"میں نے کہا مجھے گھر جانا ہے۔" وہ پوری قوت سے چیخی۔ جہاندار نے ایک نظر ماہ کامل کو دیکھا جو زینے اتر کر آئی تھی اور اب جانان کو سامنے کھڑا دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی۔ وہ چیخ رہی تھی اور یہ سب اس کے لیے نارمل نہیں تھا۔ جہاندار نے ماہ کامل سے نظریں کترائیں۔
"آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔ جہاں میں رہنا ہی نہیں چاہتی وہاں کیوں ٹھہروں؟ حویلی والوں کو معلوم ہوا تو وہ آپ کو نہیں چھوڑیں گے جہاندار۔۔" کہتے کہتے آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ حویلی والے جہاندار کے خلاف کوئی غلط قدم اٹھائیں۔
اس نے بیوی کو دیکھے بغیر فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور ڈھکن کھولتا ہوا بوتل منہ کو لگا گیا۔
"کیا ہورہا ہے؟" ماہ کامل کا دل ڈوبنے لگا۔ جانان کی باتیں ناقابل برداشت تھیں۔
"ماہ کامل ان سے کہو مجھے حویلی چھوڑ کر آئیں۔" وہ تیزی سے اٹھ کر اس کی جانب آئی۔ شاید کہ وہ کسی کی بات مان لے۔
"مگر کیوں؟ کیا ہوا ہے جانان؟ تم تو جہاندار بھائی کے ساتھ آنا چاہتی تھی نا؟" آنکھیں پھٹ کر اس کا چہرہ گھور رہی تھیں اور جہاندار خود پر بھرپور قابو کیے کھڑا تھا۔
"وہ وقت بہت پرانا ہوگیا ہے۔ مجھے اب ان سے طلاق چاہئیے۔ یہ طلاق دیں گے تو میں حویلی جا سکوں گی۔ مجھے بابا سے ملنا ہے۔ میں نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا ماہ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں ان سے طلاق لے لوں گی اور واپس حویلی چلی جاؤں گی۔ میں اپنے باپ کو ناراض کیے بنا یہاں نہیں رہ سکتی۔ ان سے کہو مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ میرے پاس مت آئیں اور یہ قصہ ہی ختم کردیں۔" وہ غصہ تھی اور ماہ کامل کا دماغ سن ہوگیا تھا۔ جانان اپنا ارادے، اپنے فیصلے سب بدل چکی تھی۔
"جہاندار بھائی۔۔" اس نے جہاندار کو پکارا جو ابھی بھی بوتل سے ٹھہر ٹھہر کر گھونٹ بھر رہا تھا۔ جہاندار نے اسے مڑ کر تک بھی نہ دیکھا۔ وہ کسی سے اس معاملے پر ایک بار پھر بات نہیں کرنا چاہتا۔
"آپ اسے یہاں زبردستی لائے ہیں؟" وہ ششدر تھی۔ اسے ان کے معاملے کا ذرا علم ہوتا تو وہ شاید کبھی جہاندار کا ساتھ نہ دیتی۔ یکدم ہی لاؤنج میں تیزی سے سراقہ داخل ہوا۔
"ماہی تم کمرے میں جاؤ۔" سراقہ نے اسے تیزی سے تنبیہہ کی۔ ماہ کامل نے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ اس سے کوئی اور بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
"آپ نے۔۔" وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ سراقہ نے سب کچھ کیوں چھپایا۔ اسے کیوں نہ بتایا۔۔ اسے کیوں نہ خبر ہونے دی۔۔
"ہم کمرے میں بات کریں گے۔ فالحال ابھی تم اوپر جاؤ!" اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اس نے تیزی سے نگاہیں دوسری جانب مرکوز کرلیں۔ "ابھی ماہی!" اسے کھڑا دیکھ کر وہ اپنی بات پر زور دیتا ہوا بولا۔ ماہ کامل نے ایک نظر جانان کا غضب ناک ہوتا چہرہ دیکھا اور دل میں کئی اٹھتے سوال لیے اوپر بڑھ گئی۔
"تمہیں بھی اپنا کمرہ دیکھنا چاہئیے۔" جہاندار نے جانان کو مسکرا کر دیکھا۔
"آپ ایک خود غرض اور مطلبی شخص ہیں جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔" اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ وہ مسکرایا اور پھر ہنس دیا۔ سراقہ نے لب بھینچ لیے۔
"ہاں صحیح کہہ رہی ہو۔ اگر یہ خود غرضی ہے تو میں خود غرض ہی سہی۔۔" ہونٹ سکڑنے لگے۔
"مجھے آپ کے لیے کچھ اچھا محسوس نہیں ہورہا جہاندار۔۔" اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ بمشکل کہتے ہوئے وہ دور ہٹنے لگی۔
"محبت تو چھوڑ چکی ہو۔۔ چلو اب مجھ سے نفرت کرو۔" اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ سنجیدگی سے بولا۔ وہ اس کے قریب کھڑا تھا۔
"مجھے آپ اس وقت نفرت کے قابل بھی نہیں لگ رہے جہاندار۔" اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس کے الفاظ نے جہاندار کو ساکت کردیا تھا۔ وہ اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتا ہوا خود کو ٹھہرا ہوا محسوس کررہا تھا۔ سراقہ نے اس کو بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا۔ وہ سن کی سی کیفیت میں پیچھے ہوا۔
"جانان!" سراقہ نے یکدم پکارا۔ "تمہیں کمرے میں جانا چاہئیے۔۔"
"تم نے کیا کہا مجھے؟" البتہ جہاندار ابھی بھی اس کی پچھلی بات کی زد میں تھا۔ ایک آئبرو ذرا سی اچکا کر اس نے ششدر لہجے میں پوچھا۔ وہ اس کے قریب بڑھنا چاہتا تھا مگر بازو سراقہ کے قابو میں تھا۔
"جانان اوپر جاؤ!" سراقہ نے آنکھوں کے اشارے سمجھا کر اسے اوپر جانے کا اشارہ دیا۔
"مجھے کہیں نہیں جانا۔۔ صرف گاؤں جانا ہے۔ ابھی اور اسی وقت!" بہتے آنسوؤں کے درمیان وہ چیخی تو جہاندار بھڑک اٹھا۔
"تم آج بھی یہیں ہو اور کل بھی یہیں ہوگی۔ میں بھی دیکھتا ہوں اکبر حویلی والے کیا کرتے ہیں۔ کیا سمجھتی ہو؟ جب چاہو گی مجھے اپنی محبت میں مبتلا کردو گی اور جب چاہو گی مجھ سے دور ہوجاؤ گی؟" وہ پوری قوت سے چیخا تھا۔ جانان کچھ کہہ ہی نہ سکی۔ الفاظ لبوں سے ادا ہی نہ ہوسکے۔
"اگر آپس میں بحث ہوگئی ہو تو جانان تم اوپر جاؤ۔۔ مجھے جہاندار سے بات کرنی ہے۔" اب کی بار سراقہ بنا کسی تاثر کے بولا۔ جانان وہاں سے نکل گئی البتہ جہاندار وہیں ٹھہر گیا۔ جانے جانان کے الفاظ زیادہ تکلیف دہ تھا یا اس کے نفرت بھرے تاثرات۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا کہہ رہے ہو شہاب تم؟" اکبر دادا تیزی سے سیدھے ہوئے۔ آنکھیں بے یقینی سے پھٹی ہوئی تھیں۔ پیشانی پر گہرے بل نمودار ہوئے۔
"میری بیٹی ابا!" غصے سے چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ "میری بیٹی کو وہ اپنے ساتھ لے گیا۔" سانس پھول رہی تھی۔
"ہم چھوڑیں گے نہیں اسے!!" مہتاب کی دھاڑنے کی آواز لاؤنج میں داخل ہوتے سلیم کو ٹھٹکنے پر مجبور کر گئی۔
"کسے؟ کیا ہوا ہے؟"
شہاب کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ دادا اکبر غصے سے سرخ معلوم ہوتے تھے۔
"بڑے ابا کے پوتے کا ذکر ہورہا ہے۔ وہ ہماری جانان کو زبردستی ہاسٹل سے اپنے ساتھ لے گیا۔"مہتاب نے اسے تیزی سے بتایا۔ سلیم نے سوچتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔ تو چلو ایک اور قیامت آگئی تھی۔
"اخگر بھائی کو کال ملاؤ۔ ہمیں اپنی لڑکی آج رات تک یہاں چاہئیے۔ یہ لڑکا خود کو سمجھتا کیا ہے۔" اس عمر میں بھی ان کے پاس اتنی طاقت تھی کہ ان کی آواز بھرپور حویلی میں گونج رہی تھی۔
"ابا میاں۔ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے یہ سب اخگر حویلی والوں کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے ہم سب سے بدلہ لینے کے لیے کیا ہے۔ ورنہ کیا بڑے ابا کو معلوم نہ ہوگا کہ جہاندار کیا کرنے والا ہے۔"
سلیم انہیں ہنگامی کیفیت میں چھوڑتا ہوا تیزی سے ماں کے کمرے میں داخل ہوا۔
"یہ کیا ہورہا اماں؟"
پریشانی سے گھبرا کر اٹھتی نیلی اس کے پاس آئی۔
"اس لڑکے نے ٹھیک نہیں کیا سلیم۔ جانان بہت معصوم ہے۔" نیلی کی پریشان آنکھیں اسے آنے والے حالات سے آگاہ کر رہی تھیں۔
"شوہر ہے وہ اس کا۔۔ طلاق کیسے دے گا اماں؟ کسی کی خوشیاں کو آگ لگانا کہاں کا انصاف ہے؟" اس نے ماں کی لرزتی انگلیوں کو مضبوطی سے تھاما۔
"سلیم۔۔ جانان کیسی ہو گی۔" وہ رو پڑی۔ جانے اتنی حساس کیوں تھی۔ یا شاید یہ حالات کا تحفہ تھا کہ وہ خود میں مضبوطی کئی سال پہلے ہی کھو چکی تھی۔
"جہاندار اسے کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا البتہ آپ کو اکبر حویلی والوں سے ڈرنا چاہئیے۔ اکبر حویلی کے مردوں سے کئی درجے بہتر ہیں اخگر حویلی کے مرد۔ اخگر دادا کے پوتوں کو اپنی عورتوں کی حفاظت کرنی آتی ہے۔" برآمدے سے آتی اونچی دھاڑتی آوازیں حویلی میں ہولناک سما پیدا کر رہی تھیں۔ عورتیں سہمی ہوئی تھیں اور سلیم اپنی ماں کا سر اپنے سینے سے لگائے تسلی دے رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"دادا اخگر شہر آگئے تو؟" لان میں رکھی میز کے ساتھ کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے سراقہ نے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
"تمہیں لگتا ہے میں لوگوں سے ڈرتا ہوں؟ بیوی ہے وہ میری۔۔ کوئی سگریٹ جیسی چیز نہیں جسے دادا اخگر کے کہنے پر چھوڑ دوں۔" اس نے سگریٹ جیب سے نکالتے ہوئے سلگائی۔
"سگریٹ تو پھر بھی نہیں چھوڑی تم نے۔۔"
"اب خود اندازہ کرسکتے ہو۔ سگریٹ نہیں چھوڑی۔۔ بیوی کو کیسے چھوڑ دوں گا؟" وہ سر جھٹک کر مسکرایا۔
"اگر تم مجھے آج کے بارے میں پہلے بتاتے تو کم از کم میں بگڑنے والے حالات کے لیے خود کو تیار رکھتا۔" پاؤں پر پاؤں جماتے ہوئے اس نے موبائل دیکھا۔
"کیا ہی کرلے گا کوئی۔۔ سوائے شہر آکر مجھے دھمکیاں دینے کے کہ جانان کو طلاق دے دوں۔ اکبر حویلی کے بزدل مرد! انہیں لگتا ہے میں شاداب ہوں جو پیچھے ہٹ جاؤں گا۔ ان کی مٹھی میں آجاؤں گا۔ میں جہاندار ہوں۔۔ آخری سانس تک جانان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔" جانے کیا ہوا کہ سگریٹ بجھاتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔ سراقہ نے گہری سانس بھری۔ آفس سے آنے کے بعد تو اس نے بھی کپڑے چینج نہیں کیے تھے۔۔ کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اس نے ایک نظر ماہ کامل کو دیکھا تھا جو بستر پر کروٹ لیے لیٹی ہوئی تھی۔ کوٹ اتارتے ہوئے اس نے کن انکھیوں سے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ وہ شاید اس کا انتظار کرتے کرتے سو گئی تھی۔ سراقہ ویسے بھی اس سے کترا رہا تھا جیسے آنکھیں نہیں ملا پائے گا۔ یقینا وہ اس سے پوچھے گی کہ اس نے سچ کیوں نہ بتایا۔ جوتے اتارتے ہوئے اس نے وارڈروب سے کپڑے نکالے اور واش روم میں گھس گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"زینت!" دادا اخگر کی آواز پر وہ تقریبا بھاگتے ہوئے آئی تھیں۔
"جی ابا۔"
"تمہارا لڑکا کیا کیا کرتا پھر رہا ہے۔ ہماری عزت خراب کرے گا۔"
"ابا میاں میں تو کہتا ہوں ٹھیک ہی کیا۔" کیہان چچا نے کندھے اچکائے۔ "اس کی بیوی تھی اور پھر جو چھوٹے ابا نے کیا وہ بھی درست نہیں تھا۔ ذرا ان کے مردوں کو بھی تو خبر ہو کہ ہم ان کے غلام نہیں ہیں۔ جب چاہا رشتے سے منع کردیا، جب چاہا ہمارا لڑکا مانگ لیا۔" ان سارے حالات سے اگر کوئی مطمئن تھا تو وہ کیہان تھے۔
"تم خاموش رہو کیہان!" ان کی بلند آواز پر کیہان خاموش رہے۔ "بیٹی یوں اچانک سے نظروں سے اوجھل ہو جائے تو کتنا غم لگتا ہے۔ کوئی ہم سے پوچھے۔۔" ان کی آواز بھرائی۔ زینت چچی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
"ابا میاں وہ نہیں سنے گا۔ اس نے پہلے ہی اپنے ارادوں سے خبردار کیا تھا ابا میاں۔۔" وہ ماتھا پیٹتی ہوئیں وہیں بیٹھ گئیں۔
"مہتاب کی کال آئی تھی۔ اصل قیامت تو چھوٹے ابا کی حویلی میں برپا ہوئی ہے۔ ویسی ہی قیامت جو سالوں پہلے ہماری حویلی میں برپا ہوئی تھی۔" کیہان چچا نے گہری سانس خارج کی۔
"اس کمینے کو کال ملاؤ اور ہماری بات کرواؤ۔" دادا اخگر نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے خود پر قابو کیا۔ کیہان نے سر اثبات میں ہلایا۔ زینت چچی کا دل ڈوبنے لگا۔ انہیں بیٹے کی فکر ہورہی تھی۔ کیا ہی ضرورت تھی اپنے دشمن بنانے کی۔۔ آنکھوں سے نکلتے آنسو رخسار پر بہنے لگے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"جانان۔۔" اس کی آواز میں ایک انسیت تھی۔ صوفے پر بیٹھی جانان نے یکدم اس کا چہرہ دیکھا۔ مسکراتے لب اور خوش باش لہجہ۔۔ وہ جانان کے لہجے کی تلخی بھلا کر اس کے پاس آیا تھا۔
"میں جانتا ہوں تمہیں بھوک لگی ہے۔" آستین کہنیوں تک چڑھاتے ہوئے وہ اس کے سامنے بستر پر بیٹھ گیا۔
"آپ اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں جہاندار۔۔" اس کا دل کٹ رہا تھا۔ وہ نگاہیں بھی نہ ملا سکی۔ "مگر آپ کچھ نہیں سمجھنا چاہتے۔ آپ سب دیکھ رہے ہیں، سب محسوس کر رہے ہیں مگر کچھ نہیں کہتے۔۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ لہجہ کپکپا رہا تھا۔
"میں کیا کہوں؟ پہلے کہہ چکا ہوں کہ وہ تمہیں صرف اپنے کھیل کا حصہ بنا رہے ہیں۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"وہ میرا باپ ہے جہاندار۔۔ جو بھی معاملہ ہو جیسی بھی بات ہو۔ میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ اگر آپ کی بہن ہوتی اور آپ کی بات کا بھی مان نہ رکھا جاتا تو تکلیف آپ کو بھی ہوتی مگر آپ ان سب باتوں کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔۔ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک مضبوط حصار کیا ہوتا ہے۔۔ باپ کا رشتہ کیسا ہوتا ہے۔ ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے آپ کے پاس۔۔" جانے کہتے کہتے وہ کب تلخ ہوگئی۔ وہ ٹھہر سا گیا۔ کچھ نہ کہہ سکا۔ اسے یک ٹک تکنے لگا۔ جانان نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس کے خاموش تاثرات غلطی کا احساس دلانے لگے۔
جانے کیسے وہ زیادتی کر گئی۔ وہ مسکرا دیا۔ وہ اس سب کے باوجود مسکرادیا۔
"تم کہہ سکتی ہو۔۔ تم سب کہہ سکتی ہو۔۔ اور میں تمہارا کہا ہوا ہر لفظ برداشت کرسکتا ہوں۔" کسی کا تلخ لہجہ برداشت نہ کرنے والا جہاندار آج مطمئن کھڑا تھا۔۔ جیسے بآسانی ضبط کر گیا ہو۔
اس کے الفاظ، اس کا لہجہ جانان کو کمزور کرنے لگا۔ اسے لگا وہ مزید اس سے بحث نہیں کر پائے گی۔ وہ اپنی منوا نہیں پائے گی۔۔ ناک سرخ ہوگئی۔
"آپ ایسا مت کریں۔۔" آواز نرم پڑ گئی۔
"میں خود کو روک نہیں سکوں گا مگر ہاں تمہیں موقع ملے گا۔ جب میری ڈھٹائی تمہارے باپ چچاؤں کو شہر کا رخ کروائے گی تو ان سے کہہ دینا کہ ایک گولی میرے سینے پر بھی ماردیں۔ شاید پھر یہ قصہ ختم ہوجائے۔" اس نے کنپٹی کو انگلی سے دباتے ہوئے سنگھار میز کی جانب رخ کیا۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا مگر اس کا چہرہ ہر تاثر سے خالی تھا۔ جانان نے آنکھیں موند لیں۔
محبت زنجیر ثابت ہونے لگی۔
اسے لگا وہ اپنے باپ کی نافرمانی کر جائے گی۔
جہاندار نے میز کی جیب سے سگریٹ کا ڈبہ نکالا۔
ہلچل کی آواز پر آنکھیں کھول کر وہ اسے سگریٹ نکالتا دیکھنے لگی۔
"آپ میرے سامنے سگریٹ پئیں گے؟" اس کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔ جہاندار کی پیشانی پر الجھنوں کے بل نمودار ہوئے۔
"کیا ہوا؟"
وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے واقعی نہیں جانتا ہو۔ اسے سگریٹ سے شدید چڑ تھی۔ جانان کو یاد تھا بچپن میں ایک بار اس نے جب سلیم کو سگریٹ کو پہلی بار منہ لگاتے دیکھا تھا تو اس کی خبر دادا اکبر کو کردی تھا۔ اس کے بعد دادا اکبر کی ڈانٹ نے سلیم کو کان چھونے پر مجبور کردیے تھے۔
جانان نے منہ دوسری جانب کرکے آنکھیں موند لیں تو جہاندار نے سلگائی ہوئی سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دی۔
"نہیں پی رہا۔" اس نے جیسے آگاہ کیا تھا۔ جانان نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ چلتے ہوئے اس کے نزدیک آیا۔
"ناراض ناراض سی اچھی لگتی ہو۔" جوڑے سے نکلتے بال چہرے پر لہرا رہے تھے۔ اس نے شوہر کو دیکھا جو پیار بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر اس کے پیچھے سنگھار میز کے آئینے میں دیکھنے لگی۔ بھلا اس حلیے میں وہ اسے اچھی کیسے لگ سکتی تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے آنکھوں کا کاجل آنسوؤں کی وجہ سے پورا پھیل چکا تھا۔
"اور جانتی ہو تمہاری باتیں مجھے غصہ نہیں دلاتیں۔ بس میں کبھی کبھی ڈسٹرب ہوجاتا ہوں۔۔ شاید یہ تمہارا اثر ہے۔" وہ اس کے برابر آبیٹھا۔
"آپ کو میری باتوں سے کسی بھی چیز کے لیے خوف محسوس نہیں ہوتا؟"
"ہاہاہا۔ مجھے تم سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا تمہاری باتوں سے کیا ہوگا۔ تم بہت معصوم ہے جانِ جاناں۔ تمہاری باتیں بھی تمہاری طرح معصوم ہیں۔ میں تمہاری باتوں کو انجوائے کرتا ہوں۔" وہ اس کے برابر دھپ سے بیٹھ گیا۔ "جن سے محبت ہوتی ہے ان کی باتوں کو دل پر نہیں لیا کرتے۔" چمکتی آنکھیں ان سیاہ آنکھوں میں جھانکنے لگیں۔ "اور مجھے تم سے محبت ہے۔ میرا گزارا صرف تمہارے ساتھ ہے۔" گھمبیر لہجہ جانان کی توجہ کھینچنے لگا۔ اسے لگا کہ اگر وہ اس کی آنکھوں میں یونہی دیکھتی رہی تو اسیر ہوجائے گی۔ یکدم ہی فون بج اٹھا۔ بغیر نام پڑھے جہاندار نے کال اٹھاتے ساتھ کان پر موبائل لگا لیا۔
"قیس کی ناہنجار اور بے غیرت اولاد!" دادا اخگر کی دھاڑ سن کر جانان کی آنکھیں پھٹ کر باہر آنے لگیں۔ البتہ جہاندار مسکرا رہا تھا جیسے وہ دادا اخگر کی چیخوں کا عادی ہو۔
"جی دادا جان۔ فرمائیں۔" اطمینان بھرا لہجہ جانان کے ماتھے پر بل پھیلا گیا۔
"لڑکی کہاں ہے؟" وہ چیخ رہے تھے۔ ان کی چیخ جانان کو سہما گئی تھی مگر جہاندار ہنوز بیٹھا تھا۔
"آپ کی بہو؟ ہاں میرے ساتھ ہے۔ برابر بیٹھی ہے۔"
"تم اس کو اس کی مرضی کے خلاف کیسے لاسکتے ہو؟ تمہیں ذرا شرم نہ آئی؟ تم نے ذرا دیر کو نہ سوچا کہ اس کے باپ دادا کتنے پریشان ہوں گے؟"
"کیوں پریشان ہوں گے؟ بہت احترام سے لایا ہوں۔ نکاح کرواتے وقت تو ذرا پریشان نہیں ہوئے تھے۔ تب تو بس دونوں خاندانوں کو آپس میں رشتہ جوڑنے کی پڑی تھی۔ جو رشتہ بن گیا سو بن گیا۔ اب میں نبھاؤں گا۔" ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے اس نے بیوی کو دیکھا جو سب بھلائے اسے تک رہی تھی۔
"میری بات سنو جہاندار! یہ تمہاری محبت کا نشہ بول رہا ہے۔ کیوں سب کو اپنا دشمن بنا کر ہمارے دل کے دورے کا سبب بننا چاہتے ہو بیٹے؟ اکبر حویلی کے مرد شہر آجائیں گے۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے خاموش نہیں رہیں گے میرے بچے! اس لڑکی کو بھجوا دو۔ ہم معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد خود تمہارے لیے بات کریں گے۔" انہیں فکر تھی۔
جہاندار ہنس دیا۔
"ان کے ساتھ پہلی بار ہوا ہے۔ عجیب بات ہے نا دادا ابا؟ اپنی بیٹی ہے تو گردن پر چھریاں چلانے کو بھی تیار ہیں اکبر دادا۔۔ اور دوسرے کی بیٹی کے لیے ذرا کوشش نہ کی۔ بیٹے کو گاؤں بلوالیا اور ہماری حویلی کی لڑکی کو پلٹ کر شہر میں بھی نہ پوچھا۔ کیا ہوا؟ سسک کر پھپھو مرگئیں۔ سیدھی باتوں سے دنیا نہیں چلتی دادا۔ انہیں ماضی یاد دلائیں۔۔ شاید وہ خود کو ہماری جگہ محسوس کر سکیں۔" اس کا سنجیدہ لہجہ جانان کی دھڑکنیں معمول سے زیادہ بڑھا گیا۔
"دادا اکبر کے بارے میں آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہئیے۔" جانان تڑپ اٹھی۔ دادا اخگر نے اس کی آواز سنی تھی مگر خاموش رہے۔ جہاندار البتہ اسے بنا کسی تاثر کے تک رہا تھا۔
"ہمیں وہ وقت مت یاد دلاؤ جو ہمارے لیے باعثِ تکلیف ہے۔ اس لڑکی کو اس کی حویلی چھوڑ آؤ اور معاملہ ختم کرو۔ تم سے تو اس سب کی امید رکھی جاسکتی تھی مگر سراقہ؟ سراقہ نے بھی ہماری بات کو اہمیت نہ دی۔ کچھ وقت میں ہم دوبارہ کال کریں گے۔ تب تک جانان اپنی حویلی پہنچ چکی ہو اور تم اپنی حویلی۔" لائن کٹ گئی تھی۔ وہ موبائل کان سے ہٹا کر غور سے تکنے لگا۔
"میں بیگ لے کر آؤں؟" جانان کے یکدم سوال نے جہاندار کو اسے تکنے پر مجبور کیا۔
"تم یہیں بیٹھی رہو۔ کوئی کہیں نہیں جارہا ہے۔"
"آپ۔۔ آپ دادا اخگر کی بات نہیں مانیں گے؟" اسے جی بھر کر حیرانی ہوئی۔۔
"معذرت۔۔ میں بیوی کو نہیں چھوڑ سکتا۔"
"آپ کو دادا اخگر سے ڈر نہیں لگتا؟ کہ وہ آپ کی خلاف ورزی پر کچھ بھی کرسکتے ہیں؟"
"ہمارے دادا اخگر کو ہم سے بے پناہ محبت ہے۔ انہوں نے ہمیں ڈرا دھمکا کر نہیں پالا۔۔ یہی واضح فرق ہے دونوں بھائیوں میں! دادا اکبر کی ایک آواز سے ہی تم لوگوں کی جان نکل جاتی ہے۔" اسے تنگ کرتا ہوا وہ ہنس پڑا۔
"اگر بڑے دادا نے آپ دونوں کو ڈرا دھمکا کر پال لیا ہوتا تو آج آپ کو ان کی نافرمانی کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔" جانان نے بھی نہ بخشا۔ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جہاندار حیرت سے اس کا چہرہ تکتا رہ گیا۔
"تم تو بیوی بنتی جا رہی ہو۔" وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔
"بیوی ہی ہوں۔" لہجہ جتاتا ہوا تھا۔ جہاندار ہنس پڑا۔
"چلو خود کو میری بیوی تو مانتی ہو۔ ورنہ تو ساری بے وفائی کی حدیں پار کرلی تھیں۔" وہ پہلے سے اب ٹھیک تھی اور یہی بات محسوس کرکے جہاندار مطمئن تھا۔
جانان اب کی بار خاموش رہی۔ اس نے سنگھار میز کے آئینے میں خود کو دیکھا۔
"میں آپ کے ساتھ ہمیشہ سے رہنا چاہتی تھی مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری خواہش قبول اس طرح ہوگی۔" زلفیں بکھری ہوئی تھیں اور کاجل کی سیاہی پھیل چکی تھی۔ آنکھوں کے گرد سے سیاہی صاف کرتے ہوئے اس نے اپنا حال درست کرنا چاہا۔
"دیکھ لو میری معصومیت کو۔۔ کاجل پھیل کر تمہاری آنکھوں کو خوفناک بنا رہا ہے مگر میں اب بھی ان میں ڈوبنے کی خواہش رکھتا ہوں۔" دونوں بازو سینے پر باندھتا ہوا وہ کمر دیوار سے ٹکا کر بولا۔ اس کا شرارتی لہجہ جانان کو اپنی جانب کھینچنے لگا۔
"آپ کو شرم آنی چاہئیے میرے لیے ایسا کہتے ہوئے۔۔" اس کی تعریف کو فراموش کر کے اپنے مطلب کی بات نکال کر وہ ٹیرس کی جانب بڑھ گئی۔ جہاندار حیران ہوتا رہ گیا۔
"یہ واقعی بیویوں کی طرح برتاؤ کر رہی ہے۔"
محض بڑبڑا کر وہ ہنس دیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اس نے چہرے پر ٹھنڈی ہوا محسوس کی۔ آسمان گہرا نیلا ہورہا تھا۔ اس نے خالی لان میں نگاہیں دوڑائیں۔ سامنے میز پر رکھا لیپ ٹاپ بند تھا۔ پچھلے ایک گھٹنے سے کام کرنے کے بعد اب وہ خود کو پرسکون محسوس کر رہا تھا۔ آسمان پر دیکھنے کے لیے نگاہیں اٹھائیں تو جہاندار کے کمرے کے ٹیرس پر کھڑے وجود کو دیکھ کر ٹھہر گئیں۔ سانولی پرکشش رنگت والی وہ لڑکی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کی معصومیت اور شکوہ بھری آنکھیں سراقہ کے لبوں پر مسکراہٹ لے آئی۔
"کیسی ہو میرے بھائی کی بیوی؟" مسکراہٹ دباتے ہوئے وہ بولا۔
"ستائی ہوئی ہوں۔" کہہ کر نگاہیں پھیر لی گئیں۔
"کس نے ستایا تمہیں؟ میں اسے بلکل نہیں بخشوں گا۔"
"پھر لیں جا کر خبر اپنے بھائی کی جنہیں اپنے کیے پر ذرا بھی افسوس نہیں۔۔"
سراقہ اب کی بار زور سے ہنسا۔
"کیوں اپنے شوہر کو پٹوانا چاہتی ہو۔ بہرحال تمہیں وقت لگے گا مگر تم سمجھ جاؤ گی کہ جہاندار کا اٹھایا ہوا قدم کتنا مناسب اور درست تھا۔" اس کا لہجہ اطمینان بھرا تھا اور جانان اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس کی بات پر غور کر رہی ہو۔
وہ لیپ ٹاپ بند کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ جلتی ہوئی آدھی سگریٹ بجھا کر اس نے وہیں رکھ دی جیسے دل بھر گیا ہو۔
"کھانے کی میز پر بات کریں گے۔" اس نے آنے پر وہ خوش تھا۔ جانان نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس اسے لاؤنج کی جانب بڑھتا دیکھنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہم کیسے برداشت کریں شاداب بھائی؟ میری اکلوتی اولاد ہے میں کیسے سہہ سکتا ہوں۔ مجھے میری بیٹی چاہئیے۔ وہ کمینہ اسے اپنا سمجھتا ہے مگر خون تو وہ میرا ہے نا شاداب بھائی! میں اسے لے کر بھی آؤں گا اور یہ طلاق بھی ہوگی۔" وہ بار بار مٹھیاں بھینچ رہے تھے۔ شاداب صرف بھائی کا چہرہ دیکھتے رہے۔ سلیم انہیں دیکھ رہا تھا۔ ان کے اطمینان بھرے تاثرات کہیں سے بھی یہ نہ بتاتے تھے کہ وہ بھی اس معاملے کو لے کر غصہ ہیں۔
"ارے طلاق نہ دی تو ٹھیک ہے۔۔ جانان خلع لیلے گی۔ اب بات ہماری عزت پر آگئی ہے۔ بڑے ابا بظاہر بڑے نرم دل بنتے ہیں۔ یقینا وہ جہاندار کے ارادوں کو جانتے ہوں گے۔" مہتاب چچا کا تو خون کھول رہا تھا۔
"ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں بھائی صاحب۔ کیا کر رہے ہیں آپ؟ وہ بیوی ہے جہاندار کی۔۔ یہ رشتہ بڑوں نے جوڑا تھا۔ اب جب وہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کیوں زبردستی کرنی؟ میں بھی بیٹی والا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ جانان کے لیے کیا درست ہے۔" شاداب کا کہنا تھا کہ دادا اکبر گرج اٹھے۔
"اب تم بتاؤ گے ہمیں کہ کیا کرنا ہے برخوردار؟ تم اس لڑکے کی حرکت کو برا کیوں ہی کہو گے! تمہارا تو ماضی تازہ ہوگیا ہوگا۔" ان کا کاٹ دار طنزیہ لہجہ شاداب کا دل گہرائی تک چیر گیا۔ وہ بے یقینی سے خود پر ضبط کرتے ہوئے باپ کو تکتے رہ گئے۔
"میں ان حالات سے گزرا ہوں اسی لیے کہہ رہا ہوں ابا۔ بیوی کو کوئی کیسے تنہا کرسکتا ہے ابا میاں۔" انہوں نے تھوک نگلتے ہوئے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔
"اب تم بتاؤ گے کہ بیوی کو تنہا نہیں کیا جاتا؟ جو خود دولت کی بھوک پر اپنی بیوی اور دو بچوں کو چھوڑ کر حویلی چلا آیا تھا۔" ان کے کاٹ دار الفاظ شاداب کا دل بری طرح زخمی کر گئے۔ وہ بنا کچھ کہے تیزی سے اٹھ کر چلے گئے۔ بھتیجوں کے سامنے اتنی بے عزتی برداشت کرنا اب مشکل تھا۔ سلیم نے اکبر دادا کو تکلیف سے دیکھا جن کے لیے یہ الفاظ کتنے عام سے تھے۔ احب بھی خاموش نہ رہا۔
"دادا ابا ہمارے سامنے تو نہ کہتے۔۔"
"خاموش رہو تم برخوردار اور ماضی کے معمالات میں مت بولو!" مہتاب نے بیٹے کو ڈانٹا۔ احب سر جھکا گیا۔
"وہ لڑکا ہماری بیٹی کو زمینوں اور جائداد سے دور کرنا چاہتا ہے۔"
"اگر جانان واپس نہ آئی تو ہم زمین کیسے مانگیں گے؟"
"اخگر بھائی کیا کہتے ہیں احب؟"
"دادا ابا انہوں نے کہا کہ جہاندار کی اس حرکت کی خبر انہیں نہ تھی۔ وہ یقیناً اس معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہمیں چند دن ان کے پیغام کا انتظار کرنا چاہئیے۔" احب کی باتوں میں وزن تھا۔
"بلکل نہیں! میں چند روز کا انتظار نہیں کرسکتا۔ کیسے رہنے دوں اپنی بیٹی کو اس کے پاس؟ مجھے میری بیٹی چاہئیے ابا حضور! مجھے اس سے ملنا ہے۔" جذباتی ہوتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ذرا حوصلہ رکھو شاداب میاں! وہ لڑکا بہت ڈھیٹ ہے۔ جانان بیٹی کو اتنی آسانی سے ہمارے حوالے نہیں کرے گا۔۔ اور پھر اگر اتنی آسانی سے یہ معاملہ ختم ہوگیا تو زمین کا مطالبہ کس منہ سے کریں گے؟ ذرا ہولے رہو۔ ہم بڑے بھائی کی جانب سے پیغام کا انتظار کریں گے۔" بے حد رسان سے بات مکمل کی گئی۔ احب کے تاثرات بے حد عجیب ہوگئے۔ سلیم وہاں سے منہ پھیرتا باہر نکل گیا۔ اتنے سالوں بعد بھی ایک چیز کی حویلی میں سب سے زیادہ اہمیت تھی۔۔ دولت!
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم کھانا نہیں کھاؤ گی؟" اسے پلیٹیں رکھ کر پلٹتے دیکھا تو خود کو کہنے سے روک نہیں پایا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔ جانان کمرے سے نہیں آئی۔ میں وہاں جا رہی ہوں۔" اس کی آنکھیں ہر تاثر سے خالی تھیں۔
"مگر میں ابھی انتظار۔۔"
"جہاندار بھائی ہیں۔ وہ میز پر آنے والے ہوں گے۔ میں جانان کو دیکھ لوں۔" بات کاٹ کر اس نے ایک بار پھر ویسے ہی الفاظ ادا کیے۔ اس کے لہجے میں اب پہلی جیسی ہلکی پھلکی اپنائیت بھی نہیں رہی تھی۔ سراقہ کو لگا جیسے وہ کوئی اجنبی ہو۔ اس نے ضبط کرتے ہوئے میز پر رکھے لوازمات کو دیکھا۔ وہ جا چکی تھی۔۔ لاؤنج میں داخل ہوتے جہاندار کو دیکھ کر اس نے گہری سانس اندر کی جانب کھینچی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"محبت کا بھوت اترے گا تو انہیں عقل آئے گی کہ ایسے فیصلے دل سے نہیں لیے جاتے۔" وہ خود ضبط کرتے ہوئے منہ دوسری جانب کر گئی۔
"مجھے۔۔ مجھے کسی نے علم کیوں نہیں ہونے دیا۔" ماہ کامل اب بھی ساکت تھی۔ "مجھے لگا سراقہ مجھ سے کچھ نہیں چھپاتے۔۔ مگر اس سب کے لیے انہوں نے مجھے ہی لا علم رکھا۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں میں بھی دادا اکبر کے ساتھ نہ جا کھڑی ہوں۔۔ میں بھی ان کی مخالفت نہ کروں۔ مجھے بے چینی ہورہی ہے۔" اس نے تیز دھڑکتے دل سے کہا۔
"انہیں لگتا ہے میں نے یہ صرف دادا اکبر کے زور پر کیا ہے۔ صرف وجہ یہ تو نہیں ماہ۔۔ چچا، بابا۔۔ کوئی نہیں چھوڑے گا۔۔ میں جہاندار کو اس سب دور کرنا چاہتی تھی۔ میں جانتی ہوں وہ شہر بھی آسکتے ہیں۔ اتنا ہنگامہ کبھی نہ ہوتا اگر جہاندار کا تعلق اخگر حویلی سے نہ ہوتا۔" وہ خوفزدہ تھی۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جہاندار بھائی تمہیں کچھ نہیں ہونے دیں گے۔" وہ بمشکل مسکرائی تھی اور جانان نے اس کی آنکھوں میں پریشانی کا سایہ دیکھا تھا۔
اسے یاد تھا جب وہ جانان کے روم سے نکلی تو لاؤنج میں میز ویسی ہی سجی تھی جیسے وہ پندرہ منٹ پہلے چھوڑ کر گئی تھی۔ وہی صاف ستھری چمکتی پلیٹ سراقہ کی خالہ کرسی کے سامنے رکھی تھی۔ جہاندار صوفے پر بیٹھا نگاہیں فرش پر مرکوز کیے کسی گہری سوچ میں تھا۔
"آپ نے کھانا نہیں کھایا؟" اس نے جہاندار کو دھیرے سے پکارا۔
"ہوں۔۔ ہاں؟" وہ چونکا۔ "ہاں وہ دل نہیں کر رہا۔ جانان کے ساتھ کھاؤں گا۔ کیا تم نے اسے کھانا دے دیا؟"
اب وہ کیا بتاتی کہ کھانے سے بھری ٹرے ویسے ہی اس کے سنگھار میز پر رکھی تھی۔
"دے دیا۔" اس نے میز سمیٹ کر کھانا فریج میں رکھ دیا۔ دل نہ ہوتے ہوئے بھی وہ کمرے میں چلی آئی۔ عجیب گھٹن زدہ ماحول تھا۔۔ یا شاید اس کے دل کا حال اچھا نہیں تھا۔ بستر پر بیٹھے لیپ ٹاپ کھول کر کام کرتے سراقہ کو ایک نظر دیکھتے ہوئے وہ سنگھار میز کی جانب بڑھی۔ دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر اس نے آئینہ دیکھا۔
"آپ نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟" الفاظ دھیرے سے ادا ہوئے۔ سراقہ نے لیپ ٹاپ سے نگاہ تک نہ اٹھائی۔
"اگر آپ کو بھوک نہیں تھی تو منع کردیتے۔ میں میز ہی نہ سجاتی۔"
"معذرت۔۔ آئیندہ سے پہلے بتادوں گا۔" اس کے لہجے سے اس کے موڈ کا پتا لگانا بہت مشکل ہوگیا۔ سراقہ نے کافی کا مگ لبوں سے لگا لیا۔
ماہ کامل کا دل چاہا پھٹ پڑے۔ پوچھ بیٹھے کہ اس سے جھوٹ کیوں کہا۔۔ مگر یہ ضبط بھی لازم تھا۔ وہ قدم اٹھاتی ہوئے بستر کی دوسری جانب آئی اور بستر پر لیٹ گئی۔ سراقہ کی جانب اس کی پشت تھی۔ چادر چہرے تک اوڑھ کر اس نے نگاہیں کھلی کھڑکی سے باہر آسمان پر ٹکالیں۔
"کچھ کھا کر سوجاؤ۔" ایک گھمبیر آواز کانوں میں پڑی۔ "ماہی۔" جواب نہ پا کر اس نے دوبارہ پکارا۔
"ماہ کامل! ماہ کامل نام ہے میرا۔۔" اس نے تیزی سے تصحیح کی۔ آنکھیں ہلکی ہلکی سرخ ہونے لگیں۔ "اور مجھے بھوک نہیں ہے۔ لگے گی تو کچھ کھالوں گی۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔"
"شوہر ہوں تمہارا۔" سراقہ کی آواز نے اسے آنکھیں میچنے پر مجبور کیا۔ "اور جس نام سے بلانا چاہوں گا' بلاؤں گا۔ اٹھو اور کچھ کھا کر سوجاؤ۔ میں جانتا ہوں تمہیں بھوک ہے۔" بھلا وہ کیسے نہیں جانتا۔ اسے بہت جلدی بھوک لگ جایا کرتی تھی۔
اس کو لگا وہ کمزور پڑ رہی ہے۔۔ رو دے گی۔
جانے یہ حالات تھے یا اس کی ہی کوئی کمزوری جو اسے مزید کمزور کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بہت جلدی سرخ ہوجایا کرتیں۔ اسے لگا وہ بولی تو آواز بھیگ جائے گی۔ جتنا غصہ تھا وہ آنکھیں نم ہوتے ہوئے نکل رہا تھا۔
"کبھی ایسا لگتا ہے کہ میں تمہیں ناپسند ہوں۔۔ یا شاید تمہیں مجھ سے نفرت ہے۔" کافی دیر بعد ایک آواز ابھری تھی اور یہ آواز اس کے دل میں بھڑکتی آگ کو مزید بھڑکا گئی تھی۔
"مجھے آپ پر غصہ ہے۔" وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھی۔ "مجھے صرف آپ پر غصہ ہے۔" سراقہ کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔ "مجھے لگتا تھا آپ مجھ سے جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ مجھے لگتا تھا آپ جانان اور جہاندار بھائی' دونوں کی خوشی کے لیے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔ مگر آپ صرف جہاندار بھائی کی خوشی کے لیے کر رہے تھے۔ اگر وہ آپ کا بھائی ہے تو جانان میری بہن نہیں؟" سرخی مائل آنکھیں اور بھیگی پلکیں۔۔ وہ بمشکل الفاظ ادا کرتی اپنا دل کا بوجھ اتارنے لگی۔
"تمہاری حویلی والوں کے لیے جانان صرف زمین پانے کا راستہ ہے۔۔ اور اگر زمین نہ ملی تو طلاق دلوا کر حویلی میں ہی رکھیں گے۔ کیا تم واقعی چاہتی ہو کہ جہاندار اسے چھوڑ دے؟ وہ اس کا شوہر ہے۔ محبت کرتا ہے اور اس کے لیے بہترین سوچتا ہے۔ کوئی مجھ سے میری بیوی کو چھوڑنے کا کہے گا تو میں چھوڑ دوں گا؟ میں اس کا منہ توڑ دوں گا۔" بنھویں چڑھی ہوئی تھیں اور آواز میں سختی تھی۔ اس کی آخری بات پر ماہ کامل اس کا چہرہ تکنے لگی۔ "شادی مذاق ہے؟ دل میں پیدا ہونے والی محبت کھیل نہیں ہے ماہی۔ تمہارے لیے کہنا آسان ہے کیونکہ تمہیں محبت کی خبر نہیں ہے۔ جس دن تمہارے دل میں وہ احساس پیدا ہوگا تب تم بھی ویسا ہی سوچنے لگو گی جیسا جہاندار سوچتا ہے۔ جانان ڈری ہوئی ہے۔ حویلی والوں سے سہمی ہوئی ہے جب ہی ایسی باتیں کر رہی ہے۔ وہ جہاندار کو اپنے لوگوں سے بچانا چاہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے لوگ جہاندار کو نقصان پہنچائے۔ اس نے تم سے کہا کہ وہ جہاندار سے محبت نہیں کرتی اور تم نے مان لیا؟ مجھ سے زیادہ تم جانتی ہو اسے۔۔ پھر بھی نہ سمجھ سکی؟" جانے وہ خود کو یہ سب کہنے سے کیوں روک نہ سکا۔
"اس نے مجھے ایسا کچھ نہیں کہا۔" وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔ سراقہ نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کرکے ذرا سی کھولیں۔ "مجھے بس۔۔ اس کی فکر ہے۔" وہ دوبارہ گویا ہوئی۔ "وہ یوں تکلیف میں رہے گی۔"
"اور میری فکر؟" اس کا یوں پوچھنا ماہ کامل کو ساکت ہونے پر مجبور کر گیا۔ اس کے یہ تین الفاظ شاید دل پر بہت بھاری تھے۔ ایک انہونا سا سوال۔۔ جانے کیا تھا اس کے چہرے میں کہ وہ کچھ کہہ نہ سکی۔ بس یک ٹک تکتی رہی۔
"مجھے آپ کی فکر ہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ کئی بار ہکلائی جیسے خود پر بھی نہ یقین ہو۔
"نہیں ہے ماہی۔۔ تمہیں فکر ہی تو نہیں ہے۔" ادھورے پن سے مسکرا دیا۔ وہ خود پر بہت ضبط کیا ہوا تھا۔۔ شاید ابھی بھی بہت کچھ تھا جسے وہ کہنے سے خود کو روک رہا تھا۔ لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے اس نے باہر کا رخ کیا۔ ماہ کامل وہیں بیٹھی رہ گئی۔
پورا دن ایک دم سے ذہن میں گھومنے لگ گیا۔
ہاں وہ آج بھی جلدی آیا تھا۔
شاید وہ اس کے ساتھ لنچ کرنا چاہتا تھا۔
جانے حالات کس جانب مڑ گئے پھر۔۔
وہ جانان کے معاملے میں اتنا کھو گئی کہ سراقہ کو مکمل نظر انداز کر گئی۔ اس کی خیر خبر ہی نہ لی۔ اس کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھنے سے انکار کرکے وہ اسے کتنا شرمندہ کر گئی۔ دل ڈوبنے لگا۔
اسے نیچے لان سے کچھ آواز آئی تو اس نے جھٹ اٹھ کر نیچے جھانکا۔ وہ دوسری جانب کی لائٹ جلائے لان کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ بند لیپ ٹاپ میز پر رکھا ہوا تھا۔ سراقہ نے سر کرسی پر ٹکایا اور چہرہ آسمان کی جانب کرلیا۔ جانے وہ کیا سوچ رہا ہوگا۔
اس کے الفاظ اب بھی کانوں میں گونج رہے تھے۔
کیا واقعی ماہ کامل کو اس کی فکر تھی؟
اس کی آنکھوں میں ماہ کامل نے ایک سوال دیکھا تھا۔۔ ایک شکوہ دیکھا تھا۔ اس نے خود کو شرمندگی کے مارے نگاہیں ادھر ادھر گھماتے محسوس کیا۔ ہلتے درخت سائیں سائیں کی آواز پیدا کر رہے تھے۔ اسے ہمیشہ رات کے وقت ان لمبے گھنے درختوں سے خوف آتا تھا مگر سراقہ ان درختوں کی جانب چہرہ کیے گہری سوچ میں تھا۔ وہ ریلنگ پر سر ٹکاتی ہوئی ٹیرس کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ افسوس بڑھ رہا تھا اور دل ڈوب رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ صوفے سے ٹیک لگا کر چھت کو گھور رہا تھا۔ کمرہ خالی تھا۔ نجانے کن سوچوں میں گھرا ارد گرد سے غافل۔۔ اگر اس سے آج بھی دوبارہ فیصلہ لینے کو کہا جاتا تو وہی کرتا۔ اپنے ارادوں سے نہ پھرنے والا جہاندار! ٹیرس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ چند لمحے دروازے کو تک کر وہ اٹھ کر دروازے تک آیا۔
"اندر آجاؤ۔" لہجہ دھیما تھا۔
"گھٹن ہورہی ہے۔ یہاں ٹھیک ہوں۔" وہ اس سے ناراض نہیں تھی۔۔ اب تو شاید وہ کسی سے ناراض نہیں تھی۔ شاید خود سے ہی کچھ شکوے تھے۔
"جانان۔۔"
"میں واقعی بدھو ہوں۔" اسے سوچ سوچ کر رونا آرہا تھا۔
"بدھو؟" وہ الجھا۔
"سلیم ٹھیک کہتا تھا۔ میں بدھو ہوں۔۔ ہمیشہ غلط فیصلے لیتی ہوں۔" جہاندار اس کے نزدیک بڑھا۔
"تم بدھو نہیں ہو جانان۔" اس نے ابھی ہاتھ پکڑا ہی تھا کہ جانان نے ہاتھ چھڑایا۔
"آپ کے کہنے نہ کہنے سے کیا ہوتا ہے۔"
"سلیم تو تمہارا دوست ہے نا؟ پھر اس نے تمہیں ایسا کیوں کہا؟" شاید وہ بات کو بڑھانا چاہتا تھا۔ اس کا چہرہ تکنے لگا۔
"اس نے کہا اسے بدھو لوگ پسند ہیں اس لیے مجھ سے دوستی کر بیٹھا۔ پہلے پہل مجھے غصہ آتا تھا مگر اب رونا آتا ہے۔ میں واقعی ایک الجھے دماغ کی لڑکی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کب کیا فیصلہ لینا چاہئیے۔"
"چلو اگر ایسا ہے بھی تو میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔ تمہیں کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں لینے دوں گا۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اتنے وقت میں جانان نے پہلی بار اسے بغور دیکھا۔ مسکراہٹ اس پر اچھی لگتی تھی۔ دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ ان آنکھوں میں جو سیاہ تھیں۔
"میں نے آپ سے اتنا کچھ کہا۔۔ یہ بھی کہا کہ مجھے آپ سے محبت نہیں۔ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑا؟ کوئی تبدیلی نہیں آئی؟"
جہاندار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔
"تم بھلے مجھ سے نفرت کرو۔ میں تم سے ہمیشہ محبت کروں گا جانان۔ بس طلاق کی بات مت کرنا۔ نفرت کرو مگر ساتھ رہ کر۔۔ مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ۔"
ٹی شرٹ کی آستینوں سے نکلتے بھرے بھرے بازو اور ان پر ابھری لکیریں جانان کی نگاہوں کا مرکز تھیں۔
"اور ویسے بھی میں جانتا ہوں تمہیں مجھ سے نفرت نہیں۔ بھلا جس سے آپ کو نفرت ہو' آپ اسے خود کو چھونے کی بھی اجازت نہیں دیتے مگر تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں اور چہرہ مطمئن ہے۔" وہ پریقین تھا۔ جانان نے تیزی سے ہاتھ چھڑانا چاہا مگر جہاندار کی گرفت مضبوط تھی۔
"ہاتھ چھوڑیں۔" اس نے آنکھوں میں دیکھے بغیر ہاتھ چھڑانا چاہا۔
"نہیں۔۔ میرے پاس رہو اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رہو۔ قریب رہو گی تو دل کو اور بھی اچھی لگو گی۔" لہجہ شرارتی ہوگیا۔ جانان کے دل میں عجیب ہلچل سی مچنے لگی۔ وہ نگاہ بھی نہ ملا سکی۔
"ہم آگے کھڑے ہیں۔ آس پاس گھر بھی ہیں۔" وہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تو سب کو پتا ہونا چاہئیے کہ جہاندار اپنی بیوی لایا ہے۔"
جانان کی سانولی رنگت پرکشش تھی۔
اس نے خود کے بے پناہ مطمئن محسوس کیا۔
"میں بتا رہی ہوں اچھا نہیں ہوگا۔" جہاندار کا قد اس سے اتنا لمبا تھا کہ جانان کو سر اٹھا کر بات کرنی پڑ رہی تھی۔
"جانتی ہو چند دن پہلے میں نے ماہ کامل کو چھوٹی کہا تھا۔ میں واقعی اس کے قد کا مقابلہ خود سے کر رہا تھا۔ آج جب تم اتنی نزدیک کھڑی ہو تو سوچ رہا ہوں کہ یار میرے ساتھ کتنا برا ہوگیا۔ میری بیوی تو اس سے بھی چھوٹی ہے۔" کہتے ساتھ ہی اس کا قہقہہ چھوٹا۔
"میں چھوٹی ہوں؟ اسکول میں اپنی کلاس کی سب سے لمبی لڑکی تھی۔" اس چھوٹے قد کی بات پر تو وہ پچھلے سارے غم بھول گئی۔
"واقعی؟" وہ امپریس ہوا۔ "کیا وہاں بھی سب چھوٹے تھے؟" جس سنجیدگی سے اس نے جواب دیا تھا جانان نے اسے گہری نگاہوں سے گھورا۔
"آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں؟ پورے پانچ فٹ چار انچ ہوں میں۔۔ بس کچھ ہی انچز بڑے ہوں گے۔" یہ جانتے ہوئے بھی کہ جہاندار سے گفتگو کے لیے اسے سر اٹھانا پڑتا تھا' وہ پھر بھی اپنا دفاع کر رہی تھی۔
"میرا قد چھ فٹ کے نزدیک ہے۔" اس نے مسکراہٹ دبائی۔ جانان کو کوئی جواب ہی نہ سوجھا۔
"تو کچھ ہی انچز بڑے ہیں۔"
"کچھ ہی انچز؟" وہ قہقہہ لگاتا ہوا زور سے ہنسا۔
"آپ کو میری موجودگی سے فرق پڑنا چاہئیے۔۔ میرے قد سے نہیں۔۔" جانے بات کا رخ کہاں نکل آیا تھا۔ وہ نگاہیں خفگی سے پھیر گئی۔
"مجھے واقعی صرف تمہاری موجودگی سے غرض ہے جانِ جہاندار۔۔ اب اور کیا چاہئیے۔" اس کی ناک کی بالی پر خود کی نگاہیں ٹھہرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اگر حالات یہ نہ ہوتے تو وہ مسکرا دیتی۔ وہ اسے خود کے نزدیک کرتا ہوا ٹیرس سے باہر کی دنیا دیکھنے لگا۔ جانے کیوں وہ جہاندار کو خود سے دور نہ کر سکی۔ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے جھٹک نہ سکی۔ وہ اندر سے مرجاتی اگر ایسا کرتی۔ جانان ساتھ تھی۔۔ نزدیک تھی۔۔ پاس تھی اور اب کسی آس کی گنجائش نہیں تھی۔ اسے جو چاہئیے تھا۔۔ اسے حاصل تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کی آنکھ تاخیر سے کھلی تھی۔ بستر کی دوسری سائڈ خالی تھی۔ کیا وہ آفس کے لیے نکل چکا تھا؟ مگر اسے یاد تھا کہ وہ دس بجے آفس جایا کرتا تھا۔ نو بجتا دیکھ کر اس نے قضا نماز ادا کر کے نیچے کا رخ کیا۔ بالوں کو ہاتھوں کی انگلیوں سے ہی سمیٹتی ہوئی کیچر میں قید کرتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی۔ کچن سے آتی برتنوں کی آواز نے اسے جی بھر کر چونکایا۔ اس نے قدم بڑھائے۔ ابھی وہ کچن میں داخل ہی ہوتی کہ لوازمات سے بھری ٹرے تھامتا سراقہ اسی دم مڑتے ہوئے باہر نکلا تھا۔ وہ دونوں ٹکرا جاتے اگر ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھہر نہ جاتے۔ نگاہیں آپس میں ملیں اور دونوں ایک دوسرے کو یک ٹک تکنے لگے۔ رات کے بعد اب سامنا ہوا تھا۔ جانے وہ رات کمرے میں لوٹا تھا یا نہیں۔۔ ایپرن پہنے کالر والی شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک چڑھائے' بال بکھرے ہوئے اور وہ بھوری آنکھیں۔۔ ماہ کامل کو دل رکتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ پیچھے ہٹی اور سراقہ بغیر انتظار کیے میز کی جانب بڑھ گیا۔ اس کی اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ سراقہ کو مخاطب کرتی۔ اس کی نگاہوں سے خود کو اوجھل کرنے کے لیے وہ کچن میں آگئی۔ دل کہ دھڑکنیں اسے کانوں میں محسوس ہونے لگیں۔ چائے کی پتی کی نکالتے ہوئے اس نے ایک کپ پانی چڑھایا۔ ہاتھ غیر محسوس طریقے سے کپکپا رہے تھے۔ اسے اپنی بے حسی پر حیرانی ہوئی جس نے کل رات اس کی خبر بھی نہ لی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ اوپر آیا یا ساری رات لان میں ہی ٹھہرا رہا۔
"میں نے چائے کے لیے پتیلی چڑھائی ہے۔" اس کی عقب سے نمودار ہونے والی یکدم آواز پر وہ کچھ سہم سی گئی۔ وہ پیچھے کو ہٹی۔
سراقہ نے وہ سیاہ بڑا مگ نکالا جس میں وہ کافی پیا کرتا تھا۔ سیاہ مگ جس پر چند سفید دھاریوں کا دخل تھا۔
"تم نے کہا تھا کوئی باورچی آنے والا ہے؟ کل تو نہیں آیا۔" اس کا لہجہ بے حد عام سا تھا جیسے پچھلی رات سب کچھ ٹھیک رہا ہو۔
"پتا نہیں۔۔ آج کام والی آئے گی تو پوچھ لوں گی۔" اس نے چائے کی پتیلی میں دودھ الٹا۔
"ہوں۔ وہ چینی پاس کرنا۔"
ماہ کامل نے چینی کی شیشی اس کے آگے رکھی۔
"تم باہر میز پر جاؤ۔ میں یہ سب تیار کر کے لا رہا ہوں۔" اس نے اس پتیلی کا ہینڈل پکڑا اور چائے کی آنچ تیز کی۔
"مگر مجھے مدد کرنی ہے۔"
"میں کرلوں گا ماہی۔"
اس کا یوں ماہی کہنا ماہ کامل کے دل میں اطمینان کی لہر دوڑا گیا۔ آج پہلی بار وہ اس نام سے مطمئن ہوئی۔
"لائیں میں کافی بنادوں۔" وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ تیزی سے مگ کی جناب بڑھی جب سراقہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔
"ماہی۔ باہر جاؤ اور میرا انتظار کرو۔" چہرہ سنجیدہ تھا۔ وہ اسے اپنی جھجک مٹاتا نوٹ کر چکا تھا۔ اسے کے جانے کے بعد دوسری ٹرے تیار کر کے وہ باہر آیا تھا۔ ماحول میں قدرے خاموشی تھی البتہ موسم میں تبدیلی آرہی تھی۔ ٹھنڈی تیز ہواؤں کا پہرا تھا۔ سورج بادلوں میں چھپا تھا شاید اب سب بادلوں کا رقص دیکھنا چاہتے تھے۔
جہاں یہ موسم بھلا تھا وہیں ماہی کے دل کا حال کچھ مختلف۔۔ اوندھا منہ میز پر رکھ کر آنکھیں موندی ہوئی تھی۔ جس وقت سراقہ نے اس کے آگے ٹرے رکھی' اس نے چہرہ تیزی سے اٹھایا۔ وہ کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ کافی کا گھونٹ بھر کر اس نے اندر تک ایک سکون کی لہر اترتی محسوس کی۔
"ناشتہ کرو۔" اس نے دھیرے سے کہتے ہوئے اپنے پراٹھے کا لقمہ توڑا۔ ماہ کامل نے اپنے سامنے پراٹھے، بوائل انڈے اور چائے کے مگ کو دیکھا۔ وہ اس کے لیے یہ سب بنا سجا کر لایا تھا۔ اسے لگا آنکھیں نم ہوجائیں گی۔۔ کیا وہ تکلیف محسوس نہیں کرتا تھا؟ اس کی ہر بے رخی کے بدلے میں وہ محبت دیتا تھا اور یہ باتیں ماہ کامل کا دل بوجھل کر رہی تھیں۔
"آپ آفس نہیں گئے؟"
"دس بجنے میں وقت ہے۔ ویسے بھی میں نے سوچا ہے تھوڑا تاخیر سے جاؤں۔"
اس نے مرے مرے ہاتھوں سے پراٹھے کا لقمہ توڑا۔ دل بوجھل تھا اور طبیعت نڈھال ہورہی تھی۔
"کیا ہوا؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟" اس نے اس ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جیسے کپکپاہٹ محسوس کرنا چاہتا ہو۔ ماہ کامل کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
"ٹھیک ہوں۔" آواز بھرا گئی۔
سراقہ کی نگاہ البتہ اس کی نم آنکھوں پر ٹھہر گئی۔
"آئم سوری۔۔" اس کا یوں کہنا اچانک تھا۔ ماہ کامل کے آنسو رخسار پر بہنے لگے۔ یہ الفاظ مزید تکلیف دے گئے۔ "تم رو مت۔ میں جانتا ہوں میں نے تمہارا دل دکھایا ہے۔" اور وہ سوچتی ہی رہ گئی کہ سراقہ نے اس کا دل کب دکھایا۔
"آپ ایسے کیوں ہیں سراقہ۔۔" ہاتھ نڈھال تھے۔ اسے لگا وہ اپنے ہاتھوں کو کبھی محسوس نہیں کر پائے گی۔
"کیسا؟" وہ ناشتے سے ہاتھ پہلے ہی کھینچ چکا تھا۔
"میرے لیے مشکل کھڑی کرنے والے۔۔ آپ کی باتیں۔۔ آپ کا لہجہ میرے پاؤں پر زنجیر باندھ رہا ہے۔ مجھے روک رہا ہے۔۔ کہیں بھی جانے سے۔۔" پہلی بار وہ اس کے سامنے اتنا کمزور پڑ گئی تھی کہ اپنی کیفیت سنا بیٹھی۔
وہ اس کے تل کو تکنے لگا جس کی خوبصورتی اپنی جانب کھینچتی تھی۔
"میرا پورا وجود زنجیروں کی زد میں ہے مگر پھر بھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ تم سے اس کا حساب لوں۔" وہ اس کے بعد نگاہیں نہ ملا سکا۔ "جب ایک چہرے کو دیکھنے کی عادت ہوجائے تو اس کے اوجھل ہو جانے سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اپنی تمام مصروفیت پس پشت رکھ کر جی چاہتا ہے کہ بس نگاہیں اس پر ہی ٹھہری رہیں۔ سننے میں کتنا ڈراؤنا لگتا ہے نا؟" وہ آخر میں ذرا سا مسکرایا۔
اس کا کہنا ہی کافی تھا۔ ماہ کامل نے خود کو اس کی محبت کی قید میں جکڑا ہوا محسوس کیا۔ اب تو یقین ہوچلا تھا جیسے کہ محبت بازی لے جائے گی۔ وہ بھول جائے گی کہ راستے علیحدہ ہیں۔
"میں نے آپ کا دل دکھایا۔ آپ نے میرے لیے ناشتہ کیوں بنایا؟" یہ سوال عجیب تھا۔ دو الگ باتوں کو ساتھ میں جوڑ رہی تھی۔
"تم کو معافی ہے۔ چار بار دل دکھاؤ یا چار ہزار بار۔۔ تمہیں ہی تو اجازت ہے ماہی۔ مجھے غرض صرف تم سے ہے۔ ویسے بھی میں یوں جھگڑتا نہیں۔۔ میری عادت نہیں ہے۔ پہلے سوچتا تھا کہ جو آپ کے پاس ٹھہرنا نہ چاہتے ہوں انہیں جانے دینا چاہئیے کیونکہ انہیں روک کر سوائے تکلیف کے کچھ نہیں بچتا۔۔ مگر اب خود پر آئی تو سوچتا ہوں کسی طرح روک لوں گا۔ ایک انسان دوسرے انسان کا عادی ہو جائے تو کتنا دشوار ہوجاتا ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے!" جانے دل میں کتنا غبار تھا جو وہ مسکراتے ہوئے نکال رہا تھا۔
ماہ کامل سن ہوتے ہوئے اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"کافی ٹھنڈی ہورہی ہے۔" اس نے آنکھوں کو رگڑا۔
"اور تمہاری چائے بھی۔۔" وہ جواباً مسکرا دیا۔ ماہ کامل نے چائے کا مگ لبوں سے لگا لیا۔ آنسو رک چکے تھے مگر آنکھوں میں سرخی ٹھہر گئی تھی۔
"اب ہم نہیں لڑیں گے۔" اس نے جیسے معاہدہ کرنا چاہا۔ وہ چونک اٹھا۔
"اگر ہم لڑیں گے نہیں تو پھر کیا کریں گے؟" اس کے یوں حیرت زدہ تاثرات پر وہ بغور اسے تکنے لگی۔
"ہم کبھی اس سے پہلے لڑے ہیں؟ بس ہم ایک دوسرے سے اچھے سے بات کریں گے۔" انڈے کو پراٹھے میں لپیٹ کر ا س نے منہ میں ڈالا۔
"اچھے سے بات کرنا کسے کہتے ہیں محترمہ؟" وہ ہنس دیا۔ "سوچ لو۔۔ ایسا نہ ہو باتوں میں محبت کا ذکر چھڑ جائے۔"
"نہیں چھڑے گا۔ مجھے آپ نہیں پسند۔"
"لکھاری سب سے زیادہ اپنے قاری کو پسند کرتا ہے۔ کیونکہ لکھاری جانتا ہے کہ اسے پڑھنے والا بھی وہی شخص ہے۔۔ وہ اپنے چاہنے والوں کو ناپسند نہیں کر سکتا اور اس لیے تم مجھے نا پسند نہیں کرسکتی۔ میں تمہارا اکلوتا ریڈر ہوں جو تمہیں پورے اشتیاق سے پڑھتا ہے۔" اسے جیسے یقین تھا۔ البتہ ماہ کامل اسے گھور رہی تھی۔ اس کا یوں گھورنا سراقہ کی بنھویں اچکا گیا۔
"آپ اب بھی میری ڈائری پڑھتے ہیں؟"
وہ گڑبڑا سا گیا۔
"آخری بار تب پڑھی تھی جب ہم حویلی میں تھے۔ باخدا اس کے بعد سے تمہاری ڈائری چھوئی بھی نہیں۔۔"
"پڑھئیے گا بھی نہیں۔۔ کیونکہ حویلی کے آنے کے بعد سے میرے لکھنے کا انداز تھوڑا بدل گیا ہے۔ اب میں اپنے شوہر کی برائی بھی کرنے لگی ہوں۔" اس کا انداز اسے ہنسا گیا۔
"تم میرے بارے میں غلط بھی لکھو گی تو بھی پڑھوں گا۔" اس نے دونوں بازو میز پر رکھ لیے اور آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ اس کی باتیں۔۔ وہ نگاہیں جھکا گئی۔
"کہنے اور سہنے میں فرق ہوتا ہے سراقہ صاحب۔ ابھی آپ کہہ رہے ہیں۔۔ کیونکہ کہنا آسان ہے۔ سہنا مشکل ہے۔" آواز دھیمی تھی۔ وہ مسکرا دیا جیسے کافی عرصے بعد مسکرایا ہو۔
"سہنا واقعی مشکل ہے۔۔ جیسے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم مجھے ایک دن چھوڑ کر جانے والی ہو' میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں، مسکرا رہا ہوں، اور تم سے باتیں کر رہا ہوں۔" اس کی ناک کو چھوتے ہوئے وہ دوبارہ ناشتے میں مگن ہوگیا۔ ایک بار پھر ماہ کامل ٹھہر سی گئی۔ اس کی باتوں میں وزن تھا۔ گہری سانس اندر لیتے ہوئے اس نے ناشتہ ختم کیا۔ وہ خالی برتن سمیٹ کر اٹھنے لگی جب سراقہ نے کلائی پکڑی۔
"میری بنائی گئی چائے کی تعریف کون کرے گا؟" صاف محسوس ہو رہا تھا کہ مسکراہٹ دبائی ہوئی ہے۔
"بہت میٹھی تھی۔" اس نے بھی بدلہ پورا کیا۔ وہ ہنس دیا۔۔ بلکل ویسے ہی جیسے وہ ہمیشہ ماہ کی باتوں پر ہنس دیا کرتا تھا۔ "اور ذائقہ بھی نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا میٹھا پانی پی رہی ہوں۔" ہاتھ چھڑاتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گئی۔ وہ قہقہہ لگاتا رہ گیا۔
"تم بیوی ہونے کا فائدہ اٹھاتی ہو۔"
"پوری خوشی سے۔۔" مسکراتے ہوئے بولتی ہوئی وہ برتن سنک میں رکھنے لگی۔ لب دھیرے سے معدوم ہوگئے۔۔ جانے کسی خوف سے وہ دوبارہ نہیں مسکرا سکی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ اس کے سونے بعد کمرے میں آیا تھا۔ تاخیر سے سونے کی وجہ سے آنکھ کا جلدی کھلنا بھی مشکل ہی تھا۔ بھلا جہاندار کو اٹھانا بھی آسان تھا؟ وہ اس سے پہلے ہی اٹھ گئی تھی اور اب حلیہ درست کر رہی تھی۔ بالوں کو سلجھاتے ہوئے اس نے ڈھیلی سی پونی بنالی۔ ایک نظر اس کے سوتے وجود پر نگاہ ڈال کر وہ باہر نکلی ہی تھی جب سراقہ زینے چڑھتا ہوا ملا۔
"کیسی ہو جانان۔" اس کا لہجہ ہمیشہ کی طرح شریر تھا۔
"بہت بری۔" خفگی تو اب بھی تھی۔ وہ مسکرا دیا۔
"ہمارے ساتھ رہو گی تو اچھی بھی ہو جاؤ گی۔ ابھی بس اپنے شوہر کو اٹھادو۔ آج اس کی خاص میٹنگ ہے اور اس کے لیے اسے جلدی پہنچنا ہے۔" وہ شاید اپنے کمرے میں آفس کے لیے تیار ہونے جا رہا تھا۔
جانان جہاندار کو خود سے مخاطب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کاش وہ سراقہ کو منع کر پاتی۔ وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکا تھا۔
یکدم ہی جہاندار کا الارم بجنے لگا۔ اس کا دل قدرے مطمئن ہوا کہ اب اسے نہیں اٹھانا پڑے گا مگر یہ کیا۔۔ وہ تو تکیہ سر کے اوپر رکھ کر اوندھا سو گیا تھا۔
"جہاندار۔۔" اس نے پکارا۔
"ہوں۔۔" گھمبیر بھاری آواز آئی۔
"سراقہ بھائی نے آپ کو اٹھانے کے لیے کہا ہے۔" اس نے جان کر خود کو وہاں رکھے گلدان کے آرٹیفشل پھولوں میں الجھا لیا۔
"یہ آدمی مجھے آج بھی نہیں بخشے گا۔" اس نے دانت پیستے ہوئے دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یکدم ہی سراقہ نمودار ہوا۔
"جہاندار۔" وہ چیخا تو کسی ڈر سے جہاندار نے تیزی سے اس کی جانب کروٹ لی۔ اس کی تیز آواز پر تو جانان بھی سہم گئی تھی۔
"تم بھول رہے ہو اب میں شادی شدہ ہوں' بیوی والا ہوں۔" اس نے آنکھیں دکھائیں۔
"تم ساڑھے پانچ سال سے بیوی والے ہو مگر غیر ذمہ دار بچپن سے ہو۔ ذمہ دار بننے کا پہلا اصول وقت کی پابندی ہے جہاندار۔ ایک گھنٹے میں میٹنگ ہے اور تمہاری دو نمبر پریزنٹیشن سننے کے لیے میں اپنے ڈپارٹمنٹ کے ایمپلائز کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔"
"معذرت مگر میرے ڈپارٹمنٹ کے ایمپلائز بھی تمہاری پریزنٹیشن دل سے سنتے ہیں۔ تمہیں ان کے باس کی پریزنٹیشن کو دو نمبر نہیں کہنا چاہئیے۔" وہ اب انگلی اٹھا کر وارن کر رہا تھا۔
"میری کی گئی اسپیچ پریزنٹیشن کہنے کے لائق جو ہوتی ہے۔" وہ جلادینے والی مسکراہٹ لبوں پر لاتا ہوا باہر نکل گیا۔ آفس کی باتیں تو جانان کے سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ وہ بس حیران کن نگاہوں سے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ جہاندار نے مٹھیاں بھینچ کر خیالوں میں سراقہ کی ناک پر دو مکے مارے۔ آنکھیں موند کر خود کو پرسکون کرتا ہوا وہ دوبارہ نیند میں جانے لگا۔ آدھی نیند تو سراقہ اڑا ہی چکا تھا۔
"آپ پھر سو رہے ہیں؟" جانان نے اسے جگانا چاہا۔
"تم کیا سراقہ کی بچھڑی ہوئی بہن ہو جانِ جاناں؟" یہی تو بات تھی کہ وہ اس کی باتوں پر کبھی غصہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ لہجہ خود ہی میٹھا ہوجاتا۔
"باتیں بعد میں کریں۔۔ آفس جائیں۔" وہ رخ موڑ کر دوبارہ انگلیاں پھولوں پر پھیرنے لگی۔ جہاندار بھی بنا بولے اسے پھولوں کے ساتھ حرکت کرتا دیکھتا رہا۔ شاید اسے بستر پر بے وجہ لیٹے رہنا پسند تھا۔ آنکھیں کھلنے کے باوجود بھی وہ بستر سے نہ اٹھا۔ بس اسے تکتا رہا۔ ایک بازو سر کے نیچے رکھ اس نے ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ جمالی۔
اس کے بال بنے ہوئے تھے اور وہ کپڑے بھی تبدیل کر چکی تھی۔ اب سیاہ رنگ کا سوٹ تھا جس پر سیاہ اور سفید رنگ کا کام تھا۔ ناک کی لانگ چمک رہی تھی۔
وہ پانچ منٹ تک گلاب کے پھولوں میں چھیڑ چھاڑ کرتی اور وہ پانچ منٹ تک اسے دیکھتا رہا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے الماری سے وہ خط نکال کر انہیں ہاتھوں میں محسوس کیا۔ ان کا رنگ دب رہا تھا۔ اتنے سالوں کے بعد اب وہ کچھ بھورے ہوگئے تھے۔ یکدم ہی انہیں کھول کر پڑھنے کی چاہ ہوئی تو سراقہ نے کمرے میں قدم رکھا۔
وہ خط اس نے دوبارہ اپنے کپڑوں کے نیچے رکھ دیے۔ اب وہ سراقہ کے آفس جانے کا انتظار کرنا چاہتی تھی۔ جانے ان خطوں میں کیا ہی بات تھی کہ ماہ کامل کو انہیں کھولنے سے پہلے ایک عجیب وحشت ہورہی تھی۔ وہ خود کو مصروف رکھنے کے لیے بستر کی چادر ٹھیک کرنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"پچھلے دس منٹ سے آپ بستر پر ہی کروٹیں بدل رہے ہیں۔ آپ کو جانا نہیں ہے کیا؟" اس نے کچھ رعب جمانے کی کوشش کی۔
"مجھے Clinomania ہے۔"
جہاندار نے اب کی بار دونوں بازو سر کے نیچے رکھ کر تسلی سے اس کے تاثرات جانچے۔ وہ پل بھر میں بدل کر تشویش ناک ہوئے تھے۔
"یی۔یہ کیا ہے؟" سننے میں تو کوئی بیماری لگتی تھی۔ وہ گھبرا سی گئی۔
"اب چونکہ میں نے تمہیں بیوی مان کر بتایا ہے تو تمہیں میرا خیال رکھنا چاہئیے۔" بالآخر وہ اٹھ کر بیٹھ ہی گیا۔
"مگر یہ کیا ہے؟ اس میں کیا ہوتا ہے؟" پریشانی بڑھ رہی تھی۔
"تمہیں میری فکر ہورہی ہے؟" لہجہ شریر ہوا۔
"جہاندار میری جان حلق میں آئی ہوئی ہے اور آپ کو مذاق سوج رہا ہے؟ میں خود موبائل پر دیکھ لیتی ہوں!" اسے گھورتے ہوئے اس نے جہاندار موبائل اٹھایا۔
"محترمہ آپ کو کس نے اجازت دی کہ میرا موبائل اٹھائیں؟" جانان کے چہرے پر آئی لٹ کو نرمی سے کھینچ کر وہ کھڑا ہوگیا۔ اس سے قبل کہ وہ جلدی سے انٹرنیٹ پر اس لفظ کے معنی پڑھتی' جہاندار اپنے کپڑے نکالتا ہوا تیزی سے واش روم میں گھس گیا۔
اس نے کلینومینیا کو گوگل پر ڈھونڈا اور جو آیا اسے دیکھ کر وہ دانت پیس گئی۔ وہ جانتی تھی اس نے اسے جان کر ایسا کہا۔ البتہ بستر پر دیر دیر تک پڑے رہنا اس کی عادت تھی۔
"آپ کو پچھلے تیس سالوں سے کلینومینیا ہے پھر تو۔۔" موبائل بستر پر پھینکتے ہوئے اس نے باہر کا رخ کیا۔ یہ شخص اس کے دس منٹ ضائع کر چکا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"خیریت؟ آج تم آدھا گھنٹہ لیٹ آئی ہو نازلی۔" ماہ کامل نے صوفے کے کشن درست کیے۔
"ارے باجی اس کاہل لڑکے کو اٹھانے کے لیے الگ سے آدھا گھنٹہ چاہئیے ہوتا ہے۔" اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا جو پوری بتیسی دکھائے ماہ کامل کو دیکھ رہا تھا۔ بریڈ پر مکھن لگاتا جہاندار اس لڑکے کو دیکھ کر دبا دبا سا ہنس دیا۔ اس کی ہنسی جانان نے خوب سنی تھی۔
"بھلا کیوں؟"
"سوتا ہے تو پھر اٹھانا دشوار ہوجاتا ہے۔ بار بار سر پر کھڑے ہو کر جب تک ڈھول نہ بجاؤ' آنکھیں کھلتی ہی نہیں۔۔ اور آنکھیں کھل بھی جائیں تو بستر چھوڑتا نہیں۔ جب ہی میں کل نہیں لا سکی تھی۔ آج لے آئی ہوں۔ آپ اس سے جو پوچھنا چاہیں پوچھ سکتی ہیں۔" اس نے تو گویا اپنی جان چھڑائی۔
"لگتا ہے تمہارے بھائی کو بھی کلینومینیا ہے۔" جانان کا یوں کہنا جہاندار کے حلق میں بریڈ کا ٹکڑا پھنسا گیا۔ وہ زور سے کھانستا ہوا پانی منہ میں انڈیلنے لگا۔ ماہ کامل نے حیرانی سے جانان کو دیکھا۔
"کیا کہا باجی؟ نمونیا؟" نازلی نے ڈوپٹے کا کونہ پریشانی میں منہ پر رکھ لیا۔ سراقہ نے ہنسی دبانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ صوفے پر بیٹھا نیچے کی جانب جھکے جوتے پہن رہا تھا۔
"ارے نمونیا نہیں نازلی! کلینومینیا۔۔ میرے شوہر کو بھی یہی ہے۔" اس نے ترچھی نگاہوں سے جہاندار کو دیکھا جو اب بے جا شرمندہ ہورہا تھا۔ سراقہ کا دل چاہا قہقہہ لگائے البتہ ماہ کامل اس کا چہرہ حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس لفظ سے بے خبر تھی۔
"سننے میں تو بہت خطرناک بیماری لگتی ہے چھوٹی باجی۔" اس نے جانان کو نیا نیا نام دیا۔
"کیا کر رہی ہو یار۔۔ یہ بات ہمارے درمیان کی ہے۔" اس نے جیسے جانان سے گزارش کی۔ وہ چودہ سال کا لڑکا سب کی باتوں پر مسکرا رہا تھا۔
"یہ کلینومینیا ہے کیا چیز؟"
"Obsession of sleeping. An extreme desire to stay in bed."
اس نے ابھی بتایا ہی تھا کہ سراقہ کا قہقہہ بلند ہوا۔
"ہم تو پچھلے تیس سال سے اس کی یہ عادت برداشت کر رہے ہیں۔ ویسے یہ نام بڑا اچھا ہے۔ اب جہاندار کو اس نام سے بلانے میں مزہ آئے گا۔" جہاندار نے بیوی کو دیکھا۔ جانان کو لگا تھا وہ شرمندہ ہوگا مگر نہیں۔۔ وہ ڈھٹائی سے مسکرا رہا تھا۔ اس کی پرکشش مسکراہٹ پر اسے بے اختیار پیار آیا۔ پورا تو نہیں مگر آدھا کلینومینیک!
"My handsome clinomaniac husband."
وہ اسے چڑانے کے لیے بولی مگر وہ جانان کے یوں ہینڈسم کہنے پر عش عش کر اٹھا تھا۔
اسے جانان کا یوں کلینومینیک بولنا بلکل تنگ نہ کیا۔
"پھر پتا چلا کہ کیا مطلب ہے اس کلینیومونیا کا؟" نازلی کی آواز پر خاموشی سی چھائی اور سب ہنس دیے۔ جانان نے اسے اردو میں سمجھایا اور بولنے کا طریقہ بھی بتایا۔
"تو پھر کیا نام ہے تمہارا؟" ماہ کامل نے اس پیارے سے بچے سے پوچھا جس کے بال گہرے بھورے رنگ کے تھے۔
"میرا نام ٹیپو خان ہے اور میں روٹی جلی ہوئی بناتا ہوں۔" اس کا بھی اپنا انداز تھا۔
"واہ کیا تعارف ہے۔" جہاندار نے ناشتے کی خالی پلیٹیں سمیٹیں۔
"اور کیا کیا بنا لیتے ہو؟" ماہ کامل نے مسکراہٹ دبائی۔ اس کی باتیں اچھی لگ رہی تھیں۔
"میں تو نہیں البتہ یہ نازلی منہ اچھا بنا لیتی ہے۔ میں تو صرف جلاتا ہوں۔ چاہے وہ کھانا ہو، چائے ہو یا انسان۔" اس نے کندھے اچکائے۔ ماہ کامل کو اس پر پیار آیا۔ اس کی باتیں میٹھی معلوم ہونے لگیں۔
"کیا تم واقعی اس لڑکے کو ہمارے کچن کے لیے رکھنا چاہتی ہو؟" سراقہ نے الجھتے ہوئے آئبرو اچکائی۔ نازلی نے ہاتھوں کے ناخن منہ میں لے لیے۔ "یہ جہاندار سے بھی برا کھانا بنائے گا۔"
"میں نے اسے رکھ لیا ہے سراقہ۔۔" وہ مسکرائی تو جہاندار بھی نفی میں سر ہلاتا ہوا مسکرا دیا۔
"ارے واہ!" نازلی خوشی سے چہکی۔
"ارے نہیں۔۔" ٹیپو نے افسوس کیا۔ "مگر کیوں؟"
"کیونکہ مجھے یہ چھوٹا لڑکا پسند آگیا ہے۔" وہ کچن کو مڑ گئی تو نازلی بھی کام پر لگ گئی۔ جہاندار اور سراقہ آفس کے لیے نکل چکے تھے۔
جانان نے کچھ نہ ہوتے ہوئے کمرے کی راہ لی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کتنی پتی ڈالوں؟" اس کا چہرہ بیزار تھا۔ ماہ کامل نے مڑ کر اسے دیکھا۔
"تم نے کہا تھا تمہیں چائے بنانی آتی ہے۔" وہ کچھ حیران ہوئی۔
"میں نے کہا تھا مجھے جلی ہوئی چائے بنانی آتی ہے۔" اس نے کندھے اچکائے۔ اپنی بات کا تھا!
"دو چمچ چینی ڈالو۔" اس نے کیبنٹ سے چینی کی شیشی نکالی۔
"اب اس میں ہی تین چمچ چینی ڈال دینا۔"
"ٹھیک ہے ایم کے!" اس کے جملے پر وہ تیزی سے پلٹی۔ "جی؟" وہ چونکا۔
"تم نے مجھے کیا کہا؟" وہ حیران ہوئی۔
"ایم کے۔۔ ماہ کامل!"
اس کا یوں کہنا واقعی ماہ کامل کو امپریس کر گیا۔
تیز دماغ لڑکا تھا۔
"کتنا پڑھے ہو؟"
"پوری آٹھ جماعتیں! ہلکی پھلکی انگریزی بھی جان لیتا ہوں۔"
وہ مسکرا دیا۔ اس کا معصوم چہرہ چمک رہا تھا۔ قد میں اس سے کچھ ہی چھوٹا تھا۔
"شوق ہے پڑھنے کا؟"
"ہاں مگر کبھی مجبوریاں خواہشوں کو آگ لگادیتی ہے۔" لہجہ اطمینان بھرا تھا۔ وہ ساکت رہ گئی۔ اس کی باتیں۔۔ اپنی باتوں سے چودہ نہیں چوبیس سال کا معلوم ہوتا تھا۔ معصوم چہرہ اور عقلمند باتیں۔۔
"کہاں سے سیکھیں یہ باتیں؟" اسے تجسس ہوا۔
"میں کیوں کسی کا جملہ چراؤں گا ایم کے؟" وہ ہنس دیا۔ "میں ویسے کتابیں بھی پڑھتا ہوں۔ مجھے شوق ہے۔"
"کون سی کتابیں؟"
" ہر دو ہفتے بعد اردو بازار سے پرانی کتابیں لاتا ہوں۔ کہانیاں، تبصرے، افسانے۔۔ جو اچھے لگیں لے لیتا ہوں۔" بھلا وہ کہیں سے نازلی کا بھائی لگتا تھا؟ اس کی باتیں کتنی مختلف تھیں۔۔ اس کا لہجہ کتنا خوبصورت تھا۔ وہ اس کے بارے میں کچھ سوچ کر مسکرا دی۔ شاید اس چھوٹے لڑکے کے ساتھ ایک بہترین وقت گزرنے والا تھا۔
"آج رات کے کھانے میں سبزی بنانے کا سوچ رہی ہوں۔ ویسے تمہیں سبزیوں میں سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟" اس نے کہتے ہوئے فریج کھول کر سبزیاں چیک کرنی چاہیں۔
"میں سب کچھ کھا لیتا ہوں۔" اس نے چائے کے تین مگ تیار کیے۔ ٹرے میں انہیں رکھتا ہوا باہر نکل گیا تو ماہ کامل بھی باہر ہو لی۔
"نازلی تم جانان کو بلا لاؤ اور یہاں بیٹھ کر چائے پی لو۔" اس کی آواز پر وہ کام چھوڑتی ہوئی جانان کے کمرے میں بڑھی۔ اس نے دو کپ چائے اپنے اور جانان کے لیے بنوائی تھی جبکہ تیسری چائے نازلی کے لیے۔
"کتنی چینی ڈالوں؟" ٹیپو نے نیچے والی میز پر ٹرے رکھتے ہوئے پوچھا۔
"صرف ایک چمچ۔۔ جانان کے مگ میں بھی اتنی ہی ڈالنا۔ نازلی اپنے لیے چینی خود ڈال لے گی۔" اس کی بات کو سنتا ہوا وہ جانان اور ماہ کامل کی چائے تیار کر کے ٹرے سے باہر رکھنے لگا۔ البتہ نازلی کے مگ میں دو چمچ چینی ڈال کر اس نے خوب ہلائی تھی۔ وہ اس کی حرکت کو نوٹ کرتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
ٹیپو نے مگ اٹھایا اور لبوں سے لگا لیا۔ وہ مسکرا دی۔
"تمہیں چائے پینی تھی تو اپنے لیے بھی بنا لیتے۔"
"ہاں مجھے پینی تھی مگر نازلی کی۔۔" اس نے شریر لہجے میں بتایا۔ شاید اب وہ نازلی کو تنگ کرنا چاہتا تھا۔
"میں بلا آئی ہوں انہیں۔" نازلی ماہ کامل کے اشارے پر صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے پیچھے ہی جانان داخل ہوئی۔ پہلے سے بہتر۔۔ شاید مزید بہتر ہونے کی چاہ میں اس کے پاس آگئی۔ اپنی چائے کا مگ تھامتے ہوئے وہ ماہ کامل کے نزدیک بیٹھ گئی۔
"ہائے ہائے تو پھر میری چائے پی رہا ہے؟" نازلی نے غصہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے چائے کا مگ پکڑا۔
"پورے شوق سے۔۔" ٹیپو نے اسے زبان چڑائی۔
"آئے ہوئے ہائے۔۔" اس نے گھونٹ بھرتے ہی کڑوا سا منہ بنایا۔ "اتنی میٹھی۔۔ تو نے پھر اس میں زیادہ چینی ملائی نا تاکہ میں نہ پی سکوں؟" اس نے دانت پیس لیے۔ ٹیپو سر جھکا کر ہنسنے لگا۔ "اب لے یہ۔۔ تو ہی پی لے!" اس نے مگ ٹیپو کے آگے ہی رکھ دیا۔ جانان اور ماہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ٹیپو کو دیکھنے لگے۔
"نازلی تم چائے بنا لو۔ سامان کچن میں ہی رکھا ہے۔ ٹیپو کو یہ چائے پینے دو۔"
"چہرے سے تو کتنا بھولا لگتا ہے یہ ٹیپو۔" جانان اتنے وقت بعد مسکرائی۔
"بھولا؟ مجھے تو انسان بھی نہیں لگتا۔" اس نے دھپ سے کمر پر لگایا اور کچن میں چلی گئی۔
موسم میں مٹی خوشبو پھیل رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے بارش کی آمد آمد ہو۔ سورج بادلوں میں چھپا تھا۔ لاؤنج کے کھلے دروازے سے اندر آتی ٹھنڈی ہوا بہت سکون دینے لگی۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے جانان سے پوچھا۔
"جانان۔"
"اچھا۔۔" وہ کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ "اور آپ کے شوہر کا نام؟"
"جہاندار۔۔" جانان نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
"جے جے۔۔ آپ کے لیے جے جے نام کافی اچھا رہے گا۔" ٹھنڈی ہوتی چائے کو حلق میں انڈیلتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"جے جے؟" اس کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔ "نہیں یہ بلکل اچھا نام نہیں۔۔ تم مجھے اس سے نہیں بلاؤ گے۔"
"جیسا تم کہو جے جے۔" اس نے ٹرے اٹھاتے ہوئے تابعداری سے کہا اور چلتا بنا۔ ماہ کامل کو لگا وہ خود پر قابو نہیں رکھ پائے گئی' ہنستی چلی گئی۔
"تمہیں ہنسی آرہی ہے؟" اس نے ماہ کو گھورا۔
"ارے میری پیاری جانان! یہ نام اتنا برا نہیں۔ جے جے سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے۔"
"بلکل بھی نہیں اچھا لگتا ماہ!"
"اچھا چھوڑو ان باتوں کو۔۔ تم بور ہو رہی ہوگی۔ میں تمہیں گھر دکھاتی ہوں۔" اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ دھیرے سے اٹھی تاکہ کہیں چائے نہ چھلک جائے۔
"ماہ!" اس کی آواز دھیمی تھی۔ بازو ماہ کامل کے ہاتھ میں تھا۔
"ہاں۔"
"کیا حویلی سے کوئی فون نہیں آیا؟" ایک ڈر کی سی کیفیت تھی۔
"نہیں۔۔" اس نے بات پر غور کیا تو واقعی حیران ہوئی۔ کل سے کوئی نہ فون کال تھی اور نہ کوئی پیغام!
"کوئی میسج بھی نہیں؟ میں وہاں کے حالات جاننا چاہتی ہوں۔ موبائل جہاندار کے پاس ہے۔ میں جانتی ہوں وہ مجھے اس لیے نہیں دیں گے تاکہ میں حویلی کی کوئی کال ریسیو نہ کروں۔" گھبراہٹ پھر سے اپنا اثر دکھانے لگی۔
"میں سلیم سے بات کروں گی۔ وہ مجھ سے کبھی باتیں نہیں چھپائے گا۔۔ اور ویسے بھی آنے والے جمعے کو سراقہ مجھے بدر عالم سے ملوانے حویلی لے کر جانے والے ہیں۔" اس نے تسلی دینی چاہی۔ وہ کچھ مطمئن ہوئی تو ماہ کامل کو سکون حاصل ہوا۔ کم از کم وہ اب پریشان نہیں تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"خود پر قابو رکھو شہاب!" دادا اکبر کی دھاڑ نے سب کو سن کردیا۔ وہ کھانسنے لگے۔ احب نے تیزی سے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور ان کے آگے پیش کیا۔
شہاب چچا کو چپکی لگی۔
شاداب البتہ اٹھ گئے۔
"میں ذرا اپنے بیٹے کو دیکھ کر آؤں۔" وہ یہاں مزید بیٹھ اپنا دل نہیں جلا سکتے تھے۔
"اوہ جی شاداب کا بیٹا۔۔" دادا اکبر کا طنزیہ لہجہ ان کو چھبنے لگا۔
"ابا میاں۔۔" وہ پلٹ کر ابا میاں کو حیرت سے تکنے لگے۔
"آج کل بڑی اولاد کی یاد آرہی ہے اسے تو! لگتا ہے پچھتاوا ہورہا ہے اپنے ماضی پر! ہونا بھی چاہئیے۔ بچوں کو تنہا چھوڑ کر چلے آنا والا مرد ایسا ہی ہونا چاہئیے۔" جانے بات شہاب سے اب شاداب پر کیوں آگئی تھی۔ بڑھتے دنوں کے ساتھ اکبر دادا مسلسل شاداب پر طنز کے تیر چلا رہے تھے۔
"آپ بھول رہے ہیں ابا میاں کہ مجھے گاؤں آپ نے بلوایا تھا۔ آپ جانتے ہیں آپ نے ہی مجھے دھمکی دی تھی کہ۔۔" جذبات کی رو میں بہتے ہوئے وہ تیزی سے آگے بولتے بولتے ٹھہرے۔
"آگے بھی بولو۔۔" لہجے میں کڑواہٹ واضح تھی۔
"کیا بولوں ابا میاں۔ میرا دل آپ کی بے پناہ عزت کرتا ہے۔" وہ باہر نکل گئے۔ جتنا ٹھہرتے اتنی بات بڑھتی۔
"اور ہاں تم شہاب میاں! اپنی بیٹی کے نام کا شور مچانا اب بند کرو۔ جب ہم بولیں گے تب تم شہر جاؤ گے۔ بھول رہے ہو کہ ہم اگر یونہی جانان کو اٹھا لائے تو زمین تو چلی ہی جائے گی مکمل! ہم آخری موقع دیتے ہیں بڑے بھائی صاحب کو کہ وہ اپنا ارادہ بدل کر ہماری زمین ہمیں دے دیں۔" انہوں نے کہتے ہوئے صوفے سے ٹیک لگا لی۔ سلیم صرف ان محفلوں میں اس لیے موجود تھا کیونکہ وہ اندر کی تمام باتیں جاننا چاہتا تھا۔ دماغ منصوبے بنا رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ شہر والوں کی مدد کر سکے گا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اکیس جون! بڑی بھابھی کی باتوں کو برداشت کرنا اب ناقابل برداشت ہے۔ مجھے یہاں سے لے جاؤ۔ چچا اکبر سے کہو نا کہ ان زمینوں کے مسائل سے ہاتھ پیچھے کرلیں۔ ابا میاں اور چچا اکبر زمین کی لڑائی میں ہمارا رشتہ داؤ پر لگا رہے ہیں۔ میری تمہارے لیے محبت بہت خاص ہے شاداب۔ ابا میاں کہتے ہیں کہ تم سے طلاق مانگ لوں۔ کیسے مانگ لوں؟ تم میرے وجود کا حصہ ہو۔۔ تم سے دستبردار ہونا گویا اپنا آدھا جسم کاٹ پھینکنا۔ میں نے اپنا دل تمہاری مٹھی میں دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا تم سے بہتر کوئی اور خیال رکھ نہیں سکتا۔ فیضان بھائی خاموش ہیں۔ وہ بھی شاید میری طرح اس فیصلے سے نہ خوش ہیں کہ زمینوں کے معاملوں میں پاکیزہ رشتوں کے ساتھ کھیلا جائے۔۔ مگر وہ خاموش ہیں۔ مجھے ان کی ضرورت ہے۔ کیہان بھائی کی ضرورت ہے۔۔ لیکن بڑی بھابھی کی زبان سے خدا میرے دشمنوں کو بھی بچائے۔" ماہ کامل نے یہ جملہ پڑھا تو گہری سانس خارج کرتی رہ گئی۔ وہ اپنی ماں سے اتفاق کرتی تھی۔
"وہ مجھے یوں دیکھتی ہیں جیسے میں گندگی ہوں۔ ان کا رویہ۔۔ کڑوا لہجہ مجھے آہستہ آہستہ مار رہا ہے۔ کاش مجھ میں بولنے کی ہمت ہوتی۔۔ مگر مجھے خوشی ہے کہ زینت بھابھی مجھے سمجھتی ہیں۔ ان کی باتیں اور ان کی تسلیاں مجھے ایک نئی امید پکڑا دیتی ہیں شاداب۔۔ نیلی مجھے یاد نہیں کرتی کیا؟ اسے بہت شوق تھا کہ میں اس کے بھائی کی بیوی بن کر اس کی حویلی آجاؤں۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا قبل اس کے کہ ابا میاں طلاق کا ایک اٹل فیصلہ لے لیں۔ تمہارے گرد اب میری دنیا گھومتی ہے۔ مجھے ہر شخص سے بڑھ کر تم پر یقین ہے کہ تم مجھے کبھی تنہا نہیں کرو گے۔ تمہاری چندا مرتے دم تک تمہاری بنی رہنا چاہتی ہے۔ میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ ہر اچھا وقت ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری محبت کبھی نہ ختم ہونے والی ہے شاداب!" آگے خوبصورتی سے 'چندا شاداب' لکھا تھا۔ اسے ماں کی لکھائی یاد تھی۔۔ خوبصورت اور نفیس لکھائی۔ اس نے آنکھیں موندیں تو آنسو نکل آئے۔
آبرو چچی کا یوں چندا سے نفرت کرنا اسے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی جو وہ اس کی ماں کو برا بھلا کہنے پر اتر آتی تھیں۔ اس نے خط لپیٹ کر سائڈ دراز میں رکھ دیا۔
پوشیدہ باتوں سے پردہ اٹھانا ضروری ہوگیا تھا۔ وہ یہ کہانی ادھوری نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ دو تین خط اب بھی میز پر رکھے تھے مگر وہ ایک خط کا ہی دل پر اثر کافی تھا۔ اسے لگنے لگا جیسے سر پھٹ جائے گا۔ کچھ پیچھے ہوتے ہوئے بستر پر نڈھال لیٹ گئی۔ ادھ کھلی آنکھیں دیوار گھور رہی تھیں۔ کچھ ادھورا کچھ پورا جاننے کے بعد اس نے ماضی کو سوچنا چاہا۔
انہیں یقین تھا کہ ان کا شاداب انہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔۔ ہر خونی رشتے سے بڑھ کر یقین تھا۔ کیا دولت کا پلڑا تب بھی بھاری ہوتا ہے جب دوسرے پلڑے پر سالوں کی بے پناہ محبت ہو؟ کیا تب بھی دولت جیت جاتی ہے؟ زمینیں جیت جاتی ہیں؟ ہاں شاید پیسہ بازی لے جاتا ہے۔ رشتے ہار جاتے ہیں۔۔ دھندلا جاتے ہیں۔
آج وہ وجود مٹی تلے دب گیا تھا۔ وہی وجود جو شاداب کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ دھنک کے رنگ دیکھنا چاہتا تھا۔
اخگر حویلی کے لوگوں کے چہرے اسے اپنی ماں کے ساتھ کیے ظلم کو تازہ کرواتے تھے۔ وہ دادا اخگر کو دیکھتی تو ماں کا چہرہ یاد آتا۔ زمینوں پر بحث کرتے چہرے دل سے اترتے ہوئے محسوس ہوتے۔ یہی وہ دولت جس پر دونوں حویلی والوں کو غرور تھا۔ برسوں سے ایک زمین کے لیے لڑنے والے چہرے بوڑھے ہوگئے تھے مگر دولت کا پلڑا اب بھی بھاری تھا۔۔ ہر انسان سے بڑھ کر۔۔ ہر وجود سے بڑھ کر۔۔
سر زیادہ دکھنے لگا تو وہ سوگئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آپ؟" وہ کچھ چونکی۔
"ہاں میں۔۔ اتنا حیران کیوں ہو؟" لیپ ٹاپ بیگ میز پر رکھتے ہوئے وہ ذرا سا مسکرایا۔ "تمہیں زیادہ دیر یوں اکیلے گھر میں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ جانے کب اکبر حویلی والے آدھمکیں۔" صوفے پر بیٹھ کر اس نے جوتے اتارے۔
"ان سے ڈر رہے ہیں؟" وہ سنگھار میز سے کمر چپکا کر کھڑی تھی۔
"ڈر تو خیر رہا ہوں۔ مگر مقابلہ کرنے سے نہیں۔۔ کب میری نا موجودگی میں آجائیں اور زبردستی تمہیں لے جائیں۔ اگر آنا ہی ہے تو میری موجودگی میں آئیں۔ شادی کے بعد پہلی بار سسرالی آئیں گے۔ خالی ہاتھ نہیں جانے دوں گا۔ اپنی بیوی کے ہاتھ کی کڑوی چائے پلاؤں گا اور دادا سسر کے لیے مرچ پکوڑے بھی بھجواؤں گا۔" وہ جانان کو لب بھینچنے پر مجبور کر گیا۔ اس کی خاموشی محسوس کرتا ہوا وہ اٹھ کر اس کے نزدیک آیا۔
"ڈر رہی ہو؟" لہجہ نرم تھا۔ وہ اس کی لرزتی پلکیں نوٹ کرتا ہوا فکرمند ہوا۔ جانان نے بمشکل نفی میں سر ہلایا۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے ساتھ ہو تو بس اتنا یاد رکھو کہ جہاندار بات کو بگڑنے نہیں دے گا۔ یاد ہے تم نے کہا تھا کہ اگر تم میرے ساتھ نہ رہ سکی تو مرجاؤ گی؟ اور تمہاری یہ بات مجھے تکلیف دے گئی تھی۔ تمہیں کچھ ہوگیا تو میں مرجاؤں گا اور مجھے ابھی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔ میں اپنا مرنا افورڈ نہیں کرسکتا اس لیے تمہیں ساتھ لے آیا۔ اب تم رہو گی تو میں رہوں گا۔" جانے اتنی سنجیدگی سے بات کرتے کرتے وہ آخر میں کیسے شریر ہوگیا۔
اور جانے کیوں وہ روہانسی ہونے لگی۔ جہاندار نے اس کے بدلتے تاثرات دیکھے۔
"جانان؟" وہ فکرمند ہوا۔
"مجھے حویلی لے چلیں۔" اس کا لہجہ التجائیہ تھا۔ "پلیز۔۔" ایک آخری کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں تھی۔
جہاندار نے ایک گہری سانس اندر کھینچی۔
"تم چلی جانا چاہتی ہو؟ تمہیں میری محبت ٹھہرنے کا اشارہ نہیں کرتی جانان؟"
"مجھے آپ کی محبت ہی تو ٹھہرنے پر مجبور کرتی ہے جہاندار۔۔ میرا دماغ میرے دل کا ساتھ نہیں دیتا۔" وہ رو دی۔ "میرا دل آپ کے پاس ٹھہر گیا ہے مگر مجھے واپس جانا ہے۔ ہر بار اپنے دل کی سننا کہاں کی عقلمندی ہے۔" اس نے آنکھیں رگڑیں تو جہاندار نے اس کا ہاتھ ایسا کرنے سے روکا۔
"تمہیں اپنے دل کی سننا چاہئیے۔ بہرحال میں اب مزید اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔" اس نے اپنے تاثرات تبدیل کیے۔ "جب میں نہیں تھا تو تم نے کیا کیا؟" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا یوں بدلتا لہجہ اور تاثرات جانان کو لاجواب کر گئے۔ وہ بس اس کا چہرہ تکتی رہی۔ "ماہ کامل نے تمہیں گھر دکھایا؟ جانتی ہو ہمارے لان میں موتیا کے پھول ہیں۔ تمہیں موتیا کے پھول اپنے بالوں میں لگانا پسند ہیں نا؟" آنکھوں میں محبت ٹھہر گئی۔ جانان نے خفگی سے اسے دیکھا۔
"مجھے کچھ نہیں چاہئیے۔"
"موتیا کے پھولوں پر تو تم مجھے بھی قربان کردو۔" وہ اسے چھیڑتا ہوا ہنس پڑا۔ "میں جانتا ہوں ابھی تم غصہ ہو اس لیے یوں کہہ رہی ہو۔ میں چینج کر کے آتا ہوں۔ پھر ساتھ چائے پئیں گے۔ موسم کتنا اچھا ہورہا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس موسم میں ہم دونوں کو کچھ وقت بالکنی میں ساتھ گزارنا چاہئیے۔" اس کی نگاہوں میں کچھ شرارت تھی اور جانان کا دل پگھل رہا تھا۔
جانان اب کی بار بھی خاموش رہی۔
"اچھا چلو یہ بتاؤ کہ وہ نیا لڑکا کیسا ہے؟ کیا نام تھا اس کا۔۔ ہاں ٹیپو!" کوٹ اتارتے ہوئے اس نے بستر پر پھینکا۔ جانان اب اسے ٹائی اتار کر بستر پر پھینکتا دیکھ رہی تھی۔ ہاں یہ تو اس کی پرانی عادت تھی جس کا اسے آج سے قبل اندازہ نہیں تھا۔
"اس نے مجھے جے جے بلایا۔" ٹیپو کے ذکر سے اسے وہ نام یاد آیا۔
"جے جے؟" وہ کچھ چونکتا ہوا الجھا۔
"جانان جہاندار۔۔" اس نے آنکھیں پھیریں۔
"یہ کتنا اچھا نام ہے۔" وہ ہنس دیا۔
"یہ کتنا برا نام ہے۔" اس نے جواباً برا سا منہ بنایا۔
"لڑکا ہوشیار ہے۔ مجھے اچھا لگا۔" وہ ہنستا ہوا وارڈروب سے کپڑے نکال رہا تھا۔
"آپ اس سے کہیں گے مجھے یوں نہ بلائے۔" وہ اب رعب دکھاتے ہوئے بولنے لگی۔ جہاندار نے مسکراہٹ چھپا کر کندھے اچکائے۔
"میں ایسا کیوں کروں گا؟" بنھویں ماتھے پر پہنچ گئیں۔
"کیونکہ میں نے کہا ہے جہاندار۔ اسے کہیں گے کہ مجھے نام سے بلائے۔"
"میں تمہارا کام کیوں کروں؟" وہ سینے پر دونوں ہاتھ باندھتا ہوا بلکل اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔
"کیونکہ۔۔" وہ آگے بولتے بولتے ٹھہر سی گئی۔
"کیونکہ۔۔" اس نے آگے بلوانا چاہا۔
"کیونکہ آپ ایک دفعہ پہلے بھی میری بات نہ مان کر مجھے ناراض کر چکے ہیں۔ امید ہے آپ مجھے دوبارہ ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔" وہ جواب دیتے ہوئے جتانے والے انداز میں مسکرائی۔ جہاندار ہنسی قابو کرتا ہوا بے چارگی سے نفی میں سر ہلاگیا۔
"کوئی اور وجہ۔۔" اس نے آئبرو اچکائی۔
"میں نے آدھے گھنٹے پہلے پورا کمرہ صاف کیا تھا۔ آپ کے آجانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کمرہ کبھی صاف ہی نہیں ہوا۔ آپ چاہتے ہیں میں آپ سے آپ کا یہ پھیلاوا صاف کرواؤں؟" اب کی بار اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر ایک آئبرو اچکائی۔ جہاندار کی بنھویں اپنی جگہ پر آنے لگیں۔ گویا اس کی دھمکی کام کر گئی۔
"نہیں پلیز۔۔ دیکھو مجھے صفائی کرنے کی عادت نہیں ہے۔ میں اسے کہہ دوں گا کہ تمہیں اس نام سے نہ بلائے۔" کپڑے وارڈروب سے نکالتا ہوا وہ تیزی سے واش روم گھس گیا۔ دھمکی کام آگئی تھی اور اب جانان مسکرا رہی تھی۔
وہ جانتا تھا کہ کیسے جانان کے لبوں پر مسکراہٹ لائی جاسکتی ہے۔ وہ اب حویلی کا ذکر بھول کر اس کا کوٹ اٹھانے بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"پھر چائے؟" اس نے بنھویں اچکائیں۔
"بلکل! دو کپ چائے بنادو اور اپنی ایم کے سے بھی پوچھ لو۔ وہ اپنے کمرے میں ہے۔" جانان نے اس نے میگزین اٹھایا جو سلیپ پر رکھا تھا۔
"ویسے میں اپنی چیزوں پر شرکت برداشت نہیں کرتا مگر آپ کیوٹ سی جے جے ہیں اس لیے آپ کو اجازت دے دیتا ہوں۔" اس نے بتیسی دکھائی۔ نہ جانے وہ مسکراتے ہوئے اتنا پیارا کیوں لگتا تھا۔
"تمہارا یہ جے جے میرا شوہر نکالے گا آج۔۔" اس نے دھمکی دی۔ پھر خود ہی تاثرات عام سے ہوگئے۔ وہ میگزین دیکھنے لگی۔ "کیا یہ تمہارا ہے؟" حیرانی کی تو بات تھی۔
"ہاں۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"تم پڑھتے ہو؟" وہ اب کی بار چونکی۔
"کیونکہ مجھے پڑھنے کا شوق ہے۔"
"یہ پورا میگزین جہازوں کے بارے میں ہے۔" اس نے الٹ پلٹ کر جہازوں کی تصویریں دیکھیں۔
"ہاں کیونکہ مجھے سب سے زیادہ جہازوں اور مچھلیوں کے بارے میں پڑھنا پسند ہے۔" کام کرتے ہوئے ساتھ اس نے سرسری سا بتایا۔
"اچھا؟ تو پھر بتاؤ کہ سب سے پہلی فلائٹ کب تھی؟" وہ اسے جانچ رہی تھی۔سوال تو یونہی بے وجہ بنایا تھا۔
"آپ مجھے آزما رہی ہیں؟" ٹیپو ہنس پڑا۔
"یہی سمجھ لو۔۔"
"۱۷دسمبر ۱۹۰۳ کو پہلی ائیر فلائٹ تھی۔"
جانان کی بنھویں اوپر کو اٹھیں۔ جس کانفیڈنٹ سے اس نے بتایا تھا جانان کو یقین ہوگیا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ وہ جانتا تھا۔
"اوہ ہاں! نارتھ کیرولینا میں۔۔ اور مزید کوئی سوال؟" چائے میں ابال آتا دیکھ کر اس نے دو کپ نکالے۔
"ہاں ایک ہے۔۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ماہ کامل سے پوچھ لو کہ وہ چائے پینا چاہتی ہے یا نہیں۔ تم نے صرف دو کپ بنائی اور اس سے پوچھا بھی نہیں؟" اب کی بار اس کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا۔
"امم۔۔ میں نے پوچھنا ضروری نہیں سمجھا لیکن جب وہ کہیں گی میں بنادوں گا۔ ویسے بھی میں یہاں ایک کمرے میں سڑنے والا ہوں۔۔ اگر یہ میگزین نہ لاتا تو گھٹ کر مرجاتا۔" چائے نکالتے ہوئے ٹرے میں رکھ کر اس نے جانان کے آگے رکھ دیا۔ میگزین لیا اور اس چھوٹے میں کمرے میں گھس گیا جو ماہ کامل نے اس کے لیے صاف کروایا تھا۔ جانان اس کی حرکت پر ذرا سا ہنس دی۔
جہاندار ٹھیک کہتا تھا۔ لڑکا ہوشیار تو تھا۔۔ اور عقلمند بھی! وہ ٹرے اٹھائے اپنے کمرے میں بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ چار دوائیوں کے ڈبے ملازم کو دے دو۔ اسے کہو بازار سے لے آئے۔" شاداب بدر عالم کے بستر کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سلیم کو خالی دوائیوں کے ڈبے پکڑائے۔
"جی ماموں۔" اس نے بدر عالم کو دیکھا جو کروٹ لیے بیٹھا تھا۔ "میں باہر جارہا ہوں بدر عالم۔ کیا تم بھی چلو گے؟" وہ پہلے سے بہتر تھا۔
بدر عالم نے نفی میں سر ہلایا۔ یہ اندھیرہ کمرہ ہی اس کی کل دنیا تھا۔
"میرے ساتھ چلو۔۔"
اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ وہ اسے کچھ خاموش خاموش سا محسوس ہوا۔
"میں پوچھ نہیں رہا بدر عالم۔ بتا رہا ہوں۔ ہم پاس باغ تک جاتے ہیں۔ موسم بہت اچھا ہے۔ کچھ دیر بعد واپس آجائیں گے۔" اس نے زبردستی اسے اٹھا کر بٹھایا۔
شاداب دونوں کو دیکھ کر مسکرائے۔
"اسے لے جاؤ اپنے ساتھ۔۔ کچھ باتیں کرو۔ میں اپنے بیٹے کو تندرست دیکھنا چاہتا ہوں۔" وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ اتنا کہنا ہی کافی تھا۔ نہ جانے ان کی بات پر بدر عالم نے کیا تاثر دیا ہوں گا۔
اسے زبردستی کھڑا کر کے چپل آگے کی تھیں۔ اس کا جسم پہلے سے کچھ بھر گیا تھا۔ سلیم نے اس کی کمر تھپتھپائی۔
"اب لگ رہے ہو نا میرے بھائی۔۔ ہمارا پرانا بدر عالم۔۔"
اس کے پر جوش لہجے پر بدر ذرا سا مسکرایا اور اس کے پیچھے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"بوندا باندی ہورہی ہے۔" جیسے ہی بارش کی پہلی بوند نے اس کی ناک چھوئی' جانان چہکتے ہوئے بول اٹھی۔
چائے کا گھونٹ بھرتا جہاندار اس کے چہرے پر مسرت بھرے تاثرات دیکھ کر مسکرایا۔
"ایک بات پوچھوں؟"
"جی۔"
"تمہیں زندگی میں کیا چاہئیے؟"
وہ اس سوال کی امید نہیں کر رہی تھی۔
"شاید خوشیاں۔۔ بہت ساری خوشیاں۔"
اس نے چہرہ آسمان کی جانب کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
وہ مسکرا دیا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ ہلکا ہوگیا۔
"آپ کو۔۔ آپ کو کیا چاہئیے؟"
وہ چائے کا گھونٹ بھر رہا تھا جب جانان نے یکدم سوال کیا۔ وہ ذرا سا چونکتا مگ لبوں سے دور کر گیا۔
"تم! مجھے مل گئی۔۔ میرے لیے تم خوشیوں، مسکراہٹوں کا مجموعہ ہو۔ تم ہو تو خوشیاں ہیں۔۔ اور خوشی میرے پاس ہے۔ برابر میں بیٹھی ہے۔" اس کی آنکھوں میں جانان کے لیے ڈھیروں محبت تھی۔ جانان نے نگاہ آسمان کی جانب کرلی۔
"اگر ہماری طلاق ہوجاتی؟" طلاق کا لفظ ادا کرتے ہوئے اس کا دل ذرا سا کپکپایا۔
جہاندار کو اپنے اندر تک ویرانی محسوس ہوئی۔ وہ کئی لمحوں تک کچھ بول نہ سکا۔
"ایسا کبھی نہ ہوتا۔۔" کافی دیر بعد اس کے لب ہلے۔
"اگر ہوجاتا۔۔" جانے وہ کیا جاننا چاہتی تھی۔
"اول تو ایسا ہوتا نہیں لیکن اگر ہوجاتا تو۔۔" وہ کہتے کہتے ٹھہر سا گیا۔
"تو۔۔" اس نے جہاندار کے پیچھے دہرایا۔
"میں نے کبھی اس کے بارے میں سوچا نہیں اس لیے مجھے جواب نہیں آتا۔ ویسے بھی انسان کو اپنے حال میں رہنا چاہئیے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری جانان میرے ساتھ ہے۔" اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ قدرے جذب سے مسکرایا۔
"آپ کی نظریں آپ کی باتیں مجھے کمزور کیوں کر دیتی ہیں؟" اس کے سحر میں قید وہ بے ساختہ بولی۔ انہماک سے اسے تکتا جہاندار قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"تمہاری باتیں بہت معصوم ہیں جانان۔ تمہاری طرح۔۔" وہ اب بھی ہنس رہا تھا۔ "جانتی ہو اس کا جواب کیا ہے؟" آنکھوں میں تجسس سا ابھرنے لگا۔ تم نے مجھ سے محبت کرنا کبھی چھوڑی ہی نہیں جانان۔۔ تمہاری مجھ سے کی گئی محبت بے پناہ ہے! یہ یوں ختم نہیں ہوگی۔" اس کا ہاتھ دھیرے دھیرے سہلاتا ہوا وہ اس کے دل پر پیار کے وار کر رہا تھا۔ ہاں وہ کمزور ہی تھی۔۔ محبت میں کمزور! وہ سچ کہتا تھا۔۔ اس نے جہاندار سے محبت کرنا کبھی نہیں چھوڑی۔ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتی تھی۔ چاہ کر بھی اس سے دور نہیں بھاگ سکتی تھی۔ وہ اس کی تھی۔۔ اس کی جانان۔۔ جہاندار کی جانان!
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تھا جب اس کی نگاہ بستر پر سوتی ماہ کامل پر پڑی۔ ہلکی سی چادر کندھوں تک اوڑھے وہ پرسکون نیند میں تھیں۔ کچھ مسکرا کر چلتے ہوئے وہ اس کے نزدیک آیا اور بغور دیکھنے لگا۔ بال جو منہ پر آئے ہوئے تھے۔۔ وہ تل جو ہمیشہ سراقہ کی توجہ کھینچتا تھا۔ نگاہ میز پر رکھے خط پر گئی تو وہ انہیں کچھ الجھ کر دیکھتا ہوا کھلا خط اٹھانے بڑھا۔ باقی خط بند تھے مگر ایک کھلا ہوا تھا جیسے اسے پڑھا گیا ہو۔ اس نے ایک نظر سوتی ماہ پر ڈالی اور خط کھول کر نگاہ دوڑانے لگا۔
چندا کا خط۔۔
وہ الفاظ۔۔
اُس میں اپنی ماں کا یوں ذکر دیکھ کر اسے حیرت نہیں ہوئی تھی اور کیوں ہی حیرت ہوتی۔ وہ اپنی ماں کو خوب جانتا تھا۔ دل یکدم ہی بوجھل ہوگیا۔ کوٹ اتار کر لٹکاتے ہوئے اس نے خط وہیں رکھ دیا۔ کپڑے نکال کر وہ شاور لے آیا تھا مگر ماہ کامل جیسے سورہی تھی اب تک ویسے ہی پوزیشن میں تھی۔
یکدم ہی دروازے پر ہلکا کھٹکا ہوا تو سراقہ دروازے کی جانب بڑھا۔
"یہ آپ دونوں کے لیے چائے۔" وہ ٹیپو تھا۔ مسکرا رہا تھا۔۔ اس کی بھولی صورت دیکھ کر سراقہ نے پیار سے اس کے بال سہلائے۔
"تمہارا شکریہ ہینڈسم!" وہ جانتا نہیں تھا کہ سراقہ کافی پیتا ہے مگر اس کو یوں ابھی کہنا اچھا نہ لگا۔ اس چائے کو بنانے میں اس کی محنت لگی تھی۔ وہ جاچکا تھا جب سراقہ ایک ہاتھ سے ٹرے پکڑ کر بستر پر آگیا۔ کمرے میں ہلکی ہلچل سے ماہ کامل کی آنکھ کھلی۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سائڈ میز سے کیچر اٹھاتے ہوئے اس نے بالوں میں لگایا۔ اب وہ اسے تک رہی تھی جو اسے فرصت سے دیکھ رہا تھا۔
"تمہارا وہ لڑکا ہمارے لیے چائے لایا ہے۔" اس نے مسکرا کر بتایا تو وہ اٹھ بیٹھی۔
"ٹیپو نے بنائی؟"
"ہاں۔"
"مگر۔" وہ دونوں مگ میں چائے دیکھ کر حیران ہوئی۔
"میں آج چائے پی لوں گا۔ کوئی مسلہ نہیں۔" اس نے تسلی دی تو وہ ذرا سا مسکراتی ہوئی فرش پر کھڑی ہوئی۔
"آپ کب آئے۔"
سراقہ کے بال گیلے تھے۔ وہ آستینوں کے بٹن لگا رہا تھا۔
"بیس منٹ پہلے۔۔" اس نے اطلاع دی تو وہ سر اثبات میں ہلاتی واش روم سے فریش ہو آئی۔
"مجھے اٹھا دیتے۔" اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے ٹرے سے چائے کا مگ اٹھایا۔
"کیوں؟"
"میں کپڑے نکال دیتی۔"
وہ ہنس دیا۔
"تمہیں اپنی عادت کیوں بناؤں؟ میں خود کے لیے کوئی مسلہ کھڑا نہیں کرنا چاہتا۔" وہ ہنس دیا۔ "ویسے میں اپنے کام کے لیے تمہاری نیند کیوں خراب کرتا۔"
"عادت تو لگ گئی ہے آپ کو۔۔ جب ہی ہر شام کی چائے پر میری موجودگی کا انتظار کرتے ہیں۔" ماہ اب کی بار زور سے ہنسی تو سراقہ اس کی کھلکھلاہٹ پر چہرہ تکتا رہ گیا۔ سچ کہتی تھی۔ عادت تو لگ گئی تھی۔۔
"تمہارا تل۔۔" وہ بے اختیار بول اٹھا۔
"امی کی طرح ہے۔ ان کا بھی یہیں تھا۔ بلکل میری طرح۔۔"
ماں کا ذکر کرتے ہوئے وہ مسکرا دی۔
"اب خبر ہوئی شاداب صاحب نے چندا پر دل کیوں ہارا تھا۔ اس تل نے انہیں بھی کمزور کردیا ہوگا جیسے یہ مجھے کردیتا ہے۔" نگاہیں اٹک سی گئی تھیں۔ ماہ سرخ ہوئی۔ نظریں خود بہ خود زمین پر ٹک گئیں۔
"آپ مجھے اس ہفتے حویلی لے چلیں گے؟ بدر عالم سے ملے کچھ وقت ہی ہوا ہے مگر یوں لگ رہا ہے جیسے کئی سال بیت گئے ہوں۔"
"ہاں ضرور۔ ہم جمعے کو چلیں گے تاکہ وہاں ایک رات رک بھی سکیں۔ مجھے بھی اماں سے ملنا ہے۔ شہر آنے کے بعد بات ہی نہیں ہوئی۔ بہرحال یہ بتاؤ کہ وہ لڑکا ٹھیک کام کر رہا ہے؟" اس نے موضوع تبدیل کیا۔
"عقلمند لڑکا ہے۔ بہت سمجھداری کی باتیں کرتا ہے سراقہ۔ کئی بار تو میں لاجواب ہوگئی۔" آنکھیں پوری کھول کر وہ اسے تفصیل دے رہی تھی۔
"چلو اچھا ہے۔ تمہارا بھی دل بہل گیا ہوگا۔ میری برائی تو نہیں کی اس سے؟"
"ہاں میں نے کی۔۔ وہ بھی بولا جانے دیں۔ ان کی حرکتوں پر انہیں نظر انداز کریں۔" ہنسی چھوٹ گئی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
"یوں ہنستی رہا کرو۔ دل بھی مطمئن رہتا ہے اور آنکھوں کو پہلے سے زیادہ بھانے لگتی ہو۔" خالی کپ ٹرے میں رکھ کر اس نے محبت سے کہا۔
"آپ بھی۔۔"
"تم جب تک میرے پاس ہو میں مطمئن ہوں۔ اگر بعد میں بھی مجھے مطمئن دیکھنے کی خواہش ہے تو ہمیشہ کے لیے میرے پاس ٹھہر جاؤ۔ میں بلکل برا نہیں مانوں گا۔" لہجہ شرارتی ہوگیا۔ وہ اس شرارتی لہجے کی آڑ میں اپنے دل کی بات کر گیا۔ ماہ پھیکا سا مسکرائی۔
جانے نہ جانے کے درمیان وہ پھنس کر رہ گئی تھی۔
اسے لگا وہ خود سے لڑ پڑے گی۔
"ایک بات پوچھوں سراقہ؟"
"ہاں۔"
"آبرو چچی کو ماں سے اتنی نفرت کیوں تھی؟ میں نے خط پڑھا ہے۔۔ اور۔۔ اور اسے پڑھنے کے بعد یہی سوال ذہن میں آیا ہے۔" وہ جانتی تھی کہ سراقہ جانتا ہے۔ اس نے آبرو سے کہا تھا کہ وہ اس وقت چھوٹا نہیں تھا کہ کچھ سمجھ نہیں پاتا۔
"تم دوسرے خط پڑھو گی تو مجھے یقین ہے کہ تمہیں خبر ہوجائے گی۔ اگر پھر جواب نہ ملے تو میرے پاس آجانا۔" وہ اوندھا ہوتے ہوئے لیٹ گیا۔ صبح کی تھکاوٹ اب نیند میں ڈھل رہی تھی۔ ماہ کامل نے پردے ہٹا دیے تاکہ ٹھنڈی ہوا کو اندر آنے کا موقع دیا جائے۔ پردوں کی سیٹنگ کرکے جب تک وہ مڑی تب تک سراقہ آنکھیں موند چکا تھا۔
شاید نیند حاوی تھی۔ بغیر ہلچل کیے وہ نیچے چلی گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کبھی کمرے سے باہر نکلو تو جانو کہ یہ دنیا والے صرف دکھ نہیں دیتے۔۔ ایک کمرے میں اندھیرے کو دوست بنا کر رہنا زندگی تو نہیں بدر۔ غم جتنے بھی پاس ہوں۔ خوشیوں کو دبانا نہیں چاہئیے۔ کیا غم میں رہنے والے کبھی مسکراتے نہیں کیا؟" باغ کی بینچ پر اس کے برابر بیٹھتے ہوئے سلیم نے اس دیکھا۔ وہ خاموش تھا۔
"میں جانتا ہوں تم چندا ممانی کو یاد کر رہے ہو اور اپنی کو بہن کو بھی۔۔ تمہیں اس نے تنہا نہیں چھوڑا بدر۔" اس کی بات پر تلخی سے مسکرایا جسے سلیم نے بغور نوٹ کیا۔
"تو تمہیں لگتا ہے کہ اس نے تمہیں چھوڑ دیا؟" اس کی بنھویں اوپر کو اٹھیں۔ بدر عالم نے کوئی اشارہ نہیں دیا بس گردن دوسری جانب موڑ گیا۔
"جب وہ آئے گی اور تمہیں یوں پہلے سے صحت مند دیکھے گی تو خوشی سے رو پڑے گی۔ مگر اس کے آنے تک تم خود کو اذیت میں مت ڈالو۔ یوں کمرے میں ہی رہنا اور باقی حویلی والوں کو اجنبی سمجھنا چھوڑ دو بدر۔ کیا تم نے مجھے نہیں دیکھا؟" بدر نے اس کے سوال پر اسے دیکھا اور ہاتھوں کے اشارے سے کچھ کہنے لگا۔
"نہیں۔۔ تم غلط سمجھتے ہو۔ تمہیں لگتا ہے میں اس حویلی کا سب سے خوش انسان ہوں جو اپنی زندگی میں چلتے طوفان سے مطمئن ہے؟" وہ زور سے ہنس دیا۔ "میں وہ شخص ہوں بدر جو دوسروں کے زخم بھر کر اپنے زخم اکھیڑ دیتا ہے۔" چہرے کے تاثرات ڈھلنے لگے۔ مسکراہٹ سمٹ گئی اور چہرہ سیاہ ہونے لگا۔ اس نے اپنا دل کسی آڑی کے نیچے محسوس کیا۔
بدر عالم نے اسے تیزی سے دیکھا۔
کیا وہ واقعی ایسا نہیں تھا جیسا وہ دکھتا تھا؟
خوش و خرم زندگی گزارتا آیا سلیم؟
"میں نے اپنے خواب جلائے ہیں مگر جانتے ہو؟ مجھے لگتا تھا اگر میں خواب جلادوں گا تو ان کے بارے میں نہیں سوچ سکوں گا۔ میں نے جلا دیے۔۔ مگر ان کی راکھ میرے پاس ہی رہ گئی ہے۔۔ اور وہ مجھے اذیت دیتی ہے بدر۔ میرے مٹھی میں ابھی بھی امید کا جگنو ہے۔ مجھے یقین ہے میں وہ سب کرلوں گا جو میرے خواب ہیں مگر مجھے ڈر ہے کہ اس انتظار میں میری عمر نہ بیت جائے۔ کہیں یہ انتظار طویل نہ ہو جائے۔ تمہیں اندھیروں سے محبت ہوگئی ہے اور اب مجھے وحشت ہونے لگی ہے۔ میں اب اپنی زندگی میں اجالے چاہتا ہوں۔" اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں اور بدر عالم ساکت اس کا چہرہ تک رہا تھا۔ چہرے پر صدیوں کی تھکاوٹ تھی۔ "ہم پر چاہے جتنے بھی غم ہوں۔ ہمیں ان چھوٹی خوشیوں کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہئیے۔۔ جیسے کہ مسکراہٹ۔ کبھی باغ میں آکر بیٹھو تو اندازہ ہوگا کہ دنیا کتنی رنگین ہے۔ یہاں اگر غم ہیں تو خوشیاں بھی ہیں۔ ہم خوشیوں کو نظر انداز کر کے صرف غموں پر فوکس کرتے ہیں۔ خود کو صرف غموں کا نہ ہونے دو۔" وہ اب مسکرا رہا تھا جیسے کبھی غمزدہ ہوا ہی نہ ہو۔ بدر عالم نے تھوک نگل کر سامنے نگاہیں ٹکالیں۔ اس کی باتوں نے بدر کا ذہن جکڑ لیا۔ وہ درست کہتا تھا۔
زندگی صرف غموں کا نام تو نہیں۔۔
ٹھنڈی تیز ہوا چہرے کو چھونے لگی تو وہ آنکھیں موند گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا کر رہے ہو؟" وہ کھانا بنانے کے ارادے سے نیچے آئی تھی جب اس نے ٹیپو کو پودوں کے پاس بیٹھا پایا۔
"پودوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے ان کے بارے میں کافی فیکٹسں پڑھے ہیں۔" وہ اٹھ کر مسکراتا ہوا اندر آگیا۔
"میں یہ فیکٹس ابھی نہیں پوچھوں گی۔" وہ ذرا سی کھلکھلا دی۔ "کھانا بنانے کا وقت ہے۔ سبزی کی چھوٹی ٹوکری فریج میں رکھی ہے۔ اسے لے کر کچن میں آجاؤ۔"
"کیا آپ کو پتا ہے شہد کبھی خراب نہیں ہوتا۔"
وہ اسے تجسس سے بتا رہا تھا۔
"ہاں میں جانتی ہوں۔ اس لیے تو ہم اسے باہر میز پر رکھ دیتے ہیں۔"
"مجھے نہیں معلوم تھا۔ چند دنوں پہلے میں نے پڑھا یہ واحد کھانے کی چیز ہے جو کبھی اسپوائل نہیں ہوتی۔" اس کا کہنے اور سمجھانے کا طریقہ بہت پڑھے لکھے لوگوں جیسا تھا۔ ماہ کامل نے اس کے آگے ٹرے اور چھری رکھ کر کاٹنے کی تاکید کی۔
"تم بہت اسمارٹ ہو۔ تمہاری باتوں سے لگتا نہیں کہ کوئی چودہ سال کا لڑکا بول رہا ہے۔"
"مگر نازلی کہتی ہے میں فارغ ہوں۔ اسے میرا کتاب پڑھنا اور چیزوں کو آبزرو کرنا فراغت لگتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے کچھ کام کی چیز کرنی چاہئیے۔" وہ ہنس دیا۔ "میں جانتا ہوں وہ میرے کام کو کام نہیں سمجھتی۔" تمام سبزیاں کاٹ کر اس نے ماہ کامل کو دے دیں۔
"چمچ کو چلاتے رہو۔ اسپیگٹی لگ نہ جائے۔" وہ دو ڈشز بنا رہی تھی۔ خوش تھی کہ جانان اس گھر میں سیٹ ہو رہی ہے۔ اس کا جہاندار کے ساتھ پرانا رویہ لوٹ رہا تھا۔
"ٹیپو۔۔ سراقہ کافی پیتے ہیں۔ تم جب بھی ہمارے لئے چائے بناؤ تو ان کے لیے کافی بنا لیا کرنا۔ میں تمہیں طریقہ سکھادوں گی۔" وہ ساتھ ساتھ اسے تاکید بھی کر رہی تھی اور ٹیپو اس کی ہر بات پر اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔
"کیا میں یہاں رہ سکتا ہو؟" اس کے اچانک سوال پر وہ بوکھلائی۔
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ رات بھی اس گھر میں گزار سکتا ہوں؟ یہاں مجھے کوئی ان میگزین پڑھنے سے روکنے والا نہیں ہے۔ میں یہاں رات میں تنگ بھی نہیں کروں گا اور سوتے میں چیخ بھی نہیں مارتا۔۔ نازلی مارتی ہے۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"تمہیں وہ کمرہ پسند آیا ہے؟" ماہ نے مسکراہٹ دبائی۔
"بلکل نہیں۔۔ مگر وہ میرے کمرے سے بہتر ہے۔ میں وہاں بری طرح سڑ رہا تھا۔ یہاں اچھے سے سڑوں گا۔" اس کی باتیں ماہ کے تاثرات حیران کر گئیں۔
"ٹھیک ہے میں سراقہ سے بات کروں گی۔ ابھی تم یہ کام کرکے چاولوں کو دم پر رکھ دینا۔ اوپر جارہی ہوں۔" اسے کچن میں اکیلا چھوڑ کر وہ اوپر کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے اگلے دن سراقہ کے جانے کے بعد وہ خط کھولے تھے۔ تجسس اب ہر لفظ کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔
"میں تھک گئی ہوں۔ آبرو بھابھی کا غصہ وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ چاہتی ہیں میں تم سے طلاق لے کر جاوید سے نکاح کرلوں۔ ان کا یہ رویہ اذیت ناک ہے۔ ابا میاں مجھ سے بات نہیں کرتے شاداب۔ میں نے منع کردیا ہے کہ آپ سے طلاق نہیں لوں گی۔ میں نہیں لینا چاہتی۔۔ بھلا کوئی انسان خود موت کو کیوں چنے گا۔ دو ہفتے ہونے کو ہے مگر اس عرصے میں وہ مجھ سے ایک لفظ نہ بولے۔ شاداب تم مجھے لے جاؤ۔ میں یہاں رہی تو یہ لوگ میرے ساتھ طلاق لینے کے لیے زبردستی کریں گے۔ آبرو چچی نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے تم سے طلاق لے کر جاوید کے لیے ہاں نہیں کی تو وہ ابا میاں کو اس نازک معاملے میں میرے خلاف مزید بھڑکائیں گی۔ پچھلے ہفتے انہوں نے میرا نام پڑوس حویلی کے لڑکے کے ساتھ ملا کر جھوٹا الزام لگایا۔ تم جانتے ہو یہ کتنا تکلیف دہ ہے؟ سراقہ سب دیکھتا ہے شاداب۔۔ وہ اپنی ماں کے کیے ظلم بھی دیکھتا ہوگا نا؟ میرے آنسو بہہ رہے ہیں۔ ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ میں روتی ہوں تو نہ جانے کب آنکھ لگ جاتی ہے۔ سراقہ مجھے چادر اوڑھانے آتا ہے۔ وہ جہاندار کو بھی ساتھ لاتا ہے۔ جہاندار نے مجھے بتایا کہ پچھلی رات سراقہ میری وجہ سے رویا تھا۔ یہ دونوں میرے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہ آبرو بھابھی سراقہ کو مجھ سے متنفر نہ کردیں۔ اگر میرا کوئی بیٹا ہوا تو میں اس سے بلکل ویسی محبت کروں گی جیسے میں سراقہ اور جہاندار سے کرتی ہوں۔ میں ان کے آنسو برداشت نہیں کر سکتی۔"
یہ ایک الگ تاریخ کا خط تھا۔ اس نے دوسرا خط کھولا جس کی تاریخ اور مہینہ بلکل مختلف تھا۔
"میں تمہیں تنہا کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تم سے محبت کر کے میں کبھی نہیں پچھتایا۔۔ تب بھی نہیں جب ابا جی نے کہا کہ مجھے تمہیں طلاق دے دینی چاہئیے۔ جانتی ہو نیلی کیا کہتی ہے؟ کہتی ہے شاداب بھیا حویلی چھوڑ دینا مگر چندا کو نہ چھوڑنا۔ میں نے بھی کہہ دیا پگلی جسم کا آدھا حصہ مفلوج ہو جائے تو انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔۔ اور تم کو گنوا کر میں خود کو مفلوج نہیں کر سکتا۔ ہمیشہ یاد رکھنا۔۔ دنیا تمہیں اکیلا کردے گی مگر شاداب تمہارے ساتھ رہے گا۔" ماہ کامل کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہوئے رخسار پر بہنے لگے۔ اسے لگا وہ خط اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا۔ اس کو اپنی روح فنا ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ "احب کہتا ہے کہ چاچو اب ہماری ممانی لے آئیں۔ میں کیسے کہوں کہ ممانی آئیں گی مگر یہاں نہیں۔۔ میں حویلی والوں کے سائے سے بھی تمہیں دور رکھوں گا۔ انہیں دولت بھاتی ہے اور مجھے تم۔۔ مجھے آبرو بھابھی سے نفرت ہے۔ جنہیں میری محبت سے نفرت ہے مجھے ان لوگوں سے نفرت ہے۔ تم میری زندگی کا چاند ہو۔ جب کوئی نہیں ہوتا تو چاند ہوتا ہے چندا۔ تم چندا ہو۔۔ شاداب کی چندا۔ میں تمہیں ایک چھوٹی سی امید دینا چاہتا ہوں چندا۔ میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا۔ تمہیں میرے بغیر نہیں رہنا ہوگا۔ حویلی والوں کے معاملات ٹھیک ہو جائیں۔ میں کوشش کروں گا کہ ابا میاں کو منا لوں۔ ہم یہی رہیں گے اگر ابا میاں مان گئے۔ ہمیں پھر کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔"
اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔
ساتھ رہنے کی بات کرنے والے تنہا کر گئے۔
وہ جو کہتے تھے بچھڑنے کا موقع نہیں دیں گے۔
بیچ راستے میں ہاتھ چھڑا گئے۔ وہ سسکتی رہی۔
ماں کا یوں تڑپنا یاد آتا رہا۔ آنکھیں بہتی رہیں۔
غم تازہ ہوتے رہے۔۔
اس نے لرزتے ہاتھوں سے وہ چوتھا خط اٹھایا۔
وہ ایک آخری خط۔۔
"مجھے حیرانی ہورہی ہے۔ ابا میاں رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نہیں مان رہے اور آبرو چچی کا مزاج ہی بدل گیا۔ وہ اب ابا میاں کو طلاق کا نہیں کہتیں اور نہ مجھ پر طنز کرتی ہیں۔ انہوں نے کل مجھ سے کہا کہ مجھے شاداب کے ساتھ حویلی چھوڑ کر چلے جانا چاہیے۔ شاداب! ابا میاں نہیں مانیں گے۔۔ چچا میاں کا غصہ بھی بہت تیز ہے۔ آبرو بھابھی کہتی ہیں کہ یوں حویلی سے بھاگ جانا ہی آخری راستہ ہے۔ وہ مجھے اس سب کے لیے زبردستی کر رہی ہیں۔ کیا واقعی یہی ایک راستہ ہے؟ میں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں۔ اس معاملے کو دو ماہ ہوگئے ہیں۔ میں اب مزید طلاق کا ذکر نہیں سننا چاہتی۔ تم نے پچھلے خط میں بتایا تھا کہ شہر میں تم نے ایک مکان خریدا ہے۔ کیا ہم اس گھر میں اپنی نئی زندگی کا آغاز نہیں کر سکتے؟ مجھے تمہارے سنگ رہنا ہے۔ میں یوں کرنا تو نہیں چاہتی مگر۔۔ مگر شاید آبرو بھابھی بھی یہی چاہتی ہیں۔ بھلا اس میں ان کا کیا مفاد ہوگا۔ اچھا ہوگا کہ میں ان کی نظروں سے دور ہوجاؤں۔ انہوں نے کہا ہمارے جانے کے بعد وہ پیچھے حویلی کے معاملات کو سنبھال لیں گی۔ میں نے ان سے نفرت کرنا چھوڑ دی ہے۔۔ اب تم بھی انہیں یوں برا سمجھنا چھوڑ دو شاداب۔ تمہارے خط کا انتظار رہے گا۔" وہ ایک آخری خط جسے ماہ کامل نے پڑھ کر سر پکڑ لیا تھا۔ سر بوجھل ہورہا تھا اور دماغ سن۔۔ وہ کچھ سوچنے کی حالت میں نہیں تھی۔ بس گہری گہری سانسیں بھرتی دل کے غم کو باہر آنے سے روک رہی تھی۔ ہر جھپکتی آنکھوں کے ساتھ آنسو نکل رہے تھے۔ اس نے کنپٹی کو دو انگلیوں سے دبایا جیسے درد کم کرنا چاہ رہی ہو۔
کہانی کچھ کچھ سمجھ آکر بھی ادھوری سی رہ گئی۔
اسے سراقہ کے آنے کا انتظار کرنا تھا۔
اسے دماغ کی الجھنیں دور کرنی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا آپ لوگ لڑنا بند کریں گے؟" جہاندار اور جانان کی بحث کی آواز پر ٹیپو نے اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر انہیں کاؤچ پر بیٹھا دیکھا تھا۔ وہ دونوں کچھ چونک کر خاموش ہوئے۔
"ہماری مرضی!" جہاندار نے اسے گھورا۔
"میں سونے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔ اس گھر میں سکون کی نیند صرف تب آسکتی ہے جب جے جے اور ان کے کلینومینیک ہسبینڈ سوچکے ہوں یا گھر سے باہر ہوں۔" وہ مسکرا رہا تھا اور جہاندار ہنس پڑا تھا۔
"آدھے کلینومینیک!" جانان نے تصحیح کی۔ "جہاندار اس سے کہیں کہ مجھے جے جے نہ بلایا کرے۔ ایسا لگتا ہے کسی لڑکے کا نام ہو۔"
"کیوں بھئی ٹیپو۔ ہماری بیگم کو اس نام سے کیوں بلاتے ہو؟" وہ بھی ٹیپو کو جانان سے بچ کر آنکھ مارتے ہوئے بولا تاکہ ٹیپو اس کی باتوں کو سنجیدہ نہ لے۔
"مجھے جو لوگ اچھے لگتے ہیں میں ان کا نام رکھ دیا کرتا ہوں۔" وہ مسکرا دیا۔ جانان نے اسے تجسس سے دیکھا۔
"میں تمہیں اچھی لگی؟"
"امم۔۔ ہاں تھوڑی تھوڑی۔ اتنی کہ میں نے آپ کا نام رکھ دیا۔"
"پھر ٹھیک ہے۔ مجھے نام سے کوئی مسلہ نہیں۔۔" ذرا سی دیر لگی تھی اسے اپنے نام سے مطمئن ہونے میں۔۔ جہاندار نے محبت سے دیکھا۔ وہ لڑکی عام سی خاص تھی! "اب مجھے ریموٹ دیں۔ مجھے کوئی ڈرامہ دیکھنا ہے۔" اس نے اب کی بار جہاندار کو نخرے دکھائے۔ جہاندار کو کرکٹ میچ سے کوئی غرض نہیں تھا۔ وہ تو بس اسے تنگ کر رہا تھا۔
"کیوں؟ ابھی میرا میچ چل رہا ہے۔"
"مگر مجھے ڈرامہ دیکھنا ہے۔" اس نے جان بوجھ کر چہرہ ایسا بنایا کہ جہاندار کا دل پگھل سکے مگر وہ اس کی ساری چالوں سے خبردار تھا۔
"ڈرامہ؟ ڈرامہ تو نہیں دیکھنے دوں گا۔ اسی سے سیکھ سیکھ کر مجھ سے لڑنے کے بہانے ڈھونڈتی ہو۔" اس نے گھورا تو وہ خفگی سے چہرہ پھیر گئی۔
"یا خدایا بس کریں۔ میں سونے کی کوشش کر رہا ہوں۔"
"بھائی ٹیپو! گیارہ بج رہے ہیں۔ کون سی نیندیں پوری کر رہے ہو؟ کچن میں جانے کا ٹائم ہو رہا ہے تمہارے۔۔" جہاندار نے آئبرو اچکا اچکا کر پوچھا۔
"میرے سر میں درد تھا تو ایم کے نے نیند لینے کی تاکید کی ہے۔ خدارا مجھ غریب کا خیال رکھیں۔ تھوڑی دیر میں نازلی آکر مجھے جھاڑو سے مار مار کر اٹھائے گی۔ یہ گھر نہیں ہے۔۔ ایک ٹارچر سیل ہے۔" وہ اپنا گھومتا سر سنبھالتا ہوا وہ کمرے کا دروازہ بند کر گیا۔ جہاندار اور جانان منہ دبا کر ہنس دیے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ٹھیک ہو ماہ کامل؟" جانان نے اسے گم صم دیکھا تو پوچھ بیٹھی۔ ماہ کامل اس کے یوں اچانک پکارنے پر چونک اٹھی۔
"ام۔۔ ہاں ٹھیک ہوں۔" چائے کا مگ اس نے لبوں سے لگا لیا۔
شام کے پانچ بج رہے تھے۔ سراقہ اور جہاندار ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔
"ڈسٹرب ہو؟"
"نہیں۔ بس کچھ الجھی کہانیاں سلجھا رہی ہوں۔ خیر تم بتاؤ۔ اب ٹھیک ہو نا جانان؟ مجھے تمہاری جانب سے بہت فکر رہی تھی۔" اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اپنی انگلیوں سے سہلانے لگی۔
"پتا نہیں ماہ۔۔ مجھے نہیں پتا کیسے جہاندار نے میرا دل یوں اتنا مطمئن کردیا۔ ان کی باتیں۔۔ ان کا لہجہ میرا دل سکون کر گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ جہاندار کی باتیں مجھے اپنی جانب نہ کھینچ لیں اور یہی ہوا۔ میں پھر سے ان کی ہو کر رہ گئی۔ مجھے یقین آرہا ہے کہ جہاندار سب سنبھال لیں گے۔ وہ مجھے تنہا نہیں چھوڑیں گے۔" اس کا یوں کہنا ماہ کامل کے دماغ میں چند الفاظ گھما گیا۔
'تنہا نہیں چھوڑیں گے۔۔'
اسے یقین تھا۔
وہی یقین جو چندا کو بھی تھا۔
وہی یقین جو چندا کو برباد کر گیا تھا۔
وہی یقین جو پہلے بھی ایک زندگی خراب کر گیا تھا۔
اس نے تھوک نگلتے ہوئے انگھوٹے سے پیشانی مسلی۔
یہ الجھے رشتے، یہ الجھے قصے!
"مجھے خوشی ہے جانان۔ بہت خوشی ہے۔ جہاندار بھائی ایک مضبوط مرد ہیں۔ میری دعا ہے کہ وہ تمہیں تنہا نہ کریں۔ وہ کہانی دوبارہ نہ دہرائی جائے۔" وہ مسکرا دی۔
"کون سی کہانی؟"
"میں نے کچھ صفحوں میں پڑھیں تھی۔ بہرحال میں جانتی ہوں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سلیم کو کال کرنا بھی یاد نہ رہا۔ اب سوچ رہی ہوں کہ کال نہ کروں۔ کل میں اور سراقہ گاؤں جا رہے ہیں۔ پھر ہی سب سے ملاقات ہوگی اور حالات کی خبر ہوگی۔ مجھے حیرانی ہے کہ ہماری حویلی والوں نے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا۔"
"جہاندار نے کہا ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو وہ ولیمہ بھی کریں گے۔ مجھے بھی ایک خوبصورت دلہن بننا ہے۔" اس کا لہجہ اور تجسس اس بات کی علامت تھا کہ وہ جہاندار کے ساتھ اچھے دن گزار رہی ہے۔ اس کے لبوں کی مسکراہٹ اس نے کئی ہفتوں بعد دیکھی تھی۔ وہ خوش تھی۔۔ چلو اتنے غموں میں ایک چھوٹی خوشی تو ملی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"جہاندار کو کال ملاؤ کیہان۔۔ اور اس سے پوچھو کہ کیا وہ لڑکی حویلی چلی گئی؟ اکبر میاں کی جانب سے آخری پیغام کے بعد اب کوئی پیغام تو نہیں آیا۔ ہمیں لگتا ہے کہ زندگی میں پہلی بار جہاندار ہماری بات کو آسانی سے مان گیا۔ ذرا خیر خبر تو لو۔" اس بات سے لا علم کے خود اکبر حویلی والے چند دنوں کی خاموشی چاہتے تھے' دادا اخگر نے کیہان کو حکم دیا۔
"طلاق کیوں چاہتے ہیں ابا میاں؟"
"تاکہ اس زمین کا قصہ ہی ختم ہو۔ اکبر میاں نہیں مانیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے اس سے گزارش بھی کی کہ میرے بیٹے کی خوشیاں نہ چھینو تو بھی نہ مانے گا۔"
"ظاہر ہے انہیں زمین چاہئیے۔ بہرحال میں کردیتا ہوں کال۔ ابھی ذرا زمینوں سے ہو آؤں پھر رات کو تسلی سے کرتا ہوں۔" انہیں اطمینان دلاتے ہوئے وہ باہر نکل گئے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں نے وہ خط پڑھے۔" رات کھانے کے بعد وہ بستر پر سراقہ کے بلکل سامنے آبیٹھی۔ سراقہ نے لیپ ٹاپ اسکرین سے نظر ہٹائی۔
"پھر کیا ملا؟" وہ اسے بغور نہیں دیکھ سکا۔ ماہ کو لگا جیسے اس سے نگاہیں چرا گیا ہو۔
"جاوید کون تھا؟" یہ سوال یکدم تھا۔۔ یا پھر شاید سراقہ کو لگا تھا۔ وہ ٹھہر سا گیا۔ ماہ کامل اس کی جانب سے جواب کی طلب گار تھی۔
"اس خط میں جاوید نام کے کسی شخص کا ذکر ہے سراقہ۔۔" اس نے پھر سے بتایا۔ لیپ ٹاپ بند کرتا ہوا وہ اٹھ کر اپنی بک شیلف تک آگیا۔ کافی لمحے گزر گئے اور کمرے میں خاموشی قائم رہی۔ "آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے ان سوالوں کا جواب دیں گے جو میں خط پڑھنے کے بعد کروں گی۔" اس نے یاد دہانی کرواتے ہوئے فرش پر پاؤں رکھے۔
"ماہی۔۔" گہری سانس خارج کرتے ہوئے اس نے ماہ کو دیکھا۔ "تم نے کیا پڑھا؟"
"آبرو چچی کسی جاوید سے چندا کی شادی کروانا چاہتی تھیں سراقہ۔۔ مگر میری ماں کے انکار نے انہیں میری ماں سے نفرت کرنے پر مجبور کردیا۔"
"جاوید میرے ماموں تھے ماہی۔۔ چھ سال پہلے انہوں نے خود کشی کرلی تھی۔" اس نے بتاتے ہوئے دوبارہ نظریں چرائیں۔
"خود کشی؟" ماہ کے لبوں نے جنبش کی۔
"ان کی ذہنی حالت کبھی درست نہیں رہی تھی۔ ہمیشہ سے کٹ مرنے کی باتیں کرتے تھے۔ سب جانتے تھے ان سے کوئی شادی نہیں کرے گا اس لیے امی چاہتی تھیں کہ ان کی نند کرلے۔ وہ جانتی تھیں کہ دادا اخگر کبھی نہیں مانیں گے اس لیے۔۔" وہ بولتے بولتے ٹھہر سا گیا۔ ماں کے قصے یوں سنانا بھی ایک اذیت تھا۔ "اس لیے انہوں نے حویلی والوں کے جھگڑے کے بعد تب یہ ذکر دوبارہ اٹھایا جب شاداب چچا اور چندا کی طلاق پر بات آئی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ دادا اخگر مان جائیں گے۔۔ مگر جب دادا اخگر اور چندا دونوں ہی اس رشتے سے نہ راضی ہوئے تو۔۔" اب کی بار خاموشی چھا گئی۔ وہ چاہ کر بھی نہ بول سکا۔ ماہ کامل بغور سن رہی تھی۔ "بہرحال نانی جب تک حیات رہیں' ان کا خود خیال رکھا۔ ان کی وفات کے کچھ ماہ بعد جاوید ماموں نے بھی خود کشی کرلی۔"
"آپ نے وہ بات ادھوری کیوں چھوڑی سراقہ؟" اس کا دھیان وہیں اٹک گیا۔
"معذرت مگر میرے لیے یوں بتانا تکلیف دہ ہے۔ بیٹا ہوں۔ جیسی بھی ہوں مگر میری تو ماں ہیں نا۔" وہ شرمندگی سے کہتا ہوا وہ جھجک مٹاتا باہر نکل گیا۔ ماہ کامل نے تکلیف سے آنکھیں میچ لیں۔ وہ مزید ان باتوں کو آج نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے کمرہ صاف کرنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"وہ میرے ساتھ ہے اور ہاں۔۔ میں نے اسے چھوڑا نہیں ہے۔" اس کے بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں گھماتا ہوا وہ دھیمی آواز میں کال پر بولا۔ گہری نیند سوتی جانان اس کی اطمینان کی گہری وجہ تھی۔ وہ مسکرا دیا۔
"نہیں میں نہیں چھوڑوں گا۔ آپ دادا اکبر سے کہہ دیں کہ یہ ممکن نہیں۔ زمین آپ کا مسلہ ہے۔ میری بیوی کو اس زمین سے نہ جوڑیں۔ وہ میری ہے اور زمین آپ لوگوں کی۔۔ اگر آپ لوگ زمین دینا چاہتے ہیں تو دے دیں۔ نہیں دینا چاہتے تو اکبر دادا کو صاف انکار کردیں۔ میں اپنی شادی شدہ زندگی کا آغاز کر چکا ہوں۔ خوش ہوں کیہان چچا۔" جانے آگے سے کیہان نے کیا کہا تھا جسے سننے کے بعد جہاندار رنے گہری سانس خارج کرکے کال رکھ دی تھی۔
نگاہیں اس کے سانولے چہرے پر تھی جو اس کو بے پناہ پرکشش بناتا تھا۔ سیاہ بالوں کو چھوتا ہوا اس کو پوری چادر اوڑھا کر دوسری جانب آ لیٹا۔ ایک اور دن کا اختتام ہورہا تھا۔۔ ایک وہی تھی جو اسے برداشت کر سکتی تھی اور ایک جہاندار ہی تھا جو اس کے ہاتھوں بگڑنا چاہتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ اگلے ہی دن سراقہ کے ہمراہ اخگر حویلی آگئی تھی۔ دادا اخگر نے اسے گلے لگایا تھا اور سراقہ کو پوچھا بھی نہیں تھا۔ وہ اس سے جہاندار والے معاملے میں اب تک ناراض تھے۔ زینت چچی بار بار جہاندار اور جانان کی خیریت پوچھ رہی تھیں۔ انہیں بیٹے کی یاد تڑپا رہی تھی۔
جہاندار نے انہیں کال کر کے یقین دلایا تھا کہ وہ ان سے ملنے جلد آئے گا۔ وہ خوش تھیں۔۔ اور اب مطمئن بھی۔
ماہ کامل کمرے میں تھی جب سراقہ نے آبرو کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
"کون ہے؟ آجاؤ۔" ماں کی آواز پر وہ اندر داخل ہوا۔ نگاہ سراقہ پر پڑتے ہی آبرو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ دوسرے ہی پل آبرو نے اپنا چہرہ موڑ لیا۔
"کیسی ہیں اماں۔" اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا ہوا تھا۔ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ اس سے کیا دشمنی بھلا۔ وہ اپنی جھجک مٹاتا ہوا بستر کے نزدیک آیا۔
"باہر جاؤ سراقہ۔"
"میں نے آپ کو بہت یاد کیا اماں۔" اب کی بار وہ بلکل ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ آبرو چچی نے تھوک نگل کر رخ دوسری ہی جانب موڑ لیا۔ وہ خود کو اس کے آگے نرم نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
"مجھے نہیں لگتا کہ میرا بیٹا مجھے یاد کر سکتا ہے۔ اس نے خود کہا تھا کہ میرا بیٹا ہونے پر اسے افسوس ہے۔" ان کا یہ لہجہ اسے تڑپا گیا۔
"اماں۔۔" وہ تکلیف سے بولا۔ "اماں ایسا نہ کہیں۔ مم۔میں بس۔۔ شاید میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ مگر اماں یوں کہیں گی تو مجھے تکلیف ہوگی۔ میں آپ سے ملنے آیا ہوں۔ مجھے یونہی لوٹا دیں گی؟" اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"سراقہ یہ چند دن میں نے تیرے الفاظ پر بڑی تکلیف سے گزاریں ہیں۔ اولاد کچھ کہے تو سینہ چیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ تو جا یہاں سے۔۔ مجھے تجھ سے کوئی بات نہیں کرنی۔ تو چلا جا اور اب میرے سامنے مت آنا۔ تجھے دیکھوں گی تو وہ سب کچھ یاد آجائے گا۔ تو جا سراقہ! تو چلے جا۔" انہوں نے ایک بار بھی اس کا چہرہ نہ دیکھا۔
"اس وقت مجھے آپ کی بے حد ضرورت ہے اماں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ دل بوجھل تھا۔ وہ اپنا بوجھ ان کی گود میں سر رکھ کر اتارنا چاہتا تھا۔ "میری زندگی میں بہت کچھ میری مرضی کے خلاف ہونے والا ہے۔ میں خود کو شکستہ محسوس کرنے لگا ہوں۔ میرے لیے دعا کیجیے گا اماں۔ خدا سے کہیے گا کہ سراقہ کی قیمتی چیز اس کے پاس ہی ٹھہر جائے۔" وہ کہتا ہوا تیزی سے باہر نکل گیا۔ کمرے کا پردہ اس کے گزرنے پر ابھی بھی ہل رہا تھا۔ آبرو کی آنکھیں اس راستے کو تک رہی تھیں جہاں سے ابھی سراقہ ہو کر گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ماہ کامل چلی گئی؟" اس نے اداسی سے ٹیپو سے پوچھا۔
"جی۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو ناشتہ دے دوں۔" اس نے جلا ہوا پراٹھا اور سخت انڈے کی پلیٹ اس کے آگے رکھی۔
"تم ہی کھاؤ۔" سیاہ پراٹھے سے وہ اپنے دن کا آغاز نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے جہاندار کو کال ملائی۔
"میں اکیلے یہاں کیا کروں گی جہاندار؟ آپ نے جانے سے پہلے بھی مجھے نہیں اٹھایا۔ مل تو لیتے۔۔" اس نے لان میں قدم رکھا۔
"جانان میں تمہیں چھوڑ کر نہیں گیا، آفس میں ہوں۔" وہ ہنس دیا۔ "تھوڑی دیر تک آجاؤں گا گھر۔ ویسے بھی اب سراقہ اور ماہ کامل نہیں ہیں تو میں تمہیں گھر پر اکیلے زیادہ دیر چھوڑ بھی نہیں سکتا۔ نازلی کے علاؤہ کوئی بھی آئے تو تم دروازہ مت کھولنا۔" اس نے تاکید کی۔
"آپ نے رات سرہانے میرا موبائل رکھ دیا تھا؟" وہ اس کا موبائل خود سائڈ میز پر رکھ گیا تھا۔
"ہاں کیونکہ اب مجھے تم سے کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم کچھ کرو گی۔" وہ ہنس دیا۔
"اور اگر میں نے کچھ کردیا تو؟" اس نے وجہ جاننی چاہی۔
"اچھا؟ کیا کرو گی پھر بتاؤ؟"
"بابا کو کال کرسکتی ہوں۔ انہیں بلا سکتی ہوں۔ ان سے کہہ سکتی ہوں کہ میں یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ وہ شہر آجائیں گے " جانے اب وہ کیا کہنے والا تھا۔
"میں ابھی مرا نہیں۔۔ زندہ ہوں۔ آج نہیں تو کل انہیں ویسے بھی شہر آنا ہی ہے جانِ جاناں! کل نہ سہی آج ہی سہی!" کبھی جو وہ سنجیدہ ہو! اس کے غیر سنجیدہ رویے پر جانان صرف بے چارگی سے سر ہلاتی رہ گئی۔
"اچھا کب تک آئیں گے۔" ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ اس نے ہتھیلی پھیلا کر بوندوں کو جگہ دی۔ "بوندا باندی ہورہی ہے۔"
"اچھا؟ بس ایک گھنٹے تک آؤں گا۔ موسم تو واقعی اچھا ہورہا ہے۔ تم نے ناشتہ کرلیا؟" وہ شاید لیپ ٹاپ پر کچھ ساتھ ساتھ ٹائپ بھی کر رہا تھا۔
"ٹیپو نے جلا ہوا پراٹھا بنایا ہے۔" وہ روہانسی ہونے لگی۔ "میرے لیے باہر کے گرم گرم پراٹھے لے آئیں۔" اس کی معصوم خواہش پر وہ مسکراتا رہ گیا۔
"جی اور کچھ؟"
"چائے بھی باہر کی۔۔ اور ہاں! پھولوں کی دکان سے دو پھولوں کے کنگن بھی!" لبوں پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔
"اچھا ٹھیک! میں لے آؤں گا۔ ابھی کال رکھتا ہوں۔ میٹنگ کا آغاز ہونے والا ہے۔" اسے خدا حافظ کہتا ہوا وہ رابطہ منقطع کر گیا۔
وہ اندر جانے کو مڑ رہی تھی جب اس کا فون بج اٹھا۔ 'بابا'کا نام اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔ اسے باپ کی شدت سے یاد آئی۔ کال اٹھا کر اس نے فون کان سے لگایا۔
باپ کی آواز سنے بھی وقت ہوگیا تھا۔ ایک گہری سانس اندر کھینچ کر اس نے خارج کی۔
"بابا۔" لبوں سے لفظ آزاد ہوا۔
"جانان بیٹی۔۔" ان کی آواز میں ایک تڑپ تھی۔ "تو ٹھیک ہے نا جانان؟"
"ابا جی میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟" آنکھیں نم ہونے لگیں۔ "مجھ سے ملنے چلے آئیں ابا۔"
"میں تجھے وہاں سے لے آؤں گا۔ تیرا باپ تجھے وہاں نہیں چھوڑے گا۔ تو فکر نہ کر طلاق کی۔ اب تجھے مزید شہر میں نہیں رہنے دیں گے۔ ہم خلع دلوائیں گے جانان۔ اس بےغیرت شخص کو طلاق دینی پڑے گی۔" وہ بیتابی سے بولے۔
"ایسا نہ کہیں۔۔ مجھے طلاق نہیں لینی بابا۔ میں یہیں رہنا چاہتی ہوں۔ جہاندار کے ساتھ نئی زندگی شروع کر چکی ہوں اور اب یہ سب ناممکن ہے۔ میں اپنا گھر خراب نہیں کروں گی۔ اگر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو آجائیں مگر میں حویلی نہیں جاؤں گی۔" ہاں اب یہ سب واقعی ناممکن تھا۔ زندگی شروع کر کے پھر پلٹنا دشوار تھا۔
"تم۔۔ تم واپس نہیں آؤں گی جانان؟" ان کا ششدر لہجہ جانان کو تھوک نگلنے پر مجبور کر گیا۔ انہیں امید نہیں تھی کہ جانان ان کی نافرمانی کرے گی۔
"بابا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ میں اپنی خوشیوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتی بابا۔ مجھے آپ کی یاد آتی ہے۔ مجھ سے ملنے چلے آئیں بابا۔" اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
یکدم ہی اسے لگا جیسے کسی نے شہاب کے ہاتھوں سے موبائل چھینا ہو۔
"لڑکی میری بات سنو! تمہیں گھر آنا ہوگا! اور اگر وہاں رہنا چاہتی ہو تو جہاندار سے زمین کے بارے میں بات کرنی ہوگی۔ اگر زمین ہمیں نہیں ملی تو تم وہاں نہیں رہو گی۔ اگر وہ بڑے بھائی کا پوتا نہ ہوتا تو ہم تمہیں کبھی یوں نہ کرنے دیتے۔ یہ لڑکا صرف تمہیں اپنی محبت میں پھنسا رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تم اکبر کی پوتی ہو۔ تم سے بدلہ لے رہا ہے۔۔ ہم سے بدلہ لے رہا ہے! ہمارا خون کھولا رہا ہے اور تم اسے یہ کرنے دینا چاہتی ہو؟ دو ہفتے دیتے ہیں تمہیں! یا تو حویلی لوٹو یا اس لڑکے سے کہو کہ اپنے دادا سے زمین ہمارے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے۔" دادا اکبر کی سخت آواز تیز دھار چھری کی طرح محسوس ہوئی۔ اسے اپنا پورا جسم بے جان ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر دادا اکبر کی شخصیت کا ایک خوف اس پر طاری ہوگیا تھا۔
"قطع تعلقی کرنا چاہتی ہو ہم سے؟ بولو؟ یاد رکھنا بیٹی اگر قطع تعلقی کرو گی تو ہمارا مرا ہوا منہ بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ بھول جانا پھر اپنے باپ، چچا اور دادا کو۔۔ ہم بھی بھول جائیں گے کہ ہماری ایک پوتی تھی۔تم سے محبت کا جتنا بھی دعویدار ہو یہ لڑکا' ہے تو اخگر خاندان سے۔۔ وہ تمہیں جینے نہیں دے گا۔ تمہارا پچھتاوا رہ جائے گا۔ سمجھ رہی ہو ہم کیا کہہ رہے ہیں؟ دو ہفتے مزید دے رہے ہیں۔ دو ہفتے بعد ہمیں تمہارا ایک مضبوط فیصلہ چاہئیے۔ اگر اس کے ساتھ رہنا ہے تو اس زمین کو ہمارے حصے میں آنا ہوگا۔" انہوں نے کال کاٹ دی تھی اور وہ وہیں سن کھڑی رہ گئی تھی۔ ہچکیاں پھر سے بندھ گئی۔ ٹیپو نے باہر آتے ہوئے اس کے بھیگے رخسار دیکھے۔
"جے جے؟" اس نے جانان کو متوجہ کروانا چاہا مگر وہ بری طرح چونک اٹھی۔ "آپ رو کیوں رہی ہیں؟"
اس کا جواب دیے بنا وہ تیزی سے کمرے میں چلی آئی۔ آنسوؤں میں روانی آگئی۔ جہاندار ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کا دل جانتا تھا وہ ایسا نہیں ہے جیسا دادا اکبر سمجھتے ہیں۔
دولت کی پٹی آنکھوں سے جانے کیوں نہیں اترتی تھی۔ پچیس سال سے اوپر ہوگئے مگر وہ اب بھی یونہی زمین کے لیے یونہی جھگڑتے تھے۔
اس نے آنکھیں رگڑتے ہوئے خود کو اطمینان دلایا۔
اسے یقین تھا کہ جہاندار سب ٹھیک کردے گا۔
اس کا دل بھی اور یہ حالات بھی۔۔
چند دن ہوئے تھے جہاندار کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیے مگر یہ دن اسے اپنے زندگی کے بہترین دن لگے۔ شاید وہ جہاندار کے ساتھ بہترین زندگی گزار سکتی تھی۔ ایسی زندگی جو وہ گزارنا چاہتی تھی۔ ایسی زندگی جس کی اسے چاہت تھی۔ ایک شخص تھا جو اس کا تھا۔ ایک محبت تھی جو اسے خاص بناتی تھی۔
اس نے موبائل کھول کر وقت دیکھا تو جہاندار کا میسج آیا ہوا تھا۔
"میرے لیے تیار ہوگی؟ میں گھر کے لیے نکل رہا ہوں پیاری جے جے۔" اس نے جے جے اسے چھیڑنے کے لیے کہا تھا۔ وہ ان آنسوؤں کے درمیان بھی ہلکا سا ہنس دی۔ یہ احساس اسے حویلی میں کبھی نہیں ملنے والا تھا۔ یہ شخص اگر اس نے کھو دیا تو کبھی حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اسے جہاندار کو اپنے پاس رکھنا تھا۔ اسے شدت سے جہاندار کی یاد آئی اور یہی یاد اس کی آنکھوں میں مزید آنسو لے آئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیسی ہو ماہ کامل۔۔" اس نے کتنے دنوں بعد باپ کی آواز سنی تھی۔ ماہ کامل کافی دیر تک کچھ نہ کہہ سکی۔ وہ خط خیالوں میں گھومنے لگے جس پر اس کے باپ کا نام تھا۔ جو اس کے باپ نے لکھے تھے۔
ماہ نے سامنے بیٹھے سراقہ کو دیکھا جو اسے پورے انہماک سے تک رہا تھا۔
"ٹھیک ہوں۔" اس نے تھوک نگلا۔
"مجھ سے حال نہیں پوچھو گی؟" شاید یہی بیتابی تھی کہ وہ بہت پیار سے پوچھ رہے تھے۔ وہ خاموش رہی۔۔ ویسے ہی جیسے وہ ان کے پاس خاموش رہتی تھی۔ خاموشی طویل ہوتی گئی تو شاداب ہلکا سا ہنس دیے۔۔ شاید بے بسی سے۔۔ "بہرحال مجھے ملازم نے بتایا کہ تم گاؤں آئی ہو؟ اس نے سراقہ کی گاڑی دیکھی تھی تو بس اسی تڑپ میں تمہیں کال ملا دی۔ مجھ سے نہ سہی اپنے بھائی سے ضرور ملنا۔ وہ تمہیں یاد کرتا ہے۔"
"میں اس سے ہی ملنے آئی ہوں۔" اس نے پہلے ہی وضاحت کر دی تاکہ شاداب اس سے کوئی امید نہ رکھ سکیں۔ "مجھے کراچی والے گھر کی چابی بھی چاہئیں۔"
"گھر کی چابیاں؟" وہ الجھے۔ "تم وہاں گئی تھی؟ اس گھر کی چابیاں تمہارے پاس ہیں ماہ۔"
"ہاں مگر اس کمرے کی چابی جو میری ماں کا تھا۔ مجھے اس کی چابی چاہئیں۔ میں اس گھر کی صفائی کروا رہی ہوں تاکہ ایک دن بدر عالم کے ساتھ اس گھر میں رہ سکوں۔" اس کی بات پر جہاں شاداب خاموش ہوئے وہیں سراقہ نے نگاہیں اس کے چہرے سے ہٹا کر دوسری جانب کرلیں۔ ہاں یہی اس کا ارادہ تھا۔
سراقہ کو اپنے دل میں عجیب ہلچل سی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایسا لگا جیسے دل بوجھل ہورہا ہو۔ وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔
"اپنی ماں کا کمرہ یونہی رہنے دو ماہ۔ اس کمرے میں جو سامان رکھا ہے اسے ویسے ہی رہنے دو۔" وہ التجا کر رہے تھے، خواہش کر رہے تھے۔
"ان کی زندگی میں آپ کو ان سے غرض نہیں تھی' موت کے بعد کیسے ہوگئی شاداب! وہ خط، وہ باتیں جو چندا نے آپ کے جانے کے بعد آپ کو لکھے' وہ آپ کے لیے بے معنی تھے۔ میں جانتی ہوں وہ مکان آپ کا ہے مگر وہ میرا گھر ہے۔" بھلا وہ کیوں ایسا چاہتے تھے؟ چندا کی موت کے بعد تو وہ خود بھی کبھی گھر نہیں گئے ہوں گے۔ شاداب خاموش رہے البتہ دل روتا رہا۔ چیختا رہا، پکارتا رہا۔ اس نے رابطہ منقطع کیا اور بالکنی میں آکھڑی ہوئی۔
کہانی آگے بڑھ رہی تھی۔ اختتام قریب تھا۔ وہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بے حد نزدیک کھڑی تھی۔ مگر اسے علم نہیں تھا کہ جس دل کے اطمینان کے لیے وہ یہ سب کر رہی ہے' اختتام میں وہی پھر جائے گا۔
باغ کی چئیر پر بیٹھا سراقہ خالی خالی نگاہوں سے سامنے اندھیرے کو دیکھ رہا تھا۔ دن ڈھلنے لگا۔
کہانیاں ادھوری رہ گئیں۔
ہر کردار ادھورا رہ گیا۔
ہر شخص تکلیف میں تھا۔
ہر دل بیزار تھا، پریشان تھا، اداس تھا۔
کسی کو محبت آزما رہی تھی، کسی کو پوشیدہ راز!
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے زرد رنگ کام والا سوٹ پہنا تھا جو ماہ کامل نے اسے گاؤں جانے سے پہلے تحفے میں دیا تھا۔ ہاتھوں میں کالی چوڑیاں تھیں۔ اس نے آج پہلی بار وارڈروب کی دراز دیکھی تھی جس میں جہاندار کا اس کے لیے لایا ہوا سامان تھا۔ اسے نہیں یاد وہ یہ سامان اس کے سامنے لایا ہو۔ شاید وہ یہ پہلے ہی خرید کر رکھ چکا تھا۔ بالوں کا ڈھیلا جوڑا بنا ہوا تھا۔
جہاندار کی نگاہیں اس پر تھیں۔ اسے دیکھنے وہ سیدھا گاڑی پارک کر کے بالکنی میں آیا تھا۔ سیاہ کوٹ میں ہمیشہ کی طرح وہ اچھا لگ رہا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور لبوں پر مخصوص مسکراہٹ تھی۔ بازو ریلنگ پر رکھتا ہوا وہ اسے فرصت سے تک رہا تھا یا شاید اس کے کچھ خاص تاثرات نوٹ کر رہا تھا۔ جانان کی نگاہیں اٹھانے کی دیر تھی' جب وہ ٹھٹکا۔
"کیا ہوا ہے؟"
اسے لگا وہ پکڑی گئی۔ جانان نے نفی میں سر ہلایا۔
"کچھ نہیں۔۔"
"تمہاری آنکھیں سرخ ہیں۔ چہرہ اترا ہوا ہے۔ کیا ہوا ہے جانان؟" اس نے جانان کا ہاتھ تھاما۔
"کچھ نہیں ہوا۔ پورے بیس منٹ لیٹ ہیں آپ! میں آدھے گھنٹے سے تیار ادھر اُدھر گھوم رہی ہوں۔۔" وہ ہاتھ کے اشارے سے بتاتی ہوئی اپنا لہجہ نارمل کرنے لگی۔ جہاندار ہنس دیا۔
"میرا انتظار کر رہی تھی؟" یہ احساس بھی اچھا تھا۔
"بہت زیادہ۔۔ چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ پھر میں نے ٹیپو کو چائے گرم کرنے کا کہا۔"
"واقعی! اتنا کام تو میں نے کبھی آفس میں بھی نہیں کیا۔" وہ جان بوجھ کر حیرانی سے کہتے ہوئے کوٹ کی جیب سے کنگن نکالنے لگا۔
موتیا کی بھینی بھینی خوشبو اس کا موڈ خوشگوار کر گئی۔
"مجھے لگ رہا تھا آپ بھول جائیں گے۔" وہ دھیما سا مسکرائی۔
"میں تمہاری کوئی بات نہیں بھولتا جانان!" اس نے بنھویں اچکا کر اسے باور کروایا تھا کہ وہ کبھی ایسا نہ سوچے۔ اس کی دونوں کلائیوں میں کنگن ڈال کر اس کو بالوں میں لگانے والے گجرے دکھا رہا تھا۔ جانان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"میں نے جوڑا باندھا ہے۔" اس نے ناز سے اپنے جوڑے کو ہاتھ لگایا جیسا دکھا رہی ہو۔
"اور میں ان میں لگانے والے گجرے لایا ہوں۔" اس نے اسی کے انداز میں بتایا تو دونوں ساتھ ہنس پڑے۔ وہ گھومی تو جہاندار اس کے جوڑے میں گجرے ٹکانے لگا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔۔ خوشی سے لب پھیلتے جارہے تھے اور دل محبت سے بھرتا جا رہا تھا۔ دوسرے ہی پل اس کی مسکراہٹ معدوم ہوگئی۔ اس کی آنکھیں بھرنے لگیں۔ اسے جہاندار کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنا تھا۔ وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔
اس کے بالوں میں گجرے سجاتا جہاندار خوش تھا۔۔ مطمئن تھا۔
وہ ایک کال، وہ چند جملے اس کو ایک دم خوف میں مبتلا کر گئے۔ کاش ایک رات قبل جہاندار اس کے بازو میں یہ موبائل ہی نہ رکھتا۔ نہ وہ کال اٹھائی جاتی اور نہ اسے اس کی سزا سنائی جاتی۔ یہ محبت کے دن اتنے مختصر نہیں ہونے چاہئیں۔ اسے وہ زندگی بھر کے لیے چاہئیے تھا۔ اسے وہ ساتھ چاہئیے تھا۔۔ جہاندار۔۔ جسے وہ اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھنا چاہتی تھی۔ کاش وقت کو روکا جاسکتا۔ اگر زندگی میں آنے والے پل خود لکھے جاتے تو ہر ورق میں اپنا نام جہاندار کے ساتھ لکھتی، اسے اپنا لکھتی۔ بوندا باندی ایک پھر سے شروع ہوچکی تھی۔ شاید یہ بادل اس کے دل کا حال جان گئے تھے۔ کھل کر برسنا چاہتے تھے۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔۔
YOU ARE READING
میں ماہ کامل ہوں
Randomایک لڑکی کی کہانی جس نے اپنی زندگی کی کتاب خود اپنے ہاتھوں سے لکھی۔ محبت اور نفرت پر مبنی ایک داستان۔۔