قسط 17 خود غرض

600 45 6
                                    

وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے بہت ہی آرام سے گاڑی سے اتر کے اسکے روبرو آئے۔رومائزہ کی زبان تالو سے چپک گئی حیرت ہی حیرت تھی۔دل کو جھٹکے ہی جھٹکے لگ رہے تھے۔انکی ہنسی مدھم ہوگئی۔مونچھوں کو تاؤ دیا۔آنکھوں میں تپش اور معنی خیزی تھی۔
"تو تم ہو رومائزہ جس کے لیے میرا بیٹا دیوانہ ہوچکا ہے۔تمھیں روبرو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوگیا ہے میران تمھارے لیے اتنا پاگل کیوں ہے۔"انھوں نے آنکھوں سے چشمہ اتارا۔جس شخص کو وہ صرف ٹی وی اسکرین پہ دیکھتی آئی تھی آج اسکے روبرو کھڑا تھا۔اور وہ لڑکی بھی گویا ایک تصویر سے نکل کے جیسے انکے مقابل تھی۔
وہ ایک برے آدمی تھی۔
"آپ نے کیا ہے نا یہ سب۔آپ کو بدلے سے کیا مل جائیگا؟میرے بابا نے قرض اتار تو دیا ہے پھر یہ دشمنی کیسی اور کیوں!"رومائزہ انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے گویا ہوئی۔زولفقار اس شیر کی بچی،شیرنی کی جرت پہ ششدر تھے۔آنکھوں میں طوفان سا اٹھ گیا۔کسی کی اتنی جرت نہیں تھی کہ ان سے اتنے سخت لہجے میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرلے۔
"یہ میرے کہے پر نہیں میران کے کہے پہ ہورہا ہے۔فارم ہاؤس چلو سب بتادونگا یہاں تماشا کھڑا کرنا اچھا نہیں لگتا۔"آنکھوں پہ چشمہ لگا کے وہ غصہ دبا کر مڑ گئے۔
"اللہ آپ سے ہر ظلم کا حساب لے گا۔"انکے پشت دیکھتے ہوئے وہ چلائی۔وہ جاتے ہوئے ہنس رہے تھے۔
"میں تمھارے ساتھ برا کچھ کر ہی نہیں سکا۔میں صرف اپنی ہونے والی بہو سے ملنے آیا ہوں۔"وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولے۔انکے لفظ اسکی سمجھ سے باہر تھے۔وہ لڑکیاں اسے گھسیٹتی ہوئی دوسری گاڑی میں بٹھا کر واپس لے گئیں۔
وہی دس منٹ کا سفر طے ہوا۔چیخ پکار...آنکھوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔سسکیاں بڑھ گئی۔بل آخر وہ پھر اس فارم ہاؤس میں آگئی تھی۔یہ جگہ بہت خوبصورت تھی پر اسکے لیے ایک بدصورت برا ترین خواب بن کے رہ گئی تھی۔
حلیمہ بی اسے دیکھ پریشان ہوگئیں..انھوں نے ہی اسے سنبھالا۔اور جب زولفقار جاہ کو اندر آتا دیکھا تو حیرت آسمان کو جا پہنچی۔
"حلیمہ بی میران کو بلائیں یہ لوگ پتا نہیں کیا کیا کہہ رہے ہیں۔"وہ رو رہی تھی۔بچوں کی طرح اس نے التجا کی۔
"وہ اٹلی صبح کی فلائٹ سے جا چکا ہے۔جب تک واپس نہیں آتا تم یہی رہو گی۔چاہو تو بنگلے چل سکتی ہو۔حلیمہ اسکا خیال رکھنا تمھارا فرض ہے۔جاہ خاندان کی ہونے والی بہو ہے یہ۔مجھے غلط مت سمجھنا کہ یہ سب میں اپنے بدلے اور انا میں آکے کر رہا ہوں۔مجھے تم سے بدلہ لے کر کچھ حاصل نہیں ہونا۔مجھے میران کی خوشی سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔وہ میرا گدی نشین ہے،جو وہ کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
اس نے جو کہا عبدل نے کیا۔مجھے نہیں معلوم تم دونوں کے درمیان کیا نوک جھوک ہوئی جو اس نے یہ قدم اٹھایا میں پر اسکے غصے سے واقف ہوں۔"ہاتھ پیچھے باندھے وہ کہتے جارہے تھے،چہرے پہ کسی قسم کی نرمی نا تھی۔انکی آخری بات پہ اسکا ذہن اٹک گیا۔پھر بھی اس نے خیال کو جھٹکا ایک بار بے یقینی کی تھی اب نہیں۔
"آپ انتہا کے جھوٹے فریبی انسان ہیں،میں آپ کی باتوں پہ یقین نہیں کرتی۔مجھے میرے گھر بھیجیں۔میران بلاوجہ مجھے کبھی یہاں نہیں رکھ سکتا۔میرے بابا نے قرض دیا ہے سارا حساب ختم!"
"لڑکی آرام سے بات کرو۔تمھارے باپ نے قرض اتارا ہے،پر سود کی رقم میران نے مجھ سے معاف کروائی ہے۔میں نے معاف کردی صرف چند کڑوڑ تمھارے باپ نے واپس ادا کیے۔تمھارا باپ فیکٹری کے ساتھ اپارٹمنٹ بھی بیچ رہا تھا میران نے انھیں اپارٹمنٹ بیچنے سے روکا ہے۔اور سود معاف کرنے کے بدلے میں میران نے تمھیں تمھارے باپ شنواری سے مانگ لیا۔"
"میرے پاس ثبوت نہیں ہیں یقین کرنا ہے تو کرو ورنہ ایک اور الزام مجھ پہ لگ جائیگا تو مجھے فرق نہیں پڑے گا۔یہ یاد رکھنا تمھارے باپ نے واپس تمھیں پلٹ کے دیکھا تک نہیں وہ صرف ملنے ہی آیا تھا۔"انکی باتوں سے روکا کے دل پہ دباؤ بڑھتا جا رہا تھا...رونے سے سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔وہ حیرت کا پتلا بنے سنتی گئی تھی۔ساری دلیری پاش پاش ہوگئی۔
زولفقار جاہ مزید رکے نہیں چلے گئے۔وہ پھر حلیمہ بی کی قدموں کے قریبی گری بیٹھی تھی۔حلیمہ بی کو انکے ایک بھی لفظ پہ یقین نہیں تھا میران اتنا نہیں گر سکتا تھا۔
صرف بدلے کی غرض سے وہ اس لڑکی پہ اتنے ظلم نہیں ڈھا سکتا تھا۔
انھوں نے فون اٹھایا اسے کال لگائی۔بیل جاتی رہی،کافی دیر تک کئی بیلیں گئیں پر اس نے فون ریسوو تک نا کیا۔وہ پریشان ہوگئیں۔
"چھوٹے سائیں یہ آپ نے کیا کردیا۔"وہ زیرِ لب بڑبڑائیں۔
"میں بتاؤں اس نے اس دن کا حساب لیا ہے۔بڑی خاموشی سے چلا گیا تھا نا...طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی وہ۔میں نے اس پہ یقین کرکے غلطی کی۔وہ بڑے جاہ سچ کہہ رہے ہیں۔اس نے سب کو اپنے قابو میں کرلیا۔میرے بابا انکو بھی اس نے مجبور کیا ہوگا۔میرے بابا ورنہ مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔میں نے انکی آنکھوں میں درد دیکھا تھا حلیمہ بی۔اسے لگتا ہے وہ مجھے پا لیگا یہ اسکی غلطی ہے۔میں مرنا پسند کرونگی پر اسکی زندگی میں قدم نہیں رکھونگی!"
"ہاں مجھ سے غلطی ہوئی میں نے بنا سوچے سمجھے اس پہ غصہ کیا الزام لگا دیے۔معافی بھی تو مانگی تھی نا۔پر میں بھول گئی جب مردوں کی انا پہ بات آجائے تو وہ صرف وہی کرتے جو انہیں سہی لگتا۔میں کوئی بھیڑ بکری ہوں جو ہر کوئی مجھ پہ اپنی مرضی چلاتا ہے۔"ٹیبل پہ ہتھیلی رکھ کے وہ اٹھ کر بیٹھی اور غصے میں زور زور سے ہاتھ ٹیبل پہ مارنے لگی۔آنسووں کے بہتے نشان گالوں پہ رقم ہوگئے۔حلیمہ بی نے اسے روکنا چاہا پر وہ بے قابو تھی۔
"رومائزہ سنبھالو خود کو سائیں جب آئیں گے تب ہی سچ پتا چلے گا۔"
"حلیمہ بی یہی سچ ہے۔"اسکا سر انکے کندھے پہ تھا۔
"اس نے میرا بھروسہ توڑا ہے۔پہلے مجھے بھروسہ کرنے پہ مجبور کیا اور پھر خود نے ہی وار کیا۔"انکی آغوش میں سمٹ کے وہ روتی چلی گئی۔اس بار تکلیف،درد کی شدت زیادہ تھی۔اسے ملامت ہورہی تھی دل اسکی جانب گامزن جو ہوگیا تھا۔
"حلیمہ بی اب میں مرجاؤنگی،دم گھٹ رہا ہے میرا۔وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے میں اس کڈنیپر سے ہر گز نہیں کرونگی۔میران سفاک ہے بہت سفاک۔انا کا پجاری ہے۔"آنسو بہاتے سسک سسک کر اسکے منہ سے لفظ نکلے تھے۔حلیمہ بی آج لاجواب ہوگئی تھیں۔رومائزہ کا دل درد کی شدت سے چکنا چور ہوگیا،سوچوں میں صرف میران کے الفاظ تھے،اسکے ساتھ گزارے کچھ لمحے،کچھ خوبصورت یادیں قابض تھیں۔وہ کہتا تھا 'رومائزہ مجھ پہ بھروسہ کرلو تمھاری زندگی سے ہر غم نکال دونگا...'تو اسے بھروسہ کرنے کی یہ سزا ملی تھی؟اب تو اس لفظ سے ہی اسکا اعتبار اٹھ گیا تھا۔
وہ باپ بیٹے دونوں ہی ایک جیسے تھے۔اپنی انا کو تسکین پہچانے والے۔اور ان دونوں کی انا کے آڑوں نقصان رومائزہ شنواری کا ہوا تھا۔
                            ★ ★ ★
مراد کے سامنے ایک فائل رکھی تھی۔مراد نے اٹھا کے پڑھنا شروع کردی۔اسکی چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
"جاہ بنگلے کے ہر ملازم کے نام کا بینک اکاونٹ چیک کرو ان سے جڑے ہر شخص کا اکاؤنٹ دیکھو۔زولفقار جاہ کے گرد ایسا جال بچھاؤنگا کے نکل نہیں پائینگے۔ان کے یہ وکیل اس بار کسی کام نہیں آسکیں گے۔انکی تمام تر پراپرٹی کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی ہے۔ابھی صرف انکی دولت کی بہتی گنگا کا ایک سرہ ملا ہے۔دیکھتے ہیں کدھر ختم ہوتی ہے یہ۔"وہ خورشید سے مخاطب تھا۔دروازے پہ دستک ہوئی۔
"آجائیے۔"دروازہ اندر کی جانب کھلا اسے طفیل کے آنے کی توقع ہر گز نہیں تھی۔ایک تو وہ اسکے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اب کھلے عام دندناتا پھر رہا تھا۔مراد نے مٹھی بھینچ کے ضبط کیا۔
"سلام۔اے ایس پی۔"وہ کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا۔وہی مغرورانہ انداز۔
"کیوں آئے ہو سابق ایم این اے؟"مراد نے طنزیہ لفظوں پہ زور دیا۔وہ استہزایہ ہنسا۔
"تمھاری جاہ خاندان میں اتنی دلچسپی اب مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔مجھے پارٹی سے نکال دیا گیا ہے اور اب ملک میں مزید رہ بھی نہیں سکتا سوچا جاتے جاتے ایک راز بتاتا جاؤں۔پر یہ زولفقار جاہ کا نہیں چھوٹے جاہ کا ہے۔"ٹیبل پہ انگلیاں چلاتے وہ سنجیدگی سے بولا۔مراد نے ریوالونگ چئیر پہ کمر ٹکا دی۔ٹیبل سے بال پین اٹھا کے انگھوٹھے سے کھول بند کرنے لگا۔دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔
"کہو۔"
طفیل ہلکا سا ہنسا۔
"چھوٹے جاہ نے ایک لڑکی کو اغوا کرکے اپنے کسی فارم ہاؤس میں رکھا ہوا ہے۔اور شاید جاہ صاحب کا دل اس معصوم پہ فریفتہ بھی ہے۔"
"کیا بکواس کر رہے ہو تم!"مراد کی پیشانی پہ سلوٹیں ابھر گئیں۔
"اے ایس پی،یقین کرو میرا۔خیر مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔ویسے بھی کچھ عرصے بعد یہاں سے چلا جاؤنگا۔"وہ اٹھ گیا مراد نے اسکی جاتے ہوئے پشت دیکھی تھی۔خورشید اسکے سامنے والی کرسی کھینچ کے جلدی سے بیٹھا۔مراد سوچ میں گم تھا۔
"یہ کیا بتا کے چلا گیا۔میران جاہ کیا واقعی ایسا کرسکتا ہے؟"خورشید نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔مراد نے چہرہ رگڑا۔
"سمجھ نہیں آتا میران پہ بھروسہ کروں کہ نہیں۔بہت پراسرار بندہ ہے یہ اگر اس نے کسی لڑکی کو اغوا کیا ہوگا خدا کی قسم اسکی قبر میں خود کھودونگا۔زولفقار جاہ کے ساتھ مل کر پتا نہیں یہ کیا کر رہا ہے۔ایک صرف اسی پہ مجھے یقین تھا یہ غلط کاموں سے پاک ہے پر اس نے بھی مجھے غلط ثابت کردیا۔"اس نے گھٹن کے مارے کالر لوز کیا۔خورشید سر ہلا رہا تھا۔
"پہلے پتا کرنا پڑے گا طفیل کی بات میں کتنی سچائی ہے۔اسکے دل میں ویسے ہی میران کے لیے نفرت بھری پڑی ہے۔"وہ سامنے گھڑی کو تک رہا تھا۔خورشید کھڑا ہوا مراد نے نگاہ گھڑی سے ہٹائی۔
"میں گھر جا رہا ہوں طبیعت کچھ بہتر نہیں۔اور فلحال کوئی کام نہیں۔اس بارے میں آفیسر ابراہیم کو بھنک بھی نا پڑے۔"وہ تاکید کرتا کھڑا ہوگیا سر پہ کیپ پہنتا روم سے باہر نکل گیا۔
                           ★ ★ ★
     نیمل کو آج باقاعدہ طور پہ بزنس اکاؤنٹنٹ کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔پچھلی اکاؤنٹنٹ نے اپنی شادی کی وجہ سے ریزائن دیا تھا کچھ عرصہ دائم خود ہی اکاؤنٹس ہینڈل کرتا رہا حتی کہ نیمل کے آنے بعد بھی۔
اسکے کیبن کی ونڈو بلائینڈز کھلی تھیں۔
دائم اپنے روم سے نکل کے باہر آیا درمیان میں راہداری سے گزر کے نیمل کا کیبن تھا۔وہ رکا ونڈو بلائینڈ کی جھریوں سے اندر کام میں مصروف نیمل کو دیکھا۔آنکھیں خیرہ ہوئیں لبوں پہ مسکراہٹ پھیلنے لگی۔سیاہ سلکی بال آڑھی مانگ سے نکلے ہوئے اسکے دائیں کندھے پہ گر رہے تھے۔کہنی ٹیبل پہ جما کے اور ہتھیلی کو تھوڑی کے نیچے ٹکائے وہ کام میں بے حد مگن تھی۔نیمل کو کسی کی نظریں خود پہ جمی محسوس ہوئیں تو اس نے سر اٹھایا باہر دیکھا پھر ونڈو بلایینڈز کی طرف دیکھا۔جھریوں میں سے ان دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں۔نیمل نے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے سر جھکا لیا۔دائم بھی گڑبڑا گیا تھا اور آگے بڑھ گیا۔
"یہ کیوں کھڑے دیکھ رہے تھے؟"اس نے سوچا ہی تھا وہ دروازہ دھکیل کے اسکے کیبن میں آیا۔جاتے ہوئے اس نے قدم واپس موڑ لیے تھے۔اسکے کیبن کے آگے سے وہ بڑھ ہی نہیں پایا تھا۔دائم کے آتے ہی وہ کھڑی ہوگئی۔دائم نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"بیٹھی رہیں۔کام میں کوئی مسئلہ تو پیش نہیں آرہا آپکو؟"خاکی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کے وہ کھڑا تھا نیمل اس سے نظریں ملا نہیں سکی۔عجیب سی رمق اسکی آنکھوں میں تھی۔وہ للجھائی۔
"نو سر۔آپ نے ویسے ہی اتنی پریکٹس کروادی ہے۔"اسکے کڑوے طنز پہ وہ ہنس دیا۔اپنی بات کہنے کے لیے وہ لفظ طول رہا تھا۔اسے اندازہ نہیں تھا اس معاملے میں اسے اتنی دشواری ہوگی۔
"کافی پینے چلیں گی؟"کان کی لو مسلتے ہوئے اس نے نہایت سرسرے انداز میں دوسرا ہاتھ بھی جیب سے نکال کر پوچھا۔
"کیا سر؟"
"بریک ٹائم ہے سوچا آپ کے ساتھ کافی پی لوں۔اور آپ کو جو مجھ سے شکوے ہیں وہ بھی تو ختم کرنے ہیں۔"اس نے سینے پہ ہاتھ لپیٹ لیا۔
"اور مجھ پہ یہ مہربانیاں کس لیے؟"کم سن بچی تو وہ بھی نہیں تھی۔تئیس سال کی سمجھدار لڑکی تھی۔
"یہ مہربانیاں ہر ایک کے لیے نہیں ہوتیں۔آپ چل رہی ہیں؟"
ہاتھ نکال کے اس نے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کیا۔ٹھنڈ میں بھی اسے پسینے آگئے تھے۔نیمل نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔
"میں کافی نہیں چائے پیتی ہوں۔"ایک قدم بڑھا کے وہ اسکی ٹیبل کے نزدیک آیا۔نیمل کا صبح سے ہی سر دکھ رہا تھا۔کام سمیٹ کے اسکا اپنا ارادہ چائے پینے کا تھا۔
"ٹھیک ہے چائے ہی لینگے۔پسند بدل لیں گے ہم اب اپنی۔"
زیرِ لب وہ بڑبڑایا۔نیمل کھڑی ہوگئی۔کرسی کی پشت سے اس نے کوٹ اٹھا کے کندھوں پہ ڈال لیا اور ٹیبل سے ہینڈ بیگ اٹھا کے اسکے قریب سے آگے بڑھ گئی۔دائم گہری ہوتی مسکراہٹ کے ساتھ اسکے پیچھے ہولیا۔
   یہ اگلا منظر کیفے کا تھا۔درمیان کی ہی ٹیبل تھی جسکے اطراف صرف دو ہی کرسیاں تھی جن پر وہ دونوں بیٹھے تھے۔دائم نے بھی اپنے لیے چائے آرڈر کی تھی۔
بیرا انکی ٹیبل پہ آرکا۔ٹرے سے دو چائے کے کپ ان دونوں کے سامنے رکھے اور چلا گیا۔اتنی دیر دونوں کے درمیان خاموشی تھی۔دائم نے چائے کا گرم کپ اٹھالیا۔نیمل چائے ٹھنڈی کرنے کے لیے کپ میں چمچ چلا رہی تھی۔اتنی دیر تک وہ ادھر ادھر دیکھتا رہا۔
"مس نیمل۔"کپ واپس ٹیبل پہ رکھتے اس نے مخاطب کیا۔نیمل نے اسے دیکھا۔
"سر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیں۔"وہ کافی دیر سے اسکی الجھن نوٹ کر رہی تھی۔دائم کا انداز عجیب تھا وہ یہی جاننے کے لیے اسکے ساتھ آگئی تھی۔
"کہنے کی کوشش کر رہا ہوں پر کہہ ہی تو نہیں پارہا۔"وہ سوچ ہی سکا۔دائم کیا ہوگیا کہہ دو اتنا بھی مشکل نہیں۔ایک اظہار کے لیے تم اتنا گھبراؤگے۔ون ٹو تھری!کم آن دائم..
"میں آپکو پسند کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔"اس نے فوراً چائے کا گھونٹ بھرلیا۔نیمل کے اردگرد سب ٹھہر سا گیا۔وہ جھینپ گئی۔بے اختیار ری ایکشن تھا۔کپ لبوں سے ہٹایا چائے اندر اتارنے کے بعد دائم کی مسکراہٹ میں مزید اضافہ ہوا۔
"آپ مجھے مشکل میں ڈال رہے ہیں۔"وہ فوراً کھڑی ہوگئی۔کندھے سے گزرتے بیگ اسٹریپ کو مضبوطی سے پکڑا۔
"ارے تم بیٹھو تو سہی۔"وہ لمحے میں آپ سے تم پہ آیا۔نیمل کو حیرانی نہیں ہوئی تھی۔
"سر میرے مام ڈیڈ نے مجھ پہ بھروسہ کیا ہے اور مجھے جاب کی اجازت دی۔میں انکا بھروسہ نہیں توڑ سکتی۔میری غلطی ہے جو میں آپکے ساتھ چایے پینے آگئی۔"دائم اسکی بات سنتا کھڑا ہوگیا۔
"میں نے کوئی غلط بات تو نہیں کی۔تم سے شادی ہی کرنا چاہتا ہوں۔"
"اسکے لیے آپ میرے مام ڈیڈ سے بات کریں۔میں جاب کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلی ہوں نا کہ..."
"مس نیمل بس...ٹھیک ہے،آپ بیٹھیں چائے پی کر جائیگا۔"
"آپ مجھ سے آئندہ یہ بات نہیں کریں گے۔"اس نے آنکھیں دکھا کر کہا۔
"اوکے اوکے۔"دائم نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔پر وہ مطمئن تھا۔کم ازکم نیمل نے انکار تو نہیں کیا تھا۔چائے کے ختم ہوتے ہی نیمل اٹھ گئی تھی۔
اور اس درمیان دونوں اجنبیوں کی طرح بیٹھے رہے تھے۔
                          ★ ★ ★
عائشے یونی سے واپس آکے زرپاش کے پاس چلی گئی تھی۔مراد سیدھا زرپاش کے کمرے میں آیا۔عائشے کچھ دیر بیٹھی رہی پھر اسکے لیے کھانا گرم کرنے کے لیے کچن میں چلی گئی۔
اسکی زندگی میں محمل کے جانے کے بعد گویا سکون سا آگیا تھا۔اب سب ٹھیک تھا بس ایک روما کا خواب تھا جو اسے ستا رہا تھا۔
"مراد کیا ہوا ٹھیک نہیں لگ رہے ہو۔"وہ دونوں بیڈ پر ہی بیٹھے تھے۔مراد نے سر انکی گود میں رکھ لیا۔سانس خارج کی۔زرپاش متفکر ہوئیں۔انھوں نے اسکا ماتھا چھوا۔وہ بخار میں جل رہا تھا۔
"بخار ہورہا ہے تمھیں تو۔"اسکی تھوڑی انھوں نے تھام لی۔
"بیٹا کیا بات پریشان کر رہی ہے مجھے بتاؤ۔میں دیکھ رہی ہوں کافی دنوں سے تم دیر رات تک گھر آرہے ہو۔کونسے کیس میں مصروف ہو؟"انھوں نے اسکی پیشانی پہ سے بال ہٹائے۔ماں کے لمس پہ اس نے آنکھیں موند لیں۔
"کوئی بات نہیں ہے..."
"جھوٹ نہیں سچ کہو۔ماں ہوں تمھاری شکل سے پریشانی صاف جھلک رہی ہے۔"وہ کتنا ہی پریشانی چھپا لیتا پر ماں کی نظروں سے کیسے چھپ سکتا تھا۔وہ جائزہ لیتی نگاہوں سے اسکا چہرہ تکنے لگیں۔
"مام....مجھے یہ خبر ملی ہے کہ جاہ نے ایک لڑکی کو اغوا کر رکھا ہے۔"اس نے سرخ ہوتی آنکھیں کھول لیں۔زرپاش کا اسکے بالوں میں چلتا ہاتھ اچانک تھم گیا۔
"وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے.."
"پسند کرتا ہے شاید اسے۔"وہ اٹھ کے بیٹھ گیا پیر بیڈ سے لٹکا لیے۔
"تو تم اس لیے پریشان ہو؟"وہ اسکے تاثرات کا جائزہ لینے لگیں۔
"مام سمجھ نہیں آرہا کس پہ بھروسہ کروں۔کیس کے بارے میں بعد میں بتاؤنگا دعا کریے گا کامیاب ہوجاؤں۔یہ کیس میرے لیے بہت اہم ہے۔"اسکی آنکھوں میں جنون دیکھ زرپاش ٹھٹک کے رہ گئیں۔
"مراد....کس کے متعلق کیس ہے؟"انکی چھٹی حس تیزی سے پھڑکی۔مراد کھڑا ہوگیا۔
"بہت جلد پتا چل جائیگا۔میں زرا فریش ہو لوں۔"وہ مزید اب بیٹھ نہیں سکتا تھا کیونکہ زرپاش سوال جواب کرکے اس سے اگلوانے کی کوشش ضرور کرتیں۔وہ باہر نکل گیا۔اسکے جانے کے بعد زرپاش گہری سوچ میں پڑ گئیں۔
                             ★ ★ ★
"مراد آپکو اتنا تیز بخار ہورہا ہے۔"کھانے کے بعد وہ لیٹ گیا۔عائشے نے تھرمامیٹر سے بخار چیک کیا۔اسے تو پارا ہی سمجھ نہیں آرہا تھا کہاں ٹہھرا ہے۔مراد نے خود دیکھ کر بتایا تھا۔
"چلیں ڈاکٹر کے کلینک چلتے ہیں۔"وہ دوپٹہ سنبھالتی کھڑی ہوگئی۔
"ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں آرام کرونگا تو بخار اتر جائیگا۔"اس نے آنکھوں کے پپوٹے دبائے عائشے سوچ میں پڑ گئی۔وہ باہر چلی گئی۔مراد نے آنکھیں موند لیں۔تھوڑی دیر بعد اسے پیشانی پہ ٹھنڈی سی چیز محسوس ہوئی۔اس نے آنکھیں کھولیں تو عائشے ٹھنڈی پٹیاں کر رہی تھی۔
"ڈاکٹر کے پاس آپکو جانا نہیں تو پٹیوں سے گزارا کرنا پڑے گا۔مجھے جب بھی بخار ہوتا تھا امی بھی میرے ٹھنڈی پٹیاں رکھتی تھیں۔"اس نے پٹی ہٹا کر دوسری پٹی پانی کے باؤل میں نچوڑ کے اسکے سر پہ رکھی اور ہلکے ہلکے سر دبانے لگی۔مراد کے اندر سکون اترا۔بنا کچھ کہے مسکراتے ہوئے اس نے عائشے کا ہاتھ تھام کے دل کے مقام پہ رکھ لیا۔عائشے نے اسے آنکھیں دکھائیں پر اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا اور آنکھیں بند کر لیں۔عائشے مسکراتے ہوئے کافی دیر اسکی پٹیاں کرتی رہی جب تک مراد سو نا گیا۔اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالا۔اذانیں ہورہی تھیں۔پھر وہ مغرب پڑھنے کے لیے اٹھ گئی۔
نیلے سوٹ کی میچنگ کا دوپٹہ چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔سلام پھیر کے اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔تمام چیزوں کا اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ کئی دعائیں مانگیں،اسکے اور مراد کے ہمیشہ ساتھ کی...اور خاص کر رومائزہ کے لیے۔اسکے بارے میں سوچ کے دل پھڑکنے لگتا تھا۔یہ سب نارمل نہیں تھا۔
دعا مانگ کے وہ کھڑی ہوگئی۔واپس مراد کے پاس آئی۔کچھ پڑھ کے اس پہ دم کیا تھا۔اسکی پیشانی پہ بال گرے تھے ہٹا کے پیچھے کیے۔وہ گہری نیند میں تھا۔کافی دیر اسے ایسے ہی دیکھنے کے بعد عائشے نے اپنی شش و پنج سے باہر نکل کر جھک کے اسکی پیشانی چومی اور کھڑی ہوگئی۔بخار کم ہوگیا تھا۔اسے اسائمنٹ بنانا تھا کمرے کی لائٹس بند کرکے اپنا سامان لے کر باہر نکل آئی۔
                           ★ ★ ★
"مام..."نیمل آفس سے آکے فریش ہوکے سیدھا انکے کمرے میں آئی۔ارباز دمیر اپنے دوستوں کے ساتھ ڈنر پہ گئے تھے۔
"آجاؤ کھڑی کیوں ہو۔آج تو میرے دونوں بچوں کے تاثرات ہی بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔"اپنا خیال زبان پہ لاتے کہا۔
"مام آئی وانٹ ٹو ٹیل یو سمتھنگ۔"وہ ہچکچاتی ہوئی سامنے صوفے پہ جاکے بیٹھ گئی۔
"بتاؤ کیا بات ہے۔"انھوں نے اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔
"مجھ پہ غصہ بلکل نہیں کریں گی؟"
"نیمل!"انھوں نے گھورا تو وہ برا سا منہ بنا کر سیدھی ہوئی۔لب کترے۔
"مام..میرے جو باس ہیں مسٹر دائم علی انھوں نے مجھے کہا ہے کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔میں نے کہہ دیا آپ لوگوں سے بات کریں۔"ڈرتے ڈرتے ہمت کرکے اس نے بتادیا۔
"ادھر تو آؤ زرا۔"انکے چہرے پہ کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا وہ پریشان سی ہوگئی۔
"مام میں نے کچھ نہیں کیا۔اسی لیے فوراً آپکو بتانے آئی ہوں۔"وہ اٹھ کے انکے پاس آئی۔
"تمھیں پسند ہیں وہ؟"زرپاش نے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔
"نن نہیں تو..."وہ گڑبڑا گئی تھی۔
"مرتضیٰ صاحب نے کل ہی تمھارے ڈیڈ سے اس سلسلے میں بات کی تھی۔"انکے بتانے پہ وہ لاجواب ہوگئی۔حیرت سے ماں کو دیکھا۔کیسے دائم کو بول آئی تھی رشتہ بھیجیں۔اسے سوچ کر خفت ہوئی۔
"ڈیڈ نے کیا کہا؟"
"انھوں نے فلحال کوئی جواب نہیں دیا۔مراد سے بھی بات کرینگے۔"
"بھائی آگئے ہونگے ویسے۔"اسکی بے چینی پہ زرپاش نے مسکراہٹ روکی۔
"بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ایک دو دن میں بات کرونگی۔تمھارا فیصلہ جاننا بھی ضروری ہے۔"
"جو آپ لوگ فیصلہ کریں گے مجھے قبول ہے۔"اسکا مشرقی لڑکیوں والا انداز تھا۔پھر کچھ انکے پاس بیٹھی رہی۔
                           ★ ★ ★
  ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
     دن گزرتے جا رہے تھے۔ایک کے بعد ایک زندگی کا صفحہ پلٹتا گیا۔ارباز صاحب نے نیمل اور دائم کے رشتے کی بات مراد سے کی تھی۔مراد نے انکار کردیا تھا۔دائم میران کا قریبی دوست تھا وجہ یہی تھی بس۔پر اس نے گھر والوں کو یہ وجہ نہیں بتائی تھی۔یہی کہا کہ وہ مطمئن نہیں۔اسکے جواز پہ کوئی بھی مطمئن نہیں ہوا تھا۔پر جب وہ منع کر رہا تھا تو کوئی وجہ ضرور ہونی تھی۔ارباز دمیر اور زرپاش اسی لیے خاموش ہوگئے تھے۔وہ بے شک بتا نہیں رہا تھا پر وہ اپنے بیٹے کو بخوبی سمجھتے تھے۔پر اس سب میں نیمل کافی چڑچڑی ہوگئی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا بھائی کیوں رشتہ سے راضی نہیں۔
دائم کے سامنے اس نے اعتراف نہیں کیا تھا پر حقیقت یہی تھی دائم کے لیے اسکے دل میں جگہ بن چکی تھی یقیناً اسکے پرپوزل کے بعد۔خوش مزاج اور ڈیسنٹ سا لڑکا تھا۔کوئی برائی نہیں تھی۔پر یہ پسندیدگی اس نے خود سے بھی چھپا رکھی تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی کوئی ایسا فیصلہ ہو جو اسکا دل توڑ دے۔اسے امید تھی مراد راضی ہو جائے گا۔دنیا امید پہ ہی تو قائم ہے۔دوسری طرف دائم کو اے ایس پی پہ غصہ چڑھا ہوا تھا۔نیمل اور اسکے درمیان باس اور ایمپلائے کا رویہ ہی تھا۔نیمل نے ہر گز اپنی حدود پار نہیں کی تھی نہ ہی دائم کو کرنے کی اجازت دی تھی۔
پر دائم اس پر اپنے لیے اسکی پسندیدگی بھانپ چکا تھا۔
میران بھی یہاں موجود نہیں تھا جو وہ اسکی مدد مانگ لیتا۔فلحال دونوں جانب سے صبر سے کام لیا جا رہا تھا۔اور میران کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
       جاری ہے.....
Han jee episode choti lag rhi hogi qk mene long episode dekr adat bigar di..pr jaldi ayi episode..

Comments or vote krein InShaAllah agli episode bhi jaldi ayegi..Ap sb ka response hi himmat or energy deta likhny ki👍
Any idea agy kia hony wala hai?

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now