عشقِ بےوجہ

238 13 5
                                    

رات کا پچھلا پہر تھا, شراحبیل گدے پر سیدھا لیٹا تھا. ہلکی سی ٹھنڈ کے باعث اسنے چادر اوڑھی ہوئی تھی. موسم سرما تو نہیں تھا مگر اسلام آباد کے موسم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا. اگست ویسے بھی کچھ خاس گرم نہیں ہوتا یہاں لیکن اس بار کچھ گرمی زیادہ ہی پڑ رہی تھی. صبح تیز دھوپ تھی اور شام اچانک سے لگی بارش اب تھم گئی تھی. مسلسل بارش اور اولوں نے موسم کو سرد کر دیا تھا. ہالف سلیو شرٹ اور گھٹوں تک کا شارٹ نکر بھی ٹھنڈ لگنے کی اک وجہ تھی. اس نے اک کروٹ لی اور چادر جھاڑتے ہوئے اپنے اوپر اوڑھی. چادر نے جونہی بازو کو چھوا اک عجیب سا احساس ہوا اور اس احساس نے اسے اضطراب کی کیفیت تک پہنچا دیا تھا. اسے یوں محسوس ہوا کہ کوئی نرم و ملائم ہاتھ اس کے بازو پر پھرے ہوں جن ہاتھوں کی حدت کو وہ اچھی طرح جانتا تھا، جن ہاتھوں کی حدت کو وہ پہلے بھی محسوس کر چکا تھا. اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے رخسار نے اسے چھوا ہو. ( رخسار : وہ لڑکی جس کے لیے شراحبیل احساسات رکھتا تھا. سچے جزبات. کہنے کو اسے محبت بھی کہ سکتے ہیں لیکن وہ اسے عشق کہتا تھا، عشق بےوجہ. )ابھی ان ہاتھوں کی حدت سے وہ پوری طرح محظوظ نہ ہوا تھا کہ موبائل فون وائبریٹ کرنے لگا. اسکے تیور بدلے اور کچھ غصے کے عالم میں اسنے فون کی طرف دیکھا، عریج، موبائل کی سکرین پر یہ نام لکھا دیکھ کر اسنے عجیب سی شکل بناتے ہوئے فون کو سائلنٹ موڈ پر لگا کر دور رکھ دیا. اور اب وہ تخیلات کی دنیا میں خود کو لے جا رہا تھا. اگر ابھی میری رخصار سے شادی ہوئی ہوتی تو ابھی یہ مستانی رات اسکے ساتھ گزرتی ناکہ اسکی یادوں کہ ساتھ. 21 برس کی عمر میں ہی وہ شادی کی خواہش رکھتا تھا اور اکثر دعا کرتا تھا کہ رخصار سے یونیورسٹی کے درمیان ہی اسکی شادی ہو جائے. ہوں تو سب اسے ایک بہت انرومینٹک( unromantic) انسان کے طور پر جانتے ہیں جسنے کبھی کوئی لو سٹوری( love story ) نہیں دیکھی نا ہی اس قسم کے گانوں میں دلچسبی تھی لیکن شاعرانہ مزاج پایا تھا اور اسکے دوستوں کے بقول اک اچھا شاعر بھی تھا جسکی غزلیں پریم کہانیاں تھی اور خدا سے محبت کا ثبوت تھیں. ایسا شخص جو رومینس( romance) سے دور بھاگتا ہو اور وہ خود اک عرصہ طویل سے اک لڑکی کے عشق میں اس قدر گرفتار ہو کہ وہ اس لڑکی کے لیے ایسے جزبات رکھے. یہ اک حیرانکن بات تھی. اپنے خیالات میں مگن، نیم نیند کے سے عالم میں بس اک بات . "جب دماغ خیالات سے خالی ہو اور دل جزبات سے خالی ہو ایسے میں محبوب کی یاد آئے تو غضب ڈھاتی ہے". لیکن یہ  لکھتے ہوئے اسنے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی خود بھی ایسی کیفیت سے گزرے گا. وہ اس کیفیت کا مزاہ بھی لے رہا تھا اور خوفزدہ بھی تھا. خوفزدہ مستقبل سے کیونکہ جیسے جزبات وہ رخسار کے لیے رکھنے لگا تھا خاص طور پر پچھلے چند ماہ میں یہ بات واقعہ ہی خوفزدہ کرنے والی تھی. رخصار وہ لڑکی تھی جسے حاصل کرنا اسکے لیے تقریباً ناممکن تھا. یہ تو سنا ہی ہوگا آپ نے کہ عشق آپ وی اولا اودے کم وی اولے جدوں پیش پے جاوے ککھ چھڈدا نی پلے. بس آج کل کچھ ایسے حالات تھے شراحبیل کے.دماغ اور دل کے ساتھ لڑتے لڑتے کب اسکی آنکھ لگی اسے کچھ خبر نہیں. شراحبیل، شراحبیل اٹھو آفس نہیں جانا کیا، ماں نے بڑے پیار سے جگایا، ناشتہ کرایا اور شراحبیل دفتر روانہ ہو گیا. آج کل یونیورسٹی سے چھٹیاں تھی تو وہ اور اسکے دوست مل کر اک سافٹویئر ہاؤس( software house ) میں کام کر رہے تھے. شراحبیل تقریباً 12 بجے دفتر جاتا اور 8بجے واپس گھر آتا اور کھانا کھا کر آدھے گھنٹے بعد دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی مخسوس جگہ پر سگریٹ پھوکتا.جس مارکیٹ میں ان دوستوں نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا وہاں 9 سے 11 قہقہوں کی آوازیں گونجتی. 11بجے واپس آتا اور سونے کی تیاری کرتا. دستور کے مطابق دن گزرا اور دستور کے مطابق پھر رات جاگ کر کٹی. آخر کیا ہے اس میں ایسا جو میں اسکے خیالات سے باہر نہیں آ سکتا. لوگوں کی نظر نیں وہ کوئ بہت حسین و جمیل تو نہیں. گندمی رنگ، درمیانہ قد لیکن اک بات تھی الگ اس میں. اسکا سلیقہ، اسکی حیا، وہ اکثر معصومانہ باتیں کرنا اور بہت کچھ. یہ وہ تمام خوبیاں  رخصار میں تھی جنکا وہ دیوانہ تھا. ابھی ڈگری مکمل کروں گا، پھر نوکری کے لیے باہر چلا جاؤں گا. پھر شاید ان یادوں سے چھٹکارا پا سکوں لیکن شاید بےسکونی اسنے اپنے لیے خود چنی تھی. " تچھے بھلا کر کھنڈر ہونا ہے مجھکو". لیکن کیا عجب کیفیت ہے یہ نہ میں اسے بھول پا رہا ہوں نہ اسے حاصلِ کرنے کا کوئ ذریعہ نظر آرہا ہے. لیکن حقیقت اسکے برعکس کچھ اور تھی. بھلانا وہ اسے کبھی چاہتا ہی نہ تھا اور حاصل کرنے سے ڈرتا تھا. رات کو دعا میں اسے مانگتا تھا اور دن میں سب دعائوں کی نفی کرتا تھا. اب اسنے برطانیہ کے اک مشہور ادارے میں کام کرنا شروع کر دیا. اپنے کام میں اچھا ہونے کے باعث کچھ ماہ میں ہی اک اہم عہدے پر فائز ہو گیا. عامدنی کا بڑا حصہ گھر بھیجتا. اسکے سٹل ہونے کے بعد والدین نے رٹارمنٹ لے لی. اب گھر کا خرچہ شراحبیل کے بھیجی رقم پر ہوتا. چھوٹا بھائی بھی اب یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور بہنیں بھی سکول جا رہی تھی. ہفتے میں دو تین دن گھر وڈیو کال پر بات کرتا. اسی طرح دو سال بیت گئے. ان دو سالوں میں عید کے علاوہ وہ پاکستان نہیں گیا لیکن تمام گھر والوں کو تین مرتبہ اپنے پاس بلا چکا تھا اور اس سال کی موسم گرما کی جھٹیاں بھی سب نے شراحبیل کے پاس گزاری تھی. ماں باپ کی دعاؤں سے آج وہ اک کامیاب زندگی گزار رہا تھا. سگریٹ کا مزید آدی ہوگیا تھا جو کافی مسائل کا باعث بن رہا تھا. خلیل میں سوچ رہی ہوں کہ اب شراحبیل کی شادی کر دی جائے. اب دوبارہ تم اس سے بہس کرو گی دوبارہ وہ چڑ جائے گا. دوبارہ وہی جواب کہ میں نے شادی کرنی ہی نہیں. آپ بار بار تنگ نہ کریں. آپ شاہذیب کی شادی کر دیں. کوئی فائدہ نہیں ہے. یامین تمہیں پتا ہے کہ وہ ذد کا پکا ہے اور ویسے بھی کیا حرج ہے جب اسکا دل کرے گا وہ کرلے گا شادی. ویسے بھی اس پر ابھی بہت ذمہداریاں ہیں. ہیلو بیٹا کیسے ہو. رسمی لیک سلیک کے بعد یامین نے مدعے کی بات کی. بیٹا اب تم شادی کر لو. اور ہر بار کی طرح شراحبیل کی اور اسکی ماں کی بہث. لیکن اس بار یامین کو بات بالکل صاف ہو گئی تھی کہ اسکا بیٹا اسکی نہیں سنے گا. ہمیشہ سے اپنی مرضی کا مالک رہا ہے اور ابھی بھی کچھ نہیں بدلا. درحقیقت وہ ابھی بھی رخصار کو بھولا نہیں تھا. "جو پورا ہو جائے وہ عشق ہی کیا". لیکن یہ بات حماد تک بھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ اگر اس قدر پاگل ہے تو اظہار کیوں نہیں کرتا. حماد کے علاوہ رخصار کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا. شراحبیل نے اسی ماہ گھر بدلا تھا. دفتر میں ترقی کے بعد ادارے نے اسے ایک بنگلا اور گاڑی دی تھی.اسکے کمرے میں اک دیوار پر صرف تصاویر لگی تھی.کہنے کو یہ اسکے دور یونیورسٹی کی تصاویر تھی لیکن اس بات پر کسی نے غور نہیں کیا کہ اس میں اک بڑی تعداد میں تصاویر رخصار کے ساتھ تھیں. یہ تصاویر رخصار کو نہ بھول پانے کی اک بڑی وجہ تھی. کئی بار تہش میں آ کر سگریٹ کے دھنوے کو ساتھ اسنے تصاویر جلائی بھی تھی لیکن جب تصاویر دل پر نقش ہو جائیں تو انہیں کیسے جلایا جا سکتا ہے. یورپ میں اب اسے پانچ سال ہو چکے تھے اور اب اسنے پاکستان واپس جا کر خود کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا تھا. والدین سے اور دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اسنے ارادہ پکا کر لیا. ریزائن دیا اور ایک ہفتہ اسنے مزے سے گزارہ. شروع سے ہی جلد گھل مل بانے اور اجھے اخلاق کے باعث اسے یہاں بھی بہت لوگ جانتے تھے اور اسکا فرنڈ سرکل کافی وسیع تھا. آفس کے بعد کلب میں اکثر جایا کرتا اور ویک انڈ پر اکثر سیر کرنے جاتا اور ہر بار یہ 10 سے ذائد لوگوں کا ٹولا ہوتا. سیروتفریح کا تو لڑکپن سے ہی شوکین تھا. اور ریزائن کے بعد اسنے اپنے دو سب سے قریبی دوست ایلیکس اور جینس کو منایا اور سات دن ملک کے پہاڑی علاقوں میں گزارے. جاتے ہوئے تمام دوستوں سے ملاقاتیں کیں اور فلائٹ والے دن آفس میں فیئرول رکھی گئی تھی جسکی وجہ شراحبیل کا دفتر میں کافی مشہور ہونا تھا. فیئرول کے بعد دوست اسے ہوائی اڈے تک چھوڑنے آئے. رات 1 بجے کی فلائٹ میں اب وہ پاکستان کے لیے روانہ ہو چکا تھا.

صوفی نامہWhere stories live. Discover now