احمد کے آتے ہی سب نے کھڑے ہوکر سلیوٹ کیا جس کے جواب میں اس نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا سب کے بیٹھنے کے بعد احمد نے سب پر ایک نظر ڈالی حیا اور پریشے کو نہ پا کر احمد نے حمزہ کو مخاطب کیا حمزہ پریشے اور حیا میڈم اب تک کیوں نہیں آئی سر وہ ابھی یہ کہا تھا کہ اتنے میں دروازہ لاک کر کے حیا اور پریشہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو احمد نے دونوں کو غصے سے اندر آنے کی اجازت دی دونوں نے احمد کو سلیوٹ کر کے بیٹھنے لگی تو احمد نے دونوں سے لیٹ آنے کی وجہ دریافت کی آپ دونوں بتانا پسند کریں گی کہ آپ لیٹ کیوں آئے ہیں پورے 15 منٹ لیٹ ہیں پریشے حیا کو دل میں گالیاں دیتی رہی اور شرمندگی سے سر نیچے جھکا لیا تو حیا نے کہا سوری سر وہ میری آنکھ دیر سے کھلی تھی جس کی وجہ سے پریشے اور مجھے دیر ہوگئی حیات جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے پریشے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے جس کی وجہ سے اس نے ساری بات سچ سچ بتا دی اسی وجہ سے احمد نے دونوں کو آئندہ لیٹ نہ آنے کی وارننگ دیکھ کر بیٹھنے کو کہا جس پر دونوں نے شکر ادا کر کے اپنی اپنی سیٹ سنبھال لیں احمد سب سے مخاطب ہوا آپ سب یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں آپ کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں سب نے آواز بلند کی اور کہا یس سر تو پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ایک چھوٹی سی غلطی ہمہیں بڑے نقصان سے دوچار کر سکتی ہے احمد کی بات سن کر حیانے شرمندگی سے سر نیچے جھکا یا جس پر احمد نے اس سے مخاطب کر کے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ آپ کو احساس ہو کہ ہمارا وقت کتنا قیمتی ہے مجھے یقین ہے کہ آپ آئندہ اپنے وقت کی قدر کریں گی مجھے یقین ہے کیا آپ کو میری بات سمجھ آگئی ہوگی جس کے جواب میں حیا نے کہا یس سر پھر احمد سب سے مخاطب ہوا میں نے آپ سب کو یہاں اس لئے بلایا ہے کہ ہماری ٹیم میں ایک نیو ممبر کا اضافہ ہونے والا ہے حمزہ نے سر احمد کو مخاطب کیا سر آنے والا ممبر لڑکی ہے یا لڑکا ہے جس پر احمد نے کہا ہاں جب وہ آئیں گا تو آپ خود دیکھ لیجئے گا پھر عمر نے احمد سے پوچھا نظر آنے والا سینئر ہے ہمارا یا جونیئر جس کے جواب میں احمد نے کہا وہ آپ سب کا سینئر ہوگا حیا نے سر احمد کی بات سنتے ہیں پریشر کو سرگوشی میں کہا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم کب کسی کے سینئر بنیں گے یہاں تو سب ہمارے سینئر ہیں اور ہم اب تک ان کے جونیئر ہیں پتا نہیں ہمیں کب سینئر ہونے کے اعزاز سے نوازا جائے گا احمد نے سب کو کہا آپ سب اب اپنے کام پر جا سکتے ہیں جس کے بعد سب میٹنگ روم سے نکل گئے🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍 احد اندر گھر جیسے ہی داخل ہوا تو امی کی آواز پر پر سیدھا ان کے پاس چلا گیا اور کہا اسلام علیکم امی جان جس کے جواب میں میں انہوں نے کہا وعلیکم اسلام میری جان کرسی پر بیٹھتے ہوئے احد نے نے امی سے کہا آپ پریشان کیوں لگ رہی ہیں کوئی بات ہوئی ہے کیا آج پھر جس پر انہوں نے کہا ہاں آپ کو تو پتہ ہے ہے کہ آپ کی دادی کی مہر سے نہیں بنتی جس کی وجہ سے وہ مہر کو کچھ نہ کچھ برا بھلا کہتی رہتی ہیں جس پر احد نے ماں سے کہا کیا دادی نے نے مہر آپی سے آج کچھ پھر کہا یہی تو بات ہے بیٹا کے تمہاری دادی بات نہیں کرتی بلکہ دل پر تیر چلاتی ہیں جس کی وجہ سے سے میری معصوم مہر پریشان ہو جاتی ہے اور آج تو تمہاری دادی نے حد کر دی انہوں نے مہر سے کہا اگر میرے بس میں ہوتا تو میں تمہیں ادھر نہ رہنے دیتی وہ تو صرف تمہارے ابو کی وجہ سے چپ ہیں ورنہ وہ مہر کو گھر سے باہر نکال دیتی ماں کی بات سنتے ہی اس نے غصے میں کہا امی دادی کو آپی سے مسئلہ کیا ہے جو وہ ہر وقت آپی سے لڑنے کا کا موقع ڈھونڈتی ہیں مجھے تو لگتا ہی نہیں کہ وہ مہر آپی سگی دادی ہیں بالکل ٹھیک کہا آپ نے بھائی ایمن جو چائے لے کر آ رہی تھی اس نے کہا میں بھی اکثر یہی سوچتی ہوں ہو کہ دادی آپی کی دادی ہیں بھی یا نہیں اور ٹیبل پر پر چائے کی ٹرے رکھ دیں اور ایک کپ اٹھا کر ماں کو دیا اور خود کرسی پر بیٹھ گئی اولاد کی بات پر ماں نے دونوں کو کہا آہستہ بولو اگر تمہاری دادی نے نے یہ باتیں سن لی تو گھر میں قیامت برپا ہو جائے گی ماں کی بات پر بیٹے نے کہا امی میں آپ کو بتا رہا ہوں اگر اب دادی نے مہر آپی کو کچھ کہا ہاں تو میں لحاظ نہیں کرو گا جس پر انہوں نے کہا میں آج تمہارے ابو سے بات کروں گی کہ وہ وہ اماں جی کو سمجھائے تم کچھ بھی نہ بولنا تمہارے ابو کو اچھا نہیں لگے گا........................................🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯🗯 زینب کافی کے دو کپ لے کر آئیں جس میں سے ایک کپ مہر کی طرف بڑھایا یا جس کو لیتے ہوئے ہوئے مہر نے زینب کو کہا شکر ہے تم کافی لے آئی ورنہ تو مجھے تو لگ رہا تھا کہ آج کافی نہیں ملنے والی جس پر زینب نے کہا اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے وہ تو اس لیے لیٹ ہو گئی تھی کہ میں نے سوچا کہ آج میں تمہیں اپنے ہاتھ کی کافی بنا کر پلاؤ کیونکہ تمہیں میرے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پسند ہے اس طرح تمہارا موڈ بھی ابھی ٹھیک ہو جائے گا اس کے جواب پر مہر نے ہنستے ہوئے کہا ہاں شکریہ میڈم مجھ غریب کا اتنا خیال رکھنے پر زینب نے کہا ویلکم اور پھر سے پوچھا اب آپ مجھے بتانا پسند کریں گے کہ آپ کہاں تھی جس پر مہر نے کہا یار تمہیں تو پتہ ہے کہ میری خواہش تھی کہ میں خفیہ ایجنسی انٹر سروس انٹیلی جنسی میں شامل ہو جاؤ اس کے لیے مجھے کچھ مزید ٹیسٹ اور ٹریننگ کلیئر کرنے تھے جو میں نے اللہ کے کرم کر لیے ہیں ہیں اسی وجہ سے میں میں نہیں آ سکی کے تم تو جانتی ہو ہو کہ کہ میرے آرمی جوائن کرنے کے بارے میں صرف تم ماموں اور تایا جان کو پتا ہے باقی کسی کو نہیں پتا مہر کی بات سنتے ہی زینب نے کہا یعنی اب تم تم اپنے دوستوں کی طرح اس فیلڈ میں شامل ہوگئی ہو اب تو تم حیدر سے بھی بھی مل لو گی جو دو سال سے گم ہے زینب کی بات سننے کے بعد مہر نے کہا یہ فیلڈ میں نے نے اپنے ملک کی خدمت کرنے کے لئے جوائن کی ہیں نہ کہ حیدر کو ڈھونڈنے کے لئے جس پر زینب نے کہا یار سوری میرا وہ مطلب نہیں تھا شرمندہ ہوتے ہوئے زینب نے سر جھکا لیا زینب کو اس طرح سر جھکائے ہوئے دیکھ کر مہر نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا مجھے پتا ہے تمہاری نیت خراب نہیں تھی اس لیے تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بے شک میری اور حیدر کی منگنی ہوئی ہے اور میں انتظار کر رہی ہوں لیکن مجھے خوشی ہے کہ وہ اپنے ملک کی کی خدمت کر رہا ہے اب تو میں بھی اللہ کے فضل سے اپنے ملک کی کی خدمت کروں گی تم میرے لیے دعا کرنا کہ اللہ مجھے کامیاب کرے مہر کی بات پر زینب نے آمین کہا اور گلے لگ گئی
❤❤❤🧡🧡🧡❤❤❤❤🧡🧡🧡🧡🧡❤❤❤❤ جاری ہے
KAMU SEDANG MEMBACA
انتظار محبت Writer By Usman Shah
Romansaیہ میرا پہلا ناول ہے مجھے یقین ہے آپ سب کو پسند آئے گا