chapter 6

645 29 0
                                    

سارہ وہی حیران بیٹھی تھی اجیہ اور آریز کی شادی ہونی تھی یہ بات تو طے تھی لیکن وہ حیران تھی کہ اتنی جلدی کیسے وہ مان گیا
شمائل۔سارہ نے اس کی طرف دیکھا
جی سارہ ۔اس نے جواب دیا
کیاآریز مان گیا ہے ؟؟؟میں نہیں چاہتی میرے شہزادے کے ساتھ کوئی اور ناانصافی ہو ۔وہ پہلے ہی ہماری وجہ سے بہت suffer کر چکا ہے ۔سارہ نے کہا
وہ مان گیا تھا جب ہم لندن اس کی سالگرہ پر گئے تھے اس وقت ہی اس نے وعد ےکیا تھا اس نے مجھ سے کہ وہ اجیہ سے شادی کرے گا ۔شمائل نے ساری بات بتا دی
تم نے اسے زبردستی منایاہے ۔اس نے پوچھا
تھوڑی سی زبردستی کی ہے ۔شمائل نے کہا
اگر وہ نہیں راضی تو یہ رشتہ نہیں ہوگا۔زبردستی رشتے بنتے نہیں بگڑتے ہے اور میں کیسے اجیہ کی خاطر آریز سے زیادتی ہونے دوں میرے لیے دونوں بچے سانجھے ہے میں کسی کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی -----اس نے شمائل سے کہا
سارہ میں نے انصر سے وعدہ کیا تھا کہ اجیہ صرف میرے آریز کی دلہن بنے گی میں وعدہ خلافی نہیں کر سکتی اور اجیہ کا سوچو شروع سے ہی ہم نے اسے اس حوالے سے آریز کا نام ہی بتایا ہے تم جانتی ہو کہ وہ کسں قدر چاہتی ہے اسے اس کی ہر زیادتی ہنس کے برداشت کر لیتی ہے اور مجھے نکاح کے بولوں پر یقین ہے کہ وہ میاں بیوی میں محبت پیدا کرنے کے لیے اور ایک دوسرے سے وابستہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس نے سارہ کے ہوتھ پر ہوتھ رکھ کر اس ہمت دلائی ۔
کاش آج رضا زندہ ہوتے تو حالات کچھ اور ہوتے ۔۔۔۔۔۔سارہ نے ایک سرد آہ بھری ۔
بری بات ناشکری نہیں کرتے وہ زندہ ہے اجیہ میں اخون میں تمہیں نظر نہیں آتا جب اجیہ ہنستی ہے اور جب آخون خوشی سے سر شار ہوتا ہے ۔اس نے اس کی ہمت بندھائی ۔
انہی میں تو دیکھ دیکھ کر جی رہی ہوں ۔اس نے آنسو صاف کیے۔
چلو اٹھو اتنی دیر بعد اجیہ آرہی ہے اس کے لیے کچھ سپشل بنا لے نہیں تو ناراض ہو گی ۔وہ دونوں کچن کی طرف بڑھ گئی
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر پہنچے تھوڑی دیر سکون سے بیٹھے تو حباء نے انہیں ساری بات بتائی ۔حسین کو حصان پر شدید غصہ آرہا تھا کیونکہ وہ یمانی کے ساتھ بدتمیزی کر کے آیا تھا وہ وہاں سے اٹھا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف آگیا حصان سمجھ چکا تھا کہ حسین اس سے ناراض ہوچکا ہے وہ اس اپنا بڑا بھائی ماننے کے ساتھ اپنا آئیڈیل مانتا تھا
حباء تم پہلے نہیں بتا سکتی تھی۔حصان نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی ۔
اگر آپ کچھ سنتے تو ہی بتاتی نہ آپ نے نہ کچھ پوچھا نہ کچھ سمجھا ان کے سر پر سوار ہوگئے ۔حباء نے معصومیت سے کہا
وہاں کی جو پہلی ہیڈ تھی وہ معصوم لڑکیوں کو ٹریپ کر کے غلط کاموں کے لیے استعمال کرتی تھی اس لیے میں پریشان ہو گیا ۔وہ اس کے پاس بیٹھ گیا اور اسے اپنے ساتھ لگایا
یہ دنیا بہت بری ہے بلبل ۔یہاں اچھے لوگ کم ہی ہے یہاں لندن میں تو اکثر غیر ملکی لڑکیوں کو اپنا نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ مقامی لڑکیاں تو اس جیسی ہوتی ہے جس نے آج تمہیں بچایا۔۔۔۔۔۔۔حباء نے مسلسل اس کے کندھے پر سر رکھا ہوا تھا
بھائی اس کا نام یمانی خان ہے ۔وہ مسلم ہے وہ بہت اچھی لڑکی ہے جس طرح وہ اس لڑکے کو مار رہی تھی مجھے تو وہ لڑ کیوں کی غنڈی لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
میں تو سوچ رہی ہوں کہ کل حمیراور حضر کو اپنے ساتھ لے جاؤ اس کے پاس کیونکہ یہ مجھے بہت تنگ کرتے ہے ان دونوں کو دو کک پڑنی ہے انہوں نے سدھر جانا ۔وہ دونوں ہنس رہے تھے
حباء ہماری دشمنی بس گھر تک رہنی چاہیے باہر والوں کو انوالو مت کرو ۔حمیر نے کہا تو حضر بھی ہنسا
کتنا مزاحیہ سین ہو گا ایک لڑکی ایک لڑکے کو پھینٹی لگا رہی ہے پاکستان میں ہوتا نہ تو یمانی نے مشہور ہو جانا تھا ۔حضر بولا تو ان سب نے قہقہے لگائے
میں تو حسین سے کہہ رہی تھی کہ حصان کو پکڑ لے کہی اسے دو تین مکے نہ جھڑ دے ۔حباء کہتے ہوئے ہنس رہی تھی حصان اسے گھوریاں ڈالتے ہوا اٹھا اور حسین کے پاس آگیا وہ لائٹ بند کیے صوفے پر بیٹھا تھا
بھائی ۔اس نے حسین کو پکارتا ہوا اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا
آپ ناراض ہے نہ مجھ سے مجھے پتہ ہے ۔اس نے پوچھا لیکن حسین اگے سے کچھ نہ بولا
بھائی کچھ تو بولے آپ جانتے ہے مجھ سے آپ کی ناراضگی برداشت نہیں ہوتی ۔میں نے جان بوجھ کے اس کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی ۔اس نے حسین کاہاتھ پکڑا ۔
میں ناراض نہیں ہوں بس سوچ رہا ہوں کہ آج میں ہار گیا مجھے لگتا تھا کہ میں تم لوگوں کی ذمہ داری اچھے سے نبھا رہا ہوں لیکن میں ذمہ داری تو نبھا رہا ہوں لیکن فرض بھول گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا
بھائی ایسا نہ کہے ۔اس نے اس کا ہاتھ پھر پکڑا
حالات کچھ بھی ہو سوچو اگر کوئی حباء سے اس ٹون میں بات کرے برداشت ہو گا تم سے ۔۔۔۔۔۔حصان نے نہ میں سر ہلا دیا
تو پھر وہ بھی تو کسی کی بہن ہو گی ۔ہمیں کچھ بھی جانے بغیر ریکٹ نہیں کرنا چاہیے ۔اس نے حصان کے چہرے پر ہاتھ رکھا حسین نے اپنے باپ اور چچا کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں کی جیسے بھی پرورش کی سب سے پہلے انہیں ہر حالات میں دوسروں کی عزت کرنا سکھایا آج واقعی اُ سے برا لگا جس طرح سے حصان نے اس بات کی ۔
بھائی آئی ایم رئیلی ویری سوری ۔میں کل ہی اس سے معافی مانگ لوں گا آپ ناراض نہ ہو اب کبھی ایسا نہیں ہو گا ۔حسین نے اسے گلے سے لگایا ۔اس نے بڑی محنت سے اپنے بھائیوں کو سمیٹ کے رکھا تھا وہ چاہتا تھا انہیں کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہو لیکن باپ کی جگہ کوئی بھی فل نہیں کر سکتا وہ حصان کو اس لیے بھی توجہ دیتا کہ اسے یہ نہ لگے کہ حضر اور حمیر کا سگا بھائی ہے تو اس لیے ان سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ان سب چیزوں کا دھیان رکھنا پڑتا تھا جب سب کر ساتھ لے کر چلنا ہو ۔
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی پیکنگ کر ہی رہی تھی انصر لینے آ گیا اس پیغا م پہنچا دیا گیا کہ اس کے بابا لینے آ گئے ہے 
وہ اب بریف کیس مں چیزیں ٹھونس رہی تھی فوراً سے کپڑے بدلے دوپٹہ کھول کے سر پر لیااور بریف کیس لے کر نیچے آگئی لاؤنج میں ہی انصر اس کا انتظار کر رہا تھا
اسلام وعلیکم ۔اس نے سر آگے کیا
وعليكم السلام۔انہوں نےسر پر ہاتھ رکھا
کیسی ہو لاڈلی ۔انہوں نے پوچھا
میں ٹھیک ہوں ۔اس نے جواب دیا
چلو چلے ۔انہوں نے اس کا بریف کیس کا ہنڈل کھول کہ پکڑا اور باہر کی طرف چل دی ۔
وہ دروازہ کھول کے بیٹھ گئی اس نے محسوس کیا کہ بابا پریشان ہے
بابا۔اس نے پوچھنا تھا
جی لاڈلی ۔انہوں نے فورًا جواب دیا
آپ کس وجہ سے پریشان ہے؟؟ اس نے پوچھ ہی لیا
میں پریشان تو نہیں ہوں بس ایک چھوٹا سا بزنس پرابلم ہو گیا ۔فکر کی کوئی بات نہیں ۔انہوں نے اسے مطمئن کرنا چاہا ۔
تھوڑی آگے پہنچے تو انصر نے ایک سائیڈ پر گاڑی روکی ۔
بابا ۔گاڑی کیوں روکی؟؟اس نے پوچھا
بھوک لگ رہی ہے چلو اس ریسٹورنٹ سے کچھ کھا لے ۔وہ گاڑی ان لاک کر کے سامنے ریسٹورنٹ کی طرف اشارہ کیا
نہیں آپ جائے کچھ لے آئے میں گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔اس نے کہا تو انصر گاڑی لاک کر کے ریسٹورنٹ میں چلے گئےاس کی نظر سامنے پڑی فائل پر پڑی۔اس نے کھول کر پڑ ھنا چاہا اس نے کھولی تو جیسے جیسے ورق بدل رہی تھی اس کے چہرے کے رنگ بھی بدل رہے تھے وہ سب پڑھ کر پریشان ہوگئی اتنے میں انصر بھی نگٹس برگر لے کر آگیا فائل اجیہ کے ہاتھ میں دیکھ کر پریشان ہو گیا
کسی کی ذاتیات میں دخل اندازی کرنا بری بات ہے ۔انہوں نے فائل واپس لی اور چاہ کر  بھی اسے ڈانٹ نہ سکا
آپ کسی نہیں آپ بابا ہے میرے اور آپ کی ذاتیات اور غیر ذاتیات سب چیک کر سکتی ہوں ۔اس نے سنجیدگی سے کہا
بابا ہم آپ کے بچے ہیں ہم جب آپ کو اپنی سب پریشانیاں بتا سکتے ہے تو آپ کیوں نہیں بتا سکتے کیوں اکیلے ہی یہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ۔وہ اب ان کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئی
تم لوگ بچے ہو میں باپ ہوں اور تم لوگوں کو زندگی کی دھوپ سے بچانا میری ذمہ داری  ہے میں تم لوگوں کو اس لو والی دھوپ میں نہیں کھڑا کر سکتا جب تک مں ہوں اس چھاؤں سے فائدہ اٹھاؤ۔وہ آخر میں مسکرائے ۔
کب سے ہو رہا ہے یہ نقصان اور کتنا ہو چکا ہے ۔اسنے تفصیل جاننا چاہی شاید وہ کچھ کر سکتی ۔
تقریباً 45% ہوا ہے لیکن یہ صرف ایک ہی ڈیل کی مار ہے میں سب ٹھیک کر لوں گا ۔انہوں نے اس کو تسلی دلائی
یہ سب ٹھیک ہو یا نہ مجھ سے شئیر ضرور کرئیے گا اب ہم بڑے ہو گئے ہے آپ کی پریشانیاں تو شئیر کر سکے  ۔وہ ابھی بھی اسی طرح بیٹھی ہوئی تھی
اب سیدھی ہو کر بیٹھ جاؤں آگے موٹروے ہے انہوں نے گاڑی روک دینی ہے ۔انہوں نے کہا
اوکے باس ۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح ہوئی تو حسین تیار ہو کر کیفے کی طرف نکلنے لگا کہ حباء آگئی
کہاں جا رہے ہے ؟اس نے پوچھا تو حسین حیران ہوا پہلی دفعہ اس نے  یہ سوال کیا تھا
حیریت کہیں جانا تم نے ۔اس نے گھڑی باندھتے ہوئے پوچھا
جی یمانی سے ملنے مجھے لے چلے ۔اسانے دوپٹہ کھول کر کندھوں پر لیابال پونی ٹیل بنائے وہ اندر سے بلکل بچی تھی
کیوں؟ حسین نے جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہو گیا
میرادل کر رہا ہے اب یہ نہ کہیے گا کہ نہیں جانا کیوں کہ میں نے جانا ہے ان سے ملنا ہے ۔اس نے ہوتھ بندھ لیے
چلے آج آپ کے دل کی مان لیتے ہے ۔وہ فوراً مان گیا
آپ ٹھیک ہے نہ حسین ۔اس نے پوچھا
بلکل ۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
مجھے لگا کہ آپ بیمار ہے ۔اس نے کہا
ایسے کیوں لگا تمہیں۔حسین نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں کل والی بات پہ آپ نے مجھے ڈانٹا نہیں اور آج بھی اتنی آسانی سے ساتھ لے جانے پر مان گئے ۔اس نے حیران ہو کر کہا
میں ٹھیک ہوں بلکل ۔وہ پھر مسکرایا تو حباء بھی مسکرادی
وہ گاڑی میں ساتھ والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی
ہم کتنے دن یہاں مزید رکے گے؟؟ وہ اب اداس ہو رہی رہی تھی کل والے واقعہ سے اس کا دل کر رہا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائے سب جاکر اپنے دادا کو اماں کو بتائے جنکو کبھی اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔
تم لوگ کچھ دن تک واپس چلے جانا میں یہاں بزنس کی کچھ سٹنگ کرنا چاہ رہا ہوں اس لیے میں اور حصان کچھ دن مزید رکے گے۔اس نے گاڑی سٹارٹ کی ۔
اوکے ۔اس سے زیادہ کہنے کی اسے اجازت بھی نہیں تھی
تھوڑی ہی راستہ گزارا تو اس کے موبائل پر رنگ ٹون بجنی شروع ہوگی اس نے اٹھایا سننے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کے رنگ بھی بدل رہے تھے ۔
زرا سے بھی پرفیشنلزم ہے آپ میں اگر میں یہاں مزید چار دن رکا آپ لوگ تو میرا بزنس برباد کر دے گے آپ کو کہا تھا کہ ہر ای میل مجھے سنڈ کر کے پھر آگے سنڈ کیجیے گا ۔وہ تھوڑی دیر کو اس کی سننے کے لیے رکا
آپ ہر چیز مجھے سنڈ کرے میں خود چیک کر کے ان سے بات کرتا ہوں ۔اس نے کہتے ہوئے فون بند کیا اسے یقین ہوگیا کہ وہ ٹھیک ہی ہے اب وہ دعا کر رہی تھی کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے ورنہ وہ اس پر نکل جانا تھا
پتہ نہیں کیوں دادا ابو کی مان کے یہاں آگیا ۔اس نے سٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مارا زخم والا ہاتھ ھا پھر خود ہی پیچھے کر لیا حباء نے باہر دیکھنا شردع کر دیا
حسین نے یمانی کے کیفے کے سامنے گاڑی روکی تو فوراً اتری اندر جاکر پتہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ اس کی رات کی ڈیوٹی ہے حباء کا دل سخت برا ہوا ایک تو سارا راستہ حسین کو پرداشت کیا اوپر سے یمانی سے بھی نہ مل سکی ۔حسین نے اس کے گھر کا پتہ لیا
چلو حباء اس کے گھر چلتے ہے ۔وہ کہتے ہوئے باہر آگئے
اس کے گھر پہنچے تو وہ ایک اچھا گھر بنا ہوا تھا باہر چھوٹا سا لان تھا جو باہر سے ہی نظر آرہا تھا آگے جاؤ تو دروازہ تھا جو بند تھا وہ دونوں آگے بڑھے حسین نے بوکے حباء کو پکڑا کے دروازہ ناک کیا وہیل چئیر پہ بیٹھے ایک شخص نے دروازہ کھولا
وہ ان دونوں کو دیکھ کے حیران ہوئے ۔
تم لوگ کون ہو؟انہوں نے پوچھا
میں حسین خان اور یہ حباء خان ہے ہم مس یمانی سے ملنے  ہے ۔اس نے جھک کر سلام لی
یمانی سے ویسے تو اس کے دوست بہت ہی کم ہے لیکن جو ہے ان کے بارے میں مجھے پتہ لیکن مجھے یاد نہیں آرہا کہ اس نے کب اس نے تم دونوں کر بارے میں بتایا ۔انہوں نے جواب دیا
جی ہم رات کو ہی ان سے ملے ہے ان کا تھینک یو کرنے آئے ہے اگر آپ اندر آنے کی اجازت دے ۔اس کے کہنے پر مالک نے غور کیا کہوہ ابھی تک باہر ہی کرے ہے
معذرت ۔انہوں نے وہیل چئیر پیچھے دھکیلی
حسین نے ان کی وہیل چئیر دھکیل کر لاؤنج تک لے آیا
بیٹھو تم لوگ میں یمانی کو فون کر کے پوچھو کہاں رہ گئی آ جاتی ہے اس وقت تک تو ۔انہوں نے پاس پرا موبائل اٹھایا انہوں نے کال کی تو وہ راستے میں تھی اس لیے وہ اس سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔
وہ گھر پہنچی تو مہمان بیٹھے ہوئے تھے اس نہ ایک دم منہ چرایا اسے لوگوں سے ملنے اتنا پسند نہیں تھا لیکن وہ بے مروت بلکل نہیں تھیں
وہ پہلے کمرے میں چلی گئی کپڑے چینج کر کے ٹہنوں تک قمیض اور جینز پہنی ہوئی تھی گلے میں دوپٹہ آگے پیچھے لے کر نیچے آگئی
اسلام و علیکم ۔اس نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
وعلیکم اسلام ۔حباء اس کے پاس صوفے پر آگئی
میں بہت کم دوست بناتی ہوں لیکن میں آپ سے دوستی کرنا چاہتی ہوں ۔حباء نے اس کے آگے ہاتھ کیا
میرے بھی زیادہ دوست نہیں ہے ایک تھا بچپن کا ۔اس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اس کی آنکھوں میں نمی تھی
تھا مطلب چھوڑ گیا ۔اس نے مزید پوچھا
ہاں چھوڑ گیا ۔اس کے ذہن میں ایک دم یوشع کا چہرہ سامنے آگیا تو وہ مسکرا دی
چلے میں تو کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گی میں دو دن یہاں ہوں اگر آپ کے پاس وقت ہو تو مجھے لندن کی سیر کروا دے میں ایک لڑکی کی کمپنی انجوائے کرنا چاھتی ہوں ان بھائیوں میں پھنس کر رہ گئی ہوں ۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
کتنے بھائی ہے ؟ اس نے پوچھا
تین بھائی ہے جنہوں نے کبھی کسی اود سے دوستی کرنے کا ہی نہیں دی جس لڑکی سے بھی میں دوستی کرتی تھی یہ میرے پیچھے ان سے دوستی کر لیتے پھر مجھے ماما سے ڈانٹ پڑتی کہ میں انہیں بگاڑ رہی ہو ں ۔اس نے ہنستے ہوئے کہا
نائس فیملی ۔اس نے سراہا
آپ کے بہن بھائی؟؟اس نے پوچھا
آئی ایم اونلی چائلڈ نو بھائی نو لڑائی ۔اس کے لہجے  میں ایک حسرت تھی کچھ رات کو ان سب کو حباء کے لیے پریشان ہوتے دیکھ کے زیادہ ہوگئی۔
حباء چلے ۔حسین نے اٹھتے ہوئے کہا
جی ۔یمانی اس کے ساتھ کھڑی ہوئی
اگر کل ٹائم ملا تو پلیز کال کر لینا آپ میری کمپنی انجوائے کرے گی ۔حباء نے کہا
اوکے ۔اس نے ہاتھ ملایا وہ انہیں گیٹ تک چھوڑنے آئی ۔
        

Muhabbet teri gird e rah main(Complete)Where stories live. Discover now