قسط 22 حورِ نو

501 45 13
                                    

                            ★ ★ ★
عائشے نیمل کے بے حد اصرار پہ اسے رومائزہ سے ملوانے لے آئی تھی۔اور انوش کی تو چونکہ رشتہ داری نکل آئی تھی اس کا دھڑلے سے آنا بلکل عام ہوگیا تھا۔اور جب سے بتول نے اسے کہا تھا وہ انکی بیٹیوں جیسی ہے وہ ساتویں آسمان پہ اڑ رہی تھی۔اس بات میں شبہ نہیں تھا اسکے آنے سے اس گھر کے غمگین ماحول میں غم کے بدل چھنٹ سے جاتے تھے،ہر طرف اسکے کھلکھلانے کی گونج سنائی دیتی تھی۔
"جیسا سنا تھا آپ تو اس سے زیادہ خوبصورت ہیں۔"
نیمل نے رومائزہ کے دمکتے چہرے کو دیکھ کر تعریفوں کے پل باندھتے کہا۔رومائزہ لب ملا کر مسکرائی۔انوش نے تیور نچائے تھے۔
"محترمہ یہ تم سے عمر میں چھوٹی ہے۔"انوش نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گوش گزار کیا۔
"واٹ ایور انھیں تم بولنے پہ دل آمادہ نہیں ہورہا۔"وہ دوبدو محویت سے بولی۔
"انوش جاؤ تم کافی بنادو،اس دن بھی بہت مزے کی کافی تم نے پلائی تھی۔"عائشے نے اسے صوفے سے اٹھا کر کہا اور خود اسکی جگہ پہ بیٹھ گئی۔
"زیادہ فری مت ہو،کافی میکر سمجھ لیا ہے تم نے جب دیکھو کافی چاہیے۔رومائزہ چائے پیتی ہے یہ نیمل بھی چائے کی شوقین ہے۔مجھے کافی کی کوئی طلب نہیں....تو بتاؤ کافی کس کے لیے بناؤں!"ایک ہاتھ کمر پہ رکھے دوسرا ہوا میں نچا نچا کر اس نے بگڑے تیور سے کہا۔عائشے اسکے  یوں کہنے پہ ششدر آنکھیں چڑھا کہ رہ گئی۔اور دانت پیسنے لگی۔
"اچھا بہن تم بیٹھ جاؤ،میں بنادیتی ہوں عائشے کے لیے کافی...اور سفیر بھائی بھی آنے والے ہونگے انکے لیے بھی بنانی تھی۔اور باقیوں کے لیے گرما گرم چائے بنا کر لاتی ہوں۔"رومائزہ نارمل انداز میں کہتی سر جھٹک کے کھڑی ہوگئی۔وہ روز مرہ کی زندگی میں اب لوٹ رہی تھی۔سفیر کا سن کے انوش کے کان کھڑے ہوئے۔
"سفیر آنے والے ہیں؟"
رومائزہ اسکی بات کا جواب شانے اچکا کر دے گئی۔نیمل نے ہونٹ گول کرکے رخ انوش کی طرف پھیرا۔عائشے رومائزہ کے پیچھے ہی مدد کے لیے اٹھ گئی تھی۔اب تو اسے بھی اچھی چائے بنانا آگئی تھی۔اور رومائزہ کو آج اپنے ہاتھ کی چائے پلانے کا اسکا ارادہ تھا۔
"اہمم،مس انوش مسٹر سفیر کو سب سفیر 'بھائی' بولتے ہیں تو تم کیوں نہیں بولتیں؟"اسکی ذو معنی بات کا مطلب اخذ کرکے انوش نے ایک بھنوو چڑھائی۔
"کیونکہ مجھے بلاوجہ کے رشتے نہیں بنانے۔"اس نے آنکھیں پٹا پٹا کر کہا،نیمل نے بس اسے گھورنے پہ ہی اکتفاء کیا۔
عائشے اور رومائزہ کافی بنا کر لے آئیں۔سفیر آدھے گھنٹے تک نہیں آیا تھا رومائزہ نے اسکی کافی کچن میں ہی چھوڑ دی۔غضنفر صاحب آفس سے آئے تھے سفیر باہر لان میں ایمرجنسی کال اٹینڈ کرنے کے لیے رکا تھا۔ان بچیوں کو دیکھ کر وہ ان سے سلام دعا کے لیے رک گئے۔رومائزہ کچن میں پانی لینے گئی واپس آئی تو بتول تائی بھی موجود تھیں۔انوش کو اب کوفت سی ہونے لگی وہ موبائل میں گھس گئی۔   
     اچانک ہی کسی مردانہ خوبصورت آواز میں سلام اسکے کان کے پردوں سے ٹکرایا اس نے سر اٹھایا بے ساختہ نظریں سفیر کی نظروں سے جا ملیں۔سفیر نے مسکرا کر نظریں پھیر لیں آفس بیگ ٹیبل پہ رکھ دیا۔اور غضنفر شنواری کے برابر میں ٹک گیا۔
"انکل آنٹی آپ لوگ بھی سوچتے ہونگے ہم لوگ آئے دن منہ اٹھا کر آجاتے ہیں۔"انوش کی زبان میں کھجلی ہوئی۔عائشے جگہ پہ خجل سی ہوگئی اس نے بے بس ہوکر رومائزہ کو دیکھا۔جسکی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
"ایسی کوئی بات نہیں آپ لوگ آجاتی ہو تو رونق ہوجاتی ہے۔ورنہ میں اور رومائزہ ہی اکیلے اس گھر میں پھرتے رہتے ہیں۔"
"رومائزہ کا ورک کمپلینٹ نہیں ہے اور نوٹس بھی اسکے پاس نہیں،اسی لیے بس ہم نوٹس میں ہیلپ کروانے کے لیے آجاتے ہیں۔ایگزامز میں اب بہت کم وقت بچا ہے نا۔"
عائشے نے بات سنبھالتے ہوئے گھور کے انوش کو دیکھا تھا جو ڈھٹائی سے مسکرا رہی تھی۔اس نے اتراتے ہوئے مگ لبوں سے لگانا چاہا تھا کہ کپ میں بچی ٹھنڈی کافی اسکے کپڑوں پر گر گئی۔
"شٹ یار۔میں واش کرکے آتی ہوں،نیا سوٹ ہے کہیں داغ رہ نہ جائے۔"سب انوش کی طرف متوجہ ہوئے جسکے چہرے کے زاویے بگڑ گئے تھے۔عائشے کو آنکھوں سے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتی وہ لاؤنچ سے نکل کر رومائزہ کے روم میں گئی تھی۔نیمل خود بھی اٹھ کے انکے پیچھے چل دی۔
     "تایا ابو آپ نے صبح کہا تھا کہ آپکو کوئی ضروری بات کرنی ہے۔بتائیں کیا بات ہے؟"
رومائزہ نے کپ ٹیبل سے اٹھا کر ٹرے میں رکھتے ہوئے پوچھا۔وہ گھٹنے زمین پہ ٹکائے ہوئے تھی پھر اٹھ کے سامنے صوفے پہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔سفیر نے نظروں میں غضنفر کو ہاں کرتے کچھ کہا۔
"بیٹا میری بات کو دھیان سے سننا۔آپ ہماری بیٹی جیسی نہیں بلکہ بیٹی ہی ہیں۔میرے بھائی کی امانت ہیں،آپ لڑکی ذات ہیں ایک دن پرائے گھر میں جانا ہوگا۔پر میں ایسا نہیں چاہتا اپنے گھر کی رونق کو گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں نہ ہی اپنے بھائی کی جان کو خود سے دور کر سکتا ہوں۔میری خواہش ہے کہ سفیر اور آپکا رشتہ ہوجائے۔"
وہ بول رہے تھے۔رومائزہ جگہ پہ سکتہ گئی۔پلکوں کی لرزش تک جم گئی۔وجود میں کرنٹ سا گزرا۔
   عائشے انوش کا دامن نچوڑنے کے بعد واش روم سے نکلی۔
"آئے اتنا برا لگ رہا ہے یہ،اب کیسے سب کے سامنے جاؤں۔چلو بس گھر چلتے ہیں۔"انوش اپنی شرٹ سے جھنجھلاتی ہوئی بولی۔
"ہاں بھابھی گھر چلتے ہیں اب رومائزہ کے گھر والے بھی سب آگئے ہیں اچھا نہیں لگ رہا۔"
نیمل جو بیڈ کے کنارے ٹکی ہوئی تھی کھڑے ہوکر بولی۔عائشے نے سر ہلایا۔
"نوٹس یہیں چھوڑ جاتی ہوں رومائزہ خود دیکھ لے گی بعد میں۔"سر کا دوپٹہ درست کرتے وہ کمرے سے نکل گئی۔پیچھے ہی انوش اور نیمل تھیں جو باتوں میں محو چلی چلے آرہی تھیں۔
عائشے کو لاؤنچ کے دروازے کے پاس رکے دیکھا تو دونوں ماتھا سکیڑ کے پاس آگئی۔وہ فیملی ڈسکشن سن کے رک گئی تھی ایسے بیچ میں جانا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔انوش اسکے برابر آن کھڑی ہوئی۔عائشے نے آنکھوں سے اسے اشارہ کیا۔اندر غضنفر کی بات جاری تھی۔
"میری خواہش ہے کہ سفیر اور آپکا رشتہ ہوجائے۔"
غضنفر کی بات سن کر انوش کے پیر پتھر ہوگئے۔اسکی آنکھوں کے گرد تارے سے گھومنے لگے بمشکل اس نے خود کو قابو کیا۔
سفیر نے رومائزہ کو دیکھا جسکا چہرہ سفید پڑگیا تھا۔
اس دن رومائزہ کے بے ہوش ہونے کے بعد اسکے دل میں اسے لے کر خوف بیٹھ گیا تھا۔کئی طرح کے وسوسے پلنے لگے۔وہ اسے اپنے قریب تر رکھنا چاہتا تھا۔اسکی جھولی کو دنیا کی ہر خوشی سے بھر دینا چاہتا تھا۔
اسی لیے اس نے اسے آفس کی بھی اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی بلکہ اسے راضی کیا تھا۔
"تایا ابو آا آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میں آپکی ہر بات کا احترام کرتی ہوں پر یہ نہیں مان سکتی۔سفیر بھائی کی اپنی زندگی ہے میں ان پہ مصلت نہیں ہونا چاہتی۔"اس نے سرے سے انکار کیا۔
"یہ میری ہی خواہش ہے۔میں تمھارا سہارا بننا چاہتا ہوں۔"اب کی بار وہ بول اٹھا۔اسکی بات انوش کی سماعتوں سے جوں ہی گزری...اس نے بے ساختہ مٹھی بھینچ لی۔
"میں یہ نہیں کہتا فوراً نکاح کرلو۔ابھی فلحال تم ایگزامز دو اسکے بعد ہم سادگی سے نکاح کرلیں گے۔تم آگے بڑھنا چاہتی ہو بزنس میں قدم جمانا چاہتی ہو۔..."وہ اسکی باتوں کا مطلب اچھے سے سمجھ رہی تھی۔
"سفیر بھائی میں اپنی ضرورت کے لیے آپکا استعمال نہیں کرسکتی۔میں اپنے قدموں پہ خود کھڑے ہونا چاہتی ہوں۔"
"بیٹا شادی کے بعد عورت اور مضبوط ہوجاتی ہے۔"
"تائی امی آپ لوگوں نے مجھے ویسے ہی بہت ہمت دے دی ہے۔اور سوری میں یہ رشتہ بلکل ایکسیپٹ نہیں کرسکتی سفیر بھائی میرے بھائی جیسے ہیں۔"اس نے تلخی سے کہا تو سب ہی جذبذب سے ہوگئے۔اس نے تو بات ختم کردی تھی۔
"پر ہے تو نہیں۔"بتول نے فوراً ہی کہا اسکا سر جھک گیا۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس صورتحال سے بھی اسے گزرنا پڑے گا۔
سفیر سے وہ بہت فرینک تھی پر کبھی ایسا سوچا نہیں تھا۔
"فوراً فیصلہ مت کرو،کچھ وقت لو اچھے سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔میں امید کرونگا میری بیٹی میری بات کا مان رکھے گی۔"
اس نے منمنا کر غضنفر کو دیکھا وہ اٹھ کے کمرے میں چلے گئے۔اسکے دل بوجھ تلے دب گیا۔    
        عائشے سن کر خوش ہوئی تھی،اسے سفیر رومائزہ کے لیے ہر طرح سے پرفیکٹ لگا تھا۔اس نے چہرہ ہلکا سا پھیرا انوش سکتے میں کھڑی تھی۔بنا کچھ کہے وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔عائشے نے شانے اچکائے اور رومائزہ سے یونی میں بات کرنے کا کہہ کر نکل گئی۔
                            ★ ★ ★
"یار عائشے میں کیسے سفیر بھائی سے شادی کر لوں،صرف اپنے مفاد کے لیے؟کہ مجھے آگے دنیا دیکھنی اور اسکے لیے کسی ساتھی کی ضرورت پڑے گی!وہ محض ہمدردی میں آکر یہ سب کر رہے ہیں۔"
پوری رات وہ انھی سوچوں میں گم رہی تھی اور صبح جامعہ میں موقع ملتے ہی عائشے نے یہ قصہ چھیڑ دیا تھا۔
"کیا معلوم وہ دل سے رضا مند ہوں پسند کرتے ہوں تمھیں...ہوسکتا ہے محبت بھی ہو۔"عائشے بولے جا رہی تھی جب کہ رومائزہ نے جھنجھلا کے کان ہی بند کرلیے انوش کے لبوں پہ قفل لگا تھا۔اسکا بدلہ روپ ان دونوں نے اپنی باتوں میں بلکل نوٹ نہیں کیا۔
"انھوں نے مجھے خود کہا تھا وہ میرے ہم درد ہیں۔سر فہرست!اور جو بھی ہو مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔"اس نے کتاب گود سے اٹھا کر گھاس پہ رکھ دی۔انوش بینچ پہ ٹانگ لٹکائے بیٹھی تھی۔
"میرے خیال سے تمھیں شادی کر لینی چاہیے۔میران جاہ کو یہ بات پتا چلے گی تو وہ پل پل تڑپے گا اگر تم سے سچی محبت کرتا ہوگا تو...ورنہ انا کو تو اسکے ٹھیس ضرور پہنچے گی۔"
نا جانے کیسے بے ساختہ انوش کے لبوں سے اتنے سخت الفاظ ادا ہوئے۔روما نے چونک کے سر اٹھایا دل نے تیز رفتار پکڑی تھی۔انوش ایک دھند میں بول گئی تھی۔نگاہ سامنے پیڑ پہ مرکوز تھی۔
"ہاں لازمی نہیں سفیر بھائی سے شادی کرو بھلے کسی سے بھی کرو۔پر آگے بڑھو۔"
"شٹ اپ!دونوں کچھ بھی بولے جا رہی ہو۔ایک شخص کو تکلیف دینے کے لیے خود تکلیف کے مرحلے سے گزر جاؤں۔میران سے حساب اللہ خود لے لیگا۔"وہ بیگ کندھے پہ ڈال کر وہاں سے غصے میں اٹھ گئی۔ان دونوں نے جاتے ہوئے اسکی پشت دیکھی۔وہ شدید غصے میں تھی اور اکیلے رہنا چاہتی تھی۔عائشے گھاس سے اٹھ کر اوپر انوش کے برابر میں بیٹھ گئی۔
      "وہ شادی کرنا نہیں چاہتی،ہم نے اتنی بڑی بات کردی اسکے باوجود بھی وہ نہیں مانی۔وہ چاہتی تو میران سے بدلہ لینے کے لیے ایسا کرسکتی ہے پر نہیں۔تم لوگ اسے کیوں اتنا فورس کر رہے ہو؟کیا معلوم سفیر بھی صرف ہمدردی میں آکر اسے اپنانا چاہتے ہوں۔"
انوش سنجیدگی سے عائشے کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
عائشے کی آنکھوں میں حیرت کا ابال آیا۔اس کے تاثر ڈھیلے پڑے۔انوش کی آنکھوں کی سرخی دیکھ دماغ بھک کر کے جاگ اٹھا۔ہلکے سے لب کھلے۔اسکی نگاہوں میں درد کا ٹھاٹھے مارتا طوفان عائشے کو نظر آرہا تھا۔منظر میں کوئی جیسے سوگ کا نغمہ بجا رہا ہو۔ہوا کے اثر ہلکے سے بال اڑ رہے تھے۔
عائشے کے حلق میں گٹھلی بھر کے معدوم ہوئی۔
"انوش.."
اس نے پکارا۔انوش نے نم آنکھیں پھیر لیں۔ضبط سے لب پیوست کرلیے۔اسکا یوں نظریں چرانا عائشے دم بخود رہ گئی۔
"آر یو ان یار سینسز؟"وہ پھٹ پڑی۔انوش نے آنسو اندر اتارے۔
"یہ جو تمھارے دماغ میں چل رہا ہے نکال دو خدا کا واسطہ ہے انوش نکال دو۔تمھارا مزید ایک بڑھتا قدم کئی زندگیوں میں سنامی لے آئے گا۔خود کو یہیں روک لو۔بچالو خود کو ڈوبنے سے،اب بہت دیر ہوچکی ہے۔"عائشے نے اپنی لرزش پہ قابو پاتے کہا۔انوش کی سسکی نکلی۔
"تم اس لیے نہیں چاہتی روما اور سفیر کی شادی نہ...؟"
"انف عائش۔تمھیں لگتا ہے میں ایسا کرونگی۔میں اتنا چاہتی ہوں روما پہ کوئی زور زبردستی نا ہو جو تم لوگ کر رہے ہو،وقت دو اسے۔اگر وہ خوشی سے ہاں کردے گی تو اسکی برات میں سب سے آگے ناچنے والی میں ہی ہونگی۔"
انوش اس کی بات سن کر اکھڑ کے بولی۔آنکھوں سے ابلتا جنون واضح تھا...عائشے کپکپی کھا کر پیچھے ہوئی۔یہ انوش گلزار کا نیا روپ اس پہ عیاں ہوا تھا۔اسے نہیں پتا تھا وہ کسی کو اتنی شدت سے چاہتی ہوگی،وہ بھی سفیر کو؟اسکا وجود اسکا انداز سفیر سے محبت کی گواہی دے رہا تھا۔
عائشے نے بے اختیار ماتھا چھوا اور پسینہ صاف کیا۔
"میں کینٹین جا رہی ہوں۔"وہ اٹھ گئی۔
اسکے چلے جانے کے بعد انوش نے سر ہاتھوں میں دے لیا۔اسے نہیں پتا تھا وہ محبت کے جذبے سے کب آشنا ہوئی۔پہلی بار اسکو دیکھنے پہ یا پھر جب سفیر سے میسینجر پہ بات ہوئی۔اس نے اسکی فیس بک اور انسٹا آئی ڈی پوری کھنگال کے رکھ دی تھی۔یہ سب کیا تھا اور کیوں کیا تھا؟بس اچھا لگ رہا تھا۔اسے شدت سے انتظار تھا سفیر کبھی پاکستان آئے اور وہ اس سے مل سکے۔
اور پھر ایک رات اسکی کال آنا اور سننا کہ وہ اسی دیس میں ہے۔اسکا دل باہر نکل آیا تھا۔پر اگلی خبر سن کے اسکی خوشی چھو منتر ہوگئی۔رومائزہ بھی ٹھیک ہوگئی اسکے بعد وہ بہت خوش تھی۔اور سفیر کو دیکھ کر تو اسکا دل بے لگام ہوجاتا تھا جسے اس نے لگامیں بہت اچھے سے ڈال رکھی تھیں۔وہ بے شک ایک جولی سی لڑکی تھی پر اپنے جذبات اور احساسات کو کب ظاہر کرنا ہے اسے اچھے سے آتا تھا۔وہ اپنے دل کی بات رومائزہ کو بتانا چاہتی۔اس نے صرف سفیر احمد کے خواب دیکھے تھے۔وہ انجان بندہ اسکے دل کو بھا گیا تھا۔بات اس پہ کرش آجانے تک تھی پر جب وہ پاکستان آیا تو احساسات بدل گئے۔
پر وہ رومائزہ کو یہ بات بتاتی اس سے پہلے ہی سفیر اور رومائزہ کے رشتے کی بات چل گئی۔اب تو وہ مر جاتی پر یہ بات زبان پہ نہ لاتی۔
آنسو رگڑ کے صاف کرکے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔قدم من من بھر کے ہوگئے،اٹھنے سے انکاری تھے۔اسے سمجھ نہیں آیا اب کیسے وہ عائشے کا سامنا کرے گی۔کہیں وہ اسے غلط نہ سمجھے۔اسے اپنی محبت کی توہین برداشت نہیں تھی۔
نہ ہی دوست کی آنکھوں میں شک۔
اعلان کرنا تھا ڈنکے کی چوٹ پہ کہ 'انوش گلزار کو سفیر احمد سے محبت ہے'۔نیمل سے کہی بات اسے شدت سے آئی۔
اس نے آنکھیں میچ لیں۔ہر طرف اس اندھیرے میں بھی سفیر کا چہرہ دکھائی دیا تھا۔
"انوش نہیں....سنبھالو خود کو۔تم ایسے کمزور نہیں پڑ سکتیں۔اگر انکا نصیب روما سے جڑا ہے تو اس میں ان دونوں کا قصور نہیں۔شیطان کے بہکاوے میں مت آنا انوش۔"اس نے آنکھیں کھول کر چہرہ تھپک کر خود سے کہا اور وزنی قدم اٹھا کر عائشے پاس ہی چل پڑی۔
                         ★ ★ ★
        کچن کے درمیان میں لگا لیمپ روشن تھا۔رات کے نو بج رہے تھے۔پورے گھر میں سناٹا ڈوبا ہوا تھا،کچن میں زرد روشنی پھیلی تھی۔بتول اور غضنفر اپنے کمرے میں تھے۔وہ اسائمنٹ سے جب اکتا گئی تو کچن میں چلی آئی۔
موڈ بحال کرنے کے اسکے پاس ہمیشہ سے دو طریقے تھے۔
پینٹنگ،یا پھر بیکنگ..
اس نے اوون سے بیکنگ ٹرے نکالی اسکے لاک گھما کر کھولے اور براؤنی پلیٹ میں نکال لی۔اس کا روز کا معمول تھا ٹی وی دیکھنا۔پر اب یہ عادت بھی چھونٹ گئی تھی۔وہ کاؤنٹر تک بنا آواز کیے آرام سے چئیر گھسیٹ کر لائی تھی اور بیٹھ کے براؤنی کے ٹکڑے کردیے۔
جب براؤنی پوری چور چور ہوگئی تو سکون سے بیٹھ کے کھانے لگی۔وقفے سے اس نے موبائل کھول کے چیک کیا پھر ایک طرف رکھ دیا۔وہ پلیٹ پر جھکی ہوئی تھی پیچھے آہٹ محسوس ہوئی تو سر اٹھایا۔
سفیر کف لنکس فولڈ کرتے ہوئے کچن میں آیا تھا۔فریج سے پانی گلاس میں انڈیل کر اس نے اکڑوں بیٹھ کے پانی پیا۔رومائزہ کچھ کھچی کھچی محسوس ہورہی تھی۔کل والے واقعے کی بدولت!
سفیر کے گلا کھنکارنے پہ اس نے سر اٹھایا۔
"آپ کے لیے کھانا لگادوں؟"
وہ کاؤنٹر پہ ہاتھ رکھ کے چئیر سے اٹھنے لگی۔سفیر نے اسے بیٹھے رہنے کا کہا۔اسکی نظریں اسکی پلیٹ پہ گئی جو براؤنی کے چورے سے آدھی بھری ہوئی تھی۔
"براؤنی کھائیں۔ابھی فریش میں نے بنائی ہے۔"
اس نے مسکرا کے پلیٹ آگے کی اور اٹھ کے دوسرا چمچ اسکے سامنے کیا۔سفیر نے پھیکا سا مسکرا کے چمچ تھام لیا تھا۔
پہلا چمچ منہ میں رکھا۔اس نے تیزی سے ہی دوسرا بھی منہ میں بھرا۔
"اممم...بڑا انتظار کیا تمھارے ہاتھ کی براؤنی کا۔اتنی تو تم نے خود تعریفیں کر رکھی تھیں۔تمھارے ہاتھ کی براؤنی کھانے کی میری تو خواہش ہوگئی تھی۔"اس نے ستائشی نگاہ اس پہ ڈال کر براؤنی کا مزہ لیتے ہوئے کہا۔وہ دھیمے سے ہنس دی۔
"اچھا ساری مت کھا جائیے گا مجھے تائی امی کو بھی ٹیسٹ کروانی ہے۔"
سفیر نے براؤنی کا موٹا موٹا چورا دیکھا تھا اسکی حیرانی بھانپتے ہوئے رومائزہ نے کہا۔
"مجھے چورا کرکے کھانا پسند ہے۔"
اسکے ہاتھ سے پلیٹ لے کر آنکھیں جھپکا کر کہتی وہ کچن سے باہر نکل گئی۔سفیر سر پہ ہاتھ پھیرتا اسکے پیچھے ہی باہر نکل کے اپنے روم میں چلا گیا۔رومائزہ تائی اور تایا ابو کے ساتھ بیٹھی تھی۔اکثر وہ انھیں بڑے پاپا کہہ کر مخاطب کرلیا کرتی تھی۔
بتول نے اس سے اسکے فیصلے کے بارے میں پوچھا۔وہ خاموش رہی،ساری شام وہ یہی سوچتی آئی تھی کہ کیا جواب دے۔اس نے اپنے تایا کا مان رکھنا تھا۔پر اسکے لیے کیا خود کو مشکل میں ڈال دیتی؟سفیر میں کوئی برائی بھی نہیں تھی۔اگر بابا ہوتے تو وہ بھی راضی ہوجاتے۔اسے کئی خیالات نے گھیرا تھا۔
"رومائزہ بیٹا بتاؤ کیا سوچا ہے؟بیٹا یہ صرف سفیر کی خواہش نہیں ہے ہم بھی ایسا چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی گھر میں ہی رہے۔"
غضنفر بے پناہ محبت سے بولے۔رومائزہ نچلا لب کاٹنے لگی۔اسکے سرپرست اب وہی تھے۔انکار کی کوئی ٹھوس وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔اسے فوراً شادی نہیں کرنی پر یہ لوگ مان نہیں رہے تھے۔
"ٹھیک ہے بڑے پاپا جیسا آپ لوگ چاہتے ہیں وہی ہوگا۔پر ایگزامز کے بعد صرف نکاح ہوگا،رخصتی فوراً نہیں ہوگی۔میں کچھ وقت لینا چاہتی ہوں۔"
گہری سانس لیتے اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔بہت سوچ سمجھ کر اس نے فیصلہ کیا تھا۔انکے سامنے ہار مانتے بولی۔وہ اپنی وجہ سے کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔اب یہ لوگ کل کائنات تھے انھی کے ساتھ رہنا تھا۔وہ اس سے محبت کرتے تھے اسے بھی ان سے محبت ہوگئی تھی تو کیسے انکار کر دیتی۔
اسے اتنی اپنائیت دی کہ اسے کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا تھا۔اسکے ہر قدم پہ اسکے ساتھ تھے۔
محبت وغیرہ پہ سے تو اسکا اعتبار اٹھ گیا تھا ایک بار ہی میں ایسا زخم ملا کے وہ بلبلا کر رہ گئی۔
اسکا فیصلہ سفیر کے حق میں سن کر دونوں میاں بیوی مسکرائے۔بتول نے آگے بڑھ کے اسے خود سے لگایا اور اسکا ماتھا چوم لیا۔
"مبارک ہو غضنفر صاحب۔"وہ نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھیں۔جیسے ماضی میں کی گئی زیادتی کا ازالہ اب کر رہی ہوں۔غضنفر شنواری نے آگے ہوکر اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں سے نواز دیا۔
"اس براؤنی سے ہی منہ میٹھا کرلیتے ہیں۔"غضنفر بتول سے مخاطب ہوئے جو مسکرا رہی تھیں۔
اتنے میں سفیر فریش ہوکے موبائل میں مصروف سا انکے کمرے میں داخل ہوا۔کمرے کا منظر دیکھ کر چونکتا ہوا اندر چلا آیا۔اما ابا بھتیجی پہ واری جا رہے تھے۔
"اوکے میں چلتی ہوں۔مجھے نیند ہے آرہی صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے۔"گھبراہٹ پہ قابو پاکر وہ وہاں سے کھسک گئی۔سفیر نے تھوڑی حیرانی سے اسے جاتے دیکھا پھر ماں باپ کو۔اس نے شانے اچکا کر ماجرا استفسار کیا۔
    "مبارک ہو وہ شادی کے لیے راضی ہوگئی ہے۔پر شرط رکھی ہے کہ ابھی صرف نکاح ہو رخصتی کا پروگرام بعد میں۔"انکی بات سن کر وہ مسکرا دیا۔اور بیڈ کی دوسری طرف غضنفر کے سامنے بیٹھ گیا۔
"بابا ایک مسئلہ ہے۔"
"کیا؟"
"وہ مجھے بھائی بھائی بولتی ہے۔تو اب یہ عادت ختم کروادیں۔"وہ جھنجھلا کر بولا تو انکا قہقہہ بلند ہوا۔
"بچی ہے،میں سمجھا دونگی اسے۔"بتول نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ گہری مسکراہٹ کو سمیٹتا کھڑا ہوگیا۔
                           ★ ★ ★
    وہ بھاری دل کے ساتھ اپنے کمرے تک آگئی تھی۔موبائل اسکے ہاتھ میں ہی تھا۔اس نے کھٹاک انوش کا نمبر ملایا اور فون کان سے لگایا۔خود زمین پہ بیڈ کی پائینتی سے کمر ٹکا کے گھٹنے فولڈ کرکے شانوں سے لگا کر بیٹھ گئی۔
انوش نے تیسری بیل پہ کال ریسوو کرلی۔
"انوش..."
"مم میں نے رشتے کے لیے تایا ابو کو ہاں کردی ہے۔"وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔انوش کا خون رگوں میں منجمد ہوگیا۔آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر پھسلا۔
"اپنی مرضی سے ہاں کی ہے؟کسی نے زور زبردستی تو نہیں کی؟"اپنی سسکی دباتے لہجہ مضبوط کیے اس نے پوچھا۔
"اتنی محبت دینے والے لوگ کیا زبردستی کریں گے۔انکار کرنے کی ہمت ہی پیدا نہیں ہوئی۔وہ لوگ ممی بابا کی طرح ہیں میرے لیے۔"
"تو تم نے مشرقی لڑکیوں کی طرح ہاں میں ہاں ملادی۔روما میری جان اگر تم شادی کرنا نہیں چاہتی تو بتاؤ میں مام سے کہونگی وہ بات کرلینگی بتول آنٹی سے۔"وہ اسکی فکر میں بولی۔
"نہیں۔انھوں نے مجھے بیٹی سمجھا یے میں انکا مان نہیں توڑ سکتی۔"
"اور تمھارا دل؟"
"وہ تو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے۔"وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔انوش نے لب بھینچ لیے۔
"تم خوش نہیں ہو زبردستی دوسروں کے لیے حامی بھر لی۔سیریسلی،مجھے اپنی رومائزہ شنواری چاہیے یہ تم نہیں ہو۔"وہ غصے میں لگ رہی تھی۔روما نے سانس بھری۔خود میں سکون اتارا۔دل بے ہنگم دھڑک رہا تھا۔مانوں باہر نکل آئے۔
"انوش پریشان مت ہو،شادی ایک دن کرنی تھی۔ایگزامز کے بعد صرف نکاح کرونگی،باقی تب تک حالات بہتر ہوجائیں گے۔میں اب کسی پہ اعتبار نہیں کرسکتی،یہ لفظ میری زندگی سے نکل گیا ہے۔بس اب جو فیصلہ ہوچکا ہے وہی ٹھیک ہے۔"
"اور سفیر ہمدردی میں شادی کر رہے ہوئے تو؟"
"مجھے ہمدردیاں بٹورنا نہیں پسند۔پر وہ واحد ہیں جنھوں نے مجھے مرنے سے بچایا۔انکا احسان اتارنا بھی تو ہے۔اگر انکو لگتا ہے ان سے شادی کرکے میری زندگی میں بہاریں لوٹ آئیں گی تو پھر ٹھیک ہے ایسے ہی سہی۔"انوش کو اسکی باتیں سوائے حیرانی کے کچھ نہیں دے رہی تھیں۔
اپنا سوچنے کے بجائے وہ ہر ایک کا سوچ رہی تھی۔خود کہاں تھی؟
"اللہ تمھیں ہمیشہ رکھے خوشیوں کی بارش کردے۔"وہ نم لہجے میں گویا ہوئی۔اسکی نمی دوسری پار رومائزہ کو محسوس ہوئی۔انوش گلزار ایموشنل ہورہی تھی..؟
"آمین۔اللہ تمھیں بھی اب جلدی سے ایک شوہر دے دے جس کی تم اب تک تلاش میں ہو۔"وہ بھیگے چہرے پہ مسکراہٹ لاتی ہوئی بولی۔اسکی دعا سن کے انوش کے چہرے پہ اداسی سی چھا گئی۔
"ویسے تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟تم یونی میں بھی خاموش سی لگ رہی تھیں۔کہیں کسی سے پیار شیار تو نہیں ہوگیا اسی کے خیالوں میں گم؟"انوش کو وہ اپنی چوری پکڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اسے ناجانے شرمندگی نے گھیر لیا جیسے کچھ غلط ہوگیا ہو۔اسے محبت نہیں ہونی چاہیے تھی۔دل زخمی ہوکر رہ گیا۔چاہ کر بھی وہ مرہم نہیں رکھ سکی تھی۔ٹوٹے دل کو جوڑنا آسان نہیں تھا۔
"نہیں تو۔میں ٹھیک ہوں۔تم ٹھیک نہیں ہو نا اس لیے ایسا لگ رہا ہے چلو سوجاؤ کل یونی میں تمھاری شادی کی خوشی میں پارٹی کریں گے۔"وہ زبردستی مسکرا کے لہجے میں چہک پیدا کرکے بولی۔رومائزہ نے اداسی سے فون دوسرے کان پہ لگادیا۔
"نہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔"
"اچھا چلو خاموشی سے ہلا گلا کرلیں گے،بس۔"وہ پھر بولی تو رومائزہ نے ہار مانتے ہاں کردی۔دونوں نے فون سائیڈ میں رکھ دیا۔
انوش بیڈ کراؤن سے سر ٹکائے ہوئے تھی،رومائزہ کا سر بھی بیڈ سے ٹکا تھا۔پنجوں کے نیچے پسینہ سا محسوس ہونے لگا۔کچھ فرش کی ٹھنڈک تھی کچھ جسم سے نکلتی آگ۔وہ غیر مرئی نقطے کو غور سے دیکھے گئی،دوسری پار انوش کی نگائیں بھی اسکرین پہ جم گئی تھیں۔
اگر اسکا دل بند ہورہا تھا تو انوش کو بھی سانس نہیں آرہی تھی۔دل و دماغ کے درمیان جنگ سی چھڑی تھی۔انوش نے جھنجھلا کر کمفرٹر اوپر تک کھینچا اور کروٹ لے کر لیٹ گئی۔پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔یہ دل تو ماننے کو تیار نہیں تھا کہ سفیر اب اسکی بیسٹ فرینڈ کا شوہر بننے والا تھا۔اسے رومائزہ سے بلکل جلن محسوس نہیں ہوئی تھی الٹا اپنے دل کی پیش قدمی پر افسوس ہورہا تھا۔
      دوسری طرف رومائزہ دل و دماغ کی چھڑی جنگ میں الجھ کر رہ گئی۔بس دل شادی پہ راضی نہیں تھا۔جب کہ دماغ اور اسکی انا کچھ اور کہہ رہے تھے۔انھی سوچوں میں نیند اس پہ کب مہربان ہوگئی اسے پتا نہیں چلا وہ سمٹ سمٹ کر زمین پر ہی سر رکھ گئی تھی۔
   رات کا تیسرا پہر تھا۔کمرے میں نیم تاریکی ہی تھی۔وہ نیند میں بے چین ہونے لگی۔جیسے کوئی خواب میں اسے پریشان کر رہا ہو۔
"رومائزہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو کیسے سفیر سے شادی کروگی۔"وہ طنزیہ مخاطب تھا،یا پھر درد کی شدت چھپاتے کہہ رہا تھا۔
سفید کرتے شلوار میں سیاہ چادر شانوں پہ ڈالے اس کے روبرو کھڑا ہم کلام تھا۔وہ خود سے قدم پیچھے بڑھا رہی تھی۔اسکی خندہ پیشانی اور چہرہ پر نور سفید تھا۔رومائزہ کے سلکی بال جو چہرے پہ آکے اسے پریشان کر رہے تھے اس نے کان کے پیچھے اڑس لیے۔وہ اسکی طرف قدم بڑھا رہا تھا اور وہ نفی میں سر ہلاتی پیچھے جاتی چلی جا رہی تھی۔
"نفرت نن نفرت کرتی ہوں تم سے۔قاتل ہو میری خوشیوں کے تم۔"وہ چلا کر بولی اور آخر میں اسکی ایک دل خراش چیخ پیدا ہوئی۔کسی نے اسے کمر سے تھام کر گرنے سے بچا لیا تھا۔اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ میران تھا۔اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
یوں محبت میں دیوانہ کرکے
اب دور جانے کی بات نا کیا کرو
کان کے قریب ایک میٹھی سی سرگوشی سنائی دی جو اسے زہر کی طرح کڑوی لگی۔اور وہ جھٹکے سے آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھی۔اسے اپنی حالت کا احساس ہوا کہ کہاں لیٹی ہے پھر کہنی کے بل اٹھی اور بیڈ پہ آکے بوجھل سی حالت میں لیٹ گئی۔
"کیوں جان نہیں چھوڑتے ہو میری،خوابوں میں بھی تم سوار ہو،مر کیوں نہیں جاتے،بار بار تکلیف دینے آجاتے ہو۔"آنسو کی قطار اشکوں سے بہنے لگی وہ سسک سسک کر کئی دیر دم گھوٹتے روتی رہی پھر نیند نے اس پہ مہربانی کردی۔
                             ★ ★ ★
دمیر ہاؤس میں آج کل عائشے اور مراد کے ولیمے کو لے کر چرچہ چل رہی تھی۔
"ایک کام کرتے ہیں بھابھی کے ایگزامز سے پہلے ہی ولیمہ رکھ لیتے ہیں۔ورنہ آگے بہت ڈیلے ہوجائے گا۔گرمی کا موسم لگنے لگا ہے ویسے بھی۔"نیمل نے مشورہ دیا۔عائشے چور نظروں سے مراد کو دیکھ رہی تھی۔
"ہاں ٹھیک ہے،ڈیڈ کوئی ڈیٹ فائنلائز کرکے بتادیں پھر کارڈز بھی چھپوانے ہیں۔"مراد نے اکتفا کرتے کہا۔
"ہاں تیاری بھی کرنی ہے۔عائشے کے لیے جوڑا بھی خریدنا ہے۔اور بھی سو کام نکل آئیں گے نہ نہ کرتے ہوئے بھی۔"زرپاش دوپٹے کا پلو انگوٹھے کے گرد لپیٹتے ہوئے بولیں۔
     ارباز دمیر نے اسے ہفتے کے دن کی تاریخ کہی تو اس نے سر ہلا دیا۔زولفقار جاہ کے کیس سے فارغ ہوجانے کے بعد کی تاریخ تھی۔اسے یقین تھا اس بار وہ کامیاب ہوگا اور اسکے بعد جشن تو پھر ضروری ہی تھا۔
عائشے نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔
"ویسے تو ناراض بیٹھے ہیں پر ولیمہ انکو لازمی کرنا ہے۔"وہ اتنی زور سے بڑبڑائی کے نیمل نے سن لیا۔
"ہائے بھائی جان آپ بھابھی جان سے ناراض ہیں؟"عائشے نے سر پیٹا۔زرپاش اور ارباز نے بھی چونک کے تیور چڑھا کے مراد کو دیکھا۔
"کس نے کہا تم سے؟"وہ سختی سے گویا ہوا۔نیمل اپنی بے اختیاری پہ سکتے میں آگئی۔اس نے نظروں میں عائشے کو سوری کہا۔
"کیا کچھ ہوا ہے تم دونوں کے درمیان؟"زرپاش نے لہجہ کڑک کرکے پوچھا تو مراد نے شانے جھاڑ کے عائشے کی طرف اشارہ کردیا۔سارا ملبہ اسی پہ ڈال گیا۔
"مام یہ خود ناراض ہیں اتنی سی بات کو لے کر۔"وہ فوراً بولی۔
"کمرے میں چلو مجھے فائل ڈھونڈ کے دو پتا نہیں کہاں رکھ دی ہے۔"اس سے پہلے عائشے اسکی شکایتیں لگاتی وہ برہمی پہ نرمی ظاہر کیے اسے آنکھیں دکھا کر بولا۔وہ صرف کہانی بنا رہا تھا۔عائشے سر جھکائے منہ بسورتی کمرے میں چلی گئی۔
مراد اسکے پیچھے ہی اندر داخل ہوا دروازہ بند کر وہ اسکے سامنے کھڑا ہوگیا۔
"تم نے تو میرے مام ڈیڈ کو بلکل اپنی طرف کرلیا ہے۔ایمپریسوو!"اسکی کڑوی کسیلی پہ وہ جل بھن کے رہ گئی۔خاموشی سے اسکے پاس سے جانے لگی۔لڑنے کا کوئی موڈ نہیں تھا نا ہی مزید اسکو منانے کا۔
"بس تھک گئیں؟تمھیں تو شوہر کو منانا بھی نہیں آتا۔حد ہے!"وہ اسے بازو سے روک کے آنکھیں اوپر چڑھائے خفت مٹائے بولا۔عائشے نے خفگی سے اسے دیکھا۔
"تو آپ ڈراما کر رہے تھے؟"اس نے حیرت سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سوال کیا۔مراد کے پلکیں جھکانے پہ عائشے کو تیش آیا اس نے اسکے بازو پہ مکے برسا دیے۔
"بے شرم،بدتمیز پولیس والے کہیں کے آپکو شرم نہیں آئی مجھے پریشان کرتے ہوئے۔"
"بلکل نہیں،اب تمھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مجھے سے کوئی بات نہیں چھپانی۔"وہ سنجیدگی سے بولا اور آخر میں اسکے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
"اب میں آپ سے ناراض ہوں اور مانوں گی بھی نہیں۔"وہ نروٹھے پن سے گردن اکڑا کے بولی۔یہ ایسے ناز نخرے اٹھوانا اسے اچھا لگتا تھا۔اور مقابل اللہ کا بندہ نخرے اٹھا بھی رہا تھا تو وہ کیوں باز رہتی۔
"مجھے تو اچھے سے منانا آتا ہے...."اسکی آنکھوں میں آنچ دیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔"آئیس کریم کھانے چلیں؟"اسے تھام کر مراد نے پوچھا تو وہ منہ چڑا گئی۔
"اوہہ،ٹھیک ہے صبح منا لونگا۔ابھی نیمل کو لے کر جاتا ہوں آئس کریم کھلانے..اتنے دنوں سے میری بہن فرمائش کر رہی تھی کے ونیلا فلیور کھانا ہے وہ بھی میرے ساتھ۔"
بالوں میں ہاتھ چلا کر وہ دروازے تک پہنچ گیا۔پر کوئی اسکا رسپانس نہ ملا۔عائشے الٹا ہنسی۔اسے معلوم تھا نیمل اور اسکے درمیان تھوڑی خفگی چل رہی ہے وہ اس سے یہ فرمائش کر ہی نہ بیٹھی ہو۔
"عائشے چلو۔"اسکی خاموشی کی گہرائی بھانپ کر اس نے انداز تھوڑا سخت کرتے کہا۔
"مجھے نیند آرہی ہے۔"
وہ مکمل پلٹا اور اسکے سامنے آیا۔
"مسز دمیر!چل رہی ہو کہ اٹھا کر لے جاؤں؟"
"لے جائیں اتنی ہمت ہے تو اے ایس پی مراد دمیر!"
وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چٹان سے مضبوط لہجے میں بولی۔اسے اندازہ ہوگیا تھا مراد کا دل تھا آئس کریم کھانے کا جب ہی اتنا انسسٹ کر رہا تھا ورنہ وہ خشک انسان اسکے ایک انکار پہ سونے کے لیے لیٹ جاتا۔
مراد اسکے چیلینج پہ لو دیتی آنکھوں سے مسکراتا ہوا آگے بڑھا تھا۔عائشے اچھل کے پیچھے ہوئی اور دوپٹہ سر پہ رکھ کر دروازے پہ بھاگ کے پہنچ گئی۔وہ وہیں کھڑا ہنس رہا تھا۔عائشے اسکی ہنسی میں پل بھر کو کھوئی۔
"اب چل رہے ہیں کہ نہیں۔"ہوش میں آکر اس نے چٹکی بجا کر پوچھا۔
"دیکھا تمھیں منانا کتنا آسان ہے۔"ہاتھ ہوا میں بلند کرتے وہ مسکرا کر اسے بتاتے ہوئے آرہا تھا عائشے سر جھٹک کیا۔وہ گہری مسکراہٹ چھپا کے گاڑی کی کیز،موبائل اور والٹ لیتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
                             ★ ★ ★
جامعہ کی پارکنگ میں اسکی ہیلِکس کھڑی تھی۔وہ کہنی ونڈو پہ جمائے عبدل کا انتظار کر رہا تھا۔اور دوسرے ہاتھ سے سیگریٹ کے مرغولے بناتا منہ سے چھوڑ رہا تھا۔ایک بار پھر وہ رومائزہ کو منانے کی غرض سے آیا تھا۔اس سے معافی مانگنے کہ اسے معاف کردے انجانے میں غلطی کر بیٹھا ہے۔
وہ سوچوں میں گم تھا عبدل چڑھتی سانسوں کو سنبھالتا ہانپتا ہوا اسکے پاس آیا۔
"وہ اندر ہی ہیں۔"عبدل نے سر جھکائے رکھا۔میران گاڑی کا دروازہ کھول کر اترنے لگا پھر عبدل بول پڑا۔
"مت جائیں۔"
"کیوں...کچھ ہوا ہے؟"اسکا لاک پہ جما ہاتھ ٹھہر سا گیا۔عبدل نے خشک لبوں پہ زبان پھیری۔
"دو لڑکیاں انکے پاس بیٹھی تھیں...اور۔"
"کیا اور؟بتا بھی چکو اب۔"وہ کوفت سے جھنجھلایا۔اسے تو رومائزہ سے ملنے کی تڑپ ہورہی تھی۔
"وہ انھیں سفیر احمد سے شادی کی مبارکباد دے رہی تھیں۔"عبدل نے آنکھیں میچ کر کہا۔میران کے گرد سناٹا چھا گیا۔دنیا لمحے میں گول گھوم گئی۔
"اگر یہ مذاق ہے تو بہت ںے ہودہ ہے میں جان نکال لونگا تمھاری۔"
"سائیں آپ پہ جان قربان پر یہی سن کے آرہا ہوں۔وہ شادی کرنے لگی ہیں۔آپ سہی کہتے تھے وہ سگے بہن بھائی تھوڑی ہیں۔آپکا ڈر ٹھیک تھا۔"وہ خشمگیں سا کہہ رہا تھا میران کے ماتھے کی رگیں پھول گئیں۔وہ اسکے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی تھی۔اسے کیوں میران کی محبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔
ادا مطلب،نگاہ مطلب،زباں مطلب،بیاں مطلب
بتا مطلب کہاں جاؤں،جہاں جاؤں وہاں مطلب
چھن کرکے اندر کچھ ٹوٹا تھا،لہو لہان نگاہیں اس نے جھکا لیں جبڑا سختی سے کس لیا مٹھی بھینچ کر ڈیش بورڈ پہ ماری۔وہ پوری طرح خود پہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کچھ لمحے وہ ایسے ہی رہا عبدل گاڑی کے باہر کھڑا اسکی شدت دیکھ کر اداس ہوگیا۔
"عزیز میاں سائیں کو تمھاری ضرورت ہے کہاں ہو تم۔کیا کر دیا تم نے بھی۔"وہ سوچ رہا تھا تبھی جامعہ کے دروازے سے اسے رومائزہ باہر نکل کر آتی دکھائی دی۔
میران کی نگاہیں اٹھتی سیدھا اس پہ گئیں۔وہ ونڈ اسکرین کے پار دکھائی دی۔چہرے پہ اچانک خوشی کے آثار نمایاں ہوئے پر وہ زیادہ دیر ٹھہر نا سکے۔
سفیر گاڑی سے نکل کر اسکے پاس آیا تھا اور کچھ کتابیں اسے تھمائی تھیں۔
"تھینک یو سفیر بھائی اپنی میٹنگ چھوڑ کر آپ مجھے یہ دینے آئے۔"اپنی بات کہتے ہی اسکی زبان تالو سے جا چپکی۔سفیر بھی خول میں سمٹ کے رہ گیا۔پھر مسکرادیا۔
"میٹنگ دو گھنٹے بعد کی ہے اس لیے میں آگیا۔پر دھیان رکھا کرو۔"
"سوری۔"
"اٹس اوکے۔رات کو امی بابا کے ساتھ ڈنر پہ چلیں؟"وہ اسکے بھائی پکارنے کی جھینپ کو مٹا کر بولا تو روما نے مسکرا کے سر ہلا دیا۔ہوا تیز چل رہی بال بار بار اڑ کے اسکے چہرے پہ آرہے تھے وہ بار بار انھیں پیچھے کر رہی تھی۔ماسک چہرے کی جگہ اسکی تھوڑی پہ ٹکا ہوا تھا۔
سفیر کے ساتھ اسکو یوں ہنستا مسکراتا دیکھ وہ انگاروں پہ لوٹ گیا۔رومائزہ کے ہنسنے بولنے سے مسئلہ نہیں تھا۔نا ہی یہ بات تھی کہ وہ کسی اور لڑکے کے ساتھ ہنس بول رہی،بس اسے سفیر کھٹکتا تھا بری طرح اور وہ اسے رومائزہ کے ساتھ دیکھ کر بلبلا جاتا تھا۔
دل میں اٹھتی ٹھیسوں کی پرواہ کیے بغیر وہ گاڑی سے اتر کے اسکے پاس پہنچا۔پل بھر کو رومائزہ کی سانس اسے دیکھ کر تھم سی گئی۔سفیر نے اسے تھامنا چاہا۔
"ڈونٹ۔"وہ غرا کے بولا۔سفیر نے نتھنے پھلا کر اسے دیکھا۔
"تم بتاؤ گے کہ میں اپنی منگیتر کو کیسے ٹریٹ کروں؟"وہ پھنکارا اور رومائزہ کا ہاتھ اسکے سامنے کیا۔تیسری انگلی میں ایک انگھوٹی نصب تھی۔کرب کی لکیریں میران کے چہرے پہ واضح ہوگئیں،اس نے بے یقینی سے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا۔رومائزہ نے ہنکار کے اسے دیکھا۔پھر اپنا ہاتھ سفیر کے ہاتھ سے چھڑایا۔میران کے اندر چھن چھن کرکے کچھ ٹوٹا تھا،مان گمان یقین یا پھر دل۔
میران کو تکلیف میں دیکھ کر اسے عجیب سا احساس ہوا۔اسے نہیں پتا تھا سفیر نے اسے منگنی کا جھوٹ کیوں بولا۔یہ انگھوٹی رومائزہ کی اپنی تھی۔شاید وہ اس سے حساب برابر کرنا چاہتا تھا۔جتنی تکلیف اس نے رومائزہ کو دے تھی اسے چکانے کی یہ بہت چھوٹی سی کوشش تھی۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی اسکے بارے میں ایسا سوچنے کی!"میران غصے میں سفیر پہ بھڑکا۔رومائزہ بیچ میں عود آئی۔پارکنگ میں بلکل سناٹا تھا ان تینوں کے علاوہ ایک عبدل ہی بس وہاں تھا۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی سفیر سے اس طرح بات کرنے کی!شادی ہونے والی ہے ہماری ہے۔تمھاری کوئی نورِ نظر نہیں ہوں میں،جو تمھارے علاوہ اور کسی کی نہیں ہوسکتی۔"وہ آپے سے باہر ہوئی۔
جہاں اسکے منہ سے صرف 'سفیر' سننے پہ میران سکتے میں گیا تھا وہیں سفیر کی حالت بھی کچھ الگ نہیں تھی۔رومائزہ کو صبح ہی اس حوالے سے بتول نے سمجھایا تھا اور اس نے کوشش کرونگی کہہ کر بات ٹال دی تھی۔
   "امید کرونگی اب تم میرے سامنے کبھی نہیں آؤگے۔نکل جاؤ میری زندگی سے۔مجھے نہیں ہے تمھاری ضرورت۔نفرت کرتی ہوں تم سے۔"
وہ دبے دبے غصے میں غرا رہی تھی۔میران اسکی آنکھوں کے بھنور میں کھو گیا۔موت کا فرمان سنا رہی تھی وہ،اسکی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتنائی دیکھ کر لڑکھڑا کے پیچھے ہوا۔ایک وقت تھا جب رومائزہ شنواری کو اس پہ آنکھ بند کرکے بھروسہ ہوگیا تھا۔اسکے کردار پہ اسکی محبت پہ مکمل میران جاہ پہ!
"رومائزہ تم جاؤ کلاس شروع ہونے والی ہوگی تمھاری۔"سفیر نے اسے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ سر ہلا کے ایک آگ برساتی نگاہ میران پہ ڈال کے چلی گئی۔اندر جاکے اسے کھانسی کا بہت برا پھندا لگا تھا جسے وہ باہر بڑی مشکل سے روکے کھڑی تھی۔اسکی سانس لمحوں میں چڑ گئی۔ان ہیلر اسکے بیگ میں پڑا تھا انوش نے فوراً نکال کے اسکے منہ سے لگادیا۔پھر اسکے بعد جب وہ نارمل ہوئی تو ماسک لگا کر کلاس میں چلی گئی۔
  سفیر اس سے پہلے  کچھ کہتا میران ایک ناگوار نگاہ اس پہ ڈال کے پلٹ گیا۔
"میران صاحب اگر وہ تمھاری محبت تھی تو اب میری ہوگی،تم بھی حق دار ہو اس تکلیف کہ جو تم نے رومائزہ کو دی،تو بھگتو اب۔۔"پیچھے سے اسکی ہانک کو نظر انداز کرتا مٹھیاں بھینچ کر وہ گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔سفیر نے کالی چمکتی ہوئی ہیلِکس کو پارکنگ سے نکلتے دیکھا پھر سر جھٹک کے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
       جاری ہے...
ROMAIZA WEDS SAFEER..
Kuch ko romaiza k liye bura lag rha or kuch ko meeran k liye bhi:)
Meeran py ghussa bhi hain..zahir si baat usny ghalti ki..
Kher se Mubarak hu Romaiza ka rishta 🤝🙂
Ab agli qist long hogi or jhatky daar:)

Ajki episode ka review dena nhi bholna koi!

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now