر اسفند کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔
"چلیں میں چلتی ہوں ایک بار پھر شکریہ۔۔"ریحام نے الوداعی مسکراہٹ سجائے اسکی طرف دیکھتے کہا۔ جس کے بدلے میں اسفند نے بھی مسکرا کر اسے الوداع کہا۔
وہ چل دی اور اسفند کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔
¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
Readers kesa laga surprise 😂😂😂or wo kon tha jo band kamrey me pary apny rony ro raha tha zra yh ba batana comments me😂😂chlein ab hum chlty duaom me yad rkhna or agli epi tak sochty rhna k wo kon tha kia pata agli epj me. Bata dia jaye😂😂😂

یار دیوانےWhere stories live. Discover now