episode#2

13 0 0
                                    

ایک صبح جب وہ پیاری لڑکی اٹھی تو اسکا سر عجیب طرح درد کر رہا تھا اسکو ایسی تکلیف تھی جو آج سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی اسکا منہ سوج گیا سر سوج گیا درد سے اسکی جان نکلنے لگی اسکے کان سے ناک سے منہ سے ہر جگہ خون ہی خون تھا وہ درد سے بیہوش ہوگئی اسکی ما...

Oops! Bu görüntü içerik kurallarımıza uymuyor. Yayımlamaya devam etmek için görüntüyü kaldırmayı ya da başka bir görüntü yüklemeyi deneyin.

ایک صبح جب وہ پیاری لڑکی اٹھی تو اسکا سر عجیب طرح درد کر رہا تھا اسکو ایسی تکلیف تھی جو آج سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی اسکا منہ سوج گیا سر سوج گیا درد سے اسکی جان نکلنے لگی اسکے کان سے ناک سے منہ سے ہر جگہ خون ہی خون تھا وہ درد سے بیہوش ہوگئی اسکی ماں کو اس دن آخر بتانا پڑا وہ کہتے ہیں نہ ماں بچے کی تکلیف کے آگے اپنی تکلیف بھول جاتی. اسکی اسکے بعد بہت لیزر سرجی ہوئی اسے بہت درد دینے والی داوا لگائی گئی وہ اپنی آپی سے کبھی کبھی ضد کرتی تھی کے مجھے نہیں جانا اسکی آپی وہ کہتی تھیں آپ پالا بچہ ہو نا آپ تو آپی کی بات مانو گے نہ اور آخر وہ بہن کے پیار کے آگے ہار مان لیتی اور کہتی وعدہ کرو جب مجھے داوا لگے آپ تب سے دعا کرو گی اور یوں وہ چلی جاتی تھی لیکن اسکی تبعت میں سدھار نہ آیا اسکا سر اندر سے سوج گیا اسکی بار بار لیزر سرجری کی وجہ سے بال بھی اتر گیئے لیکن اس نے خود کو حدیث سنا کر تسلی دی کہ اگر میرا بندہ بیہماری میں شکر کرے تو میں اسکو اسے اچھا کھال گوشت دوں گا .اور جنت ہے ایسے لوگوں کے لیے اور اسکا سر سوجنے کی وجہ سے اسکا کینسر گردن کی طرف جانے لگا
ہر ڈاکٹر نے جواب دے دیا وہ پیاری لڑکی رونے لگی اسکی چھوٹی بہہن ہما پتہ نہیں کیسے اسکو سمجھ گئی اسنے اسے کہا بچے موت سے ڈرتے نہیں اسکی تیاری کرتے ہیں آپ تو خوش قسمت ہو کے آپ کو وقت میلا کے آپ آخرت کی تیاری کرو مجھے پتہ یہ مشکل ہے بچہ .. اور اسکے کان میں ڈاکٹر کی آواز گونج ر ہی تھی اور اسکے آگے ہر آواز ہر شور ماند پڑگیا ڈاکٹر نے کہا سات دن کے اندر اسکا آپریشن کراو یہ نہیں بچتی اسکے دوستوں کے پوچھنے پر اس نے کہا
*نہ میرے رب نے مجھے چھوڑا نہ وہ مجھ سے بیزار ہوا .
*فستجبنا لہ وکشفنا ما بہ من ضر .اس نے ہر درد میں صبر کو پکڑے رکھا ایک دم ٹوٹنے لگی جب اسے پتہ چلا آپریشن ہوگا اور بچنے کے چانس نہیں
وہ ڈر رہی تھی, اسے لگ رہا تھا کہ آپریشن میں وہ زندہ نہیں بچ پائے گی, کیا پتا کل اسکی زندگی کا آخری دن ہو.. اس کے ڈاکٹر کے مطابق ٹیومر ہٹانے میں اسکی جان جانے کا خطرہ تھا .یہ سب سوچیں اس کے زہن کو جھکڑ رہی تھی اس کا دل آندھیوں کی زد میں تھا
اس نے اپنی زریش آپی سے کہا آپی پلیز مجھے نہیں جانا مجھے آپ کی گود میں چھپ جانا ہے مجھے کوئی نہ دیکھ سکے اسکی آپی نے اسے کہا.کیا ہوا مشکل آن پڑی؟ سب کچھ بہت ان چاہا ہے؟ درد ہوتا ہے؟ سہنا مشکل لگتا ہے؟ زندگی میں بنا کچھ کئے چلے جانے کا ڈر ہے؟ پریشان نہیں ہو آپ بچے ,سنو میری بات اب
دنیا میں کون شخص ایسا یے جس پر کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں آئی؟ جو مشکل حالات سے نہیں گزرا, سب سے پہلے نبی حضرت آدم سے لے کر پیارے نبی کریم کی زندگی کھنگال ڈالو ان کی زندگی بہت سی مصیبتوں اور آزمائشوں سے پر ہے. لیکن بس یہاں نہیں رکنا ہے ہمیں, ساتھ ہی ہمیں ان کٹھن حالات میں ان پاک ہستیوں کا طرز عمل بھی دیکھنا ہے. آیا کہ وہ سب ہمت ہار بیٹھے تھے؟,کیا وہ رب کی رحمت سے مایوس ہو بیٹھے تھے؟ کیا انہوں نے رب کے سامنے شکایتوں کے انبار لگا دیئے تھے؟ کیا انہوں نے یہ بات اپنے لبوں پر لائی تھی کہ آخر میں ہی کیوں؟ کیا انہوں نے صبر کا دامن پکڑے رکھا تھا؟ یا واویلا مچا کر سب کو بلا کر رب کے ان پر کئے ظلم کی داستان سنائی تھی؟ یقینا ان کا طرز عمل تب بھی عقیدت اور تشکر کے احساسات سے بھر پور تھا. وہ پھر بھی اپنے آپ کو اللہ کا لاڈلا اور پیارا بندہ سمجھتے تھے اور اپنے رب کو راضی کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے بلکہ وہ ان سب کو اپنے ہی اعمال کا بدلہ تصور کرتے تھے نا کہ اسے رب کی عتابی شمار کرتے تھے (نعوذ باللہ). کیونکہ ان کا یقین اس بات پر کامل تھا کہ رب باری تعالی کس بھی زی روح کو اس کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا تو اگر یہ مشکل آن پڑی ہے تو یقینا مجھ میں اتنا ظرف اور کمال ہے کہ میرے رب نے مجھ سے یہ امتحان لیا ہے کہ فلاح جگہ میرا فلاح بندہ موجود ہے مجھے اسے آزمائش کی بھٹی میں پکا کر کندن بنانا ہے. وہ ہے میرا خاص بندہ جو بجائے مجھ سے شکایت کرنے کہ میری رضا میں راضی رہے گا. اور ایسے ہی میرے بندے ہیں جن کو میں راضی کروں گا روز قیامت کہ میرے بندے مجھ میں بہت حیا ہے میں احسان کرنے والا ہوں نا کہ احسان لینے والا تم نے دنیا میں فلاح مقام.پر اپنی آزمائش میں صبر کر کے میرا مان رکھا تھا ,مجھے راضی کیا تھا اب میری باری ہے بول تجھے کیسے راضی کروں؟ کیا مان ہے تجھے مجھ پر جسے میں پورا کروں...؟ تب اس بندے کو اپنی وہ دنیا کی آزمائش بھی کم نظر آئے گی. اکثر سنا ہوگا آپ نے کہ وقت گزر جاتا ہے پر بات یاد رہ جاتی ہے تو آزمائش کا وقت بھی زوال کا وقت لکھوا کر ہی لاتا ہے ساتھ کیونکہ اس کائنات کا حسن تبدیلی میں ہی ہے تو دکھ کے بعد سکھ کی باری بھی آنی ہی ہوتی ہے مگر اس مشکل وقت نے تو گزر ہی جانا ہوتا ہے لیکن اس میں کہی گئی باتیں (چاہے وہ شکوہ شکایت والی ہو یا شکر و احسان والی) ہمیشہ باقی رہتی ہیں. اور یہاں تو معاملہ بھی ہمارا رب العزت کے ساتھ ہے جو کہ بندوں کے ساتھ محبت میں لا نظیر ہے. اگر کبھی ہمارے ہی ایمان کی پختگی کے لئے اگر وہ کوئی درد یا تکلیف دیتا ہے تو اس میں ہماری ہی اخروی و دائمی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے. اور ایسا امتحان ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جن پر اللہ کو مان ہوتا ہے کہ یہ اس امتحان میں ضرور کامیاب ہوگا. اور مجھے معلوم حریم بنت آدم کو مان رکھنا آتا ہے بہت اچھے سے. ہے نا بچے؟ 3>
اسے لگا اسے اسکی آپی نہیں سمجھ رہی لیکن انکی ایک ایک بات سچی تھی .اس نے کہا اپنی دوسری بہن سے عبیرہ ..سے کے آپی مجھے نہیں جانا اسے لگا کوئی بہن مجھے چھوپا لے گی اسکی بہن عبیرہ نے کہا ﻭﮦ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﮔﺮﮦ ﺑﺎﻧﺪﮬﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﻻﺋﺶ ﺩﮬﻮﺗﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﻒ ﮐﯽ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ، ﺟﺘﻨﯽ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ، ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺁﺯﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﺁﺯﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺭﻭﮎ ﮐﺮ ﺁﺯﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺯﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺯﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﻋﻼﻡ ﺍﻟﻐﯿﻮﺏ ﮨﮯ، ﺳﺐ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺗﻢ
ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﯿﺮ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺎ ﺩﺭ ﮐﮭﻮﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻧﻔﺲ ﮐﮯ
ﺟﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﭼﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻞ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ، ﻣﺨﻠﻮﻕ
ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮑﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮ !
ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ۔۔ ﺁﺷﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻧﻔﺲ ﻭ ﺍﻧﺎ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ
ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﮫ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻧﯿﺖِ ﺍﺧﻼﺹ، ﻭﺳﻌﺖِ ﻇﺮﻑ، ﺍﺳﮑﯽ
ﺳﭽﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﻈﺮ
ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ! ﭘﮭﺮ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﮌﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﺟﮭﻠﮑﮯ ﮔﯽ، ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﺑﺮﺳﻨﮯ ﯾﺎ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ
ﺗﺮﺳﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﺟﻠﻮﮦ ﺟﮭﻠﮑﮯ ﮔﺎ، ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﻠﻨﮯ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﻗﺪﺭﺕ ﮐﮯ ﻣﻈﺎﮨﺮ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﺗﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺭﮐﻨﮯ، ﺩﻝ ﮐﮯ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ
ﺳﻨﺒﮭﻠﻨﮯ ۔۔ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﭼﺎﺩﺭ ﺳﺎ ﺗﻦ ﺟﺎﻧﮯ، ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﻓﺮﺵ ﺳﺎ ﺑﭽﮫ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﻧﻈﺮ ﺁ
ﺋﮯ ﮔﯽ ! ﻣﺸﮑﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﮞﮯ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ، ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺁ ﺟﺎﻧﮯ، ﺁﺳﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﮯ
ﺭﻣﺰ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ، ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ، ﺍﺷﮏ ﺁ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺍﺷﮑﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ۔۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ، ﺩﻋﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺭﺿﺎ ﮨﻮ ﺟﺎ ﻧﮯ ﻣﯿﮟ،
ﺑﮯ ﻭﺟﮧ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮔﺪﺍﺯ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ ﺗﻮ ۔۔۔ ﺟﺐ ﮨﺮ ﺟﺎ ﺍﺱ
ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﻒ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ.....
اس نے کہا یہ آپی بھی سچی ہیں حریم سب سمجھتی تھی لیکن وہ اب دردوں سے تھک گیئی تھی اسے کسی کے پیچھے چھوپ جانا تھا اسکے ذہن میں اسکی سب سے پیاری ہما آپی آیئں وہ انکی طرف لپکی انہں سب کہا اور انہوں نے اسے کہا پتہ زندگی میں جو بھی رنگ شامل ہوتا ہے وہ اللہ کی رضا اور مرضی سے ہی ہوتا ہے.

میں دکھوں , تکلیفوں , بیماریوں کو بھی رنگ مانتی ہوں .
اگر آپ ان مسائل میں اللہ کی طرف منہ موڑ لے تو اس سے بڑی خوش بختی کیا ہوگی. کہ آپ اللہ کے قریب ہوگیے .
ایک طرف اللہ کا قرب ہو اور ایک طرف دنیاوی تکلیفیں تو کس کا پلڑا بھاری ہے.
ظاہری بات " اللہ کے قرب کا "

کوئی انسان نہیں جو ہمشیہ یہاں رہے گا.

ہر ایک چلا جائے گا.

پر کتنی خوش قسمت وہ لوگ نا جن کو اللہ آخرت کی موت کی تیاری کا موقع دیتا.. کیا چنے ہوئے لوگ جو اپنا زندگی کا ایک حصہ اللہ کو راضی کرنے میں گزارتے.
موت تو برحق ہے آنی جانی ہے پر موت سے ڈرنے کے بجائے اسکی تیاری کرنے والے لوگ سچ میِں عظیم ہوتے آپ انہیں میِں سے ہے حریم ..
آپ نے اپنے حالات کو اپنی کمزوری نہیں بنایا بلکہ مضبوطی بنایا.

آپ مایوس نہیں ہوئی آپ نے ہمت سے حالات کو قبول کیا.


آپ اللہ کی تقسیم پر راضی ہوئی میری دعا اللہ آپ سے راضی ہو ..
میری دعا ہے اللہ آپ سے دین کا خوب کام لے اللہ آپکو چنے ہوئے لوگوں میں رکھے اللہ آپکے ہر عضو کو نور سے بھردے اللہ آپکی ہر سمت نور سے بھر دے . اللہ آپکو اچھی , لمبی پیاری ایمان والی زندگی دے , اللہ آپکو دونوں جہاں کی سرفرازی دے.
اسکا دل کیا وہ روئے
وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی سب کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ کس اذیت سے گزر رہی,موت مانگنا آسان ہوتا ہے لیکن جب سر پر پڑتی ہ ے تب اندازہ ہوتا ہے اسکی وہشت کا_
اسکے چند مخلص دوستو نے اسکو دلاسہ دینے کی بھر پور کوشش کی,اپنے خوبصورت الفاظ کا سہارا لے کر, اسکی دوست میشاء نے بھی اسے سمجھایا کہ
پتا ہے کیا؟ اس نے تمہیں ہی کیوں چنا ہے۔۔
کیونکہ وہ انھی کو چنتا ہے جن سے وہ کوئی کام لینا چاہتا ہے۔۔ جن کو کوئی مقام دینا چاہتاہے۔۔ جن کو اپنے ہاں خاص کرنا چاہتا ہے۔۔ جن کو عزت دیناچاہتا ہے۔۔ جن کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔۔ جن کے حوصلوں کو بلند اور ہمتوں کو جواں رکھنا چاہتا ہے۔۔ جنھیں تراش کر جوہرِخاص بنانا چاہتاہے۔۔ جن کو دھوپ میں اسلئے رکھتا ہے کہ وہ کندن بن جاٸیں۔۔ جن کو وہ ضاٸع نہیں کرنا چاہتا۔۔ جن کو وہ مثال بنانا چاہتا ہے 'ہمت کی' 'عزم کی' حوصلے کی' برداشت کی' جبرِنفس کی۔۔
اور انھیں پرسکون اور خاموش سا سمندر کی مانند گہرا بنانا چاہتا ہے۔۔
وہ تمہیں بے حساب "دینے "کے لیے آزما رہا ہے ۔۔ وہ تم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ تمہیں اسکی مقدار معلوم ہو جائے تو تمہارا جوڑ جوڑ علیحدہ ہو جائے اس احساسِ محبت سے۔۔
بس تم ایک کام کر لو۔۔ میری ایک بات مان لو کہ اس سے راضی ہو جاٶ۔۔ اس حال میں جب زبان سے شکوے، آنکھ سے آنسو، دل سے ناشکری کے بول
امڈے چلے آتے ہوں، پر تم یہی کہتے رہو کہ اللہ جی میں آپ سے راضی۔۔ آپ کی محبت سے راضی۔۔ آپ کی دی ہوئی آزماٸش پر راضی۔۔ دل سے نکلتی آہوں اور آنکھ سے بہتے آنسوٶں میں راضی۔۔ آپ کی مصلحتوں پر راضی۔۔
اسکے چند مخلص دوستو نے اسکو دلاسہ دینے کی بھر پور کوشش کی,اپنے خوبصورت الفاظ کا سہارا لے کر,پیار اور لاڈ کر کے_لیکن اسکے دل کو قرار نہ مل سکا_ وہ مظبوط لڑکی بکھرنے لگی تھی.. یہ سب سوچتے ہوئے دن گزرتے گئے,اور اسکے آپریشن کا دن آ پہنچا
آج اسکو سفر پر جانا تھا

یماری سے شفا تک کا سفرHikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin