قسط:4

63 0 0
                                    

مگر بیٹا ابھی تو اپنے کھانا بھی نہیں کھایا اور۔۔۔
ابھی ان کی بات مکمل بھی نہیں ہوی تھی کہ امیرہ نے دو قدم پیچھے لیے اور میکانکی انداز میں سر پٹ باہر کو بھاگی انھوں نے دیکھا اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے
امیرہ بیٹا کیا ہوا۔
وہ بھی اس کے پیچھے جانے لگی جب آیسن نے ان کا ہاتھ پکڑ کر روکا
وہ نہیں رکے گی اس نے اسے یہاں دیکھا ہے تو وہ جب تک یہاں سے بہت دور نا چلی جائے یا کوئی اس کو مار نا دے وہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی بھی نہیں۔
ایسا کون ہے وجس سے وہ اتنا ڈرتی ہے؟
دروازے پرکھڑے عرش نے پوچھا
وہ کوئی انسان نہیں ہے
آیسن نے زمین پر بیٹھ کر کچھ تلاشتے ہوے نظرے فرش پر دوڑایی
کیا مطلب وہ انسان نہیں ہے کیا اسے جن بھوت نظر اتے ہے؟
عرش نے تجسس سے پوچھا
ارے نہیں بھیٔ! اسے گراس ہوپر (grasshopper ) سے بہت زیادہ ڈر لگتا ہے وہ اسے دور سے بھی دیکھ لے تو کانپنے لگتی ہے سانس تک رک جاتا ہے اس کا اور جب تک وہ اس کی لاش دوووررر  سے نا دیکھ لے وہ اس جگہ مر کے بھی نہیں اتی ۔ مل گیا۔
آیسن نے اپنی طرف سے انہیں انفارمیشن فی اور پھر مطلوبہ چیز ملنے پر اسے اٹھا لیا وہ ایک بھاری بھرکم مردانہ چپل تھی
وہ چپل کے لے باہر جانے لگی کیونکہ وہ اچھا خاصا بڑا گراس ہوپر کچن کے شیشے پہ باہر کی طرف سے بیٹھا تھا ۔
تو اگر وہ اتنا ڈرتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ہاتھ میں لے تاکہ اس کا خوف ختم ۔۔۔
یہ بات غلطی سے بھی اس کے سامنے مت کرنا جو اس کو ایسے بولتا ہے وہ اسے اپنا دشمن مانتی ہے دشمن اور وہ کہتی ہے کے ایسا کہنے والا اس کو ہارٹ اٹیک کروا کہ مار نا چاہتا ہے اس لیے ایسے بولتا ہے۔
ایسن نے اس کی بات کاٹ کر اس کی انفارمیشن میں اضافہ کیا۔ جسے سن کر عرش نے اپنے ہونٹوں پہ انگلی پھیری کہ میرا منہ اب بند رہے گا۔
ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ
فایرنگ کی آواز پہ وہ وہی رک گیی
تم رکو میں دیکھتا ہو عرش دیوار کے ساتھ چلتا ہوا گیا اور تھوڑا سا سرک کر دوسری طرف جھونکا
کیا ہوا کون ہے وہاں بتاوں نا
ایسن اس سے پوچھنے لگی جو بس اس طرف دیکھے ہی جارہا تھا
خود ہی دیکھ لو
عرش وہاں سے ہٹ کر اندر چلا گیا۔
آیسن دو قدم اگے ایی تو دیوار کے اس طرف کا منظر واضح ہوا۔ ڈیمن نے اس گراس ہوپر کو گولیاں مار دی تھی اور اس کے چیتھڑے بکھرے ہوئے تھے۔
تم نے گولیاں کیوں ماری چپل سے مر دیتے وہ بچارہ  مر جاتا۔
ایسن نے اس کے ہاتھ میں گن کو دیکھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ اس کے چیتھڑے جمع کر رہا تھا۔ اس کی بات پہ اس نے اس طرف دیکھا اور واپس اسی کام میں مگن ہو گیا یعنی گراس ہوپر کہ چیتھڑے جمع کرنے لگا۔
ایکسکیوز می میں اپ سے بات کر رہی ہو۔
ایسن اس کے سر پہ کھڑی ہو کے پوچھنے لگی۔ تو دیمن نے اپنے پیچھے کھڑے عباد کو ہاتھ کے اشارہ سے روکا جو اپنی گن نکالنے لگا تھا۔
پہلی بات مجھ سے اس لہجے میں زیادہ بات مت کرنا
اس نے کھڑے ہوکر بندوق رکھی اورپھر انگلی اٹھا کہ اس کی طرف دیکھا جس پہ آیسن نے بہت سا تھوک نگلا۔

اور دوسری بات گن سے مارنے کی عادت ہے مجھے ۔
اس نے ڈسٹ بن میں ہاتھ جھاڑے اور اس کی طرف رخ کیے بولا۔
لگتا ہے اپکو مرڈر کے بعد ڈیڈ باڈی کو ٹھکانے لگانا بھی بہت اچھے سا اتا ہے۔
ڈیمن نے سکون سے  اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو گندے ہوچکے تھے اور پھر وہ خاموشی سے اندر چلا گیا۔ آیسن بھی اس کے پیچھے اندر چلی گئی۔
وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور دروازہ کھلا چھوڑ دیا ۔
مر گیا ہے وہ اب تم باہر جاسکتی ہو۔
اس نے بیڈ پر بیٹھی لڑکی کو دیکھا جو خوف سے ابھی بھی کانپ رہی تھی۔
اس کی بات سن کے وہ اٹھی اور بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئی۔
ڈیمن نے واش روم جانے سے پہلے اس جگہ کو گھورا جہاں سے وہ ابھی اٹھ کے گیی تھی۔ کیونکہ اس کے بستر پہ کسی کا بیٹھنا اسے سخت ناپسند تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں تھی تم؟
امیرہ کے کمرے میں اتے ہی آیسن نے اس دونوں ہاتھوں سے پکڑ کے اپنے سامنے کیا ۔
میں ۔۔۔ وہ۔۔۔ اہ میں۔۔۔۔ وہ
کیا میں وہ لگا رکھا ہے
ایسن نے جھنجھلا کے پوچھا اور اس کے ہاتھ چھوڑ دیے
مجھے سچ سچ بتاو، کہاں چھپ کے بیٹھی تھی کہی اس کے کمرے میں تو نہیں تھی؟
ایسن نے انکھیں چھوٹی کرکے اس کی طرف دیکھا اور "اس کے" کہنے  پہ اس نے عصام کے کمرے کی طرف انگلی  سے اشارہ کر کے پوچھا۔
پتہ نہیں مجھے کچھ سمجھا ہی نہیں ایا صرف اسی روم کا دروازہ کہلا تھا میں بس صرف چھپنا چاہتی تھی
امیرہ نے بیڈ پر بیٹھ کر بتانا شروع کیا
فلیش بیک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شیشے پہ بیٹھا تھا اسے اس کے سارے انگ صاف صاف نظر ارادے تھے
"اتنا بڑا " اس کے دل نے لرزتے ہوے سوچا۔ جبکہ دماغ نے فایٹ انڈ فلاییٹ موڈ (fight & flight) سے کام لیا۔ انسانی دماغ میں جب ایک چیز فکس ہوجایے کہ گلابی چیز نظر ایے تو سوچے سمجھے بغیر بھاگنا ہے تو انسان کو سمجھ بھی نہیں اتا اور وہ وہی کرجاتا ہے جیسے دل ہماری مرضی کے بغیر دھڑکتا ہے بلکل ویسے ہی اس وقت ہمارا جسم ہمارے کنٹرول میں نہیں ہوتا۔ اور اسی طرح جیسے ایک کراٹے میں ایکسپرٹ بندہ کے ساتھ اچانک بھی کوئی حادثہ واقع ہوجایے تو وہ بغیر سوچے سمجھے اپنا ہزار دفع دہرایا مشق عمل میں لاتا ہے اسے کہتے ہے فایٹ اینڈ فلایٹ موڈ اف ہیومن باڈی۔
اس وقت امیرہ کے جسم نے بھی ویسے ہی کیا تھا دو قدم پیچھے لے کر وہ باہر بھاگی۔ جن قدموں سے ایی تھی انہیں سے واپس گیی۔ اسے سمجھ نا ایا کہ وہ کیسے اسی کمرے کے کی طرف چلی گئی جہاں اس کی صبح آنکھ کھلی تھی۔
کچن سے اگے جاکر دایی طرف موڑ مڑ کر دو کمرے اتے تھے ایک دایی طرف اور ایک بایی طرف امیرہ نے دونوں کو دیکھا دایی طرف والے کمرے کا دروازہ نیم واہ تھا وہ جلدی سے اندر گیی اور دروازہ لاک کر کے زمین پر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں سے سر کے بالوں میں پھنسا کر اپنے  اعصاب نارمل کرنے کی کوشش کی۔
بابا بابا ممی پلیز کوئی اسے مار دو پلیز۔
وہ سر گھٹنوں میں دیے ہاتھوں کو بالوں میں پھنسایے چلانے لگی
ممی بابا۔۔۔۔۔
پھر اسے یاد ایا وہ گھر پہ نہیں ہے۔
ہاتھوں کو بالوں سے نکال کر اپنے گھٹنوں کے گرد لپیٹ کے  وہ رونے لگی۔
بابا کاش اپ یہاں ہوتے تو اسے میرے لیے مار دیتے۔
وہ روتے ہوئے خود سے بولے گیی۔
اور وہ جو واش روم میں نہانے کی غرض سے گیا تھا تولیہ اسی طرح اس کے کاندھوں پہ پیچھے کی طرف سے ڈالا تھا اس نے کالے ٹرانزٹ کے اوپر کالی بنیان پہنی تھی وہ رونے چیخنے کی آواز سن کر باہر نکلا ۔
آپ ٹھیک ہے
اس نے اسے دروازے کے پاس زمین پر بیٹھے روتے چلاتے سونا تو پوچھا۔
اس کی آواز سن کر امیرہ کھڑی ہوگئی اور اپنے ہاتھوں کے پشت سے اپنے چہرے اور گردن پر موجود آنسوؤں کو رگڑا اور شرمندہ سی نیچے زمین کی طرف دیکھے گیی پر بولی کچھ نہیں۔
اپ یہاں بیٹھ جایے۔
اس نے
اس نے وہی سے کھڑے کھڑے بیڈ کے قریب پڑے دیوان کی طرف اشارہ کیا پر اس نے پھر بھی سر نہیں اٹھایا۔
کسی نے کچھ کہا ہے۔۔۔۔۔ اپ ہٹے میں خود دیکھ لیتا ہو
وہ جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھا اس نے پر دونوں ہاتھ رکھ دیے اور سر داییں باییں ہلانے لگی
نہیں پلیز نہیں دروازہ مت کھولنا اگر میں نے اسے ایک اور دفعہ دیکھا تو میں ہارٹ اٹیک سے مر جاوونگی ۔
کس کو۔۔۔ کیا کوئی گھر میں گھسا ہے۔ میرے گھر میں کوئی گھسا ہے؟ کیا وہ کوئی چور ہے؟ آپ فکر نا کرے اس کو تو میں اتنی گولیاں مار ونگا کے اس کے چھیتڑے بھی مشکل سے ملینگے۔
وہ اپنی ہی طرف سے سوچے جارہا تھا اسے لگا شاید گھر میں کوئی گھس گیا ہے مگر اس کی باتیں سن کے امیرہ اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی دونوں ہاتھ ابھی بھی دروازے پہ ہی تھے۔
چور نہیں وہ ہے
اس نے خوف سے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہی وہ انا جایے۔
وہ کون
ڈیمن کو کچھ گڑ بڑ لگی
وہ۔۔۔۔ وہ
اس نے ڈھیر سارا تھوک نگل کر دوبارہ وہ کہا
وہ کون مادام اپ نام بتانا پسند کرینگی
ڈیمن کو اب غصہ ارہا تھا ایک تو راستہ نہیں چھوڑ رہی تھی کہ وہ خود دیکھ لے اور اُپر سے وہ وہ لگا رکھی تھی
وہ گراس ہوپر
اس نے نام لیتے ہوئے انکے زور سے میچی
کیا۔۔۔۔ کیا کہا اپ نے
اسے لگا شاید اسے سننے میں غلطی ہویی تھی
گراس۔۔۔۔ ہوپر
اس نے تھوک نگل کر ہوپر کہا اور ہاتھوں کو اب چہرے پہ رکھ لیے جیسے انسو چھپانے چاہے یا ہاتھوں کہ کپکپاہٹ
اچھا اپ ایک کام کرے اپ یہاں بیٹھ جایے مجھے راستہ دے دے تاکہ میں اسے مار سکو اور اپ کا بی پی نارمل ہوسکے۔
اس کی حالت بگڑتے دیکھ کر وہ نرمی سے گویا ہوا اور دیوان کی طرف اشارہ کیا۔ تو امیرہ نے ہاتھ ہٹا کر اسے راستہ دیا۔
پلیز اسے جلدی مار دو ایسے ہی مت چھوڑ نا مار دینا پلیز پلیز
وہ ہاتھ جایک دوسرے میں پھنسایے بول رہی تھی اور ساتھ میں رو بھی رہی تھی۔
اس کی انکھوں سے مسلسل انسو نکل رہے تھے۔ اور ڈیمن نے اج ابھی اسی وقت ارادہ کیا تھا کہ وہ اسے سچ میں بھون دیگا جس کی وجہ سے وہ اتنا سہم گئی ہے
اپ بیٹھ جایے میں اسے مار کے اتا ہوں
دیمن نے اس کی بڑی بڑی انکھیں میں دیکھ کر کہا جو پانی سے بھری ہوئی تھی انسو کا ایک ٹکڑا اس کی اپری پلکوں پہ بھی لگا تھا ۔ ڈیمن کو اپنا دل ان انسووں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا مگر وہ بس کچھ لمحوں کا کھیل تھا اور وہ واپس پتھر دل ڈیمن بن گیا اور اپنے چہرے پہ بغیر فیلنگز والے انسان کا ماسک پہن لیا جسے کسی کے دکھ درد سے فرق نا پڑتا ہو۔ مگر جو ارادہ اس نے اسے مارنے کا کیا تھا اسے پورا کرنے کے لیے باہر نکلا اور باہر اکر عباد سے گن لے کر اس نے اس گراسہوپر کر سچ میں گولیوں سے بھون دیا۔
جب وہ واپس ایا تو وہ اسکے بیڈ پر بیٹھی تھی

مر گیا ہے وہ اب تم باہر جاسکتی ہو۔

اس نے بیڈ پر بیٹھی لڑکی کو دیکھا جو خوف سے ابھی بھی کانپ رہی تھی۔

اس کی بات سن کے وہ اٹھی اور بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئی۔

ڈیمن نے واش روم جانے سے پہلے اس جگہ کو گھورا جہاں سے وہ ابھی اٹھ کے گیی تھی۔ کیونکہ اس کے بستر پہ کسی کا بیٹھنا اسے سخت ناپسند تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی ہوا
امیر نے فلیش بیک سے باہر اتے کہا۔
مگر وہ مر تو گیا تھا نا تم نے اس کی لاش دیکھی تھی نا تم نے۔
امیرہ نے آس سے پوچھا۔
ارے میری ماں اس کے تو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اکھٹے کر کے اس نے ڈسٹ بن میں ڈال دیے لاش کہا بچی تھی جو میں چیک کرتی۔۔
آیسن نے ہاتھ ہلا ہلا کر کہا۔
چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مطلب
امیرہ کو سمجھ نہیں ایی
ارے پورا میگزین خالی کر دیا اس نے کیا نام ہے اس ہینڈ سم کا
ایسن نے بولتے بولتے دو انگلیوں سے ماتھے کو چھو کے یاد کرنے کی کوشش کی
ڈیمن
ہاں! ۔۔۔۔۔۔۔۔ہا؟
آیان نے بھوییں اچکا کے اسے دیکھا
اس کو سب ڈیمن بلاتے ہے میں نے اس کے سیکریٹری کے منہ سے سنا تھا
امیرہ نے اسے جلدی جلدی بتایا
اس کا نام ڈیمن ہے؟
آیسن نے پھر سے پوچھا
ہاں شاید
امیرہ کو خود بھی یقین نا تھا اپنی بات پہ
ویسے یہ نام سوٹ تو کرتا ہے اسے ۔ ۔ ہے نا
آیسن نے اس کا مشورہ مانگا
ہاں شاید۔۔۔۔۔۔ اچھا انسان ہے۔
امیرہ نے جگ سے پانے گلاس میں ڈالتے ہوئے کہا جبکہ ایسن جو بیڈ پہ نیم دراز تھی اس کا جواب سن کے سیدھی بیٹھ گئی
اچھا انسان ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا میں نے سہی سنا امیرہ جانی تم نے ابھی کہا وہ ایک اچھا انسان ہے۔۔۔ کہی یہ وہ والا اچھا انسان تو نہیں ہے جس کے بارے میں تم کہتی تھی کہ اگر مجھے محبت ہو گی تو ایسے انسان سے جو میرے لیے لڑے مجھے بچانے لامبا ہینڈ سم جس کی شاندار سے باڈی ہو جس کے غصہ سے سب ڈرتے ہو مگر وہ تم سے ڈرتے اور اس دنیا میں موجود اب لوگوں سے زیادہ تمہاری عزت کرے ۔
آیسن جوش سے اس کی اپنی کالج کے زمانے میں ہویی گفتگو دہرا رہی تھی جو ٹرت اینڈ دییر گیم میں اس نے امیرہ سے پوچھی تھی کہ اایک لڑکے میں کون کون سے خوبیاں ہونی چاہیے کہ امیرہ کو اس سے محبت ہو جائے۔
امیرہ نے نظریں چرا کر پانی کا گلاس خلی کر کے واپس رکھا۔
ادھر دیکھو میری طرف امیرہ
آیسن نے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا
کیا کچھ بھی تو نہیں ہے بس اس نے میری جان بچایی تو اس لیے میں نے کیا وہ اچھا انسان ہے۔
امیرہ نے اپنے ہاتھ چھڑا کے کہا۔
بس بس سب دکھ رہا ہے ہوئے اللہ امیرہ تم بلش کرتے ہوئے کتنی کیوٹ لگ رہی ہو۔
آیسن نے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھا
یہ تو ڈر کی وجہ سے ہے
امیرہ نے جلدی سے خود کو شیشے میں دیکھا اور دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ کر جلدی سے وضاحت دی
چلو کوئی نا اج نہیں تو کرمان جاوگی۔
آیسن نے پیچھے سے اس کے کندھوں پہ ہاتھ پھیلا کے کہا
ہٹو پرے
امیرہ نے شیشے میں اسے دیکھ کر واپس نظریں چرایی اور واش روم میں گھس گیی۔
چہرے پہ پانی کے چھینٹے مار کر اس نے خود کو شیشے میں دیکھا اور اپنے گالوں کو ہاتھ لگایا جس کی سرخی ٹھنڈے پانی سے تھوڑی کم ہونے لگی تھی وہ بے آخرکار مسکرانے لگی
نہیں امیرہ وہ ایک گینگسٹر ہے تمہارا اور اس کا کوئی جوڑ نہیں تم یہاں سے جلد چلی جاووگی اس کی زندگی سے دور ہم دونوں کی زندگی بلکہ مختلف ہے۔
اس نے اپنے دل کو ڈپٹ کے واپس سلایا اور باہر نکل گئی اب وہ بلکل نارمل تھی۔
آیسن تم جاکر کھانا لے او نا
امیرہ نے اسے کہا جو اپنے موبائل میں لگی تھی
بیٹا ہم مہمان ہے یہاں مالک نہیں ہے پتہ نہیں ان کے گھر پہ کمروں میں کھانے کا رواج ہے بھی کے نہیں میں نے دیکھا تھا سب ہی کچن میں کھا رہے تھے۔
آیسن نے اسے اپنی تہہ جمع کی ہوئی ساری انفارمیشن بتایی
اچھا تو چلو پھر وہی کھا لیتے ہے ویسے بھی وہ تو مر ہی گیا ہے۔
امیرہ نے خد کو تسلی دی
پتہ نہیں کچھ بچا بھی ہوگا کھانے کو کہ نہیں
آیسن نے بھوک سے بے حال ہوتے کہا اور جلدی سے بیڈ سے اترگیی
تو خد بنا لینے انٹی سے اجازت کے لینگے
پتہ نہیں وہ اپنے کچن میں کسی کو کام کرنے کی اجازت دینی بھی کہ نہیں
مجھے لگتا ہے دے دینگی اتنے لوگوں کا کھانا بنا کے وہ بھی تھک گئی ہونگی ہمیں ان پر بوجھ نہیں بننا چاہیے اور جیسے ہی ڈیمن اجازت اسے تم بول دینا کہ ہمیں واپس ہوٹل چھوڑ ایے اج ہی
امیرہ نے کمرے سے نکلنے سے پہلے اسے اپنے دماغ میں ایی بات اسے بتایی۔
چلو دیکھتے ہے
وہ دونوں کچن میں گیے تو مہوش خاتون ابھی بھی کچن میں مصروف تھی ۔
ارے بچے اپ ٹھیک ہے اب
مہوش خاتون جلدی سے اس کے پاس ایی اور اسے گلے لگایا۔
انٹی میں ٹھیک ہو اس نے مسکرا کے کہا تو وہ اس سے الگ ہویی اور بہت دیر تک اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے میں پکڑے دیکھتی رہی
انٹی میں سچ میں اب بلکل ٹھیک ہو رات والا زخم بھی اب سہی ہے اس لیے میں نے پٹی یہ کے بس سنی پلاسٹ لگا یا ہوا ہے
امیرہ نے انہیں صفائی دی کیونکہ ان کی انکھوں میں اس کے لیے انسو تھے۔
اپ کو پتہ ہے ہمارے پورے گھر میں میرے علاوہ کسے کو بھی کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا بس مجھے ہی چھپکلی سے ڈر لگتا ہے میری بیٹی بھی اپنے باپ پہ گیی ہے اسے بھی کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا ۔ میری امی کہتی تھی لڑکیوں کےساتھ یہ چھوٹی چھوٹی ڈرنے والی باتیں اچھی لگتی ہے مگر میری بیٹی میں ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں اسے تو بس بھایوں جیسی گن چلانے ہے بایک چلانے ہے تھوڑی جھلی سی ہے وہ۔ ۔۔۔۔۔
وہ اس کو کرسی پہ بٹھا کے واپس کڑاہی کی طرف گیی اور مانو ان کو تو جیسے بہت عرصے بعد دوست مل گئی ہو وہ بسبعوتی گئی اور امیرہ ام شروع شروع میں ان کی باتیں صرف سنتی گئی اور ہو یا کرتی رہی لیکن کچھ ہی دیر میں ان کی اچھی خصی دوستی ہو گیی ان سے۔
تمہیں پتہ ہے تم میں مجھے اپنا اپ نظر ایا میں بھی اس چیز کو جس کا میں نام نہیں لینا چاہتی ہو دیکھ کے ایسے یق ڈر جاتی تھی پہلے مطلب جوانی میں۔۔۔۔
وہ امیرپ کو اپنے بارے میں بتانے لگی اور وہ دلچسپی سے سنے گیی جبکہ ایسن موبائل میں لگی نا جانے کیا کر رہی تھی
انٹی مادے ٹماٹر میں کاٹ دو
اس نے مہمان خاتون کے ہاتھ سے کٹنگ بورڈ اور چھری لی
ہے سچ میں تم جاٹوں گی ہایے میری پیاری بیٹی تمہیں پتہ ہے میری نکمی اولاد کو تو انڈا تمنا بھی نہیں اتا ویسے تمہیں کھانا بنانا اتا ہے۔
بات کرتے کرتے رک کر اس سے پوچھا
جی انٹی اتا ہے
مہمان خون نے پہلے اس کی بلالیں لی پھر بولی
تمہاری ماں کافی سگھڑ معلوم ہوتی ہے جو اتنی اچھی بیٹی ہے اس کی
اپنی ماں کی تعریف پہ وہ بے حد خوش ہوی تبھی وہ اندر داخل ہوا
مام میں زرا کام سے جارہا ہو میری روم کی زرا صفائی کروا دے
اس نے دروازے کے قریب ہی کھڑے کھڑے اپنی ماں سے کہا
نہیں پہلے کھانا کھانوں پھر جانا
انہوں نے اسے ٹوکا اور چمچا واپس رکھا جبکہ امیرہ نے ایک دفعہ بھی سر اٹھا کر اسے نا دیکھا تھا۔
چلیں ٹھیک ہے اپ صفائی کروا دے میں یہی ویٹ لونگا۔
وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا یوں کہ اب وہ اور امیرہ اپنے سامنے تھے۔
اچھا چلو میں کرواتی ہوں امیرہ بیٹے اپ سالن م تھوڑی تھوڑی دیر بعد چمچ ہلاتے رہنا میں ابھی ایی وہ باہر نکلنے والی تھج جب آیسن نے بھی انٹی مجھے بھی اپ سے ایک بات کرنی ہے کہہ کر باہر نکل گئی۔ امیرہ نے اسے حیرانی سے جاتے دیکھا جبکہ جاتے ہویے اس نے امیرہ کو انکے ماری۔
کمینی
اس کا اشارہ سمجھ کر امیرہ نے دل ہی دل میں اسے گالی دی اور اپنے کام میں لگی رہی۔
تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا اور کڑاہی میں چمچ ہلانے لگی تو کنکھیوں سے اس نے اسے دیکھا جو موبائل فون میں مصروف تھا
وہ دونوں ناموشی سے بس اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے ۔
ارے بیٹا وہ سالن کا چالہا بند کر دو وہ پک چکا ہوگا۔
مہمان خاتون جلدی میں اتے ہوے بولی
انٹی وہ تو میں نے کب کا بند کر دیا ہے سالن بن گیا تھا تو میں نے بند کر دیا  ۔
چلو اچھا کیا
وہ سالن کا ڈھکن ہٹاتے ہویے بولی
اور سلاد
جی وہ بھی بن گیا وہ رکھا ہے
اس نے شیلف پہ رکھی ایک پلیٹ کی طرف اشارہ کیا جس میں سلاد سے مور بنایا گیا تھا۔
ارے یہ کتنا پیارا ہے یہ تم نے کیسے کیا
وہ حیران ہوتے ہوئے پوچھنے لگی
یہ ہمارے شیف نے مجھے سکھایا تھا
اچھا
مہوش خاتون شیف کا لفظ سن کے سمجھ گئی تھی کہ وہ کسی امیر گھرانے سے ہے۔
اپنے چہرے پہ کسی کی نظروں کا ارتعاش دیکھا کر امیرہ نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اس کے بنایے گیے سلاد کو دیکھ رہا تھا اور پھر واپس موبائل کی طرف متوجہ ہو گیا۔
بی بی جی سب کو بلا لو کھانے کے لیے
بایی نے مہوش خاتون سے پوچھا
ہاں بوا بلا لو
امیرہ  نے آیسن کو انکھوں ہی انکھوں میں ہاتھ بٹانے کا کہا مگر وہ اگنور کر گئی
تو امیرہ نے ہی ان کی ٹیبل سیٹ کرنے میں مدد کی۔
ان کا کچن کافی بڑا تھا اور ڈایننگ ٹیبل پہ امنے سامنے دو سربراہی کرسیاں تھی اور ٹیبل کے دائیں طرف پانچ کرسیاں تھی  بائیں طرف بھی پانچ کرسیاں تھی سربراہی کرسی کے بائیں طرف ڈیمن بیٹھا تھا دوسری طرف کی سربراہی کرسی کے  داییں  طرف آیسن بیٹھی تھی ایسے کہ ان دونوں کے بیچ میں تین کرسوں کا فاصلہ تھا سب لوگ اتے گئے تورافی اور منت بھی اگئے جبکہ مہوش خاتون پلیٹ میں کھانا نکال کر حالانکہ خلیل کے روم کی طرف چلی گئی۔
امیرہ نے آیسن کے داییں طرف کرسی سنبھالی اور عرش ڈیمن کے باییں طرف بیٹھ گیا جبکہ ان دونوں کے بیچ میں سمرہ اکے بیٹھ گیی یہ ان تین لڑکیوں میں سے تھی جو اپنے اکیڈمی کے سر کے ساتھ یہاں ایی تھی۔
ان کے بیس لوگوں کے گروپ میں اب بھس چار لوگ ہی باقی تھے باقی کو واپس پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔ جن میں سے امیرہ، ایسن، عرش اور سمرہ رہ گیی تھی ان کے اکیڈمی کے سر باقی کے بچون کو لے جاچکے تھے اور وہ کپل بھی واپس جاچکا تھا سمرہ کو اکیڈمی کے سر نے امیرہ آیسن اور عرش کے زمے یہ کہہ کہ چھوڑا کہ وہ نیکسٹ چلایا لے کے اجایے کیونکہ وہ فلاییٹ فل ہو چکی تھی۔
اور سمرہ جس نے پہلے تو رونا دھونا مچا رکھا تھا کہ وہ پیچھے رہ گیی ہے ڈیمن کے گھر انے کے بعد اس کا ارادہ بدل گیا تھا۔
ڈ ایننگ ٹیبل پہ کھانا کھانے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ  منت اور رافی کی ایک دوسرے کو ریلز دکھا کر ہنستے کی او ازیں بھی سنای دے رہی تھی۔
اپ کیا کام کرتے ہے۔
سمرہ نے دیمن سے پوچھا جو کھانے کے ساتھ مابایل پہ لگا ہوا تھا۔ اس کی بات پہ گردن موڑ کر دیکھا۔
اپ سے مطلب
اس نے روکھایی سے جواب دیا کر موبائل سایڈ پہ رکھا اور کھانا ختم کرنے لگا
نہیں وہ اپ کو دیکھ کے لگتا ہے کہ اپ بہت قابل بزنس مین ہے
اس نے ہونٹوں پہ ایک بڑی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا اور اخر میں ایک ادا سے اپنے کندھے پہ ایے بالوں کو پیچھے پھینکا ۔ جبکہ رافی اور منت کبھی اسے اور کبھی اپنے بھائی کو دیکھتے۔
بوا بوا ! اپ نے ٹیبل پہ پانی کیوں نہیں رکھا۔
اس نے دروازے کی طرف دھاڑتے ہوے کہا۔ جبکہ اس کی اچانک دھاڑ پہ امیرہ کے ہاتھ سے چمچ پلیٹ میں دھڑام کر کے گرا مگر اسے کسے نے نہیں دیکھا، سب نے ڈیمن پہ ایک نظر ڈالی اور واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوے صاف صاف نظر ارہا تھا کہ سمرہ اس سے فلرٹ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ اسے وہ پسند نہیں ارہا تھا 
بوا اس کی اواز سن کے بھاگتے ہوئے ایی اور فرج سے بوتل نکالنے لگی تبھی امیرہ نے اٹھ کر جگ نکالا اور ان سے ٹھنڈے پانی کی بوٹل لے کر اس میں انڈیل دی ، پھر گلاس لیا اور ٹیبل پہ اس کے سامنے رکھ دی۔
واپس کرسی پہ بیٹھ کے اس نے منت اور رافی کو منہ کھولے اپنی طرف دیکھتے دیکھا۔
یہ ہمارے گھر پہ کیوں کام کر رہی ہے۔
منت نے رافی کو میسج کیا
پتہ نہیں شاید یہ بھی بھایی پہ لاین مار رہی ہے۔
رافی نے اسے جوابی میسج بھیجا ۔
چلو دیکھتے ہے کون جیتے گی۔
منت نے میسج کے آخر میں انکے مارنے والا ایموجی بھیجا
میں تو اس ڈاکٹر پہ شرط لگا ونگا پکا یہ جیتے گی۔
منت نے ایک اور میسج بھیجا اور ساتھ میں ہنسنے والا ایموجی
نہیں یہ نوٹنکی جیتے گی
لگی شرط
ایک ہفتہ روز میری ہر بات ماننے کی
رافی نے اسے شرط بتایا کے جیتنے والا کیا کرے گا
ڈن
منت نے ہامی بھری اور دونوں نے موبائل رکھ کر ایک دوسرے کو مسکراتے ہوے دیکھا۔
ڈیمن بھایی کیا اپ ہمیں ہوٹل ڈراپ کروا دینگے
ایسن نے بڑے ادب سے مسکرا کے پوچھا
جب تک میرے ڈیڈ ٹھیک نہیں ہوجاتے یہ کہی نہیں جارہی  اپ نے جانا ہے تو میں بھجوا دونگا
اس نے ان کی طرف بنا دیکھے کہا جبکہ اس کی بات پہ منت نے رافی کو مسکرا کر دیکھا اور ساتھ میں بھوویں اچکایی  اس کو دیکھ کے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کہہ رہی ہے " دیکھا بچو میں نے کہا تھا نا "
اس کی شکل دیکھا کے رافی نے اپنی ہنسی روکنے کے لیے اپنے ہونٹوں کو اپس میں پیوست کیا۔
جب یہ نہیں جارہی تو میں نے جا کے کیا کرنا ہے ۔
ایسن کی مسکراہٹ غالب ہویی تھی
ہمارا سارا سامان ہے وہاں پہ
امیرہ نے گفتگو میں پہلی دفعہ حصہ لیا۔
شام تک اپ کو مل جائے گا
کھانا ختم کر کے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔
بات سنییں
وہ بھی اس کے پیچھے لپکی
اس میں میری کچھ کتابیں ہے کیا اپ اسے چھپا کر مجھے دے دینگے۔
اس نے ایک ہاتھ کے ناخن سے دوسرے کو کھراجتے ہوے کہا۔
کس سے چھپا کر
اس نے مڑ کر اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔
آیسن سے
اس نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اوکے
اسے جواب دے کر وہ باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر عباد کے ساتھ چلا گیا۔ امیرہ بھی واپس اندر اگیی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیا ہے اس کی کتابوں میں جو وہ اسے چھپا رہی ہے۔
ڈیمن سوچے گیا
عباد ہوٹل سے سب کا سامان لے او اور ڈاکٹر کے سامان سے جو کتابیں ملے اسے مجھے دے دینا
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا
اوکے ڈیمن
عباد نے جلدی سے جواب دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا ہر سو اندھیرا پھیلا ہوا تھا پرندے اپنے گھروں کو واپس جا چکے تھے۔ آیسن کمرے میں تھی جبکہ امیرہ گھر کے پچھلے طرف بنی سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی ۔ وہ پورا گھر دیکھ چکی تی کافی بڑا گھر تھا۔
اسے گھر نہیں بنگلا کہنا زیادہ بہتر ہوگا انگریزی ہارر فلموں والا بنگلا
اس نے سوچا
یہ گھر تین منزلہ تھا اور اس کے سامنے نزدیک ہی بڑی سڑک تی جو مین روڈ تک جاتی تھی اور سڑک سے تھوڑا اگے سمندر شروع ہوتا تھا، جبکہ گھر کے بایی طرف جنگل پیچھے کی طرف ایک جھولا لگا تھا اور کچھ  گلابوں کے پودے بھی  تھے، گھر کی حدود سے نکل کر ایک بہت بڑی فصلی جگہ تھی جس میں کوئی بیج بھی نہیں اگایا گیا تھا اور اس وجہ سے وہ کھلا میدان زیادہ اور فصلی زمین کم لگتا تھا۔ میدان کے خت ہوتے ہی جنگل شروع ہوتا تھا جو دایی طرف موجود جنگل کے ساتھ جا ملتا تھا۔
وہ بھی اس وقت اس جھولے کو دیکھ رہی تھی اور اپنی ہی سوچوں میں تھی جب سمرہ اس کے پاس اکر بیٹھ گئی
ہایے
سمرہ نے بات شروع کی
ہایے
امیرہ نے اسے ایک نظر دیکھ کر جواب دیا
اممممممم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات پوچھوں تم اس کے پیچھے کیوں گیی تھی
سمرہ نے اپنے اپنے نا مدعا بیان کیا۔
کس کے
امیرہ کو سمجھ اگیا تھا مگر پھر بھی پوچھا کہ کنفرم کرلے کہ وہ دونوں جس اس کے بارے میں بات کر رہے ہے یہ وہی ہے یہ صرف اس نے اسے دماغ پہ سوار کر رکھا ہے۔
ڈیمن اور کون
اچھا ہا مجھے کچھ کام تھا
ایسا کیا کام تھا
اس نے تشویش سے پوچھا
تم کیوں پوچھ رہی ہو
وہ جواب نہیں دینا چاہتی تھی اس لیے الٹا سوال کر بیٹھی
بس تمہیں کچھ بتانا تھا کہ وہ میرا ہے اسلئے تم اس سے دور رہو
اس نے لمبے ناخنوں والی انگلی اپنی طرف گھما کے کہا
کیا کیا کیا
اس نے ایک ہی سانس میں بولا کہ شاید اسے سننے میں غلطی ہویی ہو
تم ڈیمن سے دور رہو اس کی شادی ہو گی تو صرف مجھ سے
اس نے غصے سے گھومتے ہویے چبا چبا کر کہا
O hello, not a chance 
مجھے اس گینگسٹر میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے
اپنی بات کہہ کہ وہ کھڑی ہوتی ہے اور واپس جانے کو مڑتی ہے تو دیکھتی ہے کہ ڈیمن پیچھے ہی کھڑا ہوتا ہے تو وہ جو کچھ اور کہنے والی ہوتی ہے اس کے زبان کو کفل لگ جاتے ہے۔
ڈیمن  سرخ انکھیں لیے کھڑا ہوتا ہے اور ان کی باتیں سن چکا ہوتا ہے
امیرہ کو چپ دیکھ کر سمرہ بھی پیچھے دیکھتی ہے تو ڈیمن کو  دیکھ کر واپس سے اگے دیکھتی ہے اور مسکرانے لگتی ہے
میرے روم میں چلو
ڈیمن اسے ارڈر دیتے انداز میں کہہ کر اپنے روم کی طرف چل دیتا ہے
سمرہ سوچتی ہیں کہ جلد یا بدیراس کو پتہ چلنا ہی تھا تو بس اچھا ہے کہ ابھی سے پتہ چل گیا

ناک کر کے وہ اس کے کمرے میں جاتی ہے
اپ کی کتابیں
وہ زمین پہ پڑے ایک تھیلے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو امیرہ جلدی سے انہیں اٹھا لیتی ہے
اس میں چھپانی والے تو کوئی بات مجھے نظر نہیں ایی پھر اپ اسے کیوں چھپا رہی ہے
وہ میری ۔۔۔۔۔۔ وہ اس کو کتابیں نہیں پسند اور میں ان کے بغیر  نہیں رہ سکتی تو اس نے ٹرپ پر لانے سے منع کیا تھا اس لیے میں اسے نہیں بتانا چاہتی
ڈیمن صوفے پر بیٹھا اس کی بات کو غور سے سن رہا تھا اور موبائل پہ انگلیاں بھی چلا رہا تھا
کیا میں انہیں یہاں رکھ سکتی ہوں
امیرہ نے بہت سوچ کے بولا کیونکہ اپنے روم میں تو وہ رلھ نہیں سکتی تھی۔
اپ کو تو گینگسٹر پسند نہیں ہے تو پھر اپ اپنی اتنی خاص کتابیں ایک گینگسٹر کے کمرے میں کیوں رکھنا چاہتی ہے
امیرہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھوڑی دیر روم میں سناٹا رہا
اپ اسے منت کے روم میں رکھوا دے۔
ڈیمن نے اسے چپ دیکھ کر خود ہی جواب دیا اور وہ چپ چاپ نکل گئی۔ اور وہ جو اتنی دیر سے نظریں نہیں اٹھا رہا تھا اس کے جاتے ہی اس جگہ کو تکنے لگا جہاں وہ ابھی کھڑی تھی۔
میرے دماغ کے جواب بنانے والی فیکٹری کو اس کے سامنے زنگ کیوں لگ جاتا ہے
وہ خود سے بڑبڑاتی ہویی اوپر کی طرف گئی۔
اوپر بھی اسی طرح اپنے سامنے کمروں کے دروازے تھے اس نے ایک ناک کیا تو رافی نے دروازہ کھولا
جی کچھ چاہیے اپکو
نہیں وہ مجھے لگا یہ منت کا روم ہے ۔ کیا اپ بتا سکتے ہے منت کا روم کونسا ہے
اس نے جلدی جلدی وضاحت دی
منت کا روم وہ ہے
اس نے سامنے والے دروازے کی طرف اشارہ کیا
اوکے تھینک یو
وہ جلدی سے مڑی اور منت کا دروازہ بجانے لگی
اپ کو کوئی کام ہے تو مجھے بتا دے
رافی نے پیش کش کی
نہیں وہ بس مجھے اپنی کتابیں۔۔۔۔ نہیں بس کچھ بات کرنی تھی مجھے اس سے
اس نے بات گھما دی تو اسے وقت منت نے دروازہ کھولا
وہ مجھے اپ سے کچھ بات کرنی تھی اندر آسکتی ہو
اس نے منت سے پوچھا
ہاں شور اونا
اس کے اندر جاتے ہی رافی بھی اپنے روم میں گیا۔
وہ مجھے اپنی کتابیں اپ کے پاس رکھوالی ہے
ہان کیوں نہیں لیکن تم اسے اپنے روم میں کیوں نہیں رکھ رہی
منت نے اس سے کتابیں لیتے ہوئے کہا
وہ میں نہیں چاہتی کے اسے پتا چلے کہ میں اپنے ساتھ کتابیں لایی ہو
کیوں
منت نے کتابیں شلف پہ سجاتے ہوئے پوچھا اور ساتھ میں اسے بیٹھنے کا بھی اشارہ کیا تو امیرہ نے بیٹھنے کے بعد ساری روداد اس کے گوش گزاری۔
اچھا ۔۔۔ تم بے فکر رہو نے اسے پتہ نہیں لگنے دونگی
تھینک یو
ارے تھینک یو کی کیا بات ہے جب تمھارا دل کرے یہاں اکر پڑھ بھی لینا کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔
سچ میں تھینک یو سو مچ منت تم بہت اچھی ہو
اس نے دل سے خوش ہو کر کہا
چلو اب میں چلتی ہو انکل کو دوایی بھی کہلانی ہے
وہ جانے کو اٹھی
اوکے ٹھیک ہے
امیرہ کو درازے تک چھوڑ کر جب وہ واپس انے لگی تو اسے بہت سی سوچوں نے گھیرا۔
اسے تو اپنی کتابوں سے ہی فرصت نہیں ہے یہ کیسے بھایی کو خود سے محبت کروایے گی۔۔۔۔۔۔ پر ویسے دونوں کی جوڑی ہوگی بڑی پرفیکٹ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکل کسی سمندر ور ساحل کی طرح۔۔۔۔۔۔ کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔۔
وہ جوش سے خود سے بولے گیی اور آخر میں بیڈ پہ دھڑام کر کے گرنے کے بعد وہ سوچنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین ماہ بعد ...
باییں ہاتھ میں گن پکڑے داییں ہاتھ سے اپنی کالی مرسیڈیز ڈرایو کرتا وہ بہت غصے میں تھا اس کے گن والے ہاتھ کی انگلیوں کی ہڈیوں سے خون بھی نکل رہا تھا وہ گاڑی بہت تیز چلا رہا تھا ۔
گن پکڑے ہاتھ سے اس نے گییر بدلا اور گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھایی
ایسا کرنے سے اس کی ہاتھ کی رگییں ابھر گیی جو صاف نظر ارہی تھی۔
اس نے ایک کے بعد گاڑی کو اوورٹیک کیا اور رفتار مزید بڑھایی
امیرپور کی حدود میں پہنچ کر بھی اس کی رفتار اہستہ نا ہویی اس نے داییں ہاتھ سے سٹییرنگ پورا گھمایا اور یو ٹرن لے کر ایرپورٹ کے دروازے کے سامنے بریک لگایی گاڑی کی سپیڈ بہت زیادہ تھی hydrollic brakes  کی وجہ سے گاڑی الٹ گئی اور مگر وہ بر وقت اس سے کود گیا۔ اج وہ بلکل بھی دیر نہیں کرنا چاہتا تھا اگر اج اسے دیر ہوگئی تو وہ اسے کبھی دیکھ نہیں پایے گا اس کے پاس بس آخری موقع تھا۔
وہ بھاگ کر اندر گیا اس کے پیچھے ہی عباد اور چند اور گاڑیاں بھی رکی وہ بھی جلدی سے اندر اس کے پیچھے بھاگے اور گنزز تو اج وہ سب لوڈ ہی رکھے ہوئے تھے۔ وہ بھاگتا گیا اور جو اسے روکتا عباد اس پر گن تانتا اور ڈیمن بنا رہے جہاز کی طرف بھاگا۔ جو بس اڑنے ہی والا تھا جس میں اس کی میروٗ(امیرہ کو دیا ہوا ڈیمن کا نک نیم ) جارہی تھی۔
ڈیمن کے ادمیوں نے پورا اییرپورٹ ہاییجیک کیا ہوا تھا کیونکہ اس کی میروٗسے اسے بات کرنی تھی۔
وہ بھاگتا گیا اور جہاز میں گھس گیا وہاں اییر ہوسٹسس نے اسے روکا مگر اس نے اسے گن دکھائی تو وہ پیچھے ہٹ گیی
میروٗ میروٗ
وہ ایک سیٹ دیکھ کر چلا رہا تھا مگر وہ اسے نظر نہیں آرہی تھی
کہی وہ چلی تو نہیں گیی۔
اس کا دل ڈوبنے لگا
تبھی وہ اسے نظر ایی اخر میں کھڑی وہ سینے پہ بازوں باندھے غصے سے اسے گھور رہی تھی۔ ڈیمن کو تو جیسے اکسیجن مل گئی۔ وہ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کے گہرے گہرے سانس لینے لگا۔
تم اس طرح بغیر مجھ سے بات کیے نہیں جاسکتی۔
وہ قدم قدم اس کے قریب اتے ہوے بولا۔ اور عین اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
میں تمہیں ہر بات کی وضاحت۔۔۔
چٹاخ
امیرہ نے اسے سب کے سامنے تھپڑ مار دیا
کلک کلک
اس کے جتنے ادمی جہاز میں تھے عباد سمیت سب نے اس پہ گن تان دی۔ وہ ڈیمن کو تھپڑ مارنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہے۔
کوئی ہمارے بیچ میں نہیں بولے اور تم لوگوں کی ہمت کیسے ہویی میری میروٗ پر گن تاننے کی
ڈیمن نے بنا پیچھے مڑے دھاڑتے ہوے کہا اس کی دھاڑ سن کہ امیرہ بھی کانپنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوحِWhere stories live. Discover now