آزمائش

109 10 1
                                    

رخصار کے شراحبیل کے لیے جزبات اور شادی کو ملتوانی کرنے کی بات سے جہاں رخصار کے منگیتر کو برا لگا تھا وہیں اسکے خاندان والوں نے بھی بہت سی باتیں ہوئی تھی اور اسکے منگیتر کے خاندان نے بھی بہت سی باتیں کی تھی اور یہی وجہ بنی کہ رخصار کی شادی ٹوٹ گئی اور رخصار کو خاندان اور گھر والوں سے بہت کچھ سننا پڑا.
لیکن ابھی وہ ان سب باتوں پر دھیان نہیں دے رہی تھی اسکے ذہن میں صرف ڈاکٹر کے کہے ہوئے الفاظ تھے.
"اسکا خیال کریں یہ دماغی اور جسمانی طور پر بہت ہی ذیادہ کمزور ہو گیا ہے. رپورٹس بھی تسلی بخش نہیں ہیں. اگر ایسا ہی رہا تو بچنا بہت مشکل ہو جائے گا اسکا. "
اسکو اب صرف شراحبیل کی فکر تھی اور تبھی اسے احساس ہوا کے وہ شراحبیل کو چاہتی ہے. اسکا خیال دماغ سے نکالنے کی ہر ناکام کوشش نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی.
وہ پورا دن ہسپتال گزارتی اس بات کی پرواہ کیے بغیر کے خاندان والے کیا کہیں گے اور کیا سوچیں گے اور بس رات میں گھر آجاتی.
دو دن بعد جب اسنے شراحبیل کو ہوش میں دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھی اور اسکے چہرے کی چمک نمایاں تھی. اسنے شراحبیل سے باتیں کی اور پھر یہ خوشخبری گھر والوں کو دی اور اسکے جزبات سے محسوس ہوتا تھا کہ جو اسنے مانگا ہو وہ اسے مل گیا ہو. لیکن دنیاوی زندگی میں خوشی عارضی ہی ہوتی ہے.
رخصار اب بس اک موقعے کی تلاش میں تھی کہ جب وہ اسے یہ بتائے کہ وہ اسے چاہتی ہے لیکن شراحبیل بڈ رسٹ پر تھا اور گھر سے باہر نکلنا اسکے لیے ممکن نا تھا. آہستہ آہستہ شراحبیل اب بہتر ہو رہا تھا اور اب پھر اسنے دفتر جانا شروع کر دیا تھا.
رخصار بھی اب شراحبیل کے دفتر کے میں ہی کام کر رہی تھی اور دونوں دن کا بڑاحصہ ساتھ گزارتے.
جلیل اور یامین نے اب یہ فیصلہ تھا کہ شراحبیل اور رخصار کی شادی کر دی جائے کیونکہ انکو اس بات کا احساس اور افسوس تھا کہ اسکی شادی شراحبیل کی وجہ سے ٹوٹی تھی. رخصار اور اسکے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہ تھا اور شراحبیل کے اعتراض کرنا بنتا نہیں تھا. حماد نے خلیل کو جس اعتماد سے بتایا تھا کہ شراحبیل کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اسکے انکار نے حماد کو غصہ دلا دیا تھا.
"اب تجھے کیا موت آئی ہے، اب کیا مثلہ ہے، اب کیا چاہتا ہے. جس کے لیے تونے ساری زندگی انتظار کیا، دعائیں کی وہ آج تجھے مل رہا ہے. اب کیا ہے. یارغصہ دلا مجھے مہربانی کر اوراب اپنا کوئی نیا فلسفہ نہ سنانے بیٹھ جائی مجھے. "
" حماد میں اسے خود شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن اسے خود حاصل کر کے، کسی سمجھوتے کے نتیجے میں نہیں "
" بھائی تو ایک کام کر کوئی چیز میرے سر میں مار دے اور مار ڈال مجھے "
" حماد ایک قسم کی زبردستی کی شادی ہے. میری وجہ سے شادی ٹوٹ گئی تو اب اسکی شادی مجھ سے کرائی جا رہی ہے "
" ہاں شراحبیل تیری وجہ سے ٹوٹ گئی، اسنے تیری وجہ سے توڑ دی کیونکہ اسنے اپنی شادی سے ذیادہ تجھے اہم جانا. اگر رو اتنا اہم نہ ہوتا تو وہ اپنی شادی چھوڑ کر تیرے ساتھ ہسپتال نہ آتی. دلہن کے جوڑے میں گھنٹوں نہ بیٹھتی. اسے تو سب سے ذیادہ اہم لگا، خود سے بھی زیادہ. "
" حماد مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا. اگر میں تیری بات مان بھی لوں تو کیا بھروسہ کب سانسیں بند ہو جائیں اور اگر میں حقیقت میں اسکے لئیے اتنا ہی اہم ہوں میں اسے تھوڑی سی خوشی دے کر مسلسل غم نہیں دے سکتا "
" زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے. تو ہی بولتا ہے کہ مایوس وہ ہو جسکا خدا نہ ہو اور اب تو خود مایوس ہو رہا ہے. ویسے بھی تو یہ بات مجھے پچھلے چار سالوں سے کہ رہا ہے. "
" حماد ڈرتا ہوں میں. اسے کھونے کا بھی ڈر ہے اور حاصل کرنے سے بھی ڈرتا ہوں. مجھے سوچنے کا وقت دے "
دوسری طرف شراحبیل کے انکار کی وجہ سے بہت ذیادہ اداس تھی. اسکی ذہن میں پچھلے چھ سال کی ہر بات آرہی تھی. اور اب وہ یہ سوچ رہی تھی کہ کیا واقع ہی وہ اسے نہیں چاہتا. لیکن وہ اب بھی اسی طرح میرا خیال رکھتا ہے. اسی طرح مجھے اہمیت دیتا ہے. لیکن پھر یہ خیال کہ اگر اصل میں ہی چاہتا ہوتا تو ڈگری کے بعد اسنے رشتہ کیوں نہیں بھیجا. اسنے میری شادی والی بات پر بھی اس میں کوئی بادلاو نہیں آیا تھا. اسے اب شاید یقین ہو رہا تھا کہ شراحبیل اسے نہیں چاہتا اور یہ خیال اسے پاغل کر رہا تھا اور اسی پاغلپن میں اسنے رات کے پچھلے پہر حماد کو فون کیا.
"حماد کیا شراحبیل مجھے نہیں چاہتا. اسنے شادی سے کیوں انکار کیا ہے بتاؤ مجھے اور پھر رو پڑی اور ساتھ ہی فون بند کر دیا. "
صبح ہوتے ہی حماد، شراحبیل کو ملا اور اسکو رات کا واقعہ بتایا جس نے شراحبیل کو پریشان کر دیا تھا. اک لمحے کے لیے اسے خوشی بھی ہوئی تھی کہ رخصار اسے چاہتی ہے لیکن پھر وہی ڈر. جو چاہا ہو اسے پانے کا ڈر. رخصار کے گلزار سے دل کو فنا کرنے ڈر. لیکن پھر خیال آیا کہ اسکا فیصلہ جو بھی ہو گلزار کو فنا ہونا ہی ہے. اب وہ اس ڈر سے چھٹکارا پانا چاہ رہا تھا. وہ چاہتا تھا کہ اس گلزار کو اب کھلنے دینا چاہیے اور پھر اک دن دفتر سے کھانے کے کے لیے وہ رخصار کو باہر لے گیا.
" رخصار میں نے تمہیں اس وقت سے چاہا ہے جب مجھے عشق اور محبت کے معنی نہ معنی پتا تھے نہ ہی پہچان تھی. مجھے تو تب یہ بھی نہیں پتا تھا کہ کسی بلا کا نام عشق بھی ہوتا ہے.
مجھے ہمیشہ سے ڈر رہا ہے. ڈر تمہیں کھونے کا کیونکہ اک دفعہ پہلے کھو چکا تھا میں پہلے اور پھر یہ ارادہ کر لیا تھا کہ دوبارہ کبھی اپنا عشق نہیں جتاؤں گا اور تم بھی یوں آنکھیں بند کیے دنیا میں مشغول رہی کہ تمہیں ساتھ چلتا ہوا میں اور میری کوئی بھی کوشش نظر نہیں آئی.
مجھے دوسری طرف تمہیں پا لینے کا بھی ڈر تھا. اگر تمہیں پا لیا تو کیا ہوگا. میں بیمار رہتا ہوں اور اگر تم مجھ سے محبت کرنے لگ جاؤ اور ہماری شادی ہو جائے اور میں مر جاؤں تو پھر کیا. کیوں میں تھوڑی سی خوشی کے لیے تمہیں مسلسل غم میں مبتلا کروں. اور میں نے اس ڈر کو طاقت بنائے رکھا رھا اپنی اور اسی لیے میں نے ڈگری ختم ہونے پر تم سے شادی کی بات نہیں کی تھی. “
" دیکھو شراحبیل مجھے اپنی ہر غلطی کا احساس ہے. مانتی ہوں کہ انجانے میں ظلم کیا ہے میں نے تم پر لیکن جب تم نے ڈگری کے بعد شادی کی بات نہیں کی تو مجھے لگا کہ تم اب شاید وہ جزبات نہیں رکھتے."
"ارے تمہیں تو میں نے کبھی قصور وار کہا ہی نہیں تم تو معصوم ہو. "
" دیکھو شراحبیل پرانی باتیں بھول جاؤ. میں تمہیں چاہتی ہوں اور اب تم شادی کرکے تھوڑی سی خوشی کے بعد مسلسل غم دو یا خوشی دیے بغیر مسلسل غم دو تمہاری مرضی. "
رخصار کی اس بات نے شراحبیل کو پریشان کر دیا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ اب رخصار سے شادی کرے گا.
اگلے ہفتے دونوں کی منگنی تہ پا گئی اور اسکے ایک مہینے بعد شادی. منگنی کی خریداری دونوں نے اکٹھے جا کر کی تھی. دونوں ایک دوسرے کی پسند نا پسند سے واقف تھے. وہ اک ہفتہ دونوں نے خوشی خوشی گزارا تھا. منگنی کے فوراً بعد ہی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھی. شراحبیل کی شادی کو ارمان اسکے پورے خاندان کو تھا. شراحبیل اپنے خاندان کا بڑا تھا اور سارا خاندان اپنے ارمان پورا کرنا چاہتا تھا. پورا ماہ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں چلی اور پھر وہ دن آگیا کہ جب دو روحوں نے مل جانا تھا. مل تو پہلے ہی گئے تھے، دونوں روحوں نے جڑ جانا تھا.
"شراحبیل بن خلیل تمہارا نکاہ رخصار بنت رفاقت سے 5لاکھ روپے حق مہر کے عوض تہ کیا جاتا ہے کیا تمہیں قبول ہے. "
یہ وہ جملے تھے جنہیں سننے کے لیے اسنے سالوں مسلسل آزمائش میں گزارے تھے.
" رخصار  بنت رفاقت تمہارا نکاہ شراحبیل بن خلیل سے 5لاکھ روپے حق مہر کے عوض تہ کیا جاتا ہے کیا تمہیں قبول ہے. "
" قبول ہے "
کیا تمہیں قبول ہے. "
" قبول ہے "
کیا تمہیں قبول ہے. "
" قبول ہے "
جب یہ تین الفاظ اسکے کانوں میں پڑے تو اسے یوں لگا تھا کہ اب اسکی زندگی کی ہر خواہش پوری ہوگئی ہے.
شراحبیل کا ہر ڈر دور ہو گیا.
دونوں کے رشتے اتار چڑھاؤ ضرور آئے مگر دونوں نے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے. شراحبیل اور رخصار کی کہانی جس جس کو پتا تھی وہ شراحبیل کے عشق کی مثال ضرور دیتا تھا. دنیا کی نظروں میں رخصار سے ذیادہ خوش نصیب کوئی نہ تھا. جسکا شوہر کامیاب کاروبار کا مالک تھا. جسکا شوہر اسے بے حد چاہتا تھا.

"جو پورا ہو جائے وہ عشق ہی کیا،  عشق تو لا محدودی کا نام ہے. اور اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ عشق، عشق یوتا ہے. عشق بیان نہیں کیا جا سکتا. وہ دن میں ہزار دفعہ رخصار سے عشق میں مبتلا ہوجاتا. بار بار عشق میں مبتلا ہوتا. دن بدن اسکا عشق بڑھتا گیا. اسکو اسکی ایک ہی ادا سے ہر روز عشق ہو جاتا. رخصار اب بھی ویسے ہی معصوم تھی اور شراحبیل اب بھی ویسا ہی دیوانہ.
شراحبیل اب خوش تھا اور اپنی زندگی کو مکمل سجھ رہا تھا لیکن مکمل تو کبھی کچھ نہیں ہوتا.
شراحبیل کی مکمل سی زندگی میں اس وقت بدلاو آیا جب شادی کے  ایک سال بعد رخصار کی اک حادثے میں موت ہو گئی اور اس صدمے کا اثر اور اسکی کی یادوں کو وہ تا حیات اپنے ساتھ لیے گھومتا رہا.
اسنے دوبارہ شادی نہیں کی. اسکو اپنی بیٹی آیت میں ہی رخصار مل گئی تھی. جسے وہ بے پناہ چاہتا تھا. اس چھوٹی سی بچی کی مسکراہٹ اور معصومیت اسے ہمیشہ رخصار کی یاد دلاتی. آیت اب شراحبیل کا اک لوتا سہارا تھی. چھوٹا بھائی امریکہ میں نوکری کر رہا تھا اور بہنوں کی بھی شادی کر چکا تھا. رخصار دو سال کی تھی کہ جب خلیل کا انتقال ہوا اور اس صدمے کو یامین برداشت نہ کد پائی اور وہ بھی چل بسی.
بس اب اک ہی سہارا تھا شراحبیل کا، آیت.
شراحبیل کی کائنات تھی آیت. شراحبیل کا عشق تھی آیت. 
اپنی زندگی کا کل اثاثہ اسنے یوں لکھا کہ "عشق تو لا محدودی کا نام ہے".

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Nov 09, 2016 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

صوفی نامہWhere stories live. Discover now