ناولز کی دیوانی قسط 2

1K 63 4
                                    

#ناولز_کی_دیوانی
بقلم: نمرہ نور
قسط:۲ 

”اب تو بس کردو مہر،تم یہ کوئی پانچویں بار ناول پڑھ رہی ہو۔اتنی بھی کیا خاص بات ہے اس میں،جو تم اس کی جان ہی نہیں چھوڑ رہی۔“
شمائلہ بھابھی مجھے جنت کے پتے کی ونڈر لینڈ میں گھومتے ہوئے دیکھ کر پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔میں نے ناول سے نظریں ہٹا کر اُنھیں دیکھا۔
”اففف! بھابی جان اس میں کوئی ایک خاص بات ہو تو بتاؤں نا،یہ تو پورے کا پورا ہی خاص ہے۔اگر آپ پڑھیں گی تو قسم سے آپ بھی جہان کی دیوانی ہوجاؤ گی۔“ میں نے ”جنت کے پتے“ ناول خاص طور پر ”جہان“ کی محبت میں ڈوبتے ہوئے،جذب کے عالم میں اُنھیں بتایا تو انھوں نے کچھ حیرت کے ملے جلے تاثرات سے مجھے دیکھا۔
”یہ جہان کون ہے؟“ سوالیہ نگاہوں سے انھوں نے مجھے پھر کمرے میں موجود سب افراد کو دیکھا۔”یہ جہان کون ہے۔“ ان کے اس سوال سے مجھے بالکل بھی دکھ نہیں ہوا تھا۔کیونکہ میں نے ابھی انھیں تعارف جو نہیں کروایا تھا۔
”شمائلہ تم نے مہر سے یہ سوال پوچھ کر اچھا نہیں کیا۔اب یہ تمہارے ساتھ ساتھ ہمارا سر بھی لازمی کھائے گی۔“ روحان بھائی شرارت سے بولے۔
”پلیز پلیز مہر! تم اب اپنا یہ جہان نامہ شروع مت کردینا۔بھابھی یہ جہان اس ناول کا کردار ہے اور کچھ نہیں۔“ جیا چڑچڑے پن سے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
اُن لوگوں کو تو میں ہزاروں دفعہ جہان سکندر کے بارے میں بتا چکی ہوں۔اُن کو ہی کیا میں تو گھرمیں تو سوائے تایا جان اور اپنے دشمن کے سب ہی کو جہان،سکندر،سالار سکندر،فارس غازی،وجدان اور عمر جہانگیر کے بارے میں ہزاروں بار بتا چکی ہوں۔ کبھی کبھی تو یہ سب  میری فیملی کو حصہ لگتے تھے۔ مہر شاویز کوئی ناول پڑھے اور ایک ایک کو جب اس کی کہانی”الف سے ے“ تک نہ بتادئے،کہانی ہضم نہیں ہوتی اسے۔
”ارے اویں ”اور کچھ نہیں“۔جہان سکندر کیا کچھ ہے تمہیں کیا معلوم ہو۔“  میں گردن کو اکڑاتے ہوئے،فخریا انداز میں بولی۔جس پر انعم چچی اور روحان بھائی مسکرانے لگے۔
”یہ جہان سکندر، وہ جو تم نے مجھے کہانی سنائی تھی، کیا نام تھا اس کا۔۔۔۔“ شمائلہ بھابھی سوچتے ہوئے بولیں۔”ہاں۔۔سالار  سکندر۔۔۔اس کا بھائی ہے کیا؟“انھوں نے پیرکامل ناول کی کہانی کو یاد کرتے ہوئے پوچھا۔اُنھیں میں نے یہ ناول ان کی شادی کے چوتھے دن سنائی تھی۔ تب بھی مجھے ماما سے سننی پڑی تھی۔خیر اس میں کونسا بڑی بات ہے وہ تو مجھے سناتی رہتی ہیں۔میں ناولز کی کہانی سناتی ہوں اور ماما مہر کو شرمندہ کرنے والی باتیں سناتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ مہر کو کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ان کی معصومیت بھرے سوال پر مجھے بہت ہنسی آئی۔
”روحان بھائی بہت بری بات ہے۔“ میں تھوڑا سنجیدہ سا منہ بناتے ہوئے روحان بھائی کی طرف دیکھا۔جو موبائل میں گھسے نجانے کیا کررہے تھے۔
”کونسی بات مہر؟“ اُنھوں نے ناسمجھی سے مجھے پھر وہاں موجود سب کو دیکھا۔ہائے بیچارے روحان بھائی کیا معلوم تھا کہ کونسی بات بہت بر ی تھی۔
”پانچ ماہ تو ہوگئے ہوں گے آپ کی شادی کو اور آپ نے ابھی تک میری بھابھی کو جہان سکندر کے بارے میں نہیں بتایا۔“ سچ بات تو یہ تھی کہ مجھے واقعی بہت برا لگا۔روحان بھائی کو بتانا چاہیے تھانا کہ مہر شاویز پاگل ہے جہان سکندر کے لئے۔۔۔
”جیا نے ڈھیلے پٹائے مجھے دیکھا۔
”مجھے بتانا تھا کیا؟“ روحان بھائی معصوم سے مجرم بنے،انعم چچی،شمائلہ بھابھی اور مجھے دیکھ کر پوچھ رہے تھے۔
”ہاں بھائی آپ کو بتانا تھا۔آپ کو نہیں معلوم جہان سکندر بخاری ہاوس کا ایک فرد ہے جس کا تعارف آپ کو بھابھی سے شادی کے پہلے دن ہی کروانا چاہیے تھا۔اتنی بڑی غلطی آپ سے کیسے ہوگئی بھائی؟“ جیا نے خوفناک سی شکل بنا کر روحان بھیا کو اُن کی غلطی کا احساس دلایا،جیسے اُنھوں نے بہت بڑا گناہ سر زد کردیا ہو۔
”اووو! ایم سو سو ری دیوانی صاحبہ میں نے آپ کے جہان سکندر کا تعارف نہ کر وا کر واقعی بہت بڑی غلطی کردی،معاف کردیں جنابہ عالیہ۔دراصل میں چاہتا تھا کہ آپ میری زوجہ محترمہ کو میاں جہان سکندر کے بارے خود تفصیل سے بتائیں تو انہیں اچھا لگے گا۔“
روحان بھائی بھی جیا کی نقل کرتے معذرت خواہ لہجے میں یوں ایکٹنگ کررہے تھے،جیسے یہ کوئی اڈیشن روم ہو اور ہم سب اُن کا اڈیشن لے رہے ہوں۔
”جا تجھے معاف کیا۔“ میں دو بول ڈرامے میں حرا مانی کی طرح،ہاتھ کو ویسے ہی ہلاتے ہو کہا، جیسے وہ گانے میں ہلاتی،بس فرق یہ تھا میری آنکھوں میں شرارت تھی اور بیچاری سی حرا مانی کی آنکھوں میں آنسو کے سمندرتھے۔
میری اس ایکٹنگ پر وہاں بیٹھے سب اش اش کر اٹھے۔
پھر میں تو مزید وقت ضائع کرتے،بھابھی کو جہان سکندر میں پائے جانی والی خوبیوں کا بتانے لگی۔اور وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے مجھے بس دیکھتی جا رہی تھیں۔
”افف بھابھی! مجھے بھی جہان سکندر چاہیے۔“ باتوں ہی باتوں میں ضدی بچے کی طرح منہ پھولایا اور جیا نے اپنا سر پکڑ لیا
”جہان سکندر ہے وہ کوئی لالی پاپ نہیں جو تم بھابھی سے کہو گی تووہ تمہیں دو روپے دیں گی،تو کہیں گی جاؤ بھئی مہر ساتھ والی دوکان سے جا کر لے آؤ۔“
”جیا آج کل تو لالی پاپ بھی مہنگا ہو گیا ہے۔“ روحان بھائی نے یاد کروایا۔
”ہاں تو اور کیا اس کا جہان سکندر سستا ہوگا کیا؟“ 
”اسے سستا ہونا بھی نہیں چاہیے لاکھوں میں ایک ہیں وہ۔“میں اکڑ کر بولی۔اس یقین دہانی کے ساتھ جہان سکندر سنگل پیس ہو۔
”انہی لاکھوں میں وہ تمہارے عمر،سالار وغیرہ بھی آتے ہیں رائٹ؟“ جیا تمسخرانہ لہجے میں بولی۔میں نے غصے سے اُس چھپکلی کو دیکھا۔
”اور مہر جانی یہ لاکھ صرف تمہارے ناولز میں ہی پائے جاتے ہیں،حقیقی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔“ خاموشی سے مسکراتے ہوئے ہماری گفتگو سنتے ہوئے انعم چچی بھی گویا ہوئیں
”افف آپ لوگ میرا دل توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ ڈھونڈے گے تو مل ہی جائے گا جہان نہیں تو سالار اگر وہ نہیں تو عمر جہانگیر بھی چل ہی جائے گا۔“ میں بیچاری سی معصوم سی صورت بناتے ہوئے کہا،روحان بھائی کا قہقہہ بلند ہوا،جبکہ شمائلہ بھابھی آنکھوں کے پٹ کھولے مجھے ہی تک رہی تھیں۔
”ہماری مہر کے پاس آپشن موجود ہیں بھئی،ان میں سے اب کسی ایک کو تو تلاش کرنا ہی ہے۔“وہ ہنستے ہوئے بولے
اور بھابھی یہ دیکھ کر حیران ہورہی تھیں کہ میں کس قدر مہر منہ پھٹ اور بے شرم سی ہے جو یوں روحان بھیا کے سامنے ناولز کے کرداروں کی محبت میں ڈوبے ہوئے انھیں پانے کی خواہش کررہی ہوں۔اور اس بات کا اظہا انھوں چپکے سے جیا کے کان میں کردیا تھا۔وہ ہنس پڑی
”ارے بھابھی یہ تو کچھ بھی نہیں،یہ محترمہ تو شاویز اور راحیل چاچو سے اپنی اس خواہش کا اظہا کر چکی ہیں۔بابا کے سامنے تو اس کی سیٹی گم ہوجاتی ہے، ورنہ یہ اپنے خواہشوں کا پنڈورا باکس اُن کے سامنے بھی کھول کر بیٹھ جائے۔“جیا نے بھابھی کی انفارمیشن میں اضافہ کیا۔
”میں اس کے بارے بتاتی چلوں،ایک تو یہ ناول پڑھ کرجب تک گھر کے سبھی افراد کو سوائے باباجان اورا رحام بھائی کے کہانی نہیں سنا لیتی،تب تک اس کی جان کو سکون نہیں ملتا،یہ تو بیچارے ہمارے چھٹکو انس کو بھی نہیں چھوڑتی بھابھی۔اور دوسرا جب بھی کوئی کہانی کا ہیرو میڈم کو اچھا لگ جائے تو سب کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دیتی ہے کہ اگر مستقبل میں محترمہ کے لئے رشتہ ڈھونڈنا ہو تو ایسی خوبیوں والے لڑکوں  کو مدنظر رکھ کر تلا ش جاری رکھیے گا۔اور پھر ان کی الفت چچی سے اچھی خاصی چھترول بھی ہوتی ہے۔قسم سے بھابھی لوگ ڈرامے باز ہوتے ہیں،فلمی ہوتے ہیں مگر مہر شاویز ناولین ہے۔اس کے اورخیالات ملاحظہ فرمائیں،ایک دن تازہ تازہ کوئی کہانی پڑھ کر بیٹھی تھی کہ بیچاری کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔تو اس ذلیل لڑکی نے مجھے بہت تنگ کیا۔کہتی ہے کہ کاش کوئی چپکے چپکے اس میڈم کومحبت کریں اور جب ان کی شادی کسی اور سے ہورہی ہو تو اس ہیرو کی اینٹری ہواور گن پوائنٹ پر ان کے ساتھ نکاح کرکے،ان کو بھگا کر لے جائیں۔اور ان کے اس طرح کے نادر خیالات چچی نے سن لے پھر اس کو وہ مار پڑی کہ بیچاری تو چچی کے نو نمبر کے چھیتر سے تو لال پیلی ہی ہوگئی۔“
میں اپنی ونڈر لینڈ میں تھی جب کہ جیا مہر نامہ لے کر بیٹھی تھی۔

#ناولز کی دیوانیDonde viven las historias. Descúbrelo ahora