chapter 8

753 37 25
                                    

دو دن سے وہ سب انصر کے گھر تھے سارہ واپس چلی گئی تھی لیکن داور دامیان اور داریہ ادھر ہی تھے مائرہ بھخ بپوں کے ساتھ ادھر ہی ھی اجیہ جو کہ پچھلے کچھ دنوں سے خانسا ماں بنی ہوئی تبی کچن سے لاونج میں آئی تو داور اپنے موبائل پر بزی تھا آلیمان اپنے موبائل پر بزی تھا آریز شاید باہر گیا ہوا تھا دو دن میں دو تین دفعہ بمشکل اس نے اسے دیکھا ہو گا سارھ ہی آخون عشر اور عاشر بیٹھے ہوئے تھے
داور ۔وہ اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھی  ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر بولی کوئی ریکشن نہ آیا
داور۔وہ پھر بولی
جی ۔اس نے موبائل پر ٹائپ کرتے ہوئے جواب دیا
تم کب جا رہے ہو ؟ اس نے سوال کیا
کدھر ؟ اس نے الٹا سوال کیا
اپنے گھر قسم سے میں تم لوگو ں کے لیے کھانے بنا بنا کر تھک گئی ہوں ۔اس نے دارو کو موبائل رکھتے ہوئے دیکھا تو سیدھی ہو کر بیٹھ گئی
استغفراللہ۔اب یہ دن آئے گے کہ آپ مہمانوں کے ساتھ یہ سلوک کرے گی۔اس نے ایکٹنگ شروع کی
مہمان دو دن کے ہوتے ہے اور اگر تم جیسے ہو تم دو گھنٹے کے  لیے ہی کافی ہوتے ہے اور تمہیں آئے کافی گھنٹے ہوگئے ۔اس نے بھی صاف جواب دیا
مجھے نہیں امید نہیں تھی کہ میرے ماموں گھر اب یہ بھی ہو گا کہ مہمانوں کو زحمت سمجھا جائے گا ۔وہ اب لڑنے کے لیے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا
مہمانوں کو نہیں آپ جیسے فضول انسانوں کو اصطلاح کرے۔اس نے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائی
میں فضول یہ زیادتی نہ کرے ایک دفعہ ایکٹر بن لینے دے آپ کو تو آٹوگراف بھی نہیں دینا ۔اس نے کالر سیدھا کیا پڑھ تم میڈیکل رہے ہو بننا تم نے ایکٹر ہے ڈبل سٹنڈر۔اس نے ہنستے ہوئے کہا
ہنس لے آریز بھائی آرہے ہے پھر دیکھتا ہوں کیسے  ہنستی ہے مجھ پر۔اس نے سامنے سے آتے ہوئے آریز کو دیکھا تو دل میں بولی تمھیں بھی ابھی ہی آنا تھا
تمھاری میری لڑائی ہے آریز کو شامل نہ کرو تو بہتر ہے ۔اس نہ اس وارن کیا
وہ تو شروع سے ہی شامل ہے ۔اب وہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھا داور ۔وہ چیخی لیکن وہ آریز کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو چکا تھا دیکھے آریز بھائی
آپکی فیوچر مسسز چاہتی ہے کہ میں یہاں سے دفع ہو جاؤ۔وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صوفے کے پاس آگئے
وہ تو شروع سے یہی چاہتی ہے کہ وہ جہا ں ہو اکیلی ہی ہو ۔آریز کی چبھتی نظر اجیہ پر تھی جسے وہ اچھی طرح محسوس کر رہی تھی
ایسی تو کوئی بات نہیں ۔وہ اپنے دفاع میں اتنا ہی بول سکی داور خود پانی پینے کچن میں چلا گیا
مجھے تو ابھی تک یہی سمجھ آئی ہے تمھاری ۔ وہ ابھی تک مقابل کھڑا تھا اجیہ نے ہٹنا چاہا وہ نہیں چاہتی تھی سب کے سامنے وہ تماشا بنے آریز پھر اس کے سامنے ہو گیا اپنا دفاع کرو یوں بھاگنے کی راہیں تلاش کرنے والے لوگ مجھے سخت ناپسند ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے تیوریاں چڑھائی
سیدھے سے کہو کہ میں ہی نا پسند ہوں سہارے لے کر کیوں باور کروانا چاہ رہے ہو ۔۔۔۔وہ بھی دوٹوک بولی آریز حیران ہو ا
دیکھے بھئی ایک سال میں لوگوں کو بولنا آ گیا ۔۔۔اس نے ہنستے ہوئے کہا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے سب کو متوجہ دیکھ کے وہ ہٹنا چاہ وہی تھی وہ اکثر سب کے سامنے بے عزت کر دیتا سو وہ سب کے سامنے بولنے سے گریز کرتی تھی پہلے وہ بچے تھے لیکن اب وہ بچے نہیں تھے آریز ۔میں نہیں چاہتی کے نکاح سے پہلے ہماری کوئی  لڑائی ہو تو بہتر ہے کہ میں کنارا کر لوں مجھے کام ہے پیچھے ہٹو ۔وہ سائیڈ سے نکلنے لگی وہ پھر آگے ہو گیا
نکاح کے بعد تو آفیشیل لڑائی ہو گی کیوں نہ تھوڑی نکاح سے پہلے کر لے تھوڑے دن ہی بچے ہے پھر نیکسٹ میں بہت مصروف ہوں تم تو جانتی ہو کہ ماڈل ہوں تو شوٹنگ میں بزی ہو جاؤں گا سو آج لڑا ئی کر لیتے ہے ۔وہ دیدہ دلیری سے ڈٹا ہوا تھا
یہ آریز بھائی کا موڈ کو کیا ہو گیا ان کا موڈ اجیہ آپا کے ساتھ کبھی اتنا اچھا نہیں ہوتا تھا ۔داریہ نے ادعیہ کے کان میں سرگوشی کی
کیا مسئلہ آریز پیچھے ہٹو مجھے کام  ہے ۔اس نے پھر نکلنے کی کوشش کی ۔
ہم سے بھی زیادہ کوئی اور کام اہم ہے آپ کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
آریز یہ جگہ نہیں ہے بات کرنے کی سب ہماری طرف ہی متوجہ ہے ۔اس نے بات ختم کرنا چاہی کوئی بات نہیں متوجہ ہے تو ہو وہ بھی تو دیکھے
ان کی آپی میں بات کرنے کے کتنے گٹس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ابھی تک ڈٹا ہوا تھا اجیہ سخت چڑھ گئی
ٹھیک ہے پھر آج دو ٹوک بات کر ہی لیتے ہے
بو لوتمھیں مجھ سے مسئلہ کیا ہے ۔وہ بھی ڈٹ کر کھڑی ہو گئی
تم سے بہت سے مسئلے ہے نکاح والے دن بتاؤں گا ابھی وقت نہیں ہے ۔وہ کال کاٹتے ہوئے اس کے سر پر چپت لگا کر آگے نکل گیا
کیا بدتمیزی ہے آریز ۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے پلٹی تو وہ نکل چکا تھا اجیہ ذرا سا تمیز سے ہی بلا لیا کرو ۔سارہ نے اسے ڈانٹا
آپ کو اپنے لاڈلے کی حرکتیں نظر نہیں آتی میں تمیز سے بلا لوں میں اس کا احترام کر کہ تھک گئی ہوں ۔وہ صوفے پر بیٹھی ۔
اجیہ اپنا لہجہ دیکھا کس طرح بات کر رہی ہو۔شمائل نے درستگی لازمی سمجھی
سوری اماں ۔اس نے ان کی بانہوں میں بانہیں ڈالی
کوئی بات نہیں لیکن نیکسٹ ٹائم ایسے بات کی تو میں ناراض ہو جاؤں گی۔سارہ نے دھمکی دی اجیہ کی تو اپنی ماؤں میں جان تھی
اوکے جی آپ کو حق ہے۔اس نے سر خم کیا اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ نکاح سے پہلے ہی ہر بات اس سے کلئیر کرے گی                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یمانی پہلے اس ایک مشہور پارک میں لے کر گئی اس کے بعد وہ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے رکھے اور اب وہ دونوں شاپنگ مال میں شاپنگ کر رہی تھی حباء کو اپنی ماما اور تائی کے لیے بہت کچھ خریدنا تھا پھر ایک ایک کر کے سب کے لیے شاپنگ کی یمانی اور حباء میں اچھی دوستی ہو گئی تھی
حباء ۔یمانی نے ایک دوکان کے سامنے رک کر اسے آواز دی جی۔وہ فوراً متوجہ ہوئی
یہ شرٹ اچھی ہے لے لو حسین کے لیے ان کے لیے تم نے ابھی تک کچھ نہیں لیا ۔اس نے شرٹ کی طرف اشارہ کیا
نہیں ان کے لیے لینا بھی نہیں میں نے کبھی انہیں کوئی گفٹ نہیں دیا ۔اس کی نظر شرٹ پر تھی جو واقعی حسین پر اچھی لگنی تھی
کیوں؟ اس کا اگلا سوال تھا
انہوں نے کبھی برتھ ڈے سلیبریٹ ہی نہیں کی گفٹ تو برتھ ڈے پر دئیے جاتے ہے سو اس لیے آج تک کوئی گفٹ دینے کا سوچا ہی نہیں ویسے بھی کافی غصیلے ہے پتہ نہیں ان کا ریکشن کیا ہو ۔اس نے جواب دیا
چلو پھر آج لے کر دیکھ لو کیا ریکشن ہو گا۔وہ اسے لے کر سٹور میں چلی گئی اس نے وہاں سے سے شرٹ لی اور یمانی نے اپنے بابا کاکرتا لیا اور وہ مال سے نکل کر اب لندن کی سڑکوں پر تھے وہ اس اس پارک میں لے گئی جہاں وہ یوشع ساتھ جاتی تھی اور اس کے بعد جب بھی اداس ہوتی اای پارک میں چلی آتی
اس پارک میں میں اور یوشع نے اپنا بچپن گزارہ ہے ۔اس کے لہجے پتہ نہیں کیا تھا کہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی
ہم نہ یہاں لندن کی دھوپ جب کبھی نکلتی لندن کی ہلکی پھوار لندن کی برف باری اور لندن سے ریلٹیڈ ہر چیز انجوائے کی چاہے وہ میری فرسٹ پوزیشن ہوتی یا پھر میرا کالج میں ملنے والا گول میڈل ، یوشع کی سالگرہ یوشع کے میچز کی سلیبریشن یوشع کا بریک اپ ، اسکی ی ہرچیز یہاں سلیبریٹ کی ہے وہ میرے لیے تھا اور میں اس کے لیے تھی ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے  کافی ہوتے تھے۔اس ہنستے ہوئے کہا دو آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکے
جب اتنی دوستی اور بانڈنگ تھی تو وہ آپ کو چھوڑ کر کدھر چلا گیا ؟وہ حیران تھ اس نوعیت کے رشتے کے بعد بھی لوگ چھوڑ جاتے ہے
تمھارے پاکستان چلا گیا وہ مجھے یہاں چھوڑ کر ۔اس نے کہا تو حباء نے مڑ کر اسے دیکھا تو
اب آپ کب جا رہی ہے اس کے پاس پاکستان ۔اس کا اگلا سوال تھا
اس نے کبھی بلایا ہی نہیں وہ کوئی راہ چھوڑ کر ہی نہیں گیا ۔اب وہ بھی حباء کی طرف دیکھ رہی تھی
کہاں ہوتا ہے وہ پاکستان میں اسے ڈھونڈ کر آپ کے پاس بھیج دوں گی۔تا کہ آپ کی مسکراہٹ واپس آ سے آپ بہت پیارا مسکراتی ہے۔اس نے کہا تو اس نے ایک مسکراہٹ سے حباء کو بھی نوازہ ۔
اس کی روڈ ایکسڈنٹ میں ڈیتھ ہوگی تھی میرے بابا اور اس کے بابا بھی اس ایکسڈنٹ میں اس کے ساتھ تھے بابا پیرالائز ہو گئے اور اس کے بابا کو کوئی چوٹ نہ آئی اور وہ خود سب کو دغا دے گیا غلط کیا اسنے  اچھے دوست ایسا نہیں کرتے تھے ۔اس کا لہجہ  درد سے بھرا ہوا تھا
سوری مجھے نہیں تھا پتہ ۔حباء شرمندہ ہو ئی ۔
کوئی بات نہیں تمہیں واقعی کیسے پتہ ہوگا ۔اس نے کہا چلو میں تمہیں یہاں کی ہر چیز دیکھاتی ہوئی ۔وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پارک کی ہر چیز کے بارے میں بتا رہی تھی اسے بہت دیر بعد کو ئی ملا تھا جس سے وہ اتن باتیں کر رہی تھی لوگ عموماً اسے مغرور ہی سمجھتے تھے شاید ہم سب ہی جو لوگ کم بولتے اور اپنے تک محدود رہتے ہے انہیں مغرور سمجھتے ہے ان کے ساتھ کے حالات کو واقعات کو ئی نہیں سمجھتا ہم صرف ظا ہر دیکھتے ہے اندر تک اس انسان کو کھوجتے ہی نہیں ہے ۔ انہیں پارک میں کافی اندھیرا ہو گیا تو یمانی اسے وہاں سے گھر چھوڑنے آگئی
پھر کب ملے گے ۔اس دفعہ یمانی نے پوچھا
جب آپ پاکستان آئے گی ۔انہوں نے کانٹیکٹ نمبر شئیر کر لیا تھا
میں شاید ہی آؤں پاکستان ۔اس نے کہا 
تھینک یو فار ایوری تھینگ مجھے بہت اچھالگا تم سے مل کر۔حباء اس سے گلے ملی
پیاری لڑکی تم ادھر ہی کیوں نہیں رہ جاتی ۔یمانی نے کہا نہیں رہ سکتی کال پر ضرور بات کرے گے ۔حباء نے اسے گلے لگایا
اوکے جی پھر ملے گے ۔وہ کہتی ہوئی گاڑی میں بیٹھی اور حباء نے دروازے میں کھڑے  ہو کر  ہاتھ ہلایا اور یمانی گاڑی لے کر گھر کی طرف  بڑھ  گئی تھی
         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Muhabbet teri gard e rah main by amna ikram
Episode  5
نکاح میں ایک دن باقی تھے سب کزنز ان کے گھر میں موجود تھے آریز کم ہی نظر آرہا تھا وہ کسی کام میں بہت بزی تھا وہ پھر کسی کام سے باہر جانے لگا تھا تو سوچا کے اجیہ سے بات کر لے وہ کئی راتوں سے مضطرب تھا کہ وہ کیا کرے  اسے لگا تھا اگر اب وہ یہ بات نہ کرے گا تو بہت لیٹ ہو جائے گا اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اندر سے اجیہ اور ادعیہ کی باتوں پر فوکس ہو گیا
آپا کتنا اچھا لگا گا بھائی کو جب انہیں یہ پتہ چلے گا آج تک جتنے سرپرائز انہیں ملے آپ کے پلان کیے ہوئے تھے ۔ادعیہ کی آواز میں خوشی تھی لیکن آریز ٹھٹکا اسے باری باری اپنی ہر برتھ ڈے کا سرپرائز یاد آرہا تھا جو اسے لگتا تھا کہ اس کے والدین اور بہن بھائی اس کے لیے کرتے تھے۔
آپا مجھے نہیں لگتا تھا کہ کوئی اس طرح سے بھی کسی سے محبت کرسکتا جیسے آپ نے آریز بھائی سے کی ہے بہت خوش قسمت ہے بھائی اس قدر چاہتی ہے آپ انہیں میں آپ لوگوں کے لیے بہت خوش ہوں ۔ادعیہ کی آواز میں اب بھی وہی خوشی تھی آریز کو ایسا لگا جیسے سب کچھ تو اجیہ کے لیے ہو رہا اس نے محبت کی تو اب اس کو وہ محبت بھی مل رہی ہے اسے لگا وہ خالی ہاتھ رہ گیا اس کے ہاتھ نہ کبھی اپنے بہن بھائی تھے اور نہ ہی اس کی اپنی خوشیاں تھی وہ تو ایک وعدہ کے تحت اس نکاح کے لیے مان گیا تھا لیکن اسے اب لگ رہا تھا کہ اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی اے لگ رہا تھا اجیہ ایک دفعہ پھر جیت گئی جیسے وہ بچپن میں سکول میں ریس میں جیت جایا کرتی اور امتحان میں وہ ایک نمبر سے جیت جاتی اور جب وہ ان کے گھر آئی تو اسے لگا اس نے نے اس دنیا کی بدترین شکست دی ہے اسے لگ رہا تھا کہ وہ اونچی آواز میں اس پر قہقہے لگا رہی ہے وہ کنپٹی مسلتا باہر نکل گیا ۔ سارا دن بے قارا گھوم رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے وہ سارا دن سڑکوں پر گھومتا رہا رات کو ایک بجے گھر آتے ہی اجیہ کے کمرے کی طرف گیا وہ ہاتھوں میں مہندی لگائے بیٹھی ادعیہ سے باتیں کر رہی تھی وہ سیدھا اس کے سر پر جا کھڑا ہوا
بھائی آپ کدھر آرہے ؟ ماما نے دیکھ لیا تو ڈانٹے گی۔ادعیہ فوراً الرٹ ہوئی مجھے اجیہ سے ضروری بات کرنی ہے تم باہر جاؤ۔اس نے سرد لہجے میں کہا تو اجیہ کو ایک دفعہ پرانا بے حس آریز لگا وہ پریشان ہوئی
نہیں بھائی۔آپ جائے یہاں سے ۔ ادعیہ نے اس کا بازو پکڑ کر باہر نکالنا چاہا تمہیں ایک دفعہ سمجھ نہیں آئی ۔اس نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ سارہ آگئی
کیا ہو رہا ہے ادھر ۔اس نے پوچھا تو تینوں مڑے
کچھ نہیں مجھے بس اجیہ سے ضروری بات کرنی ہے ۔اسنے صاف لفظوں میں اپنا مدعا رکھا
ابھی نہیں بہت رات ہو گئی ہے اور گھر میں مہمان بھی بہت ہے  جا کر سو جاؤ صبح بات کرے گے ۔انہوں نے اس وہاں سے جانے کو کہا لیکن پھوپھو۔اس نے اتنا ہی کہا تھا
نہیں لاڈلے صبح ۔وہ کہتی ہوئی اس باہر لے گئی وہ چلا تو گیا لیکن اجیہ کو پریشان کر گیا کیوں کہ اس کاچہرہ بتا رہا تھا کہ وہ خود بھی بہت پریشان ہے ۔ نہ ہی آریز ساری رات سویا اور نہ ہی اجیہ ساری رات سو سکی اس کی آنکھیں صبح تک لال ہو چکی تھی  وہ اب خود آریز سے ملنا چاہ رہی تھی لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی اس کے پاس موجود ہوتا تھوڑی دیر میں بیوٹیشن آ گئی سفید رنگ کے گھٹنوں تک فراک اور نیچے غرارہ پہنے سر پر کام والا پرپل دوپٹہ لیے وہ خوبصورت ہونے کا ثبوت دے رہی تھی بیوٹیشن اپنا کمال کر کے چلی گئی تھی وہ کھڑکی سے نیچے لان میں دیکھ رہی تھی جہاں ہر طرف مہمان ہی مہمان تھے وہ آکر بیڈ پر بیٹھ گئی جبھی اسے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی اس نے مڑ کر دیکھا تو آریز وائٹ شلوار قمیض پہنے کھڑا تھا آریز۔اس کا دل ایک دم سے دھڑکا
اجیہ میری بات سنو ۔میں یہ نکاح نہیں کر سکتا پلیز جب وہ تم سے اجازت مانگنے آئے تو منع کر دینا میں نے اگر یہ نکاح کیا تو میں مر جاؤں گا تمہیں تو اپنی محبت مل جائے گی بتاؤں مجھے کیا ملے گا میں تم سے محبت نہیں کرتا نفرت کرتاہوں میں نے ماما کو منع کرنے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں مجھ سے زیادہ تم اور تمھارے بابا سے کیا ہوا وعدہ عزیز ہے ۔اسنے سرد لہجے میں کہا تو اجیہ کو لگا اس کے پاؤں تلے زمین نہیں ہے
آریز اگر یہنکاح نہ ہوا تو میں مر جاؤں گی ۔کہتے ہوئے اس کی آنکھ سے کئی آنسو گرے مر جاؤ لیکن میں اب اپنے ساتھ مزید کوئی زیادتی نہیں کروں گا میں کب تک تمھاری وجہ سے برداشت کروں کیوں کروں تم جیسی لاکھوں میرے آگے پیچھے گھومتی ہے تو میں تمھارے لیے خود کو کیوں ضائع کروں۔اجیہ کو لگا کسی نے اسے آسمان سے لاکر زمین پر زور سے پٹخ دیا ہو اور وہ طے کر کے آیا تھا کہ وہ نکاح نہیں کرے گا اور اس کا لہجے سے یہ بات واضع تھی اجیہ کی آنکھوں نے مسلسل آنسو بہی رہی تھے
اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم انکار کر رہی ہو یا پھر میں خود کروں اتنے دنوں سے تمھارے ساتھ اچھا رہنے کی ایکٹنگ کر رہا ہوں اب اگر تم نے انکار نہ کیا تو میری ایکٹنگ تو ضائع ہو جائے گی ۔اسنے آخری بات ہنستے ہوئے کہی میں انکار نہیں کروں گی ۔اس نے آنسو صاف کیے ٹھیک ہے نہ کرو میں خود کر لوں گا ۔وہ پلٹا تو اجیہ اس کے سامنے آگئی
پلیز ایسا نہ کرنا میں نے ہمیشہ تم سے ہی محبت کی ہے اور بس تمہیں ہی دعاؤں میں مانگا ہے رحم کرو مجھ پر میرا اور میری محبت کا تماشا نہ بناْؤ۔اس نے اب اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تم نے محبت کی تمھارا مسئلہ اور تمھاری چاہت تمھاری محبت میں کچھ نہیں جانتا میں یہ نکاح نہیں کرنے والا تو نہیں کروں گا ۔اسنے اس بیڈ کی طرف دھکا دیتے ہوئے دروازے پر ہلکی سے دستک دی تو دروازہ کھل گیا اور وہ چلا گیا اجیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے ادعیہ اندر آئی تو اس نے اسے سارہ کو بلانے کے لیے بھیجا ادعیہ اس کی حالت دیکھ کر فوراً سے سارہ کی طرف بھاگی۔ سارہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی کیا ہوا اجیہ ۔سارہ نے پوچھا ادعیہ نے دروازہ بند کیا
ماما ۔آریز کہہ رہا ہے وہ یہ نکاح نہیں کرے گا پلیز اس روکے ۔اس نے روتے ہوئے کہا تو سارہ پریشان ہوگئی
کب کہا اس نے ؟ سارہ نے پوچھا ابھی آیا تھا وہ ۔اس نے کہا تو سا رہ باہر کی طرف بڑھی اسے لگا اگر اس نے آریز کر روکا نہ تو اس کا دل بند ہو جائے گا ادعیہ نے اس کے آنسو صاف کیے اسے بیڈ پر بیٹھا کر پانی پلایا وہ اسے تسلی دے رہی تھی اور اجیہ خاموشی کا پتلا بنی بیٹھی تھی تھوڑی دیر بعد نکاح خواں اجازت لینے آئے تو ادعیہ نے اوپر چادر کی اس کی حالت ویسے بھی اب ٹھیک نہیں تھی اس نے بیوٹیشن کا پہلے ہی کال کر دی تھی
اجیہ رضا ولد محمد رضا آپ کو پانچ لاکھ حق مہر آریز بن انصر کی زوجیت میں دیا جاتا قبول ہے ۔مولوی صاحب نے پوچھا تو اس کا دل زوروں سے دھڑکنا شروع ہو گیا ۔
آپی ہمت کرے ۔ادعیہ نے سرگوشی کی
جی قبول ہے ۔دو دفعہ اس کی آواز ایک جیسی ہی تھی تیسری دفعہ اسکی ہچکی بھی ساتھ شامل ہوگئی انصر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے رضا یا د آگیا
بابا۔اس نے دل میں رضا کو آواز دی سائن کرتے ہوئے اسے آریز کی بات یاد آگئی وہ ایک دم رک گئی
اجیہ ۔انصر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس نے سائن کر دئیے۔وہ سب نکاح نامہ لے کر باہر چلے گئے ادعیہ نے اسے ساتھ لگایا تبھی آلیمان اندر آیا
آپا اس طرح تو مت روئے آپ کہیں نہیں جا رہی ابھی تو آپ کا کمرہ بھی وہی ہے ۔آلیمان نے کہا تو اس کی نظر اس کی طرف اٹھی
جاؤ آلیمان دیکھو ۔کہیں آریز انکار نہ کر دے ۔اس نے کہا تو آلیمان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا وہ انکار نہیں کرے گا اس پھوپھو نے اپنا واسطہ دیا ہے ۔اس نے کہا تو اس نے بے بسی سے اپنے بھائی کی طرف دیکھا پتہ نہیں وہ کب اتنا بڑا ہو گیا تھا
پھر بھی آلیمان تم جاکر دیکھو ۔اجیہ نے اسے باہر بھیج کے دم لیا بیوٹیشن اس کا میک اپ ٹھیک کر رہی تھی وہ باہر آیا تو نکاح خواں آریز کے ساتھ بیٹھے تھے
اجیہ رضا ولد محمد رضا پانچ لاکھ حق مہر آپکی زوجیت میں دی جاتی ہے کیا آپ کو قبو ل ہے ؟ انہوں نے پوچھا تو وہ ایک دم رکا وہ نہ کرنا چاہ رہ تھا کہ ذہن میں ایک دم ہی سارہ آگئی آریز اگر کبھی بھی تمھیں لگا ہو کہ میں نے تمھاری حق تلفی کی ہے تو انکار کر دینا لیکن اتنا یاد رکھنا تمھارے انکار سے تمھاری پھوپھو کا دل بند ہو جانا ایک بے بس ماں کی لاج رکھ لو اس نے ہاتھ جوڑے جو آریز سے برداشت نہ ہوئے اور وہ مان گیا  سارہ کو لگا اس کا دل بھی رک  گیا آریز کی نظر سارہ پر گئی ساتھ ہی اس کے منہ سے نکل گیا قبول ہے۔سارہ نے اپنا سانس بحال کیا وہ تین دفعہ اقرار کر چکا تھا ہر کوئی اسے مبارک باد دے رہاتھا اور وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے اب کیا کرنا ہے اجیہ کو لا کر اس کے ساتھ بٹھایا گیا فو ٹو گرافر کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں نے تصویریں لی بیوٹیشن نے کافی حد تک اس کا حلیہ ٹھیک کردیا تھا اس نے اس کی طرف چہرہ کیا
میں کچھ بھولا نہیں اور نہ میری باتیں مذاق تھیں تم   نے پھوپھو کو درمیان میں لا کر اچھاانہیں کیا اب نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔وہ کہتے ہوئے سیدھا ہوا تو وہ اور سمٹ گئی اسے اچانک کال آئی وہ ایکیوزمی موسٹ ارجنٹ کہتا ہوا پریشان سا سٹیج سے اتر گیا ۔اسے گئے کافی دیر ہو چکی تھی لیکن وہ کہی نظر نہیں آرہا تھا مہمان اب جا رہے تھے انصر سب کو یہی بتا رہے تھے کہ ارجنٹ کام سے گیا ہے انہیں اس کی اس بیوقوفی پر سخت غصہ آرہا تھا لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے موبائل اس کا بند جا رہا تھا آہستہ آہستہ سب گھروں کو چل دیے اجیہ غرارہ ااٹھائے لاؤنج میں جا بیٹھی وہ کچھ بھی اندازہ لگانے سے قاصر تھی انصر غصے سے ادھر سے ادھرچکر لگا رہے تھے تبھی گیٹ کئیپر انہیں ایک خط دے کر گیا انہوں نے آلیمان کو کھول کے پڑھنے کے لیے کہا اس نے پڑھنا شروع کیا
بابا مجھے پتہ آپ سخت ناراض ہو گے میں نے ماما سے آپ سے سب سے کہا تھا کہ میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ لوگوں جو زبردستی کی یہ اس کا نتجہ ہے میں جا رہا ہو یہاں سے ہمیشہ کے لیے مجھے نہ تو ڈھونڈئیے گا اور نہ میں واپس آؤں گا میں نے آپ سب میں سے اور خود میں سے خود کو چن لیا لفافے میں اجیہ کا حق مہر ہے اس دے دیجیے گا اور اسے کہیے گا بہیت شوق تھا نہ اسے مجھ سے نکاح کرنے کا اب بیٹھی وہے اس نکاح کو لے کر اللہ حافظ جو جہاں تھا وہیں تھم گیا ایک م گرنے کی آواز آئی سب اجیہ کی طرف متوجہ ہوئے لیکن وہ تو بت بنی بیٹھی تھی جیسے اس میں جان ہی نہیں ہے
ماما ۔آخون کی آواز پر سب سارہ کی طر ف مڑے وہ بے جان پری ہوئی تھی اجیہ کو ہوش آیا تو اماں کی طرف بھاگی فورا ہسپتال لے کر گئے ڈاکٹروں نے ای سی یو میں رکھ اور کو ئی جواب نہ دیا وہاں موجود ہر شخص اجیہ کو رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا اور وہ پتھر کی طرح ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی وہ اجڑ گئی تھی اور وہ حالت سے اجڑے ہوئے لوگو ں سے بد تر لگ رہی تھی
آلیمان آریز کو فون کر و اسے پھوپھو کا بتاؤ وہ آجائے گا میرا بیٹا واپس لا دو۔شمائل کب سے اس کے لیے تڑپ رہی تھی
ماما اس کا نمبر بند ہے ۔بابا گئے ہے اسے ڈھونڈنے آجائے گے اسے لے کر آپ پھوپھو کے لیے دعا کرے ۔اس نے ماں کو سینے سے لگایا ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر نکلے ڈاکٹر ۔کیسی ہے اماں۔ ادعیہ ان کی طرف بڑھی
شی از نو مور۔وہ کہتے ہوئے چلے گئے انصر کو کال کر دی گئی اجیہ کو لگا زندگی واقعی ختم ہو گئی اس نے اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھا جو اب خالی ہو چکے تھے باپ تو پہلے ہی مر چکا تھا ماں بھی ساتھ چھوڑ گئی اس نے ارد گرد نظر کی تو اسے کوئی نظر نہ آیا اس نے آخون کی طرف دیکھا تو خود کو شرمندہ پایا یہ میں نے کیا کر دیا ۔وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بولی یہ میں نے کیا کر دیا ۔اب وہ چیخ رہی تھی  نظر اب بھی مہندی لگے ہاتھوں پر تھی
میں نے سب برباد کر دیا میں نے سب اجاڑ دیا دیکھومیں نے آخون سے ماما کو چھین لیا میں کتنی ظالم ہوں میں نے ایسا کیوں کیا۔وہ خود سے سوال کر رہی تھی آلیمان اور آخون اس کی طرف بڑھے آپا ۔آخون نے اسے سینے سے لگایا یہ میں کیا کر دیا آخون میں نے ماما کو مار دیا میں سب کچھ ختم کر دیا میں نے ایسا کیوں کیا دیکھو ان ہاتھوں نے مار دیا ماما کو وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گی اب تم کیا کرو گےمیں کیا کروں گی ۔وہ اپنے مہندی والے ہاتھ اس کے آگے کر رہی تھی
آپا میں ہوں نہ میں ہوں آپ کے پاس آپ کا بھائی آپ کا آخون ہے آپ کے پاس آپ ایسے نہ کہے ۔اس نے تڑپ کر بہن کو سینے سے لگایا
یہ میں نے کیا کر دیا ۔یہ اس نے آخری جملہ کہا اس کے بعد وہ ارد گرد سے بے خبر ہو گئی
۔ آپا ۔آلیمان نے اس کا منہ ہلایا ماما دیکھے آپا کو کیا ہو گیا ۔آلیمان نے شمائل کو آواز دی ادعیہ اسے کہواب یہ تو ایسا نہ کرے یہ سب مجھے بھی مار دے گے ۔شمائل نے اجیہ کی طرف دیکھتے ہوئے ادعیہ کو کہا ماما کچھ نہیں ہو گا آپا کو آپ خود کو سنبھالے ۔ادعیہ نے ماں کو سینے سے لگایا دلاور نے سب کچھ کلئیر کروا اور وہ ڈیڈ باڈی لے کر گھر آگئے اجیہ کو ٹریٹمنٹ کے بعد گھر بھیج دیا گیا  اس گھر کے مکینوں کی زندگی تو رک گئی تھی انصر کو آریز کہیں نہ ملا تو وہ مایوس لوٹ آیا وہ ایک ہارے ہوئے باپ اور ہارے ہوئے بھائی کی طرح ڈھے گیا ساری ذمہ داری دلاور داور اور آلیمان کے کندھوں پر آگئی شمائل بھی بستر کو جا لگی تھی اجیہ نے بولنا چھوڑ دیا تھا ادعیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کسے سنبھالے اجیہ کچن میں پانی لینے آئی تو کچھ عورتیں مائرہ کے پاس بیٹھی تھی اس کے سسرال والے آئے ہوئے تھے اجیہ ۔اس نے اجیہ کو آواز دی جی خالہ ۔وہ ان کے پاس آئی
سلام کرو بیٹا ۔انہوں نے کہا تو اس نے سر آگے کیا بہت افسوس ہوا
اللہ کی مرضی ہے بندہ کیا کر سکتا اللہ تمہیں صبر دے ۔ایک عورت اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
صبر بھی کیسے آئے گا شوہر بھی تو چھوڑ گیا ہے اللہ ایسا مقدر بھی کسی کا نہ کرے۔انہوں نے کہا تو اجیہ نے چاہا وہ زمین میں دھنس جائے
تو اور کیا ماں بھی بھری جوانی میں بیوہ ہو گئ ی تھی اور اب بیٹی کو دیکھو شوہر ویسے ہی چھوڑ گیا پتہ نہیں پلٹے گا بھی نہیں ۔مائرہ کو لگا اسے اجیہ کو ادھر نہیں بلانا چاہیے تھا
خالہ۔میں اماں کے پاس جا رہی ہوں۔ وہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھی وہ شمائل کے کمرے میں آگئی وہ لائٹ بند کیے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اس کی طبہعت ٹھیک نہیں تھی اجیہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی
سارہ ہو یا آریز ۔وہ ایک دم اٹھی نہیں میں ہوں اماں ۔شمائل نے لائٹ جلائی تو اجیہ اس کے قدموں میں بیٹھی تھی کیا بات ہے
میری جان ایسے کیوں بیٹھی ہو۔اس کا دل ایک دم تڑپا ۔ ماما ۔مجھے معاف کردے میں نے آپ سے آپ کا بیٹا چھین لیا میں کیا کروں میں کہا سے اسے واپس لاؤں مجھے نہیں پتہ وہ کدھر ہے میں نے حصان سے بھی پتہ کیا ہے اس بھی نہیں پتہ وہ کدھر ہے ۔وہ آج بہت دنوں بعد زارو قطار رو رہی تھی
وہ کہاں چلا گیا ہے اپنی ماں کو چھوڑ کر اسے بتاؤ ایک ماں اُسے چھوڑ کر چلی گئی ۔سارہ مجھے کیوں تم لوگوں کے غم اکیلے دیکھنے کے لیے چھوڑ گئی نہ میں آریز کے بغیر رہ سکتی ہوں نہ میں تمھیں ایسے دیکھ سکتی ہوں ۔شمائل کے آنسوں نے بند توڑا اجیہ نے اس کے آنسو صاف کیے انصر اندر آئے تو دونوں کی نظر ان پر گئی اجیہ نے نظر جھکا لی جنہوں نے ساری عمر انہیں بیٹی بنا کر پالا آج ان کا بیٹا اس کی وجہ سے انہیں چھوڑ گیا
میں ابھی زندہ ہوں اب یہ ماتم بند کر دو بہتر ہے تم سب کے لیے تم لوگو ں نے اس ایک انسان کے جانے کی وجہ سے پیچھے والوں کی زندگی کو اجیرن کر دی ہے ۔انہوں نے سخت لہجے میں کہا تو وہ دونوں ٹھٹکی اور تم نے دعا کی اک دن بھی اپنی ماں کے لیے اسے تمھارے آنسوؤں کی نہیں تمھاری دعاؤں کی ضرورت ہے۔اب وہ تھوڑے نرم پڑے اٹھو شمائل اٹھ کے اپنے باقی بچوں کو دیکھو ۔دیکھو ان کی طرف انہیں تمھاری ضرورت ہے ۔انہوں نے انہیں ہمت دی میرا دل نہیں کرتا۔انہوں نے صاف انکار کر دیا ٹھیک ہے ساریہ کہہ رہی تھی کہ وہ ان دونوں کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے اب اس گھر میں ان کی ماں بھی نہیں رہی اور تم بھی بیمار ہو۔انہوں نے سیدھا سا جواب دیا کیوں لے کر جائے گی میں نے پالا ہے انہیں مءرے بچے ہے یہ ان کی ایک ماں زندہ ہے ابھی اس نے سوچا بھی کیسے ۔وہ ایک دم لڑنے کے لیے تیار ہوئی تو اٹھو ان کے حال پر بھی رحم کرو اور اپنے حال پر بھی رحم کرو۔وہ ان کے پاس بیٹھے میرا دل نہیں مانتا انصر ۔انہوں نے پھر کہا رہنے دے بابا ریسٹ کرنے دے انہیں ۔وہ کہتی ہوئی باہر آگئی اور انصر انہیں راضی کرنے کی کوشش میں لگ گئے جانے والے چلے جاتے ہیں اور پیچھے والوں کو روگ لگا جاتے ہے    
           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے گھر آئی تھی پٹر پٹر بولے جارہی تھی کبھی اماں کو باتیں سنا ری تھی اور کبھی تائی اماں کے پیچھے کچن میں تھی اور کبھی دادا کے پاس ہوتی کھو جانے والی بات اس نے کسی کو نہ سنائی اب وہ انہیی یمانی کی باتیں سنا رہی تھیں اور انہیں سننی پڑ رہی تھی  آج واقعی لگ رہا اس گھر کی بلبل واپس آگئی ہے اتنے دن سے گھر خاموش تھا ۔تائی اماں نے کہا تو وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی حسین پہلے آ گیا تھا لیکن نہ اس کے آئے کا پتہ تھا نہ گئے کا
وہ گھر کب آتا ہے۔تائی اماں نے شکایت کی تو ہنس پڑی ا
ن کی شادی کردے کچھ دیر کے لیے تو گھر میں پائے جائے گے ۔اس نے تجویز دی
تم مان جاؤ تو اگلے ہفتے ہی کر دیتے ہے تم دونوں کی شادی خانہ آبادی گھر میں رونق لگ جائے گی اور حسین بھی گھر نظر آئے گا ۔تائی اماں نے بھی تجویز دی تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے
آپ کو ان کی شادی کی تجویز دی تھی ان کی مجھ سے شادی کی تجویز نہیں دی تھی ۔وہ کہتے ہوئے اٹھی
کس کی شادی کی باتیں ہو رہی ہے ۔حضر دادا کے ساتھ اندر آیا حباء اور حسین کی شادی کی باتیں ہو رہی ہے ۔تائی اماں نے کہا واقعی کب ہے؟ حضر بولا
ان دونوں کی الگ الگ شادی کی بات کر رہی ہے یا ان دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کا سوچ رہی ہے ۔حمیر نے پوائنٹ اٹھایا
ایک دوسرے کے ساتھ پاگل ۔حضر نےلقمہ دیا 
تائی اماں آپ نے س چیز کا بدلہ لینا ہے مجھ سے جو اس طر ح کی باتیں سوچ رہی ہے آپ کو پتہ مجھے ان کے غصے سے کتنا ڈر لگتا ہے ۔اس نے اپنی مدعا بیان کی شادی کے بعد اچھے اچھوں کا غصہ ختم ہو جاتا ۔تم فکر نہ کرو
وہ اچھے کوئی اور ہو گے ہمارے حسین اتنے اچھے نہیں ۔اس نے پھر دلیل دی
ہمارے حسین۔حضر نے ہ پچھتائی اماں کدھر ہے آپ یہ کن لوگوں میں مجھے چھوڑ گئی ہے ۔اس نے کہا تو سب ہنس دئیے ابھی کے لیے یہ ٹاپک بند کرے پلیز ۔اس نے ہاتھ جوڑے ۔ کس ٹاپک پر بات ہو رہی ہے ۔حسین بھی آگیا اب یہ کہاں سے آگئے ۔اس نہ کہا تو حمیر اور حضر ہنسے تمھاری شادی کے ٹاپک پر بات ہو رہی ہے ۔دادا نے بتایا تو حباء نے دادا کی طرف دیکھاجیسے کہہ رہی ہو مزید وضاحت مت کیجیے گا اب یہ کیوں سوجھا۔اب کی دفعہ حسین نے پوچھا میں کہہ رہی تھی
کہ تم گھر بہت کم پائے جاتے ہو تو حباء نے مشورہ دیا کہ تمھاری شادی کر دینی چاہیے اس لیے اس بات پر غور و فکر ہو رہا تھا ۔اس کہ ماں روداد سنا رہی تھی اورحباء کہ جان اٹکی ہوئی کہیں ساری بات نہ بتا دے
ماما آپ بھی کس کے مشورہ پر عمل کرنے کا سوچ رہی ہے جسے یہ تک نہیں پتہ ہوتا تھا کہ نیکسٹ کس سبجیکٹ میں ایڈمیشن لینا ہے ۔حسین نے کہا تو حضر نے اسے کہنی ماری بہت ہو گئی ہے تمھاری حباء اب چپ کر کے بیٹھ جاؤ ۔حباء نے اسے آنکھیں دکھائی یہ ٹاپک بند کرے ۔اس نے تائی اماں کو کہتے ہوئے رحم طلب نظروں سے دیکھا
اچھاٹھیک ہے ۔بلآخر وہ مان گئے ۔ وہ اٹھی اور کمرے سے حسین کی شرٹ لینے گئی جو اس نے اس کے لیے لندن سے لی تھی وہ نیچے آئی تو وہ اپنے کمرے میں جا چکا تھا وہ اس کے کمرے تک آئی ایک دفعی دل کیا کہ واپس چلی جائے لیکن ہمت کر کے دروازہ ناک کیا ۔ آجائے ۔اندر سے آواز آئی ۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا حسین کو اس کے آنے کی توقع نہیں تھی وہ کبھی اس کے کمرے میں نہ آتی تھی وہ حیران ہوا
حباء۔ آجاؤ۔۔اس نے کہا تو اس نے اندر قدم رکھا کوئی کام تھا کیا؟اس نے پوچھا نہیں ۔اس نے جواب دیا
تو پھر یہاں آنے کا مقصد بیان کرے گی آپ۔اس نے پوچھا تو اس نے خود کو ڈانٹا کہ وہ کیوں آئی
پہلے بتائے آپ ڈانٹے گے تو نہیں ۔اس نے کہا تو حسین مسکرایا وہ مسکراتے ہوئے اچھا خاصا لگتا تھا حباء نے سوچا نہیں ۔اس نے کہا تو حباء نے پیکٹ اس کی طرف بڑھایا
یہ شرٹ آپ کے لیے لی تھی ۔وہ کہتے ہوئے واپس مڑی کیوں ؟ اس کا اگلا سوال تھا
پتہ نہیں کیوں ۔اس نے پلٹے بغیر جواب دیا
تھینک یو ۔اس نے کہا تو اس کا دل کیا پیچھے مڑ کر دیکھے وہ تھینک یو کہتے ہوئے کیسا لگ رہا تھا لیکن ابھی اس نے جانے میں ہی عافیت سمجھ کمرے میں آئی آکر اس نے یمانی کو کال ملائی   
          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Muhabbet teri gird e rah main(Complete)Where stories live. Discover now