قسط 23 شطرنج

596 52 11
                                    

                            ★ ★ ★
بنٹ گیا ہے دل میرا کئی ٹکروں میں
اب تو جینے کی بھی تمنا نہ رہی
میں جو مانگوں ان سے خطائے معافی
وہ کہتے ہیں بار بار نہیں مل سکتی
وہ شریک کر رہا محبت میں کسی اور کو
بتاؤ محبت میں شراکت برداشت نہیں ہوتی
       ٹیرس پہ بامبو کی کرسی پہ بیٹھا وہ کافی دیر سے چاند کو تک رہا تھا۔رومائزہ کی شادی کا سن کر اس کے اندر توڑ پھوڑ ہوچکی تھی۔ایک لاوا اندر بہہ رہا تھا جسے وہ باہر تک نہیں نکال سکتا تھا۔اسے لگ رہا تھا وہ اسکی سانسیں چھین رہی ہے،اسکے بغیر جینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اس نے تو اپنی پوری زندگی اسکے ساتھ گزارنے کے خواب دیکھ لیے تھے۔وہ مانوس ہوگیا تھا۔اسکو کیسے اپنی جگہ کسی اور کے ساتھ دیکھ سکتا تھا۔یہ سوچ ہی اسکی جان نکال رہی تھی۔اندر ہی اندر سلگ رہا تھا،مر رہا تھا۔
عبدل اور شمش اسکی فکر میں اوپر چلے آئے۔فرید نے انھیں اسکے لیے چائے بنا کر دی تھی۔
عبدل اسکے قدموں میں بیٹھ گیا شمس تھوڑا فاصلے پہ کھڑا تھا۔میران ان دونوں کی موجودگی سے بے خبر تھا اسکی ساری توجہ چاند کی طرف تھی۔کتنا خوبصورت تھا یہ چاند اسکی محبت کی طرح پر اسکا داغ جو لوگ نظر اندر کردیتے تھے،ایسے ہی اسکی غلطی ایک داغ کی صورت اختیار کرگئی،پر ایسا داغ جو معافی کے قابل نہیں تھا۔
بے بسی کی انتہا پہ تھا وہ..
"میران بابا کب تک ایسے بیٹھیں رہیں گے؟"
شمس نے ہمت کرکے پوچھ لیا۔میران نے ان سنی کی۔شمس نے آگے بڑھ کے ٹیبل پہ چائے کا کپ رکھ دیا۔میران کی محویت میں خلل آیا اس نے نگاہیں کپ پر جما لی۔اس نے ہاتھ بڑھایا تو عبدل نے فوراً کپ اسکو تھما دیا۔
"سائیں آپکو اس حالت میں ہم نہیں دیکھ سکتے۔آپ شیروں کی طرح اچھے لگتے ہیں ایسے نہیں۔"عبدل کا دل ڈوب رہا تھا۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔میران کے لبوں پہ تمسخر سے مسکراہٹ آگئی۔
"جاو تم لوگ..."وہ دونوں اسکی حکم عدولی کرتے بیٹھے رہے۔اور اس ہارے ہوئے جواری کو دیکھنے لگے۔
"میران بابا بہت ہوگیا آپکی یہ اجڑی حالت دیکھی نہیں جارہی ہے۔بس ایک حکم کریں میڈم کو اٹھا کے پاس سامنے حاضر کردیں گے۔پھر آپ ہی ان سے نکاح..."
"عبدل بکواس نہیں۔"وہ عبدل کی بات کاٹتے ہوئے دھاڑا اور پیر کی ٹھوکر سے ٹیبل دور پھینکی۔
"تم لوگ چاہتے ہو کہ وہ مجھ سے مزید نفرت کرے؟مر رہا ہوں اسکی نفرت کی آگ میں۔"اچانک وہ بپھر گیا تھا۔عبدل کی بات اسے تیش ہی تو دلا گئی تھی۔
"آپکو ہماری بھی عمر لگ جائے سائیں۔ایسی باتیں نہ کریں۔"شمس تڑپ کے بولا۔میران نے استہزایہ اسے دیکھا پر کچھ بولا نہیں۔
اسکی جانب سے نادر خاموشی پاکر تھوڑی دیر بعد وہ دونوں منہ لٹکا کر چلے گئے۔
"یہ سب اس عزیز کی وجہ سے ہوا ہے۔"سیڑھیوں سے اترتا شمس عبدل سے مخاطب ہوا۔عبدل نے جبڑے کس کے اسے دیکھا۔اسکا دل کرتا تو ابھی اسے سیڑھیوں سے پھینک دیتا۔وہ بس اسے گھور کے رہ گیا۔
"تمھیں سائیں کی اتنی فکر کیوں ہے؟"
"کیوں نہ ہو؟میں وفادار بڑے جاہ کا ہوں پر چھوٹے سائیں سے محبت اپنی جگہ ہے۔"
"محبت؟"عبدل طنزیہ پھنکارا۔شمس کو کچھ غلط محسوس ہوا۔پر اپنا وہی سمجھ کے اس نے نظر انداز کردیا۔
                             ★ ★ ★
دوسرا دن تھا۔ہفتہ تھا آج انکی کوئی کلاس نہیں تھی تینوں کا آف تھا۔رومائزہ فجر پڑھ کے اٹھی اور کمرے سے باہر آگئی۔سفیر جاگنگ کرکے واپس آیا تھا۔کل کے بعد دوبارہ اس سے بات ہو نہیں سکی تھی۔وہ اسے نظر انداز کرتی کچن میں جانے لگی سفیر نے اسکی حرکت نوٹ کی۔
"کیا تم ناراض ہو؟"
پشت سے اسکی آواز سن کے وہ مڑی۔
"تو کیا نہیں ہوں؟آپ نے اس سے منگنی کا جھوٹ کیوں بولا!"
"اس میں برائی تو نہیں،ویسے بھی شادی تو ہماری ہونی ہی ہے۔"
"یہ غلط تھا سفیر بھ..."وہ چپ ہوگئی۔
"وہ تمھیں کتنی بھی تکلیف پہنچاتا پھرے پر تم اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتیں۔"اس پہ نظریں جمائے سفیر نے سنجیدگی سے کہا۔رومائزہ نے نظریں پھیر کے ادھر ادھر دیکھا۔لب تر کیے۔
"اس جھوٹ کی ضرورت نہیں تھی۔مجھے اچھا نہیں لگا۔"
"اوکے آئی ایم سوری..."اس نے غلطی تسلیم کرتے کہا۔
"اٹس اوکے۔ناشتہ کریں گے؟"لہجہ نارمل کرتے اس نے پوچھا سفیر سر ہلا کے اندر بڑھ گیا۔اسے روما کا انداز بے حد کھٹکتا تھا۔اسے میران سے محبت تھی؟پر وہ نفرت کی دعویدار تھی۔وہ اسے سمجھ نہیں پایا تھا۔سفیر تو بس اسکا اچھا چاہتا تھا اور کچھ نہیں۔
                          ★ ★ ★
          گیارہ تاریخ تیسرا مہینہ...مراد کی تیاری دیکھ عائشے کو اچھنبا ہوا۔بڑا مصروف سا وہ بال جیل سے سیٹ کر رہا تھا۔پھر سر پہ کیپ رکھ لیا۔وردی کے کف لنکس بند کیے۔پھر صوفے پہ آکے جوتے پہننے لگا۔عائشے نے کھڑکی سے باہر جھانکا،فجر کا وقت تھا وہ اتنی جلدی جا رہا تھا؟وہ تو رضائی میں گھسے نیند میں خمار آلود آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔پھر کروٹ لیتے آنکھیں بند کرلیں۔
تیار ہوکے وہ باہر نکل آیا زرپاش کمرے سے باہر نکل رہی تھیں اسے صبح صبح جاتے دیکھ چونک گئیں۔
وہ سلام کرنے انکے پاس آگیا اور پیار سے انھیں خود سے لگا لیا۔وہ کافی دیر ان سے لگا رہا۔
"دعا کریے گا کامیاب لوٹوں.."
انکے بال چومتا وہ بیچھے ہٹا۔"میری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔سلامت رہو ہمیشہ۔"جب جب وہ کیس کے آخری مرحلے پہ ہوتا زرپاش سے اسی طرح مل کے جایا کرتا تھا۔
"بابا سو رہے ہیں؟"
"ہاں،کہو تو جگا دوں؟"
"نہیں رہنے دیں انھیں بس بتادیجیے گا۔"
"مراد بتا کہ جاؤ کیا معاملہ ہے؟کس پہ ہاتھ ڈالنے والے ہو تم.....کہیں؟"
زرپاش نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیا۔مسکراہٹ اسکے چہرے سے غائب ہوئی اس نے انکی آنکھوں میں دیکھ سر ہلایا۔زرپاش کا ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹ گیا۔وہ شدت سے آگے بڑھ کے انکا ماتھا چوم کے نکل گیا۔زرپاش جگہ پہ منجمد کھڑی رہ گئیں۔انکے دل کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھ گئی۔خود کو سنبھالتے اپنا وجود گھسیٹتی وہ کمرے میں چلی گئیں۔آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر پھسلے۔
"مراد میرے بچے کیا کر رہے ہو تم.."دل میں انھوں نے اسے پکارا۔وہ انھیں کچھ کہنے سنانے کا موقع دیے بغیر ہی جا چکا تھا۔انکی آہٹ اور سسکیوں پہ ارباز دمیر جاگ گئے تھے۔
                            ★ ★ ★
      صبح کی فلائٹ تھی،اپنا بورڈنگ پاس لیے وہ اٹھ کھڑی ہوئی،ہینڈ کیری گھسیٹتی ہوئی اپنی منزل کی جانب چل پڑی تھی۔ائیر پورٹ پہ سناٹا تھا۔اس نے اب سیدھا پیرس لینڈ کرنا تھا لوگوں کا ہجوم بے حد کم تھا۔وہ آگے بڑھ رہی تھی پیچھے سے سیٹی کی آواز پہ رک سی گئی۔سیٹی جو اسکو روکنے کے لیے ہی بجائی گئی ہو۔
یلدیز نے پلٹ کر دیکھا،اسکے چہرے پہ اطمینان تھا۔
آج پھر وہی مرحلہ تھا،لیڈی پولیس نے پھر اسکی تلاشی لینی شروع کی۔یلدیز کی سانسیں حلق میں اٹک گئیں۔جبڑے بھینچ کر وہ کافی دیر انکو تلاشی لیتا دیکھتی رہی۔انکے ساتھ کھڑے پولیس آفیسر کے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔یلدیز سے نظریں ملنے پہ وہ اسکی جانب طنزیہ مسکراہٹ اچھال دیتے۔
یلدیز کے لب مانو سکڑ گئے۔
   لیڈی نے آگے بڑھ کے اسکے ہاتھ سے بریف کیف چھین کے زمین پہ پھینکنے کے انداز میں رکھا۔یلدیز آنکھیں بند کر گئی۔اس نے آنکھیں کھولیں تو لیڈی بریف کیس واپسی بند کرکے اسے تھما رہی تھی۔طنزیہ مسکراہٹ آفیسر پہ ڈال کے اس نے بریف کیس تھام لیا۔آفیسر کی شکل پہ بجے بارہ اسے ہنسنے پہ مجبور کر رہے تھے۔وہ مسکراہٹ روکتی واپس پلٹنے کے لیے ہینڈ کیری کا ہینڈل پکڑنے لگی۔لبوں پہ گہری مسکراہٹ پھیلی تھی،
     "آفیسر تم ایسے ہی یلدیز یلماز کو پکڑ نہیں سکتے۔"
وہ دل میں ناگواری سے پھنکاری۔کھیل کا کاؤنٹ ڈاؤن اسٹارٹ ہوچکا تھا۔اگر مراد اپنی ایمانداری میں نمبر ایک تھا تو مقابل زولفقار جاہ تھے جو بے ایمانی میں دو نمبر تھے۔
پیچھے مسلسل فلاٹس کی ہدایتیں بورڈ کی جانب سے کی جا رہی تھیں انکی آواز خاموشی توڑ رہی تھی۔بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے وہ ائیر پیس درست کر رہی تھی اچانک اگلا منظر دیکھ مسکراہٹ سمٹ گئی۔انگلیاں ائیر پیس پہ جم گئیں۔جسم نے جیسے جان چھوڑ دی ہو۔آنکھیں گویا پتھر ہوگئیں۔
گولڈن بالوں والی ایک لڑکی جو بلیک کوٹ پینٹ میں ملبوس تھی حلیہ بلکل یلدیز جیسا تھا،اسکی طرف آرہی تھی۔خود سے نہیں آرہی تھی بلکہ لیڈی آفیسر اسے اپنے ساتھ زبردستی ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال کر لا رہی تھی۔جن کے ہاتھ میں ایک کیس تھا۔اور منظر ابھی مکمل نہیں تھا۔پیچھے سے جب کوئی دراز قد کا اچھی اٹھان والا آفیسر تیز قدم لیتا ان دونوں کے اطراف سے نکل کر آگے بڑھاتا ہوا چلتا چلا آرہا تھا،قدم اسی کی جانب تھے۔
یلدیز کے پیروں تلے زمین اب کھسک گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پولیس اس احاطے میں پھیل گئی۔
لیڈی نے جھٹکے سے لا کر اس لڑکی کو اسکے سامنے چھوڑا۔وہ لڑکھڑا کے سنبھلی۔یلدیز نے پھٹی آنکھوں سے غرا کے اسے دیکھا جو بے بسی سے شانوں اچکا رہی تھی۔
"یلدیز یلماز گیم از اوور ناؤ..."لیڈی سے بیگ لے کر اے ایس پی مراد نے بریف کیس کھول کے اسکے سامنے کیا اور ایک ہینڈ کیری جو اس لڑکی کے پاس تھا اسے پیر کی ٹھوکر سے ہلایا۔دوسرے آفیسر نے اسکی زیپ بھی کھول دی۔
یلدیز آنکھیں پھاڑے ایک نظر اس بڑے سے ہینڈ کیری سوٹ کیس کو دیکھتی پھر بریف کیس کو،دونوں ڈالرز کی گڈیوں سے لدے ہوئے تھے۔
وہ بوکھلا گئی،کپکپی طاری ہوئی۔
حیرانی سے سامنے کھڑے شخص پہ نظر ڈالی۔سارا پاسا مراد نے الٹ کے رکھ دیا تھا۔وہ بے یقینی کے عالم میں کھڑی تھی۔
خورشید اور باقی حوالدار اسکے ساتھ شامل تمام آدمیوں کو گرفتار کرکے لے آئے جو اس پہ نظر رکھے ہوئے تھے،جس نے اسکی مدد کی اور کیسے وہ اتنے ڈالرز سے بھرے بیگ اندر لانے میں کامیاب ہوئی۔سب پولیس کی حراست میں لیے جا چکے تھے۔صبح سات بجے کا یہ وقت تھا۔
"آفیسر نائلہ اریسٹ ہر..."مراد نے کیس بند کرکے سائڈ میں رکھا اور جیبوں میں ہاتھ ڈال کے پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا۔
"آفیسر مجھے کس لیے اریسٹ کر رہے ہیں اور یہ سب کیا چل رہا ہے؟"ہوش سنبھالتے اس نے لاعلمی ظاہر کرتے پوچھا۔
"محترمہ آپ سب جانتی ہیں یہ سب کیا ہے۔بے فکر رہیں میں بنا ثبوت کے کسی کو اریسٹ نہیں کرتا اور آپکا حساب کتاب میرے پاس موجود ہے۔میں امید کروں گا آپ اپنے منہ سے قبول کریں گی کہ کس کے لیے آپ کام کرتی ہیں۔"مراد انتہائی مؤدب طنزیہ انداز میں کہہ رہا تھا۔یلدیز نے صبر کا گھونٹ پیا۔
"کسی کو بچانے سے آپکو کچھ نہیں ملے گا،وہ کسی صورت آپکو جیل سے رہا نہیں کروایں گے انھیں اپنا منہ نہیں کالا کروانا۔سچ سچ سب اگل دیں تاکہ بعد میں ضمیر کسی قسم کی ملامت کا شکار نہ ہو.."
آنکھیں اسکی آنکھوں میں ڈال کر وہ اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوگیا۔ائیرپورٹ کا یہ حصہ فلحال سیل کردیا گیا تھا۔میڈیا کے پہچنے سے پہلے وہ اسے یہاں سے نکال لینا چاہتا تھا،ابھی یہ خبر دنیا کے سامنے لانے کے لیے نہیں تھی۔یلدیز سوچ میں پڑ گئی اسے ہی دیکھنے لگی جسکے چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔آنکھوں میں عجیب سی چبھن جو یلدیز یلماز کو الجھا رہی تھی۔
وہ حیران تھی آخر وہ کیسے پکڑی گئی!
مراد کو اس سب کی خبر کیسے ہوئی کیسے اس نے کھیل کا رخ ہی بدل دیا۔
                        ★ ★ ★
  یلدیز کے گرفتار ہونے کی خبر جاہ بنگلے میں قیامت کی طرح ٹوٹ پڑی تھی۔شمس کو چند لمحوں پہلے کسی کارندے نے اطلاع کردی تھی کہ اے_ایس_پی مراد نے اسے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے حراست میں لے لیا ہے۔
زولفقار میران سے یہ معاملہ ڈسکس کر رہے تھے باہر شور سا پیدا ہوا۔
مراد اور نیب کی ٹیم اریسٹ وارنٹ لیے بنگلے میں داخل ہوچکی تھی،ساتھ ہی کئی آفیسرز اور حوالدار انکے ساتھ تھے۔
مراد زولفقار جاہ کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے کے لیے چارج کیا گیا تھا اور آج اس نے اپنا فریضہ انجام دے دیا تھا۔
"کدھر گھسے چلے آرہے ہو؟"زولفقار جاہ ہال میں موجود تھے۔انھیں ایسے بے دھڑک گھستا دیکھ غصے سے سوال کیا۔
"وزیرِ اعلی صاحب باراتی ایسے ہی آتے ہیں۔"
اریسٹ وارنٹ کا پرچہ لیے وہ پھنکارتا ہوا انکے عین سامنے آن کھڑا ہوا اور انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔وہ مضبوطی سے چٹان سا سینہ تانے اسکے سامنے کھڑے رہے۔پر دل کی دھڑکنوں میں ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی جو انھوں نے ظاہر ہونے نہیں دی تھی۔
پولیس ہر طرف پھیل گئی،بنگلے میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔میران سارا منظر دیکھ کر سمجھنے لگا۔اس نے سرد آہ بھری پھر چلتا ہوا باپ کے برابر میں آن کھڑا ہوا۔مراد نے ایک نگاہ اس پہ ڈالی پھر اریسٹ وارنٹ فولڈ کرکے ہاتھ پیچھے باندھ لیے۔
"زولفقار صاحب آپکو اربوں روپوں کی کرپشن کرنے کے الزام ہم گرفتار کرنے آئے ہیں۔"
ایک لمحے میں وہ اپنے زرا سے جملے سے انکا سکون برباد کرگیا تھا۔زولفقار کو لگا کسی نے انھیں گہرے گڑھے میں دھکیل دیا ہوا۔یہ اے ایس پی اس حد تک کامیاب ہوجائیگا انھیں امید نہیں تھی،اگر زرا سی بھی توقع ہوتی تو وہ اسے کنارے سے لگوادیتے۔پر شاید اسکے پیچھے بھی بڑے خاص لوگوں کا ہاتھ تھا جو وہ ٹکا ہوا تھا۔
کسی سرکاری افسر کی اتنی جرت نہیں تھی کہ وہ یوں زولفقار کے بنگلے انھیں اریسٹ کرنے آجاتا پر مراد نے انکے غرور پہ پیر رکھ دیا تھا۔
"فلحال بنگلے میں موجود ہر شخص کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا جائے گا۔"
وہ طنزیہ مسکراہٹ سجائے اطمینان سے کہہ رہا تھا.....آخری نگاہ اس نے میران پہ ڈالی۔
"میران جاہ آپکو بھی۔"عجیب سا جنون اسکی آنکھوں ہلکورے لے رہا تھا۔زولفقار کو ان آنکھوں سے شبہات محسوس ہوئی۔وہ سر جھٹک کے رہ گئے۔
"جب تک میرا وکیل نہیں آتا اے ایس پی تم کچھ نہیں کروگے۔"
"خورشید اریسٹ کرو انھیں،ساری باتیں اب بعد میں ہونگی۔"اس نے جبڑے بھینچ کر کہا اور ایک ہتھکڑی لے کر میران کی جانب بڑھا۔
"تمھاری اتنی جرت کے تم زولفقار جاہ کو ہتھکڑی لگاؤ گے۔"وہ پھنکارے۔وہ سمجھ نہیں پائے تھے اچانک ہو کیا گیا ہے۔ان سرکاری افسروں کے درمیان کئی بندے انکے اپنے تھے پر سب مراد کے انڈر کام کر رہے تھے۔فلحال کوئی کچھ کرنے کی جرت نہیں کرسکتا تھا۔
"قوم کے مجرموں کو ہتھکڑی لگانا ہمارا کام ہے!"
"اے ایس پی دیکھ لونگا تمھیں تو میں۔"وہ کڑے تیور لیے بولے۔خورشید نے ہتھکڑی لگانی چاہی تو شمس بیچ میں عود آیا۔خورشید اور اسکے درمیان باز پرسی ہونے لگی۔بنگلے کے سارے ملازم حیران و پریشاں ہوگئے۔یوں بنگلے پہ ریڈ پڑجائے گی کسی کہ گمان میں بھی نہیں تھا۔وہ جو ہر افسر کو خرید لیتے تھے ایک نوجوان اے ایس پی کو اپنا پالتو پٹھو نا بنا سکے۔
میران جانتا تھا مراد کے پاس اسکے خلاف ایک ثبوت بھی نہیں،پر جو اسمگلنگ والا واقع ہوا تھا اس کی بناء وہ اسے بخشے گا نہیں۔اسے بھی درمیان میں گھسیٹے گا ضرور۔
میران نے جھک کے زولفقار کے کان میں کچھ کہا۔مراد کی گہری نظریں اس پہ جمی تھیں۔وہ اسکی کہی بات سن نہیں سکا۔گھمبیرتا سے اپنی بات مکمل کرکے میران پیچھے ہٹ گیا۔زولفقار نے فق زدہ چہرہ لیے پلٹ کے اسے دیکھا۔
میران نے سر ہلا دیا۔۔
"بچالونگا میں آپکو بھروسہ رکھیں۔"
وہ انکی آنکھوں میں دیکھ کر بے تاثری سے بولا۔زولفقار کی بھنوویں سمٹ گئیں۔وہ بے یقینی کے عالم میں گرفتاری دے گئے تھے۔میران کی بات انکے دماغ میں سائیں سائیں کرتی گئی۔
میران نے بے زاری سے اپنے ہاتھ مراد کے آگئے کردیے،مراد نے پچھلی بار کا حساب برابر کرتے ہوئے جتاتی نظروں سے اسے گرفتار کیا تھا۔
       "اگر تمھیں لگتا ہے کہ اس بار کوئی آفیسر ابراہیم تمھیں بچانے آئے گا تو ایسا نہیں ہے.."مراد نے اسکے کان میں سرگوشی کی میران نے مٹھی بھینچ کے اسے دیکھا،ہاتھ میں لگی ہتھکڑی کو پھر زولفقار کی سیدھ میں چل پڑا۔
"میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ تمھیں ہتھکنڈے ڈالوں پر تم باپ بیٹوں نے ظلم کی انتہا کردی ہے۔جواب تو دینا پڑے گا۔"
سوچ میں مخاطب وہ دوسرے آفیسر کو نیا آرڈر دینے کے لیے آگے بڑھا۔
                            ★ ★ ★
نیب پہنچتے ہی زولفقار کا وکیل بھی وہیں انکو ملا۔مراد انکے بعد وہاں پہنچا تھا۔زولفقار جاہ کو ایک الگ روم میں تفتیش کے لیے بٹھایا ہوا تھا۔انکی اپنے وکیل سے بات ہوچکی تھی۔میڈیا پہ زولفقار کی گرفتاری کا زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔عوام میں کھلبلی مچ گئی تھی۔
"مام آر یو فائن؟"
نیمل کے آفس جانے سے پہلے کی یہ بات تھی۔زرپاش کی ایک نگاہ اسکرین پر چلتی خبروں پہ تھی اور دوسری ارباز دمیر پہ جو سر جھکا گئے تھے۔
"شی از فائن،بیٹا آپ جاؤ آفس کے لیے دیر ہورہی ہے۔"ارباز نے اسے پچکارتے ہوئے کہا وہ اطمینان سے ان دونوں سے مل کر چلی گئی۔اسکے جانے کے بعد ارباز دمیر اٹھ کے زرپاش کے پاس آئے تھے۔زرپاش نے خاموشی سے انکے کندھے پہ سر ٹکا دیا۔
          غضنفر شنواری گھر پہ ہی تھے انھوں نے لاؤنچ میں ٹی وی کھول رکھا تھا۔رومائزہ بتول کے ساتھ کچن میں گھسی تھی۔خبروں کی آواز باقاعدہ وہاں تک جارہی تھی۔
"نوے ارب کی کرپشن اور کئی غیر قانونی اثاثے رکھنے کے الزام میں وزیر اعلیٰ زولفقار صاحب اور انکے صاحبزادے میران جاہ کو انکے بنگلے سے حراست میں لے لیا گیا،نیب اور انکی ٹیم،خاص کر اے ایس پی مراد دمیر نے انکے کالے دھندوں پہ سے پردہ اٹھایا۔ذرائع کے مطابق یہ بھی پتا چلا ہے کہ ماڈل یلدیز یلماز کو آج صبح ہی اے پی جماعت کے چیرمین زولفقار جاہ کے پیسوں کی منی لانڈرنگ کرتے ہوئے ائیرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔"
نیوز کاسٹر رپورٹ پڑھ کے سنا رہی تھی۔رومائزہ جو لاؤنچ میں آرہی تھی اسکے قدم جم گئے۔اس نے سانس کھینچ کے خود کو پرسکون کیا پھر اندر آگئی۔اسکرین پہ مناظر جگمگا رہے تھے۔میران کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھ دل میں سیسہ سا پگھلا تھا۔تیش خود ہی امڈ آیا جسکی بدولت ناک کے نتھنے پھول گئے۔
بے ساختہ اسکی آنکھیں ڈبڈبائیں،کس قدر ملک بھر میں انکی بدنامی ہورہی تھی۔نفرت کی لہر اندر تک دوڑ گئی۔میڈیا پہ یہ بات واضح کی جا رہی تھی میران جاہ پہ کسی کرپشن کا الزام نہیں پھر کیوں اسے اریسٹ کیا گیا؟
رومائزہ نے ٹھنڈی سانس لی۔کیا اللہ اب اس سے اسکے کیے کا حساب لے رہا تھا؟اسکی بد دعائیں قبول ہوگئی تھیں؟جو بھی تھا مزید وہ اسکے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی۔پر دل کو دھچکا ضرور لگا تھا۔
                            ★ ★ ★
یہ ایک بند کمرہ تھا درمیان میں میز اور کرسیاں رکھی تھیں۔میز کے اوپر بلب روشن تھا۔زولفقار جاہ کے ہاتھوں سے ہتھکڑی راستے میں ہی نکال دی گئی تھی۔
کچھ دیر پہلے کا منظر ذہن میں گھوما۔جب انھیں اندر لا رہے تھے تو دوسری طرف طفیل کو بھی گرفتار کرکے لایا جا رہا تھا۔اسکے چہرے پہ پریشانی صاف جھلک رہی تھی پر جوں ہی اس نے زولفقار جاہ کو دیکھا تمسخر سے ہنستے ہوئے پولیس والوں کے ساتھ انکے قریب آیا۔
"ویلکم ویلکم،آپکو یہاں دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔سنا ہے آپکو ہتھکڑی لگا دی تھی۔کیا ہوا آج باپو کی پرچی کام نہیں آئی؟"
"میرا مشورہ ہے بابائے قوم کی تصویر کا استعمال کریں اور انصاف خرید کے ٹھنڈے ٹھنڈے گھر جائیں،پر ایک منٹ وہ سر پھرا اے ایس پی ان گرم نوٹوں سے مالا مال ہونا ہی نہیں چاہتا۔کیا کریں گے اب آپ سائیں؟پھر جج کو خریدیں گے؟پر میں بتادوں یہ مراد بہت ہوشیار بندہ ہے سارے ثبوت اسکے ہاتھ میں ہیں،آپ اپنے اثاثوں کی کونسی پرچیاں دکھائیں گے؟"
طفیل کی بکواس یاد آتے ہی انکو تیش آیا تھا ٹیبل پہ ہاتھ رکھی مٹھی انھوں نے سختی سے اٹھا کے ٹیبل پہ ماری تبھی۔مراد اندر چلا آیا۔ساتھ ہی اسکے نیب کے بڑے عہدے کے افسران موجود تھے۔جن میں ایک آفیسر ابراہیم بھی شامل تھے۔جن کی نظروں کا زوایہ ہی کچھ الگ تھا۔زولفقار غور سے ابراہیم کو دیکھے گئے۔غصے پہ جبر کیا۔
وہ تینوں انکے مقابل نشستوں پر براجمان ہوگئے۔زولفقار نے مغرورانہ انداز میں مراد کو دیکھا پھر طنزیہ ہنسی چھپانے لگے۔
"زولفقار صاحب میں امید کرونگا آپ ہمارے ساتھ کارپوریٹ کریں گے۔ہمیں آپ سے کوئی مسئلہ نہیں ہم بس ملک کا لوٹا پیسہ واپس لانا چاہتے ہیں۔"
آفیسر ابراہیم نرم لہجے میں آرام آرام سے کہہ رہا تھا۔انکا تعلق نیب سے تھا اور یہ کئی بار زولفقار جاہ کے لیے کام بھی کرچکے تھے۔انھیں اپنے مقابل پاکر زولفقار کو حیرت نہیں ہوئی تھی پر غصہ چڑھا تھا۔یہ سیاست تھی کب کوئی رنگ بدلے کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔اپنے تجربے کی بدولت آدھی کہانی وہ سمجھ بھی گئے تھے۔اور انکا زہن ابھی تک اسی میں الجھا تھا۔
آفیسر نے ان سے کئی باتیں کیں اور کئی سوالات کیے وہ یک ٹک ٹکٹکی باندھ کر ٹیبل کو دیکھتے رہے۔
"باہر ملک میں فلیٹس اور پاکستان میں جو اپنے کڑوڑوں کی پراپرٹی خریدی ہے آپکے پاس انکے لیگل کاغذات موجود نہیں۔اور انکے خلاف ہمارے پاس کافی ثبوت ہیں۔اس بدنامی سے آپکو اب کوئی نھیں بچا سکتا کہ آپ ایک کرپٹ سیاستدان ہیں جنھوں نے اقتدار میں رہ کر خوب ملک کو خوب لوٹا۔اور اپنی جیبیں بھریں،جسے ملک یا عوام سے کوئی غرض نہیں۔آپکی ماڈل کو آج رنگے ہاتھوں منی لانڈرنگ کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے وہ اعترافِ جرم کرچکی ہیں ہمیں اب آپ سے بھی یہی توقع ہے کہ آپ سب قبول کریں گے۔"
"بلیوو می آپکے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے۔کوئی جج کوئی کورٹ اس کیس کو لمبا نہیں کرسکے گی۔"آفیسر کے خاموش ہونے کے بعد مراد تھوڑی پہ جو انگھوٹا جمائے بیٹھا تھا زولفقار کو مخاطب کرتے جما جما کر بولا۔
زولفقار جاہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگے،ان پہ بے چینی طاری ہونے لگی۔
انھوں نے دھیمے سے آنکھیں بند کیں تو میران کا کہا جملہ یاد آگیا۔
"بابا آپ پر یہ لوگ کرپشن ثابت کردیں گے اور آپ اعتراف کرلیے گا۔آپکو کرنا پڑے گا میری خاطر،خدا کی قسم میں آپ کو اس سے نکال لونگا لیکن آپ ایک ایک چیز کا اعتراف کریں گے۔"اسکی سرگوشی سن کے زولفقار نے اسے بے یقینی سے دیکھا تھا جس کے تاثرات پتھریلے تھے۔
انکے ماتھے پہ ٹھنڈا پسینہ آنے لگا۔وہ خود اعتماد شخص تھے۔خود کو نارمل کیا اور میز پر جھک گئے۔
"یہ سب جھوٹ ہے میرے خلاف سازش کی گئی ہے۔"
انھوں نے صاف مکرتے ہوئے مراد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔اس نے سختی سے مٹھی بھینچ لی اور لب کچلا۔
"نہیں یہ غلط کہہ رہے ہیں،ان پہ لگایا ہر ایک الزام سچ ہے۔"سفید کرتا شلوار میں وہ شخص قدموں کی چاپ پیدا کیے دروازہ کھولتا ہوا اندر آیا۔وہ چاروں چونک اٹھے۔اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔
"میں میران جاہ زولفقار جاہ پہ لگائے کرپشن کے الزام کی گواہی دیتا ہوں اے ایس پی مراد کا ہر ثبوت سچا ہے،زولفقار جاہ نے کرپشن کی ہے،میرے سامنے ہی کئی بار منی لانڈرنگ کا قصہ چلا ہے اور کئی پراپرٹی بابا سائیں نے میرے سامنے خریدی ہیں کوڑی کوڑی میں جن کی اربوں کی مالیت تھی۔اور میں اس سب میں کبھی ملوث نہیں رہا ہوں.."
مضبوط کڑک لہجے میں ترکی بہ ترکی وہ کہتا جارہا تھا۔انکے ساتھ ہی بیٹھ گیا،میز پہ کہنیاں جمائے جھکا ہوا تھا۔چہرے ہر قسم کے تاثر سے پاک تھا۔زولفقار جاہ نے بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھا۔اپنی بات کرکے وہ خاموش ہوگیا۔کمرے میں عجیب سا فسوں طاری تھا۔
"کیا بکواس کر رہے ہو میران،اندازہ بھی ہے کتںی بڑی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔"وہ بھڑک اٹھے۔
"جو سچ ہے میں نے وہی کہا۔"
اس نے تو گویا آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی تھیں۔جبڑے بھینچ کر بولا۔زولفقار جاہ کی بھنوویں پھیل گئی۔حیرت زدہ تاثرات سے اسے دیکھا۔مراد طنزیہ ہنکارا ان باپ بیٹوں کی گفتگو دیکھ کر....اور پھر اسکی نگاہیں میران کی نظروں سے ٹکرائیں۔
                             ★ ★ ★
مراد کو راستے میں علم ہوا تھا میران کی ضمانت پہلے سے ہی کی جا چکی تھی۔وہ ادارے جیسے ہی پہنچا رخ اس نے آفیسر ابراہیم کی جانب کا کیا،اس کو ان پہ شدید غصہ چڑھا تھا،وہ دو ٹوک ان سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔اگر یہ سیاستدانوں کے پٹھو اتنا ملک سے وفادار ہوجائیں تو پاکستان کی تقدیر سنور جائے۔
    مراد نے دروازہ دھکیل کے اندر قدم رکھا،آفیسر ابراہیم کے سامنے والی کرسی پہ کوئی شخص بیٹھا تھا۔آہستہ آہستہ جب وہ اسکی جانب مڑا تو مراد کی رگیں تن گئیں۔وہ اشتعال میں اسکی جانب بڑھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟آفیسر ابراہیم آپ چاہتے کیا ہیں؟"وہ غصے میں مخاطب ہوا۔
"بڑی دیر کردی مہربان آتے آتے۔"وہ کرسی کو جوتے کی نوک پہ زور لگاتا گھما کر بولا۔ پرسکون طنزیہ انداز۔
"تمھاری ضمانت پہلے ہی کروائی جا چکی تھی،تم جانتے تھے یہ سب؟"وہ اپنی حیرانی چھپا نہیں سکا چبھتی نگاہ سے اسے دیکھ کر پوچھا۔
"یہ سب کیا ہے؟"مراد کا دماغ پھٹنے کو تھا۔
"وہی جو تم سمجھ رہے ہو۔"
"میں نے تمھارے باپ کو پکڑ لیا ہے تمھیں بھی جلد تمھارے گناہوں کی سزا دلوا کر رہونگا۔"
"کونسے گناہ؟"میران مغرور چال چلتا اسکے مقابل آیا۔آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر پوچھا۔بارعب انداز۔
"بتاؤ میرے بھائی کس گناہ کی بات کر رہے ہو تم جو مجھ سے سرزد ہوگیا ہے اور سارے میرے خلاف چلے گئے؟"
اب کی بار وہ صرف بولا نہیں تھا بلکہ بڑی بات سے پردہ اٹھانے لگا تھا۔بھائی لفظ پہ وہ ششدر رہ گیا،مراد پہ حیرت گزر گئی،میران نے اسکا شکن آلود ماتھا دیکھا۔
"اے ایس پی مراد ارباز دمیر!"مراد نے متحیر سے اسے دیکھا۔ارباز نام پہ میران نے خاصا زور دیا تھا۔مراد نے سانس کھینچی۔
"ایک منٹ،تم پردے کے پیچھے تھے۔مدد تم نے کی۔منی لانڈرنگ کی خبر تم نے ہی کی نا؟"
مراد کے زہن نے تیزی سے کام کیا۔وہ کڑیاں فوراً ملاتے بولا۔میران کی مسکراہٹ بہت کچھ بیان کر گئی تھی۔آفیسر ابراہیم سر جھکائے مسکرا رہے تھے۔مراد نے آنکھیں میچ لی۔دل نے بیٹ مس کی۔
وہ کیسے اسکے ہاتھوں بے وقوف بن گیا؟
"حیران ہوگئے کیا؟"
"حیران کرچکے ہو تم۔"ماتھے سے اس نے پسینہ صاف کیا۔وہ ہنس نہ سکا حیرت زدہ رہ گیا۔
"اس کھیل کی ایک ایک چال سے واقف تھا،آخر یہ سارا میرا ہی رچایا شطرنج تھا۔"وہ دو قدم اسکے قریب ہوا بہت ہی پرسکون انداز میں مراد کا سکون غارت کرگیا تھا۔
"کول ڈاؤن مراد..یہاں موجود ہر شخص کا مقصد ایک ہے۔وہی جو تم چاہتے ہو۔"مراد کو خود پہ افسوس ہوا۔نہ وہ مسکرا سکا تھا نہ کچھ بول پارہا تھا۔
"ہمم..میرے بھائی بہت چھپن چھپائی ہوگئی،بہت تمھیں میں نے ڈھیل دی اب روبرو بات کرنے کا موقع آگیا ہے۔"میران اسکے کان کے قریب ہوا اور کوئی آہستہ سے مزید کوئی سرگوشی کی۔
"مجھ سے شکوہ تو نہ کرو،تمھاری اس قدر پردے کے پیچھے سے مدد کی۔میرے احسان کا قرض اب یوں چکاؤ گے؟"
مراد نے چونک کے سر اٹھا کے اسے دیکھا اسکا سارا غصہ وہیں جھاگ ہوگیا تھا۔اور پھر میران نے کھل کے اس پہ ہر چیز آشکار کردی۔مراد بس سن رہا تھا کیسے وہ اسکے ہاتھوں بے وقوف بنا۔بے وقوف کہنا مناسب نہیں اس نے وہی دیکھا جو میران نے دکھانا چاہا۔
وہ کبھی میران کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
وہ اسے جتنا بے خبر سمجھ رہا تھا وہ اتنا ہی ہر چیز سے باخبر تھا۔بلکل سب میں مراد کہاں تھا؟صرف میران تھا۔جیسے کوئی کٹھ پتلی کا کھیل مراد کے ساتھ کھیل گیا ہو۔وہ اپنی کامیابی کی خوشی بھی پوری طرح نہیں منا سکا تھا۔لب پیوست کرلیے۔
       "تمھیں پتا ہے مجھے نہیں پسند کوئی مجھ سے ایک قدم آگے رہے پھر چاہے وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو..میں اپنی جانب سے ہنڈریڈ پرسنٹ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔"میران کے لبوں پہ مراد کے تاثرات دیکھ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔پھر مراد نے طنزیہ قہقہہ چھوڑا۔
"اور اس لڑکی کے ساتھ کیا کیا تم نے؟اسکی صفائی نہیں دوگے؟تم نہیں جانتے وہ کتنا تڑپی ہے۔اسکے باپ کی موت نے اسے توڑ کے رکھ دیا۔ہر چیز کی تم بھرپائی کرنے کے لیے تیار ہو پر اسکو اسکا باپ اسکی خوشیاں لوٹا سکتے ہو؟"
مراد کے لہجے کی کڑک چبھن پہ میران کی مسکراہٹ مدھم پڑ گئی۔
"میں بے گناہ ہوں۔اسکا گہنگار نہیں۔"
پلکوں کی لرزش بڑھنے سے میران اپنی گھنی باڑ اٹھا نہیں سکا۔مراد کو بے ساختہ جھرجھری سی آگئی۔اس نے سر پہ ہاتھ رکھ کے سانس بھری۔کمرے کا چکر کاٹا۔آفیسر کو دیکھا جو جگہ سے کھڑے ہورہے تھے۔
"میں نے تمھیں کہا تھا مراد سہی وقت آنے دو تم مجھے ساتھ پاؤگے یہی ہے وہ وقت۔کچھ چیزیں ایک دوسرے سے بھی چھپانی پڑتی ہیں۔اور میں تو میران کی وجہ سے مجبور تھا۔"انکی بات سنتے ہوئے وہ کنپٹی سہلانے لگا۔میران کے تاثرات پتھر کی مانند ہوگئے۔
"یہ بات اگر تم مجھے بتادیتے تو کیا ہوجاتا؟"وہ شکوہ کناں نظر اس پہ ڈالتے ہوئے بولا۔
"یہ چھپن چھپائی کا کھیل تم نے شروع کیا اختتام تو پھر میں نے ہی کرنا تھا۔"میران نے جتاتے ہوئے مراد نے سر جھکا لیا۔وہ ابھی تک حیرت زدہ تھا وہ اسکی سوچ سے آگے نکلا تھا۔
"اچھا سہی ہے میں کھل کے بتاتا ہوں ہر ایک چیز.."میران نے اسے حیران و پریشاں دیکھ اسکی آسانی کے لیے کہا۔
"میں جانتا تھا تمھارا نیب سے کوئی تعلق ہے۔"مراد نے لب بھینچ لیے۔میران کا چہرہ سنجیدہ تھا پر آنکھوں میں رقص کرتی مسکراہٹ مراد کو زچ کر رہی تھی۔
"تھیں یاد ہوگا جب تم نے مارگن کو پکڑا تھا،اسکی لوکیشن تمھیں کسی نے بھیجی تھی۔تم یہی سمجھتے رہے یہ کام طفیل کا ہے،پر وہ میسج میں نے بھیجا تھا۔طفیل کو بظاہر میں بابا کے انسسٹ کرنے پر  اپنے ساتھ لے گیا تھا مجھے وہ بلکل پسند نہیں،پر میں چاہتا تھا وہ وہاں پکڑا ہی جائے پر اسے بابا نے بچا لیا تھا۔اس نے قبول کیا کہ لوکیشن کا پتا اس نے بتایا ہے تو یاد کرو تمھیں الگ الگ نمبر سے میسج آئے تھے۔ایک خورشید کو اور ایک تمھیں۔میں نے تمھاری جگہ خورشید کو میسج چھوڑا تھا۔بابا آرگینز کی پہلی بار اسمگلنگ کرنے جارہے تھے اور یہ بات جب مجھے معلوم ہوئی تو میں خود کو انھیں روکنے سے باز نہیں آیا۔"
"تمھارا لاہور آنا اور اس قدر زولفقار جاہ میں انٹرسٹ لینا مجھے کھٹک رہا تھا اور پھر جب میں نے تمھارا بایو ڈیٹا نکلوایا تو اس وقت حیران ہونے کی باری میری تھی۔تم مجھ سے چھپے رہنا چاہتے تھے تو میں نے وہی کیا۔سوچا تمھارا کھیل جاری رکھوں۔"
"تم بتادیتے تو تمھارا اتنا نقصان نہیں ہوتا..."مراد بے یقینی کے عالم میں بولا،میران خود کے حال پہ ہنس دیا۔
"تم نے مجبور کیا مجھے شک کرنے پہ،ورنہ میں تو تم پہ آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتا تھا۔"میران نے جبڑے بھینچ لیے۔
"بتانا چاہتا تھا پر موقع نکل گیا تھا۔اگر بابا کو بھنک پڑ جاتی کہ میں کیا کر رہا ہوں تو وہ ساری بازی پلٹ دیتے۔"وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا۔"اسی لیے سب جیسے چل رہا تھا چلنے دیا۔"
"مجھے ہر ایک بات جاننی ہے۔"مراد نے لب بھینچ کر کہا۔
"سب بتاؤنگا ابتداء سے بتاؤنگا،پھر تم سے بھی تو تمھاری کہانی سننی ہے۔"میران کے لہجے میں نمی سی گھل گئی۔مراد کی ہمت جواب دے گئی تھی وہ بے ساختہ آگے بڑھا اور اسے خود سے لگا لیا۔
"آئی ایم سوری،میں تمھارے حوالے سے گمراہ ہوگیا تھا.."
اس سے گلے لگ کے اسکے اندر جیسے سکون ہی اتر گیا۔مراد نے کس کے اسے خود میں بھینچا تھا۔وہ اس پل کا ناجانے کتنے عرصے سے منتظر تھا۔میران نے اسکی پیٹ تھپک کے اسے دور کیا۔
"بہت مدد کرچکے ہو تم۔شکریہ۔"
"ہاں،پر یہ سب کسی وجہ سے کیا ہے۔اب آخری عمل دخل کا موقع ہے۔"
"نہیں...جو تم چاہتے ہو وہ میں نہیں ہونے دونگا۔وہ شخص سزا کا مستحق ہے۔"مراد اسکی بات پہ راضی نہیں تھا۔
"ایک شخص کے لیے اس سے بڑی کیا سزا ہوگی کہ اس سے اسکی ہر وہ چیز ضبط کرلی جائے جس سے اسے محبت ہو،زولفقار جاہ کو اپنی دولت سے محبت ہے۔اپنے نام سے محبت ہے جس کے چیتھڑے ابھی میڈیا باہر اڑا رہا ہے۔"
"اور جب میں انکے خلاف کھڑا ہونگا تو..."
"تم ان سے بدلہ لے رہے ہو؟"مراد کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی۔میران نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"اتنا گیا گزرا نہیں ہوں جو ان سے بدلہ لوں،پر انکو بتانا چاہتا ہوں وہ غلط کر رہے ہیں۔جس دولت کو عرصے سے جمع کرتے رہے وہ اب سانپ بن کر انکو ڈسے گی۔"تنفر سے کہتے ٹیبل کے پاس جاکر پانی کا گلاس اٹھا کر اس نے لبوں سے لگا لیا۔
"میں نے یہ کیس اس لیے لیا تھا کہ انکو سزا ہوگی،میں انکو کسی صورت نہیں چھوڑونگا۔ابراہیم صاحب سمجھائیں اسے آپ۔"
"مراد تم کچھ نہیں کرسکتے یہ بات سب پہلے سے ہمارے درمیان طے تھی۔ہمیں انکو چھوڑنا ہی ہوگا۔"
"تو پھر تم نے اپنے نام کا استعمال کیا۔"وہ شاکی لہجے میں بولا۔میران سخت بے زار ہوا تھا۔
"وہ میرے باپ ہیں یہی انکی خوش قسمتی ہے،جو بھی ہو میں انھیں اکیلا نہیں چھوڑنے والا۔تمھیں اس دولت سے مطلب ہونا چاہیے جو انھوں نے لوٹی۔اسے ملک میں واپس لاؤ۔وہ باہر موجود ہر اثاثے سے انکاری ہیں میں نے انکے خلاف جاکے ثبوت جمع کروائے ہیں میں انکی ہر چیز لوٹا دینے پہ آمادہ ہوں جو انکے کالے پیسوں کی ہے بشرطیکہ بابا جیل سے دور رہیں۔"میران نے اسکے دونوں شانے تھام کر سمجھاتے ہوئے کہا تو مراد سوچ میں چلا گیا۔
"تم بدلے کی آگ میں جل رہے ہو.."میران اسکے چہرے کا جائزہ لیتے بے لچک بولا۔
"چلو..."مراد اسکی بات نظر انداز کرتا کمرے سے نکل گیا۔
میران نے سرد سانس خارج کی۔آفیسر ابراہیم کو دیکھا۔
"اتنا اکڑو ہے مجھے اندازہ نہیں تھا۔"
"کیا کہہ سکتے ہیں۔"ابراہیم نے ہنس کے کہا تو وہ شانے اچکا کر اسکی تقلید میں چلا گیا۔
                          ★ ★ ★
        کالی گاڑیاں پورے پروٹوکول کے ساتھ بنگلے میں آرکی تھیں۔وہ باپ بیٹا شام تک بنگلے لوٹ آئے تھے۔
زولفقار کے پتھریلے تاثرات بتا رہے تھے وہ کسی بھی پل غصے میں پھٹ پڑیں گے۔تمام ملازمین کو دوپہر میں ہی پوچھ گچھ کرکے چھوڑ دیا گیا تھا۔اور انھیں شام ہوگئی تھی۔
وہ ہال میں آکے صوفے پہ بیٹھے۔فرید نے پانی انکے سامنے کیا جسے ہاتھ سے انھوں نے غصے میں دور جھٹکا تھا۔گلاس دور جاکے گرا۔میران کے اندر آتے ہوئے قدم ڈھیلے پڑ گئے۔
"کیا کیا ہے تم نے یہ!تمھاری ہمت کیسے ہوئی میران میرے خلاف جانے کی۔تم کیسے کرسکتے ہو اتنا بڑا فیصلہ۔"زولفقار دھواں دھواں ہوتے گرج دار آواز میں گرجے اسکا گریبان جکڑا لیا۔میران نے صبر کا گھونٹ پیا۔
باہر اچانک بجلی کڑکی تھی موسم خراب ہونے لگا۔
عبدل ہاتھ باندھے ڈرتے ڈرتے وہاں انکے درمیان چلا آیا۔
"چھوٹے سائیں وہ آگئے ہیں۔"وہ ہچکچاہٹ سے بولا۔
"بلا لو انھیں اندر عبدل۔بہت خاص مہمان آئے ہیں کھانے کی تیاری بھی کرواؤ۔"اسکے کڑوے لہجے پہ زولفقار نے اسکا گریبان چھوڑا۔وہ اس سے مہمان کے بارے میں استفسار کرتے کہ اندر ایک عورت چلی آئی۔انھوں نے نظروں کا زاویہ بدلہ۔زولفقار کا سانس حلق میں اٹک گیا۔نہ ہی سانس لے سکے نہ بحال کرسکے۔بے یقینی سے وہ سامنے دیکھ رہے تھے۔
      زرپاش...زہن میں جھماکا سا ہوا۔پچیس تیس سال بعد وہ یہ چہرہ دیکھ رہے تھے۔چہرے کی خوبصورتی مدھم پڑ گئی تھی۔تھوڑا وزن بڑھ گیا تھا۔
وہ خاتون نہایت سلیقے سے سر پہ دوپٹہ لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔جس کی آنکھوں میں آنسو،بے یقینی،کرب کے کئی نشان تھے۔کسی مرد نے انکا شانا تھاما تھا جسکے ہم قدم وہ آگے بڑھنے لگیں۔زولفقار صاحب مراد کو حیران نظروں سے دیکھتے رہے۔
میران نے آگے بڑھ کے انھیں صوفوں کے پاس بلایا۔
"بھائی جان..."اتنے سال بعد روبرو انکا چہرہ دیکھ کر منہ سے بڑی مشکل سے ان لفظوں کی ادائیگی ہوئی تھی،نمکین پانی سے لبزیز اشک بہہ نکلے۔
"کیوں آئی ہو تم؟بدلہ لے رہی ہو مجھ سے؟بیٹا ہے نہ یہ تمھارا....اپنے نیچ ارادوں میں اسے استعمال کرنا چاہتی ہو۔"اپنی سگی بہن کو اتنے سالوں بعد دیکھنے کے باوجود انکے دل میں کسی قسم کی محبت نے انگڑائی نہیں لی۔الٹا ناگواری سے گویا ہوئے۔
"بس بابا سائیں ایک لفظ اور نہیں بہت سن لی آپکی باتیں۔"انکے سخت الفاظ نے زرپاش کو کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔مراد ںے نفرت بھری نگاہ اپنے سگے ماموں پہ ڈالی۔جبڑے بھینچ لیے۔
"میرے بیٹے کو میرے خلاف کر دیا گیا ہے۔"
وہ سمجھتے ہوئے خود سے بولے۔
"کون کسے کس کے خلاف کر رہا ہے آپ سے بہتر اور کون جانتا ہوگا۔رومائزہ کے ساتھ بھی تو آپ نے یہی کیا۔چھین لیا نہ مجھ سے سب کچھ.. میری چاہت میرے خواب سب تہس نہس کردیے۔صرف اپنی اونچی ناک کی خاطر۔"میران کا لہجے دھیمے سے بلند ہوتا چلا گیا۔ہال میں اسکی آواز گونج رہی تھی۔
مراد نے زرپاش کو شانوں سے تھام کے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا وہ باپ بیٹے انکے مقابل تھوڑے فاصلے پہ کھڑے تھے۔
اسکی بات پہ زولفقار نے چونک کے اسے دیکھا۔
"تم نے کیا ہے اسکے ساتھ سب کچھ۔ہر ایک چیز کا الزام تم مجھ پہ نہیں لگاسکتے۔"مونچھ پہ انگلی پھیر کے انھوں نے کہا۔
"بس کردیں بابا سائیں....بس کردیں،اور کتنا جھوٹ بولیں گے۔میں سب جانتا ہوں،پہلے مجبوری میں خاموش تھا پر اب نہیں رہونگا۔مجھے جواب چاہیے آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟آپ جانتے ہیں میں اس سے محبت کرتا ہوں پھر بھی اسے میرے خلاف کردیا اتنا زہر اسکے دل میں میرے لیے بھر دیا۔"
    بل آخر آج اندر کا لاوا باہر اس نے نکال دیا جسے کئی دنوں سے اپنے اندر روکے ہوئے وہ اذیت کے کڑے مرحلے سے گزر رہا تھا۔
"چھوٹے جاہ ہوش میں آو،تم نے کہا تھا وہ لڑکی فارم ہاؤس میں رہے گی۔"وہ اسے یاد دلاتے ہوئے بولے۔مراد توجہ سے اب انکی بات سننے لگا۔اسے بھی فلحال سچ کی گہرائی معلوم نہیں تھی۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔"وہ لفظ چبا کر بولا۔
"تو پھر عزیز نے ایسا کیوں بولا۔تمھارے وفادار نے دھوکے بازی کی ہے جھوٹا مکار انسان.."
"عزیز پہ مزید بہتان مت لگائیں۔عبدل عزیز کو اندر لے کر آؤ۔"حکم آمیز لہجے میں اس نے بلند آواز سے کہا۔
"عزیز کو بہت چالاکی سے اپنے مہرا بنا کے میرے سامنے پیش کیا۔"وہ افسوس سے پھنکارا،عزیز اندر چلا آیا۔تمام فریقین کی نگاہیں اس پہ ٹک گئیں تھیں،کافی دن بعد عزیز میاں کے بنگلے میں درشن جو ہورہے تھے۔
"چھوٹے سائیں عزیز نے کہا تھا اس لڑکی نے آپ پہ جھوٹا الزام لگایا بہت بدتمیزی کی آپ چاہتے ہیں کہ اسے وہی روک لیں اسے سزا دیں۔"شمس فوراً صفائی دینے لگا۔
"تمھیں تو شرم سے ڈوب مرجانا چاہیے،ساری فساد کی جڑ تم ہو۔عزیز نے تم سے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔عزیز بتاؤ کیا ہوا تھا اس رات۔"میران کی دھاڑ پہ شمس گڑبڑا کے خاموش ہوگیا۔عزیز ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"اس رات سائیں بہت غصے میں تھے مجھے بھی میڈم پہ غصہ آگیا تھا۔پر سائیں نے مجھے ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ میڈم کو وہیں روک لیا جائے۔انکا کہنا تھا کاش وہ اسے کبھی خود سے دور نا جانے دیں۔کیونکہ کچھ دن بعد ہی میڈم کو وہ گھر بھیجنے والے تھے۔
    اول تو میں شمس سے سائیں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا بس اس رات غصے میں تھا تو اسے بتادیا۔پر اس نے بات کا رخ ہی بدل دیا۔اور بڑے جاہ نے اپنے مقصد کیلیے اس بات کا غلط فائدہ اٹھایا اور بعد میں مجھے مجبوراً سب قبول کرنا پڑا کے میں نے بولا ہے۔"
"بلکل میں بھی بے بس تھا۔"
میران درد کی شدت پہ قابو پاکر بولا۔اور ڈھنے کے انداز میں صوفے پہ بیٹھ گیا۔چہرہ ہاتھوں میں لے کر آنکھیں مسلیں۔زولفقار حیرت و پریشانی کے ملے جلے تاثر سے اسے دیکھتے گئے۔انکی جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر لاکر پھوڑی گئی تھی۔
پل بھر میں میران کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
سب کے چہروں پہ سوالات پڑھ کے اس نے بولنا شروع کیا۔
"وہ رات جب آپ نے مجھ سے ڈیل کی،میں آپکے کمرے میں آیا تھا۔آپ کمرے میں موجود نہیں تھے اتفاق سے موبائل ان لاک تھا۔میں مارگن کا میسج پڑھ چکا تھا۔اسکے بعد میں نے ڈیل کی وجہ سے خود کو بھی مراد کے شک کے دائرے میں کھڑا کیا۔مراد کو میسج کرکے ریڈ میں نے ہی پڑوائی تھی۔اتفاق تھا جو طفیل نے بھی یہی کام کیا۔
آپ سے اس رات ڈیل کرلی اسکے بعد میں نیب کے افسران اور آفیسر ابراہیم سے ملا جو کئی بار بابا کے کام آتے رہے صرف اس لیے تاکہ انکا کام آسان ہو جائے،وہاں طے پایا کہ میں زولفقار جاہ کے خلاف انکی مدد کرونگا۔اے ایس پی تو ثبوت اکھٹے کرلے گا پر کچھ ایسی مالیاتی چیزیں بھی ہیں جن کا کسی کو علم نہیں میں وہ سامنے لاؤنگا۔بابا کرپشن تسلیم کریں یا نہ کریں میری گواہی اہمیت رکھتی تھی۔خیر مراد مجھ سے پہچان چھپا رہا تھا میں اسکے لیے پردے میں رہا ورنہ جب ٹیم میری شمولیت جانتی تھی تو مراد کو باخبر نہ رکھنے کا کوئی مقصد!میں نے قانون نہیں خریدا بس مک مکا کیا۔پاکستان میں کوئی کرپٹ لیڈر اپنی پراپرٹی واپسی لوٹا دے یہ چھوٹی بات تو نہیں تھی۔"
       "زولفقار جاہ کی کالے پیسوں کی بنائی تمام پراپرٹی میں انکے قبضے میں دونگا پر بدلے میں مجھے میرا باپ  آزاد چاہیے۔ہمارے درمیان یہ مک مکا ہوچکا تھا۔اور کسی کو بھی ان کو جیل میں رکھنے سے مطلب تھا بھی نہیں۔مقصد پیسوں کی واپسی تھا۔
پھر آہستہ آہستہ میں بابا کے قریب ہوا،وہ جو مجھ سے اپنے کاروباری مسائل چھپانے لگے تھے واپس ہماری درمیان حائل یہ دیوار گر گئی۔ہماری ڈیل ہوئی تھی کہ میں انکا ساتھ دونگا اور وہ رومائزہ کو بہو کے طور پہ تسلیم کریں گے۔پر یہ ڈیل صرف لفظی کاروائی تھی ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے کام کر رہے تھے۔پر میرا ارادہ صرف اپنے باپ کی بھلائی کا تھا پر انھوں نے وہی کیا جو ہمیشہ انکو سہی لگا پھر چاہے اس میں انکے کسی اپنے کی خوشی قربان کیوں نا ہوجائے۔"
      "یقین تو مجھے ان پہ رومائزہ کے معاملے میں کسی صورت نہیں تھا۔مارگن کو جب پکڑا تو آفیسر ابراہیم نے مجھے اسی لیے اریسٹ نہیں کرنے دیا تھا کہ میں ہی وہ شخص تھا جو سب سے بڑے اسمگلر کو انکے سامنے لایا تھا۔اسکے بعد مراد تم آفیسر سے باتیں چھپانے لگے پر وہ ہر چیز سے واقف تھے۔
تم مجھے ہی غلط سمجھ بیٹھے،میں بھی دیکھنا چاہتا تھا تم مجھے سمجھ پاؤگے یا نہیں ورنہ ایک دن تمھیں حقیقت تو معلوم ہونی تھی۔
   پھر طفیل نے تم کو یہ بتادیا کہ کسی لڑکی کو میں نے اغوا کر رکھا ہے اور بنگلے تک چلے آئے اس سوال کے جواب کی خاطر۔اور ہاں تم لائیبریری کے دوسرے کمرے میں اپنی مرضی سے نہیں گئے تھے میں نے ہی تمھیں موقع دیا تھا۔"
مراد کو یاد آیا وہ دروازہ کھلا دیکھ تجسس کے مارے اندر گھسا تھا۔اور میران کس قدر روکھے لہجے میں اس سے پیش آیا تھا۔تو یہ سب جان کر اس نے کیا تھا!
"تم نے کہا تھا میں تمھیں نہیں جانتا پر درحقیقت تم مجھے نہیں جانتے تھے۔تم فارم ہاؤس پہنچے تمھیں وہاں کوئی سوراخ نہیں ملا کیونکہ میں نے سب رومائزہ کا سامان ہٹوادیا تھا۔"
"یہ سب تو بعد کی کہانی ہے درمیان میں رومائزہ کا قصہ ہے۔اپنے بابا سے ملنے کی خوشی میں وہ بے حد خوش تھی۔میں نے اس لڑکی کے کئی روپ دیکھے۔وہ کبھی خود کو کمزور ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔
      مجھے علم ہوا کہ شنواری صاحب گھر اور فیکٹری بیچ رہے ہیں۔رومائزہ کو اپارٹمنٹ سے بے حد لگاؤ تھا۔
میں ان کے پاس گیا تھا اس سلسلے میں ان سے بات کی۔میں نے انکو آفر کی تھی فیکٹری بیچ دیں،اور جو پیسے ملیں ان سے نیا کاروبار شروع کردیں۔اپارٹمنٹ کو بیچنے کا سوال نہیں۔اور قرضا میں ادا کردونگا اور سود میں بابا سے معاف کرواکے گیا تھا۔
شنواری صاحب اس بات پہ بلکل راضی نہیں تھے وہ قرضا ادا کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا میں کیوں اتنا سب کچھ انکے لیے کر رہا ہوں۔"
'میں آپکی بیٹی سے محبت کرتا ہوں یہ وجہ کافی نہیں ہے کیا؟آپکا ہونے والا داماد ہوں میں۔'بڑے ہی دھڑلے سے لہجہ نرم رکھے اس نے کہا،بے ساختہ احتشام کے لب مسکراہٹ میں بدل گئے۔وہ بڑی مشکل سے راضی ہوگئے تھے۔
       میں نے کوئی محبت کی سودے بازی نہیں کی تھی۔الٹا اپنی محبت میں آکر شنواری صاحب کی مشکل آسان کرنا چاہی تھی۔وہ رومائزہ کے لیے مطمئن ہوچکے تھے۔انکا فیصلہ تھا وہ میرا اسکا نکاح کروادیں گے۔بابا بھی میرے اور رومائزہ کے رشتے کے معاملے میں کافی حد ٹھیک ہوگئے تھے.....مجھے بھی اطمینان آگیا۔
مجھے کام سے اٹلی جانا پڑا اور زولفقار صاحب نے میرے سارے کیے کرائے پہ پانی پھیر دیا۔
'سائیں یہ پیسے شنواری نے نہیں دیے میران بابا نے دیے ہیں۔اس نے اپنی بیٹی کا خوب استعمال کیا۔میران بابا کو محبت میں گرفتار کرکے سارا قرضے سے جان چھڑا لی۔پہلے سود معاف ہوا اور اب یہ قرضا بھی میران بابا نے اتار دیا۔'
میرے اٹلی جانے سے ایک دن پہلے ہی شمس نے عزیز اور میری گفتگو سن لی تھی۔تب تک سب کچھ ٹھیک تھا پر اسکے بعد سب شیطان کے کھیل کا حصہ بن گئے۔
    رومائزہ کو گھر باحفاظت گھر چھوڑنے کی زمہ داری عبدل کو دی تھی۔عبدل اور عزیز دونوں میرے خاص بندے ہیں۔مجھے ارجنٹ فلائٹ سے اٹلی جانا پڑا اور بابا کے بھروسے میں رومائزہ کو چھوڑ نہیں سکتا تھا انکے دماغ میں ناجانے کب کیا چل پڑے کچھ پتا نہیں ہوتا۔اور میری سوچ ٹھیک ہی تھی۔
انھوں انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں۔عبدل کی بیوی اور تین سالہ بیٹی کو اغوا کرلیا اور اسے میرے نام سے وہ سب کرنے پہ مجبور کردیا۔"میران کو آگے بولنا دوبھر ہوا۔
ہال میں سناٹا چھا گیا۔زرپاش کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔مراد خود سناٹے میں کھڑا سب سن رہا تھا۔
"شنواری صاحب اسے لینے آئے تھے وہ گاڑی میں بیٹھے اور انھیں بے ہوش کردیا گیا اور پھر بابا نے آکے رومائزہ کو یہ کہا کے سب میں کروارہا ہوں۔وہ یہ بات جانتے تھے ہمارا اس سے پہلے جھگڑا ہوا ہے۔کیونکہ عزیز نے شمس سے زرا سی گفتگو کی تھی۔
انھوں نے اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔میں نے پیسے کیا ادا کردیے میرے باپ کی انا کو گہری چوٹ لگ گئی۔کتنے ضروری تھے وہ پانچ کڑوڑ؟میں نے شنواری صاحب کو یہ پیسے دے دیے تھے اب سارا حق انکا تھا کہ قرضا چکائیں یا کچھ بھی کریں۔اور انھوں نے قرضا چکا دیا بات ختم ہوگئی تھی۔آپکو پیسے مل گئے پر آپ نے پھر سازش کی۔
آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اسکے ساتھ اتنا برا کرونگا۔اس کی بے وقوفی پہ شدید غصہ آیا تھا مجھے،پر میں نے ایسا کوئی سخت حکم جاری نہیں کیا تھا۔نا ہی کبھی کرسکتا تھا۔
ہر چیز میرے خلاف کردی کہ میں خود بھی الجھ گیا۔
میں اٹلی میں مطمئن تھا کہ رومائزہ اپنے بابا کے پاس ہوگی۔پھر جب یہاں آیا تو ساری کایا پلٹ گئی۔"میران نے انگلی کی پشت سے ناک رگڑی اور سرخ ڈوروں کو چھوا۔
اٹلی سے واپسی پر وہ بے حد پرسکون تھا۔ہر چیز اسکے کنٹرول میں تھی۔اسکا ارادہ رومائزہ سے ملنے کا تھا۔اسے شادی کے لیے منانا تھا اور اسے یقین تھا وہ مان جائیگی۔
کیونکہ دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوچکا تھا،رومائزہ کے جذبات سے وہ واقف ہوگیا تھا۔
اسے لگ رہا تھا ہر چیز اسکی سوچ کے مطابق چل رہی ہے پر ایسا کچھ تھا نہیں۔
"تمھاری امانت کا ہم نے خیال رکھا ہے۔"
زولفقار نے پہلی بار سرسری سا رومائزہ کا زکر کرنی کی کوشش کی۔وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ اسکی خوشی کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔
انھوں نے مزید پھر امانت کا زکر کیا تو میران کی چھٹی حس پھڑک گئی۔زہن نے تیزی سے کام کیا۔اور پھر انکا اگلا سوال اسکے سر پہ پہاڑ توڑ چکا تھا۔
"چھوٹے جاہ تم نے مجھے اسی کام سے روکا اور خود اس لڑکی کو فارم ہاؤس روک لیا۔"میران اور عزیز سکتے میں چلے گئے تھے۔پل بھر وہ سمجھ نہیں سکا۔زولفقار کیا بات کر رہے تھے۔میران کی حیرت پہ انھوں نے کھل کر بات بتائی جس کا سارے الزام کا ٹوکرا وہ عزیز پہ گرا چکے تھے۔
اتنا اندازہ تھا میران نے ایسا کچھ نہیں کہا وہ عزیز کو پھنسا رہے تھے اور اس طرح اس سے جان بھی چھونٹ جاتی۔
میران نے غصے پہ جبر کرتے ہوئے مٹھی بھینچ لی۔اسکے کان دہکنے لگے تھے۔وہ جانتا تھا عزیز ایسی بات کر نہیں سکتا۔سالوں سے عزیز اور اسکا تعلق تھا۔اس کے دماغ کے گھوڑے دوڑے۔'او تو شنواری صاحب کے قرض کی ادائیگی کے بارے میں انکو پتا چلا ہوگا'وہ سوچ ہی سکا تھا۔اور پھر غصے میں عزیز پہ دھاڑا۔
چونکہ عزیز میران کے پلان سے واقف تھا اس نے وہی سب کہا جو زولفقار جاہ کہہ رہے تھے۔اور میران اسی پہ بھڑکا اور زولفقار کو اس بات پہ یقین دلایا کہ میران نے ہی عزیز سے کہا تھا جس سے وہ پرسکون ہوگئے تھے۔انکا نام بیچ میں کہیں نہیں آیا۔
       رومائزہ کا فارم ہاؤس میں ہے یہ سن کر وہ بنگلے رکا نہیں تھا فارم ہاؤس پہنچا۔مجرموں کی طرح اسکا سامنا کیا تھا شمس وہاں موجود تھا اسے بھی اپنے مقصد کے تحت اس نے استعمال کیا تھا۔رومائزہ کو بکھری حالت میں دیکھ اسکا دل ریزہ ریزہ ہوا تھا۔بے بسی ہی بسی تھی۔
وہ تو نفرت اگل رہی تھی۔اور عذاب کا لمحہ وہ جب رومائزہ کے سوال پہ اس نے سر ہلایا کہ اسی کے کہنے پہ سب ہوا۔شمس یہاں مطمئن ہوگیا تھا اس نے سانس خارج کی۔
میران نے اسے فوراً گھر بھیجوایا تھا وہ خود اس سے اکیلے میں بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ابھی بھی معاملہ اسکے ہاتھ سے نکلا نہیں تھا۔اسکے سب سے بڑے گواہ شنواری صاحب تھے جو اسکے حق میں رومائزہ کے سامنے گواہی دیتے اسکی سچائی بیان کرتے اس نے کس طرح انکی مدد کی۔پر قیامت تب ہوئی جب اسے انکے مرنے کی خبر ملی۔دل میں جیسے امید ٹوٹی تھی۔
    وہ اس قدر مجبور تھا کہ پہلی ملاقات میں رومائزہ کو چاہ کر بھی سچ نہیں بتاسکا تھا۔اور اس وقت اسے اندازہ نہیں تھا تقدیر دوسرا موقع نہیں دے گی۔اب وہ بھلا کیسے اسکا یقین کرتی۔پھر اسکے ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کی اطلاع ملی وہ وہاں پہنچا۔
اسے سفید ہاسپٹل کے لباس اور سفید چادروں سے ڈھکا دیکھ وحشت ہوئی تھی۔پہلی بار اسے زولفقار جاہ سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔
پھر سفیر کو دیکھا۔وہ لڑکا اچھا تھا پر اسے بس عجیب سا محسوس ہوا۔
رومائزہ کی تشویش ناک حالت کی وجہ سے وہ فلوقت سامنا نہیں کر رہا تھا کہیں مزید حالت نہ بگڑ جائے۔اسکے سنبھلنے جانے کا وہ منتظر تھا۔
وہ سنبھلی تو ایسا سنبھلی کہ میران جاہ کو ہلا کے رکھ دیا اسکی زندگی کی جیسے کایا پلٹ گئی تھی۔
وہ سفیر شادی کر رہی تھی؟یہ دوسرا لمحہ تھا اسے باپ سے مزید نفرت محسوس ہوئی۔وہ دل کی باتیں زبان پر لا نہیں سکتا تھا۔جب جب زولفقار سے ملتا اسکو تیش سا آجاتا جس پر اسے قابو کرنا آتا تھا۔وہ بظاہر نارمل دکھ رہا تھا پر ایک ٹوٹا ہوا انسان تھا جو شکوہ تک نہیں کرسکتا تھا۔
        میران نے خیالوں سے نکل کر سانس بحال کرکے سر اٹھایا۔
"میں بابا کے خلاف ثبوت ڈھونڈ رہا تھا ہمیں لازمی معلوم کرنا تھا کہ وہ کب پیسہ باہر بھیجوائیں گے۔شوگر میل کے ڈاکومنٹس مجھے نکلوانے تھے،جو پرسو ہی مجھے شمس نے نکال کے دیے۔اور لندن والے فلیٹس کے بھی۔
میں اس قدر حالات کے آگے مجبور تھا کہ یہ شو کرنا پڑا کے ہاں میں نے ہی عزیز کو حکم دیا تھا۔سارا ملبہ عزیز پہ گرا دیا۔
پہلی بار آپ نے کہا کہ میری امانت کی بڑی حفاظت کی ہے اس وقت میں ٹھٹکا تھا۔پھر جب بات نکلی تو آپ نے سارا واقعہ سنادیا اور اسکا سہرا میرے سر پہ سجانے لگے۔یقین جانیں یہ وہ لمحہ تھا اگر عزیز اور میں سمجھداری سے کام نہ لیتے تو آج آپکے اثاثے نیب کے حوالے نہیں ہوتے۔میری زندگی کا پہلا ایسا پل تھا جب میں نے اپنے اشتعال پہ قابو کیا تھا اپنے اندر اٹھتے طوفان کو بمشکل ہی روکا تھا۔یہ کوئی عام بات نہیں تھی میں اپنے باپ کے خلاف جارہا تھا ثبوت اکھٹے کرکے پر بظاہر یہ سب دکھا نہیں سکتا تھا۔
    عزیز کو جب معلوم ہوا آپکی اور میری ڈیل کا تو یہ بہت خفا ہوا تھا۔
   میرے کمرے کا وہ منظر تھا جب ہم دونوں کی بحث چل رہی تھی اور شمس باہر کھڑا باتیں سن رہا تھا۔میں نے بھی اس وقت عزیز کو کسی چیز سے گوش گزار نہیں کیا۔شمس کے جانے کے بعد اسے اپنے مقصد کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔پر عزیز نے واضح ایسا ہی کیا کہ وہ میران اور زولفقار جاہ کی ڈیل سے خوش نہیں۔
  عزیز ہر بات سے واقف تھا اس نے فوراً سارا الزام سمجھتے ہوئے اپنے سر لیا تھا کیونکہ ہم اس وقت آپ سے بگاڑ نہیں سکتے تھے الٹا وہ وقت آپکے مزید قریب ہونے کا تھا۔میں اپنی جنگ میں ملک سے وفاداری کسی صورت بیچ راستے میں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔"
وہ ٹھہر ٹھہر کے بتاتا جارہا تھا۔اس نے سانس بھری....چہرہ اٹھا کے مراد کی نگاہوں میں دیکھا۔
"اور اذیت کا ایک لمحہ وہ بھی تھا جب میں نے کسی قیدی کی طرح اسے پھڑپھڑاتے ہوئے وہاں پایا اور خود قبول کرنا پڑا کہ اپنی انا کی وجہ سے میں سب کچھ کر گزرا۔کیونکہ وہاں بھی شمس تھا اور مجھے اس بات کا انھیں یقین لازمی دلانا تھا۔بابا سائیں نے اس طرح اس معاملے میں زرا سوچ و بیچار نہیں کی،کیونکہ میں نے وہی کہا جو انھوں نے کہانی گڑ رکھی تھی۔اور وہ مطمئن ہوگئے اور اپنی فتح کا جشن منانے لگے۔اسی وجہ سے عزیز کو میں نے خود سے دور کیا پر وہ پل پل میرے ساتھ ہی تھا۔ہم خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے مجھے منی لانڈرنگ کی تاریخ پتا چل گئی جسکے تم منتظر تھے اور میں نے تمھیں میسج کردیا جسے تم یہی سمجھ رہے ہو کہ طفیل نے بھیجا ہے۔"
   مراد کے چہرے سے نظر ہٹا کے اس نے ہتھیلی کو دیکھا۔وہ انگھوٹے کو ہتھیلی پہ رگڑ رہا تھا،چہرہ کرب کی ضربوں سے آلود تھا۔زرپاش نے مراد کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا۔مراد قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھا اور اسکے برابر صوفے پہ بیٹھ کر اسکا کندھا تھپتھپانے لگا۔
ہر ایک پہ اس نے اپنی حقیقت آشکار کردی۔کب سے وہ یہ طوفان خود میں سموئے ہوئے تھا۔مراد کو اسکے بارے میں اپنی غلط سوچ رکھنے پہ افسوس ہوا۔وہ جی بھر کے شرمندہ ہورہا تھا۔اسے میران پہ ترس آرہا تھا۔زرپاش اپنے بھتیجے کو دیکھ کر بہت افسردہ ہوگئی تھیں۔
مراد کو اس پہ فخر بھی محسوس ہوا تھا جس نے اپنی ذات کو بھلا کر سچائی کا ساتھ دیا اور اس میں اسکا کتنا نقصان ہوا۔زولفقار صاحب اسے ساکت نظروں سے پتھریلے زاویے لیے دیکھ رہے تھے۔
"تو یہ سب تم نے اپنی محبت چھن جانے کے بدلے میں کیا ہے؟"وہ بے یقینی سے برہم انداز میں گویا ہوئے۔میران نے سر اٹھا چٹختے اعصاب لیے انھیں دیکھا۔
        "نہیں یہ سب پہلے سے طے تھا۔مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے اپنے باپ کو کبھی غلط کام کرنے سے روکا نہیں ایک کوشش تک نہیں کی۔یہ سوچ کر ہی مجھے خود پہ افسوس ہوا۔میں یہی چاہتا ہوں آپ اپنے گناہوں کا کفارا کرلیں،کئی لوگوں کے آپ نے دل دکھائے ہیں۔بابا اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں۔"
  وہ انھیں سمجھاتے ہوئے بولا انھوں نے حقارت سے مراد کو دیکھا پھر نظروں کا زوایہ بدل لیا۔
"میرے لیے آپ سب سے اہم رہے ہیں،پر آپ نے ثابت کردیا کہ آپکی نظر میں مجھ سے زیادہ دولت کی اہمیت ہے۔آپکو پیسے سے پیار ہے اپنی اولاد سے نہیں۔"وہ ٹوٹے لہجے میں شکوہ کرتا بولا۔
میران نے زولفقار کی ساری جائیداد جو ناجائز تھی سب نیب کے حوالے کردی تھی۔بڑی مشکل سے زولفقار جاہ نے کچھ کاغذات پہ دستخط کیے۔اس وقت تو انھیں میران کی باتوں سے شاک لگا ہوا تھا۔اور اب جب ڈیل کی حقیقت کھلی تو وہ مزید صدمے میں چلے گئے۔ڈیل دونوں نے کی ضرور تھی پر یہ بس ایک نام کی ڈیل تھی۔ہوا اسکے مخالف ہی تھا۔
"چھوٹے جاہ کھیل تو تم جیت گئے،پر رانی گوا بیٹھے ہو۔"وہ چٹیل انداز میں بولے۔
"آپکو لگتا ہے آپکی دولت چلی گئی آپ ہار گئے،آپکو عہدے سے نا اہل قرار کردیا گیا،جیت میری ہوئی تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔رومائزہ کو مجھ سے چھین کر جیتیں آپ ہی ہیں۔میں ہی بھول گیا تھا میرا باپ زولفقار ہے۔جسکے سینے میں دل کی جگہ پتھر دھڑکتا ہے اور اسکی گونج کئی زندگیوں میں آگ لگا دیتی ہے۔اور اس آگ کی لپٹوں کی زد میں اس بار میں بھی آگیا ہوں۔"
میران اپنی بات مکمل کرکے صوفے سے کھڑا ہوگیا۔زولفقار کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے نا اہل قرار کردیا گیا تھا۔میران باقاعدہ اب سیاست کا حصہ بن چکا تھا اور ملک سے وفادار تھا تو وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے اسی کا نام نامزد ہوا تھا،اب باپ کی ذمہ داری یعنی میران کے کندھوں پہ تھی۔اے پی جماعت کی کافی بدنامی بھی ہورہی تھی۔
پر میران کے زولفقار کے خلاف جاکر اس کارنامے نے اسکی مقبولیت مزید بڑھا دی تھی،اچھے لفظوں میں۔دوپہر میں ہی میران نے کانفرنس طلب کی تھی جس میں وہ واضح کرگیا تھا حرام کی ایک کمائی جو اسکے باپ نے لوٹی وہ سب لوٹائی جا رہی ہے۔اس پہ کسی صحافی نے جاہ بنگلے کا بھی ذکر کیا تھا۔
'جاہ بنگلا ہماری خاندانی نشانی ہے،میرے اور میرے دادا کے کاروبار کو بیچ میں لانے کا سوال پیدا ہی پیدا نہیں ہوتا،میں نے ان سب کی کلئیرنس کورٹ میں کروائی ہے۔ایک ایک چیز کا منی ٹرائل دے چکا ہوں۔'
اس نے صاف وضاحت دی۔شہوار جاہ کی دولت بھی کوئی کم تھوڑی تھی پر جو تھا سب حلال تھا۔اس نے اپنا بزنس سارا دادا کے بزنس سے ہی جنریٹ کیا تھا۔یعنی سب شہوار جاہ کے کاروبار سے منسلک تھا۔
صبح سے وہ بھاگ دوڑ میں مصروف تھا۔
    میران خود کو بے حد تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا۔پہلی بار تھا جو اسکا اب اپنے باپ کی شکل دیکھنے تک کو دل نہیں کر رہا تھا۔
"اس معصوم لڑکی کے ساتھ بہت غلط کیا ہے،سمجھیں یہ اسکی آہیں ہیں جن میں ساری زندگی آپ جلتے رہیں گے۔اسکا باپ اس سے دور چلا گیا،محسوس کرسکتے ہیں وہ کن حالات سے گزری ہوگی!"
میران انکے مقابل آن کھڑا ہوا اور لفظوں پہ زور دے کر بولا۔زولفقار کی نگاہ بے ساختہ زرپاش پہ گئی تھیں۔زرپاش اپنے بھائی کو شکوں کناں نظروں سے ہی تو دیکھ رہی تھیں۔ان میں انھیں رومائزہ ہی دکھائی دی تھی۔اپنے لیے بھائی کے دل میں اس قدر نفرت دیکھ اب زرپاش کو کسی قسم کی ان سے امید نہیں رہی تھی۔انھوں نے پتھریلے انداز سے نگاہوں کا رخ پھیر لیا۔
"آپ نے تو اپنی سگی بہن تک کو نہیں چھوڑا۔آپکی یہ انا آپکو ڈبو دے گی۔"وہ دھیمی آواز میں نفرت سے بولا۔زولفقار کے دماغ میں اسکے لفظ ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔
زولفقار جاہ رکے نہیں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔شمس ذہنی کشمکش کا شکار انکے پیچھے ہی گیا تھا۔
میران کی ایسی حالت دیکھ عبدل پاس آیا۔
"چھوٹے سائیں معاف کردیں میں بھی آپکا مجرم ہوں۔میں آپ سے وفاداری نہیں کرسکا۔"عبدل نے اسکے آگے سر جھکا کے ہاتھ جوڑ لیے۔
"مجبور تھے تم بھی،میری طرح۔"اس نے عبدل کے ہاتھ نیچے کردیے۔زہن میں پرانا منظر لہرایا۔
     وہ بنگلے سے فوراً فارم ہاؤس گیا تھا۔رومائزہ کو بھیجنے کے بعد بے حد دلبرداشتہ صوفے پہ بیٹھ سا گیا۔حلیمہ بی کی نگاہوں میں اپنے لیے ناگواری زرا نہیں بھائی تھی۔تبھی عزیز واپسی چلا آیا اور عبدل اسکے ساتھ تھا جسے جھٹکے سے اس نے میران کے قدموں میں پھینکا تھا۔
میران نے غصے سے اسکا کالر دبوچا اور سارا معاملہ استفسار کیا۔
"تمھاری ذمہ داری تھی اسے گھر چھوڑ آنا،عبدل تم نے کیا کیا یہ سب!"وہ اسکے چہرے پہ جھکے دھاڑا تھا۔
"چھوٹے سائیں میں بہت مجبور کردیا گیا تھا۔شمس نے میری بیوی اور بیٹی کو گھر سے اٹھالیا اور مجھے یہ سب کرنے پہ مجبور کیا۔میں بہت شرمندہ ہوں،اس گستاخی پہ آپ چاہیں تو میری جان لے لیں۔"
اسکی بیوی اور بیٹی کا سن کر میران غصے سے پاگل ہوا۔ہر بار عورت بیچ میں بے وجہ پس رہی تھی۔کیا اسکے باپ کے نزدیک انسانوں خاص کر عورت کی کوئی ویلیو نہیں تھی؟وہ جو عورتوں ہی عزت میں کمی نہیں کرتا تھا اسکے باپ کی نظر میں عورت کیا کوڑی کی مانند تھی!اس نے اسکا گریبان چھوڑ دیا گردن صوفے کی پشت پہ جما لی۔
پھر حلیمہ بی کو ساری سچائی سے روشناس کروایا....وہ اسکی ماں کی طرح تھیں انکی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت کہاں دیکھ سکتا تھا۔حلیمہ بی سناٹے میں رہ گئیں ان کے چھوٹے سائیں نے کتنا بڑا قدم اٹھایا تھا۔چھوٹے جاہ کو غمگین دیکھ انھوں نے فوراً اپنے سینے میں بھینچ لیا۔انکا فخر غرور مان سب اس نے سود سمیت لوٹا دیا تھا۔
"آپ نہیں جانتے میں کس مشکل سے گزری ہوں۔آپکو اقرار نہیں کرنا چاہیے تھا رومائزہ تو یہی سمجھے گی کہ آپ نے یہ سب کروایا ہے۔"
"حلیمہ بی یہ ضروری تھا پر میں اسے سچ بتاؤنگا تو وہ یقیناً میری بات مان لے گی۔ابھی شنواری صاحب سے ملے گی تو اسکا نظریہ بدل جائیگا۔میری اور انکی پہلے سے ہی بات ہوچکی ہے وہ جانتے ہی ہونگے یہ سب کس نے کروایا۔"
اس نے انکا ہاتھ چوما۔حلیمہ بی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے۔وہ خود بھی آنسوؤں پہ جبر کیے ہوئے تھا۔پھر اس نے اپنے اگلے قدم سے ان تینوں کو روشناس کروایا تھا۔سب سے پہلے مراد کے فارم ہاؤس پہ آنے کی اطلاع دی تھی۔حلیمہ بی نے عزیز کے ہاتھوں رومائزہ کا سارا سامان ہٹوادیا تھا۔
"اللہ آپ کو کامیاب کرے۔وہ انسان کی نیت دیکھتا ہے اور آپکا دل تو ہر قسم کی برائی سے پاک ہے۔"بیس دن بعد اسے دیکھ انکی آنکھیں خیرہ ہوئیں تھیں۔اور حقیقت جاننے کے بعد آخر انکے دل کو بھی سکون نصیب ہوگیا تھا۔
          زرپاش نے جب میران کی ساری باتیں سن لیں تو اسکے پاس آئیں۔تھوڑی ہچکچاپٹ میران کو محسوس ہوئی جسے زرپاش نے ختم کر ڈالا تھا۔بے حد آہستگی سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور ڈوبتے دل،نم آنکھوں سے مسکرانے کی کوشش کرنے لگیں۔میران نے سر اٹھا کہ انکی آنکھوں میں دیکھا۔پہلی بار وہ اپنی پھپھی کو دیکھ رہا تھا۔آہستگی سے اس نے انھیں خود سے لگالیا۔کئی پل وہ پھپھو بھتیجا ایک دوسرے کے شانے پہ آنسو بہاتے رہے تھے جیسے اس دوری کا ازالہ کر رہے ہوں۔گل کا لمس اسے ان میں محسوس ہورہا تھا۔ویسی ہی خوشبو تھی۔وہ مزید رو رہا تھا۔اتنے مضبوط انسان کو پہلی بار یوں پھوٹ پھوٹ کے روتا دیکھ سارے ملازمین غمگین ہوگئے۔چھوٹے جاہ سے سب کو بے پناہ اپنائیت تھی بے شک وہ کتنا ہی اکھڑ مزاج تھا۔کسی سے بات نہیں کرتا تھا،پر وہ سب کے بارے میں خبر رکھتا تھا۔ملازمین اسکی ذمہ داری تھے۔عزیز کے ذریعے وہ انکی ہر ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔
  اسے جذباتی ہوتا دیکھ مراد کے چہرے پہ پھیکا سا تبسم بکھر گیا۔اس نے میران کے شانے پہ ہاتھ رکھا۔ہر چیز سے وہ تھک چکا تھا۔اس نے وطن سے وفاداری کے لیے محبت کی قربانی دی تھی۔وہ اندر ہی اندر گھٹ رہا تھا۔اتنے دنوں کا لاوا اب ابل گیا تھا۔ایسا کوئی کندھا چاہیے تھا جو اسے سمیٹ لے پھر سے جوڑ دے۔سوائے زولفقار کے اسکے پاس اور کوئی رشتہ موجود ہی کہاں تھس؟باپ سے وہ بے حد مایوس تھا۔اس نے انکے لیے جتنا کرنا تھا وہ کر گزرا تھا۔
اور خود اب خالی ہاتھ رہ گیا تھا۔
آہستہ سے زرپاش نے اسے خود سے الگ کیا۔
"چلیں بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔"وہ اس قدر آنسو بہا چکا تھا کہ اب سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔کمزور تھوڑی تھا پر یہ ملنے والے گھاؤ اب ناسور بن گئے تھے۔اب اس نے ہی خود کو سمیٹنا تھا۔
"میں یہاں مزید ٹہھرنا نہیں چاہتی،میرا دم گھٹ رہا ہے۔گھر چل کے بات کریں گے۔تم بھی ساتھ چلو تمھیں اکیلا نہیں چھوڑونگی میں۔"وہ میران کا چہرہ تھپتھپا کر بولیں میران نے چہرہ خشک کیا اور انکا ہاتھ گال سے ہٹا کے چوما۔وہ مسکرادیں۔
                          جاری ہے...
Meeran ko itna ghlat smjha😂
Mera dil janta hai kese usky bare mai sakht alfaz mene sune..

Kher mai bht nervous thi is episode ko lekr..
Dard e sar bn gayi thi yeh..
Ab Shabash review dete jao acha sa..

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now