chapter 11

676 31 3
                                    


آریز کتنے دن سے کوشش کر رہا تھا کہ گھر مل جائے آخرکار اسے بڑی مشکل سے گھرمل گیا تھا ابھی اس کے پاس اتنے پیسےنہیں تھے کہ وہ ذاتی گھر خرید سکتا اور باپ کے گھر میں رہنا اس کی غیرت گوارہ نہیں کرتی اس لیے وہ دو کمروں کے فلیٹ میں شفٹ ہو گیا جس کا ایک کمرا اس نے اپنے استعمال کے لیے رکھا کچن میں بلکل تھوڑے سے برتن لا کر رکھے  اور دوسرا اس نے گیسٹ ہاؤس کے طور پر رکھ لیے کہ شاید کبھی کوئی اس کے پاس ٹھہرنے آجا ئے وہ انتہا کی حد تک اکیلے ہو گیا تھا اسے ہاسٹل کی شروع کی راتیں یاد آ گئیں جب کوئی اس کے ساتھ نہ تھا وہ  اکیلا ہی ان اندھیروں سے لڑتا تھا خود کو خود ہی دلاسے دیتا تھا کتنی راتیں وہ سوتا نہیں تھا اسے ماں کی باپ کی پھوپھو کی یاد ستاتی تو ساری ساری رات روتا رہتا اسے لگتا تھا کہ ابھی وہ روئے گا تو ابھی اس کی ماں تڑپ کر آ جائے گی ابھی اس کی پھوپھو اس کے سامنے ہوگی اس کی دو مائیں تھیں لیکن جب وہ ساری ساری رات رو کے اٹھتا تو سامنے کسی کو نہ پاتا تھا
آج بھی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہمیشہ کی طرح اس کے آنسو دیکھنے اور صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا اس نے خود ہی اپنی آنکھیں صاف کر لی
پھر اسے طہیر یاد آگیا تھا جو اس کا روم میٹ تھا اسے ہاسٹل آئے دس دن ہوئے تھے جب وہ اس کے روم میں شفٹ ہوا اسے شفٹ ہوئے دس دن ہو گئے دونوں نے ایک دوسرے کو منہ نہ لگایا آخر کب تک یہ سرد مہری چلتی ایک دن طہیر سے غلطی سے اس کا ہوم ورک گندا ہوگیا تبھی ان دونوں کی پہلی لڑائی ہوئی دونوں میں ہاتھاپائی بھی ہوئی وارڈن نے انہیں خوب ڈانٹا اور دھمکیاں دی وارڈن چلی گئی ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور قہقہا لگا دیا وہ دن ان کی دوستی کا پہلا دن تھا
وہ ماضی کے ساتھ ساتھ حال میں بھی قہقہ لگا رہا تھا پھر ایک دم احساس ہوا تو پتہ چلا کہ وہ لندن میں ہے مری کے ہاسٹل میں نہیں ہے
وہ اٹھا اور جا کر پانی پیا اور بیڈ پر لیٹ گیا اس کی نیند آج بھی اتنی ہی کچی تھی کہ وہ ذرا سی آہٹ پر اٹھ جاتا تھا لیکن اب وہ اس اندھیرے سے نہیں ڈرتا تھا  اب وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج حباء بہت اچھے موڈ میں تھی اس کا پریکٹیکل کامیاب رہا تھا سو وہ اماں اور تائی اماں کو بتا کر دادا کے کمرے میں آگئی تھی دادا آج کچھ پرانی چیزیں نکال کر دیکھ رہے تھے جن میں ان کی پرانی تصویریں تھی وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی اب ان کے ساتھ ساتھ تصویریں دیکھ رہی تھی
وہااسے اپنے گاؤں کی تصویریں دیکھا رہے تھےجو وہ بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھی
دادا جی ۔آپ گاؤں سے یہاں ان بیزار لوگوں میں کیوں آگئے یہاں کے لوگ تو بات کرنے سے پہلے آپکی سٹیٹس دیکھتے ہے اسی لیے میری کسی سے دوستی نہیں ہو پاتی جن سے ہوتی ہے آپکے پوتوں کے باعث ختم ہو جاتی ہے ایسا لگتا مجھ سے زیادہ ان کو دوستوں کی ضرورت ہے ۔۔وہ جب بھی ان کے پاس بیٹھتی اپنی شکایتوں کی پٹاری کھول دیتی پورے گھر میں صرف دادا اس کی شکایتیں تحمل سے سنتے مائیں تو ڈانٹ کر چپ کروا دیتی تھیں
تم لوگوں کے لیے تم لوگوں کی پڑھائی کے لیے جو کہ وہاں ناممکن تھیں اس لیے وہاں سے یہاں شفٹ ہو گئے وہ لوگ بھی بہت دید کرنے والے تھے لیکن یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے  ہے ایک انسان میں اتنا جھکاؤ تو ہونا چاہیے کہ جہاں جائے کوشش کے ساتھ اپنے اپنے کو اس ماحول میں ڈال سکے تم بھی کوشش کرو اچھے لوگوں سے دوستیاں کرو۔۔انہوں نے حباء جو سمجھایا
تو دادا با کیا وہاں کے لوگ اب بھی تعلیم کے لیے شہر آتے ہے اقر جو نہ آ سکے وہ کیا کرتے ہو گے آپ ک نہیں لگتا ہمیں اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیے ۔۔اس نے مشورہ دیا
میری بلبل ۔۔۔جب ہم یہاں آئے تھے تو تم سب کے تو اتنے دوست نہ تھے وہاں حسین کی بہت دوستیاں تھیں وہ اپنے دوستوں کو چھڑ کر آیا تھا سو اس لیے اس نت وہاں کے سیاستدان کے ساتھ مل کر ایک کالج بنوانا شروع کیا ہے۔۔وہ حیران ہوئی تھی
کتنے گھنے میسنے ہے کبھی بتایا ہی نہیں کہ وہ کالج بنوا رہے ہیں ۔۔اس نے ناک سکوڑی
پتہ نہیں اس نے کیا کیا بکھیے شروع کیے ہوئے ہے ہمیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کبھی باہر نکلے تو پتہ چلتا ہے یہ چھوٹا سا بچہ اتنا بڑا ہو گیا ہے ۔۔۔وہ حسین کی تعریف کر رہے تھے اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی سو فوراً بات کاٹتے ہوئے بولی
آپ مجھے اپنے تصویریں دیکھائی
اب وہ اسے اپنی شکار کی تصویریں دیکھا رہے تھےاور ساتھ باتیں بتا رہے تھے
دادا آپ کا شکار اتنا اچھا تھا ۔۔وہ سننے کے دوران پہلی مرتبہ بولی
میرے تو اچھا تھا لیکن یہ جو تمھارے دادا ہے آن کا باکمال تھا۔۔انہوں نے اپنے بھائی کی تصویر پر ہاتھ رکھا ان کی اب وفات ہو چکی تھی
آپ کی کتنی پکی دوستی تھی لوگ آج بھی مثالیں دیتے ہے۔۔وہ متاثر کن انداز سے اپنے دادا کو دیکھ رہی تھی
لیکن میں دوستی کا حق نہ ادا کر سکا اس نے امانت دی تھی کہ میں حفاظت کروں لیکن مجھ سے وہ کھو گئی ہے اور پھر ملی ہی نہیں ۔۔ان کے چہرے مضطرب تھا
کیا بہت قیمتی تھی دادا۔۔۔اس نے سوال کیا
بہت زیادہ قیمتی تھی ان دنوں کے بعد یہ سانسیں مجھے بھاری بھاری لگتی ہے ۔۔۔حباء کا انٹرسٹ بڑھنے لگا
کن دنوں کے بعد داداابا۔۔۔اس نے متفکر لہجے سے پوچھا
جن دنوں وہ مجھ سے کھوگئی تھی اب جوں جوں بڑھاپے کی طرف جا رہا ہوں سوچتا ہوں جب بھائی جواب مانگے گا تو کیا جواب دوں گا اسی لیے موت کا سامنا کرنے سے کتراتا ہوں ۔ انہوں نے اپنے بھائی کی تصویر پر ہاتھ پھیرا
تو ہم کوشش کر کے ڈھونڈ سکتے ہے دادا ابا۔۔۔وہ چاہ رہی تھی کہ اس عمر میں تو اس کے دادا ابا سکون سے سانسیں لے سکے ۔وہ واقعی پریشان لگ رہے تھے
میں اور حسین کب سے ڈھونڈ رہے ہے مل ہی نہیں رہی بہت کوشش کی ہیں حسین نے بہت ٹائم لگایا لیکن ڈھونڈ نہ پایا تھا تم نماز کے بعد دعا کیا کرو ۔۔انہوں نے اس کا گال سہلایا
اچھا اب جاؤ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔۔انہوں نے کہا تو اس نے چیزیں سمیٹی تو ایک طرف اسے ڈائری ملی جو ا نے ڈبے سے باہر ہی رہنے دی چیزیں سمیٹ کر جب اپنے کمرے کی طرف آئی تو وہ ڈائری ساتھ لے آئی۔
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آلیمان کے پیپرز شروع ہو گئے تھے اجیہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی پڑھائی ایفکٹ ہو اس لیے اس نے اس پندرہ بیس دن پپروں کی تیاری کے لیے دئیے تھے لیکن اب اس سے چیزیں ہینڈل نہیں تھی ہو رہی وہ پریشان تھی اتنے پیسے لگا کر بھی اتنے پیسے نہیں مل رہے تھے کہ وہ جو ڈونیشن دے رہے تھے انہیں جاری رکھ سکے سب انہیں بچے سمجھ رہے تھے کوئی ڈیل بھی ان کے ہاتھ نہیں لگ رہی تھی وہ پریشان ہو گئی کہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو گھر کا خرچ بھی مشکل ہو جانا تھاکب سے سر کرسی سے ٹکائے سوچ رہی تھی کہ ورکر کوئی کارڈ لے کر اندر آیا وہ انوٹیشن کارڈ جو انصر کے لیے آیاتھا
بابا تو جا نہیں سکتے اس نے سوچتے ہوئے کارڈ ٹیبل پر رکھا اور پھر اپنی سوچوں میں مبتلا ہو گئی ایک گھنٹہ گزر گیا سوچتے سوچتے پھر تھک کر بیگ اٹھایا کارڈ ڈالا اور گھر آ گئی کھانا کھا رہی تھی وہ پریشان تھی اور شمائل اس کا چہرہ پڑھ ہی تھی وہ جب کبھی پریشان ہوتی شمائل یونہی اس کا چہرہ پڑھ لیتی تھی
کیا بات ہے اجیہ پریشان کیوں ہو ؟؟؟اس نے ماں کی طرف دیکھا
اماں کچھ نہیں ہوا آپ دوائی تو ٹائم سے لے رہ ہیں ۔۔ا نے ماں کو ٹالا تھا
میں تو لے رہی ہوں لیکن تم کیوں سلیپنگ پلز لے رہی ہو۔۔اس نےحیرانگی سے ماں کو دیکھا
آج تمھارے کمرے کی صفائی کروائی تو وہاں سے ملی تھیں۔۔ وہ اس کا سوال سمجھ چکی تھی
کبھی کبھی لیتی ہوں جب کبھی نیند نہ آئے آپ کو پتہ ہے کام کرنے کے لیے چھ گھنٹے نیند لینا ضروری ہے۔۔۔وہ ماں کو بہلا رہی تھی ورنہ وہ روز پلز لے کر سوتی تھی
کبھی کبھی کی روز اتنی زیادہ نکلی ہوئی تھی پتہ یہ جسمانی اور ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں یی ظلم نہ کرو خود پر اپنی عمر دیکھو اور ابھی سے تم نے سلیپنگ پلز لینی شروع کردی۔۔انہیں غصہ آیا ہوا تھا اور وہ غصہ کا اظہار بھی کر ہی تھی اور اجیہ ان کے غصے سے ڈرتی تھی اجیہ کیا وہ سب بہن بھائی شمائل سے ڈرتے تھے
میں کوشش کروں گی کہ اب سے نہ لوں ۔۔وہ بس اتنا ہی کہہ سکی تھی
بلکل اب یہ مجھے کمرے میں نظر نہ آئے ۔انہوں نے ملازمہ کو بلوا کہ وہ پھینکوا دی اور وہ سوچ رہی تھی کہ آج نیند کیسے آئے گی
کھانا کھا کر وہ بابا کو کارڈ دینے آگئی
بابا جان ۔۔وہ ان کے بیڈ پر ایک طرف ہاتھ چومتی ہوئی بیٹھ گئی اس ہاتھ میں ابھی بھی نیڈل تھی
کیسی ہے میری گڑیا؟؟؟ اتنے دنوں بعد ادھر آ کر بیٹھی ہو اب کچھ دیر تو ضرور بیٹھنا ۔۔انہوں نے دوسرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا
بابا یہ انویاٹیشن کارڈ آیا تھا وہ ہی دینے آئی تھی آپ دیکھ لے کوآئی امپورٹنٹ تو نہیں۔۔اس نے کارڈ تھمایا جو انہوں نے بع میں دیکھنے کی غرض سے ایک طرف رکھ دیا
بزنس کا کیا کیا ہے ؟؟ کچھ بگ باس کو رپورٹ بھی دے دو تم دونوں نے تو مجھے ایک طرف لگا دیا ہے ۔۔۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
کیا ہونا تھا بزنس کا دوڑ لگائی ہوئی ہے کہ کوئی تو ڈیل ملے ۔۔۔وہ انہیں نا امید نیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ بزنس مین رہ چکے ہے سو وہ انہیں کہانیاں نہیں سنا سکتی ۔۔
کوئی بات نہیں بیٹا تھوڑا وقت لگے گا بس ناامید مت ہونا میں نے بھروسا کیا ہے تم پر اور آلیمان پر اسے قائم رکھنا ۔۔۔۔انہوں نے اس کا کندھا تھپتھپایا
بابا آپ کچھ گائیڈ کرے ڈیلز کیسے ملتی ہے سب ہمیں بچے سمجھتے ہے اس لیے ڈیلز کم ہی کر رہے ہے بس وزٹ کر کے چلے جاتے ہیں ۔۔اس نے پوچھا
انہوں نے کارڈ کھول کے دیکھا
ہم اس پارٹی پر جائے گے یہ بہت اچھے دوست ہے میرے میرے برے وقت میں انہوں نے میرا ساتھ دیا ہے اب دیکھنا تم لوگوں کو سب کچھ ملے گا اچھے بزنس کے مواقع بھی اور ڈیلز بھی ۔۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
آپ نہیں جائے گے آپ کی طبیعت اجازت نہیں دیتی ۔۔اس نے صاف انکار کیا
میں جاؤں گا بس ایک پارٹی میں لے چلو ساتھ پھر سب تم لگ سنبھالنا ۔۔۔انہوں نے کارڈ رکھتے ہوئے کہا
لیکن بابا آپ کو زیادہ چلنے پھرنے سے منع کیا گیا ہے۔۔اس نے جواز دیا
ہاں تو وہیل چئیر پ چلے گئے ۔۔وہ بضد تھے
کیسے لگے گے ہم ۔۔اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
بہت پیارے اتنے ہنڈسم بابا ہے تمھارے  تمھیں فکر کی ضرورت نہیں کہ تم کیسی لگو گئی۔۔وہ کہتے ہوئے مسکرائےوہ بھی مسکر دی اور اٹھ کر اپنے اور ادعیہ کے مشترکہ کمرے میں آ گئی
ادعیہ ۔۔وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی اسے اب پیپر میں چھٹیاں تھیں
جی آپی ۔۔وہ فوراً متوجہ ہوئی
آج مجھے کیسے نیند آئے گی ۔۔اس نے بیچارا سا منہ بنا کر کہا
کیوں کیا ہوا؟؟اس نے پوچھا
اماں نے میری ٹیبلٹ پھینک دی ہیں اب ایسے تو نیںند آنے سے رہی۔۔۔اس نے اس کی طر ف دیکھا
ابھی آئے گی ۔۔وہ پرجوش ہو کر اٹھی
کیسے ؟؟اس نے پوچھا
ابھی نیچے بیٹھے ۔۔۔ادعیہ نے کہتے ہوئے اسے باقاعدہ بٹا دیا تھا اور خود تیل لینے چلی گئی
واپس آ کر بیڈ پر بیٹھی اور اس کی پونی اتاری
یہ کیا کرنے لگی ہو ۔۔اجیہ نے فوراً سے بال چھرانے چاہا
بیٹھی رہیں چپ کر کہ ۔۔اس نے بال سیدھے کرنے شروع کیا
اب وہ اس کےے بالوں میں تیل کی مالش کر رہی تھی وہ بڑی نرمی سے انگلیاں اس کے بالوں میں چلا رہی تھی
پتہ ادعیہ تم بلکل دادای اماں لگ رہی ہو اگر میری دادی اماں زندہ ہوتیں تو میں ان سے روز اسی طرح مالش کرواتی ۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
شکر ہے کہ وہ نہیں ہے۔۔اس نے کہا تو اجیہ نے اسے مڑ کر دیکھا
کیوں بدتمیز لڑکی ۔۔۔اس نے ایک گھوری ڈالی
اگر وہ زندہ ہوتی انکل رضا کے بعد آپ کو ادھر تھوڑی نہ آنے دیتی اُدھر ہی اپنے پاس رکھ لیتی پھر مجھے بہن کیسے ملتی ۔۔۔وہ زبردست جیلس ہوئی
لڑکی وہ ہوتی تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا سب کچھ ٹھیک ہوتا ۔۔اجیہ نے کہا
آپی آپ کو کیوں لگتا ہے زندگی چھت پر لگی لکڑی کی سیڑھی کی طرح ہے چڑھتے جاؤ چڑھتے جاؤ اور سیدھا منزل تک پہنچ جاؤ ۔زندگی ایسی نہیں ہے زندگی جو لڈو کے پیچھے سانپ والی گیم ہوتی ہے نہ ویسی ہے کبھی سیڑھی سے اتنا اوپر چلے جاؤ کہ اردگرد کے سانپوں کو بھول جاؤ اور پھر جب وہ ڈس لے تو اتنی اونچائی سے نیچے آ گرو کہ خود کو سمیٹ کر اوپر جانے کا جذبہ ہی کھو دو اور پتہ آپ کو اس وقت کونسی رسی کام آتی ہے جس کی ڈور آپ نے اللہ کو دی ہوتی ہے وہ رب ہمیں حوصلہ بھی دیتا ہے ہمیں ہمت بھی دیتا ہے اور اس رسی کے ذریعے وہ اونچائی عطا کرتا ہے کہ پھر اردگرد کوئی سانپ نہیں رہتا اس لیے زندگی میں کچھ بھی ہو جائے اس رسی کو تھامے رکھنا اور اللہ سے تعلق بنائے رکھنا یہ زندگی کا سب سے خوبصورت تعلق ہے۔۔وہ رکی تھی اب اجیہ بولی
پتہ تمہیں ادعیہ تمہیں motivational speaker  ہونا چاہیے تھا۔اس نے ادعیہ کو دیکھا تو مسکرا رہی تھی
جب کبھی اپنے الفاظ سے آپ کو متاثر کرؤں گی تب یہ بات کہیے گا۔۔۔۔۔اس نے اب اس کی چٹیا بنائی تھی
کس کے الفاظ تھے ؟؟؟؟ اس نے پوچھا
یہ آپ کے الفاظ تھے پتہ ایک دفعہ جب میری پوزیشن نہیں آئی تھی اور میں بہت روئی تھی تو تب آپ نے یہ میسج کیا تھا مجھے اب جب بھی میں زندگی میں خود کو تھکا محسوس کروں یہ پڑھ لیتی ہوں اسی لیے لفظ بہ لفظ مجھے زبانی یاد ہے لیکن آپ یہ باتیں کیوں بھول گئیں ہیں ۔۔اس نے پوچھا تھا
یہ مجھے نہیں یاد میں نے کب کہا ہو ۔۔۔اب اجیہ نے اس کی ٹانگ پر سر رکھا
میسج دکھاؤ میں نے سنبھال کے رکھا ہوا ۔۔اس نے کہتے ساتھ ہی دیکھا تو اسے یقین نہیں تھا ہو رہا کہ وہ کبھی ایسی بھی تھی
چلے اٹھے لیٹے آپ جو آپکی اس طرح کی اور باتیں سناتی ہوں ۔۔اس نے کہا تو وہ دونوں بہنیں ساتھ بیڈ پر لیٹ گئی ۔ادعیہ اب نان سٹاپ اسے باتیں سنائی جا رہی تھی تھوڑی دیر بعد ہی اجیہ کو نیند آ گئی
تم اتنی اچھی کیوں ہوں لڑکی۔اس نے ادعیہ کا گال کھینچتے ہوئے کہا 
کیوں کہ آپ خود بہت اچھی ہے ۔وہ ابھی اور باتیں کرنا چاہ رہی تھی لیکن اجیہ کہہ کہ سو چکی تھی
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لندن میں اب کافی حد تک اپنے بل بوتے پر سیٹ ہو چکا تھا لیکن یہ اس کے لیے خاصا مشکل رہا تھا اسے اب اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر ماں باپ سپورٹ نہ کرے تو زندگی کتنی مشکل بن جاتی ہے لیکن پھر ایک اور سوال شدت سےاٹھتا تھا کہ اگر وہ ابھی تک ان کی سپورٹ پر رہا ہے باپ کے دئیے ہوئے پیسے پر عیشں کرتا رہا لیکن اب وہ اس باپ کو اس کا کیا صلہ دے کر آیا تھا لیکن وہ اس سوال کو دبا دیتا تھا اسے لگتا تھا کہ اگر اس سوال کا جواب اگر اس نے حاصل کر لیا تو اس کا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا اس لیے وہ حقیقت سے آنکھیں پھیرے تھا لیکن وہ بھول گیا تھا کہ انسان جس چیز سے آنکھیں پھیرے اکثر ہی وہ سامنے آ کر آپ کا سکون اور اطمینان چھین لیتی ہیں ۔
اس وقت وہ کسی ایڈ کی شوٹنگ کے لیے سیٹ پر موجود تھا اس کے ساتھ وہاں کی مقامی لڑکی کو اس کے ساتھ  ہیروئین کا کرداد ادا کرنا تھا اور اس نے اس کا نام تک نہیں پوچھا تھا
وہ اسی طرح کا بدلخاظ اور مغرور تھا یہ ہیروئین کے سیکرٹری کا اس پر تبصرہ تھا جو وہ سن رہا تھا لیکن اُس اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا لوگ اب اسے جانتے تھے جہاں کہیں وہ ہوتا جو اس کو جانتے آٹوگراف لینے ضرور آ جاتے تھے ابھی وہ بہت زیادہ مشہور نہیں ہوا تھا لیکن لوگ اسے جانتے ہے یہی ا سکے لیے کافی تھا کافی لوگ اس کے کام سے خوش تھے کیوں کہ وہ نخرے نہیں کرتا تھا
وہ کوسی پر بیٹھا تھا کہ ایک اور ڈائریکٹر اس کے پاس آیا جو اسے ڈرامہ کرنے کی آ فر کر رہا تھا
اس نے سکرپٹ سنا جو کہ اچھا تھا اور ایک ہالی وڈ ڈرامے کی طرح ڈیمنڈنگ بھی تھا وہ کچھ سوچ رہا تھا اسے اپنی ماں سے کیا وعدہ یاد تھا
اماں میں لمٹز میں رہ کر کام کروں گا۔۔۔۔یہ الفاظ اس کے ذہن میں مسلسل گونج رہے تھے اس نے کچھ بھی سوچے بغیر نہ کہہ دی
ڈائریکٹر اسے یہ ڈرامہ کرنے کے فائدے سمجھا رہا تھا لیکن وہ شروع سے جس چیز کا فیصلہ کر لیتا اس پر ڈٹ جاتا تھا کچھ فیصلوں پر انسان کو ڈٹ جانا چاہیے لیکب کچھ فیصلوں پر تھوڑی سی لچک بھی رکھنی چاہیے تاکہ انسان بعد میں کبھی پچھتائے نہیں کیونکہ پچھتوا ایک ایسی دیمک ہے جو انسان کو اندر ہی اندر سے کھا جاتا ہے اور اسے اندر سے کھوکھلا ترین کر دیتا ہے اور انسان جب اندر س کھوکھلا ہو جاتا ہے و اکثر وہ فیصلے کرنے کی طاقت کھو دیتا ہے
شوٹنگ سے فارغ ہو کر گھر آیا کھانا آج شوٹنگ پر ہی آرڈر کر لیا تھا اب صرف بکھری ہوئی چیزیں سمیٹ کے سونا تھا اور سونا ہی اسے سب سے مشکل کام لگتا تھا اسی لیے اس نے پرانی یادوں سے یارانہ لگا لیا تھا اب بیڈ پر وہ ہوتا اور اس کے سکول کی یادیں وہ سب کچھ پھر یاد کرنا چاہ رہا تھا 
وہ واپس سکول کی دنیا میں چلا گیا جہاں طہیر اور وہ بہترین دوست تھے اور لوگوں نے بھی کوشش کی کہ ان کا دوست بن سکے لیکن کامیاب نہ ہو سکے وہ طہیر کا اپنی ساری باتیں بتاتا تھا وہ خوش تھا وہ گھر واپس ملنے جا رہا تھا اسے ماما اور پھوپھو لینے آ رہے تھے وہ جتنا خوش تھا طہیر اداس تھا وہ ایک بروکن فیملی سے تھا اس کے والدین میں علیحدگی ہو چکی تھی اس کی ماں اس کو اس کے باپ کے حوالے کر کے خود کسی اور کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی اور اس کے بابا نے جس سے شادی کی تھی اس کی ایک بیٹی تھی ان کی دوسری بیٹی طہیر کی بہن تھی طہیر کا کہنا تھا کہ جو کچھ اس کے باپ کا اس سب پہ صرف اس کا حق ہے اور اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ وہ سوتیلے رشتوں میں رہے اسی لیے انہوں نے اسے ہاسٹل بھیج دیا تھا اور اب اس کا یہاں دل لگا گیا تھا جہاں کسی بھی بچے کا دل نہیں لگتا تھا وہ چھٹیوں میں بھی ادھر ہی رہنا چاہتا تھا اسی لیے آ ریز کے چلے جانے سے وہ ناراض تھا
اور آریز بھاگتا ہوا ماں کے گلے آ لگا پھر وہ سارہ سے ملا اور گاڑی میں بیٹھ گیا اب وہ ان سے ضد کر رہا تھا کہ وہ واپس نہیں آئے گا
ماما۔ پلیز میں یہاں واپس نہیں آؤں گا ۔اب اس نے ضد کرنی شروع کر دی تھی
آپ اب یہاں ہی پڑھے گے اور آپ کو یہ بات سمجھنی ہو گی آریز ۔اس نے صاف انکار کیا
پھوپھو پلیز میں یہاں نہں آنا دوبارہ یہاں طہیر کے علاوہ سب برے لوگ ہیں ۔۔اس نے اب سارہ سے کہا
آریز بیٹا تمھیں کیوں لگتا کہ تمھارے علاوہ یہاں سب لوگ ہی برے ہیں بیٹا ہر چیز کو پوزیٹو طریقے سے دیکھنا چاہیے۔شمائل نے اسے سمجھانا چاہا
لیکن اگر آپ گھر میں اجیہ کے ساتھ اچھے سے بی ہیو کرو گے تو آپ کو یہاں نہیں رہنا پڑے گا ۔۔سارہ نے اس سمجھایا تاکہ اس کے رویے میں تھوڑی تبدیل آئے ۔
ٹھیک ہے میں سب کے ساتھ اچھے سے بی ہیو کروں گا پکا وعدہ۔۔اس نے ہاتھ آ گے بڑھایا جسے سارہ نے تھام لیا باقی کا سفر بہت پر سکون رہا اب وہ پر سکون سو رہا تھا سارہ نے اس کا ماتھا چوما میرا شہزادہ اس نے کہا جسے سن کر شمائل مسکرا دی وہ جانتی تھی جب تک سارہ کی شادی نہیں ہوئی تھی آریز کو اس نے پالا تھا چھ ماہ تک اس نے اس کے بہت لاڈ اٹھائے تھے لیکن تب سے اب تک سب بچوں میں آریز اس کا لاڈلا تھا اسے اس کی غلطی غلطی نہیں لگتی تھی وہ چاہتی تھی وہ ب خوش اور اس کے سامنے رہے لیکن آنے والے دنوں میں یہ ناممکن ہونے والا تھا
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پارٹی کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ ادعیہ کمرے میں آ گئی
آپی اتنا سادہ سوٹ آپکو یقین ہے نہ کہ آپ پارٹی پر جا رہی ہیں ڈنر پر نہیں ۔ اس نے بلک کلر کا سوٹ پہنا تھا جو سارہ نے اس کے لیے خود خریدا تھا جس کی قیمض کے دامن پر بلیک کلر کی نفیس سے کڑھائی تھی سادہ کیپری اور میرون کلر کا دوپٹہ تھا
کوئی سادہ نہیں ہے میں اس میں ہی کمفرٹیبل ہوں چلو میرے بالوں کی پونی بناؤ۔۔اس نے اسے کنگھا پکڑتے ہوئے کہا تھا جس کا مطلب تھا کہ کچھ بھی نہیں بدلے گی 
بالوں کی پونی بنا کر اس نے سر پر دوپٹہ لیا اور بابا کے کمرے میں آ گئی جہاں شمائل اسے نظر کا ٹیکہ لگا رہی تھی
جاتے وقت اپنا صدقہ دے لینا۔شمائل نے پھر سے کہا
جی بلکل اگر اجازت دے تو بابا کا بھی دے دوں بڑے ہنڈسم قم کے لگ رہے ہیں ۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
نظر رکھنا ان پر یہ نہ ہو صدقے کی جگہ کہیں دل ہی نہ دے آئے ۔۔انہوں نے انصر کو دیکھتے ہوئے کہا
حد ہے بیگم پچیس سال پہلے ایک پرانی سے بیوی کو دیا تھا وہاں سے ابھی تک واپس نہیں آیا کسی کو کیسے دے آؤں گا۔۔انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ساتھ ساتھ اجیہ بھی مسکرا دی وہ ماں باپ کی یہ نوک جھوک بہت انجوائے کرتی تھی ۔
ہنستی رہا کرو اچھی لگتی ہو ۔۔۔شمائل نے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا
ضرور کیوں نہیں ۔۔۔اس نے بھی جواب میں ایک اور مسکراہٹ سے نوازہ
گاڑی میں اجیہ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور انصر صاحب ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے وہ نارمل سپیڈ میں گاڑی چلاتے ہوئے پارٹی کی لوکیشن کی طرف چل دئیے۔
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسین اپنے آفس میں موجود تھا جو اس کا پرسنل آفس تھا وہاں صرف کچھ لوگوں کو آنے کی اجازت تھی جن میں اس کے فیملی ممبرز اور ایک دو بزنس پارٹبر جو کہ اس کے دوست تھے وہ شامل تھے پاکستان میں اپنے بزنس کی وجہ سے وہ خوب جانا جاتا تھا اب وہ چاہ رہا تھا کہ اس بزنس کو باہر کے ممالک تک لے جائے شروع اس نے لندن سے کیا تھا جہاں کاساراسسٹم حصان سنبھال رہا تھا کوئی اس کی کولیفیکیشن پوچھتا تو اس نے بی کام کیا تھا جس میں وہ مشکل سے پاس ہوا تھا اس کی وجہ اس کے بابا اور چچا کی موت تھی جس کے بعد سے ساری ذمہ داری اس پر آ گئی تھی لیکن اس کا بزنس دیکھ کر لوگ اس کی محنت کے قائل ہو جاتے تھے وہ ابھی بھی لیپ ٹاپ پر مصروف تھا جب اس کا بزنس پارٹنر یاور آیا تھا
السلام عليكم! یاور نے پہل کی تھی
وعليكم السلام۔۔حسین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا
مبارک ہو یار ۔۔حال پوچھنے کے بعد یاور نے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھایا
خیر مبارک ۔لگتا کوئی بڑی پرافٹ ہوئی ہے ۔حسین نے پوچھا تھا کیوں کہ اسے کسی بھی پرافٹ کے بارے میں اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا تھا
یار کبھی بزنس سے ہٹ کر ذاتی زندگی پر بھی بات کیا کرو۔۔یاور کا لہجہ نارمل تھا جبکہ حسین حیران تھا
مطلب ؟؟کس چیز کی مبارک دی ہے تم نے۔۔اس نے پوچھا
میں جانتا ہوں کہ تو اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کبھی نہیں بتاتا لیکن اتنی اجنبیت کیا ہوئی ہم اچھے دوست ہے مجھے تو تم بتا سکتے تھے ۔۔۔یاور نے کہا
کس بارے میں بتا سکتا تھا ؟مجھے تفصیل سے بتاؤ ۔اسنے اب لیپ ٹاپ بند کر دیا تھا
یہی یار کہ تمھاری منگنی ہو گئیں ہے ۔۔اس نے کہا تو حسین واقعی حیران ہوا تھا
اور یہ بات کہاں سے پتہ چلی تمھیں ؟؟؟۔۔۔اس نے پوچھا تھا
خضر سے ۔۔اس نے جواب دی اتو حسین واقعی حیران رہ چکا تھا
اف یہ لڑکا ۔۔اس نے کہتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ پھیرا
اس کا کوئی قصور نہیں اس نے نہیں تھا بتایا وہ تو میں اور خض ایک ہی جم میں ہوتے ہیں تو میں نے وہاں اس سے بات کی تھی کہ میں حباء کے لیے پرپوزل بھیجنا چاہتا ہوں تو پھر اس نے بتایا کہ حباء کی تو تمھارے ساتھ منگنی ہو چکی ہے تو میرے یار اس میں چھپانے والی کونسی بات ہے تم تو بھنک بھی نہیں پڑنی دی ۔۔یاور نے کہا تو وہ مسکرا دیا اب اور کر بھی کیا سکتا تھا واقعی چھپانے والی کیا بات ہے اگر خود پتہ ہو اسے خضر پر انتہا کا غصہ آ رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا کہ کیسے اڑ کر خضر تک پہنچ جائے جس نے یہ بکواس کی تھی
یاور میں بعد میں بات کرتا ہوں ابھی گھر جانا ماما کی کالز آ ری ہیں ۔وہ بہانا لگا کر وہاں سے اٹھا پارکنگ سے گاڑی لی اور گھر کی طرف چل دیا خضر کی پیشن گوئی نے اسے پریشان کر دیا تھا وہ فل سپیڈ پر تھا بس جلدی سے گھر پہنچنا چاہتا تھا
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پارٹی میں پہنچے تو ہر طرف رنگ برنگ لوگ تھے کچھ اونچی آواز سے قہقہے لگا رہے تھے کچھ مسکرانے سے بھی گریز کر رہے تھے وہ پہلی بار اس طرح کی پارٹی میں آ ئی تھی جہاں پھولوں کی سجاوٹ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی کتنا خوبصورت ہوٹل ہے اس کے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا تھا لوگوں نے طرح طرح کے لباس پہنے تھے لیک جو اس نے پہنا تھا وہ اس پر کانفیڈنٹ تھی اسے دیکھ کہ ایک ڈیسینٹ سی لوک آ رہی تھی اب وہ بابا کہ ساتھ ان کے بزنس پارٹنر سے مل رہی تھی جو کہ انصر کو وہیل چئیر پر دیکھ کر سخت حیران اور پریشان تھے وہ اس سب سے سخت اکتا چکی تھی وہ بابا کو لے کر ایک طرف ٹیبل پر آگئیں
بابا آج سے پہلے میں نہیں جانتی تھیں کہ آپ کا اتنا بڑا سوشل سرکل ہے اور اتنے پاپولر ہے اور سب سے بڑی بات لوگوں نےآپ کو کتنے اچھے لفظوں میں یاد رکھا ہے۔۔اس نے کہا تو انصر مسکرا دئیے
جو کچھ کمایا تھا سب گنوا دیا سوائے عزت کہ عزت دینے والی ذات رب کی ہے اور اسی نے میری عزت بھی برقرا ر رکھی ہے ۔۔انہوں نے کہا
سب کمایا گنوا دیا تو کیا ہاوا پھر سے کمالینا لیکن یہ یار تم نہ گنوا سکے ۔۔پیچھے سے آواز آئی تو وہ فوراً سے مڑی تھی
او انصاری ۔۔انصر اسے دیکھ کے خوش ہوئے وہ ان کے بہت اچھے دوست تھے ان کے ساتھ تھری پیس میں ایک ہنڈسم سا لڑکا بھی تھا
اجیہ حیران آپ باپ کو دیکھ رہی تھی جو کہ ان کی آمد پر کافی خوش تھے
میں چند دن ملک سے باہر کیا گیا تم تو وہیل چئیر پر آ گئے شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے کتنے ہی دفعہ تمھارے آفس کااچکر لگایا لیکن تم وہاں ہوتے ہی نہیں کو ئی جانا پہچانا وہاں نظر ہی نہیں آتا اور تمھارا فون کدھر ہے ۔۔وہ نان سٹاپ بول رہے تھے
تم تھوڑی شرم کر لو میرے ساتھ میری بیٹی بھی آئی ہے ۔۔انہوں نے ان کی توجہ اجیہ کی طرف دلائی
السلام عليكم!اجیہ نے فوراً سے سلام لیا
میں طاہر انصاری اور آپ جان چکی ہوگی کہ ہم اچھے دوست ہیں ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا وہ ان کی پرسنلیٹی سے متاثر ہوئی
برخودار اپنا تعارف کرواوں۔۔انہوں اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا
طہیر انصاری۔۔اس نے اپنا نام بتایا جس سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ ان کا بیٹا تھا لیکن اجیہ نے یہ نام پہلے بھی کہیں سنا تھا اسنے یاد کرنت کی کوشش کی لیکن وہ یاد نہ کر سکی۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Muhabbet teri gird e rah main(Complete)Where stories live. Discover now