"زندگی اتنی مشکل مجھے کبھی نہیں لگی جتنی اب لگ رہی ہے۔ یوں لگ رہا جیسے کوئی کانٹوں بھری راہ میں چھوڑ گیا ہو۔ آگے دو راستے ہیں اور دونوں ہی دل کی چاہ ہیں مگر بیک وقت دونوں کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ میں آج پہلی بار خود کو یوں اتنا الجھا محسوس کر رہی ہوں۔
سراقہ خاموش رہتے ہیں۔ کہتے ہیں انہیں محبت نہیں ہوئی۔ انہیں واقعی محبت نہیں ہوئی؟ مگر میرا دل بس اب ان کے لیے دھڑکنے لگا ہے۔ پہلے وقت تھا کہ گزرتا ہی نہیں تھا اور اب وقت ہے کہ ٹھہر ہی نہیں رہا۔ وہ خاموش ہیں اور سنجیدہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چندا نے شاداب کو کتنا پکارا تھا مگر وہ کبھی نہیں لوٹے تھے۔ کیا یہی تھی ان کی محبت؟ بیوی نہ سہی اولاد کے لیے انسان پلٹ ہی جاتا ہے۔ گویا ایک پلڑے میں بیوی اور دو بچے تھے اور دوسرے میں دولت! انہیں بھی دولت کا پلڑا بھا گیا۔ شاید وہ دوسرے پلڑے سے بھاری ہوگا۔ شہاب چچا کو دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا کہ باپ کا ہونا کیسا ہوتا ہے۔ معاملات جو بھی ہوں مگر وہ اپنی بیٹی کے ہی گن گاتے رہتے ہیں۔ مجھے اس بچپن میں لوٹنا ہے جب میرے ہر خط میں شاداب کا نام لکھا ہوتا تھا۔ جب میں پیار سے پکارتی تھی کہ بابا واپس آجائیں۔ آپ کی گڑیا آپ کو یاد کرتی نہیں تھکتی ہے۔ کیا میرے لکھے گئے خطوں کو بھی یوں نظرانداز کردیا گیا؟
شاید میری زندگی کی کتاب یوں ادھوری ہی رہ جائے۔ شاید میں اس کو کبھی مکمل نہ کر پاؤں۔ ہمیشہ ہیپی اینڈنگ کا انتظار کرتے کرتے کہیں زندگی ہی نہ بیت جائے۔
آنے والے چند دنوں میں ہی مجھے بدر عالم کو شہر لانا ہے۔ اس کے مرض کا کوئی نام نہیں ہے۔۔ وہ بس خود کو تنہا کر گیا ہے۔ یہی اس کا مرض ہے۔ شاید اب وہ مجھ سے بھی ناراض رہنے لگا ہے۔ اب مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک نہیں نظر آتی اور نہ اب وہ گرم جوشی محسوس ہوتی ہے۔۔ وہ بس جی رہا ہے۔۔ جیسے بس وقت گزار رہا ہو، کاٹ رہا ہو۔" اس نے گردن پھیر کر کر آفس ورک کرتے سراقہ کو دیکھا جس کی پیشانی پر بلا کے بل پھیلے ہوئے تھے۔ وہ اپنے کام میں الجھا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
"کاش میں اس شخص کو ساری زندگی اپنے ساتھ رکھ سکوں!" یہ آخری الفاظ تھے جو اس نے لکھے تھے پھر کتاب بند کردی تھی۔ وہ اب فرصت سے اسے دیکھنے لگی جو اپنی فائلز میں جھکا ہوا تھا۔ پرانی یادوں سے دبیز پردے ہٹنے لگے اور وہ پھر سے اس ماضی میں کھو گئی جہاں سے وہ نکلنے کی خواہش مند تھی۔
"چائے پیو گی؟" جانے کتنی دیر بعد وہ اس کی آواز پر چونکی تھی۔
"نہیں۔" اس نے جلدی سے جواب دیا۔ "کیوں؟"
"میں کافی بنانے جا رہا ہوں۔ سوچا اگر تم چاہو گی تو تمہارے لیے چائے بنادوں گا۔" وہ بستر سے اٹھ کر فرش پر کھڑا ہوگیا۔
"ہوں ہاں۔۔ مجھے آج کافی پینی ہے۔" جانے کیا ہوا۔۔ کیسے ارادہ بدلا۔
"کافی؟" اب کی بار سراقہ چونکا تھا۔ "تمہیں کافی کب سے پسند آنے لگی؟"
"بس یونہی میرا دل کر رہا ہے۔" اسے لگا جیسے وہ کسی گناہ میں پکڑی جا رہی ہو۔ گڑبڑا سی گئی۔
وہ مسکرادیا جیسے چوری پکڑ گیا ہو۔
"میرے ساتھ تھوڑا وقت گزارنا چاہتی ہو نا؟"اس کا وہ شرارتی لہجہ یکدم ہی لوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں حیرت سے پھیلانے کی اداکاری کیے اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"میں ایسا کیوں چاہوں گی؟"
"ارے تمہیں میرے ساتھ وقت گزارنا ہی ہے تو یونہی بتادو۔ میں باخدا کچھ بھی نہیں کہوں گا۔ ایک کپ چائے بناؤں گا اور اپنے لیے کافی بنا کر تمہارے پاس آبیٹھوں گا۔ پھر ہم باتیں کریں گے۔" سب کچھ خود سے ہی تیار ہوگیا تھا۔ ماہ کامل اس کا چہرہ تکتی رہ گئی۔ ہاں اس نے پچاس فیصد تو سوچا تھا لیکن یہ پچاس فیصد سراقہ کا خود سوچا ہوا تھا۔
"جی نہیں میں کافی ہی پینا چاہوں گی۔" اس نے جوابا گھور کر کہا البتہ ہلکی ہلکی مسکراہٹ لبوں پر چھپ نہ سکی۔ وہ ہنستا ہوا نیچے کی جانب بڑھ گیا۔ کیا وہ واقعی اسے چھوڑنا چاہتی تھی؟ اس کمرے کو، اس ماحول کو، اس محبت کو۔۔
۔۔۔٭٭٭۔۔۔
"شاہانہ بچوں سمیت شہر چلی گئی۔" اس نے نیلی کو کہتے سنا تھا۔
"اور احب بھائی؟"سلیم نے گردن پھیر کر پوچھا۔
"کیا کرے گا بیچارا۔ صبح سے خاموش خاموش پھر رہا ہے۔ بچوں کی وجہ سے حویلی میں کتنی رونق تھی نا سلیم۔۔ ایسا لگ رہا ہے وہ پرندے اڑ گئے جنہیں کل تک ہمارے آنگن میں چہچہانا پسند تھا۔" ان کے جملوں میں کوئی بات تھی کہ وہ اپنی پریشانی بھول کر بچوں کا سوچنے لگا۔
"اچھا ایک بات تو بتا سلیم۔ تو کب تک سب کو جرمنی کا بتائے گا؟ یہاں سب آہستہ آہستہ گویا بغاوت پر اتر رہے ہیں۔ جانان کا معاملہ پھر شاہانہ بھی اپنی مرضی سے شہر چلی گئی۔ بدر عالم تو ویسے بھی کسی چیز میں حصہ نہیں لیتا اور شاداب بھائی بھی کٹے کٹے سے رہنے لگے ہیں۔" وہ سلیم کا گیلا کرتا رسی پر لٹکا رہی تھی۔
"اب جب سب بغاوت پر اتر ہی رہے ہیں تو میں یہاں بیٹھ کر کیا کروں گا۔ کل انٹرویو تھا۔ اچھا ہوا۔ امید ہے جلد آفر لیٹر بھی آجائے گا۔ ایک بار کنفرم ہوجائے تو سب سے پہلے میں انہیں بتاؤں گا۔ جمال چچا دو سال پہلے امریکہ چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میری اس سب میں مدد کر سکتے ہیں۔" وہ ماں کو خبر کر رہا تھا۔
"تمہاری جمال بھائی سے بات چیت ہے؟" اپنے مرے ہوئے شوہر کے بھائی کا سن وہ کچھ حیران ہوئی۔
"ہاں ہمیشہ سے ہے۔ حویلی میں کسی کو بتائے گا نہیں ابھی۔۔ شاید یہ بات دادا اکبر کو اچھی نہ لگے۔ میں بدر عالم کے پاس جا رہا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ نیلی نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
۔۔۔٭٭٭۔۔۔
وہ کافی دیر بعد اوپر آیا تھا۔ ہتھیلی پر سفید کپڑا گھوم کر باندھا ہوا تھا، ایک ہاتھ میں ٹرے اور دوسرے ہاتھ میں سینڈوچز کی پلیٹ۔۔ ماہ کی نگاہ ٹرے سے پہلے اس کے کپڑے بندھے ہاتھ پر گئی۔
"یہ کیا ہوا ہے؟"
"ٹماٹر کاٹنے کے چکر میں ہتھیلی میں ہی چھری پھیر دی۔" وہ ذرا سا مسکراتا ہوا ہاتھ جھٹک کر بولا۔ ماہ کامل کی آنکھیں پھیلیں۔
"ہاتھ دکھائیں۔" کہتے ساتھ ہی اس نے ہاتھ تھاما۔ سفید کپڑے میں لگا خون کافی واضح تھا۔ "خون زیادہ بہا ہے؟" لہجہ تشویش ناک ہوگیا۔ وہ اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نہ کھینچ سکا۔ بس چہرہ تکتا رہا۔ "میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔" اب کی بار جواب نہ ملنے پر ماہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"ہوں۔۔ وہ میں نے زیادہ بہنے نہیں دیا۔ کپڑا سختی سے باندھ لیا تھا۔" اس نے پیشانی کجھائی۔
"گہرا کٹ لگا ہے؟" اس نے دھیرے سے کپڑا ہٹانا چاہا مگر کچھ سوچ کر اس کو دیکھنے لگی جیسے اجازت چاہتی ہو۔
"یوں کیوں دیکھ رہی ہو؟ چاہو تو دیکھ سکتی ہو۔" اس نے ہاتھ مزید آگے کیا تو ماہ کامل نے کپڑا دھیرے سے کھولا۔ جانے کہاں کوتاہی ہوئی اور کپڑا زخم کو رگڑ کر اترا۔ سراقہ کراہ اٹھا تھا۔
"آئم سوری۔۔" گویا ماہ کامل کو تکلیف محسوس ہوئی۔
"تم تو دل اور جان دونوں کو مار رہی ہو۔" اس کا ہاتھ تکلیف سے لرز رہا تھا۔ ہتھیلی ڈھیلے انداز میں کھولتے ہوئے اس نے ماہ کامل کو زخم دکھایا۔ کٹ کافی گہرا تھا۔
"اتنی بھی کیا بے دھیانی کے ٹماٹر سمجھ کر ہتھیلی پر ہی کٹ لگا دیا؟" لہجہ تیز تھا۔ اسے لگا جیسے وہ ڈانٹ رہی ہو۔ سراقہ کی آنکھیں پھیل کر حیرت سے ماہ کے چہرے پر اٹھیں۔
"مجھے آج تک کسی نے نہیں ڈانٹا۔" وہ اب تک بے یقین تھا کہ ماہ کامل نے اسے ڈانٹا تھا۔
"جب ہی آج یہ حال ہے۔۔" اس کی نگاہیں دوبارہ زخم پر جھک گئیں۔ ہلکا ہلکا خون دوبارہ بہنے لگا تو وہ سائڈ میز سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اس کے پاس آئی اور بستر پر بیٹھ گئی۔
"کیا مطلب؟ کیا حال ہے میرا؟" ماتھے پر بل پھیلے۔
"بیٹھ جائیں۔ میں دوائی لگا کر پٹی کروں۔" اس کے کہنے پر بھی جب وہ نہ بیٹھا تو ماہ کامل نے بازو سے پکڑ کر ساتھ بٹھایا۔ "اتنا اٹیٹیوڈ کیوں ہے؟" اب کی بار وہ دوبارہ گھور کر بولی۔
"اچھا اب مجھ میں اٹیٹیوڈ بھی ہے؟" اس کے ماتھے کے بل مزید پھیلتے چلے گئے۔ "تمہاری لیے چائے بنائی اور یہ سینڈوچز بھی تمہارے لیے تھے۔ اتنا خوار کا بچہ نہیں ہوں جو یوں رات کے گیارہ بجے کچن میں اپنے آپ کو تھکاؤں۔" اسے بہت برا لگا تھا۔ ماہ کامل ٹھنڈے مزاج سے اس کی باتیں سنتی زخم پر مرہم لگا رہی تھی۔
"میں نے کہا تھا مجھے سینڈوچز چاہئیں؟" جانے کیوں وہ جلتی میں تیل چھڑک رہی تھی۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ سراقہ یونہی بولتا رہے اور ماہ سنتی رہے۔
"کتنی احسان فراموش ہو یار تم!" اب کی بار منہ بھی حیرت سے کھلا۔ "میں نے تم جیسی عورت کبھی زندگی میں نہیں دیکھی باخدا!" اس کا یوں کہنا ماہ کامل کو ہنسنے پر مجبور کرنے لگا۔ وہ ہنس پڑتی اگر خود پر قابو نہ رکھ پاتی۔
"ہاتھ مت ہلائیں مجھے مرہم لگانے دیں۔" اس نے مضبوطی سے اس کی انگلیاں پکڑیں۔
"چھوڑ دو۔ میں خود کردوں گا۔ اب میرا دل نہیں کر رہا تم سے مرہم کروانے کا۔۔" اس نے ہاتھ چھڑانا چاہا جب ماہ نے ایک بار پھر اسے بڑی بڑی آنکھیں کھول کر گھورا۔
"یہ کام میں ہی کروں گی۔" اس کا ہاتھ زبردستی اپنی گود کے اوپر رکھے تکیے پر رکھا اور روئی تھپکنے لگی۔
"کیوں تنگ کر رہی ہو مجھے؟ جاتے جاتے بھی یوں ستاؤ گی؟" اس کی خفا خفا سی نگاہیں ماہ کامل کا دل کھینچنے لگیں۔
"سینڈوچز میرے لیے تھے نا تو میری وجہ سے لگا ہے یہ کٹ۔۔ بس اسی لیے پٹی کر رہی ہوں۔ میں جاتے جاتے کسی کا احسان نہیں رکھنا چاہتی۔" وہ پھر جلتی پر تیل کا کام کر گئی تھی۔ سراقہ اب کی بار کچھ بھی نہ بولا تھا بس گہری نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔ ماہ کامل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جو بری طرح اسے ہی گھور رہی تھیں' اور نگاہیں دوبارہ جھکا گئی۔
"اگر دادا اخگر کو خبر ہوئی کہ تم مجھے ایسے ٹریٹ کرتی ہو تو جانتی بھی ہو کیا کریں گے؟"
"ان کی بیٹی کی اولاد ہوں میں! وہ پوتے کو آگ لگادیں گے مگر نواسی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔" اس نے زبان چڑا کر جواب دیا۔ سراقہ نے پہلے تو ہونٹ سکیڑ کر اسے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا پھر تھوڑی دیر بعد خود ہی نارمل ہوگیا۔
"مزہ آتا ہے مجھے تنگ کر کے؟"
وہ اب پٹی کر رہی تھی۔
"ہاں۔۔ بہت مزہ آتا ہے۔ سکون ملتا ہے۔" اس نے بھی بنا کسی جھجک کے کہا۔
"چلو پھر ٹھیک ہے۔ پھر جتنا چاہو تنگ کرو۔ بس تم خوش رہو۔" اس کا یوں ٹھہرا ہوا لہجہ ماہ کامل کو لمحے بھر کے لیے ساکت کر گیا۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر شوہر کی آنکھوں میں دیکھا جو کافی دیر سے اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
"بس زیادہ اوور ایکٹنگ نہیں۔ بہت زیادہ اداکاری نہیں کر رہے آج کل؟" جانے دل میں ایک ہلچل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تو فوراً ہی اسے ڈپٹ دیا۔
"اداکاری؟ یہ اداکاری نہیں ہے۔"
"جو بھی ہو۔ یہ لیں ہوگئی پٹی اور براہِ مہربانی جب تک زخم ٹھیک نہیں ہوجاتا کچن میں جا کر یہ الٹا سیدھا کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" یہ آدمی بڑا ہی اٹینشن سیکر ہوتا جا رہا تھا۔ وہ بستر پر اندر ہوکر بیٹھی اور ٹرے اپنے آگے رکھتی سینڈوچ اٹھانے لگی۔
"جیسے یہ سینڈوچ اٹھایا ہے اسے ویسے ہی رکھ دو شاباش!" اس کو اٹھاتا دیکھ کر ہی وہ تیزی سے بولا۔ چہرہ سنجیدہ معلوم ہوتا تھا۔
"کیوں؟" اسے برا لگنے لگا۔
"اس کے پیچھے تم نے مجھے دس باتیں سنائی ہیں اور اسے ہی کھا رہی ہو۔ لاؤ دو۔" اس نے سینڈوچ کی پلیٹ اس کے آگے سے ہی اٹھالی۔
"اب ایسا کریں گے؟" وہ سینڈوچ اس کے ہاتھ سے بھی لے چکا تھا۔ اپنی کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے وہ تینوں سینڈوچز کی پلیٹ اپنے برابر میں رکھ دی۔ ماہ کامل اسے یک ٹک تکنے لگی۔ "کیا ہے؟ کیوں دیکھ رہی ہو ایسے؟" بنا رکے وہ اب بھی اسے سنجیدہ چہرے لیے دیکھ رہی تھی۔
"سینڈوچز کی پلیٹ ادھر کریں۔" اس نے گزارش نہیں کی تھی، حکم دیا تھا۔
"نہیں۔۔" اس نے آنکھیں پھیر کر دوبارہ نگاہ کافی پر ٹکالی۔
"اتنا برا لگا تھا میرا کہنا؟"
"نہیں۔ مجھے تمہاری باتیں بری نہیں لگتیں۔" اس نے لبوں سے مگ لگایا۔
"تو پھر خوامخواہ کا اوور ری ایکٹ کیوں کر رہے ہیں؟ ویسے باخدا آپ کو اٹینشن لینے کا بہت شوق ہے۔" اس نے خود سے پلیٹ کھینچ کر اپنی طرف کی اور اس سے بہت دور ہو کر بیٹھ گئی۔ سراقہ نے دانت پیستے ہوئے دیکھا۔
"اٹینشن سیکر کہہ رہی ہو مجھے؟"
"پورے شوق سے!" اس نے بھی سراقہ کے انداز میں جواب دیا۔ وہ ساتھ ساتھ سینڈوچ کھا رہی تھی۔
"مجھے کیا ضرورت ہے تمہاری توجہ لینے کی؟"
"آپ چاہتے ہیں میں رک جاؤں۔" اس نے جان بوجھ کر یہ بات کہی تو وہ کافی دیر تک کچھ کہہ نہ سکا۔ بس اس کا چہرہ تکتا رہا اور پھر زور سے ہنس دیا۔ ماہ کامل کا شوخ لہجہ سمٹنے لگا۔
"میں کیوں چاہنے لگا؟ جلدی جلدی جاؤ اور میرا کمرہ خالی کرو۔ میں اپنے بستر پر دوبارہ پھیل کر سونا چاہتا ہوں۔ میں کوئی نہیں چاہتا کہ تم رکو۔" وہ اب تک ہنس رہا تھا اور ماہ کامل کا چہرہ پھیکا پڑ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہ چائے کا کپ خالی کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تین سینڈوچز میں سے وہ ڈھائی کھا چکی تھی اور آدھا سینڈوچ اس کے آگے رکھتی خفا خفا سی نگاہیں اس پر ٹکا گئی۔
"مجھے نہیں کھانا آپ کا بنایا ہوا سینڈوچ! خود ہی کھائیں۔" منہ پھیر کر کہتی وہ آگے نکل گئی اور سراقہ ایک آئبرو اچکا کر اس سینڈوچ کو دیکھ رہا تھا جسے آدھا چھوڑ کر ماہ کامل نے اس کی ذات پر احسان کیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
رات کے اس پہر احب اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
"سلیم؟" کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسے لگا وہ سورہا ہوگا مگر لائٹ کھولنے پر کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ابھی باہر مڑا ہی تھا جب سلیم بلکل سامنے کھڑا نظر آیا۔ رات کے اس اندھیرے میں سلیم اسے ایک آئبرو اچکائے دیکھ رہا تھا۔ ایک سگریٹ اس نے احب کی جانب بڑھائی تھی اور اس کے ہاتھ میں تھماتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔ احب نے اس سگریٹ کو بہت غور سے دیکھا تھا اور کچھ سوچ کر اس کے پیچھے بڑھ گیا۔ باغ کے اس حصے میں ہوا بہت تیز تھی۔ سلیم اپنی سیاہ شال کندھے سے درست کرتا سگریٹ لبوں کے درمیان دبا کر سلگانے لگا۔ پانچ منٹ بعد کا ماحول پہلے سے مختلف تھا۔ احب اس کے برابر کھڑا تھا۔ خاموشی اور اندھیرے میں سلگی ہوئی سگریٹ ہی نظر آرہی تھی۔
"تم نے۔۔" احب فوراً جملہ نہ مکمل کر سکا۔ "تم نے کل شہر جانے سے کیوں منع کیا؟"
"میں نہیں جانا چاہتا۔" اس نے گہری سانس فضا میں خارج کی۔
"تم میری حالت سے باخبر ہو۔ میری تکلیف ابھی کم نہیں ہوئی سلیم۔ دادا اکبر چاہتے ہیں کہ کل صبح جانان کو لینے میں جاؤں۔ کیسے جاؤں گا یار میں؟" وہ خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
"میں جانتا ہوں مگر میں نہیں جانا چاہتا۔ وہ مجھے دیکھے گی تو رو پڑے گی اور میں جانتا ہوں پھر کیا ہوگا۔ ماہ کامل اور جانان میرے لیے سگی بہنوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہمیشہ سے مجھے تکلیف تکلیف دیتے ہیں۔ وہ روئے گی تو میں گاڑی بھی نہیں چلا پاؤں گا اور وہ مجھے دیکھ کر نہ روئے' یہ تو ممکن ہی نہیں۔" سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اس نے دھواں ہوا میں چھوڑا۔ احب اس کا چہرہ تکتا رہ گیا۔
"کیا ہو تم سب!" وہ جھلا کر رہ گیا تھا۔ "سب کی زندگی میں الگ آگ لگی ہوئی ہے اور سب ہی اس آگ کو نہ بجھا پا رہے ہیں اور نہ اس آگ کے ساتھ جی پا رہے ہیں۔" وہ اکبر حویلی کے ایک ایک شخص سے پریشان تھا۔
"ہمارے مردوں کو لگتا ہے کہ جانان کو جہاندار سے دور کر کے اور ماہ کامل کو بلوا کر وہ اخگر حویلی والوں کا سکون چھینیں گے کیونکہ اکبر حویلی والوں کا تو سکون برباد ہی ہے اور دیکھو ذرا ٹارگٹ بھی اخگر حویلی کے پوتوں کو کیا ہے جن کی وجہ سے وہ خاندان ہر طرح سے کامیاب ہے۔ وہ ان سے ان کا ذہنی سکون چھیننا چاہتے ہیں تاکہ ان کے لڑکے دادا اخگر کے منہ پر کھڑے ہو کر زمین مانگیں اور اکبر دادا کے آگے رکھ دیں۔ ان دونوں مردوں کی بیویوں کو اکبر حویلی والوں نے دولت کی کنجی سمجھ رکھا ہے۔ ابھی تو عقل نہیں آئے گی مگر جب آئے گی تب یہ وقت ہاتھ میں نہیں ہوگا۔ سراقہ اور جہاندار بھی ایک حد تک برداشت کریں گے پھر اکبر حویلی والوں کی گردنیں ہوں گی اور ان کا ہاتھ ہوگا۔" سلیم استہزایہ ہنستا ہوا بولا۔ "دولت کا نشہ رشتوں سے زیادہ ہے۔ دولت آزمائش ہے اور افسوس کہ ہم اپنے رب کو راضی نہیں کر پارہے۔" اس نے برے ہوتے دل سے چہرہ پھیر لیا۔
"میں سوچتا ہوں کہ جن کو نیچا دکھانے کے لیے یہ سب ہو رہا ہے وہ کتنے پرسکون ہیں۔ دادا اخگر کی حویلی سے کوئی بات نہیں آئی۔ یہاں کے حالات وہاں سے کتنے مختلف ہیں نا۔۔ شاید اسی لیے سراقہ اور جہاندار کافی مختلف ہیں۔ ہم سب سے۔۔ ان میں ہمت ہے۔۔ طاقت ہے! ہم بڑوں کے فیصلوں کے بوجھ میں جھکتے جا رہے ہیں۔ میں دو بچوں کا باپ ہوں! مگر آج بھی میں خود سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ مجھے میری زندگی پر کوئی حق نہیں حاصل! میری بیٹی مجھے کتنا یاد کرتی ہوگی! بیٹا کتنا پکارتا ہوگا۔۔ ان کا مجبور باپ حویلی کا تخت صاف کر رہا ہے۔" وہ جب تھک گیا تو سگریٹ پاؤں کے نیچے مسل کر کر کھڑا ہوگیا۔
"میں کل کے لیے جانان کو میسج کر چکا ہوں۔ صبح آٹھ بجے کا کہا ہے۔ ذرا بھی تاخیر مت کرنا۔" لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔"میں نے جرمنی کی یونیورسٹی میں اپلائی کیا ہے۔" اس نے یکدم ہی بتایا۔ احب کے چہرے پر حیرت اور بے یقینی پھیلی۔
"کیا؟" اسے گویا یقین ہی نہ آیا۔ سلیم نے اپنی بات دہرائی۔ "کیا واقعی؟ کیسے؟ کب؟ اور کس کس کو خبر ہے؟ دادا اکبر جانتے ہیں؟" اس کا یوں سوال پر سوال کرنا جائز تھا۔ سلیم مسکرا دیا۔
"نیلی جانتی ہیں۔۔اور اب تم بھی جانتے ہو۔ میں اماں کو بھی ساتھ لے جانے کا دل رکھتا ہوں۔ لیکن ابھی انٹرویو کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔ میرے لیے دعا کرنا بھائی! بس اللہ سے کہنا کہ میرے راستے آسان کردے۔" اسے اپنے راز میں شامل کر کے وہ خود کو پر سکون محسوس کر رہا تھا۔
"مجھے بہت زیادہ خوشی ہے۔ بے پناہ! مگر۔۔ مگر یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ دادا اکبر۔۔" اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
"اللہ سب کرنے والا ہے۔ یہ انسان میرا کیا ہی بگاڑیں گے۔ بہرحال میں نے سوچ لیا ہے کہ اب جب ہر کسی کی زندگی الگ رخ پکڑ ہی رہی ہےتو مجھے بھی اپنے ان خوابوں کو تکمیل کی طرف لے جانا چاہئے جن کا گلا میں گھونٹ نہ سکا۔ تم ساتھ دو گے؟" اس نے احب کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔
"ہر طرح سے!" اس نے سلیم کو گلے لگایا تھا اور شاید سلیم کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت گلے کی ہی تھی۔ وہ خود کو مطمئن محسوس کرنے لگا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"پھر آگے کیا ہوا؟"وہ پوری آنکھیں کھولے تکیے پر کہنی رکھے اس سے آگے کی کہانی سننا چاہتی تھی۔
"پھر مجھے نیند آگئی۔" وہ جمائی لیتا ہوا کروٹ لے گیا۔ "تم بھی سوجاؤ۔" اب نیند تو آنی ہی تھی۔ جانان کی پیشانی پر بل پھیلے۔
"کیا ہے بھئی؟ اٹھ کر بیٹھیں۔ مجھے پوری کہانی بتائیں۔" اس نے بازو سے جھنجھوڑ کر کہا۔
"جانان وقت دیکھو! چار بج رہے ہیں یار۔۔ نیند سے آنکھیں اب سرخ ہورہی ہیں۔ پچھلے دو گھنٹے تمہاری وجہ سے زبردستی جاگا ہوں مگر اب تو سونے دو۔ میں آگے کی کہانی کل بتاؤں گا۔" وہ پھر سے رخ موڑنے لگا تھا جب جانان نے بازو پر زور سے چٹکی کاٹی۔ وہ کراہ کر ضبط کرتا رہ گیا۔ تیزی سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے کھا جانے والی نگاہوں سے بیوی کو دیکھا۔
"کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ؟ میرے خاموش رہنے کا فائدہ کیوں اٹھاتی ہو؟" وہ تکلیف کے مارے بنھویں ملاتا ہوا بولا۔
"کیا فائدہ اٹھایا میں نے؟" اس نے بھی جواباً تیز نگاہوں سے گھورا۔
"یہ چٹکی کیوں کاٹی؟ تم جانتی ہو نا بدلے میں' میں کچھ کروں گا نہیں اسی لیے کرتی ہو۔"
"آپ سے صرف میں نے کہا کہ مجھ سے کچھ دیر اور بات کرلیں۔ کیوں اتنا برا لگ رہا ہے اب میرا کہنا؟ بس اتنی ہی محبت تھی؟" اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔ جہاندار قدرے حیران ہوا۔ یوں عام سی بات پر آنکھیں بھر آنا واقعی اسے پریشان کر گیا۔
"نہیں یار۔۔ مجھے تمہارا کبھی کچھ کہنا برا نہیں لگ سکتا۔ میری محبت کو تم ایسے نہیں کہہ سکتی۔ اچھا چلو اگر تم چاہتی ہو کہ ہم باتیں کریں تو ٹھیک ہے۔ یہ بتاؤ تمہارے گجرے کہاں ہیں؟ پھر رکھ دیے فریج میں؟" اس نے جانان کی خالی کلائیاں دیکھیں۔
"ہوں۔۔" اس نے خفا خفا سے لہجے میں بتایا ۔ "بس ایک گھنٹہ مزید پھر سو جائے گا۔"
"پچھلے دو گھنٹے سے محترمہ یہی کہہ رہی تھیں۔" وہ زور سے ہنستا ہوا شرارتی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ "میں دو گھنٹے بھی جاگ سکتا ہوں۔" وہ مسکرا دی۔ موبائل پر چار گھنٹے پہلے وہ میسج موصول نہ ہوتا تو شاید وہ ساری رات جاگنے کے لیے جہاندار کو جگاتی نہیں۔۔ مگر وہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتی تھی۔۔ شاید کچھ آخری پل۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
رات کے آخری پہر اس کی آنکھ کھلی تھی۔ جانے کیا ہوا کہ اس کے بعد وہ سو نہ سکی۔ اس نے برابر گہری نیند میں سوتے سراقہ کو دیکھا جس نے اپنا مرہم پٹی والا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا ہوا تھا۔ کھڑکی سے اندر آتی باہر کی ہلکی سی روشنی کا کمرے کے اندھیرے میں دخل تھا۔ وہ اس کا زخمی ہاتھ دیکھتے ہوئے لیٹ گئی۔ آنکھیں اس کی پٹی پر ہی ٹھہری ہوئی تھیں۔ نجانے دماغ کیا کیا سوچ رہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے سونا چاہا مگر شاید اب اسے نیند نہیں آنے والی تھی۔ وہ پھر سے آنکھیں کھول کر اس کی پٹی والا ہاتھ دیکھنے لگی۔ مزید کچھ دیر ٹھہر کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑا نزدیک ہوتے ہوئے اس نے دھیرے سے سراقہ کا ہاتھ تھام کر یہ دیکھنے کے لیے کہ پٹی بلیڈنگ سے خراب تو نہیں ہوگئی' اس نے اپنے آگے کیا۔ وہ شاید گہری نیند میں تھا۔ ماہ کامل اس کا ہاتھ دیکھ کر مطمئن ہوتی بستر سے اترنے بڑھی جب اس نے سراقہ کی گہری ہوتی سانسوں کو محسوس کیا۔ آنکھیں بند تھیں اور وہ تیز گہری سانسیں بھر رہا تھا۔ ماہ کامل کی پیشانی پر پریشانی کے گہرے بل پھیلے۔ وہ ابھی اس کا ہاتھ ہی تھامتی جب سراقہ نے سختی سے اس کا ہاتھ تھام کر گہری ہوتی سانسوں کے درمیان آنکھیں کھولیں۔ اس ٹھنڈے موسم میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے۔ وہ پھٹی آنکھوں سے چھت کو تک رہا تھا۔
"سراقہ؟" ماہ گھبرا گئی۔ اس کا کہنا ہی تھا کہ سراقہ نے گردن پھیر کر جھٹ اسے دیکھا۔ وہ خاموش رہا۔۔ بس اس کا چہرہ تکتا رہا۔ "طبیعت ٹھیک ہے؟ پانی دوں؟" اس کی کلائی سراقہ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ ابھی بغیر کچھ کہے اسے دیکھ رہا تھا۔ سانسیں بحال ہونے لگیں۔ اس کی کلائی پر سراقہ کی گرفت نرم ہوئی۔ وہ اسے بغیر پلکیں جھپکائے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس کے چہرے پر کچھ عجیب تاثرات تھے۔ جانے کیا کیا تھا۔۔ خوف، گھبراہٹ۔۔ ماہ کامل نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ وہ اسے بہت گھبرایا ہوا معلوم ہوا۔
"سراقہ!" اس نے پھر پکارا تو سراقہ نے آنکھیں موند کر ایک گہری سکون بھری سانس اندر کھینچی۔
"سن رہا ہوں۔" ماہ کامل نے اس کا پٹی بندھا ہاتھ اپنے ہاتھ سے دور کرتے ہوئے دیکھا۔
"زخم خراب ہو جائے گا اور تکلیف بھی ہوگی۔" ہاں یہ وہی ہاتھ تھا جس سے اس نے ماہ کا ہاتھ پکڑا تھا۔ "آپ ٹھیک ہیں؟"
"ہوں۔۔"
"میں نیچے سے پانی لاتی ہوں۔" وہ بستر سے اترنے لگی جب سراقہ نے یکدم اسے روکا۔
"نہیں بس۔۔ میں ٹھیک ہوں۔ تم نیچے مت جاؤ۔ بس میری آنکھوں کے سامنے رہو۔" وہ تھوڑا اٹھ کر مسہری سے ٹیک لگا کر لیٹ گیا۔ ماہ کامل نے اسے حیران نگاہوں سے دیکھا۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ ایک بار پھر بغیر پلک جھپکائے وہ اسے تک رہا تھا۔
"ابھی صرف پانچ بجے ہیں۔ آپ سوجائیں۔" اس نے آج سے قبل کبھی سراقہ کو اتنی جلدی اٹھتے نہیں دیکھا۔
"ہوں۔۔ میں سونا چاہتا ہوں مگر اب نیند نہیں آئے گی۔ تم میرے لیے پریشان مت ہو۔ سوجاؤ۔" نیند کی وجہ سے آواز مزید بھاری ہوگئی تھی۔
"اب میں بھی بس اٹھ ہی گئی ہوں۔ نماز پڑھوں گی اور کچھ دیر قرآن کی تلاوت کروں گی۔" وہ اپنے بالوں کو شانوں پر پھیلاتی سنگھار میز کی جانب آئی۔ دھیرے دھیرے بالوں پر برش پھیرتے ہوئے اس نے ڈھیلی پونی بنا لی۔ "آپ کیا کریں گے؟" وہ چاہتی تھی کہ کم از کم سراقہ بستر پر لیٹ جائے۔ یوں آدھے لیٹنے، آدھے بیٹھنے میں وہ اپنی نیند خراب کر رہا تھا۔
"تمہیں نماز پڑھتے دیکھوں گا۔" آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے نیند پوری کر کے اٹھا ہو۔ وہ دھیرا سا مسکرا دی جیسے خوشی سی محسوس ہوئی ہو۔
"کافی پئیں گے؟" اس نے آفر پیش کی۔ نجانے صبح پانچ بجے چہرے اور مزاج میں اتنی تازگی کیسے آگئی تھی۔ وہ جو خود کو چند منٹوں پہلے خوفزدہ محسوس کر رہا تھا' اب بے پناہ مطمئن تھا۔ اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔
"اپنی نماز مت خراب کرو۔ میں تھوڑی دیر میں سو جاؤں گا۔ جب تک جاگا ہوا ہوں' تمہاری حرکات نوٹ کرتا رہوں گا۔" وہ جواباً بے ساختہ مسکرائی۔
"نیند کیوں نہیں آرہی؟"
"پتا نہیں۔۔ بے چینی سی محسوس ہو رہی ہے۔ سینے پر بوجھ لگ رہا ہے۔" اس نے گہری سانس خارج کی۔ وہ یک ٹک اسے تکتی رہی پھر یکدم ہی اس نے کمرے کی خاموشی توڑی۔۔
"وضو کرلیں۔ ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔" ساتھ نماز پڑھنے کا یہ اتفاق پہلی بار ہونے والا تھا۔ وہ کبھی ظہر پڑھ لیتا تو کبھی عشاء۔۔ کبھی موقع ملتا تو عصر پڑھ لیتا تھا۔۔نماز کی پابندی نہیں تھی۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ پہلے ماہ کامل وضو کر کے آئی تھی اور پھر اس کے بعد سراقہ واش روم بڑھا تھا۔ اس کے باہر آنے تک وہ جائے نماز بچھا چکی تھی۔ اسے دو قدم اپنے آگے کھڑا ہوتا دیکھ کر ماہ کامل نے نماز شروع کردی۔
خدا کے حضور سجدہ کرتے ہوئے سراقہ نے خود کو بہت بہتر محسوس کیا۔ اسے لگا جیسے وہ بالآخر صحیح جگہ آگیا ہو۔۔ اپنے اللہ کو پکارنے! اس سے مانگنے!
سلام پھیرنے کے بعد اس نے ذرا سی گردن پھیر کر ماہ کامل کو دیکھا تھا جو سکون سے بیٹھی دعائیں مانگ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ شاید یہ فوکس کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ سراقہ سامنے دیوار کو تکنے لگا۔ دماغ میں بہت کچھ تھا مگر لبوں پر تالے لگتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔ اسے لگا وہ دل کی بھڑاس نکال نہیں سکے گا۔ جانے کیا تھا۔۔ وہ ایک خواب! وہ ایک خیال جسے وہ بار بار جھٹک رہا تھا۔ وہ ایک تڑپ! آنکھیں بے بسی سے ادھ کھلی تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ دعا کیا مانگنی چاہئے۔۔ کیسے آغاز کرنا چاہئے۔
"تُو تو ستر ہزار ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے میرے مالک! میری تکلیف دور کردے۔ جو میرے دل کی چاہت ہے اسے میرے نزدیک کردے۔۔ میں مزید ان غموں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ میرے ان سب خواب و خیالوں کو ختم کردے جو مجھے اذیت میں ڈالتے ہیں۔" اس کا دل پکار رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ آنکھوں کے آگے پھیلائے لبوں سے خاموش تھا مگر اس کا دل چیخ چیخ کر بول رہا تھا۔
"کیا مانگ رہے ہیں؟" اس نے ماہی کو کہتے سنا۔
"تمہیں بتاؤں گا تو ہنس دو گی۔" کیا بتاتا کہ کسے مانگ رہا ہے۔۔ اس نے بغیر دیکھے جواب دیا۔
"میں بھلا کیوں ہنسنے لگی۔ ہم اپنے رب سے ہر طرح کی باتیں کر لیتے ہیں کیونکہ ایک وہی ہے جو ہمیں سنتا ہے۔" وہ مسکرا کر رہی تھی۔ اس سے کچھ قدم پیچھے بیٹھی تھی۔
"میں اپنی دعائیں کسی کو نہیں بتاتا۔ یہ ایک واحد ایسی چیز ہے جو صرف مجھ تک رہتی ہے۔ اس کے علاؤہ سب تو تمہیں معلوم ہی ہے۔" وہ آنکھیں موند گیا۔ ماہ کامل خاموش رہی۔ وہ پھر یک ٹک دیوار کو تکنے لگا۔
خاموشی کا وقفہ طویل رہا۔ سراقہ نے ذرا سی گردن پھیر کر دوبارہ اسے دیکھا جو دعاؤں کی ایک چھوٹی سی کتاب پکڑے بیٹھی تھی۔ اسے یکدم ہی اپنی زبان پر حرکت محسوس ہوئی۔ اس کے گہرے تل کو تکتے ہوئے وہ بے ساختہ خدا سے خواہش کر بیٹھا۔
"میں چاہتا ہوں یہ ہمیشہ یونہی مجھے تنگ کرتی رہے۔۔ میں اسے ہمیشہ کے لیے چاہتا ہوں۔۔ میں اسے اپنے ساتھ چاہتا ہوں اللہ! مجھے یہ عورت اپنے پاس چاہئے۔" ایک حسرت تھی۔ اس کی نگاہ اٹھانے سے پہلے ہی وہ گردن موڑ گیا۔ جانے خدا کو اس نے کیا کچھ دل کا حال سنایا تھا اور کتنی بار اس عورت کی خواہش کی تھی۔ وہ اب خود کو ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ بہت بہتر محسوس کر رہا تھا۔ اب نیند آنکھوں پر پہرہ دینے لگی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے بوجھ اتر گیا۔
"اب ٹھیک ہیں؟" اس کی آواز ایک بار پھر ابھری تھی۔ وہ اب کی بار گردن موڑ کر دیکھنے کے بجائے خود کو پیچھے کرتا اس کے بے حد نزدیک سر رکھ کر لیٹ گیا۔ ماہ کامل کے ایک ہاتھ میں دعاؤں کی کتاب تھی۔ سراقہ نے اس کا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے اپنی آنکھوں پر رکھا اور آنکھیں موند گیا۔ یہ سب ارادتاً نہیں تھا۔ وہ بس خود کو تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ بوجھ اتر گیا تھا اور اب نیند لوٹ آئی تھی۔
"اب ٹھیک ہوں۔" بھاری گھمبیر آواز ابھری۔
ماہ کامل نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا نہیں تھا اور نہ اس سے دور ہٹی تھی۔ اسے اس کا یوں لیٹ جانا اچھا لگا تھا۔ وہ خاموش اسے اطمینان بھری نگاہوں سے پرسکون ہوتا دیکھ رہی تھی۔ مزید کچھ دیر تکنے کے بعد وہ پھر سے دعاؤں میں مصروف ہوگئی۔ وہ سوگیا۔۔ ماہ کامل کو اس کے سونے کا تب علم ہوا جب اس کی آنکھوں پر رکھے ماہ کامل کے ہاتھ کے اوپر سے سراقہ کا ہاتھ ڈھیلا ہوتا بازو میں گر سا گیا۔ اسے یقین ہوگیا کہ وہ سو گیا ہے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
کھڑکی پر نگاہیں ٹھہری ہوئی تھیں۔ وہ باہر روشن ہوتے آسمان کو تک رہی تھی۔ ایک جانب سے ڈوپٹہ فرش کو چھو رہا تھا۔ اس نے چہرہ موڑ کر جہاندار کو دیکھا جو کروٹ لیے لیٹا تھا۔ اس کی شیو ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی تھی۔ اس پر یہ بڑھتی شیو اچھی لگنے لگی تھی۔ سر کے بال آنکھوں کو چھپا رہے تھے۔ وہ پچھلے دن کا تھکا ہوا پرسکون نیند سو رہا تھا۔۔ ہر فکر سے آزاد مطمئن تھا۔ ہاں وہ آنے والے وقت سے بے خبر تھا! جانان نے کچھ اور پیچھے سنگھار میز پر رکھا اپنا بیگ دیکھا جو سائز میں نہ بڑا تھا اور نہ بہت چھوٹا۔۔ کل رات ہی احب کا میسج اسے موصول ہوا تھا۔ اس نے چھ بجے کے بعد کبھی بھی پہنچنے کی خبر دے دی تھی۔ جانان نے وقت دیکھا۔ چھ سے اوپر ہو رہے تھے۔ اسے یقین تھا کہ گھر میں سب سو رہے ہیں۔ وہ پلٹ کر جہاندار کو نزدیک سے دیکھنے لگی۔ ان چند دنوں میں وہ اپنی زندگی کے بہترین دن گزار گئی تھی۔ اسے رنج تھا کہ یہ دن اتنے مختصر کیوں رہے۔ سنہرے دن ہمیشہ مختصر ہی کیوں ہوتے ہیں!
اس نے ہار مان لی۔۔
وہ جا رہی تھی۔
احب کے میسج سے موبائل پر بپ ہوئی۔ وہ نیچے کھڑا تھا۔ جانان نے اسے کھڑکی سے دیکھا۔ وہ گاڑی کے شیشے اتار رہا تھا۔ دل کسی نے بے دردی سے مٹھی میں بھینچ لیا۔ آنکھیں بہت تیزی سے نم ہوئیں۔ اس کا دل ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔ وہ تیزی سے بیگ کی جانب بڑھی اور موبائل رکھتے ہوئے اسے کندھے پر لٹکا لیا۔ یکدم ہی دل نے ایک بار جہاندار کو پلٹ کر دیکھنے کی چاہ کی۔۔ دل نے ایک بار پھر آخری دیدار مانگا مگر وہ جانتی تھی کہ اب کی بار پلٹی تو مڑنا دشوار ہو جائے گا۔
یہ محبت شاید یوں ہی جکڑتی ہے۔ آپ پوری طرح بے بس ہوجاتے ہیں۔ اس کو اپنے حلق میں آنسووں کا گولا پھنستا ہوا محسوس ہوا۔
موبائل پر ایک بار پھر ہلکی بپ ہوئی تو وہ کمرے سے تیزی سے نکلتی سیڑھیاں اترنے لگی۔ اسے یقین تھا کہ سب سو رہے ہوں گے۔ ابھی لاؤنج پار ہی کرتی کہ ماہ کامل کی آواز نے اسے ساکت کردیا۔ وہ کئی لمحوں تک ویسے ہی کھڑی رہ گئی۔
"جانان؟" لہجہ الجھا ہوا کچھ حیران تھا۔ وہ کچن سے باہر نکلی تھی جب اس نے جانان کو باہر نکلتے دیکھا تھا۔ جانان نے سفید ہوتا چہرہ اس کی جانب پھیرا۔
"تم اٹھی ہوئی تھی؟" وہ لا علم تھی۔
"ہاں بس یونہی چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ تم اس وقت کہاں جا رہی ہو؟"
"میں جا رہی ہوں۔۔" یہ الفاظ کچھ بھی سمجھانے کے لیے کافی تھے۔ ماہ کامل کو اپنی سماعتوں پر یقین نہ ہوا۔ اسے لگا وہ سننے میں کوتاہی کر گئی ہے۔
"کہاں جا رہی ہو؟ جہاندار بھائی کہاں ہیں؟" وہ مزید الجھ گئی۔ تاثرات کچھ پریشان محسوس ہو رہے تھے۔
"جہاں سے آئی تھی وہاں واپس جا رہی ہوں ماہ! ہمیں لگتا تھا کہ بڑھتا وقت سب کچھ ٹھیک کردے گا مگر ہم غلط تھے ماہ۔۔ ہم سب غلط تھے۔ ہمیں لگتا رہا کہ سب کچھ بدل گیا مگر اب بھی سب کچھ وہیں ٹھہرا ہے۔ اب بھی جانان کو پلٹنا ہے۔" اس کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔ ماہ کامل کی آنکھیں ششدر ہوتے ہوئے پھیل سی گئیں۔ اس کا دل چیر سا گیا۔ جانان نے اپنی آنکھیں صاف کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا مگر تیز کانپتی انگلیاں کوشش ناکام کر گئیں۔ "میں چندا نہیں بن سکی۔ میں اپنی زندگی کے بے پناہ خوبصورت دن گزار کر دوبارہ اپنی پرانی زندگی میں لوٹ رہی ہوں۔ ایک بار پھر زمینیں جیت گئیں اور شاداب اپنی حویلی کے لیے اپنی حسین خوشیاں چھوڑ آیا۔ ہار گئی جانان۔۔" وہ تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی اور ماہ خود کو ساکت محسوس کر رہی تھی۔ اس کو اپنے پاؤں بھاری سے محسوس ہونے لگے جو قدم بھی نہیں اٹھا پا رہے تھے۔ وہ وہیں ایک نکتے کو تکتی سن کھڑی تھی۔ دروازہ بند ہونے کی ہلکی آواز آئی تھی اور ماہ کامل نے بمشکل سانس اندر کھینچی تھی۔ بس؟ اتنی سی تھیں اس کی اور جہاندار کی خوشیاں؟
وہ چلی گئی تھی۔۔ اس نے اپنے کمرے سے کوئی سامان نہیں لیا تھا۔ جہاندار کے دلائے کپڑے، جیولری وہ وہیں چھوڑ کر جا رہی تھی سوائے اس چین کے جو جہاندار کے دل کے بے حد قریب تھی۔ یہ چین جہاندار کے پاس سات سالوں سے تھی۔ اس کی عزیز چیزوں میں سے ایک چیز۔۔ جنہیں وہ اکثر یا تو ہاتھ میں پہنا رہتا تھا یا اپنی مٹھیوں میں بند رکھتا تھا۔ جانان کو یاد تھا اس نے کبھی جہاندار کو اس چین کے بغیر نہیں دیکھا۔ اس کے دل کے قریب لڑکی اس کی عزیز چیز لے گئی تھی۔
اب سب کچھ ویسا ہونے جا رہا تھا جس کی جانان نے کبھی خواہش نہیں کی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہیلو۔" اس نے کال اٹھتے ہی تیزی سے کہا۔
"ماہ؟" دوسری جانب سلیم تھا۔
"حویلی میں کیا ہو رہا ہے؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ جانان چلی گئی سلیم۔۔ گھر میں کسی کو اس کے جانے کی خبر بھی نہیں۔" اسے اپنا دل بوجھل محسوس ہوا۔
"زمین نہیں ملی تو بیٹی واپس بلا لی۔ تمہیں پوچھنے کی کب سے ضرورت پڑنے لگی؟ تمہیں ویسے ہی خبر ہو جانی چاہئے کہ جانان کو کیوں بلوایا گیا ہے۔ ایک ہی تو مسلہ ہے دونوں حویلیوں کا۔۔ زمین!" اس کے لہجے میں حویلی والوں کے لیے نفرت تھی۔ ماہ کامل نے تھوک نگلتے ہوئے اندر کمرے میں نیند لیتے سراقہ کو دیکھا۔
"میں یہاں کیسے بتاؤں گی۔ پریشانی ہو رہی ہے۔"
"یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کی بیوی پر ہاتھ ڈالا ہے جو پہلے انہی کے درمیان سے اپنی بیوی کو لے کر گیا تھا۔ یہ حویلی آج سے پہلے اتنا قید خانہ کبھی معلوم نہیں ہوئی۔" ماہ کامل کو وہ آج سے قبل اتنا بیزار نہیں لگا۔ یہ بات دل میں پریشانی مزید بڑھا گئی۔ اسے بدر عالم کی فکر ہونے لگی۔ کال رکھتے ہوئے اس نے قدم نیچے کی جانب بڑھا لیے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ایک گھنٹے کا سفر بے حد خاموشی سے گزر رہا تھا۔ احب نے ایک بار بھی گردن پھیر کر اسے نہیں دیکھا تھا مگر اس کے باوجود بھی اسے جانان کی سن کیفیت کی خبر تھی۔ وہ جانتا تھا وہ رونا چاہتی ہے مگر آنسو اب آنکھوں سے کوسوں دور تھے۔
"میں جانتا ہوں تم میری جگہ سلیم کی موجودگی چاہتی تھی۔" اس ایک گھنٹے میں وہ پہلی بار بولا تھا۔ جانان نے خود کی کیفیت چھپانی چاہی۔
"میں ایسا کیوں چاہوں گی۔" اس کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں۔
"تاکہ تم اس کو اپنی کیفیت بتا سکو۔ اپنے دل کا بوجھ اتار سکو۔ تم رونا چاہتی ہو۔" وہ پوچھ نہیں رہا تھا' بتا رہا تھا۔ جانان نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ "ویسے میں بھی اچھا سن لیتا ہوں۔ درمیان میں ٹوکتا بھی نہیں۔۔" اس کی پھیکی سی مسکراہٹ پر جانان لب بھینچ گئی۔
"مجھے کوئی نہیں سمجھ سکے گا۔" اس نے تکلیف سے آنکھیں میچ لیں۔
"ہم دونوں نا چاہتے ہوئے ایک ہی پٹری پر آکھڑے ہوئے ہیں جانان! میں بھی تنہا ہوں اور تم بھی! میں تمہیں پہلے نہیں سمجھ سکتا تھا مگر اب بات بات حروف حروف سمجھ سکتا ہوں۔" اس کے آستین کہنیوں تک چڑھے ہوئے تھے اور بازو کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔ وہ احب کو ہمیشہ سے طاقت ور اور مضبوط سمجھتی تھی۔
"کیا ہوا ہے؟" اس کی باتوں نے جانان کو الجھا دیا۔
"تمہاری بھابھی اب میرے ساتھ نہیں رہتیں۔ وہ چلی گئی ہیں۔" اس نے ایک بار پھر بمشکل مسکرا کر بتایا جیسے تکلیف چھپا رہا ہو۔ جانان لمحے بھر کو اپنی تکلیف بھول گئی۔
"کیوں؟ اور۔۔ اور بچے؟" آنکھیں بڑی ہوگئیں۔
"بچے میرے پاس نہیں ہیں جانان۔ چلو اسے چھوڑو! تم مجھے بتاؤ۔ اب تو میں تمہاری تکلیف میں برابر ہوا نا؟ اب تو تم مجھ سے اپنا غم نہیں چھپاؤ گی؟"
"کاش سلیم ہوتا۔" اس کی آواز بھیگنے لگی۔
"مگر آج احب ہے۔ تمہارا سب سے بڑا بھائی جو اپنی بہن کی تکلیف پوچھنا چاہتا ہے۔ یہ سفر ایسے نہیں کٹ سکے گا جانان! راستہ لمبا ہے۔"
"میں اپنا سب کچھ چھوڑ آئی احب بھائی۔۔ میں جہاندار کو چھوڑ آئی۔ ان سے کیا وعدہ بھی توڑ آئی۔ ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ میں سب کچھ چھوڑ آئی۔" اس کی سسکیاں ابھرنے لگیں۔ احب نے تھوک نگلتے ہوئے مضبوطی سے آگے دیکھا۔
"تم بہادر ہو۔"
"میں بدھو ہوں۔ میں پاگل ہوں اور میں۔۔ میں دھوکے باز ہوں! اس شخص کے ساتھ دھوکا کیا جس نے مجھے ان مشکل حالات سے نکال کر دنیا کا اچھا رخ دکھایا۔ میں جہاندار کا دل دکھا آئی۔ انہیں میرے ارادوں کی خبر نہیں۔" اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر خود کو سسکنے کا موقع دیا۔
"تم نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ کیوں نہ ڈٹ گئی؟"
"میں کیوں جہاندار کے لیے زندگی مشکل بناؤں؟ میں نہیں چاہتی کہ میرے لوگ انہیں تکلیف پہنچائیں۔ ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ لوگ میرے لیے جہاندار کو ہی نہ ماردیں۔ میں بدھو ہو۔ بے حس نہیں جو انہیں اپنے شوہر کی جان لینے دوں!" آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔
"تمہاری غلطی نہیں ہے۔ لوگ مجبور کر دیتے ہیں۔ تم ایک بہت اچھی لڑکی ہو۔۔ ایک بہترین بیوی بھی! اگر سلیم ہوتا تو تمہیں امید کا جگنو دیتا مگر میں۔۔ میں تو شاید خود کسی امید کی تلاش میں ہوں۔ میری زندگی میں جو بھونچال آیا ہے اس نے میرا ذہنی سکون برباد کردیا ہے۔ میں شاہانہ کو چھوڑنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔۔ اور وہ بچے جو میرا خون ہیں! جن کی ہنسی اور قہقہے میں اپنے کمرے میں سنتا تھا' آج کمرہ نجانے کیوں اتنا خالی خالی لگتا ہے۔ آج اسی شور کا دلدادہ ہوں جس پر کل میں بچوں کو روکتا تھا کہ میرے کانوں کو سکون چاہئے۔" وہ آخر میں ہنس دیا۔ جانان اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جس میں اتنا خوف تھا کہ معلوم پڑتا تھا آنکھیں سیاہ پڑ جائیں گی۔ وہ درست کہتا تھا۔۔ دونوں ایک پٹری پر آگے پیچھے کھڑے ہیں۔ اب دل ان لوگوں کو بنا نہیں لگے گا جن کو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اب دل مر رہا تھا جو کبھی ان لوگوں کو دیکھ کر جی اٹھتا تھا۔ شاید اسے ان محبوب لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس نے موبائل کھول کر وہ محفوظ ہوا مسیج جہاندار کی چیٹ پر سینڈ کیا جو اس نے صبح جہاندار کے سو جانے کے بعد لکھا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ گھر سے نکلنے کے بعد وہ یہ سب نہیں کر سکے گی۔ شاید یہ ایک آخری میسج تھا۔۔ ایک بڑا چوڑا پیراگراف جو اسے خون کے آنسو رلاتا تھا۔ بھاری ہوتے دل کے ساتھ اس نے جہاندار کا نمبر بلاک لسٹ میں ڈال دیا تھا تاکہ وہ اس سے کوئی رابطہ نہ کر سکے۔ وہ ایسا کبھی نہ کرتی اگر اس کے دل میں کوئی امید ہوتی۔ امید کی کمی سارے راستے ختم کر گئی۔ وہ زندگی کے ایک حصہ کو بند کر کے دوسرے حصے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کی دس بجے کے قریب آنکھ کھلی تھی۔ اس نے اٹھتے ساتھ ہی ارد گرد جانان کو تلاشا تھا۔ ایک یہی تو کام وہ سب سے پہلے اٹھنے کے بعد کرتا تھا۔ اپنی بیوی کو ڈھونڈتا تھا۔۔ آج آفس کے لیے چیخ چیخ کر اٹھانے والی کمرے سے غائب تھی۔ وہ سوچ کر ہی مسکرا دیا اور اٹھ بیٹھا۔
"جانان!" اس نے آواز دیتے ہوئے گھڑی میں وقت دیکھا۔ آج نہ آفس کے کپڑے تھے اور نہ الارم۔۔
اس کے نیچے لاؤنج میں ہونے کا خود ہی سوچتے ہوئے وہ شاور لے آیا۔ پندرہ منٹ بیت چکے تھے۔ آفس میں ابھی وقت تھا اس لیے اسے کوئی جلدی بھی نہیں تھی۔ موبائل میز پر رکھا تھا اور اٹھنے کے بعد اس نے اب تک اسے چھوا بھی نہیں تھا۔ زینے اتر کر نیچے آتے ہوئے اس نے ماہ کامل کو لاؤنج میں رکھے پودے کو پانی ڈالتے ہوئے دیکھا۔
"جانان؟" وہ اب تک نارمل تھا۔۔ آخر کو کیوں نہ ہوتا؟ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جانان اسے خود چھوڑ سکتی ہے۔ ماہ کامل کا دل کٹنے لگا۔ اس کو خوف سا محسوس ہوا۔ وہ کیسے اسے بتائے گی۔۔ "یہ لڑکی کہاں ہے یار؟ کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔" وہ جھلا سا گیا۔ فریج سے پانی کی چھوٹی بوتل نکال کر اس نے ڈھکن کھولا تھا۔
"وہ نہیں ہے۔" اس کی جہاندار کی جانب پشت تھی۔ دل لرز رہا تھا۔
"نہیں ہے مطلب؟" پانی حلق میں اتار کر اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا تھا۔
"جانان چلی گئی ہے۔" اب کی بار وہ پلٹی تھی۔ جہاندار اس کا چہرہ تکنے لگا جیسے لب چپک گئے ہوں۔ وہ فوراً کچھ نہ کہہ سکا۔
"کہاں چلی گئی ہے ماہ؟" دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
"حویلی۔۔ وہ اکبر حویلی لوٹ گئی ہے۔ کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔۔" اس نے بہت تکلیف سے بتایا تھا جسے جہاندار نے بہت درد سے سنا تھا۔ اسے لگا وہ کچھ بھی نہ کہہ سکے گا۔۔ اور واقعی اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔
کب؟ کیسے؟ کیوں؟ یہ سارے سوالات منہ میں رہ گئے۔ وہ خود جان گیا۔ کتنے ہی دیر تک اسے دیکھنے کے بعد اس نے تیزی سے نظریں دوسری جانب کرلیں۔
"یہ مذاق ہے؟" وہ اوپر جانے کو مڑ رہا تھا جب ایک دم سے ٹھہر کر پوچھ بیٹھا۔ کاش یہ مذاق ہو۔۔ کاش یہ حقیقت نہ ہو۔
"صبح سات بجے کے قریب احب بھائی آئے تھے۔ میں نے اسے جاتے دیکھا ہے۔" اس نے بمشکل الفاظ ادا کیے۔ ایک بار پھر خاموشی پھیل گئی۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی اور جہاندار فرش تک رہا تھا۔
"وہ مجھے چھوڑ گئی۔"
وہ غصہ نہیں تھا اور نہ ناراض معلوم ہوتا تھا۔
اس کے چہرے پر کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ نظر آرہا تھا۔ تکلیف، تنہائی اور ایک شکوہ۔۔
مزید ان کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی اور جہاندار کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ ماہ کامل کی آنکھوں میں پانی آنے لگا۔ آج اس چہرے پر وہ غصہ نہیں تھا جو پہلے ہوا کرتا تھا اور نہ وہ جنونیت تھی۔ اب وہ خاموش نظر آرہا تھا۔ جانے یہ وقت مزید کتنا دشوار ہونا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"صبح کیا ہوا تھا؟" وہ بستر پر بیٹھی اسے جوتے پہنتا دیکھ رہی تھی۔
"کیا؟" اس نے جھکے سر کو ذرا سا اٹھا کر ماہ کو دیکھا۔
"آپ یوں گھبرا کر اٹھ گئے تھے۔ کیا ہوا تھا؟"
"ہوں۔۔ برا خواب تھا۔" اس نے اٹھ کر اپنی ٹائی درست کی۔
"اتنا برا کہ آپ گھبرا کر اٹھ گئے؟" وہ حیران تھی۔ "کیا وہ کسی شخص کے بارے میں تھا؟"
"ہاں۔ اس کے بارے میں جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔" اس نے یک ٹک اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ "میں ایسا خواب دوبارہ نہیں دیکھنا چاہوں گا۔"
"مجھے نہیں بتائیں گے؟" اسے جاننے کا تجسس ہوا۔
"کیوں؟ تمہیں کیوں بتاؤں؟ ویسے بھی میں اپنے برے خواب نہیں سناتا۔ وہ حقیقت بن جاتے ہیں۔۔" وہ لمحے بھر کو ٹھہرا جیسے کچھ محسوس کر گیا ہو۔ "اور کبھی کچھ برے خواب تو سنائے بغیر ہی حقیقت بن جاتے ہیں۔" لہجہ بے تاثر تھا۔
"سراقہ!" وہ لمحے بھر کو ٹھہری۔ "جانان حویلی چلی گئی ہے۔" اس نے سراقہ کو اب آگاہ کیا تھا۔ وہ بری طرح چونکا۔
"کہاں چلی گئی ہے؟" اسے لگا جیسے سننے میں غلطی ہوئی ہو۔
ماتھے پر گہرے بل پھیلے۔
"حویلی! وہ واپس چلی گئی ہے۔ جہاندار بھائی کو میں بتا چکی ہوں۔ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔" انگلیاں مڑوڑتے ہوئے وہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سراقہ کی آنکھیں پوری حیرت سے کھلیں۔ اس کے دماغ میں جہاندار گھوم اٹھا۔
"جہاندار کیسا ہے؟" اس نے تیزی سے پوچھا۔
"وہ کمرے میں ہیں۔ انہوں نے کچھ نہیں کہا بس کمرے میں چلے گئے۔ مجھے بہت زیادہ پریشانی ہورہی ہے۔" اس کے دل کی گھبراہٹ اب باہر نکل رہی تھی۔ سراقہ لب بھینچتے ہوئے تیزی سے باہر نکلا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
بستر پر بے بے سدھ سیدھا لیٹا وہ چھت کو تک رہا تھا۔ آنکھیں ادھ کھلی تھیں۔ اسے اپنا وجود کمزور سا محسوس ہوا۔ محسوس ہوا کہ جیسے وہ کبھی اپنے ڈھیلے ہوتے بازو نہیں اٹھا سکے گا۔ ایک دم سب کچھ خالی سا محسوس ہوا۔ کمرہ، دل اور دماغ۔۔ سب کچھ خالی ہوگیا۔ سوچنے کی صلاحیت بھی گویا کھوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
آگے آنے والا وقت اسے خوف دلا گیا۔ جانان کے بغیر زندگی کا تصور بہت مشکل ہوگیا۔ سب ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا۔ اس بار دل پر پہلے سے زیادہ بوجھ تھا مگر اب بھی اس کو خود پر یقین تھا۔ یکدم ہی موبائل پر بپ ہوئی۔ اس نے موبائل کی اسکرین روشن کی۔ کمپنی کی جانب سے آئے میسجز کے نیچے جانان کے میسج کا نوٹیفکیشن جگمگا رہا تھا۔ پیشانی پر ذرا الجھنوں کا جال پھیلا۔ اس نے تیزی سے میسج کھولا تھا۔ وہ ایک لمبا چوڑا پیراگراف تھا جسے دیکھ کر جہاندار کی حلق کی گلٹی نمودار ہوکر غائب ہوئی تھی۔ اس کو اپنا دل بوجھل ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
"میں خدا حافظ بھی نہ کہہ سکی۔ مجھے خود سے الجھن ہو رہی ہے۔ ایک بار پھر اس رشتے سے پیچھے ہٹ رہی ہوں مگر اس بار پلٹنا بہت مشکل ہے۔ مجھے معاف کردیں! میں نے دھوکا دیا۔ آپ رات پوچھ رہے تھے نا کہ مجھے نیند کیوں نہیں آرہی؟ صبح کا خوف میرا چین چھین گیا تھا۔ آپ پوچھ رہے تھے نا کہ میں آپ کو کیوں نہیں سونے دے رہی؟ میں وہ آخری وقت صرف آپ کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔ جانتی تھی کہ اگر آپ جلدی سو گئے تو صبح ذرا سی آہٹ پر بھی اٹھ جائیں گے۔ آپ کے سونے کے بعد میں نے اپنا بیگ تیار کر لیا تھا۔ یہ سب بہت تکلیف دہ ہے جہاندار! میں اس وقت اپنی جان نکلتا ہوا محسوس کر رہی ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ یہ زخم جلد بھر جائیں گے۔ جب اس وقت کو ایک عرصہ بیت جائے گا تو شاید میں اپنے زخموں کو بھرتا ہوا محسوس کرنے لگوں گی۔ شاید یہ دل کو ایک تسلی ہے۔ نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے میں نے اپنے فیصلے پر مہر لگائی تھی کہ ہم دونوں کے درمیان کبھی دولت نہیں آئے گی۔ میں آپ کو دونوں حویلی والوں کی زمین کے جھگڑے کے درمیان پستا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی جہاندار۔۔ آپ نے کہا تھا نا آپ سب سنبھال لیں گے؟ میں نہیں چاہتی کہ آپ کو میری وجہ سے اذیت ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ جب لوگ میرا نام لیں تو ساتھ اس زمین کا بھی ذکر کریں جس کی وجہ سے یہ نکاح ہوا تھا۔ محبت تو ہمارے لیے ہے۔ ان کے لیے صرف زمین کا سودا ہے۔" وہ پڑھ رہا تھا اور خود کی جان نکلتی ہوئی محسوس کر رہا تھا۔ اسے لگا گویا سب ختم ہورہا ہو۔ "میں واپس آنے کے لیے نہیں جارہی ہوں۔ میں کبھی نہیں آؤں گی۔ اب جب جب موتیا کی خوشبو ٹکرائے گی مجھے آپ یاد آئیں گے۔ یہ یادیں بہت خوبصورت ہیں مگر اب اذیت بھی دیں گی۔ آپ ایک بہت اچھے شوہر ہیں مگر میں شاید ایک اچھی بیوی نہیں۔۔ کیا کرتی؟ یہ زمین کی جنگ زندگی بھر کی ہے۔ چندا پھپھی کی زندگی کھا گئی اور ان کی دونوں اولادوں کو اسی زمین کی وجہ سے میں نے خوب روتا دیکھا ہے جہاندار! مجھے یاد ہے ماہ کامل کتنا روتی تھی اور اسے دیکھ کر میں بھی خوب رویا کرتی تھی۔ میں نے یہ وقت ان کے ساتھ گزارا ہے۔ میں یہ سب نہ اپنی زندگی میں چاہتی ہوں اور نہ آپ کو اس وقت سے گزرتا دیکھ سکتی ہوں۔ مجھے معاف کردیں کہ میں ٹھہر نہ سکی! مجھے معاف کردیں کہ آپ کو یوں دھوکا دے آئی۔۔ مگر میں اب تیار ہوں! طلاق نامے پر دستخط کرنے کے لیے میں نے خود کو منا لیا ہے۔ مجھے یقین ہے حویلی والے جلد طلاق کا مطالبہ کریں گے اور میری آپ سے التجا ہے کہ اس رشتے کو جس کی ڈوریں پہلے ہی الجھی ہوئی ہیں انہیں سلجھانے کی کوشش نہ کریں۔ انہیں کاٹ دیں۔۔ کچی ڈوروں کا بھی کوئی مستقبل ہوتا ہے بھلا؟ باخدا آج تک میں نے اگر گجرے پہنے ہیں تو آپ کے دیے ہوئے پہنے ہیں۔ کبھی دل نے آپ کے سوا کسی اور سے گجروں کی فرمائش ہی نہیں کی۔ کل رات ایک آخری بار میں نے گجرے کلائی میں ڈالے تھے اور انہیں ہر ہر لمحہ محسوس کیا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میرا دل کسی اور کے لائے گجرے قبول کر سکے گا۔ اب شاید یہ کلائیاں خالی ہی رہیں۔ آپ کا نمبر بلاک کر رہی ہوں تاکہ آپ سے رابطہ نہ رہ سکے۔ میں جانتی ہوں مشکل ہے مگر یہی ایک واحد راستہ ہے جس کی وجہ سے آپ مجھ سے دور رہ سکیں گے۔ وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کوشش کیجیے گا۔ میری التجا ہے کہ مجھ سے دور رہیں۔"
میسج ختم ہوگیا تھا اور جہاندار کے ہاتھ سے موبائل بستر پر گر گیا تھا۔ وہ خود کو پہلے سے زیادہ کمزور محسوس کرنے لگا۔ شاید یہ سفر اتنا ہی تھا۔۔ کیا یہ سب اتنا مختصر تھا یا اسے لگ رہا تھا؟ آنکھوں کی پتلیاں دیوار پر ٹک کر رہ گئیں۔ وہ کتنی ہی دیر یوں بے سدھ پڑا رہا۔ وہ اس کی منزل صاف کر گئی تھی۔
سانسوں میں دشواری ہونے لگی تو اس نے گہری سانس لینے کی کوشش کی۔ سب اپنی اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ کمرہ ویران تھا! نہ جانان تھی اور نہ اس کی آواز۔۔
ہاں مگر احساس ضرور تھا۔ پورا کمرہ اب بھی موتیا کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ اس نے خوشبو اپنے اندر اتار لینی چاہی۔ نہیں وہ اسے معاف نہیں کرے گا۔۔ اسے اپنی محبت میں پور پور ڈوبا کر وہ دھوکا دے گئی تھی۔ کتنا بے فکر سویا رہا وہ۔۔ اور وہ چھوڑ کر چلی گئی!
"جہاندار!" سراقہ نے اس کا دروازہ بجایا۔ جہاندار نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے دوبارہ دروازے پر دستک دی۔
"سن رہا ہوں۔" جہاندار نے چہرہ پھیر کر کھلی کھڑکی کی جانب دیکھا۔ تیز ہوا اس کے چہرے کو چھو رہی تھی۔
"دروازہ کھولو۔ ہمیں بیٹھ کر بات کرنی چاہئے۔" اس کا فکرمند لہجہ جہاندار کے لبوں پر دھیرے سے مسکراہٹ لے آیا۔
"وہ وقت نہیں رہا سراقہ جہاں بیٹھ کر بات کرنے سے بات بن جایا کرتی تھی۔ تم مجھے دلاسہ نہیں دے سکتے۔" اس کے لہجے کا ادھورا پن دروازے کے پار سراقہ واضح محسوس کر سکتا تھا۔
"جہاندار دروازہ کھولو!"
"تم فکر نہ کرو میں۔۔ مم۔۔" وہ پیشانی کجھانے لگا۔ جھوٹ بولنے کے لیے بھی ہمت درکار تھی۔ "میں ٹھیک ہوں یار۔ میں بلکل نارمل ہوں۔ سب ٹھیک ہے۔ بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں باہر اور تم فکر نہ کرو۔ میں آفس ضرور آؤں گا۔" وہ گہرے خیالوں میں ڈوب گیا۔ سراقہ کو تکلیف ہوئی۔ "میں آتا ہوں سراقہ۔۔ تم آفس کے لیے نکلو۔" اس نے اپنی آنکھوں کو میچتے ہوئے دبایا۔ سر تکلیف اور بوجھل پن سے پھٹ رہا تھا۔ اصل تکلیف تو دل کی تھی۔ اب کی بار جہاندار وہ سب نہیں کرنے والا تھا جو اس نے پچھلی بار کیا تھا۔ خود کو خاموشی کی سزا دے کر وہ خود بھی اذیت میں ڈالنے والا تھا۔ اس بار جانان کی التجا تھی۔۔ وہ اس کا نمبر ایسے بلاک کر گئی تھی جیسے جان چھڑا گئی ہو۔ جانان کا چہرہ بار بار خیالوں میں ابھر رہا تھا۔ وہ یادیں، وہ قہقہے۔۔ اسے لگا یہ سب اس کی جان لے لیں گی۔ اس نے مٹھیوں میں بال پکڑتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"بیٹی!" ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ اسے خود سے لگائے پچھلے دس منٹ سے بیٹھے تھے۔ جانان اپنا سر ان کے سینے پر ٹکائے آنکھیں موندی ہوئی تھی۔ احب نے لب کاٹتے ہوئے سامنے بیٹھے دادا اکبر کو دیکھا جو مسکرا رہے تھے۔ سوائے سلیم کے یہاں حویلی کے تمام مرد موجود تھے۔
"میری بیٹی بالآخر میرے پاس لوٹ آئی۔" بار بار اس کا ماتھا چومتے ہوئے وہ خود کو اس کی موجودگی کا یقین دلا رہے تھے۔
"میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔" اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ اسے صرف اپنے باپ سے مطلب تھا۔
"تجھ سے زیادہ میں نے تجھے یاد کیا ہے جانان! میری راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ اب تم آگئی ہو تو دل کو چین مل رہا ہے۔"
"اب آگئی ہوں آپ کے لیے ابا۔ اب نہیں جاؤں گی۔" اس نے تھوک نگلتے ہوئے دادا اکبر کو دیکھا جو شاید یہی سننا چاہتے تھے۔
"اس ناہنجار آدمی سے تجھے طلاق دلوا کر ہی رہیں گے۔ اب طلاق کے لیے کورٹ کی جانب سے نوٹس بھجوا دیں گے۔ احب اگر وہ لڑکا نہ مانا تو تم ذرا یہ کورٹ کچہری کا معاملہ دیکھ کر نوٹس بھجوانے کی کرنا۔" دادا اکبر نے گفتگو میں حصہ لیا۔ جانان کو لگا گویا اس کا دل کسی نے بری طرح مٹھیوں میں بھینچا ہو۔ احب لب کاٹتا رہ گیا۔ یکدم ہی شاداب اندر داخل ہوئے تھے۔ پیشانی پر الجھنوں کے بل اور چال میں تیزی۔۔ وہ اسے بے یقینی سے تکنے لگے۔
"جانان!" انہیں امید نہیں تھی کہ وہ لوٹنے کا فیصلہ کرے گی۔ یعنی وہ ہمت ہار گئی تھی۔۔ اس نے ہار مان لی تھی۔
"ارے ہاں شاداب تم بھی ملو۔ ہماری جانان آئی ہے۔ چلو ایک بیٹی تو آگئی۔ ماہ کامل اور جانان دونوں ہی میرے دل کے بے حد قریب ہیں۔ میں جانتا ہوں یہ دونوں کبھی میرا دل نہیں دکھا سکتیں۔" انہیں خود پر فخر تھا اور شاداب کی آنکھون میں افسوس! اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے وہ دوبارہ باہر نکل گئے۔ انہیں یوں نکلتا دیکھ کر دادا اکبر کا چہرہ ناخوشگوار ہوا۔ "بس اب ماہ کو بھی بلوا لیں گے۔ اس کا بھی کوئی مقصد نہیں وہاں رہنے کا! اخگر بھائی نے تو یہی سمجھ لیا کہ ہر بار اکبر ہی قربانیاں دے گا۔" انہوں نے نخوت سے الفاظ ادا کیے۔ جانان اٹھ کھڑی ہوئی۔
"مجھے آرام کرنا ہے۔" اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے ایک خاموش ماحول کی ضرورت تھی۔ ہاتھوں کی انگلیاں بری طرح لرزنے لگیں تو اس نے مٹھی بنالی تاکہ کسی کی نگاہوں میں نہ آسکے۔
"تم واقعی تھک گئی ہوگی۔ سفر بھی کونسا چھوٹا تھا۔ تم کمرے میں جاؤ! شام کی چائے پر سب سے ملاقات کرنا۔" شہاب نے فکرمندی سے تاکید کی تو وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی وہاں سے نکلتے ہوئے کمرے میں چلی آئی۔ سر بہت سے خیالوں کے بوجھ سے درد کر رہا تھا۔ وہ بستر پر لیٹتے ہوئے تھکے انداز سے آنکھیں موند گئی۔ کاش وہ بھاری ہوتا دل اور سر میں ہوتا درد دور کر پاتی۔ آنکھیں موندنے کے ساتھ ہی آنسو رخسار پر پھیلنے لگے۔
اب سب ختم!
وہ اپنا ماضی اپنے پیچھے چھوڑ آئی تھی۔
پہلے سب کچھ ٹھیک ہونے کی امید بھی تھی مگر اب تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں اور نئی باندھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے کروٹ لیتے ہوئے چادر خود پر ڈال دی۔۔
شاید جسم کو آرام مل سکے۔۔ شاید گھائل ہوئی روح تھوڑی دیر چین پا سکے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"زندگی کا ایک اور نیا رخ!
مجھے لگتا تھا یہ گھر چھوڑنے والی جانان نہیں' میں ہوں گی۔ مگر جانان تو مجھ سے پہلے ہی چلی گئی اور اس کا یوں جانا مجھے کشمکش میں ڈال گیا۔ اس کی آنکھوں میں وہی سب کچھ تھا جو میں خود میں محسوس کرنے لگی ہوں۔ ادھورا پن اور کچھ چھن جانے کا خوف!
حالات بہت عجیب ہوگئے ہیں۔ دادا اخگر کو جانان کا ابھی علم نہیں۔ انہیں سراقہ کی جانب سے پہلے ہی پریشانی ہے اور اب جہاندار بھائی کا حال یقیناً انہیں مار دے گا۔ دادا اخگر کو اپنے دونوں پوتوں پر فخر رہا ہے، وہ ان کے دونوں جگر کے ٹکڑے ہیں جن کا چین اکبر خاندان کی لڑکیاں لے اڑیں۔ غم سے دل پھٹ رہا ہے اور مجھے بے پناہ افسوس ہو رہا ہے۔ یہ کیا ہوگیا۔۔ ایسا تو کبھی نہیں چاہا تھا۔ میں کس منہ سے بولوں گی کہ میں سراقہ سے طلاق لے رہی ہوں۔۔ کیا میں واقعی سراقہ سے طلاق لے رہی ہوں؟ یہ سوال مجھے رات دن اذیت دیتا ہے اور اب میں تھک گئی ہوں۔
جانے انہوں نے آج خواب میں کیا دیکھا۔ یوں ڈر کر اٹھ گئے اور پھر سو بھی نہ سکے۔ مجھے اچھا لگا جب انہوں نے دو قدم آگے میرے ساتھ نماز پڑھی۔ ہم نے پہلی بار ساتھ نماز ادا کی۔ وہ وہیں سو گئے۔۔ شاید جو سکون وہ چاہتے تھے انہیں مل گیا۔ کہنے لگے کہ وہ بھیانک خواب کسی کو نہیں سناتے۔۔ انہیں خوف رہتا کہ وہ حقیقت بن جائیں گے۔۔ یہ بھی کہا کہ کچھ خواب بنا سنائے حقیقت بن گئے۔ اب مجھے وہ خواب جاننے کا تجسس ہو رہا ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار اس گھر میں آئی تھی تو شروع شروع میں اکیلی ہی رہتی تھی۔ سراقہ اور جہاندار بھائی آفس میں ہوا کرتے تھے۔۔ اور اب جب جانان آکر گئی ہے تو ایسا لگ رہا ہے کہ تنہا ہوگئی ہوں۔ جہاندار بھائی بھی آفس چلے گئے اور اس گھر کی خاموشی مجھے کھٹک رہی ہے۔ جانے وہ کیا محسوس کرتے ہوں گے۔۔
جانے اب کیا حالات رہیں۔۔ دل گھبرا رہا ہے۔ مجھے اپنی سانسیں ہلکی ہلکی گھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔" وہ ہر تھوڑی دیر بعد ایک گہری سانس خارج کر رہی تھی۔
"یہ سب کیا ہوا۔۔" لکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو ٹھہر گئے۔ اس نے کتاب بند کردی۔ دل کسی اذیت سے بوجھل کر رہا تھا۔ موبائل اٹھاتے ہوئے اس نے کال ملائی۔
"ہیلو؟" دوسری جانب سے کال اٹھا لی گئی تھی۔
"جہاندار بھائی ٹھیک ہیں نا؟" اس نے چھوٹتے ہی سوال کیا۔
"ہوں ہاں شاید۔۔ میں اس سے ملا نہیں۔ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ میں ہے۔" وہ شاید کوئی کام کر رہا تھا۔ ماہ کامل خاموش ہوگئی۔ اسے فکر ہو رہی تھی۔ خاموشی طویل ہوتا محسوس کرتے ہوئے سراقہ نے موبائل کی اسکرین دیکھی۔ "تم ٹھیک ہو؟"
وہ اب بھی خاموش رہی۔۔ حالات نے اسے سن کر دیا تھا۔
"ماہی؟" اس نے دوبارہ پکارا تو ماہ نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔
"ہوں۔ بس ان کا خیال آرہا تھا۔"
"ناشتہ کیا تھا؟"
"نہیں۔" اس نے وقت دیکھا تو واقعی چونک گئی۔ دو بجنے آگئے تھے اور اس نے اب تک کچھ نہیں کھایا تھا۔
"کچھ بھی نہیں کھایا؟" اب کی بار وہ بے جا حیران ہوا۔
"دل نہیں کر رہا۔۔ صبح کے بعد سے کچھ بھی کرنے کو دل ہی نہیں کر رہا۔" وہ اس کے لہجے کو محسوس کرنے لگا۔
"میں آجاؤں؟" اس کا دھیما مگر بھاری لہجہ ماہ کامل کو ساکت کر گیا۔ وہ تھوک نگل کر رہ گئی۔
"کیونکہ عادتیں خراب کر رہے ہیں میری؟" اس نے سر جھٹکا۔
"اچھا ہے کوئی بات تمہیں میری بھی پسند آجائے گی۔" وہ ہنس دیا۔ 'اب تو سب اچھا ہی لگتا تھا' وہ سوچ کر رہ گئی۔
"ایک بات پوچھوں؟" اس نے لب بھینچے۔
"ہاں پوچھو۔"
"میں جانتی ہوں یہ عجیب ہے مگر۔۔ جانے کیوں ایک عجیب تجسس سا ہے۔ آپ نے صبح خواب میں کیا دیکھا تھا؟"
وہ مسکرا دیا جیسے کافی دنوں بعد مسکرایا ہو۔
"تمہیں تجسس کیوں ہے؟" اس نے دھیرے سے پوچھا۔
"پتا نہیں۔۔ اس کے بعد آپ سو بھی نہیں سکے تھے۔ میں ڈر بھی گئی تھی۔"
"میں نے کہا تھا نا وہ برا خواب ہے!"
"مگر کیسا برا خواب؟ کیا وہ کسی شخص کے بارے میں تھا؟"
"ہاں۔" اسے لگا وہ سمجھ گئی ہوگی۔
"دادا اخگر کے بارے میں؟" اس کا یوں کہنا سراقہ کی آنکھیں کھول گیا۔
"افف نہیں بھئی! بعد میں بات کریں گے۔۔ ابھی میٹنگ روم میں جا رہا ہوں۔ کچھ کھالو' ایسا نہ ہو کہ میں آؤں اور تم بے ہوش ہوئی پڑی ہو۔ میں کال رکھتا ہوں۔ خدا حافظ!" وہ کال رکھ چکا تھا اور ماہ کامل فون کو تکتی رہ گئی تھی۔ کافی دیر تک تکنے کے بعد اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور بستر سے اٹھتی زینے کی جانب بڑھ گئی۔
خود کو مصروف رکھنا ضروری تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم ٹھیک کہتے تھے۔" اس نے فائل اس کی میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ سراقہ نے اس کی آواز پر تیزی سے نگاہ اٹھائی تھی۔ "میں واقعی ایک غیر ذمہ دار شخص ہوں جو کبھی آفس وقت پر نہیں آتا۔" اس کا رنگ اترا ہوا تھا۔ وہ خود کو بہت نارمل ظاہر کر رہا تھا مگر سراقہ سب جانتا تھا۔۔ اسے ہی تو علم تھا۔ "مگر تم فکر نہ کرو۔ اب میں کبھی تاخیر سے نہیں آیا کروں گا۔ غیر ذمہ داری بھی نہیں دکھاؤں گا۔ آج سے ہر کام وقت پر ہوگا۔ کیونکہ میرے ہر کام تاخیر سے کرنے کی وجہ کوئی نہیں رہی۔۔ وہ چلی گئی۔" اس نے بیٹھتے ہوئے وہ فائل کھولی۔ سراقہ کا دل کسی نے مٹھی میں قید کیا۔ وہ بے بس اس کا چہرہ تکتا رہا جس کے لبوں پر ہلکی سے بے معنی مسکراہٹ تھی۔
"میں نے ایسا نہیں چاہا تھا۔۔" وہ بمشکل بولا۔ جہاندار خاموش رہا۔ فائل کے صفحے آگے کرتے ہوئے وہ کچھ پڑھ رہا تھا۔ "تم جاؤ گے نہیں؟" اسے حیرانی تھی۔ وہ آج غصے میں نہیں تھا اور نہ چیخ رہا تھا۔ وہ جنونیت کہیں نہیں تھی۔
"کہاں؟" جہاندار جان بوجھ کر چونکا۔
سراقہ اس کا چہرہ تکنے لگا جس کے تاثرات بے حد حیران کن تھے۔
"جانان کے لیے؟ دادا اخگر کو فورس نہیں کرو گے؟ خود بھی نہیں لڑو گے؟"
"میں جانان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔" اس کے تاثرات سپاٹ ہوگئے۔ "میں دادا اخگر کو زمین کے لیے فورس نہیں کروں گا۔ وہ مجھے کبھی نہیں سمجھیں گے۔ میری تکلیف نہیں مانیں گے۔ میں پاگل تھا جو یوں ان سے لڑتا تھا۔ حالانکہ جانتا تھا کہ حویلی والے زمین کبھی نہیں چھوڑیں گے۔"
"تم اس کے لیے لڑو گے نہیں؟" وہ جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔
"وہ نہیں چاہتی۔۔ اور حویلی والے بھی نہیں چاہیں گے۔ میں مزید جانان کے موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں اب کسی کو اپنے ساتھ رہنے پر زبردستی نہیں کروں گا۔" اسے لگا وہ مزید بیٹھا رہا تو آنکھیں بھر آئیں گی۔ فائل وہیں چھوڑتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گیا۔ اس کا یوں نگاہیں چرانا سراقہ سے بچ نہ سکا۔ وہ خود کو اس لمحے میں ٹھہرا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"خوشی کا دن ہے! خوب جوش و خروش سے مناؤ۔" دادا اکبر کا خوشگوار لہجہ سب کے لبوں پر مسکراہٹ لے آیا۔ وہ بس یک ٹک انہیں تک رہی تھی۔ خوشی کا دن؟ اس کی خوشیوں کے قتل کا دن تھا۔ نیلی اسے دیکھ کر دھیما سا مسکرائی۔
سب مسکرا رہے تھے اور جانان کو سب کے مسکراتے چہرے خوف دلا رہے تھے۔ اس کی سانسیں تیزی سے اوپر نیچے ہو رہی تھیں۔کپکپاتے ہاتھ سے اس نے ٹرے سے چائے کا مگ اٹھایا۔
"آج تو ہماری جانان بھی ساتھ ہے۔" مہتاب اسے چھیڑتے ہوئے بولے۔ "ہم تو کہتے ہیں ابا میاں! اس کی پسند کا کھانا ہوجانا چاہئے آج!"
"ارے ہاں صحیح بولے! صغراں سے کہو آج وہی بنائے جو ہماری بیٹی کو پسند ہے۔" انہوں نے جانان کو دیکھا جس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ "کیا ہوا بیٹی؟ تم اداس ہو؟"
"نن۔نہیں۔۔" وہ بری طرح چونکی۔
"آج تو اخگر خاندان میں تہلکہ مچا ہوگا۔ اچھا ہے کہ کچھ بے چینی کے دن ان کی حویلی میں بھی گزریں۔ ہماری نیندیں خراب کر کے خود کو سکندر سمجھنے لگے تھے۔ ان کے ایک ایک فرد کے چھکے چھوٹ گئے ہوں گے۔" ارد گرد آوازیں اٹھنے لگیں۔ سب ہنس رہے تھے اور اس کی روح کانپ رہی تھی۔
"طلاق کا عمل شروع کروا رہے ہیں۔ پیر کو چلا جائے گا اس کے شہر والے گھر میں نوٹس۔۔ بس اب اور تاخیر نہیں! ہماری بیٹی کو کسی چیز کی کمی تھوڑی ہے۔ پڑوس حویلی کے خادم صاحب تو اپنے بیٹے کے لیے کب سے مانگ بھی رہے تھے۔ وہ تو ہماری آنکھوں میں بھائی سے محبت کی پٹی چڑھی تھی کہ بس جہاندار کو ہی اپنا داماد دیکھنا چاہتے تھے۔" بھاری آوازیں اور سب کی ہنسی!
اسے لگا وہ آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔
"خادم حویلی کے لڑکے بہت شریف ہیں۔ ان کا ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتا۔ پیسہ بھی بہت ہے! اس میں کچھ وقت لگے گا لیکن اگر وہ اب بھی راضی ہوں تو کچھ وقت بعد بات کر کے دیکھنا۔"
اس کی انگلیاں بری طرح لرز اٹھیں۔ ہاتھ ڈھیلے پڑ رہے تھے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے کی دیر تھی جب نیلی اس کی غیر ہوتی حالت دیکھتے ہوئے سلیم کو بلا لائی۔
"ارے دیکھو جی سلیم بابو آئے ہیں! آج کل تو غائب ہی رہنے لگے ہو رے لڑکے تم؟ کیا کر رہے ہو؟" دادا اکبر نے سلیم کے داخل ہوتے ہی پوچھا۔ سلیم کی پوری توجہ جانان کی جانب تھی جو بمشکل گہری گہری سانسیں بھر رہی تھی۔ کسی کو اس کی خبر نہیں تھی۔۔ کسی کو اس سے غرض نہیں تھا۔
"بس پڑھ رہا تھا اس لیے مصروف تھا۔ تم کب آئی جانان؟ اور مجھ سے ملی کیوں نہیں؟" وہ سب کے سامنے اسے بغیر کسی وجہ کے لے کر نہیں جا سکتا تھا اس لیے جان کر ایسی باتیں کرنے لگا۔ جانان نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ "اب آ ہی گئی ہو تو باہر آجاؤ۔ مجھے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں!" ایک آئبرو اچکا کر کہتے ہوئے اس نے جانان کو اٹھنے کا اشارہ دیا۔ سب انہیں دیکھ رہے تھے' جانتے تھے کہ یہ دونوں آپس میں اچھے دوست ہیں۔ نیلی نے اسے پیار سے اٹھایا تھا تو وہ سلیم کے پیچھے تیزی سے چلتی ہوئی باہر نکل گئی تھی۔ ماحول میں چند منٹوں کی خاموشی چھا گئی۔
"کیا سوچ رہے ہیں ابا میاں؟" شہاب نے دادا اکبر کو کچھ سوچتے پایا تو پوچھ بیٹھے۔
"سوچ رہے ہیں کہ کبھی ہمیں جانان کے لیے سلیم کا خیال کیوں نہ آیا؟ حویلی کا لڑکا ہے اور پھر حویلی کا معاملہ حویلی میں ہی رہ جائے گا۔" آج پہلی بار انہوں نے اس زاویے سے سوچا تھا۔ نیلی کا دل حلق میں آگیا۔
"ابا میاں سلیم کے لیے وہ بالکل چھوٹی بہنوں کی طرح ہے۔" اس وجہ کے ساتھ ساتھ ایک جرمنی کی وجہ بھی تھی۔ اگر سلیم کو علم ہوتا تو شاید اس کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہوچکا ہوتا۔
"مگر وہ حقیقی بہن بھائی تو نہیں!" انہوں نے کہتے ہوئے بات جھٹک دی۔ "اچھا ہم کیا کہہ رہے تھے کہ اگر بڑے بھائی صاحب کی کوئی کال آئے تو ہمیں بتانا۔ ہم کریں گے ان سے گفتگو!"
نیلی نے اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چٹخیں۔ اگر ابا میاں سلیم اور جانان کی بات پر سنجیدگی سے سوچنے لگے تو یقیناً کچھ برا ہوسکتا تھا۔ جہاں آرا نے ان کی آنکھوں میں ڈھیروں خوف دیکھا تھا۔ وہ پریشان معلوم ہورہی تھی۔ خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے نیلی نے چائے کا مگ لبوں سے لگایا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"سنو!" اس کی آواز دوسری جانب ابھری تھی۔
"سن رہی ہوں۔" ماہ کامل نے آخری سینڈوچ ٹرے میں سجایا اور ٹرے اوون میں رکھنے بڑھی۔
"تھک گیا ہوں۔ کہیں باہر چلیں؟" اس کی آواز میں صاف تھکاوٹ تھی۔ وہ محسوس کرتی ہوئی کچھ سوچنے لگی۔
"تھک کیوں گئے ہیں؟"
"پتا نہیں۔۔" وہ دوسری جانب اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔
"حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ پریشان ہونے سے کیا ہوگا۔" گرم چائے کا مگ اٹھاتے ہوئے اس نے دھیرے سے لبوں کو لگایا۔
"حالات ٹھیک نہیں ہوں گے ماہی۔ حالات بدل جائیں گے۔ مزید برے ہوجائیں گے۔" خیالوں میں اس کا چہرہ تھا۔ وہ آنکھیں میچ گیا۔
"ٹھیک بھی تو ہو سکتے ہیں سراقہ۔ جب حالات مشکل ہوجائیں تو کیا ہمت ہار لی جاتی ہے؟ خود کو مضبوط رکھا جاتا ہے۔" وہ اسے یوں ہمت ہارتا دیکھ کر فکرمند تھی۔
"تو پھر کیسے خود کو مضبوط رکھا جاتا ہے؟" بس دل چاہا کہ وہ بولتی رہے اور اس کے کان سنتے رہیں۔ وہ ایک عورت اس کو کمزور کر گئی! وہ دوبارہ مضبوط ہونا بھول گیا۔
"مسلوں کا حل نکالا جاتا ہے۔ پریشانیوں کو بڑھایا نہیں جاتا۔ آپ ہمت ہار گئے تو جہاندار بھائی کو کون دیکھے گا؟" اس کا ٹھہرا ہوا لہجہ سراقہ کو سکون پہنچا رہا تھا۔
"وہ جانان کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ وہ گھر لوٹے تو جانان کے بارے میں کوئی بات نہ کرنا۔ میرے اپنے حالات درست کہاں ہیں جو کسی اور پر فوکس کروں۔ مجھے خوف ہے کہ اگر دادا اخگر کو خبر ہوئی تو کہیں وہ اپنی طبیعت خراب کر کے خود کو نقصان نہ پہنچا لیں۔ تم فکر مت کرو۔ ٹھیک ہی کہتی ہو کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
ماہ کامل نے گہری سانس بھری۔
"آپ باہر چلنا چاہتے تھے۔ کہاں چلیں؟"
"تم کہاں جانا چاہو گی؟" اس نے الٹا اس سے سوال کیا۔
"جہاں آپ جانا چاہیں گے۔"
"واقعی؟" وہ ہنس دیا۔
"اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ میں آپ کی پسند کا خیال نہیں رکھتی؟" پیشانی پر دھیرے دھیرے بل پھیلنے لگے۔
"میں نے ایسا کب کہا۔ دراصل کافی وقت ہوگیا ہے ہم کہیں باہر نہیں گئے۔ میں بس تھوڑا وقت گھر کے ماحول سے باہر گزارنا چاہتا ہوں۔ رات کھانا باہر کھائیں؟" وہ اس کی آفر پر مسکرائی۔
"میں نے شام کے لیے سینڈوچز بنائے ہیں۔ گھر آئیں پہلے میرے ساتھ شام کی چائے پئیں۔ پھر چلیں گے۔ زیادہ مت سوچیں سراقہ! آپ نے مجھے اپنا دوست بنایا تھا۔ میں چاہتی ہوں آپ خود کو ہلکان مت کریں۔ گھر آجائیں۔" آج پہلی بار اس نے یوں دل سے اسے پکارا۔ سراقہ نہال ہوگیا۔ اس کا شدت سے دل چاہا کہ یہ لڑکی اس کے پاس ہی رہ جائے۔ اسے چھوڑنے کا خیال بھی نہ لائے۔
"اب تم میری عادتیں بگاڑ رہی ہو!" وہ زور سے ہنسا۔
"آپ اس شادی کے آغاز میں ہی بگڑ گئے تھے مسٹر سراقہ!" وہ جواباً مسکرائی۔ "چھوڑ دیں کام اور گھر آئیں!" انداز حاکمانہ تھا۔
"میں باس ہوں۔ تمہارا آرڈر کیوں مانوں؟" اس نے آئبرو اچکائی۔
"کیونکہ میں باس کی فالحال بیوی ہوں! اور میں انتظار کر رہی ہوں۔۔ اور زیادہ انتظار مجھے پسند نہیں اس لیے ابھی اٹھ جائیں۔" آرڈر دیا گیا۔ اسے بے جا شوہر پر پیار آیا تھا۔
اب محبت یک طرفہ نہیں رہی تھی۔
وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ اب دل پر بوجھ ذرا کم ہوگیا تھا۔ اس کا انداز اندر تک راحت پہنچا گیا۔ اگر وہ اس کے پاس رہ جاتی تو شاید وہ بقایا زندگی کے لیے اسے کسی ہیرے کی طرح زمانے کی بری آنکھ سے محفوظ رکھتا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے لینے کیوں نہیں آئے؟" اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ سلیم نے لب کچلے۔
"آجاتا تو پورا راستہ تم روتی ہی رہتی۔" اس نے نگاہ پھیر لی۔
"میں سارا راستہ رونا چاہتی تھی۔ تمہیں میرا رونا اتنا برا لگتا؟" ان آنکھوں دوبارہ پانی بھر آیا۔ اب تو ہر چھوٹی بات پر خود ہی آنسو آجاتے تھے۔
"مجھے تمہارا رونا تکلیف دیتا اس لیے نہیں آیا جانان۔" اس نے تیزی سے جانان کے جملوں کی تصحیح کی۔ "شاداب چاچو بتا رہے تھے کہ ابھی تک اخگر حویلی والوں کی جانب سے کوئی بات نہیں آئی۔ میں نے تو پہلے ہی سب کو خبردار کر رکھا ہے کہ جانان' جہاندار کی بیوی ہے۔ وہ کسی کو چھوڑے گا نہیں۔۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا البتہ اندر ہی اندر میں جہاندار کے آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔" وہ مسکرا رہا تھا۔
"تمہاری باتیں بھی بالکل جہاندار کی طرح ہیں۔" وہ بھی باغی تھا۔ "اس طرح نہیں ہوتا سلیم! اور نہ ہوگا کیونکہ میں سب کچھ اب خود ختم کر کے آئی ہوں۔" رخسار بھیگنے لگے۔ سلیم کی پیشانی پر بل پھیلے۔
"تم نے کیا کیا؟"
"میں نے انہیں میسج کیا تھا کہ اب وہ میرے پیچھے نہ آئیں۔ میں دو کشتیوں میں سوار نہیں رہ سکتی۔ ان کا نمبر بلاک کردیا ہے بس کہہ آئی ہوں کہ مزید اس بارے میں نہ سوچیں۔۔ یہی بہتر ہے سلیم! یہی مناسب ہے۔۔ محبت کو دولت میں تولا نہیں جاتا۔ میں جہاندار کی زندگی میں مزید شامل رہ کر ان کی زندگی برباد نہیں کروں گی۔ اور بہتر یہی ہوگا کہ وہ اب پیچھے نہ آئیں۔۔" اس نے نظروں کا مرکز سامنے درخت کو بنا لیا۔ سلیم کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ وہ حیران تھا' ششدر تھا۔
ہاں وہ تو نادان تھی مگر کیا جہاندار واقعی ایسا کرنے والا تھا؟ کیا جانان اپنے دل کو مار آئی تھی؟
"مگر مجھے یقین ہے وہ آئے گا۔" دل و دماغ یہ بات قبول کر ہی نہیں سکتا تھا کہ جہاندار اپنی بیوی کو یونہی چھوڑ سکتا ہے۔ "میں نہیں مان سکتا کہ وہ تم پر ہار مان لے۔ وہ آئے گا اور ان سب کی گردنیں مڑوڑے گا جنہوں نے اس کی بیوی کو تکلیف پہنچائی۔" پیچھے دیوار پر زور دیتے ہوئے وہ اوپر بیٹھ گیا۔ جانان کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ بس دوسری جانب تکتی رہی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"جہاندار بھائی کچھ کھانا چاہیں گے؟" وہ اپنے کمرے سے نکلی تھی جب جہاندار کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر بولی۔ وہ چہرہ سے ہر شے سے بیزار معلوم ہوتا تھا۔
"نہیں بس کمرے میں جاؤں گا۔" دروازہ اپنے پیچھے بند کر کے وہ منظر سے غائب ہوگیا۔ ماہ کامل کو اس کے لیے بہت برا لگا۔ کاش وہ کسی طرح اس کی مدد کر سکتی۔
موبائل پر کال ملاتے ہوئے اس نے سنگھار میز سے چھوٹی چھوٹی بالیاں اٹھائیں۔
"ہیلو ہاں ماہی! میں نکل گیا ہوں آفس سے اور اب راستے میں ہوں۔" اس کی آواز اب لبوں پر مسکراہٹ پھیلا دیتی تھی۔
"جی ٹھیک ہے۔ جہاندار بھائی گھر آگئے ہیں۔ کیا انہوں نے آفس میں کچھ کھایا تھا؟" بالیاں اب آہستگی سے کانوں میں ڈالتے ہوئے خود کو بار بار آئینے میں دیکھ رہی تھی۔
"نہیں وہ لیٹ آیا تھا اور آج کل باورچی ذرا چھٹیوں پر ہے تو یہاں فالحال چائے یا کافی سے کام چلانا پڑتا ہے۔ اس نے کچھ کہا کیا؟"
"نہیں۔۔" ماہی نے وقت دیکھا۔ چھ بجنے کو تھے اور وہ اب مکمل تیار تھی۔ "میں نے ان سے کھانے کا پوچھا تھا تو انہوں نے انکار کردیا تھا۔ بس اسی لیے پوچھ رہی ہوں۔" آج کتنے ہی دنوں بعد اس نے ہلکے رنگ کی براؤن لپ اسٹک لبوں پر رگڑی تھی۔ ہلکا کاجل اور ہلکی لپ اسٹک اسے اچھی لگنے لگی۔
"چلو میں گھر آتا ہوں تو دیکھتا ہوں۔ یہ راستے میں کال کرنے والی تمہاری عادت ایک دن میرا جان لیوا ایکسیڈنٹ کروا دے گی۔" وہ ہنستا ہوا۔ ماہ کامل کے ہاتھ سے کاجل کی پینسل چھوٹی۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یہ سب اس کے لیے کہنا کتنا آسان تھا۔۔
"آپ کے لیے یہ سب کہنا کتنا آسان ہے نا؟" چہرے سے مسکراہٹ کب کی غائب ہوچکی تھی۔
"معذرت! میں نے یہ بات بہت غلط انسان کے سامنے کہہ دی۔" وہ مسکراہٹ دبانے لگا۔
"انسان نہیں آپ کی بات غلط ہے! کال رکھ رہی ہوں۔ ڈرائیونگ پر فوکس کریں۔" اس نے کال کاٹ کر موبائل میز پر رکھا اور گہری گہری سانسیں بھرتے ہوئے خود کو پرسکون کرنے لگی۔ اس نے آنکھیں میچتے ہوئے ذرا سا کھول کر آئینے میں دیکھا۔ اس نے خود میں بہت فرق پایا۔ شادی کی شروع میں اور اب اس شادی کے اختتام میں وہ شرق سے غرب تک بدل گئی تھی۔ احساسات، جذبات اور دل کا موسم بھی مختلف تھا۔ اب لہجے میں فکر رہتی تھی۔ اس نے بالوں کو سلجھاتے ہوئے ڈھیلی سی پونی بنائی اور ڈوپٹہ پہنتی ہوئی نیچے چلی آئی۔ ایک جانب ہلکی آنچ پر چائے رکھی ہوئی تھی اور دوسری جانب کافی کا دودھ ابل رہا تھا۔ کافی بنا کر اس نے ٹرے میں مگ رکھا اور اوون سے دو سینڈوچز لیتے ہوئے ٹرے میں ہی سجا لیے۔
وہ جانتی تھی کہ جہاندار کو جانان کا جانا اس قدر متاثر کر گیا ہے کہ وہ اپنی بھوک پیاس بھی محسوس نہیں کر پارہا۔ اس نے کمرے کا دروازہ بجایا۔
"آجاؤ۔" کہتے ساتھ ہی دروازہ کھلا تھا اور وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
"یہ کافی اور سینڈوچز۔۔ کھا لیں۔" کمرے کی حالت دیکھ کر واقعی محسوس ہو رہا تھا کہ جانان چلی گئی ہے۔ بستر کی چادر آدھی اتری ہوئی تھی اور کمرہ بکھرا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، وہ شاید اسے پڑھ رہا تھا۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے مگر تمہیں کیا ہوا؟" آنکھیں حیرت سے کھلی ہوئی تھیں۔
"کیا ہوا؟" اسے یکدم ہی پریشانی ہوئی۔ کیا حلیے میں کوئی چیز غلط تو نہیں تھا۔ وہ اپنے کپڑے دیکھنے لگی۔
"ارے نہیں! تمہاری تیاری دیکھ کر پوچھ رہا ہوں۔" لبوں پر مبہم سی پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ہاں وہ۔۔ میں اور سراقہ رات باہر کھانا کھانے والے ہیں۔ بس اس لیے تھوڑا تیار ہوگئی۔" اسے شرم بھی آئی اور شرمندگی بھی ہوئی۔
"اچھی لگ رہی ہیں ماہ بھابھی!" اس نے پہلی بار اسے بھابھی کہا تو وہ شرم کے مارے نگاہیں جھکا گئی۔ آج یہ لفظ اچھا لگا تھا۔۔ "مجھے بھوک نہیں تھی ویسے! میں بس تھوڑی دیر جاگ کر سو جاؤں گا۔" اس نے نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔ ماہ کامل نے بہت گہرائی سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے تھے۔ وہ سب سے کترا رہا تھا جیسے خود کو محدود کرنا چاہ رہا ہو۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اسے یقین تھا۔ آواز دھیمی ہوگئی۔
"مجھے امید مت دو ماہ۔ میں مزید امیدیں نہیں چاہتا۔ تنہائی چاہتا ہوں۔" اس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑتے ہوئے اس نے صوفے پر رکھ دی۔ ماہ کامل نے تھوک نگل کر گہری سانس خارج کی۔
"میں جانتی ہوں آپ نے کچھ کھایا ہوا نہیں ہے۔ کچھ کھا لیں۔" وہ وہاں سے چلی گئی تھی اور جہاندار ایک ادھورے پن سے کھلے دروازے کو تکتا رہ گیا تھا۔ اگر جانان ہوتی تو حالات مختلف ہوتے۔ وہ اسے ٹھیک کر دیتی۔ مگر جانان نہیں تھی اور حالات بھی اب مختلف تھے!
۔۔۔★★★۔۔۔
ESTÁS LEYENDO
میں ماہ کامل ہوں
De Todoایک لڑکی کی کہانی جس نے اپنی زندگی کی کتاب خود اپنے ہاتھوں سے لکھی۔ محبت اور نفرت پر مبنی ایک داستان۔۔