ارسل کے بچے تو یہاں کیسے- موحد کے بولنے پر ارسل پرسکون انداز میں اس کے بیڈ پر لیٹ گیا تو اس نے مصنوعی غصے سے کہا
کہاں ہے میرے بچے ! ارے آجاؤ بھئی پاپا آگئے آپ لوگوں کے - ارسل نے موحد کی بات سن کر اچھلتے ہوئے کہا
تو رک میں ابھی تجھے تیرے بچوں سے ملواتا ہو - موحد نے کہتے ہوئے بیڈ پر چھلانگ لگائی اور ارسل کو دبوچا
بھائی پہلے بھابھی سے تو ملوادیں بعد میں میرے بچوں سے ملوائیے گا - ارسل نے مصنوعی بیچارگی چہرے پر سجاتے ہوئے کہا
یہ تو نے اس کے سامنے بھابھی بولا نا تو گنجا کردےگی تجھے - موحد نے اسے دھپ رسید کرتے ہوئے کہا
ارے ایسے کیسے ! ویسے بھائی ضحی چڑیل کیا ... . .......... - ارسل کی بات منہ میں رہ گئی
اررررررسسسسسل - ایک زور دار گرج دار آواز کی وجہ سے ہی اسکی چلتی زبان رکی
------------------------------
حنین کی آنکھ رات کے بارہ بجے کھلی تو اسے ایک بار پھر آئسکریم کا دورہ پڑا
وہ نیچے کچن میں آئی فریج کھولا تو اسے پتا چلا آئسکریم تو وہ کل ہی ختم کرچکی تھی اور وہ بابا یا جبرائیل کو بتانا بھی بھول گئی تھی
لیکن اب بغیر آئسکریم کے گزارہ تو ممکن نہیں تھا نا
تو اس نے کچھ سوچتے ہوئے جبرائیل کے کمرے کی طرف دوڑ لگادی
اور دبےقدموں اندر داخل ہوگئی
اب وہ آہستہ آہستہ آدم اٹھاتے ہوئے جبرائیل کے بیڈ کے پاس آئی اور زور سے چیخ ماری
ک ک ک کووون ہے؟ ک ک کیا ہ ہوا ؟- جبرائیل ہڑبڑایا اور آدھے ادھورے الفاظ جوڑ کر بات پوری کی
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا - حنین کی ہنسی سن کر وہ مکمل ہوش میں آیا لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا
-----------------------------------
بھائی یہ ضحی تو سچ میں چڑیل ہے یار دیکھو رات میں گھوم رہی ہے پورے گھر میں ویسے تمہاری کینڈل کہاں ہے .... ارے بھائی چڑیلیں لے کر گھومتی ہے نا اپنے ساتھ ایک عدد کینڈل - موحد کے سوالیہ نظروں کے جواب میں ارسل نے مکمل تفصیل بیان کی
ارے بھائی بچائے مجھے - ارسل نے چیختے ہوئے کہا کیونکہ وہ ضحی کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ چکا تھا
ارسل میں نہیں چھوڑوگی تمہیں آئی ول کل یو - ضحی نے اپنا سپیکر فل کرتے ہوئے کہا
بھائی آپ ہٹے بیچ سے - ضحی نے موحد سے کہا کیونکہ ارسل اس کےاردگرد گھوم رہا تھا
بھائی میری پیاری سی حنین بھابھی کو بلا لے آئےوہی بچ...........- ارسل ایک دم چپ ہوا کیونکہ موحد کے گھورنے پر اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کچھ غلط نہیں بلکہ بہت کچھ غلط بول چکا تھا
اوووہہہہ تو میرا شک صحیح تھا بھائی آپ نے میری دوست کو پسند کیا اور مجھے ہی نہیں بتایا - ضحی نے ارسل کو چھوڑ کر موحد کو گھیرا (اب شکار خود ہی ہاتھ آگیا تو کیا کیا جاسکتا ہے)
تو - موحد نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ڈھیٹ بننے کا ریکارڈ قائم کردیا
اوہووووو- ارسل نے نعرہ لگایا
تم چپ کرو ! ضحی نے ارسل سے کہا
اور بھائی آپ ! ایک بات سن لیں آپ کی خیر اب میرے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اگر حنین کو پتا چلا نا اس بات کا تو اس نے ....... - ضحی نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی
ہاں جانتا ہو وہ مجھے گنجا کرکے چوک پر لٹکادے گی - موحد نے کہا
واہ بھئی واہ ! بھابھی کا رعب ابھی سے ہے - ارسل نے لقمہ دیا
چپ کرو بدتمیز تم تو - ارسل کو کرارہ سا جواب ملا
اچھا بس ! سوجاؤ جا کر ضحی اور تم نمونے تم میرے کمرے میں چادر بچھاؤ اور سوجاو - موحد نے دونوں سے کہا
ہاہاہاہا سوجاؤ بچے چادر بچھا کہ - ضحی ارسل کو منہ چڑاتے ہوئے بولی
بھائی یہ نا انصافی ہے - ارسل بولا
سوجا ورنہ تیرا ماما بابا کو دینے والا سرپرائز ابھی غرق کردوں گا - موحد یہ کہہ کر بیڈ کی طرف بڑھ گیا کیونکہ اسے پتا تھا اب ارسل آرام سے سو جائے گا اب بات اس کے سرپرائز پر آگئی تھی
------------------------
بھائی آپ اتنا ڈر گئے واؤ میں اپنا موبائل بھول گئی ورنہ میں ضرور آپ کی پک لیتی - حنین نے ہنستے ہوئے کہا
حنین تمہاری آئسکریم کو میں نے چپھاکر رکھا ہے فریزر میں لے لو وہاں سے - جبرائیل اپنی بہن کی رگ رگ سے واقف تھا
تو آپ کو پتا بھی ہے کہ میری آئسکریم میں فریج سے لیتی ہو تو آپ نے فریزر میں کیوں رکھی - حنین بولی
میری مرضی - جبرائیل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اچھا ایک بات بتاؤ تم نے میرے اور زری کے....... - جبرائیل نے کوراپ کے لیے بات چھیڑی جو کہ منہ میں ہی رہ گئی
اوہ واو نام تو زبردست ہے ! زری بھابھی واؤ کتنا اچھا لگ رہا ہے یہ نام اب تو میں زری بھابھی ہی بولوں گی انہیں - حنین بولی
حنی تم نے میرے نکاح کے لیے کیا تیاری کی ہے - جبرائیل نے پوچھا وہ چاہتا تھا کہ حنین اس کے ری ایکشن کو بھول جائے
بھائی کل ہی پتا چلے گا آپ کو میں جارہی ہو آئسکریم کھانے اور اب آپ سو جائیں اور زری بھابھی کے سپنےدیکھے - حنین نے زری بھابھی پر زور دیا اور اپنی بات کہتے ہوئے جلدی سے کمرے سے نکل آئی کیونکہ جبرائیل کی خونخوار نظروں کو وہ دیکھ چکی تھی
------------------------------
المان تو یونی جارہا ہے کہ نہیں - سعد کا میسج المان کو موصول ہوا جو کچھ دیر پہلے ہی اٹھا تھا
ارے میرا دل تو نہیں کرتا پر کیا کرو تجھے کمپنی دینے کے لیے آؤں گا کیونکہ اگر میرے لیے بھی کوئی ہوتی جس کو دیکھنے کے لیے میں یونی جانے کا انتظار کرتا تو پھر میں خوشی خوشی جاتا-المان نے میسج ٹائپ کیا
بکواس بند کر میں مار ڈالوں گا تجھے - سعد کی کال آئی سلام کے بجائے وہ یہ خوبصورت الفاظ بولا
یار تو ایک بات بتا رات کو خوابوں آتی ہے تیرے میری ضحی بھابھی - المان نے کہا
بکواس بند کر المان اور یہ بتا آرہا ہے یا نہیں - سعد نے کہا
آرہا ہو بھئی بیوی تو نا بن یہ انداز ضحی کے لیے رکھ - المان نے شرارتی انداز میں کہا
مر جا المان - سعد نے کہہ کر فون بند کر دیا
اور المان یونی جانے کی تیاری کرنے لگا
----------------------------------
صبح جب وہ اٹھی تو اس نے یونی جانے سے پہلے کچھ کام نپٹانے چاہے
ان کاموں میں پہلا کام اپنے کپڑے پریس کروانا اور اپنے جوتے جیولری کا سارا سامان ایک ساتھ رکھوانا تھا کیونکہ حنین صاحبہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اینڈ ٹائم پر( بقول اس کے ) اس کی چیزیں ہی غائب ہوجاتی ہے لیکن حقیقت میں بات میں یہ ہیں کہ حنین صاحبہ ابھی بچی ہے اور وہ اپنی چیزیں نہیں سنبھال سکتی تو ظاہر پھر اسکا پہلے سے سامان اکٹھا کرنے میں ٹائم تو لگنا تھا اور قریبا دو گھنٹے بعد اسکی ساری چیزیں اس کی چیخوں سے ڈر کہ ہر کونے سے باہر نکل آئی
اور اب وہ یونی جانے کی تیاری میں لگ گئی
-----------------------
موحد جب صبح نماز کے لیے اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ارسل اپنی جگہ سے غائب ہے لیکن اس نے سوچا کہ چھوڑو بھٹک رہا ہوگا کہیں
لیکن جب نمازکے بعد بھی وہ نہیں آیا تو اس نے اپنے کمرے سے باہر آنے کا فیصلہ کیا
(ارے اس لیے نہیں کہ ارسل کمرے میں نہیں تھا یا ارسل کا انتظار تھا بھئی یونی جانے کی تیاری ہورہی تھی نا😉)
اس کی نظروں نے اپنی ماما ڈھونڈا چاہا لیکن جب اس نے لان کی طرف سے آنے والی آوازیں سنی جو کہ آف کورس دو ایسے پارٹنرز کی تھی جن کی حرکتیں موحد کو بعض اوقات لاجواب کرکے رکھ دیتی تھی ( مطلب ہر معاملے میں موحد کو آگے کرنا تو اتنا پسندیدہ مشغلہ تھا) تو یہ آوازیں ضحی اور ارسل کی ہی تھی جو شاید کوئی ڈیل کررہے تھے
تم مجھے نا امی کی مار سے بچانا تو تمہارا کام ہوجائے گا - ارسل بولا
اچھا اورمجھے جیسے آپ پر بڑا یقین ہے! ہےنا - ضحی بولی
تو پھر ؟؟؟؟؟؟ ارسل نے آنکھیں نکالی جو کہ بلکل موحد کی ہی آنکھوں کیطرح بلیک تھی
اس پیپر پر سائن کرو تو! ڈیل پکی - ضحی بولی
اور ارسل نے گھورتےہوئے پیپر اس کے ہاتھ سے لے لیا
اور پیپر پڑھنے لگا
تو آپ چاہتی ہے کہ میں آپ کے ساتھ مل کر اپنے بھائی موحد کا راز فاش کروں - ارسل ڈرامائی انداز میں بولا
جی بالکل ! ورنہ مار کھانے کے لیے تیار ہوجائے - ضحی بھی کہا کم تھی
مجھے کچھ اور کام ہوا تو بھی وہ کام تم کرو گی اور وہ اس ڈیل کا حصہ ہوگا - ارسل بھی اسی کا بھائی تھا
اوکے - ضحی بولا
اچھا ! اور مجھے تو جیسے آپ پر بہت ہی زیادہ یقین ہے ! ہے نا- ارسل نے ضحی کے انداز میں کہا
اور ضحی نے آنکھیں چھوٹی کرکے اپنے اس ڈیش بھائی کو دیکھا (ارے بھئی ڈیش میں معصوم بھی ہوسکتا ہے)
اور ارسل نے پین اپنی جیب سے نکالا اور اس کنٹریکٹ پر اپنے کام کا جملہ لکھنے لگا
اور لکھ کر پیپر پر سائن کیا اور پیپر ضحی کی طرف بڑھایا جس نے دل میں ارسل کو خوب گالیوں سے نوازا اور منہ بناتے ہوئے سائن کیا
اور ساتھ اس جملے کا بھی اضافہ کیا
اگر ماما کو کسی اور ذریعہ سے پتا چلا تو اس میں ضحی کی ذمہ داری نہیں ہوگی اسے پھر بھی ضحی کا کام کرنا پڑے گا
اور یہ پڑھ کر ارسل نے اسے انگھوٹھا دکھاتے ہوئے ڈیل پکی ہونے کا اشارہ دیا
(ارسل نے سوچا اب موحد تو ہے نہیں کہ اسے ہماری ڈیل کا پتہ چلے ورنہ تو اس نے امی کو بتا دینا تھا لیکن شکر وہ تو یہاں ہے ہی نیہں تو ماما کو بتائے گا کون )
اور ان کے پیچھے کھڑا موحد انکی باتوں سے کچھ کچھ سمجھ ہی چکا تھا کہ ان کے درمیان کونسی کھچڑی پک رہی ہے
اور جس خاموشی سے وہ آیا تھا اسی خاموشی واپس چلا گیا
جبکہ ضحی اور ارسل ظاہر ہے اب اپنے پلان تیار کررہے تھے
---------------------------
اور جیسے ہی موحد ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو ماما کے ساتھ ضحی اور ارسل کو وہاں موجود پایا جو اتنے اتفاق سے بیٹھے تھے کہ شک ہونے لگتا کہ یہ ہمیشہ لڑنے والے بہن بھائی ہے موحد نے دل ہی دل میں ان کے اس اتفاق پر رشک کیا
(دونوں نمونے اپنا کام نکلوانے کے وقت ایسے ہی ہوجاتے تھے )
اور یقیناً ضحی ڈیل کے مطابق اپنا کام کرچکی تھی اس نے ایک ایسی کہانی جڑ دی تھی جس سے ماما کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ اج ہی آیا ہے
(کل رات کا ماما کو کیا پتا تھا ورنہ پھر وہ ضرور انکی دھلائی کرتی کیونکہ انہیں ارسل کی سرپرائز والی عادت کچھ خاص پسند نہیں تھی )
ماما آپ کو پتا ہے کل رات ارسل نے مجھے ڈرا ہی دیا تھا - یہ پھوڑا موحد نے بم ارسل کے سر پر وہ بھی بڑا والا
-------------------------
تڑاااااخ نکلو یہاں سے تمہیں سمجھ نہیں آتی - ایک بارہ سالہ بچے کے منہ ایک زور دار تھپڑ پڑا اور یہ الفاظ اس کی سوتیلی ماں کے تھے
یہ میرا بھی گھر ہے صرف آپکا یا آپکے باقی بچوں کا نہیں - اس بچے میں اتنی ہمت جانے کہاں سے آگئی تھی
زبان چلاؤگے اب تم میرے سامنے ہاں ہمت کیسے ہوئی تمہاری - وہ عورت بپھری تھی اور اس بچے کو مارنے کے لیے لپکی تھی
اور وہ بارہ سالہ بچا اپنا دفاع نا کرسکا اور کچھ ہی دیر میں اس کی کمر مار کھانے کی وجہ سے نیل و نیل ہوگئی اور وہ عورت تو اپنا کام کرکے اندر چلی گئی لیکن وہ بچہ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھا آنسو بہاتا رہا
-------------------------------