ناولز کی دیوانی قسط 1

3.4K 89 12
                                    

#ناولز_کی_دیوانی
#بقلم_نمرہ_نور
#قسط_1

”تم ابھی تک سوئی نہیں،وقت دیکھو کیا ہورہا ہے اور تم ابھی تک جاگ رہی ہو۔“مَیں جو ڈائجسٹ میں سر دئیے اغل بغل سے بیگانہ اُس کو پڑھنے میں مصروف تھی۔اچانک ماما کی آواز پر ہڑبڑائی۔
”ماما۔۔۔“چوری پکڑے جانے پر میری زبان شریف کو جیسے قفل لگ گیا۔ماں نے خونخوار نگاہوں سے مجھے دیکھا۔رات کا تقریباً ایک بج رہا تھا۔فضا میں مہیب خاموشی کا راج تھا۔
”یہ تمہاری پڑھائی ہورہی ہے؟آدھی آدھی رات تک تم جاگتی رہتی ہو کہ تم اپنا ٹیسٹ یاد کررہی ہو۔لیکن یہاں تو ٹیسٹ کی آڑ میں ان موئے رسالوں کو پڑھا جارہاہے جیسے صبح اسی کا ٹیسٹ دینا ہو۔ادھر لاو انھیں میں تو ان کو ٹھکانے لگاؤں،پھر ہی تمہاری جان کو سکون آئے گا۔“ماما کڑے تیوروں کے ساتھ بولتی میری طرف بڑھیں۔میرے تو چھکے چوکے سبھی چھوٹ گے۔
”نہیں ماما! میں بس سونے لگی ہوں یہ تو بس میں ایک چھوٹا سا شعر پڑھ رہی تھی۔آپ کو پتہ ہے نا سونے سے پہلے میں یہ سب پڑھ کے ہی سوتی ہوں چاہے وہ ایک شعر ہی کیوں نہ ہو۔ایسے تو مجھے بلکل بھی نیند نہیں آتی۔“میں نے عجلت سے ڈائجسٹ کو ماما کی نظروں سے چھپایا تاکہ وہ اُسے چھین نہ لیں۔
”نہیں تو کیا ضرورت ہے تمہیں سونے کی؟اس فساد کو میرے حوالے کرو نا تو پھر اپنا صبح ہونے والے ٹیسٹ کی تیاری کرو،یقینا اس کی وجہ سے تم نے کچھ بھی نہیں پڑھا ہوگا۔“ میری ماما جو اپنے بچوں کی پڑھائی کی معاملے میں انتہا کی سخت تھیں وہ کہاں بعض آنے والی تھیں ڈائجسٹ کو ضبط کرکے ہی دم لیا تھا۔میرا دل بیچارہ تڑپ تڑپ کر رونے لگا جیسے کسی عاشق سے اُس کی محبوبہ کو جدا کردیا ہو۔ماما کمرے سے جا چکی تھیں اور میں بیچارہ سا منہ لے کر کمرے کے بند دروازے کو دیکھتی رہ گئی۔منہ بسورتے ہوئے میں نے اپنی کتابوں کی طرف دیکھا،ایسے لگا جیسے وہ مجھ معصوم پر قہقہے لگا کر ہنس رہی ہوں اور کہہ رہی ہوں دیکھا تم ہمیں اپنے سے دور کررہی تھی اور تمہاری ماں نے اس وجہ کو ہی دور کردیا جس کی وجہ سے تم ہم سے بدک رہی تھی۔“میں نے اُن کتابوں کو غصے سے گھورا اور پھر سوچا صبح ہونے والے ٹیسٹ کو ہی یاد کرلوں،مگر کتاب کو پکڑتے نیند ماسی نے مجھ کو یوں حصار میں لیا جیسے روتے ہوئے ننھے بچے کو ماں کی میٹھی لوری اپنی آغوش میں لے کر اس کو تھپک تھپک کر سلا دیتی ہو۔اس وقت میں بھی ایک ننھی منی سی بچی اور میری موٹی موٹی اور اوکھی اوکھی کتابیں لوری دینے والی ماں کا کردار ادا کررہے تھے۔جنہوں نے لمحوں میں مجھے میرے سنہرے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔ساری رات اپنے خوابوں میں اٹھکیلیاں کرتے ہوئے جب صبح ماں کی کرخت آواز پر بیدار ہوئی تو اچھی خاصی مجھے ڈوز ملی۔اگر آپ جاننا چاہتے ہیں ڈوز کونسی،کیسی اور کس سے ملی تو میں بتاتی چلوں۔ڈوز میں مجھے ماں جی کی ہری بھری باتیں سننے کو ملیں جنہوں میں طبعیت کو ہی ہر ا بھرا کردیا۔وہی باتیں جو ہر ماں سے اپنی نالائق، کام چور، نکمی اولاد کو سننا پڑتی ہیں۔جی ہاں میرے میں یہ ساری خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔جس پر مجھ کو بڑا ہی فخر تھا۔ماما کی جلی کٹی باتوں کو لاپرواہی سے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال کر نماز فجر کی ادا کی،جو قضا ہوچکی تھی اور اسی وجہ سے تو مجھے بھر بھر کرماما حضورر سے ڈانٹ بھری ڈوز مل رہی تھی۔ماما کی ڈوز میرے جیسے ڈھیٹ مریض پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑتی تھی۔نماز ادا کرنے کے بعد میں کالج جانے کی تیاری کرنے لگی
٭٭٭٭٭٭٭٭
میں نک سک سے تیار ہوکر باورچی خانے میں آئی جہاں ماما چھوٹی چچی کے ساتھ مل کر ناشتے کی تیاری میں مصروف تھیں۔صبح کے سات بج رہے تھے اور اس وقت ہمارے گھر میں کھلبلی سی مچی ہوتی تھی گویا ہر ایک کو جلدی تھی۔کسی کو اسکول،کسی کو کالج اور کسی آفس جانے کی جلدی تھی۔اور گھر کی خواتین سبھی کو بھگتانے کی جلدی میں تھیں۔
”ماما رات کو آپ نے جو میرا ڈائجسٹ لیا تھاوہ کہاں رکھا ہے۔“میں نے لاپرواہی سے آنکھوں کے طرح طرح کے زاویے بناتے اُن سے استفسار کیا۔میرا اتنا پوچھنا تھا کہ روٹی کو بیلتے ہوئے ماں کا ہاتھ رکا اور کڑے تیوروں سے مجھ کو گھورا۔
”دور ہوجاؤ میری نظروں سے اور خبر دار تمہاری زبان پر ان خرافات کا نام بھی آیا تو،زبان کاٹ کر رکھ دوں گی تمہاری۔“سخت لہجے میں اُنھوں نے مجھے تنبیہ کی۔میں نے حیرتوں کا پہاڑ آنکھوں میں اٹھائے اُنھیں دیکھا۔
”ارے ارے!ایسے کیسے نام نہ لوں؟اور آنکھیں تو آپ مجھے ایسے دیکھا رہی ہیں جیسے میں نے آپ سے اپنے کسی عاشق سے شادی کرنے کا مطالبہ کردیا ہو۔اللہ اللہ ماما کتنی اوور ایکٹنگ کرتی ہو آپ۔کبھی کبھی تو آپ سٹار پلس کے ڈراموں کے کرداروں کو بھی پیچھے چھوڑ کر مجھ کو تو شش و پنج میں ڈال دیتی ہیں۔“میں اُن کی خونخوار نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی،میری بات سے چھوٹی چچی تو مسکرانے لگی،مگر میری مامانے دانت کو کچکاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے پتھر کے بیلنے کو میرے بازؤپر رسید کیا،وہ بھی خاصی بے رحمی سے۔یہ میری بدقسمتی ہی تو تھی کہ میں اُن کے انتہائی قریب تھی اگرذرا فاصلے پر ہوتی تو اُن کے ارادے کو بھانپ کر فوراً بھاگ جاتی،لیکن۔۔۔ہائے میری اور میرے بچارے کندھے کی قسمت۔۔۔درد سے بلبلاتے میری تو چیخ ہی نکل گئی۔
”اللہ خیر کرئے! کیا ہوگیا ہے لڑکی؟“ تائی امی دہلتے دل کے ساتھ باورچی خانے میں داخل ہوئیں۔میں َ نے آنکھوں میں نمکین آ ب لئے تائی امی کو دیکھا۔
”تائی ماں جہاں آپکی ہٹلر دیورانی ہو وہاں خیر نہیں ہوسکتی،بلکہ وہاں تو سر عام قتل ہوگا۔“ میں نے اپنے بازؤ کو سہلاتے ہوئے کہا اور باورچی خانے سے باہر آگئی
”بھئی کیا ہوا؟میری لاڈو کو آج پھر ڈانٹ پڑ گئی کیا؟“ باورچی خانے کے سامنے ہی ڈائننگ ٹیبل تھا۔جہاں گھر کے سبھی افراد بیٹھے گرما گرم ناشتہ نوش فرما رہے تھے۔تبھی مجھے آتے دیکھ کر چھوٹے چاچو میری لٹکی ہوئی شکل کو دیکھ کر پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔
”چاچو ایسا دن،کوئی ایسا لمحہ بھی ہوسکتا ہے جس میں آپا کو ڈانٹ نہ پڑی ہو؟“ناشتہ کرتے مجھ سے چند سال چھوٹے سنی کی زبان پر کھجلی ہوئی۔
”برائے کرم تم اپنی چونچ بند ہی رکھوتو بہتر ہوگا،تم سے کسی نے استفسار نہیں کیا۔“میں نے غصے سے اُسے گھوری سے نوزاتے ہوئے کہا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔اس دوران چاچو میری شکل کے اتار چڑھاؤ ہی ملاحظہ فرما رہے تھے۔میں نے ٹیبل پر بیٹھے سب کو رغبت سے پیٹ پوجا کرتے دیکھا۔”کیسے سارے ٹھونس رہے ہیں،میری تو کسی کو پراوہ ہی نہیں۔“ میں نے جلے ہوئے دل کے ساتھ سوچا
”کیا میرے لڈو نے آج ناشتہ نہیں کرنا؟“ چاچو نے میرے لئے بریڈ پر جیم لگاتے ہوئے پوچھا۔یہ کام وہ میرے لئے روزانہ کرتے تھے۔میرے چاچو بہت اچھے ہیں۔آگے آگے آپ کو پتہ چل جائے گا وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
”چاچو۔“میں منہ بسور کر اُنھیں دیکھا۔
”جی میرے لڈو۔“ وہ بریڈ اور جوس میری طرف بڑھاتے پیار سے بولے۔آپ کو بتاؤں وہ مجھے پیار سے لڈو ہی کہتے ہیں اور میں واقعی پھر لڈو بن جاتی ہوں۔
”ماما نے میرا ڈائجسٹ اپنے قبضے میں کرلیا۔“ میں نے رونی شکل بنا کر اصل مدعااُن کے گوش گزارا۔
”اوو بس کردو،خدا کی بندی جب دیکھو ڈائجسٹ کا ہی رونا ہوتا ہے تمہارا۔کبھی تو کوئی اور بات کرلیا کرو۔“  یہ میری کزن تھی جیا۔میری بات سنتے ہی جس کی زبان پر فوراً کھجلی ہوئی۔میں نے ابھی غصے سے اُسے دیکھا ہی نہیں تھا کہ میرا سب سے بڑا دشمن چپ نہ رہ سکا اور فوراً بول اٹھا۔وہ چپ رہ بھی کیسے سکتا تھاجہاں میں ہوں، وہاں محمد ارحام احمد کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔
”اچھا کیا ہے چچی جان۔اگر جتنا تم ڈائجسٹ کے ضبط ہونے پر واویلا مچاتی ہو،اگر اپنی ناکامی پر بھی دو آنسو بہا لو تو کیا پتہ تم بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوجاؤ۔“ میں نے غصے سے بل کھاتے ہوئے اُس کو دیکھا جو مجھ پر کھلم کھلا طنز کر رہا تھا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟کہنا کیا چاہتے ہو تم؟“ میں غصے سے کرسی سے اُٹھی اور ٹانگ مار بچاری کرسی پر غصہ نکالا اور تابعداری سے زمین پر سجدہ ریز ہوگئی۔
”مطلب وہی ہے جو تم سمجھ کر یوں آگ بھگولہ ہورہی ہو۔“  وہ سکون سے جواب دئے کر پراٹھے سے انصاف کرنے لگا،مگر مجھے بے سکون کرکے۔
”مہر بیٹھ جاؤ،آرام سے ناشتہ کرلو،ورنہ کالج سے تاخیر ہوجائے گی۔“ چاچو نے کرسی سیدھی کرکے مجھے بیٹھایا۔
”نہیں چاچو یہ سمجھتا کیا ہے خود کو؟جب بات میں آپ سے کرررہی ہوں،تو یہ کون ہوتا ہے میری بات میں اپنی ٹانگ اڑانے والا؟“میں نے غصے سے اُسے دیکھا۔میرا بس نہیں چل رہا تھاکہ سامنے پڑا جوس کا گلاس اُس کے سر پر دئے ماروں۔لیکن میرا بس ہی تو نہیں چلتا تھا
”دیکھا چاچو یہ نکمی تو پہلے ہی تھی مگر ان ناولوں نے تو اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔اب بھلا بتائیں اس کی باتوں میں میری ٹانگ کیسے آسکتی ہے جبکہ میں تو اپنی ٹانگوں سمیت یہاں بیٹھا ہوں۔“ وہ بڑے مزے سے بولا تھا۔اُس کی بات پر سب کھی کھی کرنے لگے۔میں چاچو کی طرف دیکھا شاید وہ بھی اپنی ہنسی کو ضبط کررہے تھے۔
”اگر تم اپنے سر کی سلامتی چاہتے ہوتو آئندہ میرے ناولز کے بارے میں ایک لفظ بھی مت کہنا۔“ غصے سے میں نے اُسے دھمکی دینی چاہی جیسے وہ میری دھمکی سے ڈر جائے گا۔حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ ڈھیٹ انسان ہے۔عادت سے مجبور،کبھی باز نہیں آئے گا۔لیکن میں بھی تو مجبور تھی نا اپنے ناولز کی محبت میں ان کے بارے میں کیسے ایک لفظ بھی سن سکتی تھی۔
”یعنی تمہیں بول سکتا ہوں؟“ اس کی بھوری نگاہیں مجھے ہی دیکھ رہی تھیں۔غصے سے میری حالت نہایت سیریس ہورہی تھی۔
”تم میرے ساتھ بات ہی مت کرو۔ورنہ میں تمہیں جان سے مار دوں گی۔“ غصے میں کھولتے ہوئے میں نے اُسے ایک اور دھمکی دینی چاہی۔
”مگر میں تمہارے ساتھ تو نہیں زبان کے ساتھ بول رہا ہوں۔“ وہ کتنے مزے سے میری دھمکیوں کو ہوا میں اڑا رہا تھا۔
”ارحام یار بس کردو کیوں میری لاڈو کو تنگ کررہے ہو؟“بالآخر چاچو نے اُسے ٹوکا تھا۔اگر اچھا ہوتا تو چاچو اپنا جوتا اتار کر اس کو ٹھکا کر لگاتے تو مزہ آجاتا۔
”ہاہاہاہاہا۔آپ کی نکمی لاڈو خود ہی یہ موقع دیتی ہے۔میں کیا کر سکتا ہوں چاچو۔“ ہنستے ہوئے اُس نے دونوں ہاتھ اٹھاتے خود کو اس ا لزام سے بری ٹھہرایا۔
”تم ایسا کرو تھوڑا سا زہر لو اور کھا کر مرجاؤ تاکہ میری جان چھوڑ دو۔“ میں نے غصے سے اٹھتے ہوئے کہا۔آج کا ناشتہ تو جیسے میری قسمت میں ہی نہیں تھا۔
”تو مہرانی صاحبہ اس مفید مشورے پر تم خود کیوں نہیں عمل کرلیتی؟“ یہ لڑکا مجال ہے جو میری بات کا جوا ب دینے سے رک جائے۔ویسے سب کہتے ہیں ارحام بہت خاموش طبعت،کم گو تھا۔پتہ نہیں اُن لوگوں کو وہ کس زاویے سے خاموش اور کم گو لگتا تھا۔
میں وہاں سے واک آوٹ کرکے اپنے کمرے میں آئی اور اپنا کالج بیگ لے باہر نکل گئی۔
”چاچو میں جارہی ہوں اگر آج آپ کا دل ہوگیا مجھے کالج چھوڑ کر آنے کا تو مہربانی کرکے تشریف لے آئیے گا۔“میں نے لاؤنج سے باہر نکلتے ہوئے دہائی دی۔اور پورچ میں کھڑی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔موڈ کا تو صبح صبح ہی ستیاناس ہوگیا تھا ابھی تو پورا دن باقی تھی۔تقریبا پانچ دس منٹ بعد میں چاچو کو آتے ہوئے دیکھا،نیلے رنگ کی لائینوں والی شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس وہ بہت پیارے لگ رہے تھے اوپر سے اُن کی پیاری سی مسکان جو اُن کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی تھی۔
”بھئی بہت غصہ ہے میری لاڈو میں۔خوامخوہ اپنا موڈ خراب کردیا۔“وہ ڈارئیونگ سیٹ میں بیٹھتے ہوئے بولے۔
”یہ لو پکڑو اپنا ناشتہ اور اب فوراً سے اسے ختم کرلو۔“ وہ ٹفن میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے،چاچو ایسے ہی تھے سب کا بہت خیال رکھنے والے اور میرا تو وہ کچھ زیادہ ہی خیال رکھتے تھے۔اُن کا تین سال کا بیٹا تھا انس۔مگر وہ کہتے کہ میری پہلی اولاد میری مہر ہے میری لاڈو۔ اور میں اُن کے پیار میں اڑتی رہتی اتنا تو میرے اپنے ماما بابا بھی پیار نہیں کرتے جتنا میرے جان سے پیارے چاچو مجھ پر پیار نچھاور کرتے ،میرا ہر نخرہ اٹھانا تو جیسے چاچو پر فرض تھا نا اور ماما چاچو غصے ہوتیں کہ انھوں نے مجھے بگاڑ کر رکھ دیا ہے خیر ماماتو میرے ڈائجسٹ کو بھی یہ الزام دیتی تھیں کہ اُنھوں نے مجھے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
”کہاں کھو گئی تم؟یہ دیکھو، آزاد کروا لایا تمہارے ڈائجسٹ کو بھابھی کی قید سے۔“چاچو نے میرے سامنے کرن ڈائجسٹ کو  لہراتے ہوئے کہاجو رات کو مامانے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔میرے ستیاناس ہو ا موڈ ڈائجسٹ کو دیکھ کر فو راً بھنگڑے ڈالنے لگا۔
”واوو چاچو یو آر گریٹ۔“ میں نے چہکتے ہوئے چاچو سے ڈائجسٹ لیا اور فورا ٹیفن کو بیگ میں رکھتے اُس کھولنے لگی جب چاچو گاڑی سٹارٹ کرتے بولے۔
”مہر پہلے اپناناشتہ کرلو تم نے کچھ بھی نہیں کھایا۔“
”چاچو میں کالج جا کر کھا لوں گی،پہلے اپنی ادھوری کہانی کو تو مکمل کرلوں۔“میں نے اپنی ادھوری کہانی کو ڈھونڈتے ہوئے چاچو کو جواب دیا۔ اب میرے ہاتھ میں ڈائجسٹ آگیا تھا اب مجھے کہاں سوجتا تھا ناشتہ کرنا۔میرا کھانا پینا تو جیسے یہ کہانیاں تھیں
٭٭٭٭٭٭٭٭

#ناولز کی دیوانیWhere stories live. Discover now