chapter 1

1.1K 44 4
                                    

تائی اماں نے اسے حسین کے کپڑے دے کر حسین کے کمرے میں بھیجا تھا ابھی وہ کپڑے رکھنےکے لیے الماری کھول ہی رہی تھی کہ حسین کے کمرے کا پچھلا دروازہ کھلنے کی آواز آئی جس کا دروازہ لان کی طرف کھلتا تھااس کے ہاتھ رک گئے اس دروازے سے حسین تب آتا جب اس کے ساتھ کوئی کلائنٹ یا پھر دوست ہوتا۔
اللہ جی یہ سب کیا ہو گیا ہلاکو آ گیا اور اپنے کسی کو ساتھ لے آیا اب آپ ہی بچا لینا ۔اس نے سوچا اور دوپٹہ سیدھا کیا پیچھے مڑ کے دیکھنے کی ہمت اس میں نہ تھی
وہ اپنے بزنس پارٹنر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا کہ اچانک نظر الماری ک طرف گئی تو وہ ٹھٹک گیا
حباء ۔اس نے آواز دی وہ ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑی
جاؤ اور جا کر چائے بھیجنا اس نے مسکرا کر اسے چلتا کیا اس کے کمرے سے نکلنے کی دیر تھی کہ اس نے دوڑ لگا دی اور سیدھا حمیر کے پاس جا کر بریک لگائی
حوصلے سے آپی۔حمیر نے اسے دیکھتے کہا
وہ صوفہ پر بیٹھ کر سانس بحال کر رہی تھی
خیریت کہاں سے ہو کر آ رہی ہے ؟؟۔حمیر نے کافی پیتے ہوئےسوال کیا
تمھارے بھائی کے کمرے سے ہو کر آ رہی ہوں ۔اس نے سانس بحال کرتے ہوئے کہا
ابھی میں کمرے میں گئی ہی تھی اوپر سے ہلا کو خان آگیا اپنے دوست کے ساتھ ۔---اس نے ساری روداد سنائی---
مطلب ڈانٹ پڑنے کے چانسز ہے جب ڈانٹ رہے ہو گے تو میری طرف بلکل نہ دیکھیے گا میں کوئی نہیں بچانا مجھے خود ابھی پرسوں ڈانٹ پڑی ہے سو میرا امیج کوئی اتنا اچھا نہیں ۔اسنے ٹھک سا جواب دیا
کتنے خود غرض ہو تم ۔حباء نےاس کا ضمیرجگانے کوشش کی۔
میں نےپڑھا تھا کہ انسان کو کبھی کبھی اپنے بھلے کے لیے خود غرض ہو جانا چاہیے۔---وہ کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور وہ ملازمہ سے چائےکا کہتی ہوئی تائی اماں کے کمرے کی طرف بڑھی وہ جانتی تھی کہ تائی اماں ہی اسے حسین کی ڈانٹ سے بچا سکتی ہیں کیونکہ اس کی اپنی ماں بھی تو ہر دفعہ حسین کا ہی ساتھ دیتی تھی
ابھی اس نے تائی کو بتانے کا سوچا ہی تھا کہ حسین کی آواز آگئی
حباء۔ حسین کی آوازآئی
اس نے تائی کی طرف دیکھا انہوں نے آگے سے سر ہلا دیا اسے تھوڑا حوصلہ ہوا
حباء۔ایک اور آواز آئی
حسین ۔حباء ادھر ہے میرے کمرے میں ۔انہوں نے آواز دی
کیا لینے گئی تھی میرے کمرے میں۔اس نے آتے ہی اپنی توپوں کا رخ اس کی طرف کیا
میں نے اسے بھیجا تھا تمہارے کپڑے رکھنے کے لیے
صباء فارغ نہیں تھی ۔اس نے بیٹے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اتنےمیں صباء بھی آ گئ
چچی اماں آپ سب کام چھوڑ کر میری الماری خود سیٹ کیا کریں ۔اس نے صباء کی طرف دیکھا اس کا موڈ سخت آف تھا
اوکے بیٹا ۔انہوں نے اس کے گال کو سہلایا
وہ واپس جاتے ہوئے ایک دم پلٹا کہ اسے کچھ یاد آیا
حباء-- جب کوئی مہمان آتا ہے تو کیسے سرو کرتے ہے اب یہ بھی تمھیں سکھانا پڑے گا ۔اتنی شرم آئی جب یاور کے سامنے رضیہ خالی چائے لے کر آئی کچھ تو سیکھ لو۔اس کی توپوں کا رخ پھر اس کی طرف ہوا۔
بچی ہے حسین ۔تائی اماں نے اس کی طرف داری کی
اماں ---یہ بچی ہے میڈیکل میں پڑھ رہی ہے ۔اس نے حباء کی طرف دیکھا جس کا سر ابھی تک نیچے تھا
اوکے میں سمجھاتی ہوں ۔حمیرہ اس کو واپس بھیجنے پر تھی اس کی باہر جانے کی دیر تھی کہ صباء بولی
حباء۔کچھ تو عقل سے کام لے لیا کرو کب تک بچی بنی رہوں گی ۔ حباء کا چہرہ نیچے ہی تھا
حمیرہ نے اس کا چہرہ اوپر کیا تو ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے
صباء ۔بس کرو ۔تائی نے اسے گلے سے لگایا
بھابی کل کو اس کی شادی کرنی ہے اگر اب نہ سیکھے گی تو کب سیکھے گی۔اس نے سر پکڑ لیا
اس کی شادی کی فکر نہ کرو یہ تو میرے حسین کی دلہن بنے گی۔حمیرہ نے اس کا ماتھا چوما
حباء نے پہلے تائی اماں کا چہرہ دیکھا پھر بولی
یہ ظلم مت کیجیے گا پلیز ۔اس نے ہاتھ جوڑے۔
یہ ظلم ہو کر ہی رہے گا ۔انہوں نے مسکرا کر کہا اس نے حیرانگی سے دیکھا
دیکھے بھابی اپنی شادی کی باتیں کیسے آرام سے کر رہی ہے شرم تو سرے سے نہیں ہے ۔انہیں ایک اور بات مل گئی
اماں آپ کی تو نہ شکایتں ہی نہیں ختم ہوتی ۔اس نے دوپٹہ سیدھا کیا اور یہ جا وہ جا
--------------------
آشیانہ ہاؤس میں داریہ کے علاوہ سب ناشتے پر موجود تھے
ساریہ!! دلاور نے اسے بلایا۔۔
جی!! وہ ایک دم متوجہ ہوئی ۔
داریہ کو بھی جگا لائیں، وہ بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کر لے ۔انہوں نے انہیں کہا
جی جا تی ہوں ۔وہ اٹھنے لگے تو وہ ایک دم بولے
تم بیٹھو ۔دامیان تم جاؤ اسے جگا کے لاؤ۔انہوں نے دامیان کو کہا
نہیں میں خود جاتی ہوں یہ اسے رلا کے آئےگا ۔ ساریہ نے اٹھ کر کرسی اندر کی
داریہ کو چھٹی والے دن جگانا مشکل کام تھا یہ کام صرف ساریہ ہی کر سکتی تھی
وہ اسے اٹھا کر ڈائنگ ہال میں لے آئی
اس نے آکر اپنی کرسی سنبھالی ۔
داریہ بیٹا ۔ کھانا اکٹھے کھایا کرو اس سے آپس میں محبت برھتی ہے انسان ایک دوسرے کے قریب رہتا ہے ۔انہوں نے اس سمجھانا چاہا۔۔۔
ٹھیک ہے بابا۔لیکن چھٹی والے دن آپ ناشتا ذرا لیٹ کر لیا کرے تب تک میں بھی اٹھ جاؤں ۔اس نے بھی ایک حل نکالا
یہ بھی ٹھیک ہے بابا ۔اب ہماری لاڈلی تو اٹھ نہیں سکتی ہمیں ہی لیٹ ناشتہ کرنا پڑے گا ۔داور نے لقمہ دیا
نہیِں بھائی آپ مجھے شرمندہ نہ کرے میں اٹھ جائے کروں گی ۔اس نے دودھ کا گلاس اٹھایا
دلاور ناشتہ کر کے اٹھے گئے انہیں ضروری کام سے جانا تھاان کے جاتے ہی دامیان نے داریہ کے سر پر چپت ماری
جلدی نہیں اٹھ سکتی روتو ۔
اماں مجھے دامیان نے مارا ہے۔وہ شکایت لگانے جانے لگی کہ داور نے روک لیا
اتنی چھوٹی باتوں پر ماما پاس نہ جایا کروں ۔کچھ حساب خود clear کیا کرو جیسے کہ ابھی تمہیں دامیان نے تھپڑ لگایا ہے تو تم پاس پڑا پانی کا گلاس انڈیل سکتی ہو یہ پھر جوس بھی پھینک سکتی ہو بس تھوڑا سا عقل کا استعمال کرو۔اس کا کہنا تھا کہ دامیان آگے تھا اور داریہ جوس والے گلاس کے ساتھ اس کے پیچھےتھی
بھائی آپ نے یہ اچھا نہیں کیا ۔دامیان نے بھاگتے ہوئے کہا اور وہ کچن کی طرف ماں کے پاس چلا گیا
داور تم ہی اگر بڑے ہو جاؤ تو میں تھوڑے سکون میں آجاؤ ان دونوں کا جھگڑا کروا کے میرے پاس بیجھ دیتے ہو ۔انہوں نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا
اب نہیں آتی داریہ آپ کے پاس میں نے انہیں ایک دوسرے سے لڑنا سکھا دیا ۔وہ پاس پڑی پلیٹ سے بسکٹ کھاتے ہوئے مسکرایا
داور۔وہ تھوڑا بر ہم ہوئی اور داور دوڑ لگاتا کچن سے باہر کیوں کے مزید وہاں رہنے والی اس کی حرکیتں نہیں تھیں

Muhabbet teri gird e rah main(Complete)Where stories live. Discover now