قسط:۳

72 0 0
                                    

تھوڑی دیر میں وہی آدمی امیرہ اور آیسن کے ٹوور  گاییڈ کو کندھے پر ا ٹھا کر لایا جسے گولی لگی ہوئی تھی اور اس کا خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

اسے جلدی سے ہسپتال لے کر جاووں

امیرہ نے اسے دیکھا تو جلدی سے بولی۔

عباد گھر کی طرف جلدی
عصام نے عباد کو ارڈر دیا
گھر نہیں اسے ہسپتال لے کر جاووں اس کا ایکسرے کر کے گولیاں نکالنے ہوگی اور سٹیچزز اینگے

تم ڈاکٹر ہو
وہ اس پہ غرایا
کچھ سال میں بن جاوونگی
وہ ڈری سہمی بولی
ٹھیک ہے تم ان زخموں کو تب تک سمبھالوں جب تک ہم گھر نہیں پہنچ جاتے اور پھر تم ان کو ٹھیک کرو گی اور اگر تم نے ایسا نا کیا تو میں تم پر بھی اتنی ہی گولیاں ضائع کرونگا۔

ڈیمن نے اپنی شعلہ بار آنکھیں اس پر ٹکائے کہا جبکہ امیرہ کا گلا خوف سے خشک ہو گیا اور اس نے جلدی سے اپنے گلے سے مفلر کی طرح پہنا دپٹااتارہ اور اس کی زخموں پہ رکھ کر خون روکنے کی کوشش کی۔

جب گاڑی زرا اگے نکل گئی تو امیرہ نے ہمت کر کے اس سے التجا کی۔

پلیز میری دوست کو بچا لو وہ وہاں مصیبت میں ہے۔

ڈیمن جو مسلسل کسی کو کال پہ کال کرکررہا تھا اسکی بات سن کر اسےمزید غصہ چڑھا۔ اور اس نے امیرہ کو گردن سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا۔

اس وقت اگر کسی کی جان ضروری ہے تو وہ ان کی ہے اور یاد رکھنا انہے کچھ ہوا تو میں تمہیں بھی نہیں چھوڑ ونگا
اہہہ
امیرہ اس کے سخت پکڑنے پر کراہنے لگی۔

میں انہیں کیسے ٹھیک کرو میرے پاس کچھ نہیں ہے نا دوایی نا اوزار۔

اس نے روتے ہوئے کہا

تمہیں جو چاہیے مجھے کہو میں لادونگا تمہیں بس ان کی جان بچنی چاہیے۔
اس کی گردن چھوڑ کر اس نے کہا جبکہ وہ بری طرح کھانسنے کے ساتھ ان کے زخم پر پریشر دیا کہ خون رک جائے۔
تبھی تیزرفتاری سے چلتے ہوئے وہ وین بریک لگاگیی۔ اور امیرہ گرتے گرتے بچی۔

افراتفری میں گاڑی کا دروازہ کھولا گیا امیرہ کو ان کے ساتھ ایک کمرے میں پہنچایا گیا جہاں ایک ڈاکٹر پہلے سے موجود تھی اور اس کمرے میں ہسپتالوں سے زیادہ جدید الات پڑے تھے۔

امیرہ نے اس دوسری ڈاکٹر سے گاوان لے کر پہنا اور ہاتھوں کو ایٹیسپٹس سے واش کیا اور انہیں اس طرح رکھا تھا جیسے دعا کی جاتی ہے جبکہ وہ دوسری ڈاکٹر اس کے گاون کو پیچھے سے باندھ رہی تھی تب تک ڈیمن انہیں اپریشن ٹیبل پہ لٹا چکا تھا۔
پلیز اپ باہر ویٹ کرے
امیرہ نے ڈیمن کوباہر جانے کا کہا تو وہ بھڑک گیا۔
کیوں تمہارا ارادہ میرے باپ کو مارنے کا ہے۔
دیکھیں میں اپ کے اگے ہاتھ جوڑتی ہو اگر اپ انہیں ٹھیک دیکھنا چاہتے ہے تو باہر جایے  پلیز

ڈیمن اپنا غصہ برداشت کرتے ہوئے باہر نکل ایا

اور امیرہ سے اس ڈاکٹر نے پوچھا۔

تم ڈاکٹر ہو۔

نہیں میں میڈیکل سٹوڈنٹ ہو۔

ڈاکٹر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔

کونسا سال ہے تمہارا

پہلا

مطلب تم تم انہیں کیسے بچاووگی

وہ میں اپ کو بعد میں بتتاونگی پہلے اپ انہیں اکسیجن ماسک لگایے

اکسیجن ماسک لگا کر جلدی جلدی ٹیبل سیٹ کیا اور امیرہ کے انسٹرکشنز پر اس ڈاکٹر نےاسےاوزاردینے اور لینے شروع کیے۔
تین گھنٹے مسلسل محنت کرنے کے بعد امیرہ روم سے باہر نکلی۔
کیسے ہے میرے بابا۔
ڈیمن نے اس کی طرف آکر بے چینی سے کہا۔
امیرہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے پانی کا اشارہ کیا کیونکہ خوف سے اس کا گلا خشک ہو چکا تھا جس سے اس کا بولنے پر منہ سے الفاظ نکلنے کے بجائے اس کو متلی ہوتی فیل ہوتی۔
ڈیمن خود دوڑ کر اس کے لیے پانی لایا۔
یہ لو
امیرہ نےجلدی سے غٹاغٹ پانی پیا۔
وہ اب ٹھیک ہے۔
یہ ایک جملہ سن کر عصام عرف ڈیمن کی جان میں جان ایی ۔
ان کو کچھ گھنٹوں میں ہوش اجایے گا اپ دیکھ لے انہیں لیکن ان سے دور رہے زرا سے بھی جراسیم ان کا زخم خراب کر سکتے ہے اور کچھ دوایاں چاہیے ہوگی۔
امیرہ نے جلدی جلدی بولا۔
اپ لکھ دے اپ کو دو منٹ میں مل جاینگے۔
عصام کا لہجہ میں اب غصہ نہیں تھا بلکہ اب اپنے اندر وہی اس کی مخصوص ٹھنڈک لیے ہوئے تھا
ٹھیک ہے
وہ واپس اندر گیی اور اپنے ساتھ ایک پرچی اور میڈیکل گاون لایی۔
یہ لے یہ دوایاں لے ایے اور اپ یہ گاون وغیرہ پہن لے پھر اپ سر سے مل سکتے ہے۔
پرچی عباد کو پکڑا کر گاون عصام کی طرف بڑھایا۔
عصام نے گاون پہنا تو امیرہ نے اس کی ربن پیچھے سے بندکی۔
اور عصام کو ماسک دیا۔
ماسک پہن کر وہ اندر گیا اور اپنے مشینوں میں جکڑے باپ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں انسوں ایے ۔ ایک کے بعد ایک بچپن کا منظر دکھنے لگا ایک میں وہ اسے کھانا کھلا رہے تھے تو دوسرے میں اسے      سا ہیکل چلانا سکھا رہے تھے عصام نے ایک گھری سانس لی اور انسووں کے گولے کو گلے سے نیچے اتار دیا اور واپس باہر نکل گیا۔
امیرہ بھی اس کے پیچھے باہر نکل ایی۔
سر اپ پلیز میری دوست کو لے اینگےوہ پتہ نہیں کس حال میں ہوگی اب تو میں نے اپ کے بابا کو بھی بچا لیا ہے پلیز یا تو مجھے وہاں واپس چھوڑ ایے یا اسے بچا لے پلیز۔
عصام جو اپنے بالوں میں بار بار ہاتھ پھیر کر خود کو کنٹرول کررہاتھا ایک التجایی اواز اپنے قریب سن کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اور بنا کوئی جواب دیے وہاں سے باہر نکل گیا۔
یااللہ اب کیا کرو میں پلیز اپ ہی مدد کریں میری آیسن کو بچالے
وہ اپنی آخری کوشش پہ پانی پھیرتا دیکھ دعا کرنے لگی۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاں سے نکل کر عصام نے اپنی امی کو کال کی اور انہیں بابا کی صحت کا بتایا۔
عصام مجھے لوکیشن بھیجو مجھے وہاں انا ہے۔
وہ رونے کے ساتھ بولی۔
اپ کو یہاں انے کی ضرورت نہیں ہے کچھ دیر میں  میں خود انہیں گھر لاوونگا۔
ٹھیک ہے۔
وہ جانتی تھی عصام سے بحث فضول ہے وہ صرف وہی کرتا ہے جو وہ خود کرنا چاہتا ہے۔
کال کاٹ کر عصام نے اپنےکچھ بندوں کو پاکستان سے ان کا ذاتی جہاز لانے کو کہا۔
اور باقی سب کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کے لیے بلا لیا کیونکہ اب ناورو ان کے لیے سیف نہیں رہا تھا۔
ڈیمن دوایاں۔
عباد نے کہا
میرے سر پر کیا کھڑے ہو جا کے اس ڈاکٹر کو دو۔
ڈیمن اس پہ دھاڑا کیونکہ وہ اس وقت سخت ٹینشن میں تھا۔
ڈاکٹر دوایاں۔
امیرہ جو رونے اور دعا کرنے میں مصروف تھی عباد کی آواز سن کر سیدھی ہویی اور اس سے دوایاں لی۔
بھایی پلیز میری بہن آیسن وہاں مصیبت میں ہے پلیز اسے بچالے۔
امیرہ نے اس کے اگے ہاتھ جوڑے۔
دیکھے میری بہن رویے نہیں ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہوگی
پلیز اپ اسے یہاں لے ایے یا مجھے وہاں واپس چھوڑ ایے۔
میں اپ کی مدد ضرور کرتا مگر یہاں صرف دیمن کا حکم چلتاہے ہم نا تو اپنی مرضی سے آسکتے ہے نا جاسکتے ہے۔
وہ اپنی بول کربنااس کی سنے وہاں سے جلدی سے نکل گیا کیونکہ اگر وہ اسی طرح طرح اس کی منتیں کرتی رہتی تو وہ ضرور مان جاتا اور وہ اس کی دوست کو تو بچا لیتا مگر پھر خود کو ڈیمن کے ہاتھوں سے نا بچا پاتا۔
دوایاں ہاتھ میں پکڑے وہ کچھ دیر وہی کھڑی رہی پھر اپنے انسو صاف کر کے واپس اندر گیی تاکہ ان کی دوایاں شروع کروا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ گھنٹے گزرنے کے بعد
انہیں اب تک ہوش کیوں نہیں ایا۔
ڈیمن اس پہ دھاڑا
دیکھے اپ چلایے نہیں اس سے ان کی حالت بھی خراب ہو سکتی ہے اور میری بھی۔ میں نے اپکے بابا کی جان بچایی ہے اپ مجھ سے تمیز سے بات کرے اپ مقروض ہے میرے۔
امیرہ نے پہلے ڈرتے اور بعد میں اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر اپنا جملہ مکمل کیا۔
کس حوالے سے میں اپ کا مقروض ہونے لگا اپ شاید بھول چکی ہے کہ پہلے میں نے اپکی جان وہاں بچایی تھی۔
عصام نے غراتے ہوے کہا تو امیرہ خاموش ہو گیی  اب بولتی بھی تو کیا۔
میں نے کچھ پوچھا ہے اپ سے ان کو ہوش کیو۔
ڈاکٹر سر کو ہوش اگایا۔
عصام نے ابھی اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ ان دونوں کا دیہان اس دوسری ڈاکٹر نے اپنی بات بول کر بیڈ پر پڑے حاکان خلیل کی جانب مبذول کی جو اب انکھیں کھول چکے تھے اور اپنے بیٹے کی بدتمیزی ملاحظہ کر رہے تھے
بابا
عصام ان کی طرف بڑھا اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
امیرہ نے ان کا بی پی اور زخم چیک کیا۔ سب کچھ نارمل دیکھ کر وہ باہر نکل ایی۔
باہر اکر اس کے دماغ نے جلدی جلدی وہاں سے نکلنے کا پلان بنایا۔
مجھے مین ڈور سے نہیں جانا چاہیے وہاں اس کے گارڈز ہونگے۔ یہاں اندر سے کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
وہ اندر کی طرف بھاگی اور اسے کچن سے باہر کی طرف کو کھولتا ایک دروازہ دکھائی دیا  جیسے ہی اس نے وہ دروازہ کھولا وہاں الارم بجنا شروع ہوا وہ ہڑ بڑا کر باہر نکلی یہاں وہ ان دیکھا تو ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا اور بیچ میں یہ گھر اسے گارڈز کے باٹوں کی آواز سنائی دی تو وہ  جنگل کی طرف بھاگی۔
دوسری طرف عصام جو حکان کے ہوش میں انے پر خوش ہوا تھا الارم سن کر اس کو بھی جھٹکا لگا۔
کہا گیی وہ
عصام نے دوسری ڈاکٹر سے پوچھا
مجھے نہیں پتا عصام صاحب میں تو سر کا کولیسٹرول لیول چیک کر رہی تھی۔
عصام اس کی بات سنتے باہر نکلا۔
عباد عباد کہا مرگیے ہو سب کے سب
عصام چلایا
جی سر
عباد دوڑتا ہوا ایا
کونسے دروازے سے گیی ہے وہ۔
کچن ڈور سے
یہ بھی تمہیں پتا نا ہوتا تو تم مرتے اج میرے ہاتھوں۔
عصام نے اپنی پستول نکالتے ہوئے کہا۔
اسے تو نہیں چھوڑ ونگا میں
وہ خود سے بڑ بڑاتا گن کو لوڈ کرچکا تھا کچن کے دروازے سے جنگل والی سایڈ پر نکلا جبکہ عباد کو دوسری طرف بھیج دیا۔
امیرہ جسے لگا یہ جنگل بہت بڑا ہوگا ایک گھنٹہ مسلسل بھاگ کر ہی اسے سڑک دکھی
یہ تو چھوٹا سا ملک ہے میں بھول ہی گیی تھی
وہ وہاں رک کر وہاں سے کسی گاڑی کے رکنے کا انتظار کرنے لگی کیونکہ وہ مسلسل ایک گھنٹہ بھاگتی رہی تھی اس لیے اس سے اب اور چلنا محال تھا اوپر سے رات بھی تھی۔
کچھ ہی دیر میں اسے وہاں سے ایک گاڑی اتے ہوے دکھائی دی۔
ہیلپ سٹاپ سٹاپ پلیز سٹاپ۔
گاڑی کے سامنے اکر روڈ پہ وہ کھڑی ہو گیی  اور دونوں ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی جب تک گاڑی اس تک پہنچی تب تک وہ رک چکی تھی
Please help me I am in trouble can you please drop me till Diamond Hotel.
ارے یہ تو وہی چھمو ہے نا جس کی وجہ سے کل اس لڑکے نے ہمیں مارا تھا
گاڑی میں بیٹھے آدمی نے خوشی سے چھک کے کہا
یہ وہی دو نشی تھے جو پچھلی رات اسے کڈنیپ کررہے تھے  مطلب آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔
نہیں مجھے ہیلپ نہیں چاہے۔
وہ الٹے پیر واپس جنگل میں بھاگی۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا وہ بس ان سے دور جانا چاہتی تھی پھر چاہے اسے واپس ڈیمن کے گھر ہی کیوں نا جانا پڑے۔
وہ اپنی جان بچانے  کو بھاگتی رہی یہاں تک کہ وہ اندھیرے میں ایک درخت کے تنے سے ٹکرا کر گری
اہہہہ    ۔۔۔۔۔۔ 
پیٹھ کے بل گرنے پر تکلیف نہیں ہویی تھی مگر درخت سے سر بہت زور کا لگا تھا اس نے اپنے بھاری ہوتے سر کو ہاتھ لگایا۔
خونننننن
اپنے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے چپچپہ سا محسوس ہوا تو اس کے دماغ نے  اسے الارم بجا یا کہ وہ اپنا سر پھوڑ چکی ہے۔
اندھیرے میں ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اسے دیکھ نہیں پارہے تھے وہ جلدی سے درخت کی اوٹ میں ہوی
یا اللہ یہ کہاں پہنس رہی ہو میں پلیز میری مدد کرے پلیز اللہ جی اج مدد کردے میری پلیز پلیز ایی پرامس میں اج سے اچھی بنو گی بس پلیز مجھے یہاں سے بچا لے۔
وہ لوگ اب موبائل سے ٹارچ ان کر کے اسے ڈھونڈ رہے تھے اور وہ درخت کے پیچھے چھپی آنکھیں بند کیے بس اللہ سے دعا کر رہی تھی کہ وہ بس کسی طرح بچ جائے۔
اپنے چھرے پہ ٹارچ محسوس کر کے اس نے انکھیں کھولی تو وہ اس کے سامنے کھڑا اسے غصے سے تک رہا تھا۔
پلیز میری مدد کرو وہ لوگ۔
وہ بس اتنا بول پایی اور رونے لگی۔
یہ پکڑو
ڈیمن نے اسے اپنا موبائل پکڑایا جس میں ٹارچ ان تھی اور  اپنی گن نکالی۔
کڑس کی آواز سے اس نے اسے لوڈ کیا۔
ابے کون ہے تو
ان میں سے ایک نے ڈیمن کی طرف ٹارچ پکڑی جس سے اس کو سامنے والے کا چہرہ نہیں دیکھ پارہا تھا۔
ٹھاہ
اس نے ایک فایر کیا تو اسی ٹراچ والے کی پسلی سے گولی ار پار ہوی اور وہ درد سے بلبلا اٹھا۔
اہہہہ
امیرہ نے کانوں پہ ہاتھ رکھے اور عصام کے پیچھے ایی۔
پلیز جان سے مت مارنا۔ پلیز پلیز جان سے نہیں مارنا
ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ
اس نے پہ در پہ دونوں کو گولیوں سے بھون دیا اب کب تک اس کی بک بک سنتا۔
امیرہ ان دونوں کو تڑپتے مرتے دیکھ کر ہکا بکا انہیں دیکھتی رہی
تم نے
اس کے ہاتھ سے موبائل گرا جو زمین پر الٹا گر گیا اور ٹارچ کی روشنی سے اطراف میں باآسانی دیکھا جاسکتا تھا
ہاں میں نے
اس نے اپنی گن کی نال پر پھونک ماری  جو کافی گرم ہوچکی تھی پھونک مارتے ہی اس سے دھوے کے مرغولے ہوا میں شامل ہونے لگے ۔
مار دیا
وہ گھٹنوں کے بل گری اب بھی ششدر سے ان کی روح قبض ہوتے دیکھ رہی تھی ، انہیں تڑپتا ہوا دیکھ رہی تھی اور  وہ خود بھی خوف سے ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی۔
ہاں مار دیا
وہ بے ہوش ہو کے منہ کے بل گر گیی۔
عصام نے اپنی گن واپس رکھی اور موبائل نکال کے عباد کو لوکیشن بھیجی۔
دو منٹ میں پہنچو اور دو گاڑیاں لانا۔
اس نے وایس میسج کیا
اوکے
دوسری طرف سے جواب ایا
اس نے پاس پڑی اس لڑکی کو دیکھا جو اوندھے منہ بے ہوش پڑ تھی۔ اب وہ ایک سادہ سے فراک میں تھی میڈیکل گاون اس نے وہی راستے میں گرا دیا تھا اسی کی وجہ سے عصام نے اسے ارام سے ڈھونڈ لیا تھا۔
دوپٹہ اس نے صبح حاکان خلیل کا خون روکنے کے لیے یوز کیا تھا جو نجانے اب کہا تھا۔
عصام نے اسے سیدھا لیٹا دیا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں اب رونے کے مٹے مٹے نشانوں کے ساتھ ماتھے پہ خون بھی تھا جو ابھی تازہ تھا اور خون کی ایک لکیر اس کی بایی انکھ کے کنارے سے ہوتا ہوا اس کی ٹھوڑی اور پھر گردن تک گیا تھا اور وہاں سوکھنے کی تیاری کررہا تھا۔
اس کے کھلے بالوں جو کافی لمبے تھے نے اس کے جسم کو چھپایا ہوا تھا۔
عصام نے اپنا بلیک کوٹ نکال کر اس پے ڈال دیا ۔
تب تک عباد پہنچ چکا تھا۔
باڈیزکلیر کرو عباد۔
یس ڈیمن
عباد دو بندوں کے ساتھ ان کو گاڑی میں بٹھا کر نشان مٹانے لگا۔
چلے پرنسزز
عصام نے بے ہوش پڑی امیرہ سے اتنی خاموش سے بولا کہ وہ خود بھی نا سن پایا بس اس کے لب ہلے
اسے اٹھا کر وہ اسے گاڑی میں پچھلی سیٹ پر لٹا گیا اور اس پہ اپنا کوٹ ڈلا اور گاڑی خود ڈرایوو کرنے بیٹھ گیا۔
ڈیمن میں اپکے ساتھ
عباد نے پوچھا
نہیں تم ان کی باڈیزکو انہیں کی گاڑی میں ڈال کر سمندر میں پھینک دو میں گھر جا رہا ہو اس کو چھوڑ کر میں واپس اونگا تب تک یہ ہوجانا چاہئے، پھر ڈیڈ کو بھی گھر لے جانا ہے۔
ڈیمن اپ گھر ہی رہے میں حاکان صاحب کو ایمبولینس میں لے کے اجاونگا۔
ار یو شیور
ہاں ڈیمن میں کر لونگ تم جاووں  تم ویسے بھی بہت دنوں سے بے ارام رہے ہو۔
عصام نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
تھینکس یار
بول کر عصام نے اگنیشن میں چابی گھمایی
اور بیک مرر اس کے چہرے پہ سیٹ کیا۔
گاڑی سٹارٹ کر کے وہ اسے زن سے بھگا لے گیا۔
پیچھے عباد اب مسکرا کر اپنا کام کررہا تھا وہ جانتا تھا عصام دل کا بہت اچھا ہے بس وہ اپنے اوپر چڑھے اس خول سے بہت کم ہی نکلتا ہے۔
چلو تم لوگ جلدی کرو اس گاڑی کو میری گاڑی کے پیچھے باندھ لو اور پھر سمندر پر پہنچ کر انہیں سمندر میں گاڑی سمیت پھینکنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے سامنے اس نے گاڑی روکی تو وہ ہنوز بے ہوش تھی مگر اب خون اس کے ماتھے سے کانوں کی طرف بھی لکیروں کی صورت میں جارہا تھا اور اس کے بالوں میں جزب ہورہا تھا ۔
اس کا چہرہ دیکھ کر ڈیمن نے اپنے دانتوں پہ زبان پھیری اور ایک ساییڈ سے مسکرایا۔
باہر نکل کر اس نے اسے  اٹھایا اور دروازے پر فنگر پرنٹ لگایا جس سے وہ خود بخود کھل گیا۔
اندر اکر عصام نے اسے دیہان سے صوفے پر لٹایا اور اپنی امی کو جلگانے گیا۔
مام
عصام نے دروازہ کھٹکھٹایا
عصام تم اگیے تمہارے ڈیڈ کیسے ہے کہاں ہے وہ۔
وہ جو جایے نماز سے بھاگ کے اس کی طرف ایک تھی اب  اسے جھنجھوڑ کے پوچھنے لگی۔
مام ڈیڈ اب کافی بہتر ہے عباد انہیں ایمبولینس میں لے کر آرہا ہے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ ٹھیک ہے۔
انہوں نے شکر کیا اور واپس اس سے سوالات کرنے لگی۔
تم تو ٹھیک ہو نا۔
ہاں مام میں ٹھیک ہو لیکن جس نے ڈیڈ کو بچایا وہ ٹھیک نہیں ہے۔
اپنے کفلنکس فولڈ کرتی ہویے اس نے اپنی ماں سے کہا
کیا مطلب
چلے اپ میرے ساتھ بتاتا ہو
وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لاونج میں لایا جہاں وہ صوگے پر بے ہوش لیٹی تھی۔
عصام کون ہے یہ کسے اٹھا کر لے ایے ہو
وہ شاک کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی جو دنیا و مافیہا سے بے خبر بے ہوش پڑی تھی۔
ڈونٹ ٹیل می کہ یہ تمہیں پاکستان میں پسند ایی اور تم نے اسے اٹھوا لیا اور یہاں لے ایے۔
اس کی ماں نے اسے شکی نظروں سے گھورا۔
نہیں مام یہ ڈیڈ کے ٹور میمبرز میں سے تھی یہ ڈاکٹر ہے شاید اس نے ڈیڈ کو بچایا ہے۔ مگر اسے لگا شاید میں نے اسے کڈنیپ کیا ہے تو یہ وہاں سے بھاگ گیی پھر کچھ نشی تھے ان سے میں نے اسے بچایا اور یہ بے حوش ہوگئی۔
ایسے کیسے بے حوش ہوگیی۔۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ  کیا تم نے اس کے سامنے کسی پہ گولی چلا دی۔
وہ جو پہلے مہربان نظروں سے اسے امیرہ کو دیکھ رہی تھی اخری جملے پہ خود ہی حیرت اور غصہ کے ملے جلے تعصرات سے اسے گھورنے لگی۔
بھایی میں تو کہتا ہو اسے بھی مار دو گواہ ہے یہ اس بات کی کہ تم نے مرڈر کیا ہے۔
رافی جوابھی اپنے روم سے ان کی آوازیں سن کر نکلا تھا بولا۔
عزیز بھی وہاں اگیا اس کے بھی دایی ہاتھ میں گولی لگی تھی جس پہ اب پٹی بندھی تھی۔
عزیر جو حاکان خلیل کا رایٹ حینڈ ہے اور ان کے انڈر کور ہونے کے باوجود بھی ان کے قریب رہتا تھا اسے بھی وہاں گولی لگی تھی۔
عصام اب تم مجھے بتانا پسند کروگے کہ یہ لڑکی کون ہے۔
عصام کی امی یعنی مہوش خاتون نے نہایت غصہ سے پوچھا مگر آواز دھیمی رکھی۔
امی تسلی رکھیں اٹھا کر نہیں لایا پہلے میں نے اسکی جان بچایی پھر اس نے بابا کی جان بچایی اور پھر میں نے دوبارہ اس کی جان بچایی۔ اپ اپنی تربیت پر بھروسہ رکھے اپ کا بیٹا عورتوں کی عزت کرنا جانتا ہے ابھی بھی جہاں سے اسے بچا کر لایا ہو وہاں دونشی اسے اپنی حوس کا نشانہ بنانے والے تھے اور اپ کو پتہ ہے غلط کام مجھ کرنے والے لوگ مجھ سے برداشت نہیں ہوتے اس لیے انہیں مارتے وقت اس نے دیکھ لیا اور بے ہوش ہوگئی۔
عصام نے اطمینان سے ساری تفصیل بتایی۔
اف عصام جان سے کیوں مارا بس اسے بچا لیتے۔
مہوش خاتون نے اپنے تہہ مشورہ دیا۔
نہیں امی عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والوں کو زندہ نہیں چھوڑہ جاتا وہ ایک دفعہ درندہ بن چکے ہوتے ہے انہیں دوبارہ درندہ بننے کا موقع میں نہیں دیتا ایسے لوگوں کے دل میں خوفِ خدا نہیں ہوتا اور میری عدالت میں ان کی سزا صرف موت ہے، اور کچھ نہیں تو کم سے کم میں ان کے ہاتھوں اور لڑکیوں کی عزت خراب ہونے سے تو بچا ہی سکتا ہو۔
عصام جو ویسے تو بہت کم گو تھا مگر اپنی ماں کے ساتھ وہ دل کھول کر بولتا تھا۔ اور اج اس کی باتوں سے اس کی ماں کا سر فخر سے بلند ہوا۔
عصام تمہاری اس سوچ نے مجھے باور کروایا ہے کہ میں نے تمھاری تربیت بہت اچھے سے کی ہے مجھے فخر ہے اپنے بیٹے پہ۔
اور میں
رافی اور منت نے ایک ساتھ کہا۔
تم دونوں تو سدا کے نکمے ہو۔
مہوش خاتون نے ہنستے ہوئے کہا جس پہ دونوں کے منہ بنے۔
تجھے بولا ہے
منت نے رافی کو کہا
مجھے نہیں تجھے بولا ہے
رافی بھی لڑنے کے موڈ میں تھا۔
بولا نا تجھے بولا ہے
منت پوری گھوم کے لڑنے کو تیار تھی ہوگئی
بس بس دونوں ہی نکلے ہو۔
مہوش خاتون نے دونوں کو ڈپٹہ تو منت نے اسے زبان دکھائی اور رافی نے منہ ہی منہ میں اسے دو تین القابات سے نوازا۔
بیپ بیپ
گاڑی کے ہارن بجنے کی آواز سنائی دی
لگتا ہے عباد بابا کو لے ایا۔
عصام نے کہا تو سب باہر کو گیے۔
یہ گھر اتنا بڑا نا تھا مگر اس میں اسانی سے بیس لوگ اسکتے تھے۔ اس جزیرہ کے بیچ و بیچ بنا یہ خوبصورت گھر حاکان خلیل نے اپنے لیے ایک سیف ہو اس کے طور پر بنایا تھا وہ جانتا تھا کہ جو کام اس نے شروع کیا ہے اس کے بعد اس پر ایسا وقت اسکتا ہے اور اسی وقت کے لیے اس نے پہلے سے دنیا کہ مختلف کونوں میں گھر بنایا رکھے تھے۔
سب نے حاکان خلیل کی خوب دیکھ بھال کی اور جب وہ دوایی لے کر سوگے تو مہوش خاتون نےامیرہ جو کہ گیسٹ روم میں تھی کے پاس جاکر اس کا زخم صاف کر کے اس پہ دوایی لگایی۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز میں نے تمہیں ایک کام بولا تھا۔
عصام نے اس سے پوچھا۔
میں نے انہیں ایک سیف جگہ پہ اکھٹا کیا ہے ڈیمن۔
عزیز نے مودب انداز میں کہا۔
ٹھیک ہے اپ ایک کام کریں ابھی کے ابھی ان سب کو یہاں لے ایے اس گھر میں وہ سب سیف رہینگے اور کیا نام تھا اس ڈاکٹر کی دوست کا وہ زندہ ہے۔
عصام نے پوچھا۔
آیسن نام ہے ان کا جی ان کو کچھ چوٹییں ایی ہے مگر وہ ٹھیک ہے۔
ٹھیک ہے تم ان سب کو لے کر او۔
عصام نے اسے ارڈر دیا اور اپنے لیے فرج سے پانی نکالنے لگا۔
عصام نے امیرہ اور آیسن کے پورے ٹورسٹ گروپ کو یہاں اکھٹا کیا کیونکہ وہ سب حاکان خلیل کو دیکھ چکے تھے اور ان پر مصیبت اِن  کی وجہ سے ایی تھی اس لیے وہ انہیں محفوظ پاکستان پہنچانا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی ہلکی ہلکی روشنی کمرے کے شیشے پہ لگے پردوں سے گزر کر اندر ارہی تھی۔ امیرہ نے بازوں اٹھا کر انکھوں پہ رکھا۔
رات کا واقع یاد انے پر وہ کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی
یا اللہ یہ میں کہاں ہو۔
اس نے چاروں طرف دیکھا اور پھر اسے احساس ہوا کہ اس کے ساتھ بستر پر کوئی اور وجود بھی ہے جو خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ وہ اہستہ اہستہ بیڈ سے اتری اور پھر دروازہ کے پاس گیی۔
رکو امیرہ کہاں جارہی ہو دیکھو اتنی دعاووں کے بعد ملی ہو تم مجھے اب مجھے چھوڑ کے گیی نا تو میں تم سے دوستی ختم کردونگی سمجھی تم۔
آیسن کی غصہ اور دکھ سے بھری آواز اس کے کانوں میں پڑی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ کوئی اور نہیں بلکہ آیسن سو رہی تھی۔
ایسن تم یہاں کیسے اور میں یہاں کیسے یہ کون سی جگہ ہے۔ تم ٹھیک ہو تمہیں پتا ہے میں کتنی پریشان تھی۔
امیرہ دوڑتے ہوے اس کے پاس ایی اور اس کو گلے لگا لیا۔ اس سے الگ ہو کر اس نے اپنے ماتھے کو چھوا جس پہ پٹی لگی تھی۔
جب وہاں فایرنگ ہوی تھی نا تو مجھے ایک آدمی نے بچایا جس کا نام عزیز ہے اور پھر وہ ہمارے گروپ کے سبھی لوگوں کو ایک جگہ لے گیا وہ ایک روم تھا جہاں ہم نے  انتظار کیا میں نے اسے اتنا کہا کہ میری دوست کو بھی بچالو تو اس نے کہا وہاں اور کوئی بھی زندہ نہیں بچا میں اتنا رویی تھی تمہیں کیا پتہ اتنی دعائیں کی میں نے پھر رات کو وہ ہمیں اس گھر میں لے ایے اور ایک انٹی نے میرا نام لیا کہ ہم میں سے؛آیسن کون ہے تو جب میں نے بتایا تو وہ مجھے یہاں لے ایی تمہیں دیکھ کے میری سانس بہال ہویی مجھے لگا میں نے تمہیں کھو دیا۔
آخری جملہ بول کے وہ رونے لگی تو امیرہ نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور اسے اپنی طرف کی ساری کہانی سنایی تب تک وہ چپ ہوچکی تھی۔
تم نے انہیں تھینک یو بولا۔
آیسن نے پوچھا
کس بات کا تھینک یو
تمہیں دو بار بچانے کا اور کس بات کا۔
وہ تو میں نے نہیں بولا اور نا میں بولونگی میں نے بھی تو اس کے بابا کا اپریشن کیا ہے شکر ہے جو میں نے کچھ کتابیں پہلے سے پڑھ لی اور اج مجھے اللہ نے کسی کی جان بچانے کی توفیق عطا فرمائی۔
امیرہ نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔
چلو اب نماز پڑھتے ہے۔
آیسن نے کہا۔
اس وقت کونسی نماز ہوتی ہے
امیرہ نے پوچھا۔
میں نے دعا کی تھی کہ تم ٹھیک ہویی تو میں سو نفل پڑھو نگی۔
آیسن نے کہا اس کی بات سن کے امیرہ کی انکھوں میں انسو اگیے۔
چلو میں بھی پڑھو نگی۔
تم کیوں۔
آیسن نے پوچھا
مجھے بھی تو اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اتنے بڑے صدمے سے ہم دونوں بچ گئے۔
امیرہ نے اسے بستر سے اٹھنے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
چلو اجاووں پہلے میں جاتی ہو واش روم پھر تم اجانا۔
ٹھیک ہے۔
امیرہ کے کہنے پر آیسن واش روم  میں بند ہوگئی اور امیرہ دیوار پر لگی اس پینٹنگ کو دیکھنے لگی جس پہ عربی میں لکھا تھا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبْنِ
بہت ہی خوبصورتی سے کیلیگرافی کی گیی تھی اور امیرہ کو یاد تھا اس آیت کا مطلب ہے۔ "تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ "
یا اللہ تھینک یو سو مچ اپ ہی ہےجو معجزےکرتے ہے اپ ہی ہے جو ہماری غیبی مدد کرتے ہے اپ نے میری مدد کی اتنے مشکل وقت میں اگر کل رات کو وہ نا اتا تو شاید میں کہی کی نا رہتی۔ اپنے مجھے بھی بچایا اور آیسن کو بھی تھینک یو سو مچ اللہ تعالی جی میں اپکا جتنا شکر ادا کرو وہ کم ہے مگر میں اج کےبعد پوری کوشش کورنگی کہ میں اچھی لڑکی بن کر زندگی گزارو۔
امیرہ اپنے دل میں اللہ تعالی کو اپنی کیفیت بتا رہی تھی کیونکہ اسے لگا کہ شاید یہ آیت اس کے لیے ہی اتاری گئی تھی۔
آیسن کے ساتھ مل کہ نماز پڑھنے کے بعد وہ دونوں اپنے روم سے نکلی کیونکہ انہیں کافی بھوک لگ رہی تھی اس لیے وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
آیسن کچن کس طرف ہوگا۔
مجھے کیا پتہ
مگر تم تو رات کو جاگتے ہویے ایی تھی میں بے ہوش ایی تھی تھوڑا تو دیکھ لیتی  کوئی نظر بھی نہیں آرہا۔
امیرہ نے گردن یہاں وہاں گھمایی۔
چلو شاید یہاں ہو۔
آیسن نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور اسے لیے ایک طرف گیی۔
تھوڑا اگے جاکر انہیں ایک طرف کچن مل ہی گیا۔ جب وہ وہاں داخل ہویی تو ایک شاندار کچن نے ان کو ویلکم کیا جس میں ایک خاتون ایپرن پہنے کھانا بنا رہی تھی ۔ ان کو دیکھ کے ہی وہ سمجھ گئی تھی کے وہی یہاں کی مالکن ہے وہ عمر میں کافی بڑی تھی پر انہوں نے اپنے اپ کو بہت مینٹین کیا ہوا تھا وہ کافی  سلم سمارٹ  تھی۔
اہ اہم ایسن نے گلا کھنکھارا
اف آیسن ایکسکیوز می بول دیتی اسے کون بلاتا ہے ۔ کب عقل ایے گی اس لڑکی کو۔ امیرہ نے اسے دل میں کوسا۔
ارے اپ اٹھ گیی۔
خاتون نے مسکرا کر کہا اور ان کی طرف مڑی اب ان کے درمیان بس ڈایننگ ٹیبل تھا جس کی ایک کرسی پہ ہاتھ رکھ کر وہ ان کی طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
اسلام علیکم انٹی
امیرہ نے جلدی سلام کیا۔
وعلیکم السلام بچے  ۔ اب طبیعت کیسی ہے اپکی۔
جی انٹی اب کافی بہتر ہو
چلو اچھا ہے
انٹی وہ ہمیں کہنا تھا کہ ہمیں اجازت دے ہمیں اب چلنا چاہیے۔
وہ جو کچھ کھانے کا سوچ رہی تھی کچن میں کھڑی خاتون کو ایک بڑے دیگچے میں چمچ ہلاتے دیکھ کر افسوس کرنے لگی کہ اس بچاری کو ان سب کی وجہ سے کتنا زیادہ کام کرنا پڑہ رہا تھا تو اس نے کھانے کا ارادہ ترک کردیا اور وہاں سے جانے میں بھلائی سمجھی ۔
آیسن نے اسے گھورا اس کی گوری سے امیرہ سمجھ گیی کہ وہ کہنا چاہتی ہے " اتنی جلدی ابھی تو کھانا بھی نہیں کھایا بھوک سے برا حال ہے "
امیرہ نے اسے اگنور کیا۔
مگر بیٹا ابھی تو اپنے کھانا بھی نہیں کھایا اور۔۔۔
ابھی ان کی بات مکمل بھی نہیں ہوی تھی کہ امیرہ نے دو قدم پیچھے لیے اور میکانکی انداز میں سر پٹ باہر کو بھاگی انھوں نے دیکھا اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے
امیرہ بیٹا کیا ہوا۔
وہ بھی اس کے پیچھے جانے لگی جب آیسن نے ان کا ہاتھ پکڑ کر روکا
وہ نہیں رکے گی اس نے اسے یہاں دیکھا ہے تو وہ جب تک یہاں سے بہت دور نا چلی جائے یا کوئی اس کو مار نا دے وہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی بھی نہیں۔
کون ہے وہ جس سے وہ اتنا ڈرتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوحِWhere stories live. Discover now