پاکستان پہنچنے پر پورے خاندان نے شراحبیل کا استقبال کیا. جغرافیائی بادلاو کی وجہ سے ایک دن اسنے آرام کر کے گزارا. کچھ دن دوستوں سے ملاقاتیں کی اور پھر کاروبار کی تیاریوں میں جڑ گیا.شہر کی اک پوش علاقے میں اسنے اپنا دفتر کھولا اور دوستوں کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیا. حماد ہمیشہ کی طرح اسکے ساتھ تھا. اسی درمیان اک رات آفس سے واپس آتے ہوئے جس میں ابھی مرمت چل رہی تھی حماد نے گاڑی اک پر سکون جگہ پر روک دی. دونوں نے سگریٹ پھوکنا شروع کیا اور اسی بیچ حماد نے اسے شادی کا مشورہ دیا. یار تو اب شادی کر لے تیری امی بھی بیمار رہتی ہے انہیں مدد ہو جائے گی ویسے بھی اور کتنا پیسا کمائے گا. ماشاءاللہ کامیاب زندگی ہے تیری اور اب انشاءاللہ یہ دفتر بھی چل پڑے گا. مان لے میری بات شادی کر لے. دیکھ حماد امی کی مدد کے لیے ملازم ہیں اور ابھی میرا دھیان اس دفتر کی طرف ہے اور اس میں دو تین سال گزر جائیں گے. شاہزیب کی شادی کرنے کی سوچ رہا ہوں اور اسکے بعد ابھی دونوں بہنوں کی ذمہداریاں بھی ہیں. اور تجھے تو پتا ہے میری زندگی میں شادی کی گنجائش نہیں، میں نے تو شادی کرنی ہی نہیں. ہاں لیکن شادی کے کارڈ پر شراحبیل وڈز رخصار لکھا ہو تو گنجائش فورن نکل آئے گی. حماد نے طنزیہ انداز میں کہا. مجھے پتا ہے تیری شادی نہ کرنے کی وجہ وہی ہے اور کوئی نہیں. پاگل تو اسے بتا کیوں نہیں دیتا. کیا کروں گا اسے بتا کر. تجھے تو ساری کہانی پتا ہے. تجھے پتا ہے کہ ناممکن ہے یہ. اور ابھی تک تو شادی ہو گئی ہوگی اسکی. نہیں نا یہ ناممکن ہے اور نہ اسکی ابھی شادی ہوئی ہے. کیوں اسنے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی. اب یہ نہ کہ دینا تو کہ تیری وجہ سے. جس بھی وجہ سے نہیں کی لیکن اسنے شادی نہیں کی. اور خود کو باہر نکال اس دماغی مرض سے. جن وجوہات کی بنا پر سب ناممکن تھا وہ وجوہات اب ختم ہو گئی ہیں. اب تو اس سے اظہار کر دے. کوئی پاگل ہوگی جو انکار کرے گی. تیرے پاس ایک ہفتہ ہے. تو بول دے ورنہ میں بول دوں گا. حماد پاگل نا بن. تجھے بھی پتا ہے اسے نہ بتانے کی سب سے بڑی وجہ میری بیماری ہے اور ویسے بھی آج کل کب طبیعت ٹھیک ریتی ہے. کوئی پتا نہیں اگلے ہفتے تک رہوں یا نہ رہوں. چھوڑ اس موزوع کو تو بھابھی کی سنا. تجھے تو من چاہا مل گیا نا. خوش رہ. بحث چلتی رہی اور اسکا کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن حماد نے ٹھان لی تھی کہ رخصار اب اس بات سے بےخبر نہیں رہے گی. یورپ میں رہنے کے باوجود شراحبیل اور رخصار اک دوسرے سے بات کرتے رہے تھے. شراحبیل نے ٹھانی تھی کہ یورپ جا کر اس سے بات نہیں کرے گا لیکن وہ خود کو روک نہ پایا تھا. پاکستان واپسی پر رخصار ہوائی اڈے ضرور آئی تھی لیکن اسکے بعد دونوں کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ہاں لیکن دونوں فون پر اب بھی نات کرتے تھے. شراحبیل اپنے اور رخصار کے درمیان ہوئی گفتگو کا ذکر حماد سے کرتا تھا. اس سب صورتحال کے بعد حماد کو پہلی بار لگا تھا کہ رخصار بھی شراحبیل کو چاہتی ہے. اور اسنے رخصار کو سب بتانے کی ٹھان لی تھی. حماد نے رخصار کو کافی کے بہانے بلایا. دونوں اسلامآباد کی مشہور کاف شاپ پر بیٹھے. ادھر ادھر کی باتوں اور لمبی تمہید باندھنے کے بعد اسنے رخصار کو سچائی سے آشنا کرایا. اور اسکے بعد جس بات سے حماد آشنا ہوا وہ چونکا دینے والی تھی. حماد نے رخصار کو گھر چھوڑا اور سیدھا شراحبیل کے گھر پہنچ گیا اور اس پر بہت غصہ ہوا. ارے کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں ہے. جو بھی ہے بیٹھ، بیٹھ کر بات کرتے ہیں. اور پھر شراحبیل نے حماد کے سارے گلے شکوے دور کیے. شراحبیل اب خاصا بیمار رہنے لگ گیا تھا. اسلامآباد آئے اسے ایک سال ہو گیا تھا اور اسکا کاروبار بھی کامیاب تھا جسے حماد سنبھال رہا تھا. رخصار بھی اس اکتوبر میں شادی کر رہی تھی. حماد کے نزدیک شراحبیل شاید اسی خبر کا صدمہ لے گیا ہے لیکن دراصل شراحبیل نے خود کو اس خبر کے لیے پچھلے پانچ سالوں سے تیار رکھا ہوا تھا. اسکو اس بات کا نہ صدمہ تھا نہ غم. بس اس انسان کی قسمت پر رشق کر رہا تھا جس سے رخصار کی شادی ہو رہی تھی. رخصار نے یہ خبر خود بھی شراحبیل کو سنائی تھی اور اس خوشی کے موقع پر وہ اسے کھانا کھلانے بھی لے گئی تھی. رخصار آج بھی ویسی ہی تھی. ویسے ہی باحیا اور معصوم اور اب بھی وہ گھر میں اور دوستوں سے ہونے والی وہ ہر بات شراحبیل کو بتاتی تھی اور اسی بے تکلفی سے شراحبیل کا اکثر ہاتھ پکڑ لیتی تھی. شراحبیل کبھی نھی اسکے ہاتھوں کی حدت کو نہیں بھول پایا تھا بےشک اسنے پانچ سال ملک سے باہر گزادے تھے لیکن اب بھی وہ ان ہاتھوں کی حدت سے اچھی طرح واقف تھا. شراحبیل کی راتیں اب بھی ویسی ہی گزر رہی تھی. کچھ بیماری نے تنگ کیا ہوا تھا کچھ روگ نے جھلا کیا ہوا تھا. اور اب اسنے رخصار سے بات چیت کرنا کم. کر دی تھی جسکی وجہ اسکا اکثر بیمار رہنا تھا. تقریباً چھ سال سے ذیادہ کا عرصہ بیت گیا لیکن زندگی اسکی ابھی بھی اتنی ہی نے سکون تھی. اسی طرح رات میں سمندر اور دن میں چٹان تھا شراحبیل. اسی طرح رات میں رو کر اسے مانگتا تھا اور دن میں ہر دعا کی نفی کرتا تھا. آج چھ سال بعد بھی شراحبیل بے سکونی کا شکار تھا.