قسط 30 عشق

729 42 3
                                    

رومائزہ کے اردگرد چھائے سناٹے کو قاضی کی آواز نے توڑا۔
"رومائزہ شنواری ولد احتشام شنواری کیا آپکو ایک کڑوڑ روپے سکہ رائج الوقت حق مہر کے میران جاہ ولد زولفقار جاہ اپنے نکاح میں قبول ہیں؟"
قاضی صاحب نکاح نامہ ہاتھ میں اٹھائے سوال کر گئے۔رومائزہ نے چونک کر دھیرے سے سر اٹھایا۔اسکی سماعت کیا خراب ہوگئی تھی؟اسے اب میران کا نام سنائی دے رہا تھا؟پر نہیں یہاں سب کے چہرے پہ کئی آتے جاتے رنگ دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی۔سماعت ٹھیک تھی۔اسکا دل تیزی سے دھڑکا۔
زرپاش نے بے یقینی سے مراد کو دیکھا۔سب شاکڈ تھے۔
پیچھے نظر گھمائی تو سفیر وہاں نہیں بیٹھا تھا۔زرپاش کا چہرہ میران کو دیکھ کر ہی کھل اٹھا۔سفیر میران کے قریب کھڑا تھا۔
"بب بڑے پاپا یہ سب کک کیا ہے؟"حلق میں آنسوؤں کا گولہ ابھر آیا۔اس نے حیرت کے مارے جالی دار سرخ گھونگھٹ الٹ دیا۔اور آنسوؤں سے لبریز نگاہیں انوش پہ ڈالیں جس نے نفی میں فوراً سر ہلایا تھا کہ جیسے اسے خود بھی کچھ نہیں پتا۔
رومائزہ اٹھ کے اندر چلی گئی۔مراد نے جبڑے کس لیے پھر میران کے پاس مسکراتا ہوا آگیا۔
"نکاح تو آج ہی ہوگا اور تم سے ہی ہوگا۔مبارک ہو۔"میران کھڑا ہوگیا مراد نے اسے گلے لگایا۔دائم شاکڈ سی کیفیت میں پاس آیا۔
"تو سب پلان تھا؟"
"مجھے کیوں نہیں بتایا؟"
"اپنے بے وقوف سے داماد کو سرپرائز دینا چاہتے تھے ہم۔"مراد نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
"بے وقوف اور میں؟خیر آج نو بحث۔ویسے اگر بھابھی راضی نہ ہوئیں تو؟"دائم نے بھنوو اچکائی۔
"انکا تو باپ بھی مانے گا۔"مراد کی بڑبڑاہٹ پہ میران نے اسے گھورا۔اور سفیر کی موجودگی کے احساس سے مراد سٹپٹا گیا۔
"آج وہ نہ مانی تو اٹھا کے لے جاؤنگا بہت اسکی بے پرکی برداشت کرچکا ہوں.."میران کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔سفیر ہنس پڑا۔
وہ جانتا تھا جس دن رومائزہ کا دل میران کیلئے دھڑکا تو وہ پھر دنیا میں کسی رکاوٹ کو اپنے اور اسکے درمیان برداشت نہیں کرے گا۔اب تک چپ تھا صرف رومائزہ کی وجہ سے۔
"ٹینشن نا لو...میں بات کرونگا وہ مان جائیگی۔"
سفیر تسلی دے کر اندر ہی چلا گیا۔
سب حیران تھے۔عائشے انوش سکتے میں کھڑی تھیں پھر اندر چلی گئیں۔
"یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں...نکاح تو سفیر سے تھا نا تو میران کب کیسے کیوں؟"غرارہ سنبھالتی اندر آتے ہی وہ الجھن زدہ انداز میں بولی۔
"بیٹا تم نے ہمیں بے خبر سمجھ لیا ہے۔ہم تمھارے والدین کی جگہ ہیں اور ہر چیز کی خبر رکھتے ہیں کہ ہماری بیٹی کیا چاہتی ہے۔ان خود غرض لوگوں میں شمار نہیں ہوتا جو اپنی چاہت کی خاطر دوسرے کی خوشی قربان کردیں۔"
غضنفر بڑے پیار سے اسے سمجھانے لگے۔رومائزہ صوفے پہ بیٹھ گئی تھی۔
"پر سفیر کے ساتھ غلط ہے یہ سب۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔"وہ جھنجھلا کر سرخ آنکھیں اٹھا کر بولی۔
"کیا سمجھ نہیں آرہا؟بتاؤ میں سمجھا دیتا ہوں۔"سفیر لاؤنچ میں داخل ہوا تھا اور اسکے قریب آکے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔رومائزہ نے ہلکا سا شانہ اچکا کے رونی شکل سے اسے دیکھا۔
"بیٹا ہمارا یہی فیصلہ ہے اور آخر احتشام بھی تو تمھاری شادی میران سے کروانا چاہتا تھا۔"رومائزہ نے سسکی بھری۔
"پر تایا ابو سفیر کو چھوڑ کے میران سے کیسے شادی کرلوں؟انکا دل نہیں ٹوٹے گا کیا؟انھوں نے مجھے اتنا سنبھالا انکو انسانیت کا یہ صلہ دوں؟"وہ بھری ہوئے لہجے میں بولی۔
"تمھیں کس نے اپنی ناقص عقل لڑانے کو کہا ہے!یہ میرا اپنا فیصلہ ہے کسی نے مجھے پیچھے ہٹنے پہ مجبور نہیں کیا۔شادی کی پیش کش بھی میں نے کروائی اب پیچھے بھی میں ہٹ رہا ہوں میں ایسی لڑکی سے کیسے نکاح کرلوں جو کسی اور کو چاہتی ہے اور میرے ساتھ زبردستی کے بندھن میں بنے گی؟یہ کوئی گڑیا گڈے کا کھیل تو نہیں۔انسانوں کی دنیا ہے یہ اور سب کے جذبات اہمیت رکھتے ہیں۔"
وہ آرام سے اپنی بات کہہ گیا تھا۔رومائزہ کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔کیا اسے سب پتا چل گیا تھا؟اس نے انکی باتیں سنی تھیں؟
"میں سچ جان چکا ہوں،مجھے پرسوں معلوم ہوچکا تھا میران بے قصور تھا۔پر اتنا دھچکا میرے لیے کافی نہیں تھا۔حیرانی تب ہوئی جب مجھے پتا چلا کہ تم زبردستی نکاح کر رہی ہوں۔"رومائزہ نے چونک کے سفیر کی آنکھوں میں دیکھا۔نگاہوں میں شکوہ موجود تھا۔
"ہاں میں اندھا نہیں تھا شادی کے نام سے تمھارے چہرے پہ بچی کچی مسکراہٹ غائب ہو جاتی تھی میں اسے شرمانہ گھبرانا سمجھتا رہا تھا۔پر یہ چیز شروع سے کھٹک رہی تھی مجھے لگا وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
"میں میران کا سچ جان کر بھی نکاح سے انکار نہیں کرتا،پر جب یہ بات تمھارے منہ سے خود سنی کے تم میران سے محبت کرتی ہو اور میری خاطر کہ مجھے زبان دی ہے اس لیے نکاح کروگی،یہ بات سفیر احمد کے برادشت سے باہر تھی۔میں تم سے نکاح اس لیے کر رہا تھا تاکہ تمھیں خوش رکھ سکوں ساری خوشیاں تم پہ لٹا دوں،پر تمھیں میرے ساتھ وہ خوشی کیسے ملتی جو میں دینا چاہتا تھا تمھارے دل میں تو میران ہے۔مجھے تم سے محبت نہیں ہے جو میرا دل ٹوٹ جائیگا۔میں نے جلد بازی میں فیصلہ کرلیا تھا گھبرا گیا تھا تمھارے اس رات کے کارنامے کے بعد،تمھیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔چاچو کی امانت تھیں تم،پر یہ امانت تو وہ میران کو سونپ چکے تھے۔اپنے بابا کی خواہش پوری نہیں کروگی؟اور اندر کہیں تم بھی تو یہی چاہتی ہو نا!"
ایک ایک بات وہ کلئیر کرتے بولا۔انوش حیران نظروں سے اس بڑے دل کے شخص کو دیکھے گئی۔
اسے وقتی اٹرکیشن رومائزہ سے بات پکی ہونے کے بعد ہوگئی تھی پر ایسی زبردست قسم کی محبت نہیں ہوئی تھی جو وہ روگ لگا کے بیٹھ جاتا۔دنیا تھی سب چلتا تھا۔
"پر..."
اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔
"پر ور کچھ نہیں۔میران کو ہم تمھارے سر پہ مصلت نہیں کرنا چاہتے۔پر تم دل سے سوچو کیا میرے ساتھ خوش رہ لیتیں؟تم خوش نہیں ہوتیں تو میں کیسے خوش ہوتا عجیب سی زندگی ہوجاتی ہم الجھ کے رہ جاتے۔"سفیر نے پیار سے اس سے پوچھا تو وہ خاموشی سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔بات تو وہ سہی کر رہا تھا۔یہی سب سوچ کر تو وہ ہلکان ہورہی تھی۔
"میں تم دونوں کے درمیان ایک رکاوٹ بن چکا تھا۔مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میں غلط کر رہا تھا۔دو محبت کرنے والوں کے درمیان آرہا تھا۔وہ تم سے محبت کرتا ہے تم محبت کرتی ہو دونوں بے قصور ہو تو سفیر احمد کا درمیان میں کیا کام؟مجھے خود پہ افسوس ہورہا ہے کہ میری وجہ سے میران اپنی محبت کی قربانی دے رہا تھا۔لعنت ہی ہو مجھ پر جو میں اتنی خود غرضی پہ اتر آؤں۔وہ محبت کرتے ہوئے اتنی بڑی قربانی دے سکتا ہے تو میں کیا قدم روک نہیں سکتا؟"
سفیر کے چہرے پہ کوئی غم نہیں تھا وہ بلکل پہلے جیسا صرف رومائزہ کے لیے متفکر تھا۔اشکوں سے پانی رومائزہ کے  گالوں پہ پھسلا۔
"رومائزہ بچے یہ تمھارے بابا کی بھی خواہش تھی اور تمھاری اپنی خوشی اس میں ہے۔اسے قبول کرلو۔دوسروں کا دل رکھتے رکھتے تھک جاؤگی۔ہم تمھارے اپنے ہیں ہمارا رشتہ تھوڑی ختم ہونا ہے۔پہلے بھی ماں باپ تھے اب بھی رہینگے۔آپ صرف بے وقوفی کر رہی ہیں۔"
بتول اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔انوش سفیر کے برابر میں آکے پنجوں کے بل بیٹھی۔اور رومائزہ کا ہاتھ تھام کے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
"میری جان قدرت موقع دے رہی ہے،یہ زندگی کا سب سے اہم موڑ ہے ساری زندگی کی بات ہے ایسے شخص کو چنو جسکے ساتھ تمھیں آسانی ہو۔ایک چیز زبان سے قبول کرتی ہو کہ محبت کرتی ہو پر نکاح پہ راضی نہیں عجیب پاگل ہورہی ہو تم۔سب کی یہی خواہش ہے مان جاؤ،میران کا مزید صبر مت آزماؤ۔"انوش کی بات سنتے ہوئے رومائزہ نے کپکپی پہ قابو پاکر آنکھیں موند لیں۔
            دمیر فیملی باہر کھڑی منتظر تھی عزیز اور عبدل بھی وہیں موجود تھے۔حلیمہ بی میران کے شانے پہ ہاتھ رکھے رومائزہ کے فیصلے کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ہاں انکو اس پلان کی پوری خبر تھی۔
ہوا یوں تھا کہ پرسوں جب رومائزہ،انوش اور عائشے باتیں کر رہی تھیں سفیر وہ سب سن چکا تھا۔باہر لان میں ہی غضنفر نے اسے میران کے حوالے سے سب بتایا تو وہ شرمندگی سے دوہرا ہوگیا۔اسے بڑا افسوس ہوا کہ اس نے بھی میران کو غلط سمجھا۔وہ عائشے کو بلانے لاؤنچ میں آرہا تھا تب ان تینوں کو باتیں کرتا دیکھ رک سا گیا۔رومائزہ کے اقرار کی دیر تھی کہ سفیر پریشان ہوگیا۔وہ کیا کرنے جارہا تھا!اسنے اپنے فیصلے پہ پھر نظر ثانی کی اور باہر چلا گیا۔
     عائشے کو چھوڑ کے واپس آیا سارے راستے اس نے اس پہلو کے بارے میں سوچا تھا اور پھر ایک فیصلہ کرکے ماں باپ کو بتانے کے لیے انکے کمرے میں پہنچ گیا۔اس نے ساری باتیں غضنفر اور بتول کے سامنے کھول کے رکھ دیں۔
وہ لوگ تو اپنی بھتیجی کا بھلا چاہتے تھے۔اب چاہے پھر انکا خود کا بیٹا ہوتا یا پھر میران!
وہ اپنا فیصلہ سنا چکا تھا اور ان دونوں کی بھی اس میں رضا مندی شامل تھی۔
"سفیر بعد میں اس فیصلے پہ تمھیں کوئی پچھتاوا تو نہیں ہوگا نا؟"بتول اسکے حوالے سے متفکر ہوئیں اور اسے قریب کرکے پوچھا۔
"نہیں ممی بلکل نہیں۔اگر ابھی میں پیچھے نا ہٹا تو بعد میں ہمیشہ گلٹ رہے گا۔کیونکہ میں میران کی سچائی اور رومائزہ کا احوالِ دل جان چکا ہوں۔مجھے رومائزہ سے محبت نہیں ہوئی جو تکلیف ہوگی۔میں بس اسکے لیے اچھا چاہتا ہوں۔
بعد کی تکلیف سے بہتر ہے کہ ابھی چھوٹی موٹی تکلیف اٹھا لوں۔اپنی وجہ سے ان دونوں کی خوشی کا گلا تو نہیں گھونٹ سکتا۔"
اپنی جانب سے سفیر نے غضنفر اور بتول کو اطمینان دلایا تھا۔
اگلی صبح اس نے فوراً مراد کو فون کھڑکا دیا۔
مراد ابھی پولیس اسٹیشن پہنچا تھا اور اسکا ارادہ سفیر سے بات کرنے کا تھا۔وہ سفیر کو میران کی حقیقت بتاتا اور یہ بھی بتاتا کہ یہ یک طرفہ محبت نہیں دو طرفہ ہے۔
مراد میران کی خاطر سب کچھ کر گزرنے پہ آمادہ تھا۔اور اس درمیان اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ سفیر کا دل ٹوٹے گا یا نہیں۔
وہ سفیر کو کال لگانے لگا تھا سامنے سے اس کی کال خود آگئی۔کال ریسوو کرکے فون کان سے لگالیا اور سنتا گیا اور جب سفیر نے اپنی بات مکمل کی تو مراد پہ حیرت کے ساتھ خوشگواری گزر گئی۔چہرے کی بانچھیں کھل گئیں۔سفیر نے اسکا آدھا کام خود کردیا تھا۔اب صرف میران سے بات کرنے کو بچی تھی۔
"سفیر آر یو شیور؟تمھیں بعد میں کوئی دکھ تکلیف تو نہیں ہوگی؟"
مراد نے اپنی خوشی کو ایک طرف کرکے سفیر کے خیال میں مروت میں پوچھا۔
"نہیں....اگر سچ جان کر بھی نکاح کرلیا تو خود کو معاف نہیں کرسکوں گا۔دو زندگیوں کے ساتھ میری وجہ سے غلط ہو جائیگا۔رومائزہ بے وقوف ہے وہ بس گھر والوں کی خوشی کی خاطر پیچھے نہیں ہٹ رہی پر جب سب اسے سمجھائیں گے اور میں ہی نکاح سے انکار کرونگا اور اس سے بات کرونگا تو ضرور سمجھ جائیگی۔در حقیقت وہ میران کو چاہتی ہے۔ابھی کل کے حادثے کے بعد میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں میران کی آنکھوں میں محبت کے فوارے پھونٹ رہے تھے۔وہیں دوسری طرف روما کی آنکھوں میں بھی آگ کی ویسی ہی لپٹیں تھیں۔رومائزہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہے پر کیا کرے حالات ایسے تھے سب ہوتا گیا۔وہ میران کو اپنا محافظ ہی سمجھتی ہے اسکا بازو تھامنے کا انداز میری نظروں سے نکل نہیں رہا۔بار بار پلٹ کے اسے دیکھنا۔زبردستی کا ہنسنا مسکرانا سب سمجھتا ہوں میں،بس پہلے اسے وقت دے رہا تھا۔"
سفیر اپنی بات پہ بضد تھا۔
"ٹھیک ہے،پھر میران سے بات کرنی چاہیے۔ایک کام کرو انکل آنٹی کو لے کر ہوٹل میں ملو میں میران کو وہیں لے آؤنگا۔میران کو قائل کرنا مشکل نہیں ہوگا وہ صرف رومائزہ کی وجہ سے پیچھے ہٹا تھا ورنہ کبھی اسے خود سے دور نہیں کرتا۔جب اسے پتا چلے گا کہ اس سے محبت کرتی ہے پھر وہ کسی کی نہیں سنے گا۔"مراد نے ہنستے ہوئے خوشی کے مارے بتایا۔دوسری پار سفیر مسکرا گیا۔
جیسے مراد نے کہا تھا میران کا ری ایکشن ویسا ہی تھا۔
"تو کیا اللہ نے واقعی اسکی دعائیں سن لی تھیں؟"میران کا روم روم جی اٹھا تھا۔اللہ کا جتنا شکر ادا کرتا وہ کم تھا۔
"تو بتاؤ میران جاہ میری کزن سے نکاح کروگے؟"سفیر نے ٹیبل پہ جھک کے پوچھا۔میران ہنس رہا تھا۔
"ضرور،کیوں نہیں کرے گا۔چھ سات ماہ سے اس لڑکی کیلئے ہی تو میرا بھائی تڑپ(خوار)رہا ہے۔"مراد نے ہنستے ہوئے کہا۔
میران جگہ سے اٹھا اور بازو وا کیے سفیر اٹھ کے گلے سے لگ گیا۔
      "تم نہیں جانتے کہ کتنا بڑا احسان مجھ پہ کرچکے ہو۔۔"میران نے اسکی پیٹ تھپکی۔
      "میں نے کچھ نہیں کیا۔تمھاری امانت تمھیں واپس لوٹا رہا ہوں۔"سفیر دور ہوتے بولا۔میران کے لبوں پہ انوکھی سی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔روح میں سرشاری دوڑ گئی۔
رومائزہ شنواری اس سے دور کہاں جاسکتی تھی!کہیں بھی چلی جاتی لوٹ کر اسکے پاس آنا تھا۔پر اسرار مسکراہٹ مزید پھیلتی گئی۔
سارے معاملات ان پانچوں کے درمیان طے ہوگئے۔
سفیر مطمئن تھا رومائزہ کی باتیں سن کر جو دل پہ بوجھ سا بڑھا تھا وہ اب اتر گیا تھا۔
                              ★ ★ ★
وہ لوگ منتظر بیٹھے تھے۔میران اس لڑکی کی عقل پہ حیران تھا کہ سچ جاننے کے باوجود اس نے میران کا ساتھ نہیں دیا۔ہاں اسے دکھ ہوا تھا۔اور اب اسکا طویل انتظار میران کا موڈ بگاڑ گیا۔
عائشے فراک اٹھاتے ہوئے باہر آئی اسکے چہرے کی گہری مسکان دیکھ کر مراد رومائزہ کا فیصلہ جان گیا تھا۔
"قاضی صاحب اندر آجائیں نکاح لاؤنچ میں ہوگا۔"عائشے نے جذبات پہ قابو پاکر ہنستے ہوئے کہا۔قاضی صاحب کرسی سے اٹھ گئے۔
"مبارک ہو۔"عائشے میران کو دیکھ کر ہچکچاہٹ سے بولی۔اسکی خوشخبری نے دل میں سکون اتار دیا تھا۔
ایک فاتح کن مسکراہٹ میران کے لبوں پہ کھل گئی۔وہ خوشی سے سرشار ہوگیا۔
       رومائزہ کا نکاح اندر ہی پڑھا گیا اپنی خوشی تمام دلی رضامندی کے ساتھ اس نے نکاح قبول کیا پر وہ نروس بہت تھی اور اسکے بعد تمام مرد حضرات قاضی کے ساتھ لان میں آگئے اور میران کا نکاح پڑھایا۔نکاح کی دعا مکمل ہوئی۔سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے مل رہے تھے۔
      میران کے چہرے پہ پرتپش تبسم پھیلا تھا۔اسکی گہری آنکھوں کے گرد گڈے مسلسل پڑ رہے تھے۔سب کی بات کا وہ مسکرا کے جواب دے دیتا۔دیکھنے میں وہ جتنا مغرور لگتا تھا اتنا تھا نہیں۔خاص کر اپنوں کے درمیان تو وہ کچھ بھی نہیں تھا صرف ایک عام شخص دیکھنے کو ملتا تھا۔وہ ہمیشہ سے رشتوں کا ترسا ہوا تھا اور اب جاکے اسے کئی رشتے نصیب ہوئے تھے۔صرف میران ہی خوش نہیں تھا باقی سب بھی خوش اور پرسکون ہوگئے تھے۔
  رومائزہ اندر موجود تھی سب باہر آگئے تھے،اسے بے حد گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی۔
تو اسکے بابا کی خواہش پوری ہو گئی!اور وہ بھی تو دل کی کسی گہرائی میں اپنی یہ چاہت چھپائے ہوئے تھی۔
      وہ مسلسل انگلیاں چٹخا رہی تھی اس میران کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔انوش اور نیمل تصویریں بنوانے کے لیے اسے بلانے کیلیے اندر آئیں وہ دونوں خوشی سے جھوم رہی تھیں اور اس وقت انوش نے رومائزہ کے سر پہ ایک اہم خبر سنا کے بم پھوڑا تھا۔روما کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔
"میران بھائی ہاتھ کے ہاتھ آج ہی رخصت کرکے لے جائیں گے تمھیں۔"وہ شرارت سے کہتی پہلو سے رومائزہ کا غرارہ ٹھیک کرکے اسے اٹھا رہی تھی۔رومائزہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
"پپ پر کیوں،نہیں انوش ایسے مت کرو میرے ساتھ،میں کیسے اسکا سامنا کرونگی۔"بھرائی ہوئی آواز میں رومائزہ نے احتجاج کیا۔وہ بے حد شرمندہ تھی۔انوش اسکی حالت دیکھ ہنسنے لگی۔
"دیکھو اب رونا دھونا بہت ہوگیا۔ہم سب بہت خوش ہیں۔اتنے دنوں سے سب کچھ اتنا غلط محسوس ہورہا تھا،پتا ہے آج جاکر سکون کی نیند آئے گی۔سہی کہتے ہیں ہر دیر میں سویر ہے، دیکھو سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔"انوش نے پچکارتے ہوئے اسکا گال تھپتھپا دیا۔
"بڑی مشکل سے تم میران کو ملی ہو،وہ اب بھلا رخصتی کا کیسے انتظار کر سکتے تھے۔کل ہی انھوں نے انکل آنٹی سے رخصتی کی بھی بات کرلی تھی۔"رومائزہ کا دوپٹہ سیٹ کرکے وہ اسے اپنے ہم قدم لے کر چلنے لگی..
"رومائزہ میرے بھائی بہت اچھے ہیں،تم انکے صبر کا انعام ہو۔گھبراؤ مت وہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتے تم ایک آنسو بھی بہا دوگی تو انکی ناراضگی ختم ہوجائیگی۔"
نیمل نے شوخی سے کہا۔وہ اسکے آگے چل رہی تھی پر رخ رومائزہ کی طرف تھا اور الٹے قدم لے رہی تھی۔رومائزہ نے آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھا۔
"ناراضگی.."
"ہاں جو تمھیں ایسا لگتا ہے کہ وہ تم سے ناراض ہوگا،باقی مجھے ایسا کچھ نہیں لگتا۔دیکھو وہاں جاکر سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کرنا۔"انوش کے ساتھ مل کر نیمل اسے خوب تنگ کر رہی تھی۔اور ہدایتیں کرنے لگی۔
         وہ تینوں باہر آگئیں۔میران جو مخصوص صوفے پہ بیٹھا سفیر اور مراد سے ہم کلام تھا اسکی نگاہیں رومائزہ کی آمد کے احساس سے اٹھی۔اس نے بائیں طرف دروازے کے پاس نگاہیں اٹھائیں تو وہ پلٹنا بھول گئیں۔وہ مبہوت ہوکر دیکھے گیا۔رومائزہ کی گھبراہٹ مزید بڑھنے لگی۔حالات کے زیر اثر وہ پریشان ہورہی تھی۔میران کی نگاہیں اسکے آنکھوں کے لرزتے ہوئے جھکے جھالر پر ٹھہر گئیں۔وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
میری زندگی کا اک حسین اثاثہ ہو تم دل کی دھڑکن کا خوبصورت خلاصہ ہو تم
میں دیکھتا ہوں تجھے تو مجھے لگتا ہے ایسا جیسے میری آنکھوں کا انمول تارا ہو تم
ہوتا نہیں ہے جس میں کبھی خسارہ مجھے میری زندگی بھر کا وہی سرمایہ ہو تم
دل میں اترتا ہے جیسے کسی اعظم شاعر کے اشعار سی طرز سے میرے دل میں اتر آۓ ہو تم
لوگ کرتے ہیں طرح طرح کے سوال مجھ سے میرے ہر سوال کا جواب بن کے آۓ ہو تم
انوش رومائزہ کو بلکل اس کے پاس لائی اور میران کو کچھ اشارتاً کہا۔
میران نے ہاتھ آگے بڑھایا وہ ابھی بھی محویت سے پورے استحقاق کے ساتھ رومائزہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔اسکے لبوں کی پراسراری بڑھ گئی۔
رومائزہ کی تو ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔میران کی قربت کے احساس پہ وہ ٹھنڈی پڑ گئی اور انوش نے اسکا ہاتھ اٹھا کے جب میران کے ہاتھ میں رکھا تب وہ برف ہوگئی۔روما نے انوش کو گھورا پر وہ سننے کہاں والی تھی۔
"بہت مبارک ہو دونوں کو،میران بھائی آئی ایم سوری کبھی تھوڑا بہت الٹا سیدھا آپکو کچھ بول دیا ہو تو چھوٹی سالی سمجھ کر معاف کردیے گا۔اور اب آپکو میران جاہ میران جاہ تو کہہ نہیں سکتے اچھا نہیں لگتا نہ اس لیے میں میران بھائی ہی کہونگی۔"
اسکی بات سن کر مراد اور سفیر ہنسنے لگے۔انوش نے رومائزہ کے گھورنے کی پرواہ کیے بغیر اپنی بات کر دی تھی۔
"ضرور سالی صاحبہ۔"اجنبیت کی دیوار گراتے وہ مسکرا کے بولا۔
رومائزہ کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔میران نے پہلو میں بیٹھی اپنی زوجہ پہ نگاہ ڈال کے پھیر لی۔وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے نکال کے آہستگی سے اسکی گود میں رکھ دیا تھا اور خود سیدھا ہوکے بیٹھ گیا۔
وہ بلکل خاموش تھی۔نظریں اٹھانا دوبھر ہوگئی تھیں پلکیں من بھر بھاری ہوگئیں۔
کھانے کے بعد رخصتی کا شور اٹھا۔رومائزہ سب سے مل رہی تھی۔اسکے آنسوؤں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔میران اور سفیر ساتھ کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے۔
"آج سے وہ واپس تمھاری چھوٹی بہن ہی ہے۔"
سفیر کو اپنے برابر سے اسکی سرگوشی سنائی دی۔وہ سفید کرتے پر کالا واس کوٹ پہنے ہوئے تھا۔بال جیل سے سیٹ کیے ہوئے تھے۔آستینوں کے کف کہنیوں تک فولڈ تھے۔وہ بے حد دلکش لگ رہا تھا اور پیچھے ہاتھ باندھے سامنے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"تو تم مجھے غم منانے بھی نہیں دوگے۔"
"سفیر احمد کیسا غم؟"میران نے ترچھی نگاہ سے اسے دیکھا۔
"مذاق کر رہا ہوں۔مجھے پہلے والی رومائزہ مل جائیگی اس سے بڑھ کے اور کیا بات ہوگی۔"سفیر نے لب پیوست کرلیے۔
"تمھارا بے حد شکریہ سفیر۔یہ تم اتنے بڑے دل کے مالک ہو جو اتنا بڑا فیصلہ کرگئے۔"
"تمھارے فیصلے کے آگے یہ کچھ نہیں۔میں نے تو صرف کوشش کی دو دلوں کو ملانے کی۔خوش رکھنا میری کزن کو اتنی سی عمر میں بہت دکھ دیکھ چکی ہے۔"
سفیر کی نگاہیں رومائزہ پہ تھیں۔وہ حلیمہ بی کے گلے لگی تھی۔اسے اطمینان آگیا تھا۔بس اگلی زندگی کا سوچ کر کنفیوز ہوگئی تھی۔
میران نے سفیر کو گلے لگا لیا۔
"تمھارا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولونگا۔خدا کرے تمھیں بھی کوئی اچھی لڑکی مل جائے جو تمھاری زندگی جنت بنادے۔"دل سے میران نے دعا دیتے ہوئے ہنس کر کہا۔سفیر مسکراتا گیا۔
"پتا نہیں کب ملے گی۔"وہ لہجے میں بے حد بے چارگی سموئے بولا۔
"دیکھنے والی آنکھیں ہونی چاہیے،ہوسکتا ہے کوئی ہو جو تمھیں چاہتی ہو۔"سفیر سمجھ نہیں سکا تو میران نے بات ٹال دی۔انوش تبھی عائشے کے ساتھ اٹہلاتے ہوئے وہاں آگئی تھی۔
"اب یہاں کھڑے باتیں ہی کرتے رہیں گے یا اپنی بیگم صاحبہ کو سنبھالیں گے؟بھئی بہت مشکل کام ہے اسے سنبھالنا اب یہ ذمہ داری آپکی ہوئی۔"
عائشے نے بال پیچھے کرتے ہوئے جان چھڑانے والے انداز میں شوخی سے کہا۔کتنا سکون دے رہا تھا یہ احساس کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے اسکی ہوگئی ہے۔بل آخر رومائزہ شنواری اسکی بیوی کے رتبے پہ فائز ہو ہی گئی۔
میران نے کبھی کہا تھا یہ دنیا جو انھیں دور کرنے پہ تلی ہوئی کسی دن یہی ان کو ایک کردیں گے۔خیال کے ماتحت اسکے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔میران  آگے بڑھ گیا اور پھر رخصتی کا مرحلہ بھی طے پایا۔غضنفر اور بتول نے خوشی خوشی اسے رخصت کیا تھا رومائزہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں اور سب کا ڈھیر سارا پیار لے کر رخصت ہوئی تھی۔
                             ★ ★ ★
زندگی نے نیا موڑ لے لیا تھا۔رات ہوچکی تھی،لمحوں میں دلہا ہی بدل گیا۔بل آخر وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میران جاہ کی ہوگئی تھی۔رومائزہ بھیگے اشکوں سے گاڑی کے باہر دیکھتی رہی۔وہ ایک طرف بیٹھی اور دوسری طرف میران تھا۔دونوں کے درمیان اجنبیت کی انتہا تھی۔جیسے ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہی نہ ہوں۔رومائزہ تو شرمندگی کے احساس سے مخاطب کر بھی نہیں پائی تھی۔
عزیز نے گاڑی بنگلے میں داخل کردی۔رومائزہ ہق دق سی بنگلے کی خوبصورتی کو دیکھنے لگی۔جیسا سنا تھا یہ اس بھی زیادہ خوبصورت تھا۔اسے تو فارم ہاؤس کا لان اتنا بڑا لگتا تھا پر یہ تو اس سے کئی گناہ وسیع تھا۔اور درمیان میں سفید بنگلہ کھڑا تھا۔آنسو اس نے اپنے اندر اتار لیے۔
پورچ کی بجائے گاڑی عزیز نے سیڑھیوں کے پاس لاکر روک دی تھی۔اور باقی سیکورٹی کی گاڑیاں زن کی آواز پہ پورچ میں جا لگیں۔
روما کا دل بس باہر نکلنے کو تھا۔میران گاڑی سے اترا وہ بت بنی اندر ہی بیٹھی رہی۔اپنی طرف کا دروازہ بند کرکے وہ اسکی جانب آیا اور دروازہ کھولا۔رومائزہ نے چونک کے سر اٹھایا۔میران کا مغرور چہرہ آنکھوں کے سامنے تھا۔
واس کوٹ کے اس نے بٹن کھول رکھے تھے نگاہیں اسکی وجاہت سے ہٹیں تو اسے احساس ہوا وہ بے تاثر انداز میں اسکے باہر نکلنے کا منتظر کھڑا ہے۔
غرارہ سنبھالتی ہوئی وہ باہر نکلی بے ساختہ سہارے کے لیے اس نے میران کا ہاتھ تھام لیا۔وہ یک ٹک اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔پھر خود کو کمپوز کرکے اردگرد دیکھا۔
یہاں فارم ہاؤس سے زیادہ سیکورٹی تھی۔اور بہت بڑا باغ تھا جو بے حد پرکشش تھا۔حلیمہ بی دوسری گاڑی سے نیچے اتر کے پاس آئیں۔انھیں دیکھ کر رومائزہ کو حوصلہ ہوا ورنہ تو گھبراہٹ سے پاگل ہوجاتی۔
میران کے اشارے پہ وہ اسے اندر لے جانے لگیں۔میران نے پھر اسکا ہاتھ آہستگی سے چھوڑ دیا۔روما کو بہت برا لگا تھا۔ناک پھلا کر میران کو دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔
وہ ان دونوں کے پیچھے چل رہا تھا۔لبوں پہ خاص مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ملازموں نے بہت اچھے سے انکا استقبال کیا۔رومائزہ حد درجہ کنفیوز تھی،خاموشی سے پھیکا سا مسکرا دیتی۔
اس نے بنگلے کو اندر سے دیکھا جسکا انٹیریئر بہت خوبصورت تھا۔اور سب سے پرکشش اوپر جاتی سیڑھیاں تھیں۔جسکے گرد پلر کھڑے تھے اور اوپر بھی باقاعدہ راہداری کے ساتھ کمرے تھے۔
"یہیں بیٹھو گی یا کمرے میں لے چلوں؟تھک گئی ہوگی نا۔"حلیمہ بی نے پلٹ کر اس سے پوچھا۔رومائزہ نے سر ہلا دیا تو اسے میران کے کمرے میں لے جانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھیں۔اسکا دل تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر سیڑھیوں تک پہنچی۔یہ سیڑھیاں سر کرنا بڑا مشکل لگا تھا۔وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔کندھے کا درد ختم کہاں ہوا تھا۔
سر بھی دکھ رہا تھا۔اوپر فلور پہ آنے کے بعد بڑی سی دو طرف راہدری تھی۔ڈیکوریشن پیس کرسیاں وغیرہ جگہ جگہ لگے تھے۔اور ایک گلاس وال سیڑھوں کے سامنے تھی جن پہ باغ کی لائیٹس کی چھن چھانی روشنی پڑ رہی تھی۔
حلیمہ بی نے میران کے کمرے کا لاک گھمایا اور اسکو بازو سے تھامیں اندر لے آئیں۔
کمرہ روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔اندر قدم رکھتے ہی رومائزہ کے رونگھٹے کھڑے ہوچکے تھے،کھینچ کے سانس لی۔
کمرہ اس میں رہائش پذیر شخص کی نفاست کا پتا دے رہا تھا۔عجیب سے احساس نے رومائزہ کو چھوا۔لبوں پہ مسکراہٹ گھل گئی۔حلیمہ بی نے مسکرا کے اسے دیکھا اور بیڈ پہ لے جاکر بٹھا دیا۔وہ ہیلز اتار کے پیر لٹکا کر ہی بیٹھی تھی۔
"یہ کس کا کمرہ ہے؟"
اس نے کمرے میں نظر گھمائے پوچھا۔سب سے اچھی جگہ اسے گلاس وال اور بالکونی لگی تھی۔جسکا دروازہ تک کانچ کا تھا۔وہ اس طرف راغب ہورہی تھی۔دل کو اس نے قابو کیا۔
"چھوٹے سائیں کا کمرہ ہے اور آج سے تمھارا بھی۔"حلیمہ بی نے مسکرا کر جواب دیا رومائزہ نے پلکیں بچھا دیں۔
"حلیمہ بی آپ یہیں رہینگی نا؟"ہاتھوں میں موجود چوڑیوں سے کھیلتے ہوئے اس نے دھیمے سے پوچھا۔
"فلحال تو یہاں ہوں،پر واپس فارم ہاؤس چلی جاؤنگی۔"انھوں نے آگے بڑھ کے اسکا ماتھا چوما۔رومائزہ نے آنکھیں بند کرلیں۔
"چلو اب آرام کرو۔کچھ بھی چاہیے ہو تو بلا جھجھک کہہ دینا۔تمھارا سارا سامان اندر کلازیٹ میں موجود ہے۔"
"کھانا منگواؤں کیا؟"
جاتے جاتے انھوں نے پلٹ کر پوچھا،انکا یہ ممتا بھرا انداز وہ کب سے یاد کر رہی تھی۔اٹھ کر اس نے پاس جاکے انھیں گلے سے لگا لیا۔
"آپ بہت اچھی ہیں،اتنا خیال رکھتی ہیں کہ میں شرمندہ ہوجاتی ہوں۔"
وہ اسکے ساتھ پہلے دن سے ہی ایسی تھیں۔اسے یاد آیا تھا فارم ہاؤس میں اسکا پہلا دن جو تھا تب رو رو کر اس نے برا حال کیا ہوا تھا اور بھوکی رہ رہی تھی حلیمہ بی نے ہی اسے کھانا کھلایا تھا۔
"پاگل ہوگئی ہو کیا؟ہر ماں اپنے بچوں کا ایسے ہی خیال رکھتی ہے۔میں نے سائیں اور تم میں کبھی فرق تھوڑی کیا ہے۔میری پیاری بیٹی...آج تم نے مجھے بے حد خوشی دی ہے۔چھوٹے سائیں اتنے دن سے کھل کے مسکرائے نہیں تھے آج انکے چہرے پہ اطمینان بھری مسکراہٹ دیکھ کر دل کو سکون پہنچ گیا ہے۔"
حلیمہ بی نے اسکی پیٹ تھپکائی وہ آہستہ سے دور ہوئی۔اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا۔آخری بات پہ رومائزہ نے نگاہیں چرا لیں۔انکی مسکان گہری ہوگئی۔
وہ باہر چلی گئیں۔رومائزہ کندھا تھامتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر کمرہ دیکھنے لگی۔دھیان بار بار بالکونی کی طرف جارہا تھا۔اس نے اسی جانب قدم بڑھا دیے۔شیشے کے پاس جاکر اس نے باہر دیکھا۔پورا لان اسکی آنکھوں کے سامنے تھا۔باغ کا خوبصورت منظر آنکھوں میں سمو کر وہ کئی پل خوش ہوتی رہی۔
      میران سیڑھیاں پار کرکے راہدری سے گھوم کے کمرے کے پاس آیا۔لاک گھما کے وہ اندر داخل ہوا۔دروازے کی آواز پہ چونک کر رومائزہ پیچھے پلٹی۔
میران جگہ پہ رک سا گیا۔ایک نگاہ رومائزہ کے غرارے میں زیب سنجے سنورے روپ پہ ڈالی پھر خود کو کمپوز کرکے دروازے بند کرکے اندر آگیا۔واس کوٹ اتار کے اس نے صوفے پہ رکھ دی۔آستینوں کے کف کھولنے لگا۔رومائزہ جس نے سوچ لیا تھا اس سے اپنے رویے کی معافی ضرور مانگے گی۔اسکے موجودگی کے حصار میں سن پڑ گئی زبان تالو کو جا چپکی۔
وہ منتظر تھی کہ میران اسے مخاطب کرے گا شکوہ کرے گا پر وہ تو کچھ کہہ ہی نہیں رہا تھا۔بلکہ دوبارہ نظر اٹھا کے اسے دیکھا تک نہیں ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
رومائزہ کا چہرہ بجھ سا گیا۔ڈوبتے دل کے ساتھ قدم اٹھا کر وہ بیڈ کے کنارے آکر بیٹھ گئی اور انگلیاں چٹخانے لگی۔
   پتا نہیں کب تک اسکی ناراضگی دیکھنے کو ملتی۔رومائزہ کی بچی کچی ہمت بھی اڑن چھو ہوگئی۔
تھکن کے احساس سے اس نے بددلی سے جیولری اتارنی شروع کردی۔وہ جہاں سوچ بیٹھی تھی کہ میران اسے دیکھے گا تعریف کرے گا،الٹا اس نے تو بات کرنا تک گوارا نہیں کی۔
رومائزہ کو غصہ سا آنے لگا۔کیا اسکی محبت ختم ہوگئی تھی؟اس نے سب سے پہلے کانوں کو وزن دار جھمکوں سے آزاد کیا۔ہاتھ سے انگھوٹی اتار کے رکھی۔گجرے اتارنے کے بعد چوڑیاں اتار کے ہاتھوں کو آزاد کیا۔
دوپٹے کو پنوں سے آزاد کرکے شانوں پہ پھیلا دیا۔تھوڑی پرسکون ہوئی تھی میران شاور لے کر بال تولیے سے رگڑتا باہر نکل آیا۔کالے ٹراؤزر جس کے ایک طرف سفید دھاری تھی اسکے ساتھ سفید شرٹ پہن رکھی تھی۔شرٹ پہ کچھ پانی بوندیں گر چکی تھیں۔
رومائزہ اسے مبہوت سی دیکھے گئی۔
وہ ایسے شخص کی بیوی بن چکی تھی جسکے پیچھے کئی لڑکیاں مر مٹی تھیں،جو اسکی ایک جھلک دیکھنے کو ترستیں اور اسکی زرا سی اپنی جانب توجہ مل جانے کی خواہش مند تھیں۔بلاشبہ وہ مرادنہ وجاہت کا پیکر تھا۔میران نے تولیہ ایک طرف رکھا اور بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا ڈریسنگ کے پاس چلا گیا۔
وہ رومائزہ کی نظریں خود پہ محسوس کر رہا تھا۔
"جاؤ تم بھی فریش ہوجاؤ۔"
تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد بالوں میں برش چلاتے ہوئے میران نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔رومائزہ کو اپنی ذات کی کم آہنت  کا احساس ہوا۔آنسوں خود میں اتار کے وہ ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔
"اگر ایسے ہی موڈ رکھنا تھا تو شادی کیوں کی،اللہ جی کیا کروں میں۔وہ تو بات ہی نہیں کر رہا کیسے معافی مانگوں؟آپ مجھے سزا دے رہے ہیں نا میں نے اسکے ساتھ کتنا برا رویہ اختیار کرلیا تھا۔اللہ میں بہت بہت شرمندہ ہوں۔آئیندہ اسے کچھ نہیں کہونگی بس ابھی سب ٹھیک کردے۔"
ڈریسنگ روم میں جاکے وہ خوب بڑبڑا رہی تھی۔ایک الماری کا پٹ کھولا تو اس میں میران کے کپڑے موجود تھے۔سب سے زیادہ سفید اور اسکے بعد سیاہ رنگ کے کئی کرتے ہینگر ہوئے تھے۔نیچے دراز تھی رومائزہ نے کھولی تو اس میں لاتعداد  مہنگی ترین گھڑیاں تھیں۔رومائزہ نے بد دلی سے وہ پٹ بند کرکے دوسرا دروازہ کھولا۔
اس میں رومائزہ کے کپڑے موجود تھے۔ایک سلک کا سادہ سا جوڑا نکال کے وہ چینج کرنے کے لیے چلی گئی۔باہر آکر دیکھا تو وہ بالکونی میں کھڑا سیگریٹ پی رہا تھا۔بالکونی کا دروازہ بند تھا۔بلکل بیویوں والی عادت رومائزہ کو اسکا سیگریٹ پینا برا لگا تھا۔جلتے کڑتے تھکن کے مارے بیڈ پہ ایک کونے میں سمٹ کر لیٹ گئی۔
شادی کی پہلی رات ایسی تھی شوہر نے بات کرنا تک گوارا نہیں کی۔وہی شخص جو محبوب ہونے کا دعویدار تھا اب کدھر گئی تھی اسکی محبت؟آگے زندگی کا سوچ کر اسے جھرجھری آگئی۔خیر کونسا وہ ساری زندگی ناراض رہتا۔رومائزہ کو تو زیادہ سوچنے کی عادت ہوگئی تھی۔
صوفے پہ لیٹ کر جسم کو مزید دکھانے کی وہ بے وقوفی نہیں کرسکتی تو بیڈ ہی آخری آپشن بچا تھا۔
اے سی کی کولنگ بلکل مدھم تھی۔بال خشک کرکے وہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔ماتھے پہ اب بھی چوٹ کے نشان تھے جو پہلے میک اپ سے کوور کردیے گئے تھے۔ایک بار پھر رومائزہ نے بالکونی کی طرف دیکھا۔دانت پیس کر آنکھیں بند کرکے کروٹ لے لی۔
"میری بلا سے کچھ بھی کرے،میں بھی بات نہیں کرونگی۔"سوچوں کا مرکز صرف میران تھا۔
     میران واپس کمرے میں آیا تو اسے سوتے پایا۔
کنپٹی سہلا کر اس نے قدم اسکی طرف بڑھائے۔
اسکا معصومیت سے بھرا چہرہ دیکھ کر میران کے لبوں پہ سرور سے مسکان آگئی۔پر یہی لڑکی جب جاگ جاتی تو اس سے زیادہ ظالم اور کوئی تھا بھی نہیں۔وہ اسکے چہرے کے قریب آیا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر محویت سے بوجھل ہوتی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
رومائزہ کے بال چہرے پہ گر کے اسکی نیند میں خلل پیدا کر رہے تھے۔میران نے ہاتھ بڑھا کے آہستہ سے انھیں کان کے پیچھے کردیا۔انگلیاں اسکے بھرے بھرے گالوں سے مس کیں اور جبڑے بھینچ کر اٹھتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
                           ★ ★ ★
صبح جب رومائزہ کی آنکھ کھلی تو میران تب بھی کمرے میں موجود نہیں تھا پر اسکی طرف کی شکن آلود بیڈ شیٹ دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا وہ رات آیا ضرور تھا۔
       ناشتے کے وقت عائشے نیمل اور مراد آگئے تھے۔
مراد اور میران تو لان میں چلے گئے۔حلیمہ بی فرید کے ساتھ کاموں میں لگ چکی تھیں۔
وہ تینوں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ عائشے نے رومائزہ پہ سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔
"پہلے یہ بتاؤ سفیر بھائی کیوں نہیں آئے؟"
"میری بہن ہم کوئی ناشتہ لے کر نہیں آئے۔میران نے انکو منع کردیا تھا۔ہم لوگ تو بس تم سے ملنے آئے ہیں۔انوش رہ گئی اسکو سونے سے فرصت نہیں ملی ورنہ میں اسے ساتھ لے کر آتی۔"عائشے نے ڈائننگ ٹیبل پہ کہنیاں جما رکھے کہا۔
"اچھا سہی ہے۔"
"تم بتاؤ نا کیا کیا ہوا۔میران بھائی سے بات کرلی؟"نیمل کے تجسس بھرے انداز پہ رومائزہ کا سر جھک گیا۔
"کیا خاک بات ہوتی۔اسکے مزاج ہی نہیں مل رہے،عائش اس نے بات بھی نہیں کی۔"
رومائزہ نے آخر میں رونی سی شکل بنا لی۔ہونٹ سکیڑ کے کہا۔
"اور تم نے بات کرنے کی کوشش کی؟"
"ہمت ہی نہیں ہوئی مخاطب کرنے کی۔ویسے تو مجھے اسکے غصے سے فرق نہیں پڑتا تھا۔پر اب پڑتا ہے،ڈرتی نہیں ہوں میں پر اس بار بات نہیں کی جارہی۔"رومائزہ بے حد جھنجھلائے انداز میں بولی۔عائشے مسکرانے لگی۔
"ہوتا ہے،سب ٹھیک ہو جائے گا۔"نیمل ںے تسلی دی۔
"تمھاری رخصتی کب ہورہی ہے پھر؟"رومائزہ نے موضوع بدلتے ہوئے نیمل کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔اس نے شرمانے کی بھرپور ایکٹنگ کی۔
"دائم کا بس نا چلے وہ ابھی ہی گھر لے جائیں۔دو مہینے بعد کا وہ کہہ رہے تھے۔اب بس بڑوں میں بات طے کی جائیگی۔"
نیمل اپنی انگھوٹی کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہوئے جواباً بولی۔
"ارے ہاں پرسو بھابھی اور بھائی بھی تو ہنی مون پہ جارہے ہیں۔"نیمل نے بلا جھجھک چھوٹتے ہی کہا۔عائشے شرم سے پانی ہوگئی۔
"نیمل میں تمھارا گلا دبا دونگی اگر اب تم نے یہ بات کسی کو بتائی۔"
اسکے ہنی مون لفظ پہ عائشے شرمندہ ہوگئی تھی۔رومائزہ کی شرارتی نظریں اسے پریشان کرنے لگیں۔
"یار گھومنے جا رہے ہیں۔"
"ہاں تو گھومنے ہی جاتے ہیں۔"رومائزہ نے آنکھیں پٹا کر کہا۔عائشے اسے پرانے روپ میں دیکھ کر مسکرائی۔
آخر کار اسے اپنی دوست مل گئی تھی۔ہاں اسکی ازدواجی زندگی ٹھیک نہیں تھی پر وہ مطمئن تھی آخر ساتھ اپنے من پسند شخص کا ساتھ جو مل گیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ سب چلے گئے۔رومائزہ کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔نگاہیں ایک کمرے پہ ٹھہر گئیں۔صبح معلوم ہوا تھا کہ زولفقار جاہ کا وہ کمرہ ہے۔مراد اور نیمل ان سے ملنے گئے تھے۔میران نے نکاح کی خوش خبر انھیں سنائی تھی۔
انکی طبیعت کا جان کے اسے عجیب سا محسوس ہوا۔نا کوئی ترس نا کوئی نفرت۔
وہ کمرے میں چلی آئی۔کمرے کے چکر کاٹتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کس طرح میران سے بات کرے۔اسکی نگاہ ٹیبل پہ پڑے اسکے پرفیومز پہ گئی۔دماغ کے گھوڑے دوڑائے۔سب سے برانڈڈ مہنگا والا پرفیوم اس نے اٹھایا۔اسکی خوشبو سونگھی۔یہ میران کی پسندیدہ خوشبو تھی وہ زیادہ تر یہی لگایا کرتا تھا۔
رومائزہ نے کچھ سوچتے ہوئے اسے فرش پہ پھینک دیا۔آنکھوں میں شرارت کے ساتھ خوف بھی تھا۔وہ اسکا غصہ سہنے کو بھی راضی تھی۔تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہوا کہ کوئی کمرے کی طرف آرہا ہے تو ڈریسنگ روم میں جا گھسی۔
         میران کمرے میں آیا تو اپنا پسندیدہ پرفیوم ٹوٹا پڑا دیکھ ٹھٹک گیا۔اس نے ملازمہ کو آواز دی تو وہ چلی آئی۔
"بختو کیا ہے یہ سب؟"میران کو لگا کے شاید صفائی کے دوران ٹوٹ گیا ہو۔اسکا لہجہ بہت سخت بھی نہیں تھا۔
"چھوڑے سائیں میں تو ابھی کمرے میں آئی ہی نہیں۔بی بی سرکار نے تھوڑی دیر بعد صفائی کا کہا تھا۔"
ملازمہ کی بات سن کر میران کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔بی بی سرکار..
وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔تو محترمہ جس لفظ سے چڑتی تھیں وہ زندگی بھر کے لیے ساتھ لگ گیا تھا۔
ملازمہ کی آواز سن کر رومائزہ باہر نکلی۔وہ لال فراک میں بے حسین لگ رہی تھی اور سیدھا میران کے دل میں چھیڑ چھاڑ کرتی اتری گئی۔
"یہ مجھ سے ٹوٹ گیا انھیں مت ڈانٹو۔"لہجہ مضبوط کرکے اس نے کہا۔
"نہیں بی بی سرکار سائیں ڈانٹ تھوڑی رہے تھے۔"بختو فوراً میران کی طرف داری کرتے بولی۔روما نے زبردستی مسکرا کے انھیں دیکھا میران نے سر جھٹک لیا۔
"یہ صاف کروادیں۔"وہ حکم دلی سے کہتا صوفے پہ جا بیٹھا۔اتنا ٹھندا ری ایکشن دیکھ کر رومائزہ تلملا کر رہ گئی۔رونا آنے لگا۔
                             ★ ★ ★
گھر واپس آکر عائشے پیکنگ میں مصروف ہوچکی تھی۔مراد کمرے میں داخل ہوا اس نے کچھ دنوں کی چھٹیاں لے لی تھیں۔عائشے کو بازو سے تھام کر قریب کیا۔
     "مراد ایک بات بولوں؟"
لب کترتے ہوئے اس نے تمہید باندھ کر کہا۔
     "میران کو بولیں روما سے بات کرلے۔وہ بہت پریشان تھی۔"
مراد نے سختی سے اسے گھورا۔
     "اچھا ہے میران کو تھوڑی ناراضگی ظاہر کرنے دو اور وہ بھی زرا پریشان ہو۔اور میں نے کہا تھا نا انکے معاملے میں ہم کچھ نہیں بولیں گے۔"
     "آہاں ہاں!خود نے شادی کروادی اور میں کچھ بولوں بھی نا!"
آنکھیں چڑھا کے جتا کر وہ بولی۔
"عائشے تم نے ایک بات نوٹ کی ہے۔"مراد لہجے میں تجسس سمائے بولا۔عائشے اب کپڑے تہہ کرکے بیگ میں رکھ رہی تھی۔
"کیا؟"
"یہی کہ تم نے کبھی بتایا نہیں مجھے سے پیار کرتی ہو بھی کہ نہیں!"اس نے بے حد سنجیدگی سے پوچھا پر آنکھوں میں شرارت پھونٹ رہی تھی۔
"کیا کریں گے جان کر؟"وہ اترائی۔
"جو بھی کروں،یہ جاننا میرا حق ہے۔بتاؤ محبت کرتی ہو مجھ سے؟"مراد اسے بازو سے پکڑ کے قریب کرکے اسکی آنکھوں میں دیکھے بولا۔عائشے کے چہرے پہ حیا کے رنگ بکھر گئے۔
"یہ کیسا سوال ہوا بھلا۔شادی کے بعد ہر لڑکی اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے۔"اسکی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے عائشے نے کہا۔مبھم سی مسکراہٹ مراد کے لبوں پہ آئی۔
"تم اپنے دل کا حال بتاؤ۔"
"جواب آپکو پتا تو ہے۔کیوں تنگ کر رہے ہیں۔"وہ فاصلہ بنانے کی کوشش کرنے لگی۔
"کھڑی رہو یہیں جواب دو گی تو جانے دونگا۔"وہ دو ٹوک بولا۔
"کیا بولوں تو؟"
"اظہار محبت کردو بس۔"
"مراد.."وہ منمنائی،پھر تھوڑا سنبھلی۔
"جیسے آپ میرے لیے احساسات رکھتے ہیں ویسے ہی میں بھی رکھتی ہوں۔آپکے دور جانے کا خیال جان نکال دیتا ہے۔آپکا ساتھ اچھا لگتا ہے۔خوش نصیب ہوں جو مجھے آپ ملے۔جس نے مجھے میرے ماضی کے ساتھ قبول کیا۔ہر قدم پہ میرا ساتھ دیا۔اس محمل چڑیل کی باتوں پہ یقین بھی نہیں کیا۔"
وہ اسکی آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ نا سکی نگاہیں جھکا لی۔مراد نے مسکرا کے اسکی پیشانی پہ اپنا لمس چھوڑ دیا اور بیڈ پہ جا بیٹھا۔عائشے نے تسلی سے پھر پیکنگ مکمل کرلی تھی۔وقفے وقفے سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے۔
    دوسری طرف سفیر اپنی روٹین میں واپس آگیا تھا۔اسے اس بات کی خوشی تھی کہ دو محبت کرنے والوں کو اس نے ملا دیا پھر اپنا کیا جاتا تھا؟
انوش نے اپنی محبت کو اندر کہیں سلا دیا تھا۔نا ہی یہ بات اسے تکلیف دیتی تھی نا ہی اس نے مزید کسی پہ عیاں ہونے دی۔وہ اب بس اپنے فیوچر کو لے کر متفکر تھی۔
                             ★ ★ ★
دن گزر گیا رات ہوگئی۔رومائزہ سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔میران پورے دن گھر سے باہر تھا۔ٹی وی چینلز پہ اسکے نکاح کی خبر پہنچ چکی تھی۔پورے دن رومائزہ کا فون مبارکباد سے بجتا گیا تھا۔کلاس فیلوز حیراں تھے اور وہ انکی حیرانی پہ لاجواب تھی۔
اللہ نے کس طرح اتنی آزمائشوں کے بعد ایک کر دیا تھا۔پر یہ لاتعلقی کی دیوار کب ختم ہوتی کون جانے۔
وہ سوچوں میں غرق تھی میران کب آیا اسے محسوس نہیں ہوا۔
وہ فریش ہوکے نائٹ ڈریس میں باہر نکلا۔گہری سانس کھینچ کر بیڈ کی طرف آرام کرنے کیلیے بڑھ گیا۔رومائزہ ہوش کی دنیا میں آئی۔اسے بیڈ پہ آتے دیکھ جی جان سے لرز اٹھی اور ایک کونے میں مزید سمٹ گئی۔کل تو میران بعد میں آیا تھا اس لیے پرسکون سی سو گئی تھی۔اب تو اسے پتا نہیں نیند آتی بھی کہ نہیں۔
       جہاز سائز بیڈ تھا۔پر میران زرا سے بھی ہاتھ پھیلاتا تو ضرور رومائزہ تک ہاتھ پہنچ ہی جاتے۔اسکا حلق سوکھ گیا۔وہ مسلسل کروٹیں بدلنے لگی۔میران کی نیند میں بری طرح خلل ہوا۔
"اگر میرے یہاں سونے پہ اتنا ہی مسئلہ ہے تو بتا دو،میں چلا جاؤنگا۔"اچانک اسکی برہم آواز کان کے پردے سے ٹکرائی وہ اچھل پڑی۔
"بلکہ مسئلہ تمھیں ہے تم صوفے پہ جاکے لیٹو۔"میران پھر بولا۔رومائزہ کی ناک بے عزتی کے احساس سے پھول گئی۔
"میں کیوں سوؤں وہاں؟پہلے جسم کم دکھ رہا ہے جو وہاں جاکر اکڑنے کے لیے لیٹ جاؤں۔تم کو سونا ہے تو سوجاؤ۔"
روما کی بس ہوگئی تھی بنا کسی نرم تاثر کے وہ پھٹ پڑی۔اسکا کندھا اب تک دکھ رہا تھا وہ پین کلرز لے رہی تھی پر درد آہستہ آہستہ جانا تھا زخم تو بہت بہتر تھے ان میں تکلیف بھی نہیں تھی۔بنگلے میں ہر کوئی اسکی خاطر مدارت کر رہا تھا سوائے میران جاہ کے!
میران نے اسکی بات سن کر سختی سے لب پیوست کرلیے اور خاموش ہوکے کروٹ بدل لی۔
         رومائزہ کی صبح آنکھ کھلی۔وہ اٹھ کے بیٹھ گئی۔چہرہ گھمایا تو میران وہاں ارد گرد سے بے خبر اسکی طرف کروٹ لیے سورہا تھا۔اسکے شفاف چہرے پہ رومائزہ نے مسکرا کے نگاہ ڈالی۔مبہوت ہوئے کئی لمحے اسکے چہرے کے نقوش دیکھنے میں گزر گئے۔
دھیرے سے ہاتھ بڑھا کے رومائزہ نے میران کی کی جھکی گھنی پلکوں کو چھوا۔ہونٹوں پہ مسکراہٹ اتر آئی۔
"معاف کردو مجھے کب تک بات نہیں کروگے۔جان نکل رہی ہے میری اور تمھاری ناراضگی ختم نہیں ہورہی۔"اسکے چہرے پہ جھکے وہ دل میں مخاطب ہوئی۔ماتھے پہ گرے بال پیچھے کردیے پھر بیڈ سے اتر گئی۔
                           ★ ★ ★
وہ بے تابی سے بالکونی میں چکر کاٹ رہی تھی۔
میران فریش ہوکر باہر نکلا ڈریسنگ کے پاس اسٹینڈ پہ اسکا سفید کرتا ہینگ تھا۔
بالوں میں ہاتھ چلا کر وہ کرتا لینے کی غرض سے اسٹینڈ تک آیا۔
کرتے کے اوپری بٹن ٹوٹے دیکھ صبر کا گھونٹ بھر کے رہ گیا۔پلٹ کر بالکونی میں دیکھا۔رومائزہ پتھر کا مجسمہ بنی ریلنگ پہ ہاتھ جمائے باغ کی طرف رخ کیے کھڑی تھی۔لب پیوست کیے میران نے اسکی پشت دیکھی۔
"ایک...دو....تین...اب بمب پھٹے گا۔"رومائزہ نے دل ہی دل میں ورد شروع کردیا۔
"یہ کچھ بول کیوں نہیں رہا؟چار...پانچ۔۔چھ سات دس گیارہ..."دانت پیس کر وہ پیچھے پلٹی تو میران کسی دوسرے کرتے میں ملبوس ڈریسنگ کے پاس کھڑا کف لنکس بند کر رہا تھا۔
       "یا اللہ ویسے تو یہ بات بات پہ بھڑک اٹھتا ہے اب اتنی سی چنگاری بھی نہیں لگ رہی..."
وہ پیر پٹخ کر دائیں بائیں انگلیاں چٹخاتے چلنے لگی۔بس دل پانی سے بھرنے کو آگیا تھا۔
یعنی وہ اس سے بات تک نہیں کرنا چاہتا تھا۔
آنسوؤں سے لبالب آنکھیں اٹھا کر اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔پھر گہری سانس کھینچ کر بالکونی سے باہر آئی۔وہ کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی۔تیزی میں سوچوں میں غرق بالکونی کے دروازے سے نکل کر باہر آئی اور بیڈ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسکا پیر بیڈ کی پائینتی سے جا ٹکرایا۔
بے اختیار رومائزہ کی چیخ بلند ہوئی۔پیر پکڑ کے وہ لنگڑائی۔میران لمحے میں اسکے سر پہ پہنچا تھا۔
رومائزہ نیچے جھکی پیر سہلانے لگی اچانک میران قدموں میں بیٹھا تھا اور اسکا ہاتھ ہٹا کر پیر ٹٹولنے لگا۔ہلکی سی خراش آئی تھی۔
رومائزہ نے بھیگی مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔
جب میران کو تسلی ہوئی کہ گہری چوٹ نہیں لگی تو سرد انداز میں کھڑا ہوگیا۔
سرد نگاہیں رومائزہ کی پانی سے لبریز جھیل آنکھوں سے ٹکرائیں۔بے اختیار رومائزہ کی آنکھ سے آنسو پھسل کر تھوڑی کا سفر کرتے نیچے گر گیا۔میران لب پیوست کرتا پلٹ گیا۔
ایک آنسو پھر موتی کی صورت میں گال پہ لڑک آیا۔بے دردی سے آنسو صاف کرکے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
                            ★ ★ ★
نیچے آکر رومائزہ نے ملازموں کی پوری فوج کو ایک ساتھ کھڑا کردیا تھا۔اور خود نیچے سے تیسری سیڑھی پہ جا کھڑی ہوئی۔مرد ملازموں کا سر جھکا ہوا تھا۔رومائزہ نے گلا کھنکارا۔
سب حیرانی سے گزر رہے تھے کہ آخر کیوں بی بی سرکار نے ان سب کو ایک ساتھ یوں اکٹھا کیا تھا۔
"مجھے آپ لوگوں سے ایک بات کرنی ہے۔پر اس سے پہلے آپ لوگ مجھے بتائیں میں کون ہوں؟"سلیقے سے اس نے دوپٹہ شانوں پہ پھیلایا ہوا تھا۔اور سینے پہ ہاتھ باندھے بات کا آغاز کیا۔
"آپ بی بی سرکار ہیں۔"سب ایک آواز میں بولے۔
"نہیں...یہی بات مجھے آپ سب سے کرنی ہے۔آپ لوگ مجھے بی بی سرکار نہ بولا کریں۔صرف بی بی ہی بول دیا کریں وہ چلے گا۔پر سرکار ساتھ نہ لگایا کریں۔"چہرے کے زاویے بگاڑ کے ان سب کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔سب کے منہ لٹک گئے۔
"ای کیا بات ہوئی سرکار؟ہم تو بڑے سائیں کی بیگم کو بھی بی بی سرکار کہتے تھے۔اب چھوٹے سائیں کی سوہنڑی سی بیوی آپ ہیں تو آپ کو بی بی سرکار بولیں گے۔"
بختو نے دوپٹے کو انگلی پہ لپیٹ کر کہا۔روما نے سانس اندر اتاری۔
"ہم سب یہاں رہتے ہیں۔ہیں نا!مل جل کر رہیں گے۔سرکار شرکار بہت عجیب سا لگتا ہے بھلا آپ خود بتائیں یہ اتنا بھاری بزرگوں جیسا نام مجھ پہ اچھا لگتا ہے؟"آنکھیں پھیلا کر رومائزہ نے سوال کیا۔
"جو بھی پر ہم تو یہی بولیں گے۔"فرید ڈھٹائی سے بولا روما نے گھور کے اسے دیکھا۔
"بی بی صاحب یہ نام آپکے رتبے پہ جچتا ہے،کسی عام رتبے پر آپ فائز نہیں ہیں۔گاؤں کے لوگوں کو نئی بی بی بی سرکار ایک عرصے بعد جا ملی ہیں۔لڑکیاں ترستی ہیں بی بی سرکار کے رتبے پر فائز ہونے کے لیے۔آپ نہیں جانتی چھوٹے بابا پہ کتنی لڑکیاں فریفتہ ہیں۔"
ملازمہ نے منہ میں پان رکھے اپنے مخصوص انداز میں بڑی رازداری سے بتایا۔بے ساختہ رومائزہ کو اسکے لہجے پہ ہنسی آگئی۔
"ویسے جب سے آپ آئی ہیں نا بنگلے میں رونق ہوگئی ہے۔"مالی بابا نے سر اٹھا کر خوشی سے کہا تو وہ مسکرانے لگی۔
"آپ سب بہت اچھے ہیں۔میرا اور آپکا کوئی ملازم والا سین نہیں ہے۔آپ سب میرے اپنے ہیں۔"رومائزہ نے بڑے دل سے کہا تو سب کے چہرے کھل اٹھے۔
"بی بی سرکار..."
"زندہ باد۔۔۔"فرید کے ساتھ سارے نعرہ لگانے لگے۔رومائزہ خوب ہنس رہی تھی۔اوپر میران تک شور کی آواز پہنچی تو وہ چونک کر کمرے سے باہر نکلا اور سیڑھیوں کے کنارے پلر کو تھام کر نیچے چلتا تماشا دیکھنے لگا۔
یہاں تو رومائزہ نے بنگلے میں جلسہ سجا دیا تھا۔اسکی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی۔
"بس بس ابھی آپکے اکڑو سائیں آگئے تو بے عزتی ہی ہوجائے گی۔"ان سب کی آوازوں کے درمیان رومائزہ نے مداخلت کرتے کہا۔
"نہیں جی سائیں آپکے ہوتے ہوئے ہمیں کچھ نہیں بولیں گے۔عزیز بتا رہا تھا وہ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔"
بختو نے شرارت سے کہا۔اوپر کھڑے میران کے کان سرخ ہوگئے....ایک دن میں اس گھر کے ملازموں کا یہ حال تھا رومائزہ کے اتنا قریب ہوگئے تھے اور کیسے ان سب کی زبانیں چل رہی تھیں وہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ورنہ اسکے سامنے سب کے منہ پہ قفل لگے ہوتے تھے۔
"وہ کوئی پیار نہیں کرتے۔انکو اپنے کام سے سب زیادہ پیار ہے۔"
رومائزہ کی زبان پھسلی۔میران تو اسکی بات سن کر ساکت رہ گیا۔کیا وہ اسکی عزت کا فالودہ نکالنے کے لیے کھڑی تھی؟
غصہ دباتے ہوئے وہ سیڑھیوں سے نیچے آنے لگا۔
رومائزہ کی لمبی تقریر شروع ہوگئی۔ذات پات کی برابری پہ اس نے اپنا لمبا لیکچر دینا شروع کردیا۔
میران اسکے پیچھے ایک سیڑھی کے فاصلے پہ آن کھڑا ہوا۔وہ بے خبر ہوا میں ہاتھ بلند کرتی پرجوشی سے بولتی چلی جا رہی تھی۔ملازموں کی نگاہ میران پہ گئی سب نے آنکھیں میچ کر بی بی سرکار کو دیکھا جو پٹری پہ سے اتر چکی تھیں۔سب کی زبانیں تالو سے جا چپکیں۔
میران سینے پہ ہاتھ لپیٹے فرصت سے پیچھے کھڑا رومائزہ کو سنتا رہا۔اسکے آنکھوں میں جامعہ کا منظر گھوم گیا۔وہ پہلی ملاقات،رومائزہ کی پہلی دید جو اسٹیج پہ اسے نصیب ہوئی تھی۔وہ تو ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔وہ لڑکی جو تقریر کرتی ہوئی سیدھا میران جاہ کے دل میں اتر گئی تھی۔
جس کے شکوؤں نے میران کے زہن پہ قبضہ جما لیا تھا۔نڈر اور باہمت رومائزہ شنواری جو بولنے پہ آتی تھی تو خاموش کروانا مشکل ہوجایا کرتا تھا۔جو میران کی ذات سے بلکل بے پرواہ تھی اپنی ذات میں مگن خود پسند۔آج وہی اسکی محبت میں کتنے پاپڑ بیل رہی تھی۔
رومائزہ کی لمبی تقریر ختم ہونے پہ میران خیالات سے باہر نکلا۔
"آپ لوگوں کو کچھ بھی مسئلہ ہو مجھ سے شئیر کرسکتے ہیں میں آپکے سائیں کی طرح بلکل غصہ نہیں کرونگی۔اور آپ لوگ مجھے بی بی سرکار کی بجائے صرف بی بی پکارا کریں گے۔"سب کو سمجھاتے ہوئے اس نے آہستہ سے دونوں ہتھیلیاں آپس میں ملادیں۔
"جی بی بی سرکار۔"لبوں پہ زبان پھیر کے سب نے سر جھکا کے کہا۔
"کیا ہے بھئی؟مجھے اب کسی سے بات ہی نہیں کرنی۔سب اپنی مرضی چلائے جا رہے ہیں۔میری خواہش کا آپ لوگ احترام ہی کرلیں.."وہ انکو پسیجنے لگی۔ملازموں کی ہوا تو میران کو پیچھے دیکھ کر خشک ہوچکی تھی۔
"بی بی سرکار وہ..."فرید نے میران کی موجودگی کا بتانے کے لیے منہ کھولا۔
"نہیں ہوں میں کوئی سرکار ورکار۔پہلے ہی سائیں لفظ سے پریشان ہوں اب یہ نیا نام سر پہ مصلت ہوگیا۔سارے ہی اس مغرور سائیں کے چمچے ہیں!"
غصے میں کہہ کر وہ پلٹ کر جانے لگی میران سے اسکا تصادم ہوا۔رومائزہ کی سانس اندر اٹک گئی،آنکھیں پھٹ گئیں۔گڑبڑا کے اس نے میران کو دیکھا جو ملازموں کے بت بنے مجسمے دیکھ رہا تھا۔
"کمرے میں جاؤ۔"
رومائزہ کی کلائی پکڑ کے وہ قدرے سختی سے بولا۔
"وو وہ میں..."
"میری بات اہمیت نہیں رکھتی؟جاؤ فوراً۔"روما نے کچھ بولنا چاہا پر میران کی سخت گھوری پہ ہمت جواب دے گئی۔کلائی چھڑاتی وہ اوپر بھاگ گئی۔اندازہ ہوگیا تھا وہ ضرورت سے زیادہ بول چکی ہے اب تو میران اسے ہر گز نہیں بخشتا۔
کمرے میں آکر وہ اسکا انتظار کرنے لگی۔دس منٹ گزر گئے وہ واپس نہیں آیا۔تشویش کے مارے وہ کمرے سے باہر نکلی۔
"کہاں ہے وہ؟"
ملازمہ کو اوپر آتا دیکھ رومائزہ نے پوچھا۔
"وہ کون؟چھوٹے سائیں؟ارے وہ تو تبھی چلے گئے۔شکر انھوں نے غصہ نہیں کیا۔میں نے کہا تھا نا جی وہ آپکی وجہ سے غصہ نہیں کریں گے۔آپ بتائیں دوپہر کے کھانے میں کیا کھانا پسند کریں گی پھر فرید وہی بنائے گا۔"بختو نے لہک لہک کر بتایا اور آخر میں سوال کیا۔
رومائزہ کے چہرے پہ اداسی پھیل گئی۔
"کچھ بھی بنوالو.."وہ کہہ کر کمرے میں واپس آگئی۔
اندر آکے اس نے سر پیٹا۔کہیں وہ مزید خفا نہ ہوگیا ہو۔یہ روٹھی ہوئی بیوی والی حرکتیں اب اسے غصہ دلانے لگی تھیں۔پھر اسے اپنی غلطیاں یاد آتیں تو واپسی میران سے بات کرنے کا بھوت چڑھ جاتا۔بیڈ پہ موبائل بجنے لگا۔
"یہ چڑیل مجھے کیوں فون کر رہی ہے..."
دل میں سوچ کر رومائزہ نے کال ریسیو کر کے فون کان سے لگایا۔
"ہیلو رومائزہ کیسی ہو؟"
"بہت اچھی ہوں،خیریت کیسے یاد کرلیا؟"آنکھیں چڑھا کے وہ اسکیچ بک اور پینسل لے کر بیٹھ گئی۔کاؤچ پہ سامان رکھ کر خود ماربل پہ بچھے مہرون قالین پہ بیٹھ گئی۔
"تم نے بتایا نہیں میران جاہ سے تمھاری شادی ہونے لگی ہے۔خبروں میں تمھارا نام سنا اور انوش نے یونی کے گروپ میں اس بات کی تصدیق کی ہے۔"
یہ عروبہ عامر تھی۔دوسرے ڈپارٹمنٹ کی جو رومائزہ کو حد سے بھی بے حد بری لگتی تھی۔وجہ اسکا فالتو کا شوخا ہونا اور اترانا تھا۔ایک میدان میں دو تلواریں بھلا کیسے رہ سکتی تھیں؟جیسے رومائزہ عروبہ کو ناپسند کرتی تھی ویسی ہی عروبہ کی بھی اسکے بارے یہی رائے تھی۔رومائزہ اس کی طرح ہی خوبصورت تھی پر کھرا بولتی تھی اندازِ بیان میٹھا تھا پر جب پارا ہائی ہوتا تھا تو لوگ توبہ کرتے تھے۔
     رومائزہ کے اندر جلن کا فیکٹر دور دور تک نہیں تھا اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کون کیا کر رہا ہے کس لیے کر رہا ہے۔اسے اپنی ذات سے سارے مطلب تھے اور اپنے قریبی لوگوں سے۔
"مجھے تو خود بھی نہیں پتا تھا میری ان سے شادی ہونے والی ہے۔"پینسل کو تھوڑی کے نیچے ٹکا کر اس نے کہا۔
"کیا مطلب کیسے؟"
"تم نے مبارکباد دینے کیلیے فون کیا ہے تو دو مبارکباد۔"
"او ہاں۔بہت مبارک ہو تمھیں۔سب کا کرش لے اڑیں۔بس بچ کے رہنا لوگ بہت حاسد ہوتے ہیں۔"
عروبہ کی بات سن کر رومائزہ کی شریانیں پھول گئیں۔وہ اسکی سب معنی خیزی سمجھ رہی تھی۔
"میں ان پر اور خود پہ چاروں قل پڑھ کے دم کردیتی ہوں تاکہ چڑیلوں اور جنوں کی کالی پیلی نظروں سے محفوظ رہیں۔"وہ جتا کر بولی۔
"تمھیں چاہیے سب کو پارٹی دو،ہم بھی تو میران جاہ سے ملیں پھر۔"
"بلکل نہیں۔مجھے فضول خرچی نہیں پسند۔اور تمھارا بہت شکریہ۔میں فون رکھتی ہوں میران بلا رہے ہیں۔"تیور بگاڑ کے رومائزہ نے کال کاٹ دی۔
"دیکھو زرا اسکا بس چلے تو میرے سامنے میرے شوہر پہ لائن مارنا شروع ہوجائے۔جیسے مجھے معلوم نہیں کس طرح یہ میران پہ فریفتہ تھی۔یا اللہ میرے سہاگ کی حفاظت فرما ان چڑیلوں کی نظروں سے۔"فون برابر میں رکھ کے وہ کاغذ پہ کچھ لکھنے لگی۔
'آئی ایم سوری میران۔مجھے معاف کردو تم بہت اچھے ہو میں نے کبھی تم کو سمجھا ہی نہیں...'
"آئے یہ کیا لکھ دیا۔اپنی برائیاں تھوڑی کرنی ہے معافی مانگنی ہے بس۔"کاغذ پھاڑ کے گولہ بنا کر اس نے دور پھینک دیا۔پھر دوسرے کاغذ پہ کچھ لکھنے لگی وہ بھی پسند نہیں آیا تھا اسے بھی پھاڑ کے اچھال دیا۔
دو تین سطریں لکھنے کے بعد یہ مرحلہ جاری رہا۔دس بارہ کاغذ کے گولے اسکے اردگرد پڑے بے مول ہورہے تھے۔
"کیا ہوا روما تم مجھے کال کر رہی تھیں؟"انوش نے جب اسکی مسڈ کالز دیکھیں تو کال بیک کی۔رومائزہ نے فون اسپیکر پہ کردیا تھا۔
"یہ ایک بات بتاؤ کیا ضرورت تھی یونی کے گروپ میں میری شادی کی خبر ڈالنے کی!اس عروبہ کو سمجھا دو ورنہ میرے ہاتھوں سے اسکا قتل ہوجائیگا۔"رومائزہ نے کلس کر کہا۔اور ایک مزید گولہ بنا کر سامنے پھینکا۔
"یار تم عادت ڈال لو یہ سب اب چلتا رہے گا۔ایک عروبہ کو روکوگی اس جیسی سو عروبہ اور نکل آئینگی۔تم خوشی مناؤ کہ وہ شخص تمھارے پاس ہے جسکی لاکھوں دل چاہت لیے بیٹھے ہیں۔"
انوش کی بات پہ اسکا غصہ ٹھنڈا ہوا۔وہ اپنے آپ اپنی چیزوں کو لے کر شدت پسند تھی پھر میران تو اسکا شوہر تھا کیسے یہ سب برداشت کر لیتی۔انٹرنیٹ پہ بھی الٹی سیدھی میمز پڑھ کے غصہ آرہا تھا۔فلحال اسکی تصویر منظر عام پر نہیں گئی تھی۔اسکے باوجود کسی لڑکی نے کمینٹ کیا تھا۔میران جاہ کو اس سے اچھی لڑکی ملنی چاہیے تھی۔اب رومائزہ کو غصہ نہیں آتا تو کیسے!
                           ★ ★ ★
سورج ڈھلتے ہوئے ساحل کے پانی میں ڈوبتا چلا جارہا تھا۔باغ میں موجود چرند پرند بھی اپنے ٹھکانوں میں جا بسے۔انکی ہلکی پھلکی چہچہاہٹ کمرے میں آرہی تھی۔
میران آج جلدی ہی بنگلے واپس آگیا تھا۔
کچھ دیر وہ نیچے زولفقار کے پاس بیٹھا رہا پھر اوپر اپنے آفس میں چلا آیا۔بختو اس سے کھانے کا پوچھنے کی غرض سے آفس میں آئی۔لائیبریری میں آکر اسکے آفس کے دروازے کے باہر ہی رک گئی۔
"میران بابا..."بختو کے دروازے کے پاس سے پکارنے پہ میران نے لیپ ٹاپ پہ جھکا سر اٹھا کے اسے دیکھا۔
"کھانا لگوادوں آپکے لیے؟بی بی صاحبہ نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ انھیں بھی بلا لیجیے گا۔"بختو اپنا حلق تر کرکے بولی۔میران کی پیشانی پہ پل پڑ گئے۔
"انھوں نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟"کہنی ٹیبل پہ جمائے اس نے پوچھا۔
"جب سے آپ گئے تھے اسکے بعد سے وہ کمرے سے ہی نہیں نکلیں۔دروازہ بھی اندر سے بند ہے مجھے تو اب ٹینشن ہورہی ہے۔آپ دیکھ لیں کہیں انکی طبیعت نا خراب ہو۔صبح بھی کہہ رہی تھیں کندھے میں درد ہورہا ہے۔"
بختو بنا ڈرے روانی میں کہتی چلی گئی۔میران لیپ ٹاپ بند کرکے چئیر سے اٹھ گیا۔
"حد ہے تم مجھے اب بتارہی ہو۔"اپنا کوٹ اٹھا اٹھا کر وہ آفس سے باہر نکل آیا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف رخ کیا۔
اسکا چہرہ بے تاثر تھا۔میران چابی سے لاک کھول کے کمرے میں داخل ہوا۔چار قدم لے کر وہ آگے آیا۔کاؤچ پہ سر رکھے رومائزہ بے خبر سی نیند میں اتری ہوئی تھی۔اس طرح وہ کافی بے آرام محسوس ہورہی تھی۔
"کندھے میں تکلیف ہے اور مزید درد بڑھانے کیلئے ایسے سو گئی ہے۔بے وقوف لڑکی..!"وہ صرف سوچ ہی سکا۔
ہاتھ پیچھے باندھ کر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔
ہر چیز پھیلی ہوئی تھی۔رومائزہ ایسی تو نہیں تھی چیزوں کو پھیلا کر رکھنے والی۔بلکہ ایسا لگ رہا تھا جان بوجھ کے سب کیا ہو۔
جب وہ نیچے سے اوپر میران کے کہنے پہ آئی تھی اس وقت غصے میں اس نے بیڈ شیٹ کھینچ ڈالی تھی تکیے اٹھا کے بیڈ پہ پٹخے تھے۔
بیڈ کی حالت دیکھ میران سانس بھر کے رہ گیا۔اسے یاد نہیں پڑتا تھا کبھی جو اسکے بستر کی ایسی حالت ہوئی ہو۔وہ تو بیڈ شیٹ پہ شکنیں تک گوارا نہیں کرتا تھا۔یہاں تو پوری بیڈ شیٹ کھینچ ڈالی گئی تھی۔
کافی سارے کاغذ کے گولے فرش پہ پڑے تھے۔میران ماتھے پہ شکن ڈالے نیچے جھکا۔پیر کے قریب پڑا کاغذ کا گولہ اٹھا کے کھولا۔
اندر لکھی سطر پڑھ کے اس نے ایک نگاہ رومائزہ کو دیکھا جس کے منہ پہ بال گرے ہوئے تھے اور سارے جہاں کی معصومیت چہرے پہ سموئے سو رہی تھی۔
میران نے سارے کاغذ کے گولے جمع کرکے پڑھنا شروع کیے۔
"کیا تمھاری محبت ختم ہوگئی میران؟اس محبت کی خاطر معاف کردو مجھے بہت برا لگ رہا ہے.."
"کڈنیپر آئی ایم رئیلی سوری..."
"تم غصہ کرو ڈانٹو پر پلیز بات کرلو..."
اس طرح کی مزید سطر ان کاغذوں پر لکھی تھی۔میران سکون سے پڑھتا گیا۔
"سوری میں نیچے سب کے سامنے زیادہ بول گئی۔تم بلکل بھی اکڑو اور مغرور نہیں ہو بہت اچھے ہو۔بہت بڑے دل کے ہو۔تمھارا دل صاف ہے میری طرف سے بھی اپنا دل صاف کرلو نا۔۔"
"تمھارے مطابق میں تو چھوٹی اور کم عقل،کند ذہن بے وقوف ہوں تو معاف کردو نا..مجھے تم پہ بھروسہ کرلینا چاہیے تھا۔"
"میں نے تمھیں جتنی بدعائیں دی تھی اللہ سے وہ سب واپس لے لیں۔اللہ تم کو میرے ساتھ لمبی زندگی دے۔"بے اختیار میران ہنس پڑا۔
"میں بتارہی ہوں اب اگر بات نہیں کی تو میں چلی جاؤنگی..."
"تفف ہے..."آخری کاغذ پہ لکھی سطر پڑھ کے میران نے سر تھام لیا۔اسے منا رہی تھی یا دھمکیاں دے رہی تھی۔شکن آلود کاغذ ٹیبل پہ چھوڑ وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
پنجوں کے بل رومائزہ کے نزدیک آکر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر اسے یونہی ٹک ٹکی باندھ کر دیکھنے کے بعد میران نے اسکے چہرے پہ پھیلے بال پیچھے کردیے۔
وہ نیند میں محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی اسکے بالوں میں آہستہ سے انگلیاں چلا رہا ہو۔نیند میں وہ مزید پرسکون ہوگئی لبوں پہ اطمینان بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔
      میران نے جھک کے اسکے چہرے کے نقوش کو دیکھا پھر نگاہ رومائزہ کی مسکراہٹ پہ تھم گئی۔سر سے ہاتھ ہٹا کر دو انگلیوں سے اس نے رومائزہ کا ماتھا چھوا جہاں اسے چوٹیں آئی تھیں۔اس پہ نگاہیں جمائے آہستہ سے ماتھا انگوٹھے کی مدد سے سہلاتا رہا اسکے ریشمی بالوں پہ ہاتھ پھیرا ان سے اٹھتی بھینی خوشبو خود میں اتاری۔پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔
      تقریباً آدھے گھنٹے بعد رومائزہ کی آنکھ کھلی وہ کسمسا کر اٹھ بیٹھی۔نیند میں مندی مندی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔کمرہ نیم تاریک تھا۔گلاس وال کے پردے برابر تھے،کمرے میں زیرو کا بلب جل رہا تھا۔اور واش روم سے پانی کے گرنے کی آوازیں آنے لگیں۔
کچھ دیر تو اسے اپنی حالت کو سمجھنے میں لگے۔وہ میڈیسن کھا کر سو گئی تھی پھر اسے کسی چیز کی ہوش و خبر نہیں رہی۔
بالوں کو پیچھے جوڑے کی شکل میں لپیٹ کر اس نے ہاتھ نیچے کیے تو ہاتھ کمفرٹر پہ جا ٹہھرے۔جوڑا کھل کر واپس کمر پہ گر گیا۔
اسے یاد آیا وہ تو فرش پہ بیٹھی تھی اور کاؤچ پہ سر رکھے سو گئی تھی پھر بیڈ پہ کیسے آن پہنچی۔
اسے محسوس ہوا کوئی سر میں انگلیاں چلا رہا تھا۔رومائزہ کی ساری خماری بھک کرکے اڑ گئی۔کمفرٹر اتار کے وہ بے قراری سے بیڈ سے نیچے اتری اور کاغذ کے گولے ڈھونڈے جو اس نے پورے کمرے میں پھیلائے ہوئے تھے۔بے ساختہ نگاہ ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ کونے پہ رکھے ڈسٹ بن پہ گئی۔
جاکر ڈسٹ بن میں جھانکا تو کئی کاغذ اسی میں پڑے تھے۔رومائزہ کے دل میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔میران نے یہ یقیناً پڑھ لیے تھے۔
ان کاغذوں کو ڈسٹ بن میں پڑا دیکھ اسکا چہرہ جو خود کو بیڈ پہ پاکر کر کھل اٹھا تھا واپس بجھ گیا۔
"آئی ہیٹ یو میران..."آنسو کا گولہ اندر اتار کے ڈریسنگ روم کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اور منہ بسور کے واپس جاکے بستر پہ لیٹ گئی۔
                           ★ ★ ★
دو دن یوں ہی گزر گئے پر انکے تعلق میں کچھ بہتری نہیں آئی۔رومائزہ کچن میں پانی کی غرض سے گئی تھی۔حلیمہ بی پرسو ہی واپس جا چکی تھیں۔اسکا دل تنہائی کے مارے ڈوبے جارہا تھا۔
وہ راہداری سے گزر رہی تھی کہ کسی کی آوازیں محسوس ہوئیں۔نظر دوڑائی تو زولفقار جاہ کا کمرہ کھلا تھا۔ہمت کرکے اس نے وہاں جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔
اندر داخل ہوئی تو حیران رہ گئی۔ساکن نگاہوں سے انھیں دیکھے گئی۔
وہ چست و توانا جسامت کے انسان اکڑے جسم کے ساتھ بستر سے لگے تھے۔ملازم انھیں کھانا کھلا رہا تھا اور وہ شاید کھانا نہیں کھانا چاہتے تھے جبھی غصہ کر رہے تھے۔
انکی طبیعت تو ایک جیسی رہتی پر جسم ساتھ چھوڑ چکا تھا۔زندہ لاش سی بن گئے تھے۔روز کئی لوگ آتے ان سے مل کر چلے جاتے ایک اچھا  وقت گزر جاتا ہر اسکے بعد وہی تنہائی۔میران گھر میں جب آتا انکے پاس لازمی بیٹھتا تھا وہ اپنے باپ کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا تھا۔کسی چیز کی کمی نہیں کی تھی پر طبیعت میں سدھار نہیں آرہا تھا۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا انکی دماغ کی رگیں بری طرح ڈیمج ہوچکی ہیں اسی لیے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور بہتر ہونے کے چانسز بھی کم بتائے تھے۔پھر بھی روز باقاعدگی سے فزیوتھراپسٹ گھر آتا تھا۔
رومائزہ کے آنے پہ ملازم کمرے سے نکل گیا وہ گنگ کھڑی تھی۔زولقفار جاہ اس سے نظریں نہیں ملا سکے۔انھوں نے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑ لیا۔
ان کو دیکھ کر اسکی عجیب سی حالت ہوگئی۔
زولفقار نے بولنے کی ہمت کی۔
"مم مجھے معاف کردو.."اتنے میں ہی انکا جسم کپکپا گیا تھا۔رومائزہ نے سانس کھینچی۔انھیں معلوم تھا اب وہ انکی بہو بن چکی ہے،کتنے غلط کام کیے تھے اسے میران کی زندگی سے نکالنے کے لیے پر خدا کی کرنی ایسی تھی آج وہ بہو بن کر آچکی تھی۔نصیب سے انسان کہاں لڑسکتا ہے۔
"میں نے آپکو معاف کردیا ہے۔"رومائزہ کی زبان لڑکھڑائی۔
زولفقارخوب رونے لگے۔
"میرے بابا نے مجھے بچپن میں کہا تھا کسی سے نفرت نہیں کرنا یہ انسان کو مار دیتی ہے۔انھوں نے ہی بتایا تھا معاف کرنے کو اللہ پسند کرتا ہے۔کیا معلوم اس عمل سے میرا اللہ خوش ہوجائے۔"
سانس روک کے وہ خاموش ہوگئی۔اسکا دم گھٹنے لگا۔
"اللہ آپکے لیے آسانی پیدا کرے۔"وہ آج کوئی سخت الفاظ بول نہیں پائی ایک شخص پہلے ہی اتنی اذیت میں تھا وہ کیا اور تکلیف دیتی۔
اسکا دل ایسے ہی بڑا تھا۔وہ مزید وہاں رکی نہیں دم گھٹ رہا تھا باہر نکل آئی۔پیچھے وہ بلک بلک کر روتے چلے گئے۔
         عزیز اندر آیا بڑے جاہ کے کمرے سے رومائزہ کو نکلتا دیکھ کر وہیں چلا آیا۔
"کچھ چاہیے تھا آپ کو میڈم؟"شکر کوئی تھا جس نے اسے بی بی سرکار نہیں بولا تھا۔
"ہاں میران چاہیی...میرا مطلب کہاں گیا ہے وہ؟"اچانک وہ حواس میں آئی اور بات سنبھالی۔عجیب زبان پھسل رہی تھی۔عزیز کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"وہ تو مصروف رہتے ہیں۔دورے پہ گئے ہیں۔شام میں دائم کے ساتھ انکی ملاقات ہے رات کو ہی لوٹیں گے۔"رومائزہ کا چہرہ اداسی سے روشناس ہوا۔
"انھوں نے کہا کے آپ سے پوچھ لوں آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟"عزیز آفس کے کاموں سے فارغ ہوکر واپس لوٹا تھا۔
"مجھے بس اسی کی ضرورت ہے.."وہ سوچ کے رہ گئی۔یہ شخص سہی اسے تڑپا رہا تھا۔
"نہیں شکریہ سب ہے یہاں۔کچھ چاہیے ہوگا تو میں میران سے ہی کہونگی۔"
"آپ انھیں میران بولتی ہیں؟شادی کے بعد تو یہاں کی خواتین سائیں ہی کہا کرتی ہیں۔"عزیز ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔رومائزہ چونک گئی کان کے پیچھے بال کیے۔
"عزیز بھائی اب آپ نا شروع ہوجائیں۔میں نہیں بول سکتی یہ،آپ لوگ تھکتے نہیں ایک لفظ کی گردان کرتے کرتے؟"الٹا وہ عزیز سے سوال کر بیٹھی۔
"اچھا ویسے ایک بات کہوں،سائیں نے ایک دیڑھ ماہ سے خود کو زیادہ مصروف کرلیا تھا۔پر اب آپ آگئی ہیں نا تو وہ مصروفیات اپنے حساب سے رکھیں گے۔"عزیز نچلا لب دبائے بولا۔۔رومائزہ اسکی بات کا مطلب بخوبی سمجھی تھی۔
"ویسے یہ اتنا بڑا بنگلا ہے اور رہتے صرف دو انسان ہیں جنکا ایک پیر گھر میں ہوتا اور دوسرا باہر عجیب بات نہیں اور ملازموں کی یہاں فوج جمع ہے۔"وہ معیوب ہوئی۔
"تیسری آپ ہیں،سائیں کی نسل بڑھے گی تو گھر میں رونق ہوجائے گی۔"عزیز ںے بڑے سکون سے کہا،اسکی بات پہ رومائزہ سٹپٹا گئی۔
"ویسے مجھے ایک ایسی چیز کا علم ہے جسے دیکھ کر آپکا موڈ بہتر ہوجائیگا۔"اسکی اداسی دیکھ کر عزیز نے تجسس پیدا کردیا۔
"کیا؟"
"اوپر ایک لائیبریری ہے،ادھر جائیں۔اندر چھوٹے سائیں کا آفس ہے آپ کو وہاں وہ چیز مل جائیگی۔آفس میں اور کسی کو اجازت نہیں جانے کی میں بھی سائیں کی موجودگی میں جاتا ہوں پر آپ تو انکی بیگم ہیں تو جا ہی سکتی ہیں۔"عزیز کے اس طرح بتانے پہ وہ جاننے کے لیے پر جوش ہوئی۔وہ بتا کر فوراً اڑن چھو ہوگیا تھا۔رومائزہ نے سوچتے ہوئے ماتھے پہ لکیریں بڑھا دیں۔پھر اوپر چلی آئی۔
اندر آئی تو لائیبریری دیکھ کر آنکھیں کھل گئیں۔کیا وہ کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا؟اسے انوش یاد آئی وہ اتنی کتابیں دیکھ کر پاگل ہی ہوجاتی۔
اندر ایک دروازہ تھا یقیناً وہی میران کا آفس تھا۔رومائزہ قدم اٹھا کر دروازے تک پہنچی لاک گھمایا تو وہ آسانی سے کھل گیا۔
اندر داخل ہوتے ہی آنکھوں پہ تیز روشنی پڑی۔گلاس وال پہ سورج کی کرنیں پڑ رہی تھی۔کمرہ میں روشنی کی بارش ہوتی نظر آئی۔آفس بڑا خوبصورت تھا۔اس نے چاروں اطراف نظر دوڑائی۔پھر ایک جگہ نظر ٹھہر گئی۔
یقیناً عزیز اسی چیز کی بات کر رہا تھا۔ریشم کے کپڑے کے نیچے اسٹینڈ کے پائے دیکھ کر وہ پہچان گئی کہ بورڈ اسٹینڈ تھا۔تجسس کے ساتھ وہ آگے بڑھی اور اسٹینڈ کے پاس پہنچ کر جلدی سے کپڑا الٹ دیا۔
چند لمحوں میں اسکے چہرے کے زوایے بدل گئے آنکھیں پوری طرح پھیل گئیں۔اس نے آج سے پہلے اتنی خوبصورت پینٹنگ نہیں دیکھی تھی۔کیونکہ وہ اسکی پینٹنگ تھی اور وہ انتہا کی خود پسند۔
پر پیٹنگ بہت خوبصورت تھی کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کسی نے پینٹ کیا ہو سب حقیقت سا لگ رہا تھا۔
پینٹنگ کے برابر میں میران کی ریوالونگ چئیر تھی۔رومائزہ کا سانس بند سا ہوا۔اس نے مسکرا کے سانس بحال کی۔پوروں سے پینٹنگ کو چھوا اسکی بڑی خواہش تھی کوئی اسکے چہرے کی پینٹنگ بنائے اور آج بل آخر یہ خواہش پوری ہوگئی۔تو میران نے یہ بنوائی تھی۔سوچ ہی اسکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھرنے کو کافی تھی۔اسکا بس نہیں چل رہا پینٹنگ کو سینے سے لگا کے گول گھومے۔سرخ ریشم کے کپڑے کو سینے پہ بھینچ کر وہ خوشی سے جھومی پھر واپس کپڑا ڈال کے کمرے سے نکل گئی۔
                            ★ ★ ★
پورا دن خجل خوار ہونے کے بعد رات کو اس نے ٹی وی کھول لیا۔اپنے کمرے میں ہی موجود تھی۔بیڈ کراؤن سے سر ٹکایا ہوا۔بادل زوروں سے گرج برس رہے تھے۔رات کی بارش تھی اس لیے اس نے دل کو لگام ڈالی ورنہ وہ بالکونی میں جاکر بھیگنے کو تیار تھی۔
کیبل پہ تو کچھ ڈھنکا نہیں آرہا تھا۔موبائل استعمال کرتے ہوئے بھی وہ تھک گئی۔اس نے آج پکا سوچ لیا تھا میران سے بات کرکے رہے گی۔وہ کیوں اس سے رخ پھیر تھا جواب لینا اب ضروری ہوگیا تھا۔
وہ چینل تبدیل کرتی رہی ایک نیوز چینل پہ اس نے ہاتھ روک دیا۔
لاہور بھر میں تیز بارش کی خبریں نیوز کاسٹر سنا رہی تھی۔موسم بہت خراب تھا۔رومائزہ نے گھڑی دیکھی۔رات کے آٹھ بج رہے تھے۔
اسکا دل بیٹھنے لگا۔اوپر سے نیوز کاسٹر بارش کی وجہ سے پیش آجانے والے حادثات کی بری بری خبریں بڑھ چڑھ کے سنا رہی تھی۔گھبرا کے رومائزہ نے ٹی وی بند کردیا۔
اس نے فون اٹھایا اور دائم کو کال ملادی۔
"جی بھابھی خیریت اس وقت کال؟"دائم نے فون کان سے لگا کر پوچھا۔
"دائم میران آپکے ساتھ ہیں؟عزیز بھائی کہہ رہے تھے وہ شام میں آپ سے ملیں گے۔"نارمل لہجہ برقرار رکھا۔
"نہیں بھابھی وہ تو ایک گھنٹے پہلے ہی گھر واپسی کا کہہ کر جا چکا ہے۔آپ فون کر کے واپسی کا پوچھ لیں۔"دائم کے بتانے پہ اسے ٹینشن سی ہوگئی۔ایک گھنٹہ اوپر ہوگیا وہ ابھی تک نہیں آیا اور باہر تیز بارش کی وجہ سے طرح طرح کے وسوسے دل میں پیدا ہونے لگے۔
"جی شکریہ۔میں فون کرتی ہوں۔"عجلت میں کہتے اس نے فون کان سے ہٹایا۔پھر ہمت کرکے میران کو کال ملائی۔دو دن پہلے عزیز سے ہی میران کا نمبر لیا تھا۔ایک نہیں دو نہیں دس بارہ بار اس نے کالز کیں پر نمبر بند جارہا تھا۔
رومائزہ کی گھبراہٹ بڑھ گئی۔اٹھ کر اس نے کاؤچ گھسیٹا اور گلاس وال کے پاس لگا کر بیٹھ گئی۔
"یا اللہ اتنی تیز بارش ہورہی ہے میران کی حفاظت کرنا،ویسے ہی اسکے ساتھ حادثات بہت ہوتے ہیں۔"ایک بار گولی لگنا پھر دوسری بار گولی سے بچ جانا اور تیسری بار اپنا خود کا اسے بچانا یاد آیا۔اوپر سے اپنی دی گئی بدعائیں اسے ہر وقت خوف کے زیرِ اثر رکھتی تھیں۔
بس دل ڈوب رہا تھا۔آنسو بہنے لگے۔وہ کاؤچ پہ پیر رکھ کے خود میں سمٹ سی گئی۔نگاہیں مین گیٹ پہ جمی تھیں کہ کب وہ واپس آئے،لاہور کے بگڑے حالات دیکھ کر وہ پریشان ہو رہی تھی۔انتظار میں رومائزہ کی کمر اکڑ گئی۔تین گھنٹے گزر گئے تھے اسکا نمبر اب بھی بند تھا۔رو رو کر آنکھیں دکھنے لگیں۔نیند سے خمار آلود آنکھوں کو اس نے جگائے رکھا۔

                       جاری ہے....
EID MUBARAK!!!
MUBARAK HU VIVAH🤝😂
TARPA TARPA K AKHEEER KRA DI SHADII..
BS NEXT KAL HI KRDONGI UPLOAD!

KESE MEHSOS KR RHY AP LOG..?
LITERALLY I'M THE HAPPIEST WRITER RIGHT NOW!
Bht dil tha k in dono ki shadi hu..pr according to story akheer tak intezar krna para..
Umeed hai ap log ab surf nhi khaengy..meri taraf se eidi hai yeh episode!
Or ab humko chahiye zra long or acha sa review🤝

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now