پہلی قسط

288 16 3
                                    

شام کے سرمئی حسین منظر نے سیاہ آنکھوں کو سیراب کردیا تھا۔ سرد ہوا نے جسم میں ٹھنڈ کی لہر دوڑائی تھی۔ درختوں کے پیچھے سے صاف آسمان جھانک رہا تھا۔ پرندے دھیرے سے نیچے آتے اور ایک ادا سے دوبارہ آسمان کی جانب بڑھ جاتے۔ وہ جب کبھی پرندوں کو رقص کرتے دیکھتی تو دل میں ایک خواہش ابھرنے لگتی۔۔ کاش کہ وہ پرندہ ہوتی۔ نہ دنیاداری کی فکر ہوتی اور نہ کسی کا انتظار۔ بس آسمان کی جانب ایک عزم سے اڑتی پھرتی۔ اس نے آنکھیں موند کر ٹھنڈی ہوا کو چہرے پر جذب ہونے دیا۔ لٹوں کو اوڑھ کر اپنا اسیر بناتی فضا اس کے غم مٹانے سے قاصر تھی۔
کبھی اپنے حالات دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ جاتی۔ کیا یہ آزمائش تھی؟ یا اس کے کیے کسی گناہ کی سزا؟
کیا محبت ایک طرفہ تھی؟
یہ انتظار ایک طرفہ تھا؟
یہ قسم ایک طرفہ تھی؟
یہ جذبات ایک طرفہ تھے؟
کاش کہ اسے یہ جواب مل جاتے۔ اگر وہ انہیں جانتی تو فیصلہ کرلیتی کہ اسے کس سمت جانا ہے۔ قطع تعلقی یا انتظار۔۔
انتظار لفظ ہی ایسا ہے۔ گویا مٹھیوں میں امید کا جگنو بند ہو اور یقین ہو کہ وہ ایک جان سے پیارا لوٹ آئے گا۔ ہر گزرتا دن، گھنٹہ، منٹ اس کے سینے میں حسرت کی آگ بھڑکا رہا تھا۔ زبان گنگ ہوگئی اور آنکھیں کسی تاثرات سے عاری۔۔ اب ان میں وہ چمک نہیں تھی جن کا ذکر اس کے دل کا مکین کیا کرتا تھا۔ اب تو وہ آنکھیں کسی نام کے احساس سے مسکراتی بھی نہیں تھیں۔
ایک اور خط۔۔
ایک اور امید۔۔
ایک اور بار خود کو دلاسہ۔۔
"یہ خط کیا واقعی ان تک پہنچتے ہوں گے؟" کانوں میں رس گھول دینے والی وہ آواز پڑی تو اس نے چونک کر ماہی کو دیکھا۔
"شاید وہ انہیں پڑھتے بھی ہوں۔" حلق میں تھوک نگلتے ہوئے اس نے دشواری سے کہا۔ مقابل کھڑی لڑکی بہت پیار سے مسکرائی۔
"آپ کیا لکھتی ہیں؟"
"میں خط لکھتی ہوں۔" اس نے قلم کی سیاہی کو دیکھا اور اپنے سامنے رکھے کاغذ کو موڑنے لگی۔
"اور ان خطوں میں کیا ہوتا ہے امی؟"
"ان خطوں میں امید ہوتی ہے۔ شاید وہ امید کے اس سہارے ہی چلے آئیں۔ تم بھی لکھا کرو ماہی۔" نو سالہ بیٹی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بے حد محبت سے بولی۔
"مجھے آپ جتنا اچھا لکھنا نہیں آتا۔ میں کوشش کروں گی۔" کھلے بالوں میں پھول لگا ہوا تھا۔ یقیناً وہ باغ سے آئی تھی۔
"لفظوں سے زیادہ جذبات معنی رکھتے ہیں۔ وہ تمہارے الفاظ پڑھیں گے تو زندگی کی شام ہونے سے پہلے لوٹ آئیں گے۔"
"میں لکھوں گی تو آپ انہیں ارسال کریں گی؟" آنکھوں میں امید کے جگنو چمکنے لگے۔
ہائے یہ امید۔۔
ہر بشر کے ہاتھ میں امید۔۔
امید ایک دلاسہ۔۔
"میں تمہارا خط اپنے خط کے ساتھ شامل کر لوں گی۔" ہر شخص دوسرے کو امید ہی دلا رہا تھا۔
شاید یہ زندگی گزارنے کا بہانہ ہے۔
یہ دن جو بمشکل گزر رہے ہیں' امید کے ہاتھوں گزر رہے ہیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کل ہی موصول ہوا آپ کے خط کا جواب میں آج دے رہی ہوں۔ دادا اکبر کیا چاہتے ہیں' فالحال کسی کو کچھ علم نہیں۔ سردیوں کی آمد آمد ہے اور اب دن چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ جاننا چاہتے تھے کہ میں آپ کے لیے کیا جذبات رکھتی ہوں۔ اب زندگی کے جس موڑ پر کھڑی ہوں میرے لیے آپ کی محبت کا جواب محبت ہے۔ خیالوں کی دنیا میں آپ کا احساس ہے۔ یہ جذبات میرے لیے قیمتی ہیں۔ کہ اب اگر آپ کہیں گے تو سدا ساتھ چلوں گی اور دعا کروں گی کہ یہ سفر ختم ہی نہ ہو۔" قلم کی سیاہی نے جہاں ذرا لکھنے میں رکاوٹ کی وہیں اس نے قلم کو دو بار جھٹکا۔ کھلی کھڑکی کے ساتھ رکھی میز پر وہ صفحہ رکھتے ہوئے اس نے لمحہ بھر کو گلابی آسمان دیکھا۔ آنکھوں میں لگے چشمے دھیرے سے اتار کر اس اپنے بال کان کے پیچھے کیے۔ یہ سوچ کر اس کا دماغ الجھا ہوا تھا کہ مزید کیا لکھا جائے۔
"یہ دل آپ کے خط کا بےصبری سے انتظار کرے گا جہاندار۔ آپ کی منکوحہ!" اس نے آخری گہری نگاہ اس صفحے پر ڈالی اور اسے فولڈ کرنے لگی۔
"ماہ کامل!" اسے اپنا نام سنائی دیا تو چونک کر کچھ یاد آیا۔ فولڈ کیا ہوا کاغذ تھام کر اس نے کھڑکی سے باہر کیا تاکہ اس کی منتظر نگاہیں سیراب ہوجائیں۔
"بے فکر رہو۔" لبوں پر مسکراہٹ ابھری اور اس نے کھڑکی سے نیچے اس لڑکی کو دیکھا جو بید کی کرسی پر چڑھی اب ہنس رہی تھی۔
"میں تمہارا شکریہ نہیں کہوں گی ادیبہ صاحبہ!" انداز نخریلا تھا۔ ماہ کامل مسکرا دی۔
"تمہارا خط تیار ہے جانان۔ تم چاہو تو اپنے سرتاج کو ابھی ارسال کرسکتی ہو۔" اس کی دھیمی نازک آواز دل کو لگتی تھی۔
"تو پھر جلدی سے نیچے پھینکو یہ خط۔۔" اب کی بار وہ بید کی کرسی سے اچھل کر کھڑکی کے نیچے آکھڑی ہوئی۔
"ارے کون سا خط؟" تب ہی حویلی کے اندرونی حصے سے ایک عورت باہر آئی۔ سفید رنگ کی ساڑھی اور جوڑے میں لگے سفید موتیوں کے گجرے۔۔ پیشانی پر ہلکے ہلکے بل نمودار ہوئے تھے۔
"خط؟ کون سا خط؟" جانان نے انجان بنتے ہوئے کندھے اچکائے تو ماہ کامل نے لب بھینچ لیے۔ "تم بھی نجانے کیا کیا سنتی ہو نیلی۔"
وہ ایک بڑی عمر کی دبلی پتلی عورت تھی جس کا چہرہ بھی اتنا ہی بھولا تھا جتنی وہ خود تھی۔۔
"جانان کو رہنے دیں نیلو فر۔ آپ مجھے بتائیں۔ کوئی کام ہے؟" اوپر والی منزل کی کھڑکی سے ماہ کامل نے دوبارہ جھانکا۔
"دادا اکبر پہنچنے والے ہیں۔ تم فیروزاں کے ساتھ چائے کے لوازمات دیکھ لو۔ کل بھی فیروزاں نے شکر کے بجائے نمک کی بھرمار کردی تھی۔ اب کی بار اکبر دادا نہیں بخشیں گے۔" پریشانی اور کام کے بوجھ سے وہ بولائی بولائی پھر رہی تھیں۔
"میں نیچے آتی ہوں۔" اپنے کاغذات سمیٹتے ہوئے وہ نیچے کی جانب بڑھی۔
"دادا اکبر یہ ہر اتوار جاتے کہاں ہیں؟ ساتھ ہی حویلی کے لڑکوں کو بھی لے جاتے ہیں۔" جانان نے حیرت سے نیلو فر کو دیکھا۔
"تمہارا معاملہ نہیں ہے۔ جاؤ اور آنگن میں بیٹھک کا انتظام کرو۔ ابا میاں پہنچتے ہی ہوں گے۔" نیلو فر نے زیادہ بتانا مناسب نہ سمجھا۔ ماہ کامل نے ایک نظر جانان کو دیکھا اور باورچی خانے میں آگئی۔
"اب کی بار شکر ہی ڈالنا فیروزاں۔" اس نے مسکراتے ہوئے ملازمہ کو دیکھا جو ڈبے میں شکر ڈال رہی تھی۔
"کل تو بڑی عزت افزائی ہوئی تھی شاہانہ باجی سے۔۔ اب غلطی ہوئی تو وہ سیدھا مجھے چولہے پر ہی جھونک دیں گی۔" پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے اس نے چولہے پر چڑھی چائے کی پتیلی میں شکر انڈیلی۔
"تم لوازمات کا انتظام کرو۔ میں چائے دیکھ لیتی ہوں۔"
پیالیوں میں چائے انڈیل کر اس نے باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر آنگن میں جھانکا جہاں جانان ملازم سے صفائی سے کروا رہی تھی۔
"ایک بات پوچھوں؟"
"جی ادیبہ بی بی۔"
"دادا اکبر کی سواری ہر اتوار کہاں جاتی ہے؟" اسے اب محسوس ہوگیا تھا کہ چند باتیں حویلی کی لڑکیوں سے چھپائی جا رہی ہے۔
"دادا اکبر تو دوسری حویلی جاتے ہیں۔ اخگر دادا کی حویلی۔" فیروزاں نے رازداری سے بتایا۔
"اخگر دادا کی حویلی؟" وہ جی بھر کو چونکی۔
"جی۔ مجھے کل شنو نے بتایا۔ وہ کہتی ہے شاید دونوں بھائیوں کے درمیان حالات ایک بار پھر ٹھیک ہونے جارہے ہیں۔"
"اچھا۔۔" ماہ کامل سوچ میں پڑ گئی۔
"اخگر دادا ایک بار نہیں آئے۔ دادا اکبر ہی جاتے ہیں۔ لگتا ہے صلح کے لیے ہاتھ بھی دادا اکبر نے ہی بڑھایا ہے۔ حالانکہ حویلی والوں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ حالات درست ہو سکتے ہیں۔ ہم تو کسی اگلے فساد کا انتظار کر رہے تھے۔" فیروزاں کی آواز چھبنے لگی تو ماہ کامل سانس خارج کی۔
"اچھا بس فیروزاں۔ حویلی کے اندرونی معاملات کا اس طرح ذکر نہ کیا کرو۔" چائے کی ٹرے اٹھاتی ہوئے وہ چولہے کے پاس لائی۔ یکدم ہی ہارن کی تیز چنگھاڑتی آواز نے دادا اکبر اور مردوں کے آنے کی نوید سنائی۔ ماہ کامل چائے ٹرے میں سجانے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں نے تمہارے لیے چائے بنائی ہے بدر۔" تخت پر اس کے برابر بیٹھتے ہوئے ماہ کامل نے اسے پیار سے پچکارا۔ لمبا چوڑا لڑکا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا دیا۔ اپنے بیگ سے اس کی جانب ایک تھیلا بڑھایا جس سے خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ماہ کامل نے چونک کر اسے دیکھا۔
"یہ کیا ہے؟"
وہ لڑکا صرف مسکراتا رہا۔
ماہ کامل نے اسے دیکھتے ہوئے وہ تھیلا کھولا جس کے اندر سفید رنگ کے ڈھیروں پھول تھے جو شاید وہ باغ سے اکھٹے کر کے لایا تھا۔
"یہ تم اس لیے لائے ہو نا تاکہ میں پرفیوم بنا سکوں؟" اسے بھائی پر یکدم ہی بے جا پیار آیا تو بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔
بددر نے اس کے ہاتھ کی پشت چوم کر اسے ہمیشہ کی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
"میں تمہارے لیے شکر کے بکسٹ بھی لاتی ہوں۔" چائے کی ٹرے اس کے آگے رکھ کر وہ تیزی سے کچن سے مزید لوازمات لے آئی۔
"یہ سب کھالو۔ میں تمہارے لیے کپڑے نکال رہی ہوں۔ نہا دھو لینا پھر تمہیں زمینوں کو دیکھنے بھی جانا ہے۔" انیس سالہ بدر اثبات میں سر ہلاتا رہ گیا۔
"کچھ پتا چلا کہ دادا اکبر کہاں گئے تھے؟" جانان سر پر ڈوپٹہ پہنتی ہوئی ان کے نزدیک آئی۔ ماہ کامل نے اپنی لمبی چٹیا کمر کے پیچھے کی۔
"فیروزاں کہتی ہے کہ اخگر دادا کی حویلی کے چکر لگ رہے ہیں۔ جانے کیا معملات ہوئے ہیں۔"
جانان کے لبوں پر رازدارانہ مسکراہٹ ابھری۔ وہ کسی بات سے مسکرائی تھی اور ماہ کامل پر نگاہ پڑتے ہی مسکراہٹ کھلکھلاہٹ میں بدل گئی۔
"تمہارے چہرے کا تبسم جس جانب اشارہ کرتا ہے' اس بات سے میں بے خبر نہیں۔" ماہ کامل کی مدھم آواز ابھری۔
"دھیرے بولو۔ آنگن میں محفل لگی ہے۔ دادا اکبر تمام مردوں کو اکھٹا کیے بیٹھے ہیں۔ سلیم نے کہا تھا کہ یہ خط مجھے دے دینا۔ میں پہنچا آؤں گا۔ کتنی تعجب کی بات ہے۔ اپنے شوہر سے بات کرنے کے لیے مجھے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جہاندار میرے شوہر نہیں بلکہ کوئی نامحرم ہیں جن سے میں بچ بچا کر بات کرتی ہوں۔" اس نے سوئیٹر کی جیب سے خط نکال کر آگے لہرایا۔ چہرے پر نخوت کے آثار تھے۔
"سلیم بھائی زمینوں پر کل بھی تو جائیں گے جانان۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ اندھیرا پھیل رہا ہے۔۔ اور اب وہ یوں بھائی نہیں جائیں گے۔" اس کی جذباتیت پر ٹھنڈا پانی پھینکتے ہوئے وہ نرمی سے سمجھانے لگی۔ جانان نے لب بھینچ کر بدر کو دیکھا جو اپنی بھوری آنکھوں سے اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
جانان نے اسے جواباً گھورا اور خط جیب میں ڈالتی ہوئی اندر بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ دل تمہارا منتظر ہے شاداب۔ ایسی بھی کیا بے رخی کہ پلٹ کر حال ہی نہ پوچھو؟ روز خط لکھتی ہوں اور روز خود کو امید کا دامن پکڑاتی ہوں۔ ماہی تمہیں یاد کرتی ہے۔ یہ بچے تمہارا خون ہیں شاداب۔۔ تمہارا جی نہیں کرتا کہ ان کے معصوم چہرے دیکھو؟" کمرے کی دبیز خاموشی دل چیر رہی تھی۔ کھڑکیوں پر لگے سیاہ گہرے پردوں نے روشنی کا داخلہ ممنوع کر رکھا تھا۔ مضطرب نگاہیں اس خاکی سے کاغذ پر بھٹکنے لگیں۔
"تمہاری منتظر۔۔ تمہاری چندا!"
دل رک رک کر چل رہا تھا۔ آخری لفظ لکھ کر اس کی انگلیاں ڈھیلی پڑ گئیں۔ قلم چھوٹ کر صفحے کے اوپر ہی گر گیا۔ سر ڈھلک کر مزید جھک گیا۔ وہ اب صفحے کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ آنکھوں سے بہتے اشکوں نے دھیرے دھیرے وہ کاغذ بھگو دیا۔ دل اسی لمحے پر ٹھہر گیا تھا جب وہ ایک شخص چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ آگے بڑھ ہی نہ سکی۔ تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔
"امی!" پیچھے سے آواز ابھری تو چندا نے آنسو صاف کیے۔ "یہ خط! آپ اسے ارسال کردیں گی؟" ہاں وہ خط۔۔ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں لکھا وہ محبت بھرا خط۔
"تم نے بابا کو کیا لکھا ہے؟" تکلیف سے مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔
"میں نے ان سے کہا ہے کہ میرے پاس آجائیں تاکہ میں ان کو گلے لگا سکوں۔" ٹھنڈ سے رخسار سرخ تھے۔ وہ بلکل اپنی ماں کی طرح مسکراتی تھی اور چندا اسے مسکراتے دیکھ کر ہی کہیں کھو گئی تھی۔ ہاں مگر اس کی ماں اب کہاں مسکراتی تھی۔۔ اس کی ماں کے لبوں پر مسکراہٹ لانے والے شخص کو حویلی کا تخت جان سے پیارا تھا۔ کراچی کی دھند میں اس کی وفا محبوب کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ماہی پلٹ گئی اور اس کے مڑتے ہی چندا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ ہجر کی راتیں طویل ہورہی تھیں۔ جانے یہ کب کٹیں گی اور کب وہ اس کے بازو پر اپنا سر رکھ کر اپنی تھکن اتارے گی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم کہانیاں لکھتی ہو؟" جہاں آرا نے اسے کتاب کے صفحے پر جھکے دیکھا تو وہاں چلی آئیں۔
ماہ کامل نے نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"میں صرف ایک ہی کہانی لکھ رہی ہوں۔ حقیقت سے بھرپور ایسی کہانی جس میں مبالغہ آرائی کا ایک فیصد بھی نہیں۔" کتاب بند کردی گئی تھی۔
"مجھے نہیں پڑھاؤ گی؟"
"معذرت جہاں آرا مگر یہ میری کہانی ہے۔" اس نے لب کاٹتے ہوئے بمشکل بتایا۔
"تمہاری؟" وہ چونک اٹھیں۔
"جی۔" اس کے مختصر سے جواب میں چھپی ایک لمبی داستان سے جہاں آرا آشنا ہوئی تھیں۔ چہرہ یکدم سپاٹ ہوگیا۔ وہ وہاں سے ہوتی ہوئیں باہر نکل گئیں۔
ان کے جاتے ہی ماہ کامل نے نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی تھیں جیسے خدا سے کچھ کہہ رہی ہو۔ سر ڈھلک کر دروازے کی چوکھٹ سے ٹک گیا۔ اس نے اپنے بہتے آنسوؤں کو ایک بار بھی نہیں روکا۔ دوبارہ قلم اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ کتاب بند کرتی ہوئی وہ کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
'۳۰ نومبر'
"آج مہینے کی آخری تاریخ ہے۔ اس حساب سے یہ اس ماہ کا آخری خط ہے۔ ٹھنڈ بڑھ رہی ہے اور راتیں تاریک ہورہی ہیں۔ بلکل میری زندگی کی طرح۔۔ بچے کل رات رو رہے تھے۔ تمہیں یاد کر رہے تھے شاداب۔ کتنی عجیب بات ہے نا؟ عالم بھی رو رہا تھا حالانکہ اس نے تو کبھی تمہیں دیکھا بھی نہیں۔ اس نے ماہی کو بتایا کہ وہ رویا نہیں مگر ماہی کہتی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں اسے دیکھتی ہوں تو تکلیف سے رو پڑتی ہوں۔ تمہارا لڑکا اپنے دل کی بات زبان سے کہہ بھی نہیں سکتا۔ اس کے ہم عمر اسے گونگا کہتے ہیں تو ماہی کو بہت غصہ آتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ ان لڑکوں سے لڑنا چاہتی ہے جو اس کے بے زبان بھائی کو گونگا کہتے ہیں۔ پھر سوچتی ہے کہ اگر باپ ہوتا تو اسے لڑکوں سے خود لڑنا نہ پڑتا۔ تمہیں بچے یاد نہیں آتے؟ تمہارا خون؟ تمہاری محبت؟ اور میں؟ جس سے تم بے پناہ محبت کا اظہار کرتے تھے۔ مجھے علم نہ تھا کہ میری زندگی کے سنہرے پل محض چند سال کے ہوں گے۔ اگر علم ہوتا تو تمہیں اس رات وہ فون اٹھانے ہی نہ دیتی جو میرے لیے بری نوید لایا تھا۔ میں خود کو یہ خط لکھنے سے بہت روکتی ہوں مگر کیا کروں۔ دل سے ہی لڑ رہی ہوں۔"

میں ماہ کامل ہوں  Where stories live. Discover now