ملک کی بہترین آئی ٹی ادارے میں داخلہ ہو جانے کے بعد شراحبیل، حماد اور ولید نے خوب جشن منایا تھا. ولید، شراحبیل کا 2 سال پرانا دوست تھا جس سے اسکی دوستی اکیڈمی میں ہوئی تھی اور ان دو سالوں میں دوستی کافی گہری ہو گئ تھی.
لیکن یونیورسٹی جاتے ہوئے شراحبیل اور حماد نے کبھی نہ سوچا تھا کہ انکی زنگی میں اتنا بدلاو آئے گا. دونوں کا الگ الگ سکشن میں رولنمبر آیا. پہلے ہفتے میں حماد کا 3 لڑکوں کے ساتھ گروپ بن گیا اور شراحبیل کی کلاس کا گرپ 3 لڑکیوں اور 3لڑکوں پر مشتمل تھا. پہلے ہی ہفتے میں شراحبیل اور حماد کی اک دوسرے کے دوستوں سے بھی دوستی ہوگئی تھی اور پہلے ہی سمسٹر میں وہ ہوا جس سے دور رہنے کی دونوں قسم کھا کر آئے تھے. محبت ، اور دوسرے سمسٹر کے آخر تک وہ عشق میں بدل چکی تھی. دونوں نے اک دوسرے سے اسکا کبھی ذکر نہیں کیا تھا.
شراحبیل کو عشق ہو گیا تھا مگر وہ اس احساس کو جھٹلاتا، خود کو سمجھاتا لیکن جب تیسرے سمسٹر کا اختتام ہوا تو وہ جان چکا تھا کہ یہ عشق ہی ہے.
اور چوتھے سمسٹر میں عالم یہ تھا کہ باتیں طویل ہوگئی تھی اسکے اور رخصار کے درمیان. جہاں دیکھتا کہ اب بات کرنے کو کچھ نہیں تو اک نیا ٹاپک ڈھونڈ لیتا. قریب رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتا. شاید رخصار بھی اب آہستہ آہستہ اسکے قریب آرہی تھی. دوسرے سمسٹر سے ہی وہ اس سے ہر بات کھل کر کرتی تھی اور ہر بات شئر کرتی تھی. لیکن اس بار اسنے انتہائ پرسنل چیزیں اور گھر کے مسائل بھی بتانا شروع کر دیے تھے. شراحبیل کی سوچ یہ تھی کہ کوئی لڑکی ایسا تبھی کرتی ہے جب وہ کسی پر اعتبار کرتی ہے اور وہ معصوم، معصوم ہی کہوں گا کیونکہ عاشق معصوم ہی ہوتا ہے، وہ معصوم اسے محبت سمجھ رہا تھا. رات کو جو دیر رات تک گفتگو ہوتی تھی وہ اب مزید طویل ہوگئی تھی. کب رات سے صبح ہو جاتی دونوں اس بات سے بےخبر تھے. رخصار اس سے بات کرتے کرتے سونے کی اب عادی ہو چکی تھی اور شراحبیل کو یہ بھی اک ادا لگتی تھی. پھر یہ گفتگو رات کو ٹکسٹ مسجز( text messages) سے فون کال پر ہونے لگ گئ تھی اور شاید اب رخصار اسکی آواز کی عادی ہو گئ تھی اس سے بات کیے بغیر وہ سو نہیں پاتی تھی. دونوں فون پر لمبی باتیں کرتے اور رخصار اس سے بات کرتے کرتے سو جاتی. در حقیقت رخصار کو شراحبیل کی عادت ڈل رہی تھی اور دل ہی دل میں اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ اس سے دور نہ ہو جائے جیسے اک سال پہلے اک دم سے ان میں اک جھگڑے کی وجہ سے وہ اس سے دور ہوگیا تھا. دونوں نے موسم گرما کی پوری چھٹیوں میں اک دوسرے سے کوئ بات نہ کی تھی. یعنی کہ رخصار کے لیے وہ اس وقت بھی اہم تھا. دونوں اک دوسرے کو اس وقت سے پسند کرتے ہیں.
شراحبیل کی کئی لڑکیوں سے دوستی تھی اور یونیورسٹی میں اک وسیع فرنڈ سرکل کی وجہ سے کافی مشہور تھا. اسنے کبھی کسی لڑکی کو دوست سے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا. لیکن سب ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا. عریج کو اس سے اب محبت کو گئی تھی. عریج اور شراحبیل کی دوستی اک شوشل ایپلیکیشن کے ذریعے ہوئی تھی. دوستی کی وجہ ہمیشہ کی طرح شراحبیل کا متاثر کرنے والے الفاظ تھے. دونوں آپس میں کافی بات کرتے لیکن اس سب کے درمیان شراحبیل اس بات سے بےخبر تھا کہ عریج اس سے محبت کرنے لگی ہے بالکل ایسے ہی جیسے رخصار بےخبر تھی شراحبیل کی محبت سے. عریج کی محبت کا اسے اس وقت پتا چلا جب اک شام وہ دونوں موبائل پر گپیں ہانک رہے تھے اور عریج نے اس سے محبت کا اظہار کر دیا. شراحبیل نے نہ کبھی اس سے ایسی بات کی تھی جس سے عریج کو ایسا لگے کہ وہ اسے پسند کرتا ہے. اسی ششو پنج میں اس نے عریج کی بات کو مزاخ میں ٹال دیا اور کال کاٹ دی اور اسکے بعد دل پر اک بوجھ لیے رات گزاری.
اسلام علیکم، وعلیکم السلام... لیک سلیک اور ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد شراحبیل نے عریج کو اپنا جواب بتایا. " کیا ہم دوست بن کر نہیں رہ سکتے"
" رہ سکتے ہیں لیکن تم. مجھے میرے جزبات کے اظہار سے روک نہیں سکتے "
" لیکن اس سے ہماری دوستی پر اثر پڑے گا، کیا لڑکا لڑکی صرف دوست نہیں رہ سکتے، تمہیں ازل سے معلوم ہے میں اس طرح کے تعلق کے سخت خلاف ہوں، رہنا چاہتی ہو تو بطور دوست رہو ورنہ کل کی بجائے آج دوستی توڑ دو. "
کچھ دنوں بعد شراحبیل نے اسکی کالز کا جواب دینا چھوڑ دیا جسکی وجہ شراحبیل کی آوازاری تھی. جب بھی کوئی وہ ہر چیز کرتا تھا جس سے وہ چڑتا ہو وہ اس شخص سے عاجز آجاتا تھا اور آوازار ہو جاتا تھا. شراحبیل کی اک ہی ذد تھی کہ" Don't teach me how to live " مجھے جینا مت سکھاؤ.
وہ اپنی ہر اس دوست سے چڑتا تھا اور اکثر جھگڑتا تھا جو اسے اک لمبی تقریر سناتی تھی. اک انتہائی بےحس انسان، بےحس اپنی ذات سے.
وہ اب خوفزدہ ہو رہا تھا عریج سے. اک دم اسنے اپنی ہر دوست سے دوستی ختم کر دی بنا وجہ بتائے. لیکن وجہ اسکا فطوری عشق تھا. اسکے نزد یہ غلط تھا کہ وہ کسی بھی اور لڑکی سے بات کرے سوائے دو سے تین سب سے قریبی دوستوں کے وہ اب سب سے بات کرنا چھوڑ چکا تھا.
"کاش جسے عشق کیا جائے وہ بھی اتنی آسانی سے چھٹ جاتا ہوتا. " اچانک اک خیال آیا اور پھر فورن ہی نفی کردی یہ سوچ کر کہ جینے کو سہارا بھی تو چاہیے. اور پھر اک رات پھر اسی عجب کیفیت میں گزری. اسے دیکھے اک عرصہ ہو گیا ہے، بات بھی کم کم ہوتی ہے. میں اگی مسج نا کروں تو اسکا مسج تو کبھی نہیں آیا. کیا اسے میرے لہجے سے اسکے آگے بےبس ہونے سے کیا اسے میری کسی بھی بات سے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں چاہنے لگا ہوں اسے. پھر خود ہی اسکی وکالت بھی کہ معصوم ہے ابھی بہت. عشق بھی اچھے بھلے انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے.
رات کو گھر کے بزدیک اک پارک میں بیٹھ کر سگریٹ پھوکتے ہوئے اسنے حماد کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا.
وہ تجھے ہر بات بتاتی ہے. تم رات کو کال پر بھی بات کرتے ہو. وہ تجھ پر اب اعتبار کرتی ہے.
لیکن ہمیشہ آغاز میں نے کیا ہے. وہ اعتبار کرتی ہے اور کچھ نہیں.
یار تو پاگل ہے لڑکیاں کبھی اظہار نہیں کرتی اور رخصار تو بھولی سی ہے اسے خود معلوم نہیں کہ وی محبت کرتی ہے تجھ سے. یود کر پچھلی گرمیوں کی چھٹیوں میں جب تونے اس سے بات کرنا چھوڑا تھا وہ کیسی ہو گئ تھی.
نہیں حماد اسے صرف عادت تھی اور کچھ نہیں.
بچوں والی باتیں با کر میں بتا رہا ہوں کہ وہ بھی چاہتی ہے تجھے. اظہار کر دے اس سے.
رات ساری پھر اسی کشمکش میں گزری.
پھر رات کو حماد سے بات کی
یار اگر وہ چاہتی ہوتی تو کبھی تو اسکے الفاظ سے اور اسکے لہجے سے لگتا مجھے بھی ایسا.
اسکا مطلب تس یہ ہوا کہ تیرے الفاظ بھی کمزور ہیں جو وہ ان میں محبت نہیں دیکھ پا رہی. یہ سب تیرے ذہن کا فطور ہے.
رخصار اور شراحبیل اب پہلے سے بھی زیادہ بات کرنے لگ گئے تھے اور زیادہ بات کرنے کی وجہ سے کئی بار دونوں جھگڑ پڑتے. رخصار اکثر ایسے الفاظ استعمال کرتی جنہیں اسکا شراحبیل کی طرف جھکاؤ کہا بھی جا سکتا تھا اور نہیں بھی.وعدے کے مطابق وہ اک روز رخصار کو کھانا کھلانے لے گیا اور راستے میں بہت سی ایسی باتیں ہوئی جنہوں نے شراحبیل کو کشمکش میں ڈال دیا. مثلن رخصار کا گاڑی دوسری گاڑیوں سے دور الگ گاڑی پارک کروانا اور تقریباً آدھ گھنٹا گپیں یانکنا اور وہ بھی عشق کے موزوع پر. خیر جیسے تیسے دن کٹا اور رات آئی. رخصار نے پہلی بار خود مسج کیا اور رات کو کال کی. عمومن لکھ کر تھک جانے کی وجہ سے وہ اسے کال کرتا تھا. باتیں چلتی رہی اور شادی پر آگئی.
میرا کوئی ارادہ نہیں میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا.
مجھ سے بھی نہی کرو گے. اب اس بات کو مزاق بھی سمجھا جا سکتا تھا اور نہیں بھی. مزاق سمجھتے ہوئے اسنے جواب دیا کہ کیوں کیا خاص ہے تم میں. بےشک وہ اسکی ہر خوبی سے واقف تھا. باتیں چلتی رہی اور رخصار سو گئ اور شراحبیل جاگتا رہا. اسکی سانسوں کی آوازیں سنتا رہا. کہیں پاگل نا ہو جائوں یہ سوچ کر اسنے فون بند کر دیا اور اک اور رات جاگ کر کٹی. یہ تقریباً دسویں لگاتار رات تھی جو اسنے جاگ کر گزاری تھی.
دونوں کا پھر ملاقات کا ارادہ بنا اور پھر دونوں کا سفر بالکل ویسا ہی گزرا. لیکن اب شراحبیل وہ کر بیٹھا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا