میں دوبارہ تب ٹوٹی جب میں آپریشن کے لیے سوٹ بدلنے گئی .میری کانوں کی سماعتوں نے جو الفاظ سنے وہ بہنوئی کے والد کے تھے .جو ایک بہت بڑے سرجن ہیں. آواز آئی ہم اپنی پوری جان لگا دیں گے ساری کوشش کریں گے .لیکن پھر بھی تم تیار رہنا ہر چیز کے لیے ہی آپریشن رب کے ہوالے پر ہو رہا رب آپ کو صبر دے ..اور میرے والد کی جواب میں آواز آئی ..زندگی موت تو میرے رب کے ہاتھ میں ہے اور میری بیٹی میرے پاس اس اللّٰہ کی ہی امانت ہے .میرے پاؤں وہیں ٹہر گیے .پھر آواز آئی اگر وہ چاہے تو اپنی اس امانت کو ہمارے پاس رکھے اور چاہے تو واپس لے لے اگر وہ ہمارے پاس رکھتا تو اس عاجز بندے پر اسکا احسان ہوگا .مجھ عام مٹی کے انسان پے کائنات کے رب کا احسان ہوگا .بھئی صاحب میں اپنی بیٹی کو ہمیشہ کہتا ہوں تم رب کی امانت ہو اور اسکا ہم پے احسان ہو. میری بیٹی کو امانت کا پتہ ہے اسے امانتیں پوری کرنی آتی ہیں .میں اپنی پوری کوشش کر چکا اب آپ کریں اگے اس امانت کے مالک کی مرضی .آج میرے رب کی امانت اسی کی امان میں دیتا ہو وہ زیادہ حفاظت کرنے والا ہے .آنکھ نم ہے دل غمگین ہے لیکن میں زبان سے وہی کہوں گا جو ابراھیم علیہ السلام نے کہا تھا جب اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم ملا اور انہوں نے کہا کہ میں اللّٰہ کی رضا میں راضی ہوں . یعقوب کی طرح کہوں گا میں اس مشکل پے صبر کروں گا .اور میں ایوب کی طرح شکر کروں گا کے اس نے اب تک اسکو میری اولاد رکھا اور بیٹیوں میں میں نے اسکو دین میں بہترین پایا .الحمد اللّٰہ علی کلی حال ..اور ڈاکٹر کو جیسے اس پر ایک چپ سی لگی .
بابا نے کہا اللّٰہ مجھے صبر جمیل آتا کرے اور اس ساری گفتگو کو سنتے ہوئے اندر میں نڈھال پاؤں سے چلنے کی کوشش کر رہی تھی میں نے ایک دم ہاتھ کو دیکھا اس میں وہ ہسپتال کا سوٹ ابھی بھی تھا .اور میرے قدم بوجھل ہوتے گئے اور شیطان نے ایک بار پھرمجھے آن گھیرا. وہ کہتے ہیں نا کے انسان جتنا بھی کہے مجھے سب سے زیادہ اللّٰہ سے امید ہے لیکن دل کے کسی کونے میں اسکو لوگوں سے بھی امید ہوتی کے یہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے..
میرا دل کیا میں چیخ پڑوں اپنے بابا سے کہوں کیوں اس دن کے لیے پیدا کیا تھا مجھے؟؟ اور میں وہیں زمین پر گر گئی دل جسے ٹوٹ گیا..مجھے اس دن کے لیے پیدا کیا تھا کے ایک دن خود سے دور کرنے کو بھی تیار ہو میں وہی زمین پر گود میں ہسپتال کے سوٹ کو اپنی گود میں لے کے بیٹھی دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ کر گٹھنو میں سر دے کر زور زور سے رونے لگی میرے بابا باہر ہی تھے شاید انکو معلوم ہو گیا تھا کے میں نے انکی اور ڈاکٹر انکل کی بات سن لی تھی میں اپنے والد سے سب سے زیادہ محبت کرتی تھی یہ وہ جانتے تھے..
YOU ARE READING
یماری سے شفا تک کا سفر
Short Storyیہ کہانی ہے ،ایمان والوں کی،جن کی زندگی امید پر قائم ہے_ ایک انوکھی لڑکی کی کہانی جسکا باپ اسکا آئیڈیل ہے،جس نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی کہ اس نے کسی بھی حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا_ ایک ایسی کہانی جو شاید کسی بھٹکے ہوئے کو روشنی دے_