﷽
صبح کی نماز پڑھ کر بھی کافی دیر ذکر میں مصروف رہنے کے بعد اسکو بھوک محسوس ہوٸی تو اس نے باہر جانے کا سوچا لیکن اس کے ساتھ ہی کل والا منظر اپنی تمام تر جزویات کے ساتھ ایک بار پھر اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا اور وہ واپس وہیں بیٹھ گٸ۔
کچھ دیر گزرنے کے بعد کمرے کے دروازے پردستک ہوٸی اس نے درازہ کھولا تو سامنے مارتھا کھڑی تھی اس نے مسکراتے ہو ۓ
hey
کہا اور پاکیزہ کو ساتھ آنے کا کہہ کر آگے چل دی پاکیزہ بھی اسکے پیچھے کچن میں آ گٸی .
مارتھا نے کچھ امریکن کھانوں کا ناشتہ بنایا تھا جن کو وہ جانتی ہی نہیں تھی نہ تو کبھی زندگی میں کھاٸی تھیں وہاں گھر میں ایسی چیزیں پکتی نہ تھیں اور یہاں جب سے آٸی تھی تب سے وہ خود ہی کھانا بنا رہی تھی تو ظاہر سی بات ہے دیسی ہی تھا کیونکہ اس کو تو اور کوٸی کھانا پکانا آتا ہی نہ تھا ۔لیکن اس وقت وہ کسی قسم کا اعتراض کرنے کی حالت میں تھی نہیں اس کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اس کو کھانے کو مل رہا تھا اور اسکی بنیادی شرط اور اعتراض کھانے کے حرام ہونے پر تھا لیکن اس کھانے کو دیکھ کر اتنا تو پتہ چل چکا تھا کہ یہ حرام نہیں ہے باقی سب اس کو برداشت تھا لہٰذا اس نے بسم اللہ کر کے کھانا کھایا کھانا کھانےکے بعد مارتھا نے پاکیزہ کو اس کا کام سمجھایا کھانا بنانا مارتھا کاکام تھا وہ کک تھی پھر ایک اور بٹلر بھی تھا جو سر کے یعنی اس جگہ کے مالک کو ان کی تیاری اور دیگر کاموں میں مدد کرتا تھا ۔جس کا نام ماٸیکل تھا ۔وہ بھی مارتھا کی ہی طرح ایک بڑی عمر کا انسان تھا ۔ پاکیزہ کا کام تھا گھر کی صفاٸی اور سر کے کپڑوں وغیرہ کو سنبھالنا کیونکہ دھلتے تو باہر سے تھے اور استری بھی وہیں سے ہو کر آتے تھے ۔
پاکیزہ کو یہ جگہ بہت پسند آٸی تھی دونوں بزرگوں کے ساتھ رہتے ہوۓ اس کو اپنی عزت محفوظ لگتی تھی اور اس گھر کے مالک سے تو اسکا سامنا نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ اس کی ضروت کے سارے کام ماٸیکل اور مارتھا کے ذمہ تھے۔ ویسے بھی وہ جب آتا تھا تو پاکیزہ خود ہی اس کے سامنے آنے سے ڈرتی تھی اس کو اب بھی یاد تھا کہ وہ اصل میں اس کے پاس کیوں آیا تھا پہلی ملاقات میں وہ اسکو قابل بھروسہ نہیں سمجھتی تھی۔ جبکہ اس کی بر عکس یہ دونوں بزرگ بہت ہی اچھے تھے اور پاکیزہ کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے تھے اسکو ہر ہر بات سمجھاتے تھے کہ کون ساکام کیسے کرے کہ مالک کے غصے سے بچی رہے اور پاکیزہ بھی ان کی بہت عزت کرتی تھی وہ اپنے کام کے علاوہ ان کے کام بھی کر دیا کرتی تھی اس لیے ان کو بھی پیاری ہوگی تھی ورنہ یہاں پر آنے والی لڑکیاں کہاں دوسرےپر توجہ کرتی تھیں وہ تو اپنا کام مشکل کرتی تھیں کجا کہ دوسرے کا کام۔
ان کی ساری توجہ تو صرف گھر کے مالک تک ہی محدود ہوتی تھی کہ کسی طرح اسکے ساتھ اچھے روابط قاٸم کرکے کچھ فاٸدہ اٹھایا جاۓ اور جو اس کام میں کامیاب ہوجاتی وہ تو خود کو گھر کی مالک سمجھنے لگتی تھیں۔حلانکہ وہ آدمی تو صرف ایک رات پر ہی یقین رکھتا تھا۔ ایسے میں پاکیزہ جیسی محبت کرنے والی اور بزرگوں کا احترام کرنے والی لڑکی انھیں بہت پسند آٸی تھی ۔
اس گھر کا مالک انتہاٸی سخت قسم کا انسان تھا وہ اپنی کسی بھی ضرورت میں ذرا سی دیر برداشت نہیں کرتا تھا او نہ ہی اپنی کسی چیز کا ادھر سے ادھر ہونا برداشت کرتا تھا اس لیے بقول مارتھا کہ یہاں کوٸی انسان کم ہی ٹکتا اگر وہ یہاں کام کرنا چاہتی ہے تو مکمل تو جہ اور ایمانداری سے کام کرنا ہوگا ۔
اس کے علاوہ اس کو یہ بھی پتا چلا کہ اس گھر کے مالک کا نام ولیم ہے جو کافی امیر معروف اکھڑ اور مغرور انسان ہے جو کسی کی غلطی کبھی معاف نہیں کرتا پہلی غلطی کو ہی وہ آخری غلطی سمجھتا ہے اسکے علاوہ اوّل نمبر کا عیاش اور شرابی انسان ہے ہر روز یہاں اسکی باہوں میں ایک نٸی لڑکی ملتی ہے کبھی ایک رات میں دو بھی آجاتی ہیں مگر چھٹی نہیں ہوتی ۔اکثر وہ شراب کے نشے میں ہی گھر لوٹتا تھا اپنی باہوں میں نٸی حسینہ لیے لیکن مصیبت تب آتی جب وہ ہوش میں لوٹتا تھا کیونکہ تب ماٸیکل بے چارے کی خیر نہیں ہوتی تھی وہ اپنا ہر کام ہاتھ میں مانگتا تھا ہر کام مطلب ہر چھوٹے چھوٹے سے چھوٹا کام بھی جتنی دیر وہ گھر میں رہتا کسی کو آرام نہیں کرنے دیتا اور اسکے کام میں ایک سیکنڈ کی دیر کرنے والے کی ایسی بےعزتی کرتا تھا کہ اللہ کی پناہ۔
آج صبح سے ہی گھر میں بڑی رونق تھی اور اس رونق کی وجہ تھی سمانتھا۔
سمانتھا ولیم کی ماں تھی جو کہ ان کے آباٸی گھر میں رہتی تھیں آج خصوصی طور پر اپنے اکلوتے بیٹے سے ملنے آٸی تھیں کیونکہ ان کے بیٹے کے پاس تو اپنی ماں سے ملنےکی فر صت نہیں تھی لہذا وہ خود چلی آٸیں ۔پاکیزہ کو وہ بہت پسند آٸی تھیں ان کے ہر انداز سے لگتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسے کتنا پیار کرتی ہیں ماٸیکل ان کا خاندانی بٹلر تھا اس لیے ان سے اچھی خاصی واقفیت تھی جبکہ مارتھا بھی اب کافی عرصہ سے یہاں تھی تو وہ انکو بھی جانتی تھی اس سب میں اگر کوٸ اجنبی تھا تو وہ تھی پاکیزہ۔
لیکن وہ پاکیزہ سے بھی اچھی طرح سے ملی لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ولیم جیسے بیٹے کی ماں ہی وہ کیسا روکھا پھیکھا اور سرد مزاج اور یہ کیسی اچھے مزاج والی عورت۔ ماٸیکل اور مارتھا نے ان کے سامنے پاکیزہ کی بہت تعریف کی تھی کہ خود پاکیزہ بھی شرمندہ ہو گٸی تھی ۔
جب ولیم کمرے سے باہر نکلا تو اسکی ماں اسکو بہت محبت اور اپناٸیت سے ملی لیکن وہ تو ایسے ملا جیسے کوٸی احسان عظیم کر رہا ہو پاکزہ کو اسکا انداز ذرا بھی اچھا نہ لگا لیکن کس کو پروا تھی اس بات کی ۔
"William you don't miss me"
سمانتھا نے کتنے پیار سے کہا تھا۔
" Not again mom "
اورآگے سے اتنا اکتایا ہوا جواب ملا"Its already three month when we met,"
"I am busy mom "
"You have no time for you mother william "
کیسا آدمی ہے جس کے پاس اپنی ماں کے لیے ہی وقت نہیں ماں کی اہمیت کوٸی ہم سے پوچھے۔
!!!!!!!!!!
اپنا ووٹ کرنا نہ بھولیے گا ۔
آپ کی دعاٶں کی طلبگار
امیددعا