ناولز کی دیوانی قسط 3

941 57 4
                                    

#ناولز_کی_دیوانی
#بقلم_نمرہ_نور
قسط:3

ماما نے پوچھا۔”مہر آخر تم نے پرنسپل سے جھوٹ کیوں بولا،آخر ایسی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی جو یہ نوبت آئی؟“ اور جواب میں نے شکل کے بہت ہی برے برے زاویے بنائے۔اب اُنھیں کیا بتاتی۔
”ماما اب آپ نے میٹنگ میں جانا ہی ہے تو دیکھ لیجئے گاکہ ایسی کونسی قیامت ٹوٹنے والی تھی جس وجہ سے جھوٹ بولا۔“  میں نے کڑوے کسیلے زاویے بنائے،ہاں تو اب کیا کہتی۔میٹنگ پر اب اُنھوں نے لازمی جانا تھا یہ وہ پہلے ہی بتا چکی تھیں۔وہاں جا کر جب پتہ چل ہی جانا تھا تو بہتر ہے ابھی میں انھیں نہ ہی بتاؤں۔ورنہ ابھی سے ٹھکائی شروع ہوجانی تھی
انعمتہ اور ارسلہ کو جب ساری روادادپتہ چلی تو ہنس ہنس کر الٹی ہورہی تھیں۔اور اُن کوہنستا دیکھ کرمجھے غصہ آرہاتھا۔
”اب ہنسنا بند کرو میں ورنہ میں تم دونوں کا سر پھاڑ دوں گی۔“
”قسم سے مہر تم سے دوستی کرنے کے بعد مجھے لگتا ہے میں نے کسی جوکر سے دوستی کرلی ہے۔“ انعمتہ ہنستے ہوئے بولی۔میری دھمکی کا اثر لئے بغیر۔جبکہ ارسلہ بھی ہنس رہی تھی۔یہ لوگ بھی عجیب ہیں جب ہم سنجیدہ اور غمگین سے ہوں تو قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں اور جب ہم ہنسنے ہنسانے کے موڈ میں ہوں تو وہ سنجیدگی لبادہ اڑے ہمیں ڈانٹتیں ہیں۔اور ان لوگوں میں میری ان دو سہیلیوں کا نام تو سر فہرست شامل تھا۔
آج ہماری کلاس کی پیرنٹس میٹنگ تھی۔آہستہ آہستہ سب بچوں کے والدین آرہے تھے۔
میں ارسلہ اور انعمتہ کے ساتھ کوریڈور میں کھڑی تھی۔جب آیا نے آکر مجھے ماما کے آنے کی اطلاع دی۔میں نے رونی سی شکل بنا کر اپنی دوستوں کو دیکھا تو وہ ایک دفعہ پھر ہنس پڑیں اور مجھے اس کمرے میں لے چلی جہاں اس وقت سب کے پیرنٹس بیٹھے ہوئے تھے۔
ماما کے ساتھ ارحام کو دیکھ کر تو میرے ڈھیلے پورے کے پورے کھلے جیسے باہر آنے کو ہو۔اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ میرا جائزہ لیا۔اور لاتعلق ہوکر بیٹھ گیا۔
”ماما آپ کو اسے ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی؟“ دھیمے لہجے میں ماما سے پوچھا۔
”میں ارحام کو کیوں نہیں لاسکتی تھی؟“ ماما نے کڑی نگاہوں سے الٹا مجھ سے پوچھا۔میں خاموش رہی۔ماما سے بحث کر نا”آ بیل مجھے مار“ کے مترادف تھا۔
وہاں میرے سب ٹیچرز موجود تھے۔جو مجھے پڑھاتے تھے۔اپنی ہاتھوں کو مڑورتے ہوئے مجھے ماما اور اپنی دشمن کے ساتھ ان سب ٹیچرز کے سامنے پیش کیا گیا۔
”اللہ جی آج بچا لیں مجھے۔میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ سارے ٹیسٹ اچھے سے دوں گی۔“میں نے دل ہی دل میں خدا سے مدد طلب کی۔لیکن لگتا تھا آج اللہ تعالی بھی دوسروں کی ہی طرفداری کررہے تھے۔
ایک ایک سارے ٹیچر اپنی نکمی سٹوڈنٹ پر تبصرے کرنے لگے۔
”مہر کو میں نے آج تک پڑھتے نہیں دیکھا۔ساری کلاس میں یہ واحد بچی ہے جس کا دھیان پڑھائی کی طرف نہیں ہوتا،کیا آپ مہر سے کام کرواتی ہیں؟“ انگلش کی ٹیچر نے میری آج تک ساری ٹیسٹ رپورٹس کو چیک کرتے ہوئے بولیں۔
”نہیں۔مہر تو ایک گلاس اٹھا کر ادھر سے ادھر نہیں رکھتی۔مہر کیا کام کرئے گی۔“ ماما نے مجھے ایسی نگاہوں سے ایک بڑی سی گھوری سے نوازا جیسے مجھے نگل جائیں گی۔
”تو پھر یہ پڑھتی کیوں نہیں؟“دوسری ٹیچر بولیں
”ایک تو یہ چھٹیاں بہت کرتی ہے اور جب آجائے تو لیکچر بنک کرتی ہے۔یہ دیکھ لیں آپ اس کی کارکردگی،ہمیں بالکل بھی امید نہیں کہ یہ اس سال پاس ہوسکے گی۔“  کمپوٹر کی ٹیچر نے تو دو کوڑی کی بھی عزت نہیں چھوڑی تھی۔صاف سیدھے ہی انھوں نے بتادیا کہ نہ جی یہ لڑکی نہیں پاس ہوسکتی۔اپنے دشمن کے سامنے اپنی عزت کے خچے اڑتے دیکھ کر میرا دل کیا چلو بھر پانی لوں اور اس میں ڈوب کر مر جاؤں۔اب تو اسے مجھے مزید ٹارچر کرنے کا موقع مل جانا تھا۔
وہ میری اب مارکس شیٹ چیک کررہا تھا۔پھر اس نے ایک کڑی نگاہ میری طرف دیکھا میں گڑبڑا سی گئی۔
”تو اس لئے تم نہیں چاہتی تھی ہم میٹنگ اٹینڈ کریں۔“ باہر نکلتے ہی ماماغصے سے بولیں۔میں ان کی بری بھلی سننے کے لئے پہلے ہی خود کو تیار کرچکی تھی۔
”بہت ہی افسوس کی بات ہے،باتیں تم سے جتنی مرضی سن لیں۔مگرپڑھائی میں تم بالکل زیرو ہو۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہاری اس قدر گندی رپورٹس ہو گی تو میں مر کر بھی نہ آتا۔“وہ نہ بولتا،ایسا تو کہیں لکھا ہی نہیں تھا۔
”ہاں تمہیں تو جیسے معلوم ہی نہیں کہ میں نالائق ہوں۔ڈرامے باز کہیں کامجھے نیچا دیکھا نے کے لئے بندر آگیا تو اب کیسے شوخیاں مار رہا ہے۔چوسنی کے منہ والا۔۔لنگور۔“ میں دل ہی دل میں بولی۔اب سامنے بول کر ماما کے ہاتھوں سب کے سامنے جھانپڑ کھانا تھا کیا۔
”اب تم گھر آؤ گی تو تم سے دو ٹوک بات ہوگی۔“ ماما جاتے سمے بولیں۔دھمکی دینے والاانداز تھا
اور میں وہی کھڑی اُنھیں جاتا دیکھتی رہ گئی۔
٭……٭……٭

#ناولز کی دیوانیDonde viven las historias. Descúbrelo ahora