ناورو یہ نام اس نے پہلی بار اخبار میں پڑھا تھا Nauru
دنیا کا سب سے چھوٹا ملک جو بے انتہا خوبصورت تھا وہاں کی آبادی بہت کم تھی مگر اخبار میں لگی اس تصویر کو دیکھ کر وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ چھوٹا سا ملک کتنا پرسکون ہوگا۔ اور اسی لئےاس نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپ کا نام؟
کمپیوٹر پر سوال ابھرا
آیسن
عمر؟
آٹھارہ سال
مزید دیگر انفارمیشن فل کر کے اس نے کلک کیا اور پھر وہ لیپ ٹاپ لے کے بھاگی بھاگی اپنی امی کے پاس گئی
امممممممی
امی امی امی
وہ لیپ ٹاپ لے کے دروازے کے سامنے خوشی اور جوش سے دروازہ بجا رہی تھی۔
کیا ہے
اس کی امی واش روم سے نکل کر ہاتھ دوپٹے سے پونچھ رہی تھی
امی وہ اپ کو بتایا تھا نا میں نے کہ میں فری لانس کا کام کررہی ہو۔
ہاں تو
اس کی امی اب کچن کی طرف جارہی تھی اور وہ ان کے پیچھے پیچھے۔
تو یہ کہ میں جیت گئی ہو ایک نیا کان ٹیسٹ ایا تھا جو ون میلن ڈالرز کا تھا، میں نے اس پہ کام کیا اور انھیں میرا کام پسند ایا میں جیت گیی۔
کیا دیکھا وں زرا
یہ دیکھے
اس نے سکرین ان کے سامنے کی
واقعی یہ تو بہت سارے پیسے ہے اور وہ بھی ڈالرز میں
ہا امی اور اپ کو پتہ ہے یہ کل تک آجاینگے ویسٹرن یونین میں اور پھر ہم اسے نکال ینگے۔
وہ لیپ ٹاپ میز پہ رکھ کر اپنی امی کو لے کہ گول گول گھومنے لگی۔
ارے چھوڑوں مجھے آیسن
آیسن ہنستے ہنستے کرسی پہ بیٹھ گئی اور اس کی امی اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر گھرے گھرے سانس لینے لگی۔
بےغیرت اولاد جاکر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناچے جارہی ہے۔
سوری سوری میں بس ابھی ایی
وہ بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں گیی اور وضو کر کے جایے نماز بچھاکے نوافل پڑھنے لگی۔
دعا کے لیے ہاتھ اٹھایے تو اس کے چہرے پہ گہرا تبسم تھا اس کے ہونٹ خود بہ خود ہنسنے لگتے۔
تھینک یو سوچ اللہ تعالی جی تھینککککک یوووو سووووو مچ مجھے اتنا قابل بنانے کے کہ میں اب خود کما سکتی ہو اور میں اپنا پرامس یاد رکھو نگی کل بینک سے گھر واپس اتے ہی ان پیسو میں سے صدقہ دونگی جو میں نے کمایے ہے کیونکہ میں امیر ہونا چاہتی ہو سب کو ساتھ لے کر سب کی غریبی مٹا کر۔
اس کی آنکھیں بھرنے لگی۔
تھینک یو سو مچ اللہ تعالی جی مجھے اس قابل سمجھنے کے لیے کہ میں بھی کسی کی مدد کر سکو۔
دعا مکمل کر کے اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنی چہیتی اور پڑھا کو بیسٹ فرینڈ کو فون کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیپ بیپ اس کا موبائل بجا۔
کتاب سے سر اٹھا کر اس نے اپنے موبائل کی طرف دیکھا آیسن جگمگا تا دیکھ کر اس نے واپس کتاب کی طرف دیکھا اور پھرگلاسزز نکال کر ٹیبل پہ رکھی اور کال اٹینڈ کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے کال نا اٹھایی تو وہ اس کے گھر ٹپک پڑے گی اور اج کا ٹارگٹ جو اس نے یاد کرنے کے لیے رکھا تھا وہ رہ جائے گا۔
اسلام علیکم میری پیاری ڈرٹی
اس کی آواز سن کے امیرہ کے ہونٹ خود بخود مسکرانے لگے اور اس کے ہونٹ کے نیچے بنا تل بھی اس مسکان پہ فدا ہوا۔
ارے سلام کا جواب تو دو۔
وعلیکم السلام۔
امیرہ آیسن کے برعکس باتونی نہیں تھی۔
فرمایے جناب۔
امیرہ کرسی سے اٹھ کر بیلکانی میں گیی۔ اس کے کالے سیدھے بال ہوا سے اڑنے لگے جسے وہ دوسرے ہاتھ سے کان کے پیچھے کرتی چلی گئی۔
تمہیں پتہ ہے کیا۔
کیا
میں نےفری لانس کانٹسٹ جیتا ہے
مبارک ہو۔
تو اس دفعہ کتنے کا پرایز تھا۔
You won’t believe it’s a million .
Really
Yeah
Wow congratulations…
امیرہ کو دل سے خوشی ہوئی۔
تو کیا ارادہ ہے کیا کرنا ہے ان پیسو کا۔
کچھ خاص نہیں بس ایک ادھ اپنے فیورٹ ایلنڈ کا وزٹ کرنا ہے اور باقی امی کو دے دونگی۔
ویٹ کہی تم اس ایلنڈ کی بات تو نہیں کر رہی۔
ہاں وہی
آیسن خوشی سے چلایی۔
واو پھر تو مزے ہے جناب کے
ہاں اور یہ مزے میں اکیلے نہیں لوٹنے والی تم بھی ساتھ آوگی۔
آیسن۔۔۔۔ تمہیں پتہ تو ہے ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے۔
بس کرو اچھا۔ جیسے مجھے پتہ ہی نہیں ہے اپنے ڈاکٹر بھاری کی کتابیں تو تم پہلے ہی چاٹ چکی ہو۔ اب کم سے کم ڈاکٹر بننے تک کے لیے کچھ تو چھوڑ دو ابھی سے سب یاد کر لوگی تو ان پانچ سالوں میں کیا کرو گی۔ اور ابھی ہی تو وقت ہے تمہارے پاس بعد میں تم نے ڈاکٹر بننے کی تیاری کرنی ہے اور جب ڈاکٹر بن جاووگی تب شادی کر لوگی اور پھر بچے اور پھر تو تم مجھ سے ملو گی بھی نہیں مجھے پتہ ہے۔
اچھا بس کرو تم نے تو بچوں تک کا سوچ رکھا ہے۔
ہاں تو ہم جارہے ہے نا
اوکے بٹ
اب کیا
بٹ جسٹ ناورو ہم صرف ناورو جاینگے اور کسی دوسرے ملک نہیں بولو منظور۔
ارے مگر پیرس بھی تو گھوم اتے
ایسنننننن
اچھا ٹھیک ہے پیرس پھر کبھی جاینگے۔
چلو ٹھیک ہے میں ماما بابا کو بتا دوں۔
اوکے کل ویزا افس میں ملتے ہے۔
اوکے باے۔
موبائل بند کر کے امیرہ نے اپنے ہاتھ اپنے گرد باندھ دیے اور اس ٹھنڈی فزا کو اپنی گرم سانس سپرد کی
کچھ دیر وہاں کھڑے ہوکر وہ واپس اندر گیی اب اس کا ارادہ ماما بابا سے بات کرنے کو تھا۔ اپنی کتابیں سمیٹ کر وہ ان کے پاس گیی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہایے
اسلام علیکم
وعلیکم السلام بیٹا
امیرہ نے آیسن کے ہایے کہنے پہ اس کے ساتھ کھڑی اس کی امی کو سلام کیا۔
سیکھو کچھ امیرہ سے تم کیا ہر وقت ہایے ہایے لگایے رہتی ہو سلام کیا کرو اتنی اچھی سہیلی ہے کم سے کم سلام کرنا تو سیکھ لو اس سے۔
امیرہ نے مسکرا کے آیسن کی امی کو دیکھا۔ اور آیسن نے اسے چبا جانے والی نظروں سے۔
چلے امی۔
ہاں امیرہ بیٹا تم اس کے ساتھ چلی جاووں ویزہ کے دفتر میں گھر جارہی ہو اس پاگل نے باقی پیسے بینک میں ڈال دیے اور بیس لاکھ نکال کے بیگ میں گھوم رہی ہے۔
آیسن کی امی راز دارانہ بولی مبادا کویی ان کا پرس نا چھین لے جس میں پیسے تھے۔ اور امیرہ جانتی تھی یہ پیسے آیسن نے صدقہ کے لیے نکالے تھے۔
تم دونوں چلے جاووں میں یہ گھر میں رکھ دو۔
ٹھیک ہے آنٹی اپ فکر نا کرے بے فکر ہو کے جایے۔
شکریہ میرا بچہ۔
الله حافظ
امیرہ نے کہا
اللہ حافظ امی
آیسن نے اس کی تایید کی کہ اب اس بات پہ باتیں نا سننی پڑ جایے۔
آیسن اور امیرہ ویزہ افس امیرہ کی گاڑی میں گیے جبکہ آیسن کی امی اپنی گاڑی میں گیی۔
وہاں جاکر ان دونوں نے ویزہ کے لیے آپلایی کیا اور ضروری دستاویزات جمع کروایے۔
ویزہ دفتر سے نکل کر وہ شاپنگ مال گیی اور دو گھنٹے شاپنگ کرنے کے بعد بالآخر امیرہ آیسن کو کھینچ کر فوڈ کورٹ لے کے گیی کیونکہ اس کا بھوک سے برا حال تھا۔
شاپر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے چیر پر لاد کے وہ دونوں بھی بیٹھ گیی اور کھانا آرڈر کرنے لگی۔
کھانا آرڈر کر کے وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے جب آیسن کا امیرہ کے پیچھے کوئی نظر ایا امیرہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجایی
تم کہا دیکھ رہی ہو میں تم سے بات کر رہی ہوں۔
اس کی نظروں کے زاویعے میں دیکھنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ وہ ایک فیملی کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ساتھ بچے سمبھالنے کے لیے ایک چھوٹی بچی کو لایے تھے اور وہ ان کے کھانے کو دیکھ رہی تھی تو انھوں نے اسے دور بھیج دیا۔
اور بس آیسن کی برداشت کی حد ختم ہہویی۔ ویسے بھی غلط اسے کم ہی ہضم ہوتا تھا۔
وہ تیز چل کے گیی اور اس بچی کو ہاتھ سے پکڑ کر ان تک گیی۔
اگر ان بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے تو یہاں ساتھ لاتے ہی کیوں ہوں
اس نے دھیمے مگر کڑوے لہجے میں بولا اور بنا ان کی سنے اس کو اپنے ساتھ لے جاکر اپنے ساتھ ٹیبل پہ بٹھا دیا اور اسے کھانا کھلایا اور جب وہ فیملی کھانا کھا کر جانے لگی تو وہ پیزہ کا سلایس ہاتھ میں لے کر بھاگی تو آیسن نے اسے آوازدی اور پرس میں ہاتھ ڈال کر جتنے پیسے ہاتھ ایے بنا دیکھے اسے دے دیے۔ جس پر بچی حیرانی سے اسے دیکھنے لگی اور پھر ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کی طرف اچھال کر دوڑ کرچکی گیی۔
امیرہ کو اس کی حرکت نیی نہیں لگی کیونکہ وہ ہمیشہ اسی طرح کرتی تھی اس لیے اسے عادت تھی۔ مگر آیسن کبھی بھی اپنی نیکی کے بارے میں کسی کو بتاتی نہیں تھی مبادا وہ ضائع نہ ہو جائے۔
کھانے کے بعد وہ واپس گھر کی طرف روانا ہویے اور راستے میں اپنے گھومنے پھرنے کی پلاننگ مکمل کی آیسن کو گھر چھوڑ کر امیرہ بھی گھر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ دن بعد ان کا ویزہ لگ گیا پہلی کال امیرہ کو ایی تھی اور پھر آیسن کو اگلے دن کال موصول ہوئی۔
وہ دونوں کال پر ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھے کہ اج ویزہ لے کے اور کیا کیا کرے۔ تبھی آیسن باہر اپنے ابو کے پاس گیی جو ٹی وی پر نیوز دیکھ رہے تھے۔
پاکستان کے مشہور بزنس مین حاکان خلیل جن پر پولیس کو شک تھا کہ وہ کچھ غیر قانونی کام میں ملوث ہے، ان کی چھان بین پولیس بہت وقت سے کر رہی تھی مگر انہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا، اج انہیں ایک خفیہ زرایع سے بہت اہم معلومات ملی ہے کہ ان کی فیکٹری کے نیچے بھی ایک فیکٹری ہے، مزید جانیگے معید سے جی معید۔
اینکر نے ہاتھ میں مایک پکڑے معید نامی آدمی سے پوچھا۔
آیسن بھی موبائل کان سے ہٹا کر ابو کے ساتھ نیوز دیکھنے لگی۔ جس میں اب معید خان کمپنی کی ایک فیکٹری کے سامنے موجود تھا۔
جی سارہ ہم یہاں کے فیکٹری کے سامنے موجود ہے پولیس کے پاس ایک خفیہ زرایع سے معلومات موصول ہوئیں تھیں کہ کے کمپنی کی فیکٹری کے نیچی ایک اور فیکٹری ہے جس میں غیر قانونی چیزیں بنایی جاتی ہے اج کے اج ہی پولیس نے ان کی سبھی فیکٹریوں پر چھاپا مارا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ اطلاع سچ نکلی اور پولیس نے ہر فیکٹری کے نیچے ایک اور فیکٹری جوآباد تھی اس کو ڈھونڈا ہے جس میں شراب، اصلحہ اور ڈرگز وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے۔ مگر اپ میرے پیچھے دیکھ سکتے ہے کہ پولیس نے ان سبھی فیکٹریوں کو تالا لگا دیا ہے اور ک کمپنی کے تمام مالکان ملک سے فرار ہو گیے ہے۔
آیسن نے سکھ کا سانس لیا اور جو بات وہ اپنے ابو سے کرنے ایے تھی وہ یاد کر کے بولی۔
ابو میں نے اور امیرہ نے ویزہ لینے جانا ہے اپ پلیز اگر ساتھ چلینگے۔
جی بیٹا میرے اپنے بھی ایک دو کام تھے اپ کو دفتر چھوڑ کر میں وہاں چلا جابونگا
ٹھیک ہے ابو میں امیرہ کو بتاتی ہو کہ وہ ریڈی ہوجایے ہم اسے لینے آرہے ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ امیرہ کے گھر کے سامنے کھڑے اس کے گاڑی میں چڑنے کا انتظار کر رہے تھے
جیسے ہی وہ گاڑی میں چڑھی آیسن بولنا شروع ہوئی کہ ان دونوں نے میچنگ کا کیا کیا لینا تھا ۔
وہ ویزہ رسیوو کرنے ویزہ کے دفتر گیے۔
ویزہ لے کرآیسن بے حد خوش تھی کیونکہ ناورو اس کی بے حد پسندیدہ جگا تھی اس کا خواب تھا۔
وہاں سے وہ دونوں ٹریول آیجنسی گیے اور اپنی سیٹ بک کروایی جو دو دن بعد کی تھی۔
واپسی پر دونوں نے خوب شاپنگ گی۔
امیرہ
یممم
ناورو سے پیرس کا راستہ کتنا ہوگا
سوچنا بھی مت
کیوں
ہم دونوں اس لیے وہاں جارہے ہے کیونکہ ہم صرف ناورو جارہے ہے اگر اس کے علاوہ کسی جگا کا نام۔ بھی لیا تو میں اپنا ٹیکٹ ریفنڈ کروالونگی سمجھ ایی۔
ٹھیک ہے
آیسن نے مرجھایے ہوے کہا۔
لیکن ہم وہاں دن زیادہ گزارینگے ویسے بھی صرف ناورو ہی جارہے ہے۔
ٹھیک ہے۔
اچانک کیا گیا یہ فیصلہ ان دونوں کی زنگی بدلنے والا تھا مگر یہاں فلہال پرواہ کسے تھی۔
ان دونوں نے اپنے لیے سب کچھ میچنگ لیا تھا کہ سب کچھ ساتھ کرینگے مگر یہ تو صرف قسمت جانتی تھی کہ انہیں وہ کپڑے وہاں میسر ہونگے بھی کہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلاییٹ میں بیٹھنے سے پہلے ان دونوں کی امییوں نے انہیں ڈھیر ساری ہدایات دی اور دعاییں پڑھ پڑھ کے پھونکی۔
فلاییٹ میں بیٹھ کر امیرہ نے شیشے کی طرف کی سیٹ سمبھالی اور آیسن اس کے ساتھ۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے ہم مرنے والے ہے۔
کیا مطلب
امیرہ نے حیرت سے پوچھا
تم ایسا کیوں بول رہی ہوں
بس ایسے ہی میرے دل میں ایا سوچا بول دو۔
کچھ بھی فضول مت سوچوں۔
امیرہ نے بیگ سے کتاب نکالتے ہوئے کہا۔
سیریس لی تم وہاں پڑھائی کرو گی مطلب کم ان ہم وہاں گھومنے جارہے ہے۔ تم مجھے یہ بتاووں اپنے ساتھ کپڑے تو لایی ہو نا ایسا نا ہو کہ میں تمھارا بیگ کھولو اور اس میں سے صرف کتابیں ہی نکلے۔
ارے نہیں میں صرف یہ ایک کتاب لایی ہوں
امیرہ نے چہرے پر ڈھیروں معصومیت لاتے کہا۔
اور اس ایک کتاب کو بھی میں نے اس جہاز سے باہر پھینک دینا تھا اگر اس جہاز کا شیشا کھلتا تو۔
امیرہ نے صد شکر ادا کیا کہ ہوایی جہاز میں کھڑکی بند ہی ڈیزائن ہویی تھی ورنہ آیسن اج سچ میں اس کی کتاب باہر پھینک دیتی۔
تھوڑی ہی دیر میں جہاز ہوا وں میں آڑنے لگا۔ اور وہ شیشے سے نیچے کا منظر دیکھنے لگے اور تصویریں بنانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ پہلے
ایکا ماویرو مو Ekamawir omo
سپیکر پر ناورو زبان میں ہیلو کہا گیا۔
دوسری طرف عصام غصہ اور کنٹرول سے اس کے ہاتھوں اور گردن کی رگیں باہر ابھرنے لگی تھی۔
اس کا پتہ چل گیا ہے بابا میں کل اپ سے ملنے آرہا ہو۔
کل نہیں ہم کچھ دن بعد ملینگے
مگر ڈیڈ مجھ سے اب اور صبر نہیں ہوتا میں اس کی غداری کا انعام اسے جلد دینا چاہتا ہو۔
عصام جب اتنا صبر کر لیا تو کچھ دن اور سہی اس نے ہم سے غداری کی ہے اور اس کی سزا ہم اسےضرور دینگے مگر اس سے پہلے ہمیں بلیک لسٹ مکمل کرنی ہے یہ مت بھولو۔
وہ اپنے رعب دار لہجے میں بولے
عصام نے اپنا غصہ کم کرنے کے لیے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
ٹھیک ہے بابا مگر اسے ختم میں کرونگا۔
ڈیل
حاکان خلیل نے فون بند کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تیرہ گھنٹے سفر کی فلایٹ میں ان دونوں نے سونے کے علاوہ باقی سب کام کیے۔ انھوں نے وہاں قریب بیٹھی ایک پیاری سی بچی اور اس کی ماں سے دوستی بھی کر لی۔ امیرہ نے دو بارہ کتاب کو ہاتھ تبھی لگایا تھا جب آیسن واش روم گیی تھی۔ اور اس کے اتے ہی اس نے اسے واپس رکھا دیا۔
طرح طرح کے کھانے ، جوس اور چائے پینے کے بعد وہ دونوں سکریبل کھیلنے لگی۔ جس میں ایک دفعہ پھر سے امیرہ نے آیسن کو بری طرح ہرا دیا اور وہ منہ پھلا کے بیٹھ گئی پھر خود ہی ہنسنے بھی لگی۔
دونوں نے جہاز میں کافی شور اور ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا نا خود سو رہی تھی نا کسی اور کو سونے دے رہی تھی۔
اخر کار سفر اپنے اختتام تک پہنچا اور ناورو کی زمین پر قدم رکھتے ہی آیسن نے اسے کہا۔
مجھے تو یہاں سے ہی پانی کے ساحل سے ٹکرانے کی آوازیں آرہی ہے۔
اچھا یہ بتاووں اس پانی میں پچھلی ہے کیا۔
کیا بول رہی ہو تم۔
امیرہ کا چھت پھاڑ ققہقہہ گونجا اور کچھ لوگوں نے مڑ کے اسے دیکھا بھی۔
اچھا سنو
امیرہ نے اسے کہا کہ اس کا موڈ اف نا ہو۔
جب تک ہم۔ یہاں ہے ہم خوب مستی کرینگے اور ہم ایک دوسرے سے کسی بات پہ خفہ نہیں ہونگے کیونکہ ہم یہاں مزے لوٹنے ایے ہے۔
امیرہ نے کہہ کر اپنے دایے ہاتھ کی چھوٹی انگلی اس کے سامنے کی۔
اور تم اب کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاووں گی ان کا ذکر بھی نہیں کرو گی۔
آیسن نے اسے اپنے داییں ہاتھ کی چھوٹی انگلی دکھا کر جواب مانگا۔
اوکے
دونوں نے چھوٹی انگلیوں کو اپس میں جوڑ کر تھمب فنگر گھما کے ایک دوسرے کے ساتھ پکا پرامس کیا۔
بورڈنگ کے بعد وہ باہر نکلے تو انہیں ایک ساین بورڈ نظر ایا جس پہ ان کی ٹریول ایجنسی کا نام لکھا تھا ٹریول ایجنسی کا نام لکھا تھا ان کے بعد ایک ایک کر کے لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہویے جب وہاں کم بیس لوگ ہوگئے تو ٹور گاییڈ جو بڑی عمر کے لگتے تھے انھوں نے بولنا شروع کیا اور جب وہ بولنا شروع ہوئے تو روکنے کا نام ہی نہ لیا۔
وہ انہیں ناورو کے بارے میں بتا رہا تھا جبکہ امیرہ اور آیسن یہ سب پہلے سے رٹ کر ایے تھے۔ اس لیے انہیں بیزاری ہویی۔
آیسن نے بیزاری سے امیرہ کی طرف دیکھا اور اس ٹور گاییڈ کی نقل اتاری جس پہ وہ ہنسنے لگی اور تبھی آیسن کے پیٹ میں ہاتھی دوڑنے لگے بھوک کی وجہ سے اس کا پیٹ عجیب عجیب آوازیں نکال رہا تھا آیسن نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر معصوم سی شکل بنایی کیونکہ سب اسے ہی دیکھ وہے تھے۔ جس پہ امیرہ بولی
انکل ہم پہلے کچھ کھا پی لیتے ہے باتیں تو راستے میں بھی ہوتی رہیگی۔
ٹھیک ہے چلیں بس اس طرف ہے۔
ناورو چونکہ آسٹریلیا کے قریب تر جزیروں میں سے تھا اس لیے یہاں کی زیادہ تو آبادی انگریزی میں ہی بات کرتی تھی۔ اس لیے امیرہ نے بھی انگریزی میں ہی بات کی۔
راستے پر بھی گاییڈ جس کا نام جیمز تھا اردگرد کے ماحول کے بارے میں بتاتا رہا ۔
کیا ہم یہاں کی دی فیمس رامن کھانے جارہے ہے جسٹن سر۔
نہیں میم ہم یہاں سے اپکے ہوٹل جاینگے اور وہاں سے اپ یہاں کے فایو سٹار ہوٹل میں کھانا کھانے جاینگے اج کا کھانا اپ کو ہماریطرف سے ہے۔
اچھا
آیسن نے بیزاری سے کہا۔
ہوٹل پہنچ کر ان دونوں نے اپنے سوٹ کیس اپنے اپنے کمروں میں لے جاکر کھولیں اور میچنگ ڈریس نکال کر پہننے واش روم میں گھس گیے۔
تیار ہوکر دونوں ایک ساتھ ہی کمرے سے نکلی اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر وہ دونوں بیسٹیز کھانا کھانے نکل پڑی۔
دونوں نےجارجٹ کا بنا گھٹنوں سے نیچے تک اتا سرخ رنگ کا فراک پہن رکھا تھا جس پہ پھولوں کے پرنٹ بنے ہوئےتھے۔ اور اس کی آستینیں چوڑی دور تھی مگر اس کا ایلاسٹک ہونا اسے منفرد کرتا تھا اس کے ساتھ نیچے ٹایٹ پہنے اور بالوں کو کھلا چھوڑ کر ادھا ربن سے باندھا تھا جو ان کے کپڑوں سے میچنگ تھا ، وہ دونوں ہی بےحد حسین لگ رہی تھی۔
ہوٹل کی لابی میں سب موجود ان دونوں کا ہی انتظار کر رہے تھے سب لوگ انہیں ستایش سے دیکھ رہے تھے جبکہ ان بیس لوگوں کے گروپ میں موجود تین ایسے چھچھورے لڑکے بھی موجود تھے جو انہیں دیکھ کم اور گھور زیادہ رہے تھے۔ مگر ان دونوں نے کسی کی طرف دیکھنا تک گوارا نا کیا اور اپنی سیلفیز میں مگن رہی۔
لوگ کہتے ہے اور سچ کہتے ہے کہ امیرہ صرف آیسن کے ساتھ ہی ہنستی اور بولتی تھی اور ان دونوں کو ساتھ میں دیکھ کر یہ بات سچ ثابت ہو جاتی ہے۔
فایو سٹار ہوٹل پہنچ کر ان سب کے لیے ایک لمبی ٹیبل پر سب کچھ سیٹ کیا گیا تھا وہ دونوں بھی ایک سایڈ پر ساتھ بیٹھ گئے۔
اس گروپ میں کل بیس لوگ تھے امیرہ اور آیسن کے علاوہ ایک جوڑہ جو اپنے ہنی مون پہ ایا تھا اور ایک بوڑھے انکل جو خود کو پاکستان کی کسی مشہور اکیڈمی کے پروفیسر کہتے تھے وہ اور ان کے چودہ سٹوڈنٹس ایے تھے جن میں سے تین لڑکیاں اور باقی لڑکے تھے اور ایک لڑکا جس نے اب تک کے پورے صفر میں منہ سے چو تک نہیں نکالی تھی کہ وہ کون تھا ۔ اس گروپ میں شامل تھا۔
کھانے کے دوران انکل جیمز نے انہیں بتایا کی کس طرح ناورو آسٹریلیا سے الگ ہوا اور ایک آزاد ملک بنا جبکہ امیرہ اور آیسن جنہیں شدید بھوک لگی تھی بس کھانے کی طرف متوجہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ماہ پہلے
ایکا ماویرو مو Ekamawir omo
اسلام علیکم ڈیڈ
اس کی آواز سن کر وہ اپنے باس کے سامنے سے آٹھ کر باہر نکل ایے
وعلیکم السلام
انھوں نے دھیمے سے جواب دیا کہ صرف وہ ہی سن سکے۔
ڈیڈ بلیک لسٹ تو کمپلیٹ ہوتی رہے گی وہ غدار ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
عصام کچھ فیکٹریاں بند ہونے سے میرے ہاتھوں کا جال اتنا کمزور نہیں ہوا کہ کوئی ان سے نکل کر بھاگ جایے۔
مگر ڈیڈ ہم ایسا بھی تو کرسکتے ہے کہ میں پاکستان جا کہ اسے قید کر لو اور اسی سے سب اگلوا لو۔
عصام کی بات نے حاکان خلیل کو سوچ میں مبتلا کر دیا۔
پھر کچھ سوچ کر انہوں نے عصام کو پلین بتایا یہ صرف وہ ہی جانتے تھے کہ کس طرح پچھلے ایک ماہ سے وہ اسے ٹالتے ایے تھے اور وہ جانتے تھے وہ زیادہ دیر تک صبر نہیں کرتا اسی لئے انہوں نے عزیز کو اس پر نظررکھنے کا کہا تھا۔اور یہ تو وہ بھی جانتے تھے کہ عصام خلیل سے اگر کوئی غداری کرے گا تو اس کی سزا ایک دردناک موت ہوگی عصام خلیل اپنے ننجا چاقوؤں سے بس سامنے والے کی داییں طرف گردن پر پے در پےصرف چار بار وار کرتا تھا یوں کے اس کی داییں طرف سے خون کی ندیاں بہنے لگتی ہے اور سامنے والا تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے ۔
اس کو ایسا کرتے ہوئے بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا جن میں سے اس کا بھائی بھی شامل تھا جو دیکھتے ہی بے ہوش ہوگیا تھا۔ تبھی سے عصام نے اپنی گینگ بنایی اور صرف اس کے گینگ کے بندے ہی اس وقت اس کے اس پاس ہوتے تھے باقی کسے کو اپنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
ان کی پلاننگ سن کر عصام کے ہونٹ خود بہ خود دایی طرف سے مسکرانے لگے۔ حاکان خلیل سے بات ختم کر کے وہ واپس گھر کے اندر گیا۔ اور اپنے بیگ میں ضروری اشیا ڈال کر وہ باہر ایا تو سب لوگوں کو خبر ہوگیی تھی کہ وہ کہا جارہا تھا۔ صرف اس کی ماں کو ہی اس کی فکر تھی باقی اس کی بہن منت ، اس کا چھوٹا بھائی رافی اور حاکان خلیل کے رایٹ ہینڈ عزیز کو بھی اس کی فکر تھی جسے وہ مارنے جارہا تھا۔
وہ باری باری سب سے ہاتھ ملا رہا تھا کہ اس کی بہن نے کہا بیٹ اٹ۔
رافی نے بھی اس سے ہاتھ ملا کر اس سے کہا قصہ دو دن میں ختم کر کے واپس ا جانا ویسے بھی تمھارے بغیر اب دل نہیں لگتا
اس کے آخری جملے پہ عصام نے اسے گھورا۔
جبکہ اس کی ماں نے فکر مندی سے اسے گلے لگایا اور اس کا ماتھا چوم کر کہا اپنا خیال رکھنا جب کہ وہ باقی تینوں پیچھے اپنی ہنقسی بمشکل روک رہے تھے۔
اس کی ماں نے ان تینوں پر ایک کڑی نگاہ ڈال کے واپس عصام کی طرف دیکھا بیٹا پلیز اپنا خیال رکھنا جب کہ وہ جانتی تھی کہ ان کے بیٹے کے ناخن کو بھی کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
وہاں سے نکل کر عصام کے ساتھ عزیز تھا وہ اسے ایئرپورٹ چھوڑ گیا عصام نے وہاں سے پاکستان کی فلائٹ لی اور کچھ ہی گھنٹوں میں اس نے پاکستان کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھے ایئرپورٹ سے نکل کر اس نے ایک ٹھنڈی اہہہ بھری خوشی اس کی انکھوں کی چمک سے نظر ارہی تھی۔
موت ایک عام انسان کے لیے موت ایک بہت بڑی شے ہوتی ہیں مگر ان کے کام میں موت ایک پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اور عصام خلیل کے لیے موت چٹکی بجانے جیسا تھا۔
ان کے خاندان میں صرف دوسروں کو تکلیف دینے پر وہ جشن نہیں مناتے تھے بلکہ جب ان میں سے کوئی ایک مرتا تو اس پہ بھی خوش ہوتے تھے کہ وہ اپنا کام بخوبی کرتے کرتے مر گیا ہے۔ عصام نے بھی ایسے ہی ماحول میں پرورش پایی تھی تبھی تو وہ چٹکی بجاتے ہی کسی کا بھی نام نہاد وجود اس صفہ ہستی سے مٹا سکتا تھا۔
ان کے گھر کی خواتین بھی اپنے مردوں جیسا سخت دل رکھتی تھی سوایے اس کی امی کے جو ان کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ صرف انہیں کے چہرے سے معصومیت جلتی تھی ۔ باقی لوگوں کا دماغ تو جیسے سمجھتا ہی نہیں تھا کہ تکلیف کسے کہتے ہے بلکہ انہیں تو تکلیف خوشی دیتی تھی اسی لیے تو آج جب عصام کسی کی جان لینے جارہا تھا تو اسے خوشی ہورہی تھی اتنا خوش تو وہ اپنی ٹریننگ میں اول انے پر بھی نہیں تھا مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر خوشی اس کے چہرے کے نقوش سے جھلک جاتی صرف اس کی آنکھیں ہی خوش تھی باقی چہرہ ویسے ہی تھا ساکت جیسا اس کا ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔
عصام کو لگا شاید وہ شیطان بن چکا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کوئی ہے جو اسے شیطانیت پر لے ائے گی ۔
ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی اسے ایک بلیک مرسیڈیز دکھائی دی اسے پتہ تھا یہ گاڑی کس کی ہے حاکان خلیل کی اس لیے وہ جا کر اس میں بیٹھا اندر اس کی گینگ کے انڈر لوگ تھے اس کے کا ایک بندہ ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ ایک سامنے ہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا اور تیسرے نے اس کے لیے دروازہ کھولا اور اس کے بیٹھنے کے بعد خود دوسری گاڑی میں انے لگا جو کہ اسی طرح کی بلیک مرسیڈیز تھی وہ اسے لے جا کر ایک گھر لے گئے جو دریا کے کنارے تھا۔
گھر کے اندر جا کر اس نے عباد کو اندر انے کا کہا، عباد اس کا ایک وفادار بندہ تھا ۔ جب وہ اندر ایا تو عصام کو اس نے ایک ایک کر کے ان تفصیلات سے اگاہ کیا جو وہ جاننا چاہتا تھا اس غدار کے بارے میں تمام معلومات جان کر کہ وہ کہاں رہتا ہے اب کس سے ملتا ہے کون سی شناخت ہے اس نے کس طرح کی سرجری کروا لی ہے اس کا خاندان اس کے خاندان کے لوگ کہاں چھپے ہیں ہر ایک چیز معلوم کرنے کے بعد وہ ایک ٹیبل کے اوپر پڑے پیپر ویٹ کا گھما رھا تھا جو ایک ریکٹینگل کی صورت میں تھی اور اس کے اندر ایک گھوڑا بنا تھا جس کے نیچے گلاب بنا تھا یوں جیسے وہ گھوڑا پوری دنیا پہ حکومت کرنے کی عکاسی کررہا تھا۔
عصام نے بنا مڑے بس اتنا کہا۔
مجھے وہ چاہیے ابھی اور اسکی وقت۔
یس ڈیمن ۔
وہ اسے ڈیمن the Demonبلاتے تھے یعنی وہ شیطان جو لوگوں کی زندگیاں کھا جاتا ہے ان کی روح نگل کر۔
اس کے بولنے کی دیر تھی کہ وہ لوگ نکل گئے کچھ ہی دیر میں ایک گاڑی اس گھر کے سامنے رکی اور اس میں سے اس غدار کو نکالا گیا اور اسے بیس منٹ میں لے گئے۔ اور عصام جو اپنی انگلیوں میں سگار پکڑے شیشے کے باہر مصنوعی بارش کو دیکھ رہا تھا جو تڑا تڑ اس شیشے پہ گر رہی تھی ۔ وہ ایسے موقع پر خاص تیار ہوتا تھا، یا یہ کہا جائے تو بلکل بھی غلط نہیں ہوگا کہ وہ موت کا کھیےدیکھنے کے لیے خاص تیار ہوتا تھا۔ اج بھی تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے تھا جس کے شرٹ کی اوپری بٹن کھلی تھی۔ اور وہ سگار کو اپنے ہونٹوں تک لے جانے کے بعد اپنے دانتوں پہ زبان ضرور پھیرتا تھا اور ایسا وہ تب کرتا تھا جب اس کا شکار اس کے سامنے ہوتا تھا۔
تبھی عباد کمرے میں داخل ہوا۔
ڈیمن اپکا شکار ریڈی ہے۔
عصام اس کی بات پہ مسکرایا ایک آخری کش اپنے پھپھڑوں کے سپرد کر کے وہ اٹھا۔ اور بیسمنٹ کی طرف قدم بڑھانے لگا عباد اس کے پیچھے ہی تھا۔
بیسمنٹ کے بیچ و بیچ ایک شیشے کا کمرہ تھا جس سے باہر کے لوگ اندر تو دیکھ سکتے تھے مگر اندر والے باہر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور اسی کے اندر اس غدار کو پھینکا گیا تھا جو ابھی تک ہوش میں نہیں ایا تھا۔
اسے لگا تھا کہ شکل بدل کر وہ بچ جائے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ خلیل خاندان سے دشمنی موڑنا کس قدر خطرناک ہو سکتا تھا چاہے وہ اس غداری کے بعد زمین کے ساتویں حصے کے اندر بھی گھس جاتا تب بھی عصام اسے ڈھونڈ نکالتا اور اسے ایسی موت دیتا کہ ایسی موت کبھی کسی نے نہ تو کتابوں میں پڑھی ہوگی نہ کہیں کسی فلم میں دیکھی ہوگی
عصام اس کمرے کے اندر گیا اور اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کے کھڑا ہو گیا۔ اور آنکھوں سے عباد کو اشارہ کیا جس کا مطلب سمجھ کر عباد نے ایک ٹھنڈے پانی کی بالٹی لاکر اس پر انڈیل دی ہوش کی دنیا میں اکر جب اس غدار نے عصام کو دیکھا تو وہ پھر سے بے ہوش ہونے لگا جسپر عباد نے اسے دو تین مکے جھڑ دیے اور ان دو تین مکوں میں ہی وہ خون سے لے پت ہوگیا اور ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگنے لگا۔ عصام اس کی اس حالت پر ہنسنے لگا اور ساتھ ہی اس کے سارے بندے جو اس کے کمرے میں اور اس کے باہر گول دایرے کی صورت میں کھڑے تھے ہنسنے لگے اور پھر جیسے ہی عصام خاموش ہوا اس سے پہلے ہی وہ سب خاموش ہویے۔
تو تمہیں لگا تھا تم۔ مجھے دھوکا دو گے اور اتنی آسانی سے نکل جاووگے۔ افسوس تم نے چہرہ تک بدل لیا مگر میرے ہاتھوں سے پھر بھی نا بچ سکے تم۔ چہ چہ چہ چہ۔
ڈیمن میں تمہیں سب کے بارے میں بتا دونگا بس مجھے جانے دو۔
اچھا سب کے بارے میں بتاووگے۔
ہاں میں سب کے بارے میں بتاوونگا اس انسپکٹر سے لے کر اس کے افسر تک سب کے بارے میں بتاوونگا۔
جیسے ہی اسے امید دکھی وہ سب بکنے کو تیار ہوگیا تھا۔ عصام نے عباد کو بلایا تو وہ اس کی بات سمجھ کر دروازہ کھول گیا۔ عصام واپس اسی کمرے میں ایا ۔ اور عباد کو حکم دے کر اپنے اگلے لائحہ عمل کی پلاننگ کرنے لگا۔
عباد اس سے کبھی سوال نہیں کرتا تھا بلکہ اس سے حاکان خلیل کے علاوہ کوئی بھی سوال نہیں کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے سے فارغ ہو کر سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور جیمز نے انہیں بتایا کہ وہ انہیں کل صبح دس بجے لینے ایے گا۔ تاکہ وہ انہیں ناورو کا سمندری علاقہ دکھا سکے جس کے بارے میں سن کر امیرہ اور آیسن کافی ایکسایٹد تھی۔ اور اسی ایکسایٹد پن میں وہ دونوں بنا کچھ سوچے سمجھے کچھ بھی بول رہے تھے۔ اور بلکہ بچوں والی حرکتیں کر رہے تھے۔
جب سب لوگ چلے گئے تو وہ دونوں ہوٹل سے باہر سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے میں مشغول ہوگئی۔
آیسن اج تمھارا سب سے بڑا خواب پورا ہوگیا ہے نا۔
نہیں ابھی نہیں کل سمندر دیکھنے کے بعد۔ اگر تم غور سے سنوں تو یہاں بھی سمندر کے لہروں کی آوازیں ارہی ہے۔
آیسن تم نے شراب تو نہیں پی رکھی یہاں سے سمندر اتنا دور ہے بھلا تمہیں کیسے آوازیں ارہی ہے۔
وہ اپنی ہی دھن میں ووٹ پٹانگ باتیں کر رہی تھی بنا اس بات کا احساس کیے کہ وہ ہوٹل سے کافی دور نکل ایک تھی جس جگہ پہ وہ تھی وہ بازار کا آخری حصہ تھا جہاں پر دکانیں بند پڑی تھی۔
آیسن چلو چلتے ہے ہم بہت دور نکل ایے ہے۔
سکوں تو زرا ڈر پوک لڑکی بس سمندر کی آواز کے پیچھے چلنے دو مجھے کیونکہ ناورو کا سمندر مجھے بلا رہا ہے۔
آیسن اپنے ہی ہیت میں بول رہی تھی اور دونوں بازوں کھول کر خود کو کوئی پاگل ظاہر کر کے امیرہ کو ہنسا بھی رہی تھی جب کسے نے اس کامے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔
ارے ہمیں بھی تو سن لو ہم بھی تمہیں بلا رہے ہے۔
ایک نشی نے آیسن کا ایک ہاتھ پکڑ رکھا تھا جبکہ دوسرے نے دوسرا ان کے ارادے سمجھ کر امیرہ چلانے لگی مگر وہ جگہ آبادی سے زرا فاصلہ پر تھا۔
YOU ARE READING
لوحِ
Romanceیہ کہانی ہے ایک لڑکی کی جسے صرف پڑھائی میں انٹرسٹ تھا مگر اس کا انٹرسٹ تب غارت ہوا جب اس کی لایف میں ایک گینگسٹر ایا اور اس کی دنیا تحس نحس کر گیا