رخصار نے تب حماد کو اسکا رشتہ تہ پانے کی خبر دی جب وہ دونوں چائے پر ملے تھے.
لیکن شراحبیل تمہیں بے انتہا چاہتا ہے، چھ سال سے. کوئی کم وقت نہیں ہوتا. چاہتا تو کسی بھی امیر اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لیتا لیکن نہیں اک نام، اک مسکراہٹ، اک کردار، اک شخص اسے اتنا پسند آیا کہ پہلے اسنے اسے دل میں بسایا اور پھر سر پر سوار کر لیا.
یہ سب اسنے رخصار کو من ہی من بولا تھا کیونکہ رشتہ تہ پا جانے والی بات جس مسکراہٹ سے اسنے بتائی تھی کہ حماد کچھ کہ ہی نا پایا اور اک سوچ میں پڑ گیا.
کیا ہوا حماد کہاں گم ہو گئے، تم نے بھی کوئی اہم بات کرنی تھی.
ہاں بس تمہیں بتانا چاہ رہا تھا کہ شراحبیل بیمار رہنے لگ گیا ہے. دوا اور پرہیز، دونوں سے دور بھاگتا ہے سوچا تم سے بات کروں کیونکہ تم اسکے بہت قریب ہو اور تمہاری کوئی بات ٹالتا بھی نہیں ہے وہ.
اسنے بتایا نہیں مجھے، ہاں سمجھاؤں گی اسے میں اور ہاں آخری بار جب ملی تھی بیمار لگ رہا تھا کافی وہ، میں نے پوچھا تو کہ دیا کہ کام کی وجہ سے تھکاوٹ ہے بس.
دونوں نے ادھر ادھر کی باتیں کی اور روانہ ہو گئے.
حماد کے علم میں نہیں تھا کہ شراحبیل، رخصار کے رشتہ تہ پا جانے والی بات سے واقف ہے. حماد کے بتانے پر اسنے کوئی خاص ردے عمل نہیں ظاہر کیا. حماد حیران ہو کر اک بار پھر دھاڑا، رخصار کا رشتہ ہو گیا ہے اور تو اسی طری شرابی نما شکل لے کر بیٹھا رہ.
مجھے پتا ہے وہ مجھے بتا چکی ہے. کیا کروں اب؟ ہیں تیرے کندھے پر سر رکھ کر روؤں. پتا ہے مجھے. ازل سے علم تھا کہ یہ دن دیکھنا ہے اور ازل سے میں اس دن کے لیے تیار تھا.
اچھا تیار تھا تو. کب بتایا اسنے تجھے؟ ہفتہ پہلے نا اور تبھی سے تو ایسی عجیب باتیں اور حرکتیں کر رہا ہے. بول، جو دل میں ہے نکال.
حماد میں نے خود کو پچھلے چھ سال سے اس دن کے لیے تیار رکھا تھا. تیار کیا تھا خود کو. ازل سے جانتا تھا میں لیکن، لیکن جب اسنے بتایا تھا نہ کہ رشتہ تہ ہو گیا ہے میرا، اک دفعہ دل کیا تھا کہ بتا دوں اسے سب صاف کہ بس اب اور نہیں. دل رو پڑا تھا میرا اور اک دفعہ یوں لگا تھا کہ دل کا دورہ پڑے گا.احساس ہوا تھا کہ جس امتحان کے لیے خود کو چھ سال تیار کیا اس میں، میں بری طرح ناکام ہو چکا ہوں. وہ میری تھی ہی نہیں کبھی حماد پھر بھی پاگل بنا کر رکھا خود کو. معلوم تو ازل سے تھا کہ ہم ہمراہی تو بن سکتے ہیں لیکن منزل ہمیشہ جدا ہی ہوگی. کیا بتاؤں تجھے کہ جو میرا تھا ہی نہیں اسے کھو کر کیسا لگا مجھے اور جب اسکا نکاح ہوگا تب کیا ہوگا. حماد، شراحبیل کو اسنے ریزہ ریزہ کر دیا تھا سالوں پہلے، شراحبیل ریزہ ریزہ جی رہا تھا اور اب اس خبر نے چکناچور کر دیا ہے مجھے.اب اس سے زیادہ کیا ہوگا حماد.
وہ بولتا گیا اور حماد اسے سنتا گیا. حماد کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہے اور کیسے سمجھائے.
کچھ شراحبیل بیمار تھا اور کچھ اس خبر نے اسے زندگی سے بے دل کر دیا تھا. اب کاروبار حماد سنبھال رہا تھا اور شاہذیب کی شادی کی بات چل رہی تھی اور رخصار کے نکاہ میں اب ایک ماہ باقی تھا اور چند دنوں میں شاہذیب کی بھی بات پکی ہونی تھی.لیکن کچھ ایسا ہوا کہ نا شادی ہو پائی نہ رشتہ پکا ہوا.اچانک طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے شراحبیل کو ہسپتال منتقل کیا گیا. اسے اس وقت شدید چکر آنا شروع ہو گئے جب وہ رخصار کی بارات پر کھڑے امام صاحب کو آتے دیکھ رہا تھا. وہ دلہا، دلہن کے پاس ہی کھڑا تھا اور جب وہ چکرا کر گرا تو سب سے پہلے رخصار ہی اس تک پہنچی تھی. سب لوگ جمع کو گئے اور پانی گرا کر کوش میں لانے کی کوشش کی گئی لیکن اسے ہوش نہیں آیا.
اچھی بات ہے نہیں آیا کیونکہ نکاح کا منظر اس کے لیے برداشت سے باہر ہونا تھا. شراحبیل اب کافی دماغی کمزوری کا شکار ہو گیا تھا اور چکر آنے کی وجہ یہی تھی. ڈاکٹر یہاں اک زندگی بچا رہے تھے جس میں زندگی نام کی کوئی چیز بچی ہی نہیں تھی اور دوسری طرف دو زندگیاں جڑ رہی تھی.
شراحبیل کو دو دن بعد جب ہوش آیا ہو تو ماں باپ اور تمام رشتہ داروں کو وہاں موجود پایا. ماں اشکبار ہے، باپ بھی آنسو چھپانے میں ناکام ہے، بھائی پاس بیٹھا کچھ پڑھ رہا ہے اور بہنوں کا دل کا عالم بیان نہیں کیا جا سکتا.
اسکا دل گھبرا سا گیا اور اچانک سے بول بیٹھا کہ ابھی نہیں مرتا میں، خدا گناہگاروں کو جلدی نہیں بلاتا. سوگ کو اگلی تاریخ تک کے لیے ملتوی کیا جائے.
سب ہلکا سا ہنسے، آنسو پوچھے اور چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ، ساتھ آکر کھڑے ہو گئے. ماں سینے سے یوں لگی تھی جیسے کہ کائنات میں اس سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیں. ڈاکٹرز آئے، معائنہ کیا گیا اور کچھ دیر بعد حماد کے ساتھ رخصار کمرے میں داخل ہوئی. رخصار کے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی کہ سکتا تھا کہ وہ رات بھر نہیں سوئی. وہ ناشتہ لے کر آئی تھی.
وہ رات بھر سو نہ پائی تھی اور صبح ہوتے ہی ہسپتال آگئی تھی. شراحبیل کی طبیعت خراب ہونے کے باعث رخصار کی شادی کو 3 دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا. جسکی وجہ رخصار تھی. رخصار کے تمام گھر والے شراحبیل کو شروع سے جانتے تھے اور انہوں نے رخصار کے اس مشورے کو فوراً مان لیا.
رخصار دو دن سے ہسپتال ہی تھی اور رات میں گھر جاتی تھی اور دو راتوں سے وہ سو نہیں پائی تھی. بےچینی میں اسنے دو دن گزارے تھے. کمرے میں داخل ہوتے ہی جب اسنے شراحبیل کو ہوش میں دیکھا تو وہ کھل سی اٹھی.
اب کیسا محسوس کر رہے ہو.؟ کتنا ڈرا دیا تھا تمنے تمہیں اندازہ بھی ہے.؟ کیا چاہتے ہو تم بتانا ذرا. عجیب شخص.
شراحبیل نے ان باتوں کا کوئی جواب نا دیا اور صرف مسکرایا. دو دن ہسپتال میں اور گزارنے کے بعد وہ گھر آیا اور اگلے دن ہی شاہذیب کی بات پکی کر دی تھی. لیکن رخصار کی شادی نہ ہو پائی .
رخصار کے شراحبیل کے لیے وہ جزبات دیکھ کر اور شادی ملتوی کرانے پر اسکے منگیتر نے رشتہ ختم کر دیا تھا لیکن رخصار کو اسکا کوئی غم نہ تھا. رخصار کو ابھی تک اس بات سے کسی نے آگاہ نہیں کیا تھا کہ وہ شراحبیل کو چاہتی ہے لیکن اب اسے خودی احساس ہو گیا تھا. اور وہ خود کو اب خوش قسمت سمجھ دہی تھی. لیکن کسی کو چھ سال ازمانے کے بعد اسے خوشی اتنی آسانی سے کیسے مل جاتی.