ساتویں قسط

129 9 1
                                    

"سلیم۔۔" اس کے ہونٹ کپکپائے۔ وہ چونک سا گیا۔
"تم ٹھیک ہو؟"
"میں نہیں جانتی۔ بدر ٹھیک ہے؟" موبائل انگلیوں کی لرزاہٹ کے باعث کان سے پھسل رہا تھا۔
"ہاں وہ بہتر ہے۔ تم رو رہی ہو؟"
"نہیں۔۔ بس پریشان ہوں۔ تھکاوٹ سے چور ہوں۔"
"کس چیز کی تھکاوٹ؟" اس کا دل ڈوبنے لگا۔
"روح کی تھکاوٹ۔۔ ذہن کی تھکاوٹ۔۔" آواز لرز رہی تھی اور دل غم سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی سب کچھ جان گیا۔ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ اسے لوگوں کے رویے مارتے ہیں۔۔ اسے سب سے زیادہ تکلیف لوگوں کے لہجے دیتے تھے۔ وہ جانتا تھا۔۔ اس کا دوست تھا۔ اسے خوب پہچانتا تھا۔
"تمہیں سراقہ کی موجودگی کی ضرورت ہے۔" لمبی خاموشی کو توڑتا ہوا وہ بے ساختہ بولا۔ وہ سسکیاں بھرنے لگی۔ چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ پائی۔
"میں بس کچھ وقت تنہائی میں گزارنا چاہتی ہوں۔ عالم کا خیال رکھنا سلیم۔۔ میرے ہوتے ہوئے بھی۔۔ اور نہ ہوتے ہوئے بھی۔۔ اس کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ چندا کی طرح میرا بھی عکس دھندلا رہا ہے۔ میں خود کو مٹتا ہوا محسوس کر رہی ہوں۔" اس نے رابطہ منقطع کردیا۔ سلیم نے خود کو ساکت ہوتا ہوا محسوس کیا۔ اس کے الفاظ کیسے اس کا وجود جھنجھنا گئے تھے۔ وہ پیچھے ہو کر صوفے دھپ سے گرا۔ شاید یہ اس کی باتوں کا اثر تھا۔ ماہ کامل کی باتیں اسے ششدر کر گئی تھیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے نیلے آسمان کو دیکھا اور پھر انگلیوں کے درمیان دبی سگریٹ کو تکنے لگا۔ خود کا سکون پانے کے لیے وہ ماہ کامل کو حویلی میں تنہا کر آیا تھا۔ آج نہ سہی تو کل۔۔ شہر تو لوٹنا ہی تھا۔
آواز پیدا ہونے پر اس نے سر اٹھا کر ٹیرس پر دیکھا جہاں جہاندار کھڑا سگریٹ سلگا رہا تھا۔ وہ مسکرا دیا۔
ہر ذات کی اپنی کہانی چل رہی تھی۔۔
سب اپنی مشکلوں کے بوجھ میں دبے ہوئے تھے۔
اس نے شہر آنے کے بعد خود کو بہت خاموش سا محسوس کیا۔ شاید یہاں ماہ کامل نہیں تھی۔
ماہ کامل وہ واحد ایک ایسی انسان تھی جو اس کی تھی۔
وہ شان سے کہہ سکتا تھا کہ وہ میری ہے۔ اس کے پاس اختیار تھا۔۔ اور یہی ایک احساس اس کے رشتے کو خوبصورت بناتا تھا۔ یکدم ہی اس کا دل چاہا کہ وہ ماہ کامل کی آواز سنے۔ ابھی کال ملاتا ہی کہ آنے والی کال سے موبائل روشن ہوگیا۔ نام پڑھتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی اور اٹھتا ہوا باہر نکل گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اگلا دن بھی یونہی گزر گیا۔ ہوسٹل کے کیفیٹیریا میں بیٹھتے ہوئے اس نے کسی کی موجودگی بے حد شدت سے محسوس کی۔ وہ جب جب شہر میں ہوتا تھا' جانان اس کے ساتھ ہر اتوار ہوسٹل کے کیفیٹیریا میں بیٹھتی تھی۔ پھر وہی لمبی باتیں اور دل کی کہانیاں اور انہیں زبانی سنانا۔۔
"تم ایک بے وقوف لڑکی ہو جانان۔" اس نے خود سے کہا اور مٹھیاں بھینچ لی۔ "اور شاید بد نصیب بھی۔" اس کی آنکھیں نم ہونے لگی۔
سلیم ٹھیک کہتا تھا۔۔
وہ بدھو ہے۔
صرف دوسروں کا خیال رکھتی ہے اور خود کو بھول جاتی ہے۔
صرف دوسروں کا دل رکھتی ہے اور اپنے دل کو تھپکیاں دے کر سلا دیتی ہے۔
کاش وہ کبھی اپنے بارے میں سوچ لیتی۔
وہ چندا نہیں بن سکی۔۔
وہ اس کی طرح نہیں بن سکتی تھی۔
چندا تو ہمت والی تھی۔
جانان کمزور نکلی۔
وہ زمانے سے ڈر گئی۔۔
وہ اپنوں کے چہرے نہ پہچان پائی۔
اس نے آنکھیں موند لیں۔
دل پر بوجھ محسوس ہونے لگا۔
"تم بدھو ہو جانان۔" اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور رخسار پر بہنے لگا۔
وہ دونوں کہنیاں میز پر ٹکا کر اپنا سر ان پر رکھتے ہوئے چھپا گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"سراقہ بھائی نے منع بھی کیا تھا۔ آپ یہ سب کیوں کر رہی ہیں ماہ باجی؟" اس کے کانوں میں آواز پڑی۔ اگلے دن کا آٹا گوندھتی ماہ نے آٹے والے ہاتھوں سے سر پر دوپٹہ درست کیا۔
"سراقہ یہاں پر نہیں ہیں اور ان کے اصول صرف ان کے سامنے ہی پورے ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے نہیں۔۔" اس کا اشارہ آبرو کی جانب تھا جسے خیرو سمجھ گیا تھا۔
"آپ انہیں کیوں نہیں بتاتیں؟ وہ آپ کے لیے بولیں گے۔"
"کب تک بولیں گے؟ ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ اس مگ میں تھوڑا پانی بھردو۔" اس نے ساتھ رکھا خالی مگ خیرو کی جانب بڑھایا۔
یہ پورا دن بھی کچن میں گزر گیا۔
اب تو کمرے سے زیادہ کچن میں ہی وقت لگتا تھا۔
دادا اخگر اب بھی بے خبر تھے۔ البتہ انہیں آبرو کی فطرت کا علم تھا۔۔
"جیسی ماں ویسی بیٹی۔۔" اسے باہر سے آبرو کی بڑبڑانے کی آواز آئی۔ ماہ نے آنکھیں میچ کر کھولیں اور سامنے دیوار کو گھورنے لگیں۔ رویے دماغی مفلوج کردیتے تھے۔ اسے چند لمحے خود کو سنبھالنے میں لگے۔ خیرو اس کا صبر دیکھ رہا تھا۔مزید چند کام نبٹا کر وہ اوپر کمرے میں چلی آئی۔ بستر پر لیٹتے ہوئے اس نے اپنی ہچکیاں روکنی چاہیں مگر شاید اسے ابھی رونا تھا۔
اب جب جب رونا آتا تھا اسے سراقہ کی یاد آیا کرتی تھی۔
خاموشی سے آنسو بہاتے بہاتے کب آنکھ لگ گئی اسے وقت کا اندازہ نہ ہوا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم نے کچھ کھایا؟" اخگر دادا کی پیار بھری آواز پر وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ اسے لگا جیسے وہ اخگر نہیں اکبر دادا ہوں جو روز اس سے شام کے بعد یہ سوال پوچھا کرتے تھے۔ اب یہ سوال سنے بھی کتنا وقت بیت گیا تھا۔ وہ تکتی رہ گئی۔
"ماہ بیٹی۔" دادا نے پیار سے پکارا۔
"جی۔۔ میں نے کھایا ہے۔" اس نے شام کی چائے کے برتن سمیٹنے چاہے جب زینت چچی کی آواز ابھری۔
"جھوٹ کہتی ہے یہ۔۔ دل رکھ رہی ہے ابا میاں۔ اس نے کچھ نہیں کھایا ہے۔ صرف صبح کی چائے پر گزارا کیے ہوئے ہے۔" ان کی آواز روٹھی روٹھی سی تھی جیسے وہ اس سے ناراض ہوں۔ ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی اپنی صحت کا کوئی خیال نہ رکھا تھا۔
"ماہ کامل۔" دادا کو حیرت ہوئی۔ "صرف ایک چائے پر تم نے صبح سے شام کردی؟" انہیں بے جا دکھ ہوا اور ماہ کامل کو لگا وہ ایک بار پھر اپنے آنسوؤں پر ضبط نہیں رکھ پائے گی۔ صبح سے کڑوی باتیں ہی تو پی رہی تھی۔
زینت چچی اس کی چائے گرم کرتے ہوئے ساتھ میں ٹرے سجا کر لے آئی۔ دادا اخگر نے اسے اپنے بہت پاس بٹھا لیا۔
ٹرے بسکٹس، نمکو، رس کیک سے سجی ہوئی تھی۔
دادا اخگر نے اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کو قریب سے دیکھا۔
"پیاری بیٹی۔ تم ٹھیک نہیں لگ رہی۔ کیا ہوا ہے؟" وہ یک ٹک پلیٹ کو گھور رہی تھی اور زینت چچی پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں یکدم ہی سرخ ہونے لگی۔ شاید یہ آنسوؤں کو ضبط کرنے کا نتیجہ تھا۔
"ماہ کامل۔" وہ خود پکار اٹھیں۔
اس نے تھوک نگلا۔ آنکھیں نم ہوگئیں۔
"میری چندا۔۔ یوں غم نہ دباؤ۔ یہ سب کیا ہے؟ ہمیں بتاؤ ماہ۔ ہمیں پریشانی ہورہی ہے۔ تمہاری آنکھیں ہمیں بہت کچھ بتا رہی ہیں۔" چہرے پر جھریاں پھیل گئیں۔ پیشانی پر بل مزید گہرے ہوئے۔
وہ نیچے والے ہونٹ کی لرزاہٹ پر اسے دانتوں میں دبا گئی۔ ایک موٹا آنسو آنکھ سے گرتا ہوا رخسار پر بہنے لگا۔
"پھر کیا کہتی ہیں میری آنکھیں؟ کیا یہ غم کی نشاندہی کرتی ہیں؟ بتائیں نا اخگر دادا۔۔ اپنے تو سب سمجھ جاتے ہیں۔ وہ اپنوں کے چہرے پڑھ لیتے ہیں۔ وہ جان جاتے ہیں کس کو کیا تکلیف دے رہا ہے۔ پھر آپ کیوں نہیں سمجھ پا رہے؟" اس نے ان کی آنکھوں میں گہرائی سے دیکھا۔ وہ پل میں انہیں لاجواب کر چکی تھی۔ ہونٹ اب بھی لرز رہے تھے جیسے حالات اب قابو میں نہ رہے ہوں۔
خاموشی طویل ہوگئی۔
"ہمیں بتاؤ۔ ہم سب ٹھیک کردیں گے۔" شاید وہ خود کو سراقہ کے بنا بہت تنہا محسوس کر رہی تھی۔ یہی وہ ایک بات تھی جسے وہ اس کی آنکھوں میں پڑھ سکے۔
ماہ کامل ان کے خیالات پڑھتی تو ہنس پڑتی۔ بھلا سراقہ کا یوں دور جانا اسے کبھی اتنی تکلیف نہیں دے سکا۔۔ غم تو کچھ اور تھا۔۔ جسے وہ کبھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔
"میں جانتی ہوں اس حویلی میں سب سے زیادہ اختیارات آپ کے پاس ہیں مگر میری زندگی کی کہانی میں جو آپ کا کردار ہے وہ کچھ ٹھیک نہیں کر سکتا۔ اپنے لیے سب کچھ مجھے ہی کرنا ہے نانا ابا۔" پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہوئے وہ اپنے آنسو چھپاتی تیزی سے اوپر نکل گئی۔ دادا اخگر زینت چچی کا چہرہ دیکھتے رہ گئے۔
"اسے کچھ کھلاؤ زینت۔۔ وہ اپنی طبیعت خراب کر لے گی۔" چہرہ اب بھی ساکت تھا۔ "اور خیرو کے ہاتھوں ہمارا موبائل بھجواؤ۔ ہم ابھی سراقہ کو بلوائیں گے۔" اب کی بار انہیں سراقہ پر غصہ آیا۔ زینت چچی اثبات میں سرہلاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے شام کے بعد کا پورا وقت کمرے میں بند ہو کر گزارا۔ ملازمہ نے کئی بار دروازہ کھٹکھٹایا تھا جب دوسری جانب سے آواز نہ محسوس ہوئی تو آبرو چچی نے ہی دروازہ پیٹ ڈالا۔ اچانک زور آواز پر اس کا دل گھبرا اٹھا تھا مگر وہ پھر بھی کچھ نہ بولی تھی۔ رات کے کھانے کے لیے وہ اس کا رخ کچن کی جانب کروانا چاہتی تھیں۔ جانے یہ ضد تھی یا اس کے ضبط کا امتحان۔۔ اس نے آبرو چچی کی دستک کو بھی نظر انداز کردیا۔
دل پہلے سے زیادہ بھرا بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد پھر ماحول میں خاموشی چھا گئی۔ لگتا تھا جیسے آبرو چچی چار و ناچار پلٹ گئی ہوں۔ اس نے گہری سانس بھری اور میز پر رکھی اپنی ڈائری دیکھنے لگی۔
حالانکہ آج دل میں بہت باتیں تھیں مگر کچھ لکھنے کا دل نہیں تھا۔ اس نے بے دلی سے نگاہیں دوسری جانب کرلیں۔
بند کھڑکیوں کو کھول کر اس نے ٹیرس کا دروازہ بھی کھول دیا۔ تیز ٹھنڈی ہوا اس کی آنکھوں پر پڑتی ہوئی آنسوؤں کو چھیڑ گئی۔ آنکھوں کے کناروں پر خاموش ٹکے آنسو گالوں پر خود ہی بہنے لگے۔ اس نے آنکھیں موند کر انہیں دھیرے سے بہنے دیا۔ دل کی تاریکی رات کی تاریکی سے زیادہ تھی۔ ٹیرس کی دیوار پر کہنیاں رکھتے ہوئے اس نے نیچے بڑے گیراج میں جھانکا جیسے سراقہ کہ گاڑی کو تلاش کر رہی ہو۔ کاش وہ یہاں ہوتا۔ وہ کچھ غم ہی بانٹ لیتی۔ وہ اسے زمانے کی تلخیوں سے ذرا سی دیر کے لیے محفوظ کرلیتا۔
"اوہ ماہ کامل تم کتنی بے وقوف ہو۔"
وہ خود سے کہے بنا نہ رہ سکی۔
"ایک انسان سے امیدیں لگا رہی ہو۔"
اس نے لب کاٹے۔
"انسان کو اپنی عادت بنا رہی ہو۔"
رشتہ بھی کتنا عجیب ہے۔ خود ہی انسیت بڑھ جاتی تھی۔
"سب سے زیادہ تکلیف انسان دیتے ہیں۔"
اگر ایک بار پھر سراقہ اس سے پوچھتا 'کیا تم ٹھیک ہو؟' تو وہ رو پڑتی اور اپنے دل کی بھڑاس نکال دیتی۔
ماہ کامل نے اطمینان بھری سانس اندر لی۔۔
شکر تھا کہ وہ یہاں نہیں تھا۔ ورنہ وہ اپنے دل کا حال سنا ڈالتی۔۔ وہ اسے اپنے راز میں ہم راز کردیتی۔۔ یہ وہ بات تھی جس کی تکمیل وہ نہیں چاہتی تھی۔
کسی کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنا خود کو ہی کنویں میں پھینکنے کے مترادف تھا۔ وہ کسی انسان کو اپنے دل کی باتیں، اپنے جذبات سنا کر انہیں خود پر کنٹرول نہیں دے سکتی تھی۔ یہ وقت کتنا مشکل تھا۔ اس نے نگاہیں چمکتے چاند پر ٹکالیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
آسمان گہرا نیلا ہورہا تھا جب اس کی آنکھ گھبراہٹ سے کھلی تھی۔ بے چینی سے دل کی کیفیت عجیب ہورہی تھی۔
وہ واش روم میں پانی کے چھینٹیں چہرے پر مارنے گئی تھی جب پیچھے ہاتھ میں پانی کی بوتل کو کھولتا ہوا کوئی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی نگاہ واش روم کے بند دروازے پر گئی جہاں نیچے سے پھوٹتی روشنی کسی کے اندر ہونے کی علامت تھی۔ کمرے کی تمام لائٹیں بند تھیں۔ وہ لمبا چوڑا وجود پانی کی بوتل منہ سے لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ خود ہی چیزوں کے اندازے سے چلتا ہوا بستر پر دھپ سے اوندھا گر گیا۔ لیٹتے ساتھ ہی اس نے بوتل برابر رکھی چھوٹی میز پر رکھ دی۔
جانے وہ کتنی دیر خود کو واش روم کے آئینے میں دیکھتی رہی تھی۔ گھبراہٹ سے سینہ مسلتی ہوئی دس منٹ باہر نکلی تھی۔ وہی خاموشی اور وہی اندھیرہ اس کا منتظر تھا۔ سنگھار میز پر اپنا ہاتھ گھماتے ہوئے وہ موبائل ڈھونڈ کر اس کی اسکرین روشن کرتے ہوئے وقت کا اندازہ کرنے لگی۔ چار بجنے والے تھے۔ اس اندھیرے میں وہ صرف کھلی کھڑکی سے باہر ہلتے درختوں کی ٹہنیوں کو ہی دیکھ سکتی تھی۔ نماز میں ابھی وقت تھا۔ وہ دوبارہ لیٹنے کے ارادے سے بستر کی جانب بڑھ گئی۔ موبائل کی اسکرین پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی۔ اپنا دایاں گھٹنا بستر کے گدے پر رکھ کر وہ اوندھا گرتے گرتے سنبھلی۔ دونوں ہاتھ البتہ وہ رکھ چکی تھی۔ ساتھ ہی کمرے میں دو چیخیں نمودار ہوئیں۔ ایک مردانہ گھمبیر اور دوسری خوف سے مزید پتلی ہوجانے والی ماہ کامل کی آواز۔۔ وہ پوری قوت سے دور ہٹتے ہوئے فرش پر گر گئی۔ یکدم ہی سائیڈ لیمپ جلا۔
ماہ کامل کا سفید چہرہ ساکت رہ گیا۔ آنکھیں مزید پھٹ گئیں۔
"آپ؟ یہاں؟" ششدر ہوتے ہوئے وہ ہکلا گئی۔
"اگر مجھ پر گرنا تھا تو بتا کر گرتی۔ یوں یکدم گر کر کمر کی ہڈی توڑدی۔" وہ کراہتا ہوا سیدھا ہوا۔ ہاں وہی جس کی آنکھیں بھوری تھیں۔۔ سراقہ۔۔ سراقہ کیہان۔۔
اس کے دونوں سراقہ کی کمر پر پوری زور سے پڑے تھے۔
وہ جواباً اسے گھور گئی۔ بھلا وہ کیوں جان کر گرتی۔
"آپ کب آئے؟" اسے یکدم ہی اپنے دوپٹے کا خیال آیا تو تیزی سے پہنتی ہوئی پوچھ بیٹھی۔ تھوڑی دیر پہلے کی حالت سوچ کر وہ جھینپ گئی تھی۔
"یہ ناٹک کرتی ہو تم؟ پچھلی بار بھی مجھے دیکھ کر یوں چیخی تھی نا؟ چلو ایک بار تو قابلِ قبول ہے مگر بار بار میں یہ نہیں قبول کر سکتا کہ تم انجان تھی۔ جان کر گری تھی نا؟" اس کی زبان آتے ساتھ ہی اپنی رفتار پکڑ چکی تھی۔ "اگر گرنا تھا تو بتادیتی۔ میں منع تھوڑی کرتا۔" اس کی باتیں! اس کی باتیں!!!! اففف! وہ اس کا دماغ گھما گیا تھا۔
"سراقہ۔" اب کی بار وہ برہم ہوئی۔ سراقہ بے ساختہ مسکرایا جیسے اس کا تنگ ہونا محسوس کر رہا ہو۔
وہ ابھی بھی زمین پر بیٹھی تھی اور سراقہ بستر پر کروٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ آگیا تھا۔۔ حویلی لوٹ آیا تھا۔
اور اب ماہ کامل کو محسوس ہو رہا تھا جیسے کمرے میں کبھی خاموشی ہی نہ رہی ہو۔ وہ یہاں تھا۔۔ جس کا مطلب تھا وہ کبھی بور نہیں ہونے والی تھی۔
"آپ کب آئے اور کیا یوں اچانک سے آکر ڈرانا ضروری ہے؟ سیدھے طریقے سے دروازے سے نہیں آسکتے؟" پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔
"پہلی بات میں دروازے سے ہی آیا ہوں ماہی بی بی۔ اپنا ایک طریقہ دوبارہ نہیں آزماتا۔ اگلی بار اڑ کر آؤں گا۔" وہ خود ہی اپنی بات پر قہقہہ لگا گیا۔ ماہ کامل نے اپنی مسکراہٹ بمشکل قابو کی۔ کیسی عجیب صورتحال تھی۔ ابھی وہ گھبراہٹ سے تڑپ رہی تھی اور اب خود کو بے پناہ مطمئن محسوس کر رہی تھی۔ فرش سے اٹھتے ہوئے اس نے اپنا غصے والا چہرہ برقرار رکھا تاکہ اس پر کچھ رعب رہے۔
"آئیندہ آگاہ کرکے آئے گا۔ مجھے یہ مذاق اچھا نہیں لگا۔" وہ پلٹنے لگی جب اس کی بات سن کر سراقہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
"قسم سے؟ سچ بولو۔" جیسے چھیڑ رہا ہو۔ ماہ کامل کا دل رک سا گیا۔ گرفت مضبوط نہیں تھی اس لیے وہ ہاتھ ہٹاتی ہوئی کمرے کی لائٹ کھول کر سنگھار میز کے آگے آکھڑی ہوئی۔
"ابھی صبح نہیں ہوئی ہے۔ تم چاہو گی تو میں صوفے پر لیٹ جاؤں گا۔" وہ جانتا تھا کہ ماہی اس کی وجہ سے دور جا کھڑی ہوئی تھی۔
"نہیں مجھے نیچے جانا ہے۔" جانے کیا ہوا۔ آواز بھیگنے لگی۔ سراقہ کو قدرے حیرانی ہوئی۔
"تم ٹھیک ہو؟" وہی ایک سوال۔۔ جس سے وہ خوفزدہ تھی۔
آنکھیں نم ہونے لگیں۔ اپنے پیچھے سراقہ کو ششدر چھوڑتی وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔ وہ بوکھلا کر رہ گیا۔ ابھی تو اچھی بھلی کھڑی تھی۔ دل اس کی جانب سے پریشان ہونے لگا۔ وہ چپلوں میں پیر گھساتا ہوا اس کے پیچھے بڑھا۔ یہ لڑکی بھی عجیب تھی۔ پل میں روٹھ جاتی، پل میں مان جاتی۔ اس کے لاؤنج میں پہنچنے تک جیسے وہ کہیں غائب ہی ہوچکی تھی۔ وہ ارد گرد دیکھ کر سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ کہاں گئی ہوگی۔ باہر لان میں جانے والا دروازہ لاک تھا۔ سراقہ نے پندرہ منٹ پہلے خود ہی تو بند کیا تھا۔ اس نے کچن کے کھلے دروازے کی جانب دیکھا۔
ہاں وہ وہیں تھی۔ آنسوؤں سے تر چہرہ اور بند آنکھیں۔۔
سراقہ نے پہلی بار اسے یوں سسکیوں سے روتے ہوئے دیکھا۔
وہ جان گیا تھا کہ ان آنسوؤں کا سبب کوئی اور ہے۔
کچھ نہ جانتے ہوئے بھی وہ سب کچھ جان گیا۔
ماہ کامل کو لگا اس کے اندر بڑھتی گھبراہٹ اب کم ہورہی ہے۔ کوئی اپنا اپنا سا لوٹ آیا ہو جیسے۔۔
جانے آج کتنی کثرت سے اس نے سراقہ کو یاد کیا تھا۔۔
جانے میں۔۔ انجانے میں۔۔
سراقہ اسے روک نہ سکا۔ اگر اس طرح دل کا بار اتارا جاسکتا ہے تو پھر وہ اسے کیوں روکے۔
دل تکلیف میں گھِر گیا کہ وہ اس کی خبر نہ رکھ سکا۔یہ لڑکی اسے ہمیشہ فون پر مطمئن کرنے کے لیے جھوٹی خبریں دیا کرتی تھی۔ اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
جانے وہ کتنی دیر سلیپ پر ہاتھ رکھ کر روتی رہی اور سراقہ دروازے کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے اسے دیکھتا رہا۔
وہ اس کی موجودگی سے غافل نہیں تھی۔
دس منٹ مزید گزر گئے۔ اب وہ ہلکی ہلکی سسکیاں بھر رہی تھی۔
"اب دل کا بوجھ اتر گیا؟" وہ پوچھ رہا تھا۔ سینے پر دونوں بازو لپیٹے ہوئے اس کے جواب کا طلب گار تھا۔
ماہی نے سسکی بھرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے اپنا چہرہ سراقہ کی جانب موڑا۔
"کتنی بھیانک لگتی ہو روتے ہوئے۔ بیوی نہ ہوتی تو خوف سے چیخ مارتا ہوا بھاگ جاتا۔ اب بھلا صبح کے چار بجے کوئی عام لڑکی نہیں ہوسکتی جو کچن میں کھلے بالوں کے ساتھ پشت کیے کھڑی رو رہی ہو۔" اس کی سرخ سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھتا ہوا وہ پیار سے مسکرایا۔ ماہ کامل روتے روتے ہنس دی جیسے جھینپ سی گئی ہو۔
"میں ٹھیک ہوں۔"
"تم نے ڈائری نہیں لکھی نا؟" وہ جانتا تھا۔۔ وہ سب جانتا تھا۔ ماہ کامل آنکھیں میچ کر کھولیں۔
"اچھا چلو ان باتوں کو چھوڑو۔ تم کمرے میں جاؤ میں باہر سے آتا ہوں۔" اس کا جواب سنے بغیر ہی وہ لان کی طرف باہر نکل گیا۔ ماہ کامل کو حیرانی ہوئی مگر وہ مزید کچھ سوچ کر خود کو تھکانا نہیں چاہتی تھی اس لیے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
بیس منٹ بعد منظر کچھ مختلف تھا۔ ٹیرس پر ایک چھوٹا سا تخت رکھا ہوا تھا جو سراقہ اوپری منزل سے اتار کر لایا تھا۔ وہ حیران اسے تخت سیٹ کرتا دیکھ رہی تھی۔
تخت ٹیرس کے درمیان رکھتے ہوئے اس نے ہاتھ جھٹکے۔
"یہاں بیٹھ جاؤ۔ میں آرہا ہوں۔" کہتے ساتھ وہ پھر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ ماہ کامل لب کاٹتی ہوئی تخت کے اوپر پاؤں کرکے بیٹھ گئی۔ کھلے بال اب جوڑے میں قید تھے۔ وہ خاموش تھی۔۔ اندر تک ویرانی چھائی ہوئی تھی۔
سراقہ سے عجیب انسیت سی ہونے لگی۔
اپنا آرام چھوڑ کر وہ اس کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ٹھنڈی تیز ہوا اس کی جلد کو چھوتی سکون پہنچانے لگی۔
"چلو شروع ہوجاؤ۔" وہ آگیا تھا۔ اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ ہاتھ میں بڑی ٹرے اور اس میں سجے لوازمات۔۔ وہ آنکھیں پھیلا کر اسے بغور دیکھنے لگی۔
سراقہ نے ٹرے اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے دونوں کے درمیان رکھی۔ دو چائے کے مگ اور دوسری پلیٹ میں ہوٹل کے چار پانچ پراٹھے۔۔ ایک پیالے میں چھولے کا سالن تھا جبکہ آملیٹ اخبار میں لپٹا ہوا تھا۔
وہ جتنی حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
دونوں پاؤں فولڈ کر کے بیٹھتے ہوئے اس نے ماہ کا چہرہ دیکھا۔
"کیا ہوا؟ صرف تمہارے لیے نہیں لایا' اپنے لیے بھی لایا ہوں۔ باخدا دوپہر کے بعد سے کچھ بھی نہیں کھایا۔" کالر والی شرٹ کے آستین فولڈ کرتے ہوئے اس نے کہنیوں تک چڑھائے۔ ماہ کامل نے اس کی کلائیوں کی ابھرتی رگوں کو دیکھا۔ اسے بھلا کیا ضرورت تھی کہ کسی لڑکی کے لیے اتنی کوششیں کریں۔ وہ وجاہت سے بھرپور ایک خوبصورت مکمل مرد تھا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔" بمشکل آواز نکلی۔
"میں نہیں مانتا کہ پورا دن خالی پیٹ رہنے کے بعد بھی بھوک نہ لگے۔ کیا کہتی ہو؟" اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ کیا وہ جانتا تھا کہ اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا؟ کیا وہ اس کی خبر رکھتا تھا؟
"آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟" اس کی اتنی محبت دیکھ کر وہ آنکھیں ہی نم کر بیٹھی۔
"کیوں نہیں کر سکتا؟ بیوی ہو یار۔ اب ایسے تھوڑی جان سے جانے دوں گا۔ خود پر رحم کھاؤ اور ان پراٹھوں پر ہاتھ صاف کرو۔" پراٹھے کا پہلا لقمہ توڑ کر اس نے اپنے منہ میں ڈالا۔ ایک عجیب سے احساس سے دو چار ہوتے ہوئے اپنے کھانے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
آسمان گہرا نیلا ہورہا تھا۔ اب دھیرے سے پرندوں کی چہچہاہٹ ابھر رہی تھی گویا ان کے اڑنے کا وقت ہو چلا تھا۔
اس کے الفاظ ماہ کامل کو اپنے دل کے بے حد قریب محسوس ہوئے۔ بھوک سے اب متلی ہورہی تھی۔ وہ ابھی ناشتے کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہی کہ پراٹھے کا لقمہ سراقہ نے اس منہ کی جانب بڑھایا۔ نگاہ یکدم سراقہ پر اٹھی۔
"حلال دوست ہوں۔ ہاتھ سے نوالہ لے سکتی ہو۔" لہجہ شریر ہوا۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔
اس کا یہ 'حلال دوست' کہنا اچھا لگا۔
اس کے ہاتھوں سے نوالہ منہ میں لیتے ہوئے نظریں جھکا گئی۔ پیٹ میں کچھ گیا تو بھوک مزید بھڑک اٹھی۔ وہ اب اس کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر تیزی سے ناشتہ کر رہی تھی۔
بہت زیادہ بھوک کا دعویدار سراقہ اس پراٹھے کے ایک لقمہ کو ہی ٹکڑوں میں کھاتا ہوا اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا جو بہت تیزی سے پراٹھا ختم کر رہی تھی۔
ہاں اب وہ اس کے آگے بے حد پرسکون اور ریلیکس تھی۔
اسے یوں دیکھتے ہوئے وہ خود پر افسوس کرنے لگا کہ اتنی خبر رکھنے کے باوجود بھی وہ یہ نہ جان سکا اس کی بیوی خود کیسی ہے۔
تھوڑی دیر بعد ماہ کامل کو احساس ہوا کہ وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا ہے تو کھانے سے ہاتھ کھینچ بیٹھی۔ عجیب شرمندگی نے آگھیرا۔
"ارے نہیں تم کھاؤ میں بس یونہی دیکھ رہا تھا۔" وہ فورا بول اٹھا۔ دس منٹ میں دو پراٹھے غائب ہوچکے تھے۔
"نہیں آپ مذاق اڑا رہے ہیں۔" وہ جھینپ اٹھی۔
"خدا نہ کرے کہ میں تمہارا مذاق اڑاؤں۔ بس سوچ رہا تھا کہ دو پراٹھے مزید لے لینے چاہئیے تھے۔ کہیں یہ پانچ پراٹھے کم نہ پڑجائیں۔" سراقہ مزید چھیڑنے لگا۔
"میں اتنا تھوڑی کھاؤں گی۔" وہ اپنے دفاع میں بولی۔
"ہاں ہاں جانتا ہوں۔ تم تو ویسے بھی نازک سی ہو۔ بہرحال تم رک کیوں گئی۔ تمہارے لیے بھی تولایا ہوں۔" پلیٹ میں صرف ڈھائی پراٹھے بچے تھے۔ سراقہ اپنا بچا ہوا آدھا پراٹھا کھانے لگا جبکہ ماہ کامل نے اپنے تیسرے پراٹھے کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
"ناشتہ بہت مزیدار ہے۔" اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
" بہت زیادہ۔" پورے دن کی بھوکی ماہ کامل کو اب کچھ تسلی مل رہی تھی۔ وہ مسکرا دیا۔۔ بلکل ویسے ہی جیسے اسے ہمیشہ دیکھ کر مسکرایا کرتا تھا۔
"تم ٹھیک ہو نا ماہی؟" چائے کی پیالی تھام کر وہ ریلیکس ہوکر بیٹھتا ہوا اسے بغور دیکھنے لگا۔
"اب ٹھیک ہوں۔" انڈے کے ٹکڑے کو پراٹھے میں لپیٹتے ہوئے اس نے منہ میں رکھا۔
"کیسا محسوس کر رہی ہو؟" لبوں پر پھیلی مسکراہٹ اداس ہوگئی۔ اسے دل میں برا لگنے لگا کہ وہ اس کی کیفیت سے پہلے کیوں آشنا نہ ہوسکا۔
"بہت بہتر، بہت اچھا۔" وہ جلدی جلدی بتاتے ہوئے ناشتہ ختم کر رہی تھی۔
"ڈائری کیوں نہیں لکھی؟ تم نے کہا تھا کہ تمہارا غم وہ دور کردیتی ہے۔ پھر کیوں اسے وقت نہ دیا؟"
سراقہ وہ سوال پوچھ رہا تھا جس کا جواب خود ماہ کامل کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ کیا کہتی؟ کہ وہ سراقہ کا انتظار کر رہی تھی؟ اس بار وہ اپنی کہانی لکھنا نہیں سنانا چاہتی تھی۔۔
ماہ کامل نے ٹھہر کر اس کا چہرہ دیکھا۔
"میں نہیں جانتی۔"
آسمان روشن ہونے لگا۔ پھر جانے کتنے ہی لمحے بیت گئے اور وہ اسے دیکھتا رہا۔
اسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ جیسے واقعی 'گھر' آگیا ہو۔
گھر تو کوئی اپنا ہوتا ہے۔۔
اور اپنا آج بے حد قریب تھا۔۔
گویا سفری تھکان اتر گئی۔۔
اس ایک اپنے کو دیکھ کر طبیعت ہی بحال ہوگئی!
گھر کوئی مکان نہیں تھا۔۔ ایک شخص تھا۔۔ جو اس کے پاس تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہیلو؟" کال اٹھا لی گئی تھی۔ اس نے تیزی سے کان میں موبائل لگایا۔
"جہاندار۔" آواز مزید دھیمی ہوگئی۔
دوسری جانب جہاندار نے اس کی آواز سن کر جیسے دل کو سکون دیا۔ ایک گہری سانس اندر کھینچتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں۔ صبح کے آٹھ بجے جانان نے اسے کال کی تھی۔ وہ کبھی کال نہ اٹھاتا اگر مقابل جانان نہ ہوتی۔
"کیسی ہو؟" سب باتیں بھلائے وہ اپنے دل میں اٹھتا سوال پوچھ بیٹھا۔
"یہ سوال بے معنی ہے۔" اس نے تھوک نگل کر نگاہیں کھڑکی سے باہر ٹکالیں۔
"ہمارے درمیان کچھ بھی بے معنی نہیں۔ تم اب بھی علیحدگی کی ضد کرو گی؟ مجھے جانتے ہوئے بھی؟" حیرانی کی تو بات تھی۔ جانان کے گویا لب سکڑ گئے۔ کوئی جواب ہی نہ بن پایا۔
"میں مجبور ہوں۔" جانے کتنے لمحوں بعد وہ کچھ کہنے کے قابل ہوئی۔
"سب کا دل رکھتی ہو۔ میرا نہیں رکھ سکتی؟"
"وہ میرے اپنے ہیں جہاندار۔۔" اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
"میں کیا ہوں جانان؟ یہ نکاح کچھ نہیں؟ جنہیں اپنے کہہ رہی ہو وہ کبھی تمہارا دل نہیں رکھ سکیں گے۔ اور جو آج تک تمہارا دل رکھتا آیا اس کی محبت کا یہ صلہ ہے؟ اسے مجبوری نہیں کہتے۔" دونوں بے حد تحمل مزاجی سے گفتگو کر رہے تھے۔
"میری ہی غلطی تھی کہ آپ کو کال ملائی۔" اس نے جان بوجھ کر غصہ دکھایا۔ دوسری جانب خاموشی چھائی رہی۔
"مزید چند دن اور۔۔ پھر میں تمہیں یہاں لے آؤں گا۔ میرا انتظار کرنا۔" اس کی بات پر وہ جیسے ششدر رہ گئی۔
"کک۔کیا مطلب اس بات کا؟"
"تم جانتی ہو۔ تم سے کچھ چھپا نہیں۔ اپنی منزل مت بھول جانا۔ تمہیں یہیں آنا ہے۔۔ میرے پاس۔۔" وہ کال رکھ چکا تھا اور جانان بوکھلا چکی تھی۔ جہاندار اسے صاف اپنے ارادے سے آگاہ کر چکا تھا۔ اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ موبائل میز پر رکھا۔ وہ جانتی تھی جہاندار اپنی بات پر پورا اترے گا۔ وہ اسے تنہا نہیں کرے گا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اس نے کل سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ کیا تم اس سے کھانے کا پوچھا؟" دادا اخگر کی فکرمند نگاہیں ماہ کامل پر تھیں۔ ان کے سامنے مؤدب کھڑا سراقہ ایک آئبرو اچکا کر ماہ کامل کو دیکھنے لگا۔
"اس کی اتنی فکر نہ کریں۔ فجر کے وقت ہی پورے چار پراٹھے، انڈہ اور چھولے کا سالن کھایا ہے۔" لبوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔ دادا اخگر نے حیرانی سے سراقہ کو دیکھا۔ البتہ ماہ کامل نے جھینپتے ہوئے سراقہ کو گھورا تھا۔
"تین کھائے ہیں۔" اس نے اپنی بات پر زور دیا تو سراقہ کو حیرانی ہوئی۔ وہ اسے آنکھیں دکھا رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ اس کی بات کا راز رکھا جائے۔ وہ کچھ حیران ہوا۔
"ہاں اس نے تین کھائے ہیں۔ دو میں نے کھائے تھے۔" وہ اس کے لئے جھوٹ بول گیا۔ اب وہ اپنے چار پراٹھے راز رکھنا چاہتی تھی تو اس میں کوئی قباحت نہ تھی۔ "ویسے میڈم تین پراٹھے بھی کم نہیں ہوتے۔ اچھی خاصی مردانہ بھرپور غذا ہوتی ہے۔" وہ یہ کہے بنا نہ رہ سکا تو دادا اخگر نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔ ماہ کامل نے خفا خفا سے انداز میں اسے گھورا۔
"اسے ایسا نہ کہو۔ ہماری بیٹی ویسے بھی صبح سے بھوکی تھی۔ اتنی غذا تو مناسب ہی ہے۔"
سراقہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
نو بجنے کو تھے مگر اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے نہ آبرو چچی باہر آئی تھیں اور نہ زینت چچی۔۔ گویا ماہی اور دادا اخگر کے سوا سراقہ کی موجودگی سے سب لاعلم تھے۔۔
"میں کمرے میں جا رہا ہوں۔ کچھ دیر آرام کروں گا۔"
بالوں پر ہاتھ پھیر کر آنکھیں زبردستی پوری کھولتے ہوئے وہ اوپر کی جانب بڑھنے لگا۔
"اس کو بھی لے جاؤ۔ ورنہ خوامخواہ کچن میں کام کرنے لگے گی۔ آج ویسے بھی اتوار کا دن ہے۔ تھوڑی دیر مزید آرام کرو۔" خیرو انہیں پہلے ہی ناشتہ دے چکا تھا۔ اسے مکمل کر کے اب وہ دوائیاں لے رہے تھے۔ سراقہ نے پلٹ کر بیوی کو دیکھا۔
"آرہی ہو یا ہاتھ پکڑوں؟" آواز دھیمی تھی کہ صرف ماہی ہی سن سکی۔ وہ جواباً زور سے گھوری دے گئی۔
"آرہی ہوں۔" قدم اس کے پیچھے بڑھنے لگے۔
"تم اب بھی کچن میں حویلی والوں کا ناشتہ بناتی ہو؟" پیشانی میں گہرے بل نمودار تھے۔ وہ 'ہاں' بولتی اگر اس کے چہرے کی سنجیدگی نہ نوٹ کرلیتی۔
"نہیں۔" اسے غصہ کرنے کا موقع دینا خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔
"مجھے خبر نہ ہو کہ تم پھر سے میرے کہے کی نافرمانی کر رہی تھی۔" اس معاملے میں وہ بے حد سنجیدگی سے سوچتا تھا۔
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہ دھپ سے بستر پر گرا۔ ماہ کامل نے شیکسپیئر کی کتاب اٹھاتے ہوئے تکیہ صوفے پر رکھا اور ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ نیند تو اب خیر آنی ہی نہیں تھی۔ پھر کیوں بلاوجہ دیواروں کو گھورا جائے۔
"چرانے والی عادت شاید تمہاری پرانی ہے۔" اس کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھ کر وہ جملہ پاس کرتے ہوئے اپنے چہرے پر تکیہ رکھ کر اوندھا لیٹ گیا۔ ماہ کامل ذرا سا مسکرائی۔ وہ سچ ہی تو کہتی تھی۔۔ سراقہ کے بغیر یہ کمرہ خاموش اور ویران ہے۔۔ اس نے اپنی نگاہیں کتاب پر مرکوز کرلیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیسا محسوس کر رہے ہو بدر؟" نیلی نے اس کے بالوں پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔ وہ ان کا چہرہ تک رہا تھا۔۔ زندہ لاش کی طرح۔۔
آج کتنے مہینوں بعد اسے اپنی ماں کی یاد آئی تھی۔ نیلی نے اس کا چہرہ پانی سے صاف کیا۔
"جس دن تم مکمل صحت یاب ہوجاؤ گے اس دن ہم حویلی میں دعوت رکھیں گے۔ تم میرے لیے بلکل سلیم جیسے ہو۔" بھائی بہنوں کے بچوں سے بھی ویسی ہی محبت ہوتی ہے جتنا اپنی اولاد سے ہوا کرتی ہے۔
وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جیسے اس کے چہرے میں اپنی ماں کا چہرہ تلاش کر رہا ہو۔ وہ آج بھی کسی فرضی کہانی کا انتظار کر رہا تھا۔۔ جیسے کوئی آئے گا اور اسے اس کی ماں سے ملانے کے جائے گا۔ وہ اسے پچھلے وقت میں لے جائے گا جہاں وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ اچھا وقت گزار سکے گا۔ وہ ابھی کسی ایسی گھڑی کے انتظار میں تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
کچن میں ہلکا پھلکا کام کر کے وہ چندا کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ کیہان چچا حویلی سے باہر تھے۔ گھڑی دوپہر کے دو بجا رہی تھی مگر آبرو چچی ابھی بھی اپنے کمرے میں ہی تھیں۔ ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچی تھی جب اسے دروازہ کھلا ہونے کا احساس ہوا۔ ہینڈل تھام کر اس نے آگے کو زور دیا۔ اندر موجود ملازمہ سے فرنیچر پر لگی دھول صاف کرواتیں زینت چچی چونکیں۔
"آپ؟" لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"ہاں بس سوچا کہ فرنیچر پر دھول کی ایک تہہ جم گئی ہے تو صفائی کروادوں۔ یہ کمرہ ہمیشہ جلد ہی دھول مٹی میں گِھر جاتا ہے۔" انہوں نے کھڑکیاں کھول کر ملازمہ کو وہاں کپڑا مارنے کا اشارہ دیا۔
"اوہ بہتر۔" اس نے ماں کی الماری پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"دادا اخگر نے بتایا کہ سراقہ آگیا ہے۔ جب ہی تو میں سوچوں کہ ہماری ماہ کا چہرہ اتنا کھلا کھلا کیوں ہے۔" وہ خود اپنی ہی بات پر مسکرا دیں تو وہ بھی ہنس دی۔ وہ کبھی نہیں مان سکتی تھی کہ اس مسکراہٹ کی وجہ سراقہ ہے۔
اس نے الماری کھولتے ہوئے اندر رکھی چیزوں کو دیکھا۔
ملازمہ جا چکی تھی۔ اب صرف زینت چچی تھیں جو ماہ کامل کو الماری میں رکھی چیزوں کو نوٹ کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔
"یہ البم۔۔" اس نے پیچھے کی جانب رکھا البم اٹھایا۔ اسے حیرت ہوئی۔
"تصویروں کا البم ہے۔ اس خاندان کی اکلوتی لڑکی تھی۔ دادا اخگر نے اس کی بچپن سے جوانی تک کی ہر تصویر اس البم میں سجائی ہے۔" انہیں یاد تھا کہ ان کی شادی کے بعد کیسے دادا اخگر اپنے سب بچوں کی تصویروں کا علیحدہ البم دکھاتے تھے۔ وہ انہیں عزیز تھی۔۔
ماہ کامل نے اس پر ہاتھ مار کر دھول کو اڑایا۔ وہ ایک بے انتہا موٹا البم تھا۔ تجسس سے پیشانی پر بل پھیل گئے۔ وہ بستر پر آبیٹھی تو زینت چچی بھی ساتھ بیٹھ گئیں۔
اسے کھولتے ہوئے ماہی نے تھوک نگلا۔۔ گویا حلق میں کچھ اٹک رہا ہو۔ وہ یادوں کی کتاب کھول رہی تھی۔۔ ماضی میں جھانک رہی تھی۔
کھولتے ساتھ ہی پہلی تصویر اس کا دل مٹھی میں قید کر گئی۔ کچھ بھوری سی وہ تصویر پرانے زمانے کی عکاسی تھی۔
ہاتھ میں غبارہ تھام کر مسکراتی چندا۔۔
اس نے دھیرے سے تصویر پر ہاتھ پھیرا۔
وہ موٹے صفحے پلٹتی گئی۔
جیسے چندا بڑی ہوتی گئی۔۔
ایک تصویر وہ بھی تھی جہاں چندا اپنی نویں جماعت کا رزلٹ لیے بہت برا سا منہ بنائے کھڑی تھی اور ساتھ کھڑے دادا اخگر مسکرا رہے تھے۔ دادا اخگر کتنے جوان لگ رہے تھے۔ سیاہ مونچھیں۔۔ دکھنے میں بلکل دادا اکبر کی طرح۔۔
صفحے پھر سے پلٹنے لگے۔۔ اور ایک تصویر پر وہ ایک بار پھر ٹھٹک گئی۔
دادا اکبر اور اخگر کی اولادوں کی ساتھ میں وہ تصویر جس میں چندا کے برابر اس کا باپ کھڑا تھا۔ مسکراتا ہوا۔۔ زندگی سے خوش ہنستی چندا اور اس کے دائیں طرف کھڑی نیلو فر۔۔ وہ کوئی کالج گرل لگ رہی تھی۔
کس کو خبر تھی کہ وقت کہاں لگ جائے گا۔
کون جانتا تھا کہ نیلو فر اپنی سہیلی کھو دے گی۔۔
شاداب بے وفائی کے کانٹوں پر چل پڑے گا۔
اور چندا۔۔
چندا محبت سے موت کا سفر طے کرے گی۔
اس نے آنکھیں میچیں تو آنسو نکل آیا۔ کچھ کہنا چاہا مگر لب ہی نہ آزاد ہوئے۔
"یہ قیس ہیں۔۔ میرے قیس فیضان۔" اس نے شاداب کے برابر کھڑے قیس فیضان کی جانب انگلی رکھی۔ ماضی تازہ ہوگیا۔ وہ محبت سے انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ وہ جو خود کا غم منا رہی تھی' نم آنکھوں سے ان کا چہرہ تکنے لگی جن کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
"یاد کرتی ہیں نا۔"
"ہر پل، ہر لمحہ، ہر وقت۔۔ کسی کے ساتھ سالوں کا واسطہ ہو تو رشتہ یونہی ختم نہیں ہوتا۔ جانتی ہو میں نے شادی کیوں نہیں کی؟ میں قیس کی جگہ کسی اور کو دے ہی نہیں سکتی۔ جہاندار ان کی امانت ہے میرے پاس۔۔ وہ ایک ایسی چیز ہے گویا جو قیس اور مجھے 'ہم' بناتی ہے۔۔ ہمارا بیٹا۔۔ ہماری اولاد۔ اپنے باپ جیسا دکھتا ہے۔ اس کے انداز اس کی باتیں سب قیس فیضان جیسی ہیں۔ جب کہتا ہے نا کہ 'اماں تھک گیا ہوں' مجھے قیس یاد آتے ہیں۔ وہ بھی جب کام کے بوجھ سے تھک جاتے تو کہتے تھے 'زینت میں تھک گیا ہوں' اور پھر میں ان کے ساتھ رات دیر تک باتیں کرتی تھی۔ مگر قیس میں غصہ نہیں تھا۔۔ جہاندار نے جانے یہ انداز کس کا چرایا۔ اب تو لگتا ہے اگر قیس کا کوئی غصیلا کردار ہوتا تو وہ جہاندار ہوتا۔" وہ مسکرا رہی تھیں۔۔ گیلی آنکھیں ماہ کامل دیکھ سکتی تھی۔ "وقت گزر گیا ماہ۔ اچھا وقت بہت جلدی گزر گیا۔ اب جس عمر میں مجھے قیس کی ضرورت زیادہ تھی وہ میسر نہیں ہیں۔" ان کا دل تکلیف کے بوجھ سے دب رہا تھا۔ وہ گھٹ کر رو رہی تھیں اور ماہ ان کے ساتھ رو رہی تھی۔
اس نے قیس چاچا کو دوبارہ دیکھا۔ جہاندار ان کی ہو بہو جوانی تھا۔ خوبصورت اور لمبا چوڑا۔۔ اپنے باپ کی طرح وجاہت سے بھرپور۔۔
اس نے صفحے پلٹنا شروع کیے۔
ایک تصویر میں قیس چاچا نے چندا کی چوٹی پکڑی ہوئی تھی اور کیہان چاچا اس کی لکھی ہوئی تحریریں اس کی پہنچ سے دور کرتے ہوئے چھیڑ رہے تھے۔ جانے کس نے قید کیے ہوں گے یہ لمحات۔۔ وہ چڑ کر ان کے ہاتھوں سے اپنی لکھی ہوئی تحریریں چھیننے کی کوشش کر رہی تھی۔ شاید دادا اخگر اپنے بچوں کے ہر لمحات محفوظ رکھنے کے شوقین تھے۔
پھر ایک تصویر وہ بھی آئی جہاں زینت چچی اور چندا ہنستے ہوئے کھڑے ملے۔
"چندا ایک زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ اسے شوق تھا خط لکھنے کا۔۔ لکھ لکھ کر حویلی کے دوسرے افراد کو ہی بھیجا کرتی تھی۔ اسے پسند تھا سو ہم اس کی پسند کا احترام کرتے تھے۔"
اس نے وہ ساری تصویریں دیکھیں جس کے بعد اس کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھا۔
"کیا میری ماں بد چلن تھی؟" زینت چچی کا دماغ سن ہوگیا۔
"ماہ کامل۔" دو الفاظ نکلے۔
"کیا چندا بدکردار عورت تھی چچی؟" لہجے میں پختگی تھی۔ لب کپکپا رہے تھے۔
"نہیں ماہ۔۔ وہ ایک پیاری لڑکی تھی۔ دل کی پیاری۔۔ ہر کسی سے محبت کرنے والی۔" اس کی باتیں انہیں رلا گئیں۔
"تو پھر کیوں مجھے روز یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ایک بدکردار منہوس عورت تھیں؟ ایک بدچلن فحاش عورت تھی؟" آنسو تیزی سے بہنے لگے۔
"آبرو کی زبان کا زہر ہے یہ سب۔۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ چندا نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی فحاش کام نہیں کیا۔" انہوں نے اس کا ہاتھ سہلایا۔
"اپنی ماں کے بارے میں یہ سب سننا کیسا ہوتا ہے چچی۔"
"میں جانتی ہوں۔۔ بہت برا ہوتا ہے۔ اس عورت نے صرف تمہارا دل نہیں دکھایا ماہ۔ چندا کا بھی دکھایا ہے اور قیس کا بھی۔۔ مجھے یاد ہے وہ آبرو بھابھی کی زبان کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔۔ وہ دونوں مر گئے ماہ مگر آبرو بھابھی نہیں بدلیں۔ انہیں کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ ان کی اولاد کیا روش اختیار کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سراقہ اور جہاندار میں کبھی فرق نہیں کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ مزاج میں اپنی ماں کی طرح نہیں۔۔"
جانے کتنی دیر وہ یہاں بیٹھی رہی تھی۔
اسے الماری کی لاکر والی دراز سے چند خطوط بھی ملے تھے جو بند لفافے میں قید تھے۔ چچی کی اجازت سے وہ اس نے اپنی حفاظت میں لے لیے۔۔ وہ انہیں پڑھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ جانے کیسے خط تھے اور کس کی جانب سے تھے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ کیا ہے تیرے ہاتھ میں۔۔" وہ چائے کا کپ ٹرے سے اٹھاتی اپنے کمرے میں بڑھ رہی تھی جب آبرو کی چنگھاڑتی آواز نے اس کا دل خراب کیا۔
وہ اس کے قریب آئیں۔
"یہ کون سے صفحے ہیں؟" انہوں نے ہاتھ سے چھیننے چاہے جب ماہ کامل نے ہاتھ دور کیا۔
"یہ میرے ہیں۔" ان سے کیا بعید تھی کہ وہ دیکھتے ساتھ ہی پھاڑ دیں۔
"اے دکھا مجھے۔" انہوں نے بڑھ کر وہ خط چھینے۔ ماہ کامل کی پیالی سے چائے چھلکی۔ "کہاں سے آرہی ہے تو؟" وہ کہتے ساتھ خط کھول رہی تھیں۔ "اب کوئی تجھے خط بھی لکھنے لگا ہے؟" مگر جب نگاہ اس خط پر لکھے چند حروف پر ٹھہری تو آبرو نے اسے غضبناک ہوتی آنکھوں سے دیکھا۔
"یہ کہاں سے لیے تو نے؟" وہ کوئی چار پانچ خط تھے اور انہیں ایک خط پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ ہوگیا تھا۔
"اپنی ماں کے کمرے سے۔۔" چائے میز پر رکھتے ہوئے اس نے وہ خط لینے چاہے جب آبرو نے ہاتھ اٹھا کر اس کی پہنچ سے دور کرنے چاہے۔
"تو پھر اپنی ماں کے کمرے میں گئی تھی بے غیرت؟" وہ چیخیں۔ ماہ کامل کا چہرے کے تاثرات بدلنے لگے۔ پیشانی پر بل پھیل گئے۔
"آپ کو میرے کاموں سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ یہ حویلی میری بھی ہے اور وہ میری ماں کا کمرہ ہے۔ میں جب چاہوں جا سکتی ہوں اور جو لینا چاہوں لے سکتی ہوں۔ مجھے میرے خط لوٹائیں۔" اس نے خود پر بمشکل قابو کیا تاکہ غصے کی جگہ آنسو نہ لے لیں۔
"تو تُو اپنی بدکردار ماں کی آوارگی کے خط پڑھنا چاہتی ہے جو اس نے اپنے یار کو لکھے تھے؟" وہ چیخ کر اس کا خون کھولا رہی تھیں۔
"میری ماں بدکردار نہیں تھی۔" ماہ کامل طیش میں بولی۔ "میرے خط لوٹائیں۔ انہیں مجھے دیں اور خدا کا واسطہ ہے مجھ پر نظر رکھنا بند کردیں۔ آپ کے بیٹے کی بیوی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود پر آپ کو پورا کنٹرول دے دوں۔" اس نے چھیننے چاہے جب آبرو نے ان میں سے ایک خط اس کے سامنے ہی پھاڑ دیا۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی کہ میرے آگے زبان چلائے۔ یاد رکھ تیری ماں بھی زمانے میں ایسی پسی تھی۔ بدکرداروں اور نافرمانوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ زمین نگل لیتی ہے انہیں۔ اپنے اس یار کے ساتھ بھاگی تھی جو خود اپنی اولادوں کا باپ کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے۔ جتنی نفرت مجھے اس چندا سے تھی اس سے زیادہ مجھے تجھ سے ہے۔" بس اتنا ہی ضبط تھا ماہ کا۔۔ وہ تکلیف سے فرش پر گر گئی۔ دماغ سن ہوچکا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ ششدر کی سی کیفیت میں تھی۔
"جس بدچلن کو حویلی سے اتنی مشکل سے نکالا تھا آج اس کی بیٹی گلے پڑ گئی ہے۔ میرے بیٹے کو کھا جائے گی منہوس۔" انہوں نے حقارت سے اسے دیکھا۔ ساتھ ہی وہ خط انہوں نے اس کے نزدیک پھینکے۔
"تو آنے دے سراقہ کو۔۔ بتاتی ہوں کہ کیسے تو نے زبان چلائی۔ میرا بیٹا ہے وہ۔۔ طلاق دے کر فارغ کردے گا۔"
"آج اسی بات کا مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔" اس کی آواز تھی یا کوئی موت نامہ۔۔ اوپر والی منزل کی ریلنگ پر کھڑا اپنی ماں کو غصے اور تکلیف سے گھور رہا تھا۔ آبرو کا چہرہ لمحوں میں سفید ہوا۔
ماہ کامل نے وہ سارے خط جمع کیے۔ ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔ وہ نیچے آیا۔
"سراقہ یہ مجھ پر جواباً چیختی ہے۔" انہوں نے جیسے خود کا دفاع کرنا چاہا۔
"مجھے خود پر افسوس ہورہا ہے جس نے اپنی بیوی کو سب جانتے بوجھتے یہیں چھوڑ دیا۔ کیوں حلال کو حرام بنادیتی ہیں۔ گناہ سے ڈر نہیں لگتا؟" اس نے بے چارگی سے ماں کو دیکھا جیسے افسوس کر رہا ہو۔
"کیوں؟ وہ نہ بھاگی تھی اپنے یار کے ساتھ؟" انہوں نے دانت پیسے۔
"اپنے شوہر کے ساتھ۔۔" اس نے چیخ کر جملہ درست کیا۔ "وہ شوہر تھا ان کا۔۔ حق رکھتی تھیں وہ۔۔ اور جو کہانی میں جانتا ہوں اس میں آپ کا بھی منفی کردار ہے۔ اتنا چھوٹا نہیں تھا کہ باتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ سب جانتا ہوں اور اس حویلی میں موجود سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔" لہجہ سپاٹ تھا۔
"تو مجھ پر الزام لگا رہا ہے؟"
"الزام؟ آپ چاہتی ہیں میں یہاں کھڑے ہو کر ماضی دہراؤں؟ مجھے افسوس ہے میں آپ کا بیٹا ہوں۔ مجھے خود سے نفرت ہورہی ہے۔"
"تیری بیوی ہر برائی سے پاک ہے کیا؟" لہجہ طنزیہ ہوا۔
"میں اسے بھی جانتا ہوں اور آپ کو بھی۔۔ اور مجھے آج خود سے اتنی نفرت محسوس ہورہی ہے۔ کیا آپ کو کبھی خوف محسوس نہیں ہوتا کہ آپ خود بھی ایک اولاد کی ماں ہے؟ کیا صرف بیٹیوں کی نصیب سے ڈرنا چاہئیے؟ بیٹوں کی ماں ہونے پر صرف فخر کیوں؟ کیا ان کا نصیب نہیں ہوتا؟ کیا ان کی زندگی خراب نہیں ہوسکتی؟ کہاں سے آئی ہے آپ کے اندر اتنی نفرت؟ زندگی میں یہ بھی نہیں سوچا کہ جو آپ بو رہی ہیں کہیں وہ سراقہ کو نہ کاٹنا پڑے؟ اور دیکھیں۔۔ آپ کی فطرت جانتے ہوئے بھی میں اپنے دل میں آپ کے لیے محبت نہ کم کر سکا۔" وہ پوری قوت سے چیخ رہا تھا اور ماہ کامل اس کے چیخنے پر خوفزدہ تھی۔
"تت۔تمہیں۔" وہ ہکلائیں۔" تہیں اپنی ماں سے نفرت ہے؟"
"مجھے خود سے نفرت ہے۔ خود سے گھن محسوس ہو رہی ہے۔ کبھی آپ نے خود پر غور کیا ہے؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جو آپ کر رہی ہیں اس سے نہ اپنی دنیا بنا پا رہی ہیں اور نہ آخرت۔۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ آپ کے خیالات بدل دوں۔ بیٹا ہوں۔۔ ماں کے لیے برا نہیں چاہ سکتا۔ اس عورت پر بات کرتے ہوئے آپ کو کبھی شرمندگی نہیں ہوئی؟ مظلوم کے دل سے نکلی بد دعا سے کبھی نہیں ڈریں آپ؟ چندا پھپھو مر کر بھی سکون میں ہیں۔۔ اپنی قبر میں لیٹی ہیں اور آپ جیتے جی بھی بے سکون اور بے آرام ہیں۔ کوئی میری ماں کے بارے میں ایسا کہے تو میں منہ نوچ لوں۔ آپ اس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں؟" وہ اپنی ماں کو سرخ آنکھوں سے گھور رہا تھا اور آبرو ساکت کھڑی تھی۔
"میں نے ہمیشہ آپ جیسی فطرت کی عورت سے پناہ مانگی ہے۔ اگر ماہ کامل ایسی ہوتی تو میں طلاق دے کر خود اس کو اکبرحویلی کے گیٹ پر کھڑا کر آتا۔ میں نہیں جانتا ایک مرد عورت سے کیا مانگتا ہے مگر مجھے صرف سکون چاہئیے۔۔ اور اگر یہ عورت بھی مجھے سکون نہیں دے سکے گی تو اس کو بھی اجازت ہے کہ مجھے چھوڑ جائے۔ کبھی سوچا ہے آپ نے ابا حویلی میں زیادہ وقت کیوں نہیں گزارتے؟ کیوں وہ اپنے دوستوں میں وقت گزارنا پسند کرتے ہیں؟ گھٹن محسوس ہوتی ہے انہیں آپ کے رویے سے۔۔ جیسے مجھے ہوتی ہے۔ جیسے میں حویلی سے فرار پا کر شہر بھاگ جاتا ہوں۔" کنپٹی کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔ اس نے مڑ کر ماہ کامل کا بازو سختی سے پکڑا۔ وہ خوف کے مارے خاموش کھڑی تھی۔
"میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔" وہ ٹھہر کر بولا۔ "اب یہ مزید یہاں نہیں رہے گی۔ جہاں اس کا شوہر ہوگا۔ یہ بھی وہیں جائے گی۔ میں اسے مزید سب جانتے بوجھتے آپ کے پاس نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اسے شہر لے جاؤں گا اور اپنے ساتھ رکھوں گا۔ اپنے قریب۔۔ جہاں آپ نہیں ہوں گی۔" اس کا پکڑتے ہوئے وہ کمرے میں بڑھ گیا۔ آبرو سن کھڑی تھی۔ دو چار قدم پیچھے چلتے ہوئے صوفے سے ٹکرا کر بیٹھ گئیں۔ جس بیٹے کی ماں ہونے پر انہیں فخر تھا وہ بیٹا انہیں حقیقت سے آشنا کر گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"بلقیس؟" وہ آدھے گھنٹے سے سجدے میں جھکی ہوئی تھی اور اب جانان کو تشویش ہونے لگی تھی۔ اس نے پہلے آواز دے کر اسے متوجہ کروانا چاہا مگر گویا بلقیس کو کوئی فرق ہی نہ پڑا۔
"بلقیس تم ٹھیک ہو؟" اب کی بار اس نے کمر تھپتھپائی۔ بلقیس فوراً پیچھے کو ہوئی۔
"ارے بھئی دعا مانگ رہی تھی۔" اس نے اپنا اسکارف کھولا۔
"دعا؟ اتنی طویل؟ کیا کوئی خاص بات ہے؟" اسے حیرت ہوئی۔
"چار دن بعد رزلٹ ہے جانان۔ بس آخری بار پاس ہوجاؤں۔ میں اس گھٹن زدہ ہوسٹل میں مزید نہیں ٹھہرنا چاہتی۔" وہ تو جیسے رو دینے کو تھی۔ جانان مسکرائی۔
"تم نے بھی مجھے ڈرا دیا۔ مجھے لگا خدا نخواستہ بلقیس رزلٹ سے قبل ہی نہ اللہ کو پیاری ہوگئی ہو۔" بلقیس دھیرے سے مسکرائی۔
"تم کتنی بھولی ہو جانان۔۔ مگر اچھی ہو۔ بہت اچھی۔۔" وہ اس کے رخسار پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"شام میں کہیں باہر چلیں؟ تھوڑا وقت گزار کر واپس آجائیں گے۔" جانان نے پہلی بار خود سے کسی چیز کی فرمائش کی۔
"ہاں یہ بہتر رہے گا۔ اچھا ابھی آجاؤ نیچے چلیں۔ کھانے کا وقت ہوا چلا ہے۔" اپنا حلیہ درست کرتی ہوئی وہ جانان کا ہاتھ تھام کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیسی ہیں؟" اس نے گہری سانس باہر کی جانب خارج کی۔ بیٹے کی آواز سنتے ہوئے وہ تڑپ اٹھیں۔
"کیسا ہونا چاہئیے مجھے؟"
جہاندار خاموش ہوگیا۔ وہ اب بھی خفا تھیں۔
دھیما سا لہجہ۔"طبیعت پوچھ رہا ہوں۔ جواب تو دیں۔"
"تمہیں نہیں اندازہ؟ جب ایک بیوہ عورت کا واحد سہارہ اس کا بیٹا ہو اور وہ اسے تکلیف دے۔ کیسی ہو سکتی ہے وہ عورت؟ جب اس کا بیٹا اس سے دور ہو ہفتوں ہفتوں کال نہ کرے۔ کیسی ہوسکتی ہے وہ عورت؟" کافی دنوں بعد اس کی آواز سن کر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں۔۔ رو دیں۔
"آپ رو کیوں رہی ہیں اماں؟" وہ گویا پریشان ہوگیا۔ "میں۔۔ میں بس پریشان ہوں۔ بہت پریشان ہوں۔۔ میں آؤں گا نا۔۔ میں جلد آؤں گا آپ کے پاس۔" اس کی آواز سے پریشانی چھلک رہی تھی۔
"کیا ہوا ہے؟ تو ٹھیک ہے نا جہاندار؟"
وہ کچھ نہ کہہ سکا۔
"پتا نہیں اماں مگر لگتا ہے جیسے دلدل میں پھنس گیا ہوں۔ اب کوئی میرا ساتھ نہیں دیتا۔ یا شاید کوئی میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتا۔" آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ جب بھی پریشان ہوتا تھا سب سے پہلے ماں کو کال کرتا تھا۔
"جانان نے کچھ کہا کیا؟" انہیں فکر لاحق ہوئی۔
"اکبر حویلی والوں کی طرف سے اسے زور دیا جا رہا ہے۔ وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے۔ اماں وہ معصوم ہے۔ وہ لوگ اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔" جانے اس نے کیسے یہ سب بتایا تھا۔
زینت چچی کو بے جا حیرت ہوئی۔
"کیا اس نے تم سے طلاق مانگی؟" بھلا جانان جہاندار سے جدائی کیسے مانگ سکتی تھی؟ تصور بھی محال تھا۔
"میں اسے قصور وار کبھی نہیں کہوں گا۔ وہ بس خوفزدہ ہے۔ میں اسے خود سے دور بھی نہیں کروں گا اماں۔" وہ انہیں اپنے دل کی باتیں بتا رہا تھا اور زینت بیٹے کو سن رہی تھیں۔
"مگر تو کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جہاندار جس سے دونوں حویلی کے لوگوں کو تکلیف پہنچے! تو سمجھ رہا ہے نا جہاندار؟" وہ اسے پیار سے سمجھانے لگیں۔
"میں وعدہ نہیں کروں گا اماں۔"
"جانان کی رضامندی بھی تو نہیں شامل میرے بیٹے۔۔"
"میں وعدہ نہیں کروں گا اماں۔۔ اب کی بار کسی کو اپنے جذبات سے کھیلنے نہیں دوں گا۔ یہ نکاح میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ میں اسے کیسے توڑ دوں؟ میں کیسے جانان کو خود سے دور رکھوں؟ اب حویلی والوں کو میری خوشی کا احترام کرنا ہوگا۔ میں جلد آپ سے ملنے حویلی آؤں گا۔ ابھی کے لیے فون رکھتا ہوں۔" چند باتیں مزید کرکے وہ کال رکھ چکا تھا۔ زینت چچی نے پریشانی سے موبائل کی روشن اسکرین دیکھی۔ انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کا ہی لڑکا کافی تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں شہر نہیں جاؤں گی۔ میں یہی رہوں گی۔ مجھے شہر نہیں جانا۔" اس نے ہمت کر کے لب کھولے۔ صوفے پر بیٹھے سگریٹ پیتے سراقہ کو گویا کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔ وہ سر جھکائے نجانے کن سوچوں میں تھا۔
"سراقہ۔۔" اس نے ایک بار پھر پکارا۔ وہ بدر عالم کو چھوڑ کر کیسے جا سکتی تھی۔ کم از کم ایک تسلی تو تھی وہ ایک گاؤں میں تھے۔
"مجھے تھوڑا سکون دے سکتی ہو؟ اگر نہیں دے سکتی تو بتادو۔ میں باہر چلا جاؤں گا۔" سراقہ نے اسے تیز نظروں سے گھورا تو وہ خاموش ہوگئی۔ وہ چند منٹوں کی خاموشی چاہتا تھا۔ پیشانی پر گہرے بل پریشانی کے علامت تھے۔ وہ اسے تکتے ہوئے بستر پر بیٹھ گئی۔
"تم نے مجھ سے کیوں چھپایا؟" اس نے دھیرے سے چہرہ اٹھا کر ماہ کو دیکھا۔ ماہ کامل نے ادھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے کترا رہی ہو۔
"تم نے مجھے سچ کیوں نہیں بتایا ماہ کامل؟" اس نے کتنے دنوں بعد اس کا پورا نام لیا تھا۔ وہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھ رہا تھا اور ماہ کامل تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"سراقہ۔" وہ ہچکچائی۔
"تم نے مجھ سے اتنا کچھ چھپایا؟" اب کی بار وہ چیخ اٹھا۔ "سب جانتے تھے تم ٹھیک نہیں ہو۔۔ شوہر تو میں تھا نا۔۔ مگر مجھے ہی نہ خبر ہونے دی؟ تمہیں لگ رہا تھا کہ میری تمہارے لیے پرواہ عارضی ہے؟ میں پاگل تھا جو تمہارے لیے سوچتا تھا؟ سلیم نے مجھے کال کی تھی کہ مجھے اپنی بیوی کے لیے گاؤں لوٹنا چاہئیے۔ کیا اب مجھے کوئی دوسرا بتائے گا کہ میری بیوی کیسی ہے؟ کیا میرے اور تمہارے درمیان کوئی رشتہ نہیں ماہ کامل؟ دادا اخگر بھی تمہاری طرف سے پریشان تھے اور شہر سے گاؤں کے اس سفر میں' میں صرف یہ سوچتا رہ گیا کہ کیا ماہ کامل کے لیے میں کچھ نہیں؟ کیا ملا کر مجھ سے چھپا کر؟ کون سی جنگ جیت لی تم نے؟ مجھے پہلے معلوم ہوتا تو میں تاخیر نہیں کرتا۔ پہلے ہی شہر لے جا چکا ہوتا۔ مجھے لگتا رہا کہ بات صرف کچن کی ہے مگر معاملہ اتنا سنگین ہوگا مجھے خبر تھی۔۔ اور نہ کسی ہونے دی۔" اس نے طنزیہ نگاہیں بیوی پر ڈالیں۔
"مجھے شہر نہیں جانا۔" اس نے بمشکل بولا۔
"میں پوچھ نہیں رہا۔ بتا رہا ہوں۔ ہم کل شہر جا رہے ہیں۔ بنا کوئی بحث کیے اپنا سامان باندھ لو۔" ایک گہری نگاہ اس پر ڈالتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔ ماہ کامل کا دل چاہا رو دے۔ جو بھی تھا مگر وہ یہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی۔ کمرے میں دوبارہ خاموشی چھا چکی تھی۔ ماہ کامل نے خود کو ایک بار پھر تھکا ہوا محسوس کیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم اپنا شہر والا گھر دیکھنا چاہتی ہو؟ میں تمہیں ہر ہفتے وہاں لے کر جاؤں گا۔" چند گھنٹوں بعد وہ اسے خود ہی بہلا رہا تھا حالانکہ آخری بار کے بعد ماہ کامل نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔
بال سنوارتی ماہ کامل نے اس کو آئینے کے عکس میں دیکھا۔ وہ بستر پر اوندھا لیٹا اپنے دونوں بازو ٹھوڑی کے نیچے رکھتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
"اور ہم ہر دو ہفتوں کے وقفے سے بدر عالم سے ملنے شہر سے آئیں گے۔"
جیسے بچوں کو بہلا کر منوایا جاتا ہے وہ بلکل ویسے ہی بہلا رہا تھا۔ اگر وہ سنجیدگی برقرار نہ رکھی ہوئی ہوتی تو ہنس دیتی۔
"صبح کی چائے میں بنادیا کروں گا اگر تم چاہو گی۔ مگر برتن تم دھو لینا کیونکہ وہ مجھ سے صاف نہیں دھلتے۔" لہجے کی معصومیت ماہ کامل کا دل پگھلا رہی تھی۔
وہ دل سے نہ بھی مانتی تو بھی سراقہ اسے شہر لے کر جانے والا تھا مگر وہ اس کا دل راضی کرنا چاہتا تھا۔
بدر عالم والی آفر پر اس کا دل مطمئن ہوگیا۔
"مجھے گھر دکھائیں گے؟"
"ہاں۔ ہم ہر اتوار شام کی چائے وہاں پئیں گے۔ تم مجھے اپنی ماضی کی دلچسپ کہانیاں سنانا۔" وہ دھیرے دھیرے مان رہی تھی۔ ماہ کامل کی آنکھیں خوشی سے پھیلیں۔
پہلے تو وہ بدر عالم سے تین تین ہفتوں تک نہیں مل پاتی تھی۔ بھلے دور سے ہی سہی مگر سراقہ اسے دو ہفتوں کے وقفے سے ملوانے والا تھا۔
پرانے گھر کی یاد اور اس میں بسی یادیں تازہ ہوگئیں۔
"دادا اخگر نے کیا کہا؟"
"خاموش ہیں۔۔ وجہ جاننا چاہتے تھے مگر میں اپنی ماں کی برائی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ اب چونکے بیوی میری ہے تو جہاں میں جاؤں گا اسے بھی وہیں جانا ہوگا۔" وہ خوش تھا کہ اس بار وہ اکیلا شہر نہیں جانے والا تھا۔
"تمہیں شیکسپیئر کی کتاب کے علاؤہ جو سامان سمیٹنا ہے سمیٹ لو۔ صبح سورج چڑھنے سے پہلے نکل جائیں گے۔" وہ سیدھا ہو کر لیٹ گیا تو ماہ کامل سنگھار میز پر رکھے ان خطوں کو دیکھا جو اس نے ابھی تک کھولے بھی نہیں تھے۔ شاید اب سب کچھ بہتر ہورہا تھا۔ سب ٹھیک ہورہا تھا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
صبح ناشتے کے بعد وہ جانے سے قبل ماں کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر دروازہ اندر سے لاک تھا۔
"تمہاری ماں کل سے ہی کچھ خاموش ہے۔ نہ بات کرتی ہے اور نہ کھانا کھا رہی ہے۔" کیہان فکر مند تھے۔ "کیا کچھ ہوا ہے؟"
"ان سے ہی جان لیجیے گا۔" سراقہ نے نگاہیں چرائیں۔ "کیا وہ باہر نہیں آئیں گی؟"
"مجھے نہیں لگتا۔ بہرحال تم لوگ جاؤ۔ اللہ عافیت کا معاملہ رکھے۔"
دادا اخگر اور زینت چچی سے مل کر گاؤں سے بہت دور نکل آئے۔ تمام رستہ بے حد خاموشی سے گزرا۔ وہ پیچھے چھوڑے ہوئے رستوں کو کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اکبر حویلی کہیں بہت دور نظر آرہی تھی۔ ابھی تو وہاں کے لوگ بھی لا علم تھے کہ ماہ کامل شہر چلی گئی۔ وہ کسی طور بدر عالم کو پتا نہیں چلنے دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ کتنا اداس ہو جائے گا۔
"چائے پیو گی؟" اس نے راستے میں وقفے وقفے سے آتے ہوٹلوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں۔"
"کیسا محسوس کر رہی ہو؟" جانے کیوں اس کا دل کیا کہ یہ سوال پوچھے۔
"مجھے اپنی کیفیت نہیں معلوم۔" وہ خود کو بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ "ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی قیمتی چیز چھوڑ کر جارہی ہوں۔ بدر عالم یاد آرہا ہے۔" اس کا دل بوجھل ہوا۔
"ہم اس سے ملنے آیا کریں گے۔"
سفر زیادہ طویل نہ تھا۔ وہ چند گھنٹوں میں ہی شہر آنکلے تھے۔
"آہ یہ شہر۔۔ حالانکہ گاؤں کی زندگی زیادہ پرسکون ہوتی ہے مگر شہر وہ ایسی جگہ ہے جہاں میں اپنی پریشانیاں ساتھ نہیں لاتا۔ پرسکون زندگی۔" وہ اپنی حویلی کے ماحول کی بات کر رہا تھا۔
ماہ کامل نے جانے کتنے سالوں بعد شہر کا رخ کیا تھا۔ وہ آنکھیں پھیلا کر ایک ایک منظر دیکھ رہی تھی۔ غور کر رہی تھی۔ جانے یہ وقت کتنی تبدیلیاں لایا تھا۔ یہ شہر جہاں اس نے بچپن گزارا تھا۔۔ اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ وقت بِتایا تھا۔ ہوا چہرے کو چھونے لگی تو سکوں کی سانس لیتی آنکھیں موند گئی۔ اسے لگنے لگا جیسے وہ ماں سے ملنے آئی ہو۔ چندا کی خوشبو تلاش کر رہی ہو۔
سراقہ اسے دیکھ کر بے ساختہ مسکرایا۔ وہ خوش تھا کہ اسے آبرو سے دور لے آیا۔ کم از کم اب وہ شہر میں بیٹھ کر ماہ کامل کے لیے پریشان تو نہیں ہوا کرے گا۔ وہ اس کے پاس تھی۔۔ اس کے نزدیک۔۔ اس کے ساتھ۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"لگتا ہے مہمان گھر آئے ہیں۔" وہ یکدم کسی کی چہکتی آواز پر چونک سی گئی۔ جہاندار صوفے پر بیٹھا اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ماہ کامل کو جانان کی یاد آئی تھی۔۔ دونوں ایک دوسرے سے گویا جڑے ہوئے تھے۔
"میزبان!" سراقہ نے بیگ فرش پر رکھتے ہوئے لفظ کی تصحیح کی۔
"واقعی؟" وہ خود بھی چونک اٹھا۔ "تم یہیں رہنے والی ہو؟" اس نے اب ماہ کامل سے پوچھا۔ ماہ کامل نے سراقہ کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"میں لے آیا ہوں۔" اس نے جہاندار سے نگاہیں چرائیں تو وہ ہنس دیا۔
"مجھے خوشی ہے تم اس کی پرواہ کرنے لگے ہو۔" آواز اتنی دھیمی تھی کہ صرف سراقہ ہی سن کر مسکرا سکا۔ ماہ کامل البتہ پورے گھر کا جائزہ لے رہی تھی جس کا فرش گندا ہورہا تھا۔ ٹی وی لاؤنج پر ڈسٹ جمی تھی اور میز بھی بکھری ہوئی تھی۔ آئبرو اچک کر ماتھے پر چڑھ گئیں۔
"کیا یہاں کی کوئی صفائی نہیں کرتا؟" اس کے تاثرات حیران کن تھے۔۔ جیسے عجیب سی چیز دیکھ لی ہو۔
سراقہ اور جہاندار نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"تمہارا شوہر کام چور ہے۔ وہ کسی کام میں میری مدد نہیں کرواتا۔" اپنی کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس نے سارا بوجھ بھائی کے سر ڈالا۔ سراقہ گویا بوکھلا گیا ہو۔ جواباً اسے گھورنے لگا۔
"ہفتے میں دو دن ایک چھوٹا لڑکا آتا ہے جو گھر کی ہلکی پھلکی صفائی کردیتا ہے۔ تمہارے آنے سے پہلے یہاں صرف میں اور میں جہاندار ہی رہتے تھے اور ایسے میں کوئی کام والی کو رکھنا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔" وہ اسے تفصیلات دینے لگا۔
"ویسے ماہ کامل یہ سب اتنا بھی برا نہیں۔۔ گھر صاف ہی تو ہے۔" جہاندار کے یوں مزے سے کہنے پر جہاں ماہ کامل نے اسے پھٹی آنکھوں سے دیکھا وہیں سراقہ ماہ کامل کے تاثرات پر مسکرا دیا۔ ہاں صاف ہی تو تھا۔۔ بس چار کافی کے خالی مگ میز پر تھے جنہیں شاید پچھلے ایک ہفتے سے اٹھایا نہ گیا تھا۔ ٹی وی لاؤنج مٹی میں گھرا ہوا تھا۔ صوفے پر ایک لیپ ٹاپ تھا اور آفس کی فائلز بکھری ہوئی تھیں۔ فرش کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے پچھلے چار دن سے جھاڑو نہ دی ہو۔
"یہ صاف ہے؟ آپ لوگ یہاں کیسے رہتے ہیں؟ کیا آپ لوگوں کے کمرے بھی ایسے گندے ہیں؟" اس کا سوچ کر ہی عجیب حال ہونے لگا۔
"نہیں میرا نہیں۔۔ اپنا کمرہ میں خود صاف رکھتا ہوں۔ البتہ جو تاثرات تمہارے ابھی ہیں اس کے بعد میں تمہیں وارن کردیتا ہوں کہ جہاندار کے کمرے کو نہ دیکھنا۔ وہ اس گھر کی سب گندی جگہ ہے۔" بڑی سنجیدگی سے بتایا گیا۔
گھونٹ لیتے جہاندار کو اچھو لگا۔ اس نے پیشانی پر بل پھیلاتے ہوئے سراقہ کو دیکھا۔
"اب لگ رہا ہے ہمارے گھر میں ایک لڑکی آئی ہے۔" وہ مسکرا دیا۔ "خوش آمدید ماہ کامل۔" جہاندار کو اس کا آنا خوشی دے رہا تھا۔
"شکریہ جہاندار بھائی۔" یہاں کیسے لگے گا دل۔۔ وہ ارد گرد دیکھنے لگی۔ چہرہ پھیکا پڑ گیا۔
"میں بیگز کمرے میں لے کر جا رہا ہوں۔ چاہو تو کمرہ ابھی دیکھ لو۔" سراقہ کی آواز پر وہ اپنی چادر سنبھالتی ہوئی اس کے پیچھے بڑھ گئی۔
"یہ سامنے والا کمرہ جہاندار کا ہے۔" اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے سراقہ نے سرسری سا بتایا۔ ماہ کامل نے سراقہ کی لمبی چوڑی پشت دیکھی۔ اسے پہلی بار اپنے محفوظ ہونے کا احساس ہوا۔ وہ ایک مرد تھا۔۔ اس کے لیے تپتی دھوپ میں دیوار کی مانند تھا۔
کمرے کا دروازہ کھلتا چلا گیا۔ وہ ایک بڑا اور کشادہ کمرہ تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی وہ خوشگوار کیفیت سے دوچار ہوئی۔ کمرے کی سیٹنگ دل موہ لینے والی تھی۔ بستر کے بلکل سامنے دیوار پر کتابوں کا ریک تھا جسے سراقہ نے اپنی مرضی اور خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا۔ سفید رنگ کی سادی سے رائٹنگ ٹیبل جس پر اس کا لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا۔ وارڈروب اور سنگل صوفہ۔۔ سنگل صوفہ؟؟ وہ آنکھیں پھاڑ کر اس سنگل صوفے کر دیکھ رہی تھی۔
"مجھے سیٹنگ بدلتے رہنے کا شوق ہے۔ پچھلے مہینے ہی کمرے میں تبدیلی کی تھی۔" وہ اسے بتا رہا تھا۔ بیگ بستر پر رکھتے ہوئے وہ اوندھا بستر پر خود بھی گر گیا۔
"یی۔یہاں بڑا صوفہ نہیں ہے؟" اس کے چہرے کی رنگت اڑ چکی تھی۔
"نہیں۔"
"مگر۔۔" دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔
"کیا؟"
"میں کہاں سوؤں گی؟" آواز گھٹ کر نکلی۔
"اس جہازی سائز بستر پر۔۔" اس نے ہاتھ پھیر کر جیسے بستر کی موجودگی کا احساس دلایا۔ اب وہ اس کی حالت کو انجوائے کر رہا تھا۔ "ویسے بھی میں سوتے ہوئے تنگ نہیں کرتا۔ ہینڈسم ہونے کے ساتھ ساتھ سدھرا ہوا لڑکا بھی ہوں۔ نیند میں بولتا بھی نہیں ہوں۔ تم آرام سے سو سکتی ہو۔" گویا خود سے ہی سارے مسلے حل۔۔
ماہ کامل نے چہرے کا رخ ہی موڑ لیا۔ اگر اسے علم ہوتا تو وہ یہاں کبھی نہ آتی۔ دل چاہا رو دے مگر جو ہونا تھا ہوچکا تھا۔
"ماہی۔۔" اس نے پیار سے پکارا تو وہ ہچکچائی۔ نگاہوں میں خفگی تھی۔
"کہیں۔"
سراقہ نے اس کے ہونٹوں کے اوپر تل دیکھا تو مسکرا دیا۔
"تم بہت اچھی دوست ہو میری۔۔"
"نہیں ہوں میں آپ کی دوست۔۔" اسے رہ رہ کر رونا آرہا تھا۔ کاش یہ آدمی اسے شہر لانے کی ضد نہ کرتا۔
"اگر تم دوست نہیں بنو گی تو میں کسی اور کو بنالوں گا۔" محفوظ ہوتے ہوئے کہا۔
ماہ کامل نے یکدم اسے دیکھا۔
"کس کو؟" جیسے جاننا چاہ رہی ہو۔
"کسی بھی لڑکی کو۔۔ ویسے تمہارے ساتھ دوستی کاپہلا تجربہ اچھا گیا۔ لڑکیاں واقعی اچھی دوست ہوتی ہیں۔ خیال رکھنے والیں۔۔ اب تم راضی نہیں تو میں مزید زبردستی نہیں کروں گا۔ کسی اور کو دوست بنالوں گا۔" موبائل کی اسکرین روشن کرتے ہوئے وہ موصول ہوئے میسجز دیکھنے لگا۔ ماہ کامل نے دل کو عجیب کیفیت میں مبتلا پایا۔ جانے کیوں اس سراقہ کی یہ بات بری لگی۔
اسے لگا جیسے وہ اس کی جگہ کسی اور کو دینا چاہتا ہو۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ میں لڑکی دوست نہیں بنا سکتا کیا؟" اس پر نگاہ پڑتے ہی وہ اس کی حالت سے انجان بن گیا۔
"آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔" نگاہیں چراتے ہوئے وہ اپنا کھولنے لگی۔ کیا وہ واقعی کسی کو دوست بنانے کے بارے میں سنجیدہ تھا؟ سراقہ تو کہتا تھا کہ جب تک وہ چاہے گا ماہی اس کی دوست رہے گی۔ کیا وہ بھول گیا تھا؟
"تم بھی تو بہت کچھ اپنی مرضی سے کر رہی ہو۔" جانے وہ کیا بول رہا تھا۔ ماہ کامل اس کا چہرہ تکنے لگی۔ "سب سے آخر میں مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔" یہ کہتے ہوئے اس کے تاثرات پھیکے پڑ گئے۔ ماہ کا دل بوجھل ہوا۔ "پھر اچھا ہے اگر میں کسی کو دوست بنالوں۔ تمہارے جانے کے بعد کم از کم وہ مجھے سنبھال تو لے گی۔" جدائی کی باتیں کرنا محال تھا۔ وہ کروٹ لے کر ماہ کامل کی جانب پشت کر گیا۔ دل خالی خالی سا محسوس ہوا۔ طویل خاموشی چھا گئی۔
"کپڑے کہاں رکھوں؟" وہ بمشکل بول پائی۔ سراقہ نے اٹھ کر وارڈروب کا دروازہ دکھیلا۔ ساتھ ہی کئی خانوں سے اپنے تہہ شدہ کپڑے نکال کر دوسرے خانے میں ڈالنے لگا۔
"آپ الماری خراب نہ کریں۔ میں اس جگہ رکھ لیتی ہوں۔" سب سے نیچے ایک چھوٹا سا خالی خانہ تھا۔ اس کے علاؤہ الماری میں کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔
"تم سے بڑھ کر بھی کچھ ہے؟" جانے انجانے میں کہتے ہوئے اس نے پورا ایک حصہ خالی کردیا۔ البتہ سراقہ اپنے کپڑوں کا حصہ بگاڑ چکا تھا۔ ماہ کامل نے اس کا جملہ دل کے بہت قریب محسوس کیا۔
"تم جیسا رکھنا چاہتی ہو رکھ سکتی ہو۔ سنگھار میز پر جو سجانا چاہو سجا سکتی ہو۔ تمہیں پورا حق ہے۔" اختتام جدائی سے ہوگا یہ جانتے ہوئے بھی وہ اس کی آنکھوں میں محبت سے دیکھ رہا تھا۔ ماہی کو اس کی محبت سے خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ اسے اپنا عادی کر رہا تھا۔۔ اور اس کا عادی ہو رہا تھا۔ محبت کی زنجیر دھیرے مگر مضبوطی سے اس کے ہاتھوں میں باندھ رہا تھا جیسے کمزور کر رہا ہو۔
سراقہ کا ایک ہاتھ وارڈروب کے دروازے پر تھا جبکہ آنکھیں اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔ وہ ایک تل جو سراقہ کی ہمیشہ توجہ کھینچتا تھا۔۔ وہ ایک چہرہ جو ذہن حفظ کر چکا تھا۔ دونوں کے دلوں میں محبت پل رہی تھی مگر ساتھ خوف بھی بڑھ رہا تھا۔
اسے خود پر یقین تھا۔۔ وہ اسے اپنی محبت سے روک لے گا۔۔ اسے خود سے دور نہیں جانے گا۔
"میں وارڈروب سیٹ کر دیتی ہوں۔" نگاہیں چراتے ہوئے اپنے تہہ شدہ کپڑے بیگ سے نکالنے بڑھ گئی۔ سراقہ مبہم سا مسکراتا ہوا دوبارہ بستر پر دھپ سے گر گیا۔ اسے کام کرتے دیکھنا بھی اس کے نزدیک ایک کام تھا جسے وہ بخوبی انجام دے رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"الائچی کہاں ہے؟" وہ کچن کے تمام کیبنٹ کھنگال چکی تھی۔
"ارے رکھی ہوگی ماہ بیٹی۔۔ غور سے دیکھو۔" لاؤنج سے آتی جہاندار کی تنگ کرنے والی آواز پر جھنجھلا گئی۔
"پچھلے پانچ منٹ سے دیکھ رہی ہوں۔ نہیں ہے۔" پانی کی پتیلی چولہے پر چڑھی ہوئی تھی۔ اس نے آنچ کم کرتے ہوئے دروازے سے باہر لاؤنج میں جھانکا۔
"تمہیں چاہئیے ہی کیوں؟" وہ لیپ ٹاپ میں مصروف آفس کا کام کر رہا تھا۔
"کیونکہ مجھے چائے پینی ہے۔ سر میں درد ہورہا ہے۔"
"چائے کا الائچی سے کیا تعلق ہے؟ پانی میں پتی ڈالو اور دودھ ڈال کر پکالو۔" وہ حیران ہوا۔
"میں الائچی والی چائے کو فوقیت دیتی ہوں۔ اس کا جواب لاجواب ہوتا ہے۔" اسے خود بھی لاجواب کرتی اٹھنے پر آمادہ کر گئی۔
"میں آیا اور مجھے مل گئی نا تو پھر دیکھنا۔" اپنے بکھرے بالوں کو مزید بکھیرتے ہوئے وہ کچن میں داخل ہوا۔ ماہ کامل ہلکا سا مسکرائی۔ جہاندار نے مسالوں کے کیبنٹ کھول کر اندر جھانکا۔ وہ کیبنٹ اتنے اونچے ضرور تھے کہ ماہ کامل انہیں کھول کر سامنے سے دیکھ سکتی تھی۔ پیچھے تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔
"اسے کہتے ہیں الائچی! اور یہ مسالوں کے کیبنٹ میں پائی جاتی ہے۔" اس نے نیلے رنگ کا ڈبہ ماہ کامل کی آنکھوں کے آگے لہرایا۔
"مجھے کیا خبر تھی کہ اتنے پیچھے کی جانب ہوگی۔ وہاں تک نہ میری آنکھیں جاتی ہیں اور نہ ہاتھ۔۔" مسکراہٹ چھپاتے ہوئے وہ اس سے ڈبہ لیتی چائے میں الائچی ڈالنے لگی۔
"تمہارا قد کیا تمہاری پیدائش کے بعد ہی رک گیا تھا؟" وہ خود ہنسی دباتے ہوئے تنگ کرنے لگا۔ ماہ کامل نے حیرانی اور غم سے اسے دیکھا۔ وہ کوئی چھوٹے قد کی تو نہیں تھی۔۔ ماہی' جانان کے مقابلے میں لمبی تھی۔ پانچ فٹ چھ انچ کی آئیڈیل ہائٹ۔۔
"آپ اگر میرے قد کا اپنے قد سے مقابلے کر رہے ہیں تو یہ غلط ہے۔" اس نے آنکھیں گھمائیں تو وہ کھل کر ہنس دیا۔
"پلیز میرے لیے بھی چائے بنادو۔ تین گھنٹے سے بیٹھا ہوں لیپ ٹاپ کے آگے۔۔" وہ بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا جیسے آیا تھا ویسے ہی نکل گیا۔
ماہ کامل نے دونوں کے لیے چائے بنا کر ٹرے میں رکھی اور باہر لے آئی۔
"جانان کیسی ہے؟" اس سے بات ہوئے بھی ایک وقت گزر چکا تھا۔ کیونکہ جہاندار اور جانان دونوں آج کل شہر میں تھے اس لیے وہ جانتا ہی ہوگا۔ جہاندار بیوی کے ذکر پر ٹھہر سا گیا۔
"چند دنوں میں یہاں لے آؤں گا۔ پھر تم خود ہی پوچھ لینا۔" آنکھیں ملائے بغیر وہ مسکراتا ہوا چائے کا گھونٹ بھرنے لگا۔ ماہ کامل کو خوشی ہوئی۔ جانان یہاں آجائے گی تو اس گھر میں گزارا آسان ہو جائے گا۔ "تم خوش ہو؟"
"جی۔۔ جانان میری چھوٹی بہن ہے۔ میں اس کی خوشی میں بہت خوش ہوں۔"
جہاندار اس کا چہرہ دیکھتا ہوا وہ ہلکا سا مسکرایا۔ وہ واقعی جانان کی نئی خواہش سے واقف نہیں تھی۔۔
"چھوٹی! چائے اچھی ہے۔" ماہ کامل نے اپنے نئے نام پر مسکرا کر اسے دیکھا۔ دونوں بھائیوں کو اس کا نام بگاڑنے کا شوق تھا شاید۔۔
"میں نے سوچا ہے کہ پڑوسیوں سے ملنے جاؤں۔ ان سے کام والی کی بات کروں گی۔ گھر بہت گندا ہورہا ہے اور اس میں کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔"
"شیخ صاحب ہمارے بائیں پڑوسی ہیں۔ تم ان کے گھر کو بھی چن سکتی ہو ملاقات کے لیے۔۔"
ماہ کامل نے اس کا چہرہ دیکھا۔ ایسا لگا جیسے وہ اپنی مسکراہٹ چھپا رہا ہو۔
"تو پھر کیا ہم ابھی چلیں؟"
"ابھی؟" جہاندار نے اپنے آگے کھلے لیپ ٹاپ کو دیکھا۔
"ہاں۔ میں گھر کی عورتوں سے چھوٹی سی ملاقات کر کے کام والی کا کہہ دوں گی۔ وہ کل صبح تک اسے بھیج بھی دیں گی۔" جہاندار انکار نہ کر سکا۔
"اچھا چلو آؤ۔ اب واقعی لگ رہا ہے کہ گھر میں کوئی لڑکی آگئی ہے۔" بنھویں اچکا کر کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تو ماہ کامل اپنی چادر لینے اوپر بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔پندرہ منٹ کی گفتگو کے بعد ماہ کامل گھر سے باہر آگئی تھی۔ اس کے الجھے تاثرات کو نوٹس کرکے ہنستا جہاندار کچھ نہ جانتے ہوئے بھی سب جان گیا۔
"کیسا لگا پھر؟"
"یہ دو عورتیں کیا بہنیں ہیں؟" وہ اب تک مکمل الجھی ہوئی تھی۔ جہاندار کا قہقہہ گونجا۔
"نہیں مگر بہنوں کی طرح رہتی ہیں۔ زیادہ سوال مت کرنا۔ ورنہ میرے جواب سے گھبرا جاؤ گی۔" قدم گھر کی جانب بڑھنے لگے۔
"مگر وہ دونوں شیخ صاحب کو گڈو کے ابا کیوں کہہ رہی تھیں؟" کیا مشکل تھی۔۔ گویا ایک پہیلی ہو۔
"کیونکہ وہ دونوں ہی شیخ صاحب کی بیویاں ہیں۔" اب کی بار اس نے چابی گھر کے گیٹ پر گھماتے ہوئے مزے سے بتایا۔ ماہ کامل کی آنکھیں پھیلیں۔
"بیویاں؟ دونوں؟ ایک ساتھ؟" ذہن میں سوالوں کا سمندر تھا۔
"ہاں یہی تو خاص بات ہے۔ جتنی محبت سے یہ دونوں اپنے کے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں اتنی محبت سے ایک میاں بیوی بھی نہیں رہتے ہوں گے۔ بہرحال تمہارے مشن کا کیا ہوا؟"
"انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی کام والی کو کل صبح ہی بھیج دیں گی۔" وہ اس کے پیچھے لاؤنج میں بڑھ رہی تھی۔
"گڈ۔ اب میں امید کرتا ہوں کہ تم مجھے کام کرنے دو گی۔ ورنہ تمہارا شوہر تمہیں تو کچھ نہیں کہے گا البتہ مجھے غیر ذمہ دار ہونے کا طعنہ دے گا۔" وہ دھپ سے صوفے پر آگرا۔ ماہ کامل کو کچن میں ہلچل محسوس ہوئی۔
"ہاں بھئی باورچی آج کھانے میں کیا ہے؟" جہاندار نے کچن میں آواز لگائی۔ کیا کھانا بنانے کے لیے باورچی آتا تھا؟ ماہ کامل کو حیرانی ہوئی۔
"زہریلے سانپ کا سالن اور بطخ کے انڈے۔ چاول کے ساتھ نوش فرمائیں گے یا جلی ہوئی روٹی بناؤں؟" سراقہ کی گھمبیر آواز کچن سے ہی ابھری تو جہاندار مسکرا دیا۔
"نہیں۔۔ میں کچھ آرڈر کرلوں گا۔"
ماہ کامل کو چپکی لگ گئی۔ کیا وہ کھانا بنا رہا تھا؟ یکدم ہی وہ کچن کے دروازے پر آکھڑا ہوا۔ ایپرن پہنے اور ہاتھ میں چھری کو اچھال کر پکڑتے ہوئے اس نے ماہ کامل کو دیکھا۔
"میں مدد کروا دوں؟" اسے اپنا کھڑا رہنا برا لگنے لگا۔
"نہیں میں کرلوں گا۔ یہاں بہت گرمی ہے۔ تم کمرے میں چلی جاؤ۔" اسے تسلی دیتا ہوا وہ دوبارہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔ ماہ کامل نے جہاندار کو دیکھا۔
"اگر میں لڑکی ہوتا تو سراقہ سے شادی کرلیتا کیونکہ یہ آدمی صرف لڑکوں کے ساتھ ہی سنگ دل ہے۔ بیوی کے لیے گھنٹہ گھنٹہ کچن میں رہ سکتا ہے۔" اس کی بات کو انجوائے کرتی ہوئی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا کہا؟ ماہ شہر کب گئی؟" دادا اکبر نے سختی سے پوچھا۔
"سراقہ اس کا شوہر ہے۔ لے گیا اسے۔۔" البتہ سلیم مطمئن نظر آرہا تھا۔
"ایک طرف طلاق ہورہی ہے اور دوسری جانب دوسری بیٹی اس خاندان کا حصہ بن گئی ہے۔" ان کی آواز دھیمی تھی مگر سلیم سن چکا تھا۔
"آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں نا کہ جتنا حق ہمارا ماہ کامل پر ہے اتنا ہی دادا اخگر کا ہے۔۔ وہ ان کی بیٹی کی اولاد ہے۔ پھر وہ یہاں رہے یا وہاں۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ اس کا خاندان ہے۔" وہ جانتا تھا دادا اکبر کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔
"ہم وہ نہیں کہہ رہے سلیم۔ ماہ کامل ہماری حویلی کی بیٹی ہے۔ جب جہاندار اور جانان کی طلاق ہوگی تو وہ لوگ ماہ کامل کو یوں جینے نہیں دیں گے۔ آخر وہ ہماری حویلی میں پلی بڑھی ہے۔ اس کا جینا تنگ کردیں گے۔" چائے کا کپ چھلک اٹھا تھا۔ سلیم کو ماہ کامل یاد آئی۔ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا اور وہ اسے دیکھ بھی نہ پایا تھا۔
"دادا جان۔" لہجہ بھی شخصیت کی طرح ٹھہرا ہوا تھا۔ حالانکہ اکبر دادا اس کے رشتے میں نانا لگتے تھے مگر وہ ہمیشہ دوسروں کی طرح دادا پکارتا تھا۔ "سراقہ اچھا لڑکا ہے۔ اسے کبھی تکلیف نہیں دے گا۔"
"بھائی کی زندگی خراب ہوتے وہ بھی نہیں دیکھے گا۔ ماہ کامل ہم سے پہلے ہی بہت کچھ چھپاتی ہے۔" انہیں پہلے ہی اپنے کیے گئے فیصلوں پر کہیں نہ کہیں دکھ تھا جو انہیں ماہ کامل سے دور کر گیا تھا۔ "وہ نہیں رہ سکے گی ان کے درمیان۔۔" اندر آکر صوفے بیٹھتے شاداب ان کی گفتگو سن چکے تھے۔
"ابا جی میں اس کا گھر نہیں خراب کر سکتا۔"
"تم خاموش رہو شاداب۔۔ گھر خراب ہونے کی باتیں تم پر جچتی نہیں ہیں۔" ان کی تیز گہری گھوری نے شاداب کو بھانجے کے سامنے شدید جھینپنے پر مجبور کیا۔ سلیم نے چہرے کا رخ ہی موڑ لیا۔
شاداب کا چہرہ خفت سے سرخ پڑگیا۔
انہیں بھانجے کے سامنے اپنے لیے یہ الفاظ مناسب نہ لگے۔
لوگ قدم قدم پر ماضی کی خطائیں یاد دلاتے ہیں۔ کمرے میں دوبارہ خاموشی چھا گئی گویا بات ہی نہ شروع ہوئی ہو۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں مدد کروا دوں۔" آدھا گھنٹہ کمرے میں بیٹھ کر اب وہ نیچے چلی آئی تھی۔ اسے یوں کچن میں کام کرتا دیکھ کر ماہ کو اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
"تم نیچے کیوں آگئی؟" چمچ چلاتے ہوئے وہ چکن بھون رہا تھا۔
"آپ اکیلے کام کر رہے تھے تو مجھے یوں اچھا نہیں لگا کہ ایسے ہی اوپر بیٹھی رہوں۔ لائیں یہ مجھے دے دیں۔" اس کے ہاتھ سے کفگیر لیتے ہوئے وہ خود اس کی جگہ پر کھڑی ہوگئی۔ سراقہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
"عادت لگواؤ گی تم مجھے اپنی۔۔" بڑبڑاتا ہوا وہ پیاز کاٹنے لگا۔ ماہ کامل سن چکی تھی۔ اسے اچھا لگا اس کا یوں کہنا۔۔ عجیب تھا۔۔ جس سے وہ بھاگ رہی تھی اسی میں قید ہورہی تھی۔
"کیا بنارہے ہیں؟"
"سینڈوچز۔۔ مجھے پراپر کھانا بنانا نہیں آتا۔ سیکھ رہا ہوں۔۔ جلد بنانے بھی لگوں گا۔ تب تک ان سینڈوچز، رول جیسی چیزوں پر ہی اکتفا کر سکتا ہوں۔"
"آپ کھانا بنانے سیکھ رہے ہیں؟" اسے بے جا حیرانی ہوئی۔
"ہاں مطلب۔۔ انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھ لیتا ہوں اور کوشش کرلیتا ہوں۔ اب جینے کے لیے تو کرنا پڑے گا نا۔ کیونکہ شہر میں حویلی کی کوئی عورت کبھی نہیں آئی۔ میں پہلی بار یہاں کسی لڑکی کو لایا ہوں۔ اگر یہاں رہنا ہے تو مجھے خود ہی بنانا پڑے گا کیونکہ جہاندار کے کھانوں سے میری زندگی کے دن کم ہورہے ہیں۔" بریڈ کو کاٹتے ہوئے وہ سادگی سے بتا رہا تھا۔
"مگر میں ہوں۔۔ میں کھانا بنادیا کروں گی۔"
"مجھے پھر بھی بنانا سیکھنا ہے۔ تم ہمیشہ کے لیے تو نہیں ہو۔ تم بھی چلی جاؤ گی اور میں کسی کے ہاتھوں بگڑنا نہیں چاہتا۔ کبھی کسی کی عادت ہی نہیں ہوئی۔۔ اماں نے بھی کبھی یوں لاڈ نہیں اٹھائے۔ مگر میں جانتا ہوں اگر کبھی کسی انسان کی عادت لگی تو وہ اتنی مضبوط ہوگی کہ میں اسے چھوڑ نہیں پاؤں گا۔" آخری جملہ اس نے ماہی کی آنکھوں دیکھ کر ادا کیا۔
اس کے اندر تک خاموشی چھا گئی۔ وہ چمچ گھماتے ہوئے چولہا بند کر گئی۔
"کیا سوچ رہی ہو؟ نہیں تم فکر نہیں کرو۔۔ اگر تم خود نہیں ٹھہرنا چاہو گی تو میں زبردستی نہیں کروں گا۔ تم جانتی ہو میں تمہارے ساتھ کیسا ہوں۔۔ تمہیں تکلیف نہیں دوں گا۔" وہ ہنستے ہوئے بولا جیسے اس کا ڈرنا نوٹ کر چکا ہو۔
اس کا ایک جملہ ماہ کامل کا دماغ سن کرنے لگا۔۔
'میں تمہیں تکلیف نہیں دوں گا' وہ کیوں اتنا رحم دل تھا۔
وہ کیوں اس کا خیال رکھتا تھا۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اختتام علیحدگی ہے۔
"کچن کے لیے کوئی باورچن رکھ لینا۔ میں حویلی سے یہاں تمہیں اس لیے نہیں لایا کہ سارا دن کچن میں کام کرواؤں۔" وہ کام میں مصروف تھا۔
"مگر سب عورتیں یہ کام کرتی ہیں۔ میں کروں گی تو کچھ غلط تو نہیں۔" بھلا اس کے پاس اور کرنے کو بھی کیا تھا۔۔
"اور جب میں افورڈ کرسکتا ہوں تو کیوں تمہیں بلاوجہ کچن میں کھڑا رکھوں؟ ہاں اگر کبھی افورڈ نہ کرسکا تو تینوں وقت کا تم کھانا بنالیا کرنا۔" مایونیز اور کیچپ کا استعمال کرتے ہوئے وہ سینڈوچز کو مزید خوبصورت بنا رہا تھا۔
"میں سارا دن گھر میں کیا کروں گی؟" ایک ہاتھ سلیپ پر رکھتے ہوئے اس نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
"کتاب لکھنا، ٹی دیکھنا اور جب تک میرے پاس ہو تب تک میری کتابیں چوری کرسکتی ہو ماہی۔ مجھے برا نہیں لگے گا۔ پھر جب میں آفس سے آؤں گا تو ساتھ مل کر وقت گزاریں گے۔ تم مجھے بتانا کہ سارا دن کیا کرتی رہی اور میں۔۔ میں تمہیں سنوں گا۔ صرف سنوں گا۔" اپنے دل کے ہاتھوں وہ اتنا مجبور تھا کہ دماغ کے خلاف جارہا تھا۔ جانے کیوں محبت میں وہ اس کے تیزی سے نزدیک آرہا تھا اور ماہ کامل پیچھے بھی نہیں ہو پارہی تھی۔ عجیب تھیں یہ دل کی باتیں!
مسالوں کا کیبنٹ کھولتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے چاٹ مسالہ نکالا۔
"وہاں تک میرا ہاتھ نہیں جاتا۔ جہاندار بھائی نے کہا کہ میرا قد میری پیدائش کے بعد ہی رک گیا تھا۔ میں چھوٹی تو نہیں ہوں؟" جانے اس نے یہ بات سراقہ کو کیوں بتائی۔۔ جیسے ایک بچہ شکایت لگا رہا ہو کہ فلاں بچے نے مجھے ایسا کہا۔ سراقہ زیر لب مسکرایا۔
"تمہیں برا لگا؟"
"نہیں تو۔۔" بلکہ اس نے تو جہاندار کی بات کو انجوائے کیا تھا۔
"تم چھوٹی نہیں ہو۔ ہاں تمہارا دماغ چھوٹا ہے۔" وہ اسے دیکھ نہیں رہا تھا۔ ہاتھوں کو ایپرن سے صاف کرتا ہوا وہ اب مزید سینڈوچز بنا رہا تھا۔
ماہ کامل کو برا لگا۔ بنھویں آپس میں مل گئیں۔ سراقہ نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس انہونے غصے پر کھل کر مسکرایا۔
"اور تم اس چھوٹے سے دماغ میں دنیا بھر کی باتیں بسا کر خود کو ذہنی اذیت دیتی ہو۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچتی ہو۔ حالانکہ تمہیں صرف مجھے سوچنا چاہئیے۔ یہ خیال تمہیں تنگ بھی نہیں کرے گا۔" آخر میں وہ مسکراہٹ دبا کر بولا تو ماہ کامل سرخ ہوتی ہوئی چہرہ پھیر گئی۔ اب کیا کہتی کہ یہی خیال تو تنگ کرتا ہے۔ وہ سراقہ کو سوچتی ہے تو دماغ میں جدائی کا خیال اذیت لاتا ہے۔ ٹرے میں سینڈوچز سجا کر اس نے ایپرن اتارتے ہوئے ہُک پر لٹکا دیا۔
"کیچپ کی بوتل لے آؤ۔" ٹرے اٹھا کر اسے تاکید کرتا ہوا وہ اس کے ساتھ ہی باہر نکلا۔ لاؤنج کے صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھے جہاندار کو دیکھ کر ماہ کامل ہلکا سا مسکرائی۔ ٹانگیں سیدھے صوفے پر پھیلائے وہ گود میں لیپ ٹاپ رکھ کر سر صوفے کی پشت پر ٹکائے سو چکا تھا۔ شاید تھک گیا تھا۔۔
"جہاندار۔" اسے آواز دیتے ہوئے وہ خود ٹرے کے ساتھ کارپٹ پر بیٹھ گیا۔ ماہ کامل بھی اس کو دیکھتے ہوئے وہیں بیٹھ گئی۔ لاؤنج کی میز نیچے کی طرف تھی اس لیے کارپٹ پر بیٹھ کر اس نے ٹرے میز پر رکھ دی۔
"جہاندار اٹھ یار۔۔ کھانا ختم ہو جائے گا۔" اس کی ٹانگ پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ بلند آواز میں بولا تو جہاندار نے آنکھیں کھولیں۔
"ہاں۔" آنکھیں مسلتا ہوا وہ بھی نیچے ہی بیٹھ گیا۔"اسے تم کھانا کہتے ہو؟" اس نے سینڈوچ الٹ پلٹ کر دیکھا۔
"تمہارے لئے چار سینڈوچ بنائے ہیں۔ اتنے میں پیٹ بھر سکتا ہے۔ پھر اب کیونکہ ماہ کامل آگئی ہے تو ہم کوئی اچھی باورچن دیکھ لیں گے۔ تمہیں مزید برتن نہیں دھونے پڑیں گے۔"
"اوہ شکر۔۔" اسے گویا سکون حاصل ہوا۔ "اپنے سینڈوچز لے کر کمرے میں جارہا ہوں۔ بہت تھک گیا ہوں اور کندھے اب تکلیف کر رہے ہیں۔"
"خوشی سے جاؤ۔"
اپنی پلیٹ اٹھا کر وہ بمشکل خود کو سنبھالتا ہوا اوپر کی جانب بڑھ گیا۔
"یہ بہت اچھے ہیں۔" وہ تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔
"تم بھی بہت اچھی ہو۔ مجھے کمپنی دے رہی ہو۔ ورنہ یہ بیغیرت آدمی صرف کام کے لیے میرے پاس آتا ہے۔" بارہ بجنے والے تھے۔ ماہ کامل نے اپنی زندگی میں پہلی بار اتنی تاخیر سے ڈنر کیا تھا۔
وہ پلیٹ کو تک رہی تھی تاکہ نگاہیں نہ مل پائیں اور سراقہ اسے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
گزری رات سراقہ کمرے میں ہی نہ آیا تھا۔ ماہ کامل بستر پر پہلے ہی سو چکی تھی۔ اب اجالا پھیل رہا تھا۔ آذان پر آنکھ کھلی تو ہوش میں آتے ہوئے اس نے سب سے پہلے بستر پر دائیں طرف دیکھا تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔
نجانے کیوں اس کا دل کچھ پرسکون ہوا۔
فجر کی نماز ادا کرکے اس نے کھڑکیوں سے پردے ہٹائے تھے۔ چھ بجنے کو تھے اور پرندوں کی آواز اس کے کانوں میں رس گھولنے لگی تھی۔
"تم اٹھی ہوئی ہو؟" یکدم ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور سراقہ داخل ہوا۔ ماہ کامل نے اس کو دیکھتے ہوئے ٹانگیں بستر کے اوپر کرلیں۔
"نماز کے لیے اٹھی تھی۔"
"اب سو جاؤ۔ یہ حویلی نہیں ہے ماہی جو تم چھ بجے اٹھ کر سات بجے کچن میں چلی جاؤ۔" وہ ہنستا ہوا بستر پر دھپ سے آڑا ترچھا لیٹا۔
"شہری زندگی کا خوب اندازہ ہے مجھے۔۔" وہ اس کی ہلکی سرخی مائل آنکھوں کو دیکھنے لگی۔
سراقہ کو یکدم ہی یاد آیا۔
"اوہ ہاں۔۔ تمہارا تو بچپن یہی گزرا ہے۔" لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
"آپ کہاں تھے؟"
"میں؟ کہاں ہوں گا۔۔ یہیں تھا۔" بکھرے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ جمائیاں بھرنے لگا۔
"آپ کمرے میں کیوں نہیں آئے؟" وہ اصل وجہ جاننا چاہتی تھی۔
"کام کر رہا تھا۔ تم ڈسٹرب نہ ہو اس لیے نیچے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ اب کندھے تکلیف کر رہے ہیں، سر میں درد ہورہا ہے اور نیند سے آنکھیں بھی بند ہورہی ہیں۔" وہ واقعی نڈھال معلوم ہورہا تھا۔ ماہ کامل کو اس کی بے پناہ فکر ہوئی۔
"دوائی دے دیتی ہوں۔ کھا کر آرام کریں۔" وہ بستر سے اترنے ہی لگی تھی جب تیزی سے سراقہ نے اٹھ کر اپنا سر اس کی گود میں رکھا۔
"نہیں بس تم کچھ دیر سر دبا دو۔ خود کی ٹھیک ہوجاؤں گا۔" یہ سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ ماہ کامل کو اپنی سانسیں رکتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔
"س۔سراقہ۔۔" لہجہ بوکھلایا ہوا تھا۔ سر اس کے گود میں رکھ کر اب وہ آنکھیں موند چکا تھا۔
"کنپٹی تکلیف کر رہی ہے ماہی۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین مسلسل کئی گھنٹوں تک نگاہوں کے آگے ہو تو آنکھیں بھی تکلیف کرنے لگ جاتی ہیں۔" اپنا حال اپنی ہی زبانی سنا رہا تھا۔ ماہ کامل اب تک اڑے ہوئے حواسوں سے اس کا چہرہ تک رہی تھی۔ دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اس نے سر دبایا تو گویا سکون کی ایک لہر سراقہ کے بدن میں دور اٹھی۔ اس کے نرم ہاتھوں کی انگلیاں تکلیف اپنے سمت کھینچنے لگیں۔ البتہ ماہ کامل خاموش تھی۔۔ جیسے الفاظ کھو گئے ہوں۔
"آرام مل رہا ہے۔" لہجہ گھمبیر تھا۔ پانچ منٹ ہی گزرے تھے جب اس کے ہلکے ہلکے خراٹے گونجنے لگے۔ اس کا چہرہ دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ سوچکا تھا۔ اس کی محبت میں ڈوبتا یہ شخص بے بس ہوچکا تھا۔ اس کے سر کے نیچے دھیرے سے تکیہ رکھتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ڈوپٹہ سر پر اوڑھتے ہوئے اس نے قدم باہر کی جانب بڑھالیے ۔ ابھی دروازہ کھولا ہی تھا کہ نیند میں ابھرتی بھاری آواز کانوں کو آئی۔
"لان میں مت جانا۔ وہاں سے باہر کی دیواریں زیادہ اونچی نہیں ہیں۔ کوئی بھی کود کر اندر آسکتا ہے۔" وہ غنودگی میں تھا مگر اس کا یوں جانا محسوس کر چکا تھا۔ کروٹ لیتے ہوئے کہہ کر وہ پرسکون سوگیا۔ ماہ کامل اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"فرسٹ ائیر کا بیچ آیا ہے۔ ان کی خوشی سے چیخنے کی آوازیں سن رہی ہو؟ کتنا خوش ہیں؟ دو ماہ گزر جانے دو۔۔ ساری خوشیاں بہہ جائیں گی جب اسائمنٹس کا انبار لگے گا۔" بلقیس کھڑکی سے لڑکیوں کو چیخیں مارتے دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔ خاموش بیٹھی جانان کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔
"یاد ہے ہم بھی ایسے ہی آئے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ گھر سے دور رہیں گے تو عیش کر سکیں گے۔ چند دنوں بعد ہی دل چاہنے لگا تھا کہ گھر چلے جائیں۔" وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتانے لگی۔
"یہ وقت کتنا جلدی گزر گیا نا۔ اب ہم سینئر ہیں۔۔ وقت گزر گیا۔ پڑھائی ختم ہوگئی اور اب ہم ہمیشہ کے لیے گھر جا سکیں گے۔"
"مجھے امید ہے میں بھی حویلی جا سکوں گی۔" جانان دھیرے سے بولی۔۔ جیسے خود سے مخاطب ہو۔
"تمہاری تو رخصتی ہوجائے گی۔ بہت خوش نصیب ہو تم! جہاندار بھائی جیسا مرد جو اپنی بیوی کو یوں بے پناہ چاہے۔۔"
جانان نے آنکھیں موند لیں۔ محبت میں جنون تھا۔۔ اگر نہ ہوتا تو وہ شاید اس کی خاطر ہی طلاق دے چکا ہوتا۔ کاش کہ حالات بہتر ہوجائیں۔۔ پھر وہ خوشی سے اس کے ساتھ رخصت ہونا چاہے گی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہیلو؟"
"کیوں کال کی ہے آپ نے؟"
"دو دن میں تمہارا رزلٹ ہے۔ تیسرے دن لے جاؤں گا۔ اتنا تو میں جانتا ہوں کہ اکبر حویلی سے کوئی لینے تمہیں آئے گا نہیں۔۔ کیونکہ ان کی طلاق والی ڈیل تم سے مکمل نہیں ہوئی۔ میرا انتظار کرنا۔ ٹھیک ہے؟ میں بہت خوش ہوں۔۔" فون کی دوسری جانب وہ مسکرا رہا تھا اور جانان کا وجود ساکت ہورہا تھا۔
"جہاندار۔۔" اس کی گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
"ارے یہ دیکھو ماہ کامل آگئی۔۔" اس کی آواز پر وہ کچھ حیران ہوئی۔ "ماہ کامل لو جانان! تم بات کرنا چاہتی تھی نا؟" دوسری جانب اس کی ماہ کامل کی گفتگو وہ سن سکتی تھی۔
"ہیلو جانان؟ کیسی ہو؟ کچھ کہو تاکہ میں تمہاری آواز سن سکوں۔" ماہ کامل کی خوشی سے بھری آواز ابھری۔
"ٹھیک۔۔ ٹھیک ہوں۔" اس نے ٹھہر کر کہا۔ "تم شہر کب آئی؟"
"بس کل شام ہی۔۔ تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ جہاندار نے کہا کہ تم رزلٹ کے بعد یہاں آجاؤ گی۔ میں دونوں کے لیے بہت خوش ہوں۔" جانان جان گئی تھی کہ ماہ کامل لا علم ہے۔۔ اس کا دل چاہا آنسوؤں سے رو دے۔ کاش حالات بہتر ہوتے۔۔ کاش سب کچھ پہلے جیسا ہوتا۔۔ پھر وہ ماہ کامل کے ساتھ اس کی دیورانی بن کر ایک گھر میں رہتی۔
"اچھا بس بہت ہوا چھوٹی۔ بیوی میری ہے اور فون پر تم لگی ہو۔ لاؤ دو چلو شاباش!" وہ اب اس کے ہاتھ سے فون لے چکا تھا۔
"دیکھ رہی ہو۔۔" یکدم ہی دوسری جانب ماحول میں خاموشی چھا گئی۔ وہ شاید اپنے کمرے میں چلا آیا تھا۔ "تمہارا انتظار صرف مجھے نہیں ہے۔"
"میں سراقہ بھائی سے بات کروں گی۔" آنکھوں میں آنسو آٹھہرے۔
"کس بارے میں؟" وہ ہنس پڑا۔
"آپ کے بارے میں۔۔" بات پر زور تھا۔ آواز رندھ گئی۔
"شکایت لگاؤ گی میری؟"
"میں ان سے کہوں گی کہ وہ آپ کو سمجھائیں۔ یہ سب کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔"
"اس لیے تو بڑے کھیل رہے ہیں۔ سوچ سمجھ کر۔۔ تم بس ایک بار آجاؤ۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ تمہاری ہر غلطی ہر جرم اپنے سر لے لوں گا۔ تمہیں اکبر حویلی والوں کے آگے کبھی مجرم نہیں بننا پڑے گا۔ تمہیں کسی کے آگے تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ پہلے اس رشتے کے لیے پھر تمہارے لیے لڑوں گا۔ بھلے یہ سار زندگی کا ہی معاملہ کیوں نہ رہے۔" گھمبیر ٹھہرا ہوا لہجہ۔۔
"اگر طلاق نہیں دے سکتے تو اس لیکچر کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔" بھڑکتی ہوئی آواز آئی اور کال کٹ گئی۔ جہاندار نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے موبائل کی روشن اسکرین دیکھی۔ بس کچھ وقت اور۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
میٹنگ کے دوران موبائل بجنے پر اس نے ناگواریت سے موبائل کی اسکرین دیکھی اور موبائل سائلنٹ کردیا۔ اسے میٹنگ کے دوران موصول ہونے والی کالز ہمیشہ غصہ دلاتی تھیں اس لیے اکثر وہ اپنا موبائل آفس روم میں رکھ آتا تھا۔
"سر! کمپنی سے دوسرا کنٹریکٹ ہوگیا ہے۔ اس کی فائلز اور بقایا کاغذات۔" اس کے آگے اسسٹنٹ نے فائلز رکھیں۔ جانے دماغ کہاں کھویا ہوا تھا۔ ماہ کامل گھر میں اکیلی تھی اور یہ سوچ کر اسے پریشانی ہورہی تھی۔
ایسا بھی نہ تھا کہ اسے اکیلے رہنے کی پہلے سے عادت ہو۔۔ یوں گھر میں پہلا دن اور اس کے پاس کوئی نہ تھا۔
"میٹنگ مختصر کردیں۔ مجھے مزید کچھ کام ہیں۔" اسے اپنے مینجر سے کہا اور موبائل کھول کر نوٹیفکیشنز میں اس کا نام دیکھنے لگا جو کہیں نہیں تھا۔
میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ وقت دیکھتا ہوا اپنے آفس میں آیا تھا۔
"باس آپ جارہے ہیں؟" اس نے نگاہ اٹھا کر سامنے اپنے مینجر کو دیکھا۔
"ہاں۔ باقی کی ڈیٹیلز تم دیکھ لینا۔ میرا جانا ضروری ہے۔" چار بج رہے تھے اور اب وہ آدھا دن گزار کر گھر جانا چاہ رہا تھا۔ مینجر اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے چلاگیا۔ سراقہ اپنا لیپ ٹاپ بیگ میں رکھنے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
چائے کی پتیلی چولہے پر رکھ کر اس نے فریج کھولا۔ ریڈی میڈ کباب کا پیکٹ نکال کر اب وہ انہیں تل رہی تھی۔ اس نے صبح کے بعد سے اب تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ کام والی سے پورے گھر کی صفائی کروا کر اب کمر ٹوٹنے کو تھی۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ چار بج چکے تھے۔ نہانے کی وجہ سے بال اب بھی گیلے تھے۔ وہ سراقہ اور جہاندار کے جانے کے بعد سے تنہا تھی مگر نجانے یہ تنہائی تنہائی کیوں نہیں لگ رہی تھی۔ وہ مطمئن تھی۔۔ سب کچھ خیالوں کے برعکس ہورہا تھا۔ بال شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ خود کو تازہ دم محسوس کرتی ہوئی وہ دس منٹ بعد ہی چائے اور کباب کی ٹرے لیے لاؤنج میں آگئی۔ آج پہلی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ آزاد ہو۔۔
کسی چیز کی نہ فکر ہو نہ پریشانی۔۔ ایک الگ اور آزاد زندگی۔۔
ڈوپٹہ شانوں پر پھیلا ہوا تھا۔ کباب کا لقمہ لیتے ہوئے اس نے ذائقہ زبان پر محسوس کیا۔ زندگی اچھی لگنے لگی۔ لاؤنج کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لان سے آتی ٹھنڈی ہوا زلفوں کو چھیڑ رہی تھی۔ نیا روپ نیا انداز۔۔ یہ کتنا بھلا معلوم ہوتا تھا۔
یکدم ہی لاؤنج کے کھلے دروازے پر زور سے کھٹکا ہوا۔ ماہ کامل کو جھٹکا لگا۔ حواس بوکھلا گئے۔ دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ یکدم ہی دوبارہ مزید زور سے کھٹکا ہوا تو وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی۔
"وہاں کون ہے؟" گھر میں اس کے علاؤہ کوئی موجود نہیں تھا۔ اگر کوئی آتا بھی تو میں گیٹ پر کھٹکا ہوتا۔ دوسری جانب مکمل خاموشی تھی۔ پلیٹ سے کانٹے کا چمچ اٹھاتے ہوئے وہ لاؤنج کے دروازے کی جانب بڑھی۔ ابھی لاؤنج کے دروازے سے جھانکا ہی تھا کہ ایک مردانہ چیخ پر وہ بوکھلاتے ہوئے زور سے چیخ اٹھی۔
"ہاہاہا۔" یکدم ہی قہقہہ گونجے لگا۔ "تم تو بڑی ڈرپوک ہو یار۔" ماہ کامل کا ہاتھ ابھی بھی اپنے منہ پر تھا۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔
"ایسے کون آتا ہے؟" دل اب بھی زور سے دھڑک رہا تھا۔ بال بکھر گئے تھے مقابل شخص اسے بے حد انہماک سے دیکھ رہا تھا۔
"سراقہ کیہان! ابھی تک نہیں پہچانی؟" اس کا انداز بھی ویسا ہی تھا۔۔ غیر سنجیدہ۔۔
"میں ڈر گئی تھی۔" نگاہیں جھکاتے ہوئے اس نے ڈوپٹہ سر پر لیا۔
"تم ڈر پوک ہو۔" اس کی لمبی سی زلف کو اپنی انگلی میں ذرا سا گھما کر چھوڑتا ہوا وہ اندر بڑھ گیا۔ ماہ کامل کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا۔ وہ سر جھکاتی ہوئی سلام کرتے ہوئے اس کے پیچھے اندر بڑھ گئی۔
"آپ روز اتنی جلدی آتے ہیں؟"
اس کی کبابوں کی پلیٹ دیکھ کر وہ وہیں ٹھہر گیا۔
"نہیں۔ لگتا ہے گھر میں اکیلے ہونے کا فائدہ اٹھایا جارہا تھا۔" لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے گھر میں عجیب سی تبدیلی بھی محسوس کی۔ "اور گھر بھی چمک رہا ہے۔" واقعی گھر بہت صاف محسوس ہورہا تھا۔
"کام والی سے صفائی کروائی ہے۔ اب وہ روزانہ آیا کرے گی۔" اس نے کباب کی پلیٹ اٹھا کر اس کے آگے کی تاکہ وہ لے سکے۔ سراقہ اس کا تل تکنے لگا۔
"اگر روز تم مجھے یہیں ملو گی تو میں بھی روزانہ جلدی آیا کروں گا۔" آواز میں ایک سحر تھا۔ کباب کا ٹکڑا لیتے ہوئے وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
اس کی باتوں سے دل بے قابو ضرور ہورہا تھا مگر بظاہر نظر انداز کرتے ہوئے وہ کچن میں چلی آئی۔ جلدی سے اس کے لیے کافی بنا کر اسے تشتری میں رکھتی ہوئی وہ باہر آگئی۔ سراقہ ٹی وی کھولتے بیٹھا تھا۔
"کافی۔۔" میز پر رکھتے ہوئے اس نے ٹی وی اسکرین پر نگاہ ڈالی۔ وہ سامنے دیکھ رہی تھی اور سراقہ اسے۔۔ وہ اس کے یوں کافی لانے پر چہرہ تک رہا تھا۔ کیا یہ نیا انداز تھا؟ اس نے بڑھ کر کافی لی۔
"تم سے کہا تھا کہ میری عادت مت بگاڑو۔ کیوں کر رہی ہو؟" لہجہ کچھ سنجیدہ تھا۔
"کافی دینے سے عادت بگڑ تو نہیں جاتی۔ آپ تھکے ہوئے آئے ہیں تو بس اسی لیے۔۔" اپنی چائے کا مگ اٹھاتے ہوئے وہ کچھ دور بیٹھ گئی۔
"تم کیا جانو کہ عادت کیسے لگتی ہے۔" اس نے گہری سانس خارج کی۔ "یہ ایک ایسا مرض ہے جو مریض کو کھا جاتا ہے ماہی۔" کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے اس نے سادگی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ہاں بھلا وہ محسوس کیوں نہ کرتی۔ حالات تو دونوں جانب کے ایک سے تھے۔ بس ان میں سے ایک شخص مان نہیں رہا تھا کہ اسے دوسرے کی عادت ہورہی ہے۔ وہ شاید خود کو تسلی دے رہی تھی۔
"یہ گھر بہت اچھا ہے۔"
"میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ اس گھر میں کیا کمی ہے۔ ہمیشہ خود کو شہر میں پرسکون پایا مگر پھر بھی ایک چھوٹی سی کمی ساتھ رہی۔ آج تم ہو۔۔ یہ شہر ہے۔۔ اب تمام کمیوں کو مکمل ہوتا دیکھ رہا ہوں تو اچھا لگ رہا ہے۔ دل پوری طرح سے مطمئن ہے۔ کل سے آج تک جو بھی ہوا وہ میری عام روٹین سے مختلف تھا۔۔ مجھے خوشی ہے کہ میں تمہیں اپنے ساتھ لے آیا۔" آنکھیں بند تھیں۔
یہ اس کے دل کی زبان تھی۔
"کل اتوار ہے۔" اس نے یاد دلانا چاہا۔ کافی پیتے سراقہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔
"تو؟"
"آپ مجھے کہیں لے کر جانے والے تھے۔"
وہ الجھا۔
"کہاں؟"
"میرے گھر۔۔"
"ہوں ہاں!" وہ چونکا۔ "میں بھول گیا تھا۔"
"اگر آپ مصروف ہیں تو بس مجھے وہاں چھوڑ دے گا۔ میں خود ہی کچھ وقت اکیلے گزار لوں گی۔" وہ کل کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی۔ عجیب بے قراری سی تھی۔
سراقہ نے اسے بغور دیکھا۔
"نہیں میں ساتھ رہوں گا۔" کافی کے مگ پر جھکتے ہوئے وہ موضوع ختم کر گیا۔
"مگر آپ مصروف ہیں۔" جانے وہ اسے اکیلا اس کے گھر کیوں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
"ہاں مگر وقت نکال لوں گا۔ اتوار کا دن ہے۔ ویسے بھی گھر سے کام کرنا ہوتا ہے۔" اس نے ٹائی ڈھیلی کرتی ہوئے اتار کر صوفے پر پھینکی۔
ماہ کامل کا دل اطمینان سے بھر گیا۔
"پانی لاؤں؟" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
سراقہ نے اس بار حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ ماہی ایسا کیوں کر رہی ہے۔ وہ سراقہ کی احسان مند تھی اور یہی خیال سراقہ کو مسکرانے کے بجائے مزید دکھ میں ڈال گیا۔ کاش وہ جان پاتی کہ یہ سب سراقہ کی ہمدردی نہیں تھی۔۔ اور نہ یہ اس کے کیے گئے احسان تھے۔۔
دل کی باتیں تھیں جو ابھی تک صرف دل میں ہی تھیں۔
"نہیں۔۔ بس پاس بیٹھی رہو۔ پاس رہو گی تو تھکن ویسے ہی اتر جائے گی۔" اب کی بار وہ دل کی باتوں کو زبان پر لانے سے خود کو روک نہ سکا۔ ماہ کامل کا دل کچھ زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ نگاہیں چراتی ہوئی دوبارہ بیٹھ گئی۔ پھر جانے کمر صوفے سے لگائے وہ دونوں بازو سر کے پیچھے رکھے کب تک اسے دیکھتا رہا تھا۔۔ اور ماہی اس کافی کے مگ کو دیکھ رہی تھی۔
وہ دیکھ رہا تھا جیسے ایک عرصے بعد وہ چہرہ دیکھ رہا ہو۔۔ جیسے حفظ کر رہا ہو۔۔ جیسے نظر ہٹائی تو غائب ہو جائے گا۔
مطمئن چہرہ تھا اور دل سکون میں تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"شاید میں کسی اور کے گھر میں آگیا ہوں۔" ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھے اور وہ لاؤنج کے دروازے کے باہر کھڑا اپنے صاف ستھرے گھر کو دیکھ رہا تھا۔ سبزی کاٹتی ماہی اس کی آواز پر چونکی۔
"نہیں درست آئے ہو۔" ایپرن پہنتا سراقہ اس کی جانب مسکرا کر دیکھنے لگا۔
"ارے میرے اچھے خاصے گھر کے ساتھ یہ کیا کردیا؟" فرش چمک رہا تھا۔ صوفے بھی صاف تھے اور ان کی سیٹنگ بھی کچھ تبدیل کردی گئی تھی۔ ٹی وی لاؤنج اور میز بھی چمک رہے تھے۔
"اسے صفائی کہتے ہیں ورنہ تمہیں تو گندگی کی ہی عادت ہوگئی تھی میرے بھائی۔" ماہی کے آگے سے کٹے ہوئے آلو کی پلیٹ اٹھا کر اس نے ان میں کارن فلور ڈالا۔
"کیا میرا کمرہ بھی؟" اب کی بار اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر آنے کو ہوئیں۔
"ہاں۔ صاف کروادیا تھا۔ اب اچھا لگ رہا ہے جہاندار بھائی۔"
اس نے بہت خوشی سے بتایا۔
"چھوٹی یہ کیا کردیا تم نے۔۔" اس نے بیگز میز کی کرسی پر رکھے۔ "ویسے اب میں اس بکھرے ہوئے کمرے کو بہت یاد کرنے والا ہوں۔"
"یہ شاپنگ بیگز کس لیے؟" بیگز کو الٹاتے ہوئے اس نے اندر جیسے سامان چیک کیا۔
"یہ سامان میری بیوی کا ہے جو میں مارکیٹ سے لایا ہوں۔ اب ظاہر ہے اس کے آنے کی تیاری بھی تو مجھے ہی کرنی ہے۔" اس نے جھٹکے سے وہ بیگز اٹھائے۔
"ہاں ٹھیک ہے مگر مجھے تو دکھاؤ۔" اندر کھانے پینے کی چیزوں کے علاؤہ بھی دوسرا بہت کچھ سامان تھا۔ دور بیٹھی ماہ کامل کو تجسس ہوا۔
"کیوں تو میری بیوی ہے؟" آنکھیں دکھاتے ہوئے بغیر رکے اوپر چلا گیا۔ سراقہ نے حیرانی سے اس کی پشت دیکھتے ہوئے ماہ کامل کو دیکھا۔
"تم نے دیکھا اس بے حس آدمی کو؟ آج دوسری بار رات کا کھانا میں بنا رہا ہوں اور یہ آدمی صرف منہ کھول کر کھاتا ہے۔ ہاتھ نہیں بٹاتا۔" شکایت بھرا لہجہ تھا۔
"آپ کو کل سے نہیں بنانا پڑے گا۔" اس نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی تھی مگر پھر بھی وہ ہلکا سا ہنس پڑی۔
"کیوں؟ تم نے باورچی ڈھونڈ لیا ہے؟" وہ بھی جواباً مسکرا دیا۔
"باورچن نہیں ملی۔۔ ایک لڑکا مل گیا۔ ہماری کام والی کا چھوٹا بھائی گھر گھر باورچی کی نوکری بھی کرتا ہے۔"
"کتنا بڑا ہے؟ تم صبح گھر میں اکیلی ہوتی ہو اور میں گھر میں کسی انجان لڑکے کے ساتھ تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔" اس نے باور کروایا۔
"وہ لڑکا اتنا بڑا نہیں۔۔ تیرہ چودہ سال کا ہے۔"
"کیا وہ کھانا بنائے گا؟" اس نے آئبرو اچکائی۔
"کام والی نے کہا کہ چھوٹی موٹی چیزیں وہ خود بنالیتا ہے لیکن باقاعدہ کھانا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے یہ بہتر رہے گا کہ اگر ہم اس لڑکے کو رکھ لیں۔ کھانا بنانے میں میری مدد کردے گا۔ اچھا ہے۔۔ میں ویسے بھی کوئی بڑا باورچی نہیں چاہ رہی ہوں۔ اگر تمام کاموں کے لیے کوئی نہ کوئی ہو گا تو میں کیا کروں گی؟ مجھے فارغ رہنا بلکل نہیں پسند۔۔" کھیرا کاٹتے ہوئے اس نے پلیٹ میں سجایا۔
"ہوں۔۔" اتفاق کرتے ہوئے سر ہاں میں ہلایا۔ "ٹھیک ہے اسے تم کل بلوا لو۔"
ماہ کامل نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پلیٹ اس کی جانب بڑھادی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں۔۔" وہ منمنائی۔
"کیا کہتا ہے جہاندار؟"
"تایا ابو۔۔" وہ ہچکچانے لگی جیسے خوف کھا رہی ہو۔
"تم ٹھیک ہو؟"
"میں نے کوشش کی ہے بڑے ابا۔۔ وہ نہیں مانتے۔۔" اس کے آنسو بہنے لگے۔ آج کل تو ہر بات پر آنسو ہی بہتے تھے۔ دوسری جانب خاموشی پھیل گئی۔
"بڑے ابا۔۔" اسے ان کی خاموشی سے مزید رونا آنے لگا۔ شاید وہ اب اس پر غصہ ہونے والے تھے۔۔ یا پھر سب کو بتانے والے تھے کہ شہاب کی بیٹی ایک کام نہ کرسکی۔ اس پر الزام لگانے والے تھے کہ اس نے کچھ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔ "میں نے بہت کوشش کی ہے بڑے ابا۔ وہ غصہ کر جاتے ہیں۔ جہاندار کسی طور طلاق دینے کو تیار نہیں۔ کہتے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ خدا کی قسم بڑے ابا! میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔ مجھے حویلی جانا ہے۔ میرا یقین کریں۔۔ میں نے سمجھایا تھا۔۔ غصہ بھی کیا تھا مگر وہ نہیں سمجھتے۔" وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
"رو مت جانان۔" شاداب کی بھیگی آواز ابھری۔ "میں جانتا ہوں دوری کا لفظ کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔" انہوں نے خود پر محسوس کیا۔
"میں ٹھہر گئی تو نیلی کہلائی جاؤں گی جو اپنے رشتے کو بچانے کے لیے کچھ نہ کرسکی تھی۔۔ اور چلی گئی تو چندا کہلائی جاؤں گی جنہوں نے دنیا داری پر شوہر کو ترجیح دی تھی۔" آنکھیں تیزی سے بہہ رہی تھیں۔
"چندا۔" ان کے لب کپکپائے تھے۔ ایک اذیت بھری لہر پورے جسم میں دوڑی اور لبوں سے آہ کی آواز نکلی۔ یادِ ماضی اذیت تھا۔
"کون ٹھیک تھا بڑے ابا؟ چندا یا نیلی؟ کس کا راستہ مفید تھا؟ کون سی عورت جیت گئی؟"
"مرد مضبوط ہو تو عورت ہر حالات کو مضبوطی سے گزار لیتی ہے۔۔ اگر اس کا مرد مضبوط ہو تو۔۔۔" یہ بات انہوں نے جس طرح ٹھہر کر کہی تھی' جانان ساکت رہ گئی تھی۔
"بڑے ابا۔" اس نے دھیرے سے پکارا۔
"تمہارا مرد مضبوط ہے جانان۔۔ بہت مضبوط! تمہارے تایا ابا جیسا کمزور نہیں ہے۔ وہ تمہیں تنہا نہیں کرے گا۔ تمہارے لیے ہر حالات میں کھڑا رہے گا۔ چندا کا بھتیجا ہے۔۔ اسے ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا۔۔ مضبوط اور با ہمت! بلکل اپنی پھپھو کی طرح!" چندا کا ذکر دل چیر دینے والا تھا۔ کتنے سالوں بعد ان کے منہ سے اس نے چندا کا نام سنا تھا۔
"آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟" کیا وہ اسے روکنے نہیں والے تھے؟ کیا وہ اس پر غضب ناک نہیں ہونے والے تھے؟
"اس کے پیچھے چلی جاؤ جانان بیٹی۔ اسے نامراد مت لوٹاؤ۔ اس کی پھپھو کے ساتھ جو ہوا' اس کے ساتھ مت دہراؤ۔ چندا بھی مضبوط عورت تھی۔ باہر سے چٹان تھی مگر درد تو اندر بستے ہیں۔ جہاندار بھی ویسا ہے۔۔ بلکل اپنوں کے جیسا۔۔ اندر سے ٹوٹ جائے گا اور باہر سے پتا بھی نہ لگنے دے گا۔ یہاں کی فکر نہ کرو۔ میں یہاں کچھ نہیں بتاؤں گا۔" ان کی باتیں اس کا سانس لینا دشوار کر رہی تھیں۔
"ممم۔میں ایسا نہیں کروں گی۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ مجھے حویلی آنا ہے بڑے ابا۔ میں اپنے باپ کے ساتھ دھوکا نہیں کر سکتی۔ ان کی واحد اولاد ہوں۔ انہیں شرمندہ نہیں کرسکتی۔ وہ بقایا زندگی اس شرمندگی میں گزار دیں گے ان کی واحد اولاد ان کی باتوں مان نہ رکھ سکی۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ جہاندار مجھے ساتھ لے جائیں گے۔۔ میں حویلی آنا چاہتی ہوں۔"
"ٹھیک ہے۔ تم سراقہ سے بات کرو۔ جو تم چاہو گی بس وہی ہوگا۔" شاداب جانتے تھے کہ خونی رشتوں کے لیے وہ کیسے محبت چھوڑ رہی تھی۔
"میں بعد میں بات کرتی ہوں۔" اس نے کال ہی کاٹ دی کہ یہی بہتر تھا۔ اس کے فیصلوں اور ارادوں میں دراڑ پر چکی تھی۔ وہ اس قدر الجھ چکی تھی کہ وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ دو راستے تھے اور دونوں ہی اسے خوف دلا رہے تھے۔۔ اذیت ناک گھڑیاں اور بن نیند کی راتیں۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے بستر پر پھیلے اس سامان کو دیکھا جو وہ جانان کے لیے لایا تھا۔ چہرہ سپاٹ تھا۔ کسی کی باتوں کو خاطر میں نہ لانے والا جہاندار آج جانان کے رویوں سے دل میں برا محسوس کر رہا تھا۔ سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے پشت ٹکاتے ہوئے سر رکھ لیا۔
عجیب داستان تھی۔۔ جس کا ناقابل یقین اختتام تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ اب جلد جانان سراقہ کو اس حوالے سے کال کرنے والی ہے۔ ایک وہی تو شخص تھا جو جہاندار کو سمجھا سکتا تھا۔
اس نے آنکھیں موند لیں کہ اب تھوڑی دیر دماغ بھی سکون چاہتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آج دل اتنا مطمئن ہے کہ میں اب بھی حیرانی کی کیفیت میں گرفتار ہوں۔۔ شاید بہت وقت ہوگیا ہے کہ میں کبھی پرسکون نہیں ہوئی۔ بدر عالم کی جانب سے پریشانی تو شاید اب ہمیشہ رہنے والی تھی۔ مجھے اس کی یاد آتی ہے۔۔ شاید شہر آنے کے بعد سے زیادہ آنے لگی ہے۔ ان چند دنوں میں مجھے احساس ہوا کہ آپ کی زندگی میں ایک شخص کیسے تبدیلی لاتا ہے۔ گویا زندگی کی کہانی ہی موڑ دی گئی ہو۔ اب یہ سب اتنا برا نہیں لگتا۔ اب جینے کا دل کرتا ہے۔۔ بدر عالم کے لیے۔۔ خود کے لیے۔۔
وہ کہتا ہے کہ میں اسے اپنی عادت نہ لگاؤں مگر میں اسے کیسے بتاؤں تو عادت تو مجھے بھی ہورہی ہے۔ میں نہیں جانتی عادت کا لگنا کیسا ہوتا ہے مگر مجھے ان کی ناموجودگی میں ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مجھے خود پر محنت کرنی ہے۔ مجھے خود کو سمجھانا ہے کہ عارضی جگہ پر دل نہ لگایا جائے۔ میں کل اپنے گھر جاؤں گی۔۔ اس بات کی جتنی خوشی ہے اتنا ہی خوف ہے۔ خوف ایسا کہ قلم چلاتے ہاتھ کپکپا رہے ہیں۔ میں نے ماں کی تصویریں ان کے جانے کے بعد بہت کم دیکھی ہیں۔ مجھے وہ خوف دلاتی ہیں۔ یادوں کے سمندر میں پھر سے دل و دماغ ڈوب جائے گا اور میں ماضی میں کھو جاؤں گی۔ وہ ماضی جو مجھے راحت دیتا ہے۔ وہ ماضی جو مجھے اذیت دیتا ہے۔ ماضی میں جینے والے لوگ حال میں نہیں ہیں اب۔۔ یہی تو میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ حصہ ہے۔
میں سراقہ کو اپنا ہمراز نہیں بنانا چاہتی۔
میں نہیں چاہتی کہ ہمارے درمیان کوئی ایسی بات ہو جس کے بہانے وہ ساری زندگی مجھے یاد رکھیں۔
نہ جانتے ہوئے بھی سب جاننے والا سراقہ ایک بے حد مشکل مرد ہے۔ وہ سب جان جاتا ہے۔ میرے ارادے، میرے خیالات، میری اداسی۔۔ وہ سب سمجھتا ہے۔
کتنا خطرناک معلوم ہوتا ہے۔۔ جب انسان آپ کو جاننے لگے۔۔ پہچاننے لگے۔۔ آپ کی عادت بننے لگے۔۔ اس کی مسکراہٹ آپ کو بھانے لگے۔۔ اس کی موجودگی راحت پہچاننے لگے۔۔ تنہائی کاٹنے لگے۔۔
وہ جینا مشکل کر رہا ہے۔
میرا چھوڑنا اگر اس کے لیے ناقابلِ برداشت رہا؟ میں محبت کے ہاتھوں رلنا نہیں چاہتی۔ مجھے خود کو باور کروانا ہے کہ یہ شادی محض ایک سمجھوتہ ہے۔
میں کیسے سراقہ کو سمجھاؤں کہ میرا سب سے بڑا خود 'محبت' ہے۔۔" اس نے آخری میں پین کتاب پر رگڑا اور برابر لیٹے گہری نیند میں ڈوبے سراقہ پر نگاہ ڈالی۔ اس کے بال اس کی آنکھوں سے بہت نیچے تک آتے تھے۔ کروٹ اس کی طرف لیتے ہوئے اس کی آنکھیں ذرا سی کھلی تھیں۔ ماہ کامل کو اپنی جانب دیکھ کر وہ کچھ چونکا تھا۔ آنکھیں چھوٹی ہوئیں۔
"کیا ہوا؟ پریشان ہو؟" اس کا سپاٹ چہرہ نوٹ کرتا ہوا وہ ذرا سا اٹھا۔
"نہیں۔۔ بس یونہی۔۔ آپ سوجائیں۔" اس نے تیزی سے چہرہ کتاب کی جانب کیا۔ آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ اس ہلکی روشنی میں اس کی آنکھوں کو نہ دیکھ سکا۔
"میں اٹھ جاتا ہوں۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔"
"کچھ نہیں ہوا۔" کتاب بند کرتے ہوئے اس نے سائڈ دراز پر رکھ دی۔ وہ اس کے لیے پریشان تھا اور یہی بات ماہ کامل کی آنکھیں نم کر گئی تھی۔ اس کی محبت دل نرم کر رہی تھی۔
"تم جھوٹ بولتی اچھی نہیں لگتی باخدا۔" وہ بالآخر اٹھ ہی بیٹھا۔
"پلیز مت کریں! آپ نہیں جانتے ہیں یہ سب مجھے کس طرح سے تکلیف دے رہا ہے۔ مت پوچھیں میرا حال۔۔ چھوڑدیں میرے حال پر مجھے۔۔ حالات مشکل بنا رہے ہیں آپ!" جانے کیسے ہوا مگر وہ خود کو روک نہ سکی۔ سر جھکاتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بول اٹھی۔ سراقہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے۔ وہ رو رہی تھی اور یہ دیکھ کر سراقہ کا دل سکڑ رہا تھا۔ لب کھل ہی نہ سکے۔ ساکت نگاہیں اس کا چہرہ ہی تکتی رہ گئی۔ منہ پر ہاتھ سختی سے پھیرتے ہوئے وہ اس کی جانب سے کروٹ لے گئی۔ اس کی دنیا جگا کر وہ خود سختی سے آنکھیں موند گئی۔ سراقہ دھپ سے بستر پر چتا لیٹا۔ عجیب نہ سمجھنے والی کیفیت سے دل دوچار ہوا۔ اس کی باتوں کا مطلب ڈھونڈنے کے لیے یہ رات کافی تھی۔
جانے کب وہ سسکیاں بھرتے بھرتے سو گئی اور سراقہ ساری رات بنا نیند کی آنکھوں سے چھت کو تکتا رہا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کافی کا مگ تھا مگر نگاہیں میز پر گویا جمی ہوئی تھیں۔ کمرے میں داخل ہوتی ماہ کامل نے اس کا بجتا موبائل دیکھا جو سراقہ کے ساتھ ہی رکھا تھا۔ اس نے ابھی تک کال نہیں اٹھائی تھی۔ ایک نگاہ اس پر ڈالتی ہوئی وہ اپنی الماری میں رکھے کپڑے درست کرنے لگی۔
کال نہ اٹھانے پر دوسری جانب سے ہی کاٹ دی گئی۔ کپڑے تہہ کرتے ساتھ اس نے سراقہ کا چہرہ دیکھا جو سپاٹ تھا۔ دماغ خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔ ماہ کامل نے نگاہوں کا رخ موڑ لیا۔ صبح اٹھنے کے بعد سے دونوں کے درمیان ذرا گفتگو نہ ہوئی تھی۔
اگر یہ سب فاصلوں کو برقرار رکھنے کے لیے کافی تھا تو یہی سہی۔۔ وہ ایسی ہی رہے گی۔
موبائل یکدم ہی دوبارہ بجنے لگا۔ اب کی بار بھی سراقہ نے اس کی جانب توجہ نہ دی۔ کمرے کی خاموشی میں خلل ڈالتی یہ آواز ماہ کامل کو بری لگنے لگی۔ اگر وہ کال نہیں اٹھانا چاہتا تھا تو موبائل سائلنٹ کردیتا۔ بھلا یہ کیا تک بنتی تھی۔
"کال آرہی ہے۔" جیسے وہ جانتا ہی نہ ہو۔ اس کی آواز پر بھی وہ ذرا نہ ہلا۔ شاید خیالوں نے مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔
"سراقہ؟" اب کی بار اس نے آواز کچھ بلند کی۔ سراقہ ہڑبڑایا۔
"ہوں۔۔ ہاں۔۔" اس نے چونک کر بجتا ہوا موبائل دیکھا اور نام پڑھتے ہوئے کال اٹھائی۔
"ہیلو۔" مخاطب کرتے ہوئے اس نے سلام کیا۔ "کیسی ہو جانان؟" ہلکی ہلکی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اب پشت بستر سے ٹکا چکا تھا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" یہ ہمت وہ پچھلی پوری رات اپنے اندر جمع کرتی رہی تھی۔
"ہاں میں سن رہا ہوں۔" ماہ کامل کو چہرہ بغور دیکھتے ہوئے وہ ٹیرس میں بڑھ گیا۔ ماہ کامل جو اس کی جانان کے ساتھ گفتگو سننے کا ارادہ رکھتی تھی لب کاٹتی رہ گئی۔ کاش وہ مزید کچھ دیر یہاں ٹھہر جاتا۔ کپڑے الماتے میں رکھتے ہوئے اس نے نیچے جاتی سیڑھیوں کی راہ لی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مان جاؤ گی تو یہی ٹھیک رہے گا۔" وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
"ممکن نہیں ہے۔ آپ انہیں اپنے طور پر سمجھا دیں اور کہیں کہ میری زندگی آسان کردیں۔" اس کا لہجہ سپاٹ تھا اور سراقہ لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔
"وہ تمہیں بیاہ کر تمہاری زندگی ہی آسان کر رہا ہے جانان۔ ہم جانتے ہیں کہ تم بڑوں کے دباؤ میں ہو۔ ہمیں تمہاری پرواہ ہے۔" وہ ہمیشہ سے اسے چھوٹی بہنوں کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔
"میری پرواہ مت کریں۔ اور جہاندار سے بھی کہیں کہ میرا پیچھا چھوڑدیں۔ مجھے ان کے ساتھ کی کوئی طلب نہیں ہے۔ مجھے اب وہ مزید اپنی زندگی میں نہیں چاہئیے ہیں۔ ان سے کہیں کہ طلاق دے دیں تاکہ میں گاؤں لوٹ سکوں۔ تھک گئی ہوں روز کی ان ایک طرح کی باتوں سے۔۔ سراقہ بھائی میری مدد کریں۔ مجھے اس رشتے سے نجات دلائیں۔" دل اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ اگر وہ ایسا نہ کہتی تو سراقہ کبھی نہ مانتا۔۔ اسے خود کو بڑوں کے فیصلوں سے راضی دکھانا تھا۔
دوسری جانب لمبی خاموشی پھیل گئی۔ اس کے خود کو ٹھہرا ہوا محسوس کیا جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ وہی جانان تھی جو خود کو جہاندار کی بیوی ہونے پر فخر محسوس کرتی تھی۔
"سراقہ بھائی؟" دوسری طرف سے آواز ابھری۔
"جانان۔" اس نے بمشکل پکارا۔
"جی۔۔"
سراقہ کو مزید کچھ وقت بولنے میں لگا۔
"میں ایسا نہیں کروں گا۔ وہ میرا بھائی ہے۔ میں اسے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ تم بھی تو سلیم کو بھائی کہتی ہو۔ تو کیا اسے مرتا ہوا دیکھ سکتی ہو؟ میں نہیں جانتا۔۔ مگر میں یہ سب نہیں کر سکتا۔ مجھے تم بلکل چھوٹی بہنوں کی طرح عزیز ہو مگر وہ میرا بھائی ہے۔ میں نے ہر طرح کے حالات اس کے ساتھ جیے ہیں۔ میں اس کا دل نہیں توڑ سکتا۔ اس کی زندگی ویران کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔۔ تمہیں آنا ہوگا۔ جو وہ چاہے گا بس وہی ہوگا۔ اس سب کے لیے تمہیں اسے منانا ہے کیونکہ میں صرف جہاندار کا ساتھ دوں گا۔" اس کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ جانان نا امید ہوگئی۔ اسے سراقہ سے یہ امید نہیں تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اس کی بات کا خیال رکھے گا مگر شاید وہ یہ بھول گئی تھی کہ سراقہ جہاندار کا بھائی ہے۔ جانان نے ناکامی سے آنکھیں موند لیں۔
"چھوڑ دو ان بیکار سوچوں کو۔۔ بس خود کو تیار رکھو۔ ہم میں سے کوئی تمہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ کچھ ہی وقت رہتا ہے۔ حویلی والوں کو ہم منا لیں گے۔" یہ اس نے آخری بات کہی تھی اور پھر جانان نے کال کاٹ دی تھی۔ وہ فون کو تکتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ماہ کامل شہر گئی ہے۔" نیلی نے اس کی ضد پر بالآخر بتایا۔ وہ چونکا جیسے دھچکا سا لگا ہو۔
"آجائے گی۔۔ کچھ دنوں کے لیے گئی ہے۔" اس کے چہرے کے تاثرات اداسی میں بدل رہے تھے۔ وہ خود ہی بات کو اپنی طرف سے درست کر گئی۔ وہ اب نیلی سے وجہ پوچھ رہا تھا۔
"جانے کیوں۔ اس نے بتایا نہیں۔۔ مگر تو فکر نہ کر بدر عالم۔ وہ تیرے لیے کچھ ضرور لائے گی۔ تو جانتا تو ہے زیادہ وقت تیرے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔" اس کے کپڑوں کو تہہ کرکے الماری میں رکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بتانے لگی۔ خاموش بدر عالم مزید خاموش رہ گیا۔ ایک نکتہ کو بے وجہ تکتا ہوا سوچوں میں الجھ کر رہ گیا۔
"میں نے سلیم سے کہا ہے کہ وہ ہم دونوں کو بڑے والے پارک لے جائے۔ تھوڑا وقت باہر کی دنیا کے ساتھ گزارو گے تو اچھا محسوس کرو گے۔" اس کو دھیرے دھیرے باتوں میں مشغول کرتی نیلی ہر بات پر مسکرا کر رہی تھی۔
"ابا میاں نے تمہارے لیے یخنی بنوائی ہے اور شاداب بھائی نے ملازموں پر تمہارے حوالے سے مزید سختی کردی ہے۔ تم جو کھانا چاہو' اپنی خواہش کا اظہار مجھ سے کردینا۔ میں بنوادوں گی۔" محبت سے بھتیجے کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ اس کی نم آنکھیں محسوس کرنے لگیں۔
"تو رو رہا ہے بدر؟ بہن کو یاد کر رہا ہے؟" نیلی ہمیشہ سے حساس رہی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہو جانے والی، آنکھیں نم کرنے والی۔۔
اس نے اپنی آنکھوں کو بھی نم پایا۔ وہ چمک رہی تھیں۔ بدر علم نے پھپھو کی آنکھوں میں دیکھا جو بھیگ چکی تھیں۔ ہاں وہ یاد کر رہا تھا۔ جانے کتنے مہینے ہوگئے تھے کہ وہ حویلی سے باہر بھی نہ نکلا تھا۔ بیماری اسے کھا رہی تھی۔۔ وہ کمزور ہوتا جارہا تھا۔۔ ختم ہوتا جارہا تھا۔ اس نے لیٹ کر اپنا سر نیلی کی گود میں رکھ دیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تو وہ آنکھیں ہی موند گیا۔ جانے کب وہ بہن کا چہرہ دیکھ سکے گا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
گھر کی جانب آتا یہ راستہ بھی اتنا ہی خوبصورت معلوم ہورہا تھا۔ وہی محلہ۔۔ وہی گلیاں۔۔ اور ان گلیوں میں کونے والا ایک چھوٹا مکان۔۔ خوشیوں کا گھر۔۔ بچپن کا گھر۔۔ ماں کا گھر!
اس نے سب کچھ بہت غور سے دیکھا تھا۔ باہر سے گھر اب بہت پرانا معلوم ہوتا تھا اوراس کے باہر دروازے پر لگا منہ چڑاتا تالا۔۔
"چابی؟" سراقہ نے اس سے چابی مانگی تھی۔ وہ خیالوں کے جھنڈ میں کھوئی یکدم ہی ہوش میں آئی۔ لرزتے ہاتھوں سے چابی بڑھاتے ہوئے وہ اپنی نگاہ گھر کے دروازے پر جما گئی۔ سراقہ دروازہ کھول رہا تھا اور ماہ کامل یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یادوں کا سوٹ کیس کھولنے والا ہو۔
جیسے دروازہ کھلتے ہی وہ ماضی کی یادوں کو آغاز سے جنم دے گی۔
گھر کی یہ چابی ہمیشہ سے اس کے پاس تھی۔ کہنے کو کچھ ڈپلیکیٹ چابیاں بھی تھیں جو شاید شاداب کے پاس تھیں مگر اس نے ہمیشہ ایک چابی اپنے پاس بھی رکھی۔ دروازہ چرچراتے ہوئے کھلنے لگا۔ وہ گاڑی کے پاس ہی کھڑی رہی۔ اس نے نگاہ ارد گرد ڈالی۔ محلے کے لوگوں کو اس کے آنے کا علم ہوا تھا۔ کچھ اپنی چھتوں پر تو کچھ اپنے ٹیرس پر کھڑے اسے تک رہے تھے۔۔ چندا کو کون نہیں جانتا تھا۔۔ ساتھ اس کے دو خوبصورت بچے! آنکھوں میں حیرانی اور تجسس تھا۔
ان پر نگاہ ڈالتی ہوئی ماہ کامل نے اپنا چہرہ چادر سے ہلکا ڈھانپ لیا۔
"آجاؤ۔" سراقہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ دروازے پر بلا کے جالے تھے۔ اس کے پیچھے چلتی ہوئی وہ اندر داخل ہوئی۔ تین کمروں کا چھوٹا گھر تھا۔ سراقہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے چاروں اور دیکھا تھا۔ داخل ہوتے ساتھ دور ایک چھوٹا کچن تھا۔ ایک چھوٹا سا کھلا ایریا اور دو کمرے۔۔ اس نے مڑ کر ماہی کو دیکھا جو ساکت کھڑی ہر چیز کو بے حد گہرائی سے دیکھ رہی تھی۔
ایک ایک کر کے ماضی کے واقعات دماغ میں گھومنے لگے۔ فرنیچر کو سفید چادروں سے کور کیا ہوا تھا۔
کیا یہاں بھی کوئی آتا رہا ہوگا؟ پندرہ سالوں سے اوپر ہوچکے تھے۔۔ اب تو شاید وہ گنتی بھی بھول چکی تھی۔ سراقہ قدم بڑھاتا ہوا اندرون حصہ میں داخل ہوا۔
"سب سامان اپنی جگہ پر آج بھی رکھا ہوا ہے۔" چیزوں کو نوٹ کرتے ہوئے وہ قدرے حیرانی سے بولا۔
"امی کے انتقال کے دو دن بعد یہ گھر لاک ہوگیا تھا۔ ابا نے خود کیا تھا۔ دو دن ہم یہیں ٹھہرے تھے۔ نیلی پھپھو بھی آئی تھیں۔ کیونکہ اس کے بعد یہ گھر کبھی نہیں کھلنے والا تھا اس لیے یہاں کی چیزوں کو سمیٹنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔" اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
وہ ایک کھلا چھوٹا سا ایریا تھا جسے لاؤنج کا نام نہیں دیا جاسکتا تھا۔ البتہ اس جگہ کے اوپر چھت نہیں تھی۔ اس جگہ سے تھوڑی ہی دور جا کر گھر کا دوسرا دروازہ آتا تھا۔ روشنی اور تیز ہوا کا بہت اچھا ملاپ تھا۔ ایک بڑا صوفہ تھا اور ایک سنگل چئیر۔۔ سراقہ نے صوفے کے اوپر سے چادر ہٹائی۔ ہاں یہ ایک بہترین جگہ تھی اس کے بیٹھنے کے لیے۔۔ وہ ہر اتوار کے لیے اس گھر میں اپنی پسندیدہ جگہ ڈھونڈ چکا تھا۔
"تم ٹھیک ہو؟" اس نے دور ماہ کامل کو خاموش دیکھا۔
"ہوں۔۔ کیا میں اس گھر کی صفائی کروا سکتی ہوں؟" وہ یہاں اب باقاعدہ آتے جاتے رہنا چاہتی تھی۔
"ہاں۔ اچھا ہے۔ پھر یہاں اتوار گزارنا مزید ممکن لگے گا۔ یہ واقعی ایک کھلی جگہ ہے۔۔ لوکیشن بھی بہترین ہے۔ اس پٹی کا آخری کونے والا مکان اور ہوا کا رخ بھی اس طرف ہے۔"
ماہ کامل نے رخ ایک چھوٹے سے کمرے کی جانب کیا جس کے باہر کنڈی لگی تھی۔ کنڈی کھولتے ہوئے اس نے دروازہ پورا کھول دیا۔ پرانے گھر کی خوشبو اسے گہری سانس لینے پر مجبور کرنے لگی۔
وہ آوازیں، وہ چہکتے لہجے۔۔ پورا ماضی گھوم گیا۔
بدر عالم اور ماہ کال کا کمرہ۔۔
حسین اور نہ ختم ہونے والا خوبصورت ماضی۔ اس نے کمرہ کی لائٹ جلائی تو پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا۔ سراقہ اس کے پیچھے بڑھا۔
"تمہارا کمرہ۔۔" وہ خود ہی پہچان گیا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ دو سنگل بیڈ اور اسٹڈی ٹیبل۔۔ اس میز پر کافی کچھ رکھا ہوا تھا۔ جیسے بہت سی کتابیں، کھلونے، خطوط اور۔۔ اور گڑیا۔ ماہ کامل کی گڑیا۔ وہ دیکھتے ہی کسی خوشگوار احساس سے دوچار ہوئی۔
"یہ کتاب کس کی ہے؟" کتابوں میں سے وہ ایک کتاب اٹھا کر الٹ پلٹتے ہوئے دیکھنے لگا۔
"امی۔۔ انہیں پسند تھا یہ سب پڑھنا۔۔" ماں کا ذکر دل خالی خالی سا کر گیا۔

میں ماہ کامل ہوں  Where stories live. Discover now