ناولز کی دیوانی Epi 6

788 56 3
                                    

ناولز کی دیوانی

بقلم؛ نمرہ نور
قسط: ۶

تایا جان او ر تائی جان کی جو باتیں اڑتی اڑتی میرے کانوں میں پڑچکی تھیں،اس کے بارے میں لگا تار دو تین دن سوچ سوچ کر آدھا خون جلا دیا تھا۔بات ہی کچھ ایسی تھی کہ میرا دل دماغ میرے قابو میں رہا ہی نہ تھا۔سب سے زیادہ تو مجھے اپنے ناولز کی شدید ٹینشن ہوئی ۔کیونکہ ! خدا نہ کرئے اگر ایسا کچھ ہوجائے تو وہ میرا اور میرے ناولوں کا دشمن سب سے پہلے تو ان کو ہی ٹھکانے لگائے گا۔جب سے یہ بات میں نے سنی تھی بس خدا سے اس بلا کو ٹال دینے کی ہی دعائیں کررہی تھی کہ بس یہ کسی طرح بلا ٹل جائے۔
میں تو سوچ سوچ کر خون جلا رہی ہوں،وہاں مجھے کسی نے اس بات کے لئے منہ تک نہ لگایا۔ایک تو خیال آیا !کیا پتہ وہ مجھے کچھ بتائے بغیر اندر ہی اندر تیاریاں کررہے ہوں۔ایک دو دفعہ بہانے بہانے سن گن لینے کی بھی کوشش کی مگر گھر میں تو ایسی کوئی اضافی سر گرمی نہیں ہورہی تھی۔آہستہ آہستہ جب یہ بات میرے دماغ سے نکل گئی اور  تقریبا ً ایک ماہ بعد ماما نے مجھ سے بات کی ۔۔۔ہائے میں تو شرم سے ہی مر جاتی ،اگر اس دشمن کی بجائے کسی اور کانام لیتے ۔۔۔کیا کریں میرے لیے شاید میرے ماں باپ کو یہی نظر آیا تھا۔مجھے بہت افسوس ہورہا تھا۔لیکن میں نے افسو س کو بعد پر اٹھا دیا پہلے اپنی ماما جانی کو بتانا بھی تھا نا کہ جو وہ رشتہ مجھے پیش کررہی ہیں وہ میرے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔
’’ ماما ! میں ہر گز آپ کے اس چمچے سے شادی نہیں کروں گی۔وہ اس قابل بھی ہے جو آپ نے یہ سوچ لیا کہ مہر کی شادی اس سے ہوگی؟‘‘ میں نے صاف صاف جواب دیا۔ماما نے حیرانگی سے مجھے دیکھا،وہ شاید یہ سوچ کر آئی تھیں کہ میں شرم و حیا کا پیکر بنے سر ،منہ جھکائے،ڈوپٹے کے پلو کو منہ میں دبائے،رضا مندی دئے دوں گی۔لیکن یہاں تو ان کی سوچ کے برعکس ہی اظہار ملا تھا۔وہ شاید چند پل یہ بھی بھول گئیں تھی کہ ان کے سامنے اپنی وہ بیٹی کھڑی تھی جو نہایت منہ پھٹ تھی اور شرم و حیا تو اس چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔
’’ بالکل وہ تمہارے قابل نہیں ہے۔اتنا خوبرو،ذہین فتین ،نہایت سلجھا ہوا،با اخلاق ،ادب سے چھوٹے بڑوں کے ساتھ پیش آنے والا ۔۔۔۔اور تم ۔کہنے کو تو میری بیٹی ہو۔۔لیکن نہایت نکمی،کور مغز،پھوہڑ ،بدتمیز ،منہ پھوٹ،جسے بڑے چھوٹے کا لحاظ تک نہیں۔‘‘ماما نے کھا جانے والی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔اور میرا تو منہ ہی کھل کر جبڑے کو جا لگا۔۔حیرت اور غمصے سے تو میرا دماغ گھومنے لگ گیا۔یعنی اپنی بیٹی میں دنیا جہاں کی برائیاں اور اس ایڈیٹ میں دنیا جہاں کی اچھائیاں ماما کو نظر آرہی تھیں۔دیکھو لوگو! دیکھو! یہ میرے ساتھ انصاف ہورہا ہے۔۔۔کوئی ایسا بھی کرتا ہے ،میرا ننھا منھا سا دل ٹھا ہ ٹھا ہ کرکے ٹوٹ سا گیا۔
’’ تمہارے تایا جان کا یہ فیصلہ ہے اور تم جانتی ہو نا ان کے فیصلے پتھر کی لکیر ہوتے ہیں۔تم یہ غنیمت سمجھو کہ انھوں نے تمہیں بتانے کا کہا ہے تاکہ تم خود کو ذہنی طور پر تیار رکھو۔‘‘ ماما کی بات نے میرے دکھ دل کو مزید تڑپایا۔
’’ شادی میری ہے یا تایا جان کی ،جو مجھے صرف بتایا جارہا ہے۔اور آپ نے بھی زحمت کیوں کی عین نکاح کے موقع پر بتاتی نا کہ مہر تمہارا نکاح ہورہا ہے تین دفعہ قبول ہے بول کر یہاں پر سائن کردو۔ابھی کیوں بتا رہی ہیں۔‘‘ میں نے دکھی دل کے ساتھ طنز کیا۔دل تو کررہا تھا کہ جا کر خود تایا جان کو بول دوں کہ مجھے اس فیصلے سے انکار ہے۔رات کو کال کرکے انعمتہ اور ارسلہ کو بتایا تو وہ خوشی سے چلانے لگیں ان کے بس میں ہوتا تو وہ فون سے نکل کر مجھے خوشی سے دبوچ ہی لیتیں،میرے دکھ کی پرواہ کیے بغیر ان کا یہی پوچھنا تھا کہ یہ قربانی ۔۔۔مطلب شادی کب ہورہی ہے۔
’’ تم لوگوں مزید اگر اس کی خوبصورتی کے قصیدہ گوئی کی تو قسم سے میں صبح کالج آکر تم دونوں کا سر پھاڑ دوں گی ۔اس وقت مجھے شدید غصہ ہے۔‘‘ میں آتش فشاں لاوے کی طرح پھٹی۔جس کا یہ فائدہ ہو اکہ وہ دونوں ذرا سنجیدہ ہوئی تھیں۔تبھی ارسلہ مجھے سمجھاتے ہوئے بولی
’’ دیکھو مہر ! میں تمہیں ایک دوست ہونے کی ناطے میں یہی کہوں گی کہ ماں باپ کبھی اولاد کا برا نہیں سوچتے یار وہ ہمارے دشمن تھوڑی ہوتے ہیں۔ہمارے ماں باپ ہیں وہ ،ہم ان کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں،ہمارے سکھ ،دکھ کی ان کے علاوہ اور کسے فکر ہوگی؟ ارحام تمہارے لئے اچھا ہی ہوگا تبھی تو کچھ سوچ کر تمہارے والدین تمہیں اس کی زوجیت میں دئے رہے ہیں۔تم ذرا یہ بے مطلب سی نفرت اور بے تکی سی دشمنی کی عینک اتار کر دیکھو تو تمہیں وہ اچھا لگے گا۔‘‘ میں خاموشی سے اسی کی بات سن رہی تھی ،جب وہ خاموش ہوئی تو انعمتہ نے اسے سمجھانے کا کردار ادا کیا۔
’’ ویسے تمہیں اس سے اس بات کی ہی چڑ ہے نا کہ وہ تم کو تنگ کرتا ہے،تم سے بدتمیزی سے بات کرتا ہے ،تمہارے ناول اسے پسند نہیں؟‘‘
’’ اسی پر اکتفا نہیں ہوتاانو یار۔۔۔وہ بہت گھمنڈی ہے،اپنے ذہین اور ڈاکٹر ہونے کا غرور ہی اس میں سے نہیں جاتا،اپنے آپ کو ناجانے کاکہاں راجہ اندر سمجھتا ہے۔ماما کو میرے خلاف بھڑکاتا ہے کمینہ ۔۔‘‘ ارحام کے بارے مین سوچ کر میں آگ بگولہ ہوگئی،
’’افف! مہر تمہارے اندر ارحام بھائی کے لئے کتنا زہر ہے یار۔۔۔۔تم اتنا غلط سوچ رہی ہو۔‘‘ ارسلہ کی افسوس بھری آواز آئی
’’ تمہیں تو بڑا پتہ ہے کہ میں غلط سوچ رہی ہوں یا ٹھیک۔ارے بی بی اس کے ساتھ ایک چھت تلے بچپن سے میں رہی ہوں ،تم نہیں ۔اسلئے تمہیں کچھ بھی نہیں پتہ۔‘‘ میں تنک کر بولی۔مجھے ان پر بھی بہت غصہ آرہا تھا۔میری دوستیں ہوکر وہ اس کی طرفداری کررہی تھیں۔آگ تو مجھے لگنی ہی لگنی تھی۔
’’ بالکل تم نے ٹھیک کہا۔میںان کے ساتھ نہیں رہی لیکن تمہارے ساتھ تو تقریباً دو تین سال لازمی رہی ہوں اسلیے تمہاری عادت کا بھی بخوبی علم ہے۔تم اندازے بہت لگاتی ہو اور وہ بھی نہایت غلط اور مجھے لگتا ہے ارحام بھائی کے بارے میں بھی تم قیاس آرائی سے کام لے رہی ہو۔‘‘
’’ تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں بری ہوں اور وہ اچھا ہے۔‘‘ میں دانت پیس کر بولی
’’ ارے میرا مطلب یہ نہیں میں تو۔۔۔‘‘
’’ سمجھ گئی تمہارا مطلب۔میں ہی پاگل ہوں جو تم لوگوں سے مشورہ لینے آگئی۔‘‘ میں نے غصے سے اس کی بات کاٹتے ہوئے فون بند کردیا اور وہ بس ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئیں۔یعنی حد ہوتی ہے سب کو بس میں ہی بری لگ رہی ہوں اور میرا من نہایت کھٹا ہورہا تھا اس بات پر۔۔۔اور تو اوررونے کو بھی دل کررہا تھا۔
٭…٭
میں دکھی دل کے ساتھ باہر آئی تو ارحام کی آواز میری سماعت سے ٹکرائیں جو چاچو کے کمرے میں اونچی اونچی آواز میں بول رہا تھا۔میں دیوار کے اوٹ ہوکر ان کی باتیں سننے لگی۔
’’ چاچو ! آپ ہی بابا کو سمجھائیں کہ میں مہر سے شادی نہیں کرسکتا۔‘‘ اس کی بات پر مجھے غصہ آیا،جیسے میں تو مہر تو مری جارہی نا اس سے شادی کے لئے۔
’’ کیوں،کیا کمی ہے ہماری مہر میں جو تم اس سے شادی نہیں کرسکتے؟‘‘چاچو اُس سے استفسار کررہے تھے
’’ایک کمی ہو تو بتاؤں نا ،وہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والی ایک بے وقوف سی لڑکی ہے جس کے ساتھ میرا تو کم از کم گزارا کبھی نہیں ہوگا۔‘‘ اس کے منہ سے اپنی برائیاں سن کر دل تو کیا جا کر ابھی اسے جواب دوں کہ مہر شاویز بھی کوئی گری پڑی نہیں جو تم سے شادی کے لئے مرے جارہی ہے۔
میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کررہی تھی کہ کس طرح اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کروں۔لیکن میں یہ کیسے بھول گئی تھی کہ وہ بھی کبھی مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہے گا۔جس کے لیے وہ تایا جان کے سامنے بھی ڈٹ جائے گا،اس لیے میں نے خود کواس فکر سے آزاد کیا۔ایک طرف سے اچھا تھا اگر وہ احتجاج کرئے گا تو برا بھی تو وہ ہی بنے گا۔میں کیوں خواہ مخواہ بری بنوں۔میں نے بڑی معصوم سے شکل بنا کر ماما کو کہا۔تاکہ تایا جان کو پتہ چلے کی مہرتو راضی ہے بس ان کا نالائق بیٹا ہی نافرمانی کررہا ہے۔
’’ ماما ! مجھے تایا جان کے فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں،آپ جہاں چاہیں میری شادی کردیں۔میں یہ سمجھ گئی ہوں کہ ماں باپ کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں سوچتے۔‘‘ ماما نے حیرت سے مجھے دیکھا۔کہ ایک ہی دن میں یہ کایا کیسے پلٹ گئی ہے،انہیں اب کون بتاتا کہ میرے دماغ نے کونسی منصوبہ سازی کی تھی۔
٭…٭
پھر ویسا ہی ہوا جیسے میں نے سوچا تھا۔وہ بہت ضدی تھااپنی بات منوا کر ہی دم لیتا تھا۔اس بات پر بھی وہ تایا جان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تھا۔تایا جان کی بلند اور کرخت آواز بخاری ہاؤس کی دیواروں کو ہلا رہی تھی۔تایا جان اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی ہلنے والے نہیں تھے۔اور وہ کہاں جھکنے والا تھا۔میں خاموشی سے بس تماشہ دیکھنے رہی تھی۔اس کو اس قدر غصے کی حالت میں دیکھ کر میرے دل کو تسکین مل رہی تھی ۔مگر یہ تسکین تھوڑے دن کے لیے ہی تھی بلآخر وہ تایا جان کے ساتھ اپنا کیس لڑتا لڑتا ہار گیا۔وکالت کی دنیا میں وہ ماہر کھلاڑی تھے پھر وہ کیسے ہار جاتے ۔۔۔۔ اور میں جو مزے سے اپنی رضا مندی دئے کر بے فکر ہوگئی تھی کہ کونسا یہ شادی ہونی بھی ہے ،اس وقت ہوش اڑ گئے جب جیا سے یہ خبر ملی کہ میری شادی اسی مہینے طے پا گئی ہے ۔اور میرا دل ۔۔ماننے کو تیار نہیں تھا۔میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ارم پھوپھو سے اپنے دل کا حال بتایا تو وہ اتنا حیران نہیں ہوئیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھیںمیرے اور اس کے اختلاف ہی رہتے ہیں۔مگر وہ سب کو بے تکے ہی لگتے تھے
’’ مہر بچے! میری بات سنیں۔آپ کو ارحام سے بہت سے شکوے ہیں اور اسے بھی آپ سے ہیں ،تو آپ ایسا کرنا کہ تھوڑا سا اپنے رویے میں لچک پیدا کرلیں۔اپنی ازدواجی زندگی کے لیے تھوڑا سا خود کو بدل لیں تاکہ ارحام بھی اپنا رویہ آپ سے بہتر کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ بیٹا یہ جو بے وجہ کی ضدیں ہوتی ہیں نا کبھی کبھی ہمیں بہت نقصان پہنچا جاتی ہیں۔اس لیے ذرا یہ ضد چھوڑ کر دیکھیں تو سب اچھا لگے گا۔‘‘ ارم پھوپھو نے سمجھایا تو میں واقعی کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئی۔اب کرتے نا کرتے کے مصادق اس شادی کے کنویں میں چھلانگ لگانی ہی تھی وہ بھی اس شخص کے ساتھ جسے زندگی بھر میں نے اپنا دشمن سمجھا تھا۔
اگر میںااحتجاج کرتی تو میری کسی نے نہیںسننی تھی۔جہاں تایا جان نے اپنے سپوت کی نہیں سنی تھی تو میں کس کھیت کی مولی تھی۔خیر میں ان سوچوں سے تھوڑا سا خود کو آزاد کیا تو اپنے آس پاس ہونے والی سر گرمیوں کا جائزہ لیا۔
گھر والے تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا کام کررہے تھے۔چٹ منگنی پٹ بیاہ خیر منگنی شنگنی تو بس نام کی ہی تھی اور بس سادگی سے ہی نکاح اور ولیمہ تھا۔یہ سن کر تو میں بے ہوش ہی ہونے والی ہوگئی تھی۔میرے سارے سارے نکے نکے خواب آسمان سے منہ کے بل گرے تھے اور میں ان کے نیچے دبکی ہوئی تھی۔
ہاے میری کتنی خواہش تھی کہ میری منگنی ہو،ہر تہوار پر سسرالیوں کی طرف سے ڈھیرو ڈھیر تحفے ملیں۔مگر کیا ہوا سب خاک ہوگیا،یہاں تو شادی بھی سادگی سے انجام پائی جارہی تھی۔
سب کے سمجھانے پر میں بمشکل اس شخص کے بارے میں اپنی نگاہوں کا اینگل تبدیل کرکے دیکھنے لگی تھی،جو ناچاہتے ہوئے بھی میرا ہمسفر بننے والا تھا۔
پھر وہ وقت بھی آگیا جب ماما کی ساری نصیحتوں کو پلے باندھ کر ،جملہ حقوق ارحام بخاری کو سونپ کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں رخصت ہوگئی تھی۔میں نے عام دلہنوں کی طرح سجی سنوری سیج پر بیٹھ کر اس کا انتظار نہیں کیا تھا۔کرتی بھی کیوں۔وہ کونسا آکر میری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والا تھا۔میں چپ چاپ اٹھی اور لہنگے سے چھٹکارا پا کر آرام دہ کپڑے پہن کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔وہ شاید آج ساری رات باہر ہی غم ہلکا کرنے والا تھا ۔میری بلا سے کمرے میں آئے یا نہ آئے ۔

جاری ہے

#ناولز کی دیوانیWhere stories live. Discover now