ناولز کی دیوانی Epi 5

795 61 6
                                    

ناولز کی دیوانی
بقلم : نمرہ نور
قسط : ۵

میں جیا اور بھابھی کو بتائے بغیر اردو بازار چلی آئی۔وہاں کتابوں کا ایک بڑی تعداد میں مجموعہ تھا کہ میرا دل فوراً نادان بچے کی طرح مچلنے اور ضد کرنے لگا کہ یہ سب کتابیں میں خرید لوں۔جس میں ہر طرح کی کتابیں تھی۔میں وہاں گھوم پھیر کر ایک ایک کتاب کو دیکھنے لگی۔سارے ناولز خریدنے کے لیے تو نہیں ہاں مگر تین چار ناول خریدنے جتنے تو پیسے تھے ہی،میں نے اپنی پسند کے نئے ناول پیک کروائے ،وہا ں سے نکلنے کو میرا من ہرگز نہیں کررہا تھا۔
ملبوسات ، جوتے ،زیورات اور کھانے پینے کی اشیاء جیسی دکانوں میں انتہا کو جمگٹھا لگا ہوا تھا۔مگر کتابوں کی دکان پر اکا دکا لوگ ہی آتے جاتے نظر آرہے تھے۔
میں نے بیگ سے موبائل نکالا تو جیا کی چار پانچ مس کالز آئی ہوئی تھیں۔وہ لازمی مجھے وہاں ڈھونڈ رہی ہوں گی اور جب کہیں نظر نہ آئی تو اس کا بدتمیز بددماغ میرا بدترین دشمن ضرور غصے کی شدت لا ل پیلا ہورہا ہوگا۔میں جلدی جلدی چلتے ہوئے وہاں پہنچی جہاں میں انھیں چھوڑ کر گئی تھی۔مگر وہاں نہ ملی ۔پاگلوں کی طرح پھر ایک ایک شاپ میں جھانک کر دیکھا تو ان کا نام و نشان ہی سرے سے مل نہیں رہا تھا۔
’’ مہر تم بھی حددرجہ بدھو ہو۔‘‘ میں خود کو کوستے ہوئے جیا کو کال کرنے لگی۔
’’ ہیلو! کہاں پر ہو تم لوگ؟ ‘‘ اس کے فون اٹھاتے ہیں میں نے پوچھا
’’ گھر پر ہیں۔‘‘ دوسری طرف سے سکون سے جواب ملا ۔’’ کیا۔۔؟‘‘ میں تعجب سے تقریبا چلائی۔آس پاس سے گزرتے لوگوں نے چونک کر دیکھا۔
’’ غالباً میں بھی تم لوگوں کے ساتھ آئی تھی جیا۔‘‘ صدمے سے تو مجھ سے بولا ہی نہیں جارہا تھا یعنی وہ مجھے چھوڑ کر چلے گے تھے۔
’’ اور میں بھی غالبا ً تمہیں بتایا تھا کہ بھائی غصے ہوں گی مت جاؤ پھر کسی دن چلے جانا مگر تم تو وہی کرتی ہو جو تمہیں اچھا لگتا ہے۔تم ہمیں بتائے بغیر بک شاپ چلی گئی اور بھائی کو جب پتہ چلا تو وہ بہت غصہ ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح تم وہاں گئی ہو اب ویسے ہی گھر پہنچ جاؤ گی۔‘‘
’’ تمہارے بھائی کو تو میں مزہ چکھاؤںگی ایک دفعہ مجھے گھر آلینے دو۔ ‘‘ میں نے غصے سے دانت پیستے ہوئے فون بند کر دیا۔مجھے حد سے زیادہ اس پر غصہ آرہا تھا۔کوئی ایسا بھی کرتا ہے۔میں ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھا۔اندر ہی اندر مجھے ڈر لگ رہا تھا۔میں ایک طرف کھڑے ہوکر روحیل چاچو کو فون کیا اور انھیں ساری صورت حال بتائی۔انھوں نے پندرہ منٹ میں پہنچنے کا کہا۔کیونکہ ان کا سسرال یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھاتو جلدی پہنچ سکتے تھے۔مجھے ارحام پر بہت غصہ تھا دل کررہا تھا جاتے ہی تایا جان سے اس کی شکایت کروں گی مگر پھر خیال آتا کہ اگر تایا جان کو بھی اس نے بتا دیا کہ میں انھیں بتائے بغیر کتابوں والی دکان پر چلی گئی تھی پھر الٹی میری ہی بے عزتی ہونی تھی۔اس لیے اب مجھے خاموش ہی رہنا تھا۔فورا ًمیرے دماغ میں ایک کلک سا ہوا اور ہاتھ میں پکڑے موبائل کی طرف دیکھا۔تھوڑی دیر انتطار کے بعد روحیل چاچو کے ساتھ میں گھر آگئی تو ماما نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔میری خوب بے عزتی ہوئی ۔اور میں خاموشی سے بس سنتی رہی ۔دل و دماغ اپنے منصوبے پر عمل کرنے کو ترتیب دئے رہا تھا۔
’’ آپ کو معلوم ہے بھابھی وہا ں پر اتنی زیادہ بکس تھیں کہ مت پوچھیں،میرا تو دل کررہا تھا کہ ساری بکس میں خرید لوں،مگر افسوس میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی اور نہ ہی ماما نے اتنی بکس کو گھر میں آنے دینا تھا۔‘‘ میں بیچارگی سی بولی۔
’’مہر اتنے پسند ہیں تمہیں یہ ناول ؟‘ ‘ بھابھی پر اشتیاق نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولیں
’’ بھابھی مجھے ان سے عشق ہے،میرے پاس الفاظ ہی نہیں کہ میں آپ کوکیسے بتاؤں کہ مجھے ان سے دیوانگی کی حد تک محبت ہے۔‘‘ میں صدق دل سے اعتراف کیا۔تو وہ مسکرا اٹھیں
’’ ہاں تو اسی لیے ان کا مستقبل ہم سب کو خطرے میں لگتا ہے،ویسے بھابھی آپ کی فیملی میں دور دور تک کوئی مردحضرات ناول نگار نہیں ہے؟‘‘ جیا نے بھابھی سے استفسار کیا
’’ نہیں جیا،کیوں پوچھ رہی ہیں آپ؟‘‘
’’بھابھی میں سوچ رہی ہوں کہ اگر کسی ناول نگار سے اس ناولز کی دیوانی کی شادی کردیں تو جوڑی اچھی رہے گی ،وہ لکھتا جائے گا اوریہ پڑھتی جائے گی۔ کسی کوکوئی پریشانی بھی نہیں ہونی ،مہر بھی خوش مہر کے آس پاس والے بھی خوش ومطمئن ،کیسا آئیڈیا ہے؟‘‘
’’ نہایٹ سستا آئیڈیا ہے۔‘‘ میں نے منہ بسور کر کہا ،بھابھی اس کی بات پر ہنس رہی تھیں۔
’’ تو پھر اس بک شاپ والے کا کیا خیال ہے ،جہاں آج بھاگتے بھاگتے گئی تھی محترمہ ۔پھر تمہیں ناول خریدنے کی ضرورت بھی نہیںپڑے گی ،جتنے چاہے پڑھنا ۔‘‘وہ آنکھ مارتے ہوئے شرارت سے بولی
’’ تم رہنے ہی دو اس بارے میں سوچنا تو اچھی بات ہے۔‘‘ اس کی بات پر مجھے بالکل بھی ہنسی نہیں آرہی تھی
’’ بھئی جیا ! ہماری مہر کو جہان سکندر یا سالار سکندر جیسے کوالٹی کے ہیرو چاہیے ،آپ کہاں ان کو بک سیلراور ناول نگار سے ملا رہی ہیں۔‘‘بھابھی کی بات پر میں شرما سی گئی ویسے میری یہ بھی خواہش ہے اگر جہان ،سالاراور عمر جہانگیر جیسا اگر کوئی نہ بھی ملا تو کوئی ایسا ہو جو میری طرح ہی ناول پڑھتا ہو پھر وہ مجھے روک ٹوک تو نہیں کرئے گا،ورنہ مجھے سب نے بہت ڈرا سا دیا ہوا ہے کہ جب تمہاری شادی ہوجائے گی تو یہ ناول پڑھنے کا بھوت خود بخود ہی اتر جائے گا اور ماما تو اس پر عمل کرنے کا بھی جلد سوچ رہی ہیں وہ تو سب سے پہلے ہی تیار بیٹھی ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ ملے کہ مہر کے ناول کسی طرح چھوٹ جائے۔اففف! اب انھیں میں کیسے بتاؤں کہ میں ناولز سے بے انتہا محبت کرتی ہوں،میں نے نجانے کیا سوچ کیا سوچ رکھا ہے ۔
ہم لوگ نجانے زندگی میں کتنے منصوبے بناتے ہیں۔مگر سب سے بڑا منصوبہ ساز تو خدا ہے جو وہ اپنے بندے کے لیے بہترین چاہتا ہے وہی اس کے نصیب کے پنوں میںلکھ دیتا ہے۔
٭…٭
رات کو ڈنر کے بعد میں تایا جان اور تائی جان کے پاس آئی۔ارحام بخاری سے بدلہ تو لینا تھا نا مجھے۔اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی اسی لیے وہ ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔اور میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ تایا جان اور تائی جان کو اپنے منصوبے کے گھیرے میں لے چکی تھی۔
’’ تائی جان آپ کو نہیں لگتا ارحام کی بھی اب شادی کردینی چاہیے؟‘‘ میں تھوڑی اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے تائی جان سے مخاطب ہوئی۔میری بات کو سن کر ان دونوں میاں بیوی نے مجھے چونک کر دیکھا۔
’’ میں تو اسے کہہ کہہ کر تھک چکی ہوں ،مگر اس کا تو ابھی تک یہی کہنا کہ ابھی اسے وقت چاہیے، نجانے اسے لڑکے اور کتنا وقت چاہیے۔‘‘تائی جان نے سادگی سے جواب دیا۔اور سچ بھی یہی تھا جب بھی وہ کبھی اس معاملے میں اس سے بات کرتیں تو وہ سرے سے میدان سے غائب ہوجاتا تھا
’’تائی جان کیا پتہ کسی کو پسند کرتے ہوںاور آپ کو بتانے میں ججھک رہے ہوں۔‘‘ میں نے ایک نظر تایا پر ڈالتے ہوئے کہا جو کوئی فائل ہاتھ میں پکڑے کسی کیس کی سٹڈی کررہے تھے۔انھوں نے فائل سے نگاہٹا کر میری طرف دیکھا اور میں نے حیرانگی سے میری طرف دیکھتیں تائی جان کے چہرے پر ایک سائے کو محسوس کیا۔
’’ ارے مہر چندا ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ انھوں نے مسکرا کر نفی میں سرہلایا۔
’’ ایسی ہی بات ہے تائی جان ۔‘‘ میں نے پھر آج اس لڑکی کے ساتھ بنائی ارحام کی ساری تصویریں اور ویڈیو دیکھا ئیں۔جس میں اس لڑکی کے ساتھ کافی ہنس ہنس کر باتیں کررہا تھا۔تائی جان تو صحیح معنوں میں پریشان ہوگئی تھیں اور تایا جان خاموش تھے اور میں جانتی تھی وہ اندر ہی اندر اسے گالیوں سے نواز رہے ہوں گے ۔اور اب اس کی خیر نہیں تھی۔
اور میرا دل اندر ہی اندرباغ باغ ہورہا تھا۔اپنے تصور کے پردے میں اسے تایا جان سے ڈانٹ پڑتے دیکھ رہی تھی

٭…٭
میں اپنے کمرے میں بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی، جب وہ کسی افلاطون کی طرح پھٹاک سے دروازہ کھولتا میرے کمرے میں داخل ہوا۔میں ہڑبڑا سی گئی ۔اور ناول کو ایک طرف رکھ کر اس کی طرف بڑھی
’’ یہ کیا طریقہ ہے ،تمہیں ذرا بھی مینرز نہیں ہیں کہ لڑکیوں کے کمرے میں کیسے داخل ہوتے ہیں ؟‘‘
’’ اوووو! تو مہر شاہ ویز کے مینرز کے تو دنیا بھر میں چرچے ہیں نا۔۔۔‘‘ وہ دانت پیس کر میری بات پر طنز کررہا تھا۔اس سے پہلے میں دوبارہ  اپنا منہ کھولتی وہ غصے سے چلا اٹھا۔
’’ تم نے میرے خلاف ماں ،بابا سے کیا بکواس کی ہے بدتمیز لڑکی؟‘‘ وہ آنکھوں میں شعلے لیے مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔اور میں دل ہی دل میں ’’ آل تو جلال آئی بلا ٹال تُو ‘‘ پڑھ رہی تھی۔
’’ میں نے کوئی بکواس نہیں کی۔اور تم میری ساتھ اونچی آواز میں بات مت کرو۔میں نے انھیں وہی بتایا ہے جو سچ ہے سمجھے۔‘‘ میں بہادری کو چولا پہنے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جواب دیا۔میں کوئی ڈرتی تھوڑی تھی اس سے ہاں نہیں تو۔۔۔
’’تمہیں بتاؤں سچ کیا ہے اور کیا نہیں۔‘‘ وہ میرے بازو کو اپنی مضبوط گرفت میں لیتا غصے سے بولا۔مجھے تو لگا جیسے ابھی میری جان نکل جائے گی۔
’’ میرا بازو چھوڑو،تمہیں شرم آنی چاہیے ۔‘‘میں نے بازو اس کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کی ،مگر ناکام
’’ میرے معاملوں سے دور رہو مہر شاویز ورنہ میں تمہارا بہت برا حشر کروں گا۔‘‘ ایک جھٹکے سے میرے بازو کو چھوڑتا ،جس طرح آیا تھا ویسے ہی باہر نکل گیا۔تبھی جیا کمرے میں آئی۔
’’ تمہارا بھائی ایک نمبر کاجاہل، گوار ہے۔یہ جنگلی کسی اینگل سے ڈاکٹر نہیں لگتا،لڑکیوں سے کس انداز میں بات کی جائے اسے تو یہ تک معلوم نہیں ناسنس۔‘‘میں نے بازو کو سہلاتے ہوئے اس کے بھائی کی latest خوبیاں گنوائیں جو میں نے ابھی ابھی دریافت کی تھیں
’’ بکواس بند کو بدتمیز۔ تم نے جو بھائی کے افئیر کے بارے میں جھوٹی افواہ پھیلائی ہے نا ں وہ بھی کوئی سینس کی بات نہیں۔وہ لڑکی جس سے وہ کل ملے تھے وہ بھائی کے دوست کی بیوی تھی اور ان کی کولیگ بھی ،ہم بھی ان سے ملے تھے،مگر تم۔۔۔تم تو وہی کرتی ہو جو تم دیکھتی ہو اور تمہارے دل دماغ میںسما جاتا ہے بس وہی ٹھیک ہے باقی سب گئے بھاڑ میں۔‘‘ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح کافی غصے میں لگ رہی تھی اور اس کی بات پر مجھے لگا شاید وواقعی میں نے کوئی غلطی کردی تھی۔ماما نے بھی اچھی لن طعن کی تو مجھے سخت اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔اور اس کی جگہ خود کو رکھ کر سوچا تھا ۔میرا ضمیر نے کہا کہ مہر تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔اس لئے میرے دل نے فوراً سوری کرنے کی ہامی بھری۔
میں نے تو جیسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی۔۔۔میرا منصوبہ مجھے ہی بھاری پڑگیا۔۔
’’ تم کب سدھرو گی مہر۔۔۔۔؟‘‘ماما بہت غصے میں تھیں۔’’ کبھی تو مجھے سکون کا سانس لینے دیا کرو۔کیوں ہر جگہ ہماری بے عزتی کرواتی رہتی ہو؟‘‘
’’ ماما اتنی بھی کوئی بڑی بات نہیں ہوئی جو آپ۔۔۔۔‘‘
’’ چپ کرؤ! خدا کا واسطہ ہے اپنی یہ قینچی کی طرح تیز تیز چلتی زبان کو لگام دو۔یہی ساری فساد کی جڑ ہے۔‘‘ ماما کے لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ مجھ سے عاجز آچکی تھیں۔
’’ آئم سوری ماما! میری پیاری ماما مجھے معاف کردیں ،گاڈ پرامس آئندہ ایسا کچھ بھی نہیں کروں گی۔‘‘ میں نے ان کے گرد بازوں حمائل کرتے ہوئے پیار سے کہا تو انھوں نے میرا پیار فوراً جھٹک دیا۔
’’ یہ معافی جا کر ارحام سے مانگو،مجھ سے نہیں۔وہ کتنا ہرٹ ہوا ہے تم جانتی ہو،تمہارے جھوٹ کی وجہ سے اس کے والدین نے اسے شکی نگاہوں سے دیکھا،کتنی سبکی ہوئی ہو گی ،اس بات کا تمہیں ذرا بھی اندازہ ہے۔‘‘کسی طور بھی ان کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
’’ میری بات دھیان سے سنو مہر! آیندہ اگر تم نے ایسی کوئی حرکت کی تو میں تمہارے ساری کتابیں ،سارے ناولوں کو آگ لگا کر جلا دوں گی،دوسری بات یہ کہ تمہیں ارحام سے معافی مانگنی ہوگی ورنہ میری شکل نہیں تم دیکھو گی۔‘‘ وہ درشتی سے مجھے دھمکی دے کر چلی گئیں ۔میں نے افسوس کے ساتھ منہ بسورا۔میری ماما تو ہردم میرے ناول جلانے،راکھ کرنے کے دم پر ہی رہتی تھیں کہ کب انھیں میری ایسی غلطی ملے جس  بنا پر وہ میرے ناولوں کو مجھ سے جدا کردیں۔اب کرتے ناکرتے کے مصداق میں اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔میں اس سے کبھی معافی نہ مانگتی اگر ماما نے اس قدر سخت انداز میں نہ کہا ہوتا۔
وہ صوفے پر بیٹھا،سینٹر ٹیبل پر پیر پھیلائے گود میں لیپ ٹاپ رکھے وہ کسی کام میں مصروف تھا۔میں نے اسے انہماک سے کام کرتے دیکھ کر گلا کھنکھارا۔اس نے ذرا سا چونک کر مجھے دیکھا۔پھر مجھے نظر انداز کرتا دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔جیسے وہ کسی ریاست کا بادشاہ ہو اور سامنے کسی غریب رعایا کو دیکھ کر اسے کوئی فرق نہ پڑا ہو،اس کے اس رویے سے میں غصے سے تلملا کر رہ گئی۔
’’ ارحام ۔۔۔‘‘میں غصے کو ضبط کرتی بمشکل بولی۔
’’ ہوں۔۔‘‘ بادشاہ غرور سے بولا
’’ ایم سوری۔‘‘ میری بات پر اس نے حیرت سے اوپر دیکھا،جیسے میرے سر پر کوئی سینگ نکل آیا تھاجو اتنا حیران ہو رہا تھا۔اسے یقین نہیں آرہا تھا شایدکہ میں اس سے سوری کررہی ہوں۔آتا بھی کیسے میں نے کبھی بڑی سی بڑی غلطی پر بھی اس سے سوری نہیں کہا تھا۔یہ بھی اگر مما مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اس سے سوری نہ کرتی۔
’’ ویسے تم نے کام معافی والا کیا تو نہیں مہر شاویز،لیکن اگر تم اس قدر بے چاری سی شکل بنا کر آئی ہو تو تمہیں خالی ہاتھ لوٹایا نہیں جاسکتا ۔‘‘ وہ وہ مہربان بادشاہ کی مانند گویا غریب رعایا پر کوئی عظیم احسان کررہا تھا۔میں نے غصے سے اس مغرور بادشا ہ کو دیکھا اور اس کے کمرے سے باہر نکل کر ایسے دم لیا جیسے اندر میرے لیے آکسیجن کی نہایت کمی سی ہوگئی تھی۔
٭…٭
میں نے ارسلہ اور انعمتہ کے ساتھ ہی بے اے میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھی ۔اور میری زندگی میں تو ہلچل ۔۔۔نہیں ہلچل نہیں بلکہ میری خوبصورت خوابوں بھری زندگی خوفناک زلزلے کی زد میں آگئی۔میں جوچاچو کے پاس کسی کام سے جارہی تھی جب میری گناہ گار سماعت سے تایا اور تائی جان کی آواز ٹکرائی۔
’’ بیگم! میں نے شاویز سے بات کرلی ہے ۔اب وہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں۔مجھے مہر ارحام کے لیے بہت پسند ہے۔‘‘یہ تایا جان تھے جو کسی دھونس جمانے والے کی طرح بات کررہے تھے۔
’’اس میں کوئی شک نہیں مہر مجھے بھی بہت عزیز۔مگر آپ یہ بھی تو دیکھیں نا کہ مہر کتنی نٹ کھٹ مزاج کی ہے اور ارحام سنجیدہ اورپرسکون ماحول کا عادی کیسے ان دونوں کا گزارہ ہوگا؟‘‘ تائی جان متفکر بھرے انداز میں بولیں۔
’’ مہر ابھی بچی ہے جب شادی جیسی ذمہ داری کندھوں پر پڑے گی تو وہ ٹھیک ہوجائے گی ۔‘‘ تایا جان اپنے نقطے سے ایک انچ بھی ہلنے والے نہیں لگ رہے تھے اور ان کی باتوں سے تو میں چکرا کررہ گئی۔میں چپ چاپ اپنے کمرے میں آگئی۔بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔بھلا وہ ایسے کیسے سوچ سکتے ہیں میرے اور اس کے بارے میں ۔اففف! دل تو میرا کررہا تھا میں اونچی اونچی آواز میں چیخوں اور کہوں کہ نہیں ایسا مر کر بھی نہیں ہوسکتا ۔میں مہر شاویز اپنے ہوش و حواص میں ارحام سے شادی کرنے سے انکار کرتی ہوں۔میرے دل میں ارحام کے لیے تو مزید غصہ اور نفرت بڑھ گئی
٭…٭
اگلے دن میںنے بیچاری سی صورت بنا کر ارسلہ اور انعمتہ کوساری کہانی بتائی تو وہ نہایت پرجوش سے خوشی کا اظہار کرنے لگیں میں نے حیرانی سے انھیں دیکھا۔
’’ ایک بات تو بتاؤ میں تم دونوں کی دوست ہوں یا دشمن جو اتنا خوش ہو رہی ہو اس بات پر؟‘‘ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا تو وہ ہنس دیں
’’ ظاہر سی بات ہے تمہاری دوستیں ہیں ۔اسی لیے تمہیں اتنا اچھا ہم سفر ملنے پر ہم خوش ہورہے ہیں۔‘‘
’’ اچھا۔۔۔میں متعجب سا چلائی۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ ارحام کہاں سے ،کیسے اچھا ہوا؟۔ ’’ وہ کسی اینگل سے بھی اچھا نہیں ہے ارسلہ۔وہ میرا دشمن ہے۔مجھے وہ زہر لگتا ہے قسم سے۔‘‘ میں رونے کو تھی انھیں یہ یقین دلاتے دلاتے کہ ارحام بخاری مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا
’’وہی تو ہر اینگل سے اچھے ہیں تمہارے لئے مہر۔تم کبھی غور سے دیکھو وہ بالکل تمہارے ناولز کے ہیرو جیسے ہیں۔‘‘ انعمتہ چہک کر بولی اور میرا دل نہیں نہیں کی تکرار کررہا تھا
’’ اگر تم دشمنی اور نفر ت کی عینک اتار کر ارحام بھائی کو دیکھو گی تو ان میں تمہیں بالکل ہیرو جیسے لک آئے گی۔اور پھر دشمن کی بجائے جانم ہوجائیں گے،زہر کی جگہ شہد لگنے لگیں گے۔‘‘ ارسلہ ر سان سے مجھے سمجھا رہی تھی ۔
’’ ویسے تم دونوں مجھے اپنا دوست کہتی ہو اور ارحام اتنا پسند بھی ہے تو تم دونوں میں سے کروا لے ناں کوئی اس سے شادی اگر اتنی ہی تم فلیٹ ہوگئی ہوتو۔‘‘
’’ چچ ۔۔چچ اگر یہ آفر تم ہمیں پہلے کرتی تو یقینا ہم منع نہ کرتی۔اب تو ہم انھیں تمہارے حوالے سے بھائی بنا چکے ہیں۔‘‘ ارسلہ تاسف سے بولی۔
’’ ہاں تو اور کیا۔ویسے بھی تمہارے تایا جان نے اپنے شہزادے بیٹے کے لئے تمہیں پسند کر لیا ہے تو ہماری دال کہاں گلے گی ۔‘‘ انعمتہ کو بھی کافی افسوس ہورہا تھا ور سب سے بڑا افسوس مجھے ہورہا تھا جس کی قسمت اس اکڑو انسان سے پھوٹی جارہی تھی۔میرا دل دھاڑے مار مار کر رورہا تھا۔
٭…٭
جاری ہے

#ناولز کی دیوانیDonde viven las historias. Descúbrelo ahora