Episode 1

381 34 10
                                    

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
*عید ملن*
از لائبہ صدیق
Episode 1

آدھی رات کا وقت تھا۔ کہیں کہیں اسٹریٹ لائٹس آن تھیں۔اس اندھیرے میں وہ اندھا دھند بھاگتی چلی جارہی تھی۔ اپنے انجام سے بے خبر ۔اسے پتہ تھا تو بس اتنا کہ اس کو اپنے وجود میں پلتی ننھی جان کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینی ہے۔وہ ایک لمحے کو رکی۔ ایک بار پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔وہ ابھی بھی اس کے پیچھے آرہے تھے۔ اس کا سانس پھول رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ کپڑے دھول مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ چہرہ گرد آلود تھا۔ بدن پر جابجا خراشیں تھیں۔ لیکن اسے اپنا وعدہ پورا کرنا تھا۔ اپنی تکلیف کو بھلا کر اس نے پھر سے بھاگنا شروع کیا۔ بھاگتے ہوئے اس کے پاؤں سے چپل بھی اتر گئی لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ رک کر اسے دوبارہ پہنتی۔اس نے اپنی رفتار تیز کردی۔اب اس کے آگے دو راستے تھے:ایک دائیں طرف کو مڑتا تھا اور دوسرا سیدھا جا رہا تھا۔ اس نے لمحہ ضائع کئے بغیر سیدھا بھاگنا شروع کیا۔ چند لمحوں بعد اس کے سامنے کھلا میدان تھا جو کنٹینرز سے بھرا ہوا تھا۔ جا بجا کنٹینرز بکھرے پڑے تھے. اس کے دماغ نےتیزی سے کام کیا۔ "Whenever you are in any problem and I am not with you, just remember that ALLAH resides in your heart. He is closer to you than the jugular vein, trust Him and He will keep you safe."      
اسکے کانوں میں آواز گونجی.              
اس نے گہری سانس لی۔۔۔ اپنے کندھے سے لٹکتے بیگ کی موجودگی کا یقین کیا اور مختلف کنٹینرز کے پاس سے گزرتی ہوئی بالآخر وہ جہازوں تک پہنچ گئ۔ اس نے ان تمام میں سے ایک جہاز کا انتخاب کیا۔ وہ ڈبل ڈیکر تھا۔ اس کے ڈیک پر روشنی تھی۔ چھپتے چھپاتے وہ جہاز کی بیسمنٹ میں چلی گئی۔ وہاں مکمل اندھیرا تھا۔ دیواروں کا سہارا لیتے ہوئے وہ ایک کمرے میں داخل ہوگئ۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے بیڈ پر اپنا پرس رکھا اور اپنے آئندہ مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی۔                         ¤¤¤¤¤¤¤¤
''اووۓےےے!! مل گئی!!'' اس نے ہاتھ ہلا کر 
   اسے اپنی طرف بلایا۔ ''صد شکر!! پتا نہیں کب سے میں تیرے ساتھ خوار ہو رہی اس بک کے لئے جو تجھے باآسانی انٹرنیٹ پر مل سکتی تھی۔'' عنایہ نے اس کی طرف آتے ہوئے منہ بنا کر کہا۔ ''یار میں تیرے علاوہ کسی اور کو خوار کرنا بھی نہیں چاہتی۔'' اس نے عنایہ کو آنکھ ماری۔''اور تجھے پتا تو ہے مجھ سے موبائل پر نہیں پڑھا  جاتا....'' اس نے کندھے سے اپنا پرس اتارا اور اسے    کھنگالنا شروع کیا۔ 'میرا دل تو کر رہا ہے کہ ایک مکا  مار کر تیرا منہ توڑ دوں لیکن یہ چونکہ ہمارا گھر نہیں بک شاپ ہے اسی لیے میں انتہائی مہذب انداز میں تجھ سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہوں کہ اب یہاں سے دفع ہوتے ہیں۔'' عنایہ نے اس کے آگے واقعی ہاتھ جوڑ دیئے۔ ''چل یار تو بھی کیا یاد کرے گی کس سخی سے پالا پڑا تھا میں ابھی پیمنٹ کر کے آئی!!'' اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔ ''آئی بڑی سخی۔۔۔۔۔جلدی پے کرکے آ پھر چلیں۔'' اس نے آیت کو باقاعدہ کاؤنٹر کی طرف دھکیلا۔پیمنٹ کرنے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے شاپ سے نکلیں جب آیت سامنے کھڑے ایک لڑکے سے ٹکراگئی ۔وائٹ شرٹ اور بلیو پینٹ میں ملبوس وہ لڑکا امریکن لگتا تھا ۔سبز آنکھیں ماتھے پر بکھرے بال۔۔۔۔ وہ واقعی بہت خوبصورت تھا۔ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے ہاتھ سےفون کو کان سے لگائے وہ کسی سے باتیں کرنے میں مصروف تھا ۔ غلطی سراسر آیت کی تھی لیکن پھر بھی وہ عادت سے مجبور اسے سنانے سے نہ چوکی۔'' اندھا کہیں کا!!'' وہ جوابا مسکرا دیا ۔ ''اوئے ے ے۔۔ وہ امریکی ہے اسے کہاں اردو آتی ہوگی۔۔۔ چھوڑ       بیچاراگھومنے آیا ہوگا ہمارا ایبٹ آباد''۔عنایہ نے اسے کہنی مار کر کہا۔ اس لڑکے کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی اور وہ باتیں کرتی ہوئی وہاں سے دور ہوتی گئیں۔
                              ¤¤¤¤¤¤¤
"Yes, how can I help you ma'am?"        اس نے بمشکل اس پر سے اپنی نظر ہٹائی۔ وہ تھی ہی اتنی حسین۔ لمبے براؤن بال بڑی بڑی خوبصورت سبز آنکھیں گوری رنگت سرخ یاقوتی ہونٹ۔۔۔ وہ اسے سیدھی اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی اور محبت کا کیا ہے وہ تو کسی سے بھی کہیں بھی کبھی بھی ہو جاتی ہے ۔۔۔رائل بلیو لونگ فراک اور اس کے اوپر وائٹ جیکٹ۔۔ مضطرب انداز میں وہ انگلیاں چٹخاتی اس کے پورے آفس کا جائزہ لے رہی تھی۔وہ ایک پراعتماد لڑکی تھی لیکن سامنے والے
کے دیکھنے کا انداز ایسا تھا جو اسے نروس کر رہا تھا۔اس نے گہرے سانس لے کر خود کو کمپوز کیا-
"I want to be a detective. "
اب کے پراعتماد لہجے میں کہا گیا-
"Ooooo....I see....."
اس نے مسکراہٹ دبائی-
"Even then, how can I help you ma'am??"
اس نے"I" پر قدر زور دیا-
"Aren't you a detective? I came here so that you would train me..."

عید ملن (COMPLETED)Where stories live. Discover now